┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


بلی 🐈
از سلمی سید

قسط 8 ( آخری )

 ہم نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر میں وہ چیلیں کرلانے لگیں اور ان کے پر ٹوٹ ٹوٹ کر جھڑنے لگے ۔۔ وہ اب ننگے جسم لئے ایک دوسرے کو نو چنے لگیں ۔۔۔ ان کے جسموں سے سیاہ رنگ کا سیال مادہ بہہ رہا تھا اور آوازیں کانوں کو چیرتی محسوس ہورہی تھی۔۔

وہ اسی طرح ایک دوسرے کو نوچتے نوچتے ہلاک ہوئیں اور جگہ جگہ بدبودار گوشت کے لوتھڑوں میں تبدیل ہوگئیں ۔۔ یہ تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ناقابلِ یقین تھے ۔۔

ابایومی کا ہر وار خالی جارہا تھا اور اس کے غیض و غضب میں تیزی آرہی تھی لگ یوں رہا تھا کہ وہ بھرپور مقابلہ کرنے کے ارادے سے آئی ہے کیونکہ وہ بھی جانتی تھی آج ناکامی کا کیا انجام ہونا ہے اور وقت مزید اس کے پاس نہیں تھا ۔۔۔

وقت تو ہمارے پاس بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ لاپرواہی زرا بھی ہوتی تو اس کے قہر کے نشانے پر اب صرف زیبا ہی نہیں ہم سب بھی تھے ۔۔ شاہ صاحب اب تک بہت عمدگی سے ڈٹے ہوئے تھے اور ابایومی مستقل اپنے جادو اور شیطانی عملیات کے ذریعے تابع کئے شیطانوں کو مقابلے کے لیے لا رہی تھی۔ یہ تھے تو شیطان مگر جانور کے روپ میں ان کی فطری جبلت شکار اور خوراک ان پر غالب آجاتی اور اس کا علم شاہ صاحب کو پہلے ہی ہوگا ۔۔ جب ہی انھوں نے یہ پکوان ان کے لئے رکھے تھے ۔۔۔

ابایومی ہر گوشت کے لوتھڑے کو سونگھتی اور اپنی شکست کے ماتم میں منحوس بین کرتی ۔۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ ہر پرندہ جھلس چکا ہے تو اس نے نیا وار کیا اور زمین پر چت لیٹ گئی ۔۔ اپنے ہاتھ پاؤں آسمان کی طرف کئے اور اپنا منہ موڑ کر ہماری جانب پھنکارنے لگی ۔۔اس کے اس عمل پر اطراف دھول کا چکر سا بننے لگا اور یہ چکر آسمان تک بلند ہوتا نظر آرہا تھا۔۔۔

اسی اثناء میں شاہ جی کے چھوٹے بھائی نے ہمارے گرد ایک اور حصار چونے کے تھال سے کھینچ لیا ۔۔۔ دور دور تک دھول اڑ رہی تھی مگر مجھے ایسا لگتا تھا کہ ہم کسی شیشے کی بال میں بیٹھے یہ مناظر دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ دھول ہم تک نہیں پہنچ سکی۔۔۔ اچانک کتوں کی سی آوازیں آنے لگیں جیسے کئی کتے ایک ساتھ بھونک رہے ہوں ۔۔۔ دھول چھٹی تو حصار سے باہر کتے یا بھیڑیئے نما انسانوں کا ایک قافلہ تھا ۔۔ 

وہ کتے رال ٹپکاتے حصار کے اطراف ٹہلنے لگے دم خشک ہورہا تھا کہ پتا نہیں یہ کب جھپٹ پڑیں اور ہمیں چیر پھاڑ دیں مگر دل میں اللہ پر یقین اور شاہ جی پر بھروسہ تھا ورنہ ان عفریتوں کے درمیان بیٹھنا اور اتنے نزدیک سے دیکھنے پر ہی حرکتِ قلب بند ہو سکتی تھی۔۔ ان کی خونخوار آنکھیں لمبے دانت اور کریہہ صورتیں ۔۔ منہ سے بہتی رال ۔۔۔ بے حد خوفناک منظر تھا ۔۔

شاہ جی نے بھائی کو اشارہ کیا اور انھوں نے گوشت کے پارچوں پر ایک بوتل انڈیلنی شروع کی ۔۔۔ یہ خون کی بوتل تھی ۔۔۔ خون میں لت پت پارچے ۔۔ اب انھوں نے یہ اٹھا کر دور جھاڑیوں میں پھینکنے شروع کئے ۔۔۔ اور نتیجہ شاہ جی کی سوچ کے عین مطابق رہا ۔۔۔ تمام کتے تازہ خون اور گوشت کی مہک پر لپکے اور ان پارچوں کو بھنبھوڑنے لگے ۔۔ کان پڑی آواز نہیں آرہی تھی ۔۔۔ 

ابایومی ایک ایک کتے پر حملہ کرنے لگی ... وہ چاہتی تھی کتے راتب سے دور ہو جائیں کیونکہ یہ راتب ان کی موت ثابت ہوتا ۔۔۔ مگر وہ کتنوں کو روکتی اور ایک کتا چھوڑتا تو دوسرا بھنبھوڑتا بالآخر کتوں کا گھمسان تھما تو ان کے منہ سے رال کی جگہ خون ٹپکنے لگا یعنی اب کتوں کو بھی اپنی پڑ گئی تھی ۔۔۔ کھایا ہوا گوشت کِلا ہوا تھا اور اس پر عمل بھی کیا گیا تھا ۔۔ ان کی سرخ آنکھیں باہر نکل آئیں لگتا تھا کہ کوئی ان کا گلہ دبا رہا ہے ۔۔ کتوں کے حلق سے آواز نکلنا بند ہو گئی اور ان کی آنکھیں زمین پر گر پڑیں ۔۔

کتے زمین کے ساتھ اپنے جسموں کو رگڑنے لگے جیسے انھیں شدید خارش ہو رہی ہے اور نظر نہ آنے کی وجہ سے بد حواس ہو کر دوڑنے لگے ۔۔۔ اس وقت میری روح فنا ہوگئی جب یہ قد آدم کتے میں نے اپنی طرف لپکتے دیکھے آغا جانی اور وجاہت بھی دہشت زدہ تھے ۔۔ آغا جانی کی چیخیں بلند ہونے لگیں اور ہم ممکنہ خطرے کے پیش نظر اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔

مگر حیرت انگیز طور پر جیسے ہی ایک کتے کا پیر حصار پر پڑا وہ راکھ میں تبدیل ہو کر ہوا میں تحلیل ہوگیا ہم دم بخود کھڑے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے ۔۔ جیسے جیسے کتے اتفاقیہ طور پر حصار کے نزدیک آتے ان کا یہ ہی حشر ہوتا ۔۔۔ میری نظر ابایومی پر پڑی ۔۔۔ پتا نہیں کیوں اس وقت وہ بہت چھوٹی نظر آئی ۔۔ یا شائد یہ میرا وہم تھا ۔۔

مگر اس کے جسم پر اب وہ لبادہ نہیں تھا اور سارا جسم سیاہ بالوں سے ڈھکا تھا ۔۔۔ کتوں کی یہ درگت بنتی وہ بھی دیکھ رہی تھی مگر لگتا تھا کہ اب وہ اگلے وار کی تیاری کر رہی ہے ۔۔۔

لیکن اگلے ہی لمحے وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو چکی تھی ۔۔ میں نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔ شکر وہ غارت ہوئی ۔۔۔ سب قدرے مطمئن تھے ایمبولینس کے دائیں طرف سے زیبا ہماری طرف آتی نظر آئی ۔۔

آغا جانی ۔۔۔ 
بھائی جان ۔۔۔ 
مجھے سہارا دیں ۔۔۔ 
میں گر جاؤں گی ۔۔۔ 
میری مدد کریں ۔۔ 

وجاہت بے اختیار بہن کی طرف بڑھے مگر ایک تھال اڑتا ہوا آیا اور ان کے گھٹنے سے لگا وہ وہیں کراہ کے منہ کے بل گر پڑے ۔۔ تھال شاہ جی نے کھینچ مارا تھا جس کا واضح اشارہ حصار سے باہر نہ نکلنا تھا مگر زیبی مستقل رو رہی تھی پکار رہی تھی۔۔ بلارہی تھی ۔۔ وجاہت پھر اٹھے مگر اس بار شاہ جی کے بھائی نے وجاہت کو جکڑ لیا ۔۔۔ وجاہت بہت مزاحمت کر رہے تھے اور آغا جانی رو رہی تھی ۔۔۔ 

ارے چھوڑ دو میرے بچوں کو ۔۔ 
چھوڑ دو میرے وجاہت کو۔۔۔

آغا جانی زیبی کی مدد کے لئے آگے بڑھنے لگیں ۔۔۔ شاہ جی نے انگارہ ہوتی نظروں سے مجھے دیکھا ۔۔میں سمجھ گیا مجھے کیا کرنا ہے ۔۔ میں لپک کر آغا جانی کے آگے آگیا اور انھیں روکنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔ آغا جانی غمزدہ مجھ سے منت کرنے لگیں ۔۔۔۔

بیٹا میری زیبی کو بچا لو مجھے جانے دو۔۔۔
یہ جانور اسے پھاڑ کھائیں گے ۔۔۔
شاہ جی رحم کریں ہمارے حال پر ۔۔

شاہ جی کے بھائی چلائے ۔۔۔ 
یہ زیبا نہیں ہے ۔۔۔
 یہ دھوکہ ہے ۔۔۔
یہ سازش ہے اس مکار کی ۔۔۔
حصار توڑنا چاہتی ہے یہ ۔۔۔
تاکہ ہم پر غالب آجائے ۔۔
بے وقوفی مت کریں ۔۔۔
زیبی خیریت سے ہے ایمبولینس میں۔ ۔
شاہ جی نے حصار کیا ہوا ہے ۔۔
وہ زیبی تک نہیں پہنچ سکتی ۔۔ 
آپ لوگ عمل خراب نہ کریں ورنہ زیبا کی جان کو خطرہ ہے ۔۔۔

اففففف یہ سن کر سب اپنی جگہ ساکت ہوگئے ۔۔۔ اور ابایومی جو زیبا کی شکل میں ہم پر ظاہر ہوئی تھی اب زمین سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ بے انتہا غصہ ۔۔۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلتی محسوس ہورہیں تھیں ۔۔۔

وہ ہو بہو زیبا تھی ان شیطانی طاقتوں کی مدد سے وہ کیا کیا کھیل ہمیں دکھا رہی تھی ۔۔ مگر ہر وار خالی جا رہا تھا اب اس نے نیا داؤ کھیلا اور اپنی پوری قوم کو دعوت دی ۔۔ وہ اب بھی زیبی کی شکل میں ہمارے اطراف گھوم رہی تھی اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سب کو تہس نہس کر ڈالے۔۔۔

اس کے پاس شائد یہ آخری حربہ تھا اور اس طرح کی مخلوقات انسانی فطرتوں بھی آگاہ ہوتی ہیں وہ ہمارا اور شاہ جی کا دھیان بہکانے کی ہر ممکن کوشش کر چکی تھی ۔۔۔ اس کے شیطانی عملیات میں اب اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ شاہ جی کا مزید مقابلہ کرتی ۔۔۔

وہ زمین پر ہاتھ مارتی اور اپنے سینے پر ۔۔ اس کے ہاتھ مارنے سے اس کے جسم پر موجود اسپتال کے گاؤن کے ٹکڑے اڑنے لگے ۔۔۔ یہ اسکا آخری حملہ تھا جو ہم سمیت شاہ جی کے نفس پر تھا ۔۔۔ مسلسل اپنے جسم پر ہاتھ مارتی جاتی اور منتر پڑھتی جاتی اس کی بکواس سمجھ سے باہر تھی مگر بہت وحشت ناک تھی ۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے جسم پر کوئی کپڑا باقی نہ رہا اور ایک ساتھ بہت سی بلیوں کی آوازیں آنی شروع ہوگئیں۔۔۔

یہ روح فرسا منظر اس وقت بھی میری آنکھوں میں گھوم رہا ہے ... کیونکہ وہ زیبا کے روپ میں تھی تو مجسم عورت تھی اور اس کا اس طرح بے پردہ ہوجانا وجاہت اور آغا جانی کے لیے بے حد تکلیف کا باعث تھا ۔۔ وہ شیطان تھی مگر شاہ جی کے عملیات کے آگے اس کی ایک نہ چلی تو وہ ان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ شاہ جی اس کے ظاہری جسم سے متاثر ہو کر عمل سے بہک جائیں اور وہ وار کر سکے ۔۔۔۔
 
آغا جانی وجاہت کے سینے میں منہ چھپائے سسک رہیں تھیں اور وجاہت آنکھیں بھینچے ورد کئے جارہے تھے شاہ جی کے چھوٹے بھائی نے کہا کہ اس کی طرف مت دیکھو ۔۔ زمین دیکھو اور بس اذکار سے زبان تر رکھو ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں دعوت کا فسوں ہے تمھارے قدم آپ ہی آپ اس کی طرف بڑھنے لگیں گے یہ تم میں سے کسی کو بھی مہرہ بنا کر عمل روکنا چاہتی ہے ۔۔۔

وہ اس برہنہ حالت میں حصار کے گرد ناچ رہی تھی اور حتی الامکان اس کوشش میں تھی کہ ہم میں سے کوئی اسے دیکھے ۔۔ یہ وار شاہ جی کے نفس پر تھا مگر شاہ جی نفس کے غلام نہ تھے ۔۔۔ غصے کی وجہ تھی یا جلال شاہ جی کا چہرہ تپ کے سرخ ہورہا تھا ۔۔ اور تسبیح کے دانے مستقل حرکت میں تھے ۔۔۔

ابا یومی کے اس ناچ کے دوران سینکڑوں غلام بلییاں آن موجود ہوئیں اور اس ناچ میں اس کا ساتھ دینے لگیں ۔۔۔ کچھ انسانی شکل میں بھی موجود تھیں جو ابایومی کی طرح ہی لباس سے آزاد تھیں اور حصار کے گرد انتہائی بیہودہ حرکات میں مصروف تھیں ۔۔۔

کچھ بلییوں کی شکل میں حصار کے نزدیک آنے لگیں اور حصار پر موجود دودھ کے پیالوں میں منہ ڈال کر بیٹھ گئیں ۔۔۔ ابا یومی اور اس کے غلاموں کے اس وحشت ناک ناچ میں تیزی آگئی اور ان کے بین ان کی غراہٹوں سے فضا گونجنے لگی ۔۔۔

وہ تمام بلییاں جو دودھ پی چکیں تھیں ان کا رخ اب ابایومی کے لشکر کی طرف تھا وہ بلییاں ان برہنہ غلاموں پر جھپٹ پڑیں ۔۔ شائد دودھ کی تاثیر تھی کہ وہ اب شاہ جی کے تابع ہو گئیں تھی۔۔۔ اس کی اپنی قوم اس پر حملہ آور تھی ۔۔۔

عجیب صورتحال تھی ۔۔۔تمام غلام بلییاں اب شاہ جی کے تابع اور مددگار ہو گئیں۔۔۔ ان بلییوں اور برہنہ غلاموں کی جنگ جاری تھی بلییاں عورتوں کے جسموں پر لپک رہیں تھیں ۔۔ اور وہ ارواح بد بلییوں کے حملے سے بچاؤ کے لئے چیختی چلاتی خود کو بچاتی ہمارے چاروں طرف دوڑ رہیں تھیں ۔۔

کچھ بلییاں ابایومی کے جسم سے چپکی اسے نوچ کھسوٹ رہیں تھیں اور تھوڑی ہی دیر پہلے حسن اور بیہودگی کے پیکر اب بد صورت زخمی گنجی بھوتنییوں میں بدل چکے تھے ۔۔۔ یہ ایسا منظر تھا کہ آج بھی بھلائے نہیں بھولتا ۔۔۔

شاہ جی کی برداشت اب جواب دینے لگی تھی اور ابایومی زخمی حالت میں بلییوں سے نبردآزما تھی ۔۔۔ شاہ جی کھڑے ہوئے تسبیح رکھی اور پاس پڑے پانی کے گیلن پر پھونکیں ماریں ۔۔۔ شاہ جی کے چھوٹے بھائی نے وہ گیلن سنبھالا اور اس میں سے ایک کٹورہ بھر کے شاہ جی کو پیش کیا ۔۔۔ اب شاہ جی تیز آواز میں عمل پڑھ رہے تھے ۔ ۔۔ اور ان منحوس کی آواز اذکار کی آواز میں دب گئی تھی ۔۔۔

تمام غلام بد ارواحیں زمین پر پڑی تڑپ رہیں تھیں اور ابایومی غصے میں حملہ آور بلییوں سے جان چھڑانے کی کوشش میں لگی تھی ۔۔۔ شاہ جی ہم سب کو گھور کر حصار کو توڑتے ہوئے آگے بڑے اور بد ارواحوں کے زخمی وجود پر پانی چھڑکتے آگے بڑھے ۔۔۔ انکے جسم پانی پڑنے سے موم کی طرح پگھل کر بہہ رہے تھے ان سے دھواں اٹھتا محسوس ہوتا تھا۔۔۔

تمام پر پانی چھڑکنے کے بعد شاہ جی ابایومی کی طرف بڑھے تمام بلییاں دور ہٹ گئیں ۔۔۔ ابایومی زخمی زمین پر لوٹ رہی تھی جیسے اسے جلتے توے پر لٹایا گیا ہو ۔۔۔ شاہ جی نے دونوں ہاتھ بلند کئے تو ہمارے پاس جھاڑیوں میں ہلچل پیدا ہوئی اور ان جھاڑیوں سے کانٹے دار چھالوں سے بنی رسیاں خوبخود چلتی ہوئی ابایومی کی طرف بڑھنے لگیں اور اس کا جسم اب ان خاردار رسیوں میں جکڑا ہوا تھا ۔۔۔

 رسیاں مستقل اس کے جسم پر کستی جارہی تھی اور وہ کانٹے ابا یومی کے جسم میں پیوست ہوچکے تھے اب وہ درد سے کراہ رہی تھی ۔۔۔ شاہ جی نے پانی اس پر چھڑکا اور اب اس نے بلی کی شکل اختیار کرلی تھی ۔۔۔ کالی منحوس زخمی بلی۔۔۔۔

شاہ جی کے ہونٹ حرکت میں تھے پانی کے چھینٹوں سے یوں سمجھیں کہ اسے آگ لگ رہی تھی ۔۔۔ اس نے بولنا شروع کیا ۔۔۔ وہی نامانوس بکواس ۔۔۔
 
شاہ جی نے عمل نہ روکا ۔۔۔ وہ کہنے لگی ۔۔۔ مجھے چھوڑ دو ۔۔ مجھے جانے دو ۔۔ مجھے معاف کردو ۔۔ میں باز آئی ۔۔

شاہ جی مسکرائے ۔۔۔ 

ارے واہ تو تو ہماری زبان پر اتر آئی ۔۔ اتنا نیچے کیسے آنا ہوا دیوی جی ؟ 
آپ تو پوجا کے لائق ہیں ۔۔۔ بس اتنی ہی رعایا تھی یا اور ہیں ؟ 
بلا سارے لگتے سگتوں کو ہم بھی دیکھیں تیرے چڑیا گھر میں کتنے بندر ہیں ۔۔۔

دیکھ عالم ۔۔ میری تیری کوئی دشمنی نہیں ہے مجھے اذیت سے نکال ۔۔۔ مجھے صرف اس لڑکی کا جسم درکار تھا اور اب میں اس سے بھی دستبردار ہوتی ہوں ۔۔ مجھے نکال اذیت سے آزاد کر ۔۔ مجھے معاف کر ۔۔

معاف کروں ؟ جانتی بھی ہے معافی ؟ لڑکی کے باپ کو معاف کردیا تھا تو نے ؟ کیا کیا تھا اس نے ؟؟

لڑکی کے خاوند کو بخشا تو نے ؟؟ کیا بگاڑا تھا اس جوان نے تیرا ؟؟ 

تو نے معاف کیا اس خاندان کو ؟ اپنی ہوس اور شیطانیت میں بچی کی زندگی خاندان سب برباد کردیا اور تو جو اب اس اذیت میں نہ ہوتی تو کیا میری درخواست پر معاف کر دیتی ان بے قصور لوگوں کو؟؟ آئی بڑی معافی کی طلب گار۔۔

یہ بارات لے کر تو معافی مانگنے آئی تھی ؟

درکار ۔۔ دستبردار ۔۔۔ واہ مولوی عبد الحق بابائے اردو۔۔۔ تیری جیسی مکار اور دھوکے باز سے مجھے خیر کی امید نہیں۔۔ تو جانتی ہے میں تا حیات تجھے اسی کیفیت میں رکھ سکتا ہوں ۔۔ بہتر یہ ہی ہے کہ اپنے وجود کو چھوڑ کے کر میری تحویل میں آ ۔۔ ورنہ میں تو اب نہیں رکنے والا پھر ۔۔۔ سوچ سمجھ لے ۔۔۔ ہفتہ بھر کافی ہے یا اور وقت لے گی ؟؟

مجھے وقت دو ۔۔

ہاں تیرا نکاح پڑھوارہے ہیں ہم ۔۔ 
تجھے فیصلہ کرنے کے لئے وقت دیں ۔۔  
دو منٹ کے اندر بک ورنہ انجام سے باخبر ہے تو۔۔۔ 

ابایومی خاموش رہی۔۔ شاہ جی نے پانی کا کٹورہ اٹھایا اور قرآنی آیات کا ورد شروع کیا ۔۔۔ ہر چھینٹے پر ابایومی کے بدن پر آبلے پڑنے لگے اور اس کی کھال جھلس کر بہنے لگی ۔۔ اس کی چیخ و پکار سے ساتھ شاہ جی کے اذکار۔۔۔ دوسری کوئی آواز کانوں میں نہیں۔ آرہی تھی ۔۔ ہم سن بیٹھے یہ مذاکرات دیکھ رہے تھے۔۔۔

بے حد ڈھیٹ تھی وہ ۔۔ بالآخر بولی ۔۔ رک جا ۔۔۔ میں تیار ہوں ۔۔۔ میں تیار ہوں ۔۔۔ اس کے جسم سے کھال پگھل کر بہہ رہی تھی اور فضا میں ہڈیاں جلنے کی بو پھیلی ہوئی تھی۔۔

شاہ جی بولے ۔۔ لاؤ بھئی لاؤ ۔۔۔ قاضی کو لاؤ ۔۔ دلہن تیار ہے ۔۔

شاہ جی کے بھائی ایک بوتل لے کر آگے بڑھے ۔۔۔ وہ بوتل شاہ جی نے ابایومی کے منہ کے نزدیک کی اور کہا ۔۔۔

ابھی کے ابھی بغیر کسی مکر و فریب کے تین سانسوں میں یہ نجس جسم چھوڑ کر اس بوتل میں آجا اس عہد کے ساتھ کہ تاحیات میری یعنی پیر سبغط اللہ شاہ کی غلام رہے گی ۔۔ اور جو کبھی سر تابی تو نے کی تو فنا کے سوا دوسری کوئی بات نہ ہوگی ۔۔۔

ابایومی نے عہد کیا ۔۔۔ اور ایک لمبی سانس بھری کہ اس کا جسم دگنا پھول گیا ۔۔۔ اور بوتل کے منہ کے نزدیک پھنکاری ۔۔۔ میں نے دیکھا ۔۔۔ اس کے منہ اور بوتل کے منہ تک چنگاریوں کے ایک لائین چل رہی تھی ۔۔۔ وہ چنگاریاں بوتل میں بھر گئیں ۔۔۔ یہ ہی عمل ابایومی نے تین بار کیا ۔۔۔ اس کے بعد شاہ جی نے بوتل کے منہ پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور بوتل کو بند کر کے بھائی کو پکڑائی۔۔۔

لو بھائی ۔۔۔ بندھ گئی بلی کے گلے گھنٹی ۔۔۔

شاہ جی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہماری طرف بڑھے ۔۔حصار میں آ کر شاہ جی نے عمل مکمل کیا اور ہم سب کے لئے حصار کھلنے کی اجازت دی ۔۔۔

شاہ جی کی اپنی حالت غیر ہورہی تھی ۔۔ یہ جنگ خیر اور شر کی تھی جسمیں جیت بالآخر خیر کی ہی ہونی تھی ۔۔۔

آغا جانی رو رہیں تھیں ۔۔ 

صبیحہ بہن خدا کا شکر ادا کریں اس نے آپ اور آپ کے خانوادے پر کرم کیا ہے ۔۔ آپ کی بیٹی آب آذاد ہے ۔۔ اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں اب ۔۔۔میرے ساتھ آئیں ۔۔۔ ہم سب ایمبولینس کی طرف بڑھے ۔۔ 

زیبا ابھی تک بے ہوش تھی اور نرسیں ایک دوسرے سے جڑی سمٹی بیٹھیں تھیں ۔۔ شائد کھڑکی سے انھوں نے تمام مناظر دیکھے تھے وہ خوفزدہ تھیں ۔۔ شاہ جی نے ان پر دم کیا اور تسلی دی کہ اب سب ٹھیک ہے ۔۔

شاہ جی نے زیبی کہ بازو پر باندھا تعویذ کھول لیا ۔۔۔ اور وجاہت سے کہا ۔۔

بیٹا اب یہ ٹھیک ہے کوئی اثر اثرات نہیں ہیں ۔۔ ہاں کمزوری بہت ہے ۔۔ اب زیبا کو صرف علاج کی ضرورت ہے ۔۔ ان شاءاللہ میرے رب کے حکم سے دو ہفتے میں بہت بہتری آئے گی۔۔ اسے اب اسپتال لے جائیں۔۔۔ آغا جانی تشکر اور ممنونیت کے اشک نچھاور کرتی زیبی کو پیار کر رہیں تھیں۔۔

سب نے بہت شکریہ کے ساتھ شاہ جی سے اجازت چاہی۔۔۔ وجاہت اور آغا جانی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا وہ بار بار کبھی شاہ جی کے گلے لگتا کبھی ان کے ہاتھ چومتا ۔۔ کبھی میرے گلے لگتا سبھی کی آنکھیں نم تھیں اور دل خوشی سے لبریز ۔۔۔ مغرب کا بعد ہوگیا تھا ہم نے شاہ جی سے اجازت چاہی ۔۔۔۔ شاہ جی نے سب کو دعاؤں میں رخصت کیا ۔۔۔

میں مصافحہ کرنے لگا تو بولے ۔۔ تم ؟ 
تم بھی جارہے ہو کیا ؟ تم تو رکو ۔۔۔۔
ان کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی اور میری تشویش ۔۔۔۔

سلمیٰ سید©
کاپی رائٹس ریسیوڈ

بلی اپنے انجام کو پہنچی ۔۔۔۔ مگر وقت رہتے یہ سلسلہ جاری ہے ۔۔۔ مزید واقعات اور تفصیلی داستان کے لیے کتابی شکل میں دستیابی کا انتظار 🙂 ناول طباعت کے مراحل طے کرتا ہوا جلد ہی مارکیٹ کیا جائے گا
سلمیٰ سید
ختم شد

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─