┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: ذت_عشق
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_22

شادی کو گزرے ایک ہفتہ ہوگیا۔ لیکن وہ انہونی جس نے عفہ کے دن تنگ اور راتیں بے چین کر رکھی تھی اس کا دور دور تک کوئی گمان نظر نہ آرہا تھا۔۔۔ 
مہمان جا چکے تھے اور وہ گھر جہاں چند دن قبل خوب چہل پہل تھی اب وہاں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔
اقصیٰ (عفہ کی بڑی بہن جو شادی شدہ ہے اور اللہ نے انہیں ایک بیٹی نام نرمین سے بھی نوازا ہے جو کہ انمب دو سال کی ہے) اور سبین بی بی لاؤن میں بیٹھی کپڑے سمیٹ رہی تھی۔۔۔۔ 
امی ایک بات پوچھو۔۔۔۔ کپڑوں کو سیدھا کرتے ہوئے اقصیٰ بولی۔۔۔۔
ہممممممم۔۔۔۔۔۔ کام میں مصروف سبین بی بی نے جواب دیا۔۔۔۔۔
امی یہ عفہ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟؟؟ مطلب جب سے وہ آئی ہے نہ وہ زیادہ بولتی ہے نہ ہی ہم میں زیادہ گھلتی ہے بس کمرے میں بند رہتی ہے شادی میں بھی الگ تھلگ سمرا کے ساتھ رہی۔۔۔۔ 
اسے بلا بلا کر گلہ سوکھ گیا لیکن یہاں سے بلاؤ پھر غائب ہوجاتی۔۔۔۔۔
کیا کوئی مسئلہ ہے اس کے ساتھ؟؟؟؟ معلوم آپکو کچھ کیا؟؟؟؟ 
اقصیٰ کی بات سن کر سبین بی بی کے کام کرتے ہاتھ رک گئے اور وہ پریشانی سے اقصیٰ کی جانب دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔
صیحح کہہ رہی ہو تم۔۔۔ پتہ نہیں کیا ہوا ہے اسے۔۔۔ تمہارے اباں بھی یہی بات کررہے تھے مجھ سے کہ ایسی تو نہیں تھی جیسی واپس آئی ہیں۔۔۔۔ 
آپکو پتہ اماں میرے سسرال والوں نے بھی بہت نوٹ کیا ہے عفہ کو۔۔۔۔ بلکہ میری نند تو کہہ بھی گئی کہ بہت غرور ہے عفہ میں بینکاک کا۔۔۔۔۔
لیکن میں نہیں مانی اماں۔۔۔۔
ارے ہماری عفہ ایسی ہے بھلا کیا؟؟؟ اقصیٰ بی بی نے کپڑوں کی ڈھیری سمیٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کرتی ہو کچھ میں ۔ فکر نہ کرو تم۔۔۔
 سمرا کو آنے دو ذرا پتہ تو چلاؤ آخر ماجرا کیا ہے۔۔۔ سبین بی بی سوچ میں پڑتے بولی۔۔۔
بلکل ٹھیک آپ پوچھے اس سے۔۔۔۔ اور ہاں میں تو کہتی ہو اب کوئی اچھا سا رشتہ ڈھونڈے اس کیلئے اور فارغ ہو اس فرض سے بھی آگے ویسے بھی موحد(عفہ سے چھوٹا اور سب کا لاڈلا ، فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ ہے) ہی رہ گیا ہے وہ ابھی چھوٹا ہے اور وقت ہے ابھی اسکا ۔۔۔۔۔۔
ہمممم صیحح کہہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔ آنے دو تمہارے بھائی بھاوج کو ہنی مون سے پھر اس کا بھی کچھ سوچتے ہیں۔۔۔۔ 
اچھا امی مجھے لگتا ہے نرمین اٹھ گئی ہیں میں ذرا اسے دیکھ کر آتی ہو بس ۔۔۔۔ کہتے ساتھ اقصیٰ اٹھ کھڑی ہوئی اور چل دی۔۔۔۔۔
جبکہ سبین بی بی وہی بیٹھی اسی سوچ میں گم رہی جس سوچ میں اقصی انہیں ڈبو گئی تھی۔۔۔۔
ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ تبھی دروازہ پر دستک کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔
آواز سنتے ساتھ ہی سبین بی بی نے موحد کو آواز دی لیکن جب کوئی بھی کہ آیا تو پھر انہوں نے عفہ کو آواز دی۔۔۔۔
عفہ جو کہ کمرے میں بیٹھی کسی رسالے کا مطالعہ کررہی تھی اماں کی آواز سن کر باہر کو لپکی۔۔۔۔۔
جی امی کیا ہوا آپ نے بلایا مجھے؟؟؟؟
ہاں عفہ دیکھو دروازے پر کوئی آیا ہے موحد کو آواز دی ہے مجال ہے اس لڑکے کے کان پر جوں بھی رینگی ہو ذرا دیکھ کر آؤ کون ہے؟؟؟؟۔۔۔۔
جی اماں۔۔۔۔۔ سبین بی بی کی بات سنتے ساتھ ہی وہ ڈوپٹہ صیحح سے لپیٹے باہر کی جانب ہوئی اور دروازہ کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔
جی کون؟؟؟؟ عفہ نے اندر سے آواز دی۔۔۔
سوال کے باوجود کسی کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔۔۔۔۔
کون ہے ؟؟؟ آپ بتائے ھے تو دروازہ کھولو گی میں نہیں تو باہر رہے آپ۔۔۔۔۔ عفہ جواب نہ ملنے پر بولی۔۔۔۔
پھر سے کوئی جواب نہ ملا تو عفہ ایک پل کو رکی اور پھر جیسے ہی پلٹی تو پھر سے دروازے پر دستک شروع ہوگئی اور اب کی بار آواز کافی زوردار تھی کہ سبین بی بی بھی اٹھ کر باہر کی جانب آگئی اور عفہ کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا دروازہ کیوں نہیں۔ کھولا ابھی تک ؟؟؟
اماں میں پوچھ بھی رہی ہو کہ کون ہے لیکن۔ کوئی جواب نہیں دے رہا آپ خود دیکھے کون ہے۔۔۔۔۔۔ عفہ جھنجھلا کر بولی اور سبین بی بی کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔
سبین بی بی آگے بڑھی اور جھٹ سے دروازہ کھول لیا۔۔۔۔۔
جیسے ہی دروازہ کھولا تو دو عورتیں جو بظاہر سجی سنوری تھی سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔
ان عورتوں کو دیکھ کر سبین بی بی نے ایک بار عفہ کو دیکھا جو کہ سوالیہ نظروں سے پوچھ رہی تھی کہ کیا وہ انہیں جانتی ہے جس پر سبین بی بی نے انہیں نظروں سے انکاری کرتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔
جی السلام وعلیکم۔۔۔۔۔ دو خواتین میں سے ایک آگے بڑھ کر مخاطب ہوئی اور ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔۔۔
حیران سی ہوتی سبین بی بی نے ہاتھ تھاما اور سلام کا جواب دیا۔۔۔۔۔
بہت معزرت کے ساتھ لیکن میں نے آپکو پہنچانا نہیں ۔۔۔۔۔ آپ کون ہے؟؟؟ سبین بی بی نے بلآخر پوچھ ہی لیا۔۔۔۔۔
جی آپ ہمیں نہیں جانتی کیونکہ سرسری سی ملاقات ہوئی تھی ہماری شادی پر۔۔۔۔
دراصل ہم اپکی بہو زارا کے رشتہ دار ہے اور کسی خاص مقصد سے یہاں آئے ہیں۔۔۔۔۔
وہ دونوں عورتیں پیچھے کھڑی عفہ کو غور سے اور عجیب مسکراہٹ سے دیکھتے ہوئے بولی جسے سبین بی بی نے بھی بخوبی محسوس کیا۔۔۔۔
آئیں اندر آئیں آپ۔۔۔۔۔ 
وہ دونوں خواتین سبین بی بی کے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گئی جبکہ عفہ وہی کھڑی حیرت سے دیکھتی رہی۔۔۔۔
جیسے ہی دروازے کے جانب اسے بند کرنے کیلئے بڑھی تو اچانک کسی نے اپنا ہاتھ دروازہ پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔
دروازے پر زور محسوس کرتے ہوئے جب جھکی تو سامنے کوئی اور نہیں بلکہ زریس کھڑا تھا جو اپنی بات کو عملی شکل دینے کیلئے وہاں ایک حقیقی وجود لیے عفہ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔
آپ یہاں؟؟؟؟؟ حیرانگی سے بولی۔۔۔۔۔
جی میں یہاں۔۔۔۔۔ اور اب میرا یہاں آنا جانا ہی رہے گا۔۔۔۔۔۔ مسکراتے بولا۔۔۔۔۔
زریس کی بات سن کر عفہ نے ایک بار پھر سے دروازے کو زور لگا کر بند کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔
لیکن زریس کی طاقت پر ہمت ہار بیٹھی۔۔۔۔
آخر مسئلہ کیا ہے کیوں آئے ہیں آپ یہاں ۔۔۔۔۔
دفع ہو جائے یہاں سے آپ آئی سمجھ ورنہ میں یہاں سب کو اکٹھا کر لونگی۔۔۔ اور شور مچاؤ گی۔۔۔۔۔ عفہ کی آنکھوں سے انگارے برس رہے تھے۔۔۔۔
اچھااااا جی اور اس شور میں سب کو کیا بتاؤ گی یہ تو بتاؤ پہلے؟؟؟؟ زریس اندر کی جانب جھکا تو عفہ بھی پیچھے کی جانب دھیرے قدم لینے لگ گئی۔۔۔
بولو بھی ۔۔۔۔۔ کیا کہو گی۔۔۔۔؟؟؟
یہ کہو گی کہ کسی وقت یا کسی پہر تمہیں مجھ سے بےپناہ محبت تھی۔۔۔۔ وہ ابھی بھی آگے کی جانب قدم بڑھا رہا تھا۔۔۔۔
اور عفہ بناء پیچھے دیکھے الٹے قدم لے رہی تھی ۔۔۔۔
بکواس بند رکھو اپنی ۔۔۔۔۔ اور دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ مجھے اور تم سے محبت ۔۔۔ خواب میں بھی نہ سوچنا ۔۔۔۔
خواب کی بات تم کرو میں یہاں اس بات کو حقیقت بنانے آیا ہو۔۔۔۔۔
کیا مطلب؟؟ ایک دم وہ رک گئی ۔۔۔۔
مطلب۔۔۔۔ زریس عفہ کے قریب ہوا۔۔۔۔
مطلب یہ کہ وہ جو عورتیں گئی ہیں ناں اندر ان میں سے ایک میری والدہ اور ایک میری بڑی بہن ہے جو آج یہاں میرے لیے تمہیں مانگنے آئی ہیں۔۔۔۔
 زریس کی بات سن کر عفہ نے زریس کو بے یقینی سے سے دیکھا اور پھر اندر کی جانب بڑھتی ان عورتوں کو دیکھا ۔۔۔۔۔
نہیں میں ایسا نہیں ہونے دونگی ۔۔۔۔۔۔
ان کو تمہاری اصلیت بتاؤ بھی اور بہت اچھا کیا تم نے ان کو لے آئے ذرا پوچھو تو میں کیا تربیت کی ہے آپ کی اپنی بہن ہونے کے باوجود بھی کسی لڑکی کی عزت نہیں کرنے آتی۔۔۔۔۔ عفہ نے زریس کا کالر پکڑا اور ایک طنز کا تیر چلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
زریس نے اپنا کالر عفہ کے ہاتھ سے نکالا اور اسی کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام لیا۔۔۔۔۔
جو کرنا ہے کرو آج تم کرو کل میری کرنی کو دیکھنا۔۔۔۔ کہیں کا نہیں چھوڑو گا یاد رکھنا۔۔۔۔۔ 
اب مسکراؤ اور خاموشی سے اندر کی جانب میرے پیچھے پیچھے آؤ۔۔۔۔ عفہ کی تھوڑی کو چھوا اور کوٹ صیحح کرتے اندر کی جانب بڑھ۔۔۔۔۔
خالی آسمان کے تلے کھڑی عفہ نے ایک بار آسمان کی جانب دیکھا اور بولی۔۔۔۔
جس میں تیری مرضی اسی میں میں راضی اگر یہ میرا نصیب تو حوصلہ بھی تو ہی دینے والا ہے مجھے بس مجھے ٹوٹنے نہ دینا ۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔
سب اندر بیٹھے تھے جبکہ عفہ اقصیٰ کے ساتھ کیچن میں کھڑی تھی۔۔۔۔
کون ہے یہ عفہ؟؟؟ تم جانتی ہو انہیں کیا؟؟؟ اقصیٰ نے خاموش کھڑی عفہ کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
عفہ کچھ نہ بولی شاید کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اسے اقصیٰ کے سوال کی آواز بھی نہ سنائی دی۔۔۔۔۔
جواب نہ ملنے پر اس کو کندھے سے تھاما اور ہلایا۔۔۔۔
کہاں گم ہو کچھ پوچھ رہی ہو تم سے میں کون ہے یہ جو باہر اماں ساتھ بیٹھی ہے اور یہ لڑکا کون آیا ہے ان کے ساتھ؟؟؟؟؟
مجھے کیا پتہ اقصیٰ آپی میں بھی آپکے ساتھ ہی کھڑی ہو یہاں اب اندر کیا کھچڑی پک رہی میں نہیں جانتی۔۔۔۔ پریشانی اور ڈر سے پسینہ عفہ کے ماتھے پر شبنم کے قطرے چمک رہے تھے۔۔۔۔۔
اچھا آورر کیوں ہورہی ہیں یونہی پوچھا تھا تم سے کہ تم اماں کے ساتھ باہر تھی کہ شاید تمہیں پتہ ہو۔۔۔
میں خود جا کر دیکھ لیتی ہو کہ اندر ماجرا کیا ہے ۔۔۔۔ یہ چائے دیکھو ذرا میں آتی ہو اندر سے ہو کر۔۔۔۔۔۔ اقصیٰ بولی اور گیسٹ روم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔
عفہ اب چائے کے سامنے کھڑی پکتے ہوئے قہوہ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ کہ تبھی اقصیٰ تیزی سے اندر کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔
یہ سب کیا ہے عفہ تم نے ہمیں بتایا کیوں نہیں کچھ آخر یہ سب چھپانے کی کیا وجہ تھی؟؟؟ 
اقصیٰ نے عفہ کی بازو پکڑی اور اپنے سامنے کھڑا کرتے بولی۔۔۔۔۔
یاللہ کہیں زریس نے انہیں سب تو نہیں بتا دیا۔۔۔۔ عفہ کی آنکھیں مارے ڈر اور خوف کے کھل گئی۔۔۔۔۔
نہیں آپی وہ جھوٹ بول رہا ہے ایسا کچھ نہیں یقین جانے وہ جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔۔ ہاتھوں کو تھامے وہ ڈرتے سہمتے بولی۔۔۔۔
چھوڑو ہاتھ میرے تو یہی وجہ تھی کہ تمہاتی ساری روٹین خراب ہوگئی تبھی تم کھوئی کھوئی اور خاموش رہتی تھی۔۔
مجھے لگ ہی رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے لیکن۔ ایسی گڑبڑ یقین نہیں آرہا مجھے۔۔۔۔ اگر تم زریس کو جانتی ہی تھی تو بتایا کیوں نہیں ۔۔۔۔۔
اقصیٰ کے لہجے کی نرمی دیکھ کر عفہ کو کچھ عجیب سا لگا ۔۔۔۔۔
کیا بتاتی آپی میں ؟؟؟؟ کہ وہ کیسا ہے لڑکا ہے۔۔۔۔ بولتے ساتھ ہی عفہ نے اپنا چہرہ دوسری جانب کرلیا۔۔
یہی بتاتی نہ کہ کتنا اچھا لڑکا ہے یہ ۔۔۔اعلیٰ خاندان سے اس کا تعلق ہے ویل سیٹلد ہے۔۔ اور سب سے بڑی بات تمہیں پسند بھی کرتا ہے اور تبھی اپنی والدہ کو لے کر آیا ہے تمہارے رشتے کیلئے۔۔۔۔ 
اقصیٰ کی باتیں سن کر عفہ کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ اب اس کو کیا جواب دے اس کی باتیں سن کر یقین نہ تھا کہ وہ کیا زریس کو ہی اتنا اچھا اور اعلیٰ ظرف کہہ رہی ہے جس کا مکرو چہرہ وہ بینکاک سے دیکھ کر آئی تھی۔۔ وہ بس اس وقت کے حالات کے پیش نظر سب کچھ دیکھ رہی تھی جبکہ کچھ بھی سمجھنے کے قابل نہ تھی۔۔۔۔۔۔
اچھا اب تم جلدی سے جاؤ اندر اور کوئی اچھا سا ڈریس پہن کر تیار ہو اماں نے کہا ہے کہ تم ان کے سامنے جاؤ گی۔۔۔۔۔ اقصیٰ ایکسائیٹڈ ہوتے بولی۔۔۔۔
نہیں آپی کیا ہوگیا ہے اماں کو مجھے نہیں۔ کرنی شادی اور نہ ہی کسی کے سامنے جانا ہے چھوڑے راستہ میرا۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی اقصیٰ کو پیچھے کی جانب کیا اور خود گیسٹ روم کی جانب بڑھ گئی اندر جانے سے پہلے ایک پل کو رکی گہری سانس بھری اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔
جیسے ہی اندر بڑھی تو زریس کے ساتھ سب ہی اس پر اپنی نظریں ٹکائے دیکھنے لگ گئے۔۔۔۔۔۔
سبین بی بی جو اسے یوں آنے پر حیرت سے دیکھ رہی تھی فورا اٹھی اور اس کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔
یہ ہے میری بیٹی عفہ۔۔۔۔۔ اور عفہ یہ ۔۔۔۔۔ ابھی سبین بی بی کچھ بولتی عفہ نے بات کاٹ دی۔۔۔۔۔
جانتی ہو کون ہے یہ لوگ ۔۔۔۔۔ میں بتا رہی ہو آپ سب کو اور بہت بہت معزرت سے کہہ رہی ہو کہ مجھے یہ رشتہ قبول نہیں اور نہ ہی آپکا بیٹا پسند مجھے اور یہی وجہ کے میں اسے اس قابل بھی نہیں سمجھتی تھی کہ اس کے بارے میں اپنی فیملی کو بھی بتاؤ۔۔۔۔۔ بہت معزرت کیساتھ کہہ رہی ہوں۔۔۔۔ بہت اچھا لگا کہ آپ لوگ آئے یہاں کھانا کھا کر جائیے گا آپ سب۔۔۔ چلتی ہو میں۔۔۔۔۔
عفہ کی بے باکی دیکھ کر دونوں خواتین ایک دوسرے کو حیرانگی سے دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔
جبکہ زریس بھی عفہ کے باہر نکلتے ہی اس کے پیچھے چل ہڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے میری بات کرنا لازمی ہے عفہ سے تو آپ لوگ ذرا وقت دے مجھے میں منا لونگا۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ وہ بھی باہر کو ہوگیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنے دن گزر گئے تو نے مجھے ابھی تک عفہ کا پتہ نہیں بتایا اور نہ ہی زریس کا آخر مسئلہ کیا ہے میرا کام ہی کیوں لیٹ کر رہا ہے تو؟؟؟؟؟ غصے کی آنچ پر بیٹھا عصار ایک بپھرے بیل کہ طرح وہ سہیل پرچڑھ دوڑا۔۔۔۔
یار حوصلہ رکھ اور مجھے ذرا کھانا کھانے دے صبح کا بھولا ہو کچھ معدے میں جائے گا تو دماغ میں آئے گا ۔۔۔ تیز دم تیز نوالے بناتا وہ کھانا کھا رہا تھا۔۔۔۔۔
عصار نے سہیل کو دیکھ اور پھر اٹھا اور پاس پڑے تکیے کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔۔۔۔۔
مجھے اس کا پتہ چاہیے وہ بھی جلد سہیل میرا کھانا پینا سونا سب حرام ہوا ہے مجھ پر تو سمجھ کیوں نہیں رہا اگر تو نہیں کرسکتا تو بتا دے مجھے میں کسی اور سے یہ کام کروا لونگا۔۔۔۔۔
کیونکہ تیری آس پر بیٹھ کر اتنا وقت گزر دیا ہے میں نے ۔۔ اور اب تو مجھے لگتا ہے کہ زریس عفہ کو ڈھونڈ چکا ہوگا اور جیسی اس خبیث کی نیت اور گندہ دماغ ہے وہ اپنی چالیں بخوبی چل رہا ہوگا۔۔۔۔۔ اور میں یہاں بیٹھا بس مکھیاں مار رہا ہو یا تجھے گائے کی طرح چگالی کرتے دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔ 
سہیل کا چلتا منہ یہ بات سن کر فورا رک گیا۔۔۔۔۔
میں بہت پریشان ہو سہیل تو سمجھ کیوں نہیں دیا پل پل مر رہا ہو میں اسی کی سوچ میں ڈوب رہا ہو میں کچھ کر یار کچھ کر۔۔۔۔۔ سر پکڑے بیٹھا عصار کسی بے بس انسان کی تصویر لگ رہا تھا سہیل نے کھانا دوسری جانب کیا اٹھا عصار کا ہاتھ تھاما اور باہر کی جانب بناء کچھ کہے اسے لے کر چل پڑا نہ عصار نے کوئی سوال کیا نہ سہیل نے کسی بھی بات کا جواب دینا مناسب سمجھا۔۔۔۔۔۔۔
باہر نکلتے ساتھ ہی زریس کا سامنا اندر کی جانب بڑھتی اقصیٰ سے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔
عفہ ؟؟؟ زریس نے اتنا ہی کہا۔۔۔۔۔
وہ اپنے روم میں ہے کوئی بات کرنی ہے آپ نے اس سے؟ 
کہاں ہے اسکا روم؟؟؟ 
آپ مجھے بتا دے جو بھی بات کرنی ہے آپ نے۔۔۔۔۔
میں خود کرلو گا بات آپ مجھے بس بتا دے کہ وہ کہاں ہے۔ نہیں تو میں آنٹی سے خود بھی پوچھ سکتا ہو۔۔۔۔۔ اس بار لہجے میں تلخی اور بے مروت شامل تھی۔۔۔۔
ٹھیک ہے تو آپ ایسا کرے آپ آنٹی سے ہی خود پوچھ لیں۔۔۔۔ اقصیٰ بی بی نے ڈھٹائی سے اسے کے لہجے سے جواب دیا۔۔۔۔
شکریہ۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ زریس آگے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
جبکہ اقصیٰ اسے وہی کھڑی دیکھنے کے بعد اندر کمرے کی جانب بڑھ گئی تاکہ اندر کی گرما گرمی جان سکے۔۔۔۔
کمرہ کمرہ چھاننے کے بعد بلآخر وہ اپنی ناکام منزل پر پہنچ ہی گیا۔۔۔۔
اپنے کمرے میں کھڑی عفہ کھڑکی سے باہر ابھرتے سورج کی تپش کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
دروازے پر کھڑا زریس ایک قدم آگے کو ہوا۔۔۔۔۔
وہی اپنے قدم روکے زریس۔۔۔۔ 
یہ میری ریاست میرا کمرہ اور میری دنیا ہے
 جہاں تم جیسوں کے قدم اسے ناپاک بنا سکتے ہیں۔۔ بناء پلٹے بولی۔۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ عفہ کی بات سنتے ساتھ ہی وہ زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے اندر جانب بڑھا ۔۔۔۔۔۔
تمہاری ریاست تمہارا کمرہ اور تمہاری دنیا۔۔۔ 
آہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔
ایک دم زریس کا لہجہ سخت ہوگیا۔۔۔۔
پل بھر میں مٹی کرسکتا ہو میں تمہاری کھوکھلی ریاست کو۔۔۔۔
 لیکن شکر مناؤ تباہ کرنے کی بجائے نیز اس پر حکومت کرنے کا سوچ رہا ہو۔۔۔۔۔
خواب اچھے ہیں زریس شاہ مگر صرف خواب کی شکل میں۔۔۔ 
عفہ پلٹی اور زریس کو دیکھ کر بولی۔۔۔۔
خوابوں کو پورا کرنا اور پایہ تکمیل تک پہنچانا مجھے خوب آتا ہے ۔۔۔۔۔۔ زریس مسکرا کر بولا۔۔
شاید تم نے باہر دیکھا نہیں ۔۔۔۔ ورنہ یہ بلکل نہ کہتے۔۔۔۔
کہ کیسے تمہاری ماں بہنوں کے سامنے میں نے تمہارے خوابوں کو روندھا اور ان کے منہ پر۔۔۔۔۔ عفہ اس سے آگے بولتی زریس چلا اٹھا۔۔۔۔۔
بس کرو عفہ ورنہ۔۔۔۔۔
ورنہ کیا؟؟؟؟ عفہ بھی اتنی ہی اونچی آواز میں چلائی۔۔۔۔۔
تم اپنی حد کراس کررہی ہو عفہ۔۔۔۔۔ زریس کا چہرہ مسلسل سرخ پڑ رہا تھا جبکہ آواز میں بھی وہی لرزش موجود تھی۔۔۔۔
حد ۔۔۔۔۔۔۔ چلا کر بولی
حد ہی کہا نا تم نے۔۔۔۔۔ سرکو ہلا کر دوبارہ بولی۔۔۔
حد ۔۔۔۔تمہیں پتہ بھی ہے حد کا اصل مطلب کیا ہے؟ 
جاؤ پہلے سیکھ کر آؤ تب آنا میرے در پر اپنی خالی جھولی بھرنے کیلئے ۔۔۔۔۔ 
اب دفع ہوجاؤ۔۔۔۔ عفہ نے دروازے کی جانب ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
بہت ہوگئی زلالت اور منتیں اب دیکھو تم میں کیا کرتا ہو۔۔۔
تمہیں میری ساری باتیں ہوا کی مانند خالی لگتی ہیں اب بتاتا ہو میں اس ہوا میں بھی کتنا وزن موجود ہے۔ جس میں تمہارا سانس لینا حرام ہو جائے گا۔۔
ایک باری تم نے زلیل کیا مجھے اب ایک باری میں کرو گا۔۔۔۔
تیار رہو عفہ اپنی باری کی زلالت برداشت کرنے کو۔۔۔۔ زریس نے انگلی سے تنبیہہ کرتے کہا۔۔۔۔۔
باخدا اتنی زلالت کے باوجود بھی ذرا برابر شرم نہ آئی پھر اسے در پر آجاتے ہو اپنی زلالت کروانے ۔۔۔۔۔
پتہ زریس مجھے لگتا تم بے غیرت ہو ورنہ ایک لڑکی کے پیچھے اتنے زلالت کوئی مرد برداشت نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ عفہ زریس کو چب چڑھاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
بکواس بند کرو۔۔۔
مت بھولو میرا صبر ختم ہوا تو تم کہیں کی نہیں رہو گی ۔۔۔۔ وارن کرتے بولا ۔۔
ٹھیک ہے مجھے تمہارے صبر ختم ہونے کا انتظار ہے۔ جو کرسکتے کرو۔۔
وہ سامنے دروازہ ہے اب اپنے نام نہاد خاندان کو اٹھاؤ اور نکلو یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔ عفہ مطمئن انداز سے بولی جس نے زریس کو مزید طیش میں ڈال دیا۔۔۔۔۔
زریس باہر کی جانب بڑھا اور دروازہ زور دار طریقے سے دے مارا۔۔۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی ان خواتین کی جانب اشارہ کیا۔۔۔ 
بناء کچھ بولے وہ بھی اٹھی اور زریس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔۔۔۔
ان کے جانے کے بعد اقصیٰ اور سبین بی بی کا اگلا رخ عفہ کا کمرہ تھا۔۔۔ 
دونوں اس کے کمرے کی جانب بڑھی تاکہ اس سب ماجرے کو سمجھ سکے۔۔۔۔
لیکن کمرہ اندر سے بند ہونے کی وجہ سے وآپس مایوس لوٹ گئی۔۔۔
سبین بی بی نے اقصیٰ کو اس بات کا پابند بنا دیا کہ وہ اس بارے میں کسی سے بھی کوئی بات نہ کرے۔۔۔۔
اور اب عفہ کے خود باہر آنے کا انتظار کرنے لگ گئی۔۔۔۔

بس یونہی گاڑی چلاتا رہے گا کہ کچھ بولے گا بھی کہ کہا کے کر جارہا ہے مجھے۔۔۔۔۔ 
آدھے گھنٹے سے سہیل گاڑی چلا رہا تھا اور عصار چپ بیٹھا راستوں کی گردش کو دیکھ رہا تھا لیکن اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور ہونٹوں کے دھاگے ٹوٹ گئے۔۔۔۔
جس راہ کی تلاش کیلئے تو روز جلتا مرتا ہے تجھے اسی راہ کی جانب لے کر جارہا ہو۔۔۔۔۔
مطلب کیا ہے ان سب باتوں کا؟؟؟ عصار سہیل کی جانب دیکھ کر بولا۔۔۔۔
مطلب جلد سمجھ آجائے گا۔۔۔۔۔۔ 
بس کچھ دیر صبر پھر تم سب سمجھ جاؤ گے۔۔۔۔۔
سہیل بناء دیکھے بولا اور گاڑی چلاتا رہا۔۔۔۔۔
کچھ دیر میں وہ ایک کالونی کی جانب بڑھ گئے۔۔۔۔
گاڑی اندر لے جاتے ہوئے عصار اردگرد کے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔۔
کیا دیکھ رہے ہو عصار اتنی بے چینی سے؟؟؟
مجھے لگتا ہے کہ میری منزل قریب ہے تبھی دل میں شور اور دماغ میں طوفان اٹھ رہا ہے۔۔۔۔
ہممممم صیحح پہچانے ہو تم یہ وہی کالونی ہے جہاں عفہ رہتی ہیں۔۔۔۔ سہیل مسکرا کر سامنے دیکھتے بولا۔۔۔۔۔
تو پہلے کیوں نہیں یہاں لے کر آیا مجھے؟؟
 کیوں اتنے دن مجھے اذیت میں ڈالے رکھا۔۔۔۔؟؟
کیونکہ میں تیری تڑپ اور ندامت کو دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا اس میں وہی فریب تو نہیں جس کی وجہ سے آج تو اس مقام تک پہنچا ہے ۔۔۔۔
کیا کہنا چاہتا ہے تو صیحح صیحح بول۔۔۔۔ عصار پریشانی سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
یہی کہ۔۔۔۔۔
میں نہیں چاہتا ہو کہ تو اب کسی بھی بدعا کے حصار میں آئے۔۔۔۔۔
جتنا تو نے غلط کرنا تھا کردیا۔۔۔ لیکن اگر ندامت کے باوجود تو وآپس اسی انداز کی جانب بڑھا تو یقین مان آخرت خراب ہے تیری۔۔۔۔۔
سہیل کی کی گئی ہر بات عصار کے ذہن اور ضمیر دونوں کو جھنجھوڑ رہی تھی۔۔۔۔
اب بتا میں نے غلط کیا ہے کیا؟؟ 
اصل میں جب تک تو خود کو نہیں سمجھ سکتا تھا تب تک تجھے اصل گناہ کا پتہ نہیں چلنا تھا ۔۔۔۔
اور جب مجھے محسوس ہوا کہ اب وہ ندامت تیرے سامنے موجود ہے تو میں تجھے اٹھا کر یہاں لے آیا جہاں کیلئے تو تڑپ رہا تھا۔۔۔۔
سہیل کی باتیں سن کر عصار چپ رہا کیونکہ اس کو سہیل کی باتیں درست معلوم ہورہی تھی۔۔۔۔
تیری منزل کا آدھا راستہ میں نے ڈھونڈ کر تجھے دے دیا اب آگے کا راستہ تجھے خود طے کرنا ہے اپنے زور بازو پر۔۔۔۔۔ گاڑی روکتے ساتھ ہی سہیل عصار کی جانب مڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔
عصار نے بات سنی اور گاڑی سے اتر گیا۔۔۔۔۔
یہاں تک کے سفر کا شکریہ۔۔۔۔ 
سہیل مسکرا دیا اور گاڑی کو ریورس کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔
اس کے جانے کے بعد عصار کالونی کی چہل پہل کو دیکھتے ہوئے کالونی کا معائنہ کرنے لگ گیا۔۔۔۔
اور چلتے ہوئے ہر گھر کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کا وقت سب گھر والے کھانے کی میز پر بیٹھے خاموشی سے کھانا نوش کررہے تھے۔۔۔۔۔
یہ عفہ آج پھر کھانے کے میز پر نہیں ؟؟؟ مشتاق صاحب نے سب کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
بابا اس کی طبیعت خراب تھی تو میں نے اسے کمرے میں کھانا دے دیا کہ کھاتے ساتھ وہ آرام کر کے۔۔۔۔ 
اقصیٰ اچھے سے جھوٹ بولتے ہوئے بولی۔۔۔۔
حیرت ہے اس قدر کمزور لڑکی یہ کہ ہر دوسرے دن بعد بیمار ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
سبین بی بی۔۔۔۔۔ مشتاق صاحب نے اب انہیں مخاطب کیا۔۔۔۔۔۔۔
جی بخآری صاحب۔۔۔۔
ذرا اپنی بیٹی کا مکمل چیک آپ کروائے کے آخر مسئلہ کیا ہے اس کے ساتھ ۔۔۔۔
یہ نہ ہو کوئی بڑی بیماری ابھر آئے اور ہم اس سے انجان رہے۔۔۔۔۔نوالہ بناتے ہوئے بولے۔۔۔۔
جی بخآری صاحب کل ہی لے کر جاؤ گی اسے۔۔۔۔
بہتر ہے کھانے کے بعد میں ملتا ہو اس سے اور میری چائے اسی کے کمرے میں کے آنا۔۔۔۔۔۔۔۔
اقصیٰ نے حامی میں سر ہلایا اور کھانا کھانے لگ گئی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات دھیان سے سنوں ۔۔۔۔۔۔
کام صفائی سے ہونا چاہیے کسی کو بھی خود ہر شک کرنے کی گنجائش نہ چھوڑنا کہ تم اغوا کرنے ائے ہو۔۔۔۔۔۔
بس اتنا دھیان رکھنا کہ اسے کچھ نہ ہو کسی بھی قسم کی تنگی نہ ہو۔۔۔۔۔
ایک طرح کی وہ امانت ہوگی تمہارے پاس آئی سمجھ۔۔۔۔۔۔۔
بہت اندھیرا سجائے زریس اپنے کمرے میں بیٹھا سگار کا دھواں چھوڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
بات کرتے ساتھ ہی کال کاٹ دی اور کرسی کے ساتھ سر کی ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔۔۔۔
میری باری کا لطف لوں اب عفہ بخآری اب آئے گا اصل کھیل کا مزا ۔۔۔۔۔۔۔
کمینگی جھلکتی مسکراہٹ دیتے وہ کش بھرنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن بھر کالونی کے چکر لگاتے ہوئے عصار تھک گیا تھا۔۔۔۔۔۔
بیڈ پر گرتے ہوئے ایک کاغذ جو اس کے ہاتھ میں تھا اپنے چہرے کے قریب کرتے ہوئے اس کا جائزہ لینے لگ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کالونی میں دس گھر ہے سید بخآری کے ۔۔۔۔۔ منہ میں پنسل دبائے سوچتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ تو صرف وہ ہے جنہوں نے باہر لکھ کر لگایا ہے۔۔۔۔۔
اور بھی بہت سے ہونگے ان کا کیسے معلوم کروں گا اب۔۔۔۔۔۔۔ کاغذ کو چہرے پر لپیٹتے ہوئے وہ جھنجھلا کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔
افففففففف ۔۔۔۔۔۔
ہمت نہیں ہاری عصار اگر کسی کو تباہ کرنے کیلئے نیندیں حرام کر سکتا ہے تو کسی کی زندگی بچانے کیلئے خود پر سب حرام کیوں نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔۔
اسی میں سے ہی پہلے کسی کے گھر جا کر پتہ کرنا ہے وہ بھی طریقے سے۔۔۔۔۔۔
لیکن ان سب سے پہلے نماز پڑھو گا شاید وہی ذات میری راہنمائی کرے اب۔۔۔۔ 
اور شاید مجھے معاف بھی کردے۔۔۔۔۔
یہی سوچ کر اٹھ کھڑا ہوا کاغذ وہی رکھا اور مسجد کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے اور رائے ضرور دیں 😊

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─