┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: ذت_عشق
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_18

آج پھر سے وہی جگہ وہی خواب پھر وہی اندھیرا۔۔ یاللہ کس خطا کی سزا دے رہا ہے تو مجھے یا یہ کس طوفان کی علامت ہے یہ جو ہر چند روز بعد مجھے خواب میں ایسی بستی میں پھینک دیتا ہے جہاں ایسا محسوس ہوتا ہو کہ قیامت۔ اپنی تباہیاں کرتی ہوئی یہاں سے گزری ہو۔۔۔۔۔۔ خود کلامی سے عصار گرتا پڑتا ایک اندھیری جگہ سے گزر رہا تھا۔۔ کہ ایک دم کسی کے رونے اور چلانے کی آواز اجڑی اور خالی جگہ پر گونجنے لگی۔۔ آواز اس قدر تیز کہ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کان سے خون بہنا شروع ہو جائے گا اور دماغ کی شریانیں پھٹ جائے گی۔۔
اپنے سر اور کانوں کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے تھامے وہ آہستہ آہستہ اس آواز کی مرکزی جگہ کو راغب کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔۔ سیاہ رنگ کی ڈریس پینٹ اور سفید رنگ کی شرٹ جس پر گا بہ گا جگہ جگہ کالے دھبے نمایاں تھے دیکھنے میں معلوم ایسا ہوتا تھا کہ جیسے کسی کے ہاتھوں کے نشان اس کی شرٹ ہر موجود ہے ۔۔۔ بکھرے بال گندے مٹی سے اٹے ہاتھ شرٹ کا ایک حصہ باہر اور ایک پینٹ کے اندر پاؤں بھی بنا جوتی کے ننگے اور آلودہ ۔۔۔۔
آگے بڑھتے ہوئے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ آواز اسے خود سے دور کرنے کیلئے مزید اونچی ہورہی ہوں۔ ایک دم آگے بڑھتے ہوئے عصار کسی چیز سے ٹکرا کر بے دھیانی سے منہ کے بل زمین پر گر گیا اور اسکا ماتھا زمین پر جا لگا۔۔۔ دردکی شدت محسوس ہوئی تو اٹھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔۔۔ آہستگی سے اپنا سر اٹھایا تو اب مٹی اس کے چہرے پر بھی اپنا داغ چھوڑ چکی تھی اور ماتھے سے خون کی لڑی پھوٹتے ہوئے اس کے چہرے کو سرخ کر رہی تھی۔۔۔
کڑاہتے ہوئے سر اٹھایا اور بس ہاتھ رکھ کر خون کی جانب دیکھا۔۔ اچانک محسوس ہوا کہ جیسے اس کے سامنے کوئی بیٹھا ہے۔۔ آہستگی سے سر اٹھایا تو سامنے کا منظر ناقابل فراموش تھا۔۔۔ صاف سفید پاؤں سے نظر اٹھائی کالے سیاہ لباس میں موجود وہی لڑکی اپنے سر کو گھٹنوں پر ٹکائے نوں وکناں ہورہی تھی۔۔۔۔
خود کو سنبھالتے ہوئے عصار بھی اس کی طرح دونوں گھنٹوں پر ہاتھ ٹکائے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
کچھ دیر خاموشی یونہی دونوں کے درمیان رہی۔۔ کہ تبھی سامنے بیٹھے لڑکی بناء سر اٹھائے بولنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔
کیوں کیا ایسا آپ نے میرے ساتھ؟؟؟؟
آواز میں اس قدر درد سے بھری کے عصار کا دل سن کر دھل گیا۔۔ کچھ لمحے وہ اسے یونہی ٹکٹی باندھے دیکھتا رہا ۔ کہ کیا یہ مجھ سے سوال کررہی ہے۔۔۔ اسی اثناء میں وہ پھر سے لب و فاز ہوئی۔۔۔
کیوں توڑ دیا میرا یقین آپ نے؟؟ کیوں مجھے اس مقام تک لے آئے کہ میں خود سے نفرت کر بیٹھی۔؟؟؟
عصار کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا ایک سوالوں کا طوفان اس کے اندر بھی امڈ چکا تھا ۔۔۔۔۔
کون ہو تم؟؟؟؟؟ اور مجھ سے یہ سوال کیوں؟؟؟ میں تو تمہیں جانتا بھی نہیں؟؟؟ حیرانگی سے اس پر جھکتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
کیوں کیا ایسا آپ نے؟؟؟؟؟ کیوں مجھے تباہ کردیا؟؟؟ کس نے حق دیا آپکو میری زندگی سے کھیلوں؟؟؟؟ 
وہ پھر سے سوال گو ہوئی جس کے جواب عصار کے پاس موجود نہ تھے ایک پل کو آگے کو بڑھا اور جیسے ہی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنے لگا۔۔۔۔
لڑکی نے اپنا سر اٹھا لیا جسے دیکھتے ساتھ ہی عصار دور جا کر گر گیا۔۔۔ 
چہرے کو نقاب سے چھپائے آنکھوں سے مسلسل آنسوں کی روانی کی وجہ سے کاجل بھی بہتا ہوا ایک کالی ندی کی شکل اختیار کر چکا تھا۔۔۔۔ عصار کا دماغ چکرا سا گیا اور ہر چیز اس کے سامنے واضح سی تصویر لیے کھڑی ہوگئی۔۔ اور بس ایک لفظ ہی اس کے منہ سے نکل سکا کہ تبھی آنکھ کھل گئی اور نیند کی وادی سے لڑتا جھگڑتا وہ حقیقی دنیا کی طرف آگیا۔۔۔۔۔۔
عفہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لفظ صرف خواب میں ہی نہیں بلکہ اصل میں بھی اس کے ہونٹوں پر مچل رہا تھا۔۔۔۔۔
یہ سب کیا تھا؟؟ یہ سب کیوں ہورہا میرے ساتھ؟؟
بالوں میں ہاتھ پھیرتے اب وہ اپنی دونوں آنکھوں کو مسلتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
نہ ہوش میں سکون دیتی اس کی یاد نہ نیند میں چین کم بخت ایسا اثر چھوڑ کر گئی ہیں کہ نیندیں حرام اور زندگی عذاب بنا دی۔۔۔۔
لیکن ناجانے کیوں مجھے سکون میسر نہیں ۔۔۔ ابھی وہ یہ سب اپنے دماغ میں سوچ ہی رہا تھا کہ تبھی اس کا فون زور زور سے بجنے لگ گیا۔۔۔۔ 
وقت دیکھا تو صبح کے پانچ بج رہے تھے جبکہ ابھی باہر آسمان پر گہری نیلی سیاہی کی چادر موجود تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ موسم آج صاف ہی رہے گا اور سورج کھل کر چمکے گا۔۔۔
اپنا دھیان فون کی جانب کیا تو وہ سمرا کا نمبر تھا۔۔۔ 
اس کی کال کیوں آرہی ہے اب مجھے ؟؟ ضرور اب کوئی نیا تماشا ہوگا یا کوئی اور پلینگ جس میں مجھے بکرا بنا کر ذبح کرنے کی چال چلنا چاہتی ہیں عفہ۔۔۔۔۔ 
اگر ایسا کریں گی تو قسم مجھے بھی منہ دکھانے کے لائق نہ چھوڑو گا اسے اب میں۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی فون کو کان پر لگا لیا۔۔۔۔
پہلے پہر تو خاموشی چھائی رہی لیکن۔ پھر عصار خود ہی بول اٹھا۔۔۔۔
کیا مسئلہ ہے اب کیوں کال کی تم نے مجھے اب کونسا نیا کھیل کھیلنا چاہتی ہیں وہ؟؟؟ تلخ دل چیر دینے والے لہجے سے بولتا عصار اپنے تیور بدل چکا تھا جبکہ چہرے پر بھی ناگواری صاف عیاں تھی۔۔۔۔۔۔
آرام اور تمیز کے دائرے میں مسٹر۔۔۔۔ میں عفہ نہیں ہو سمرا ہو اور مجھے ایسے لہجے سے بات کرنے والوں کا منہ توڑنا آتا ہے۔۔۔۔ سمرا بھی ٹوٹ کر پڑی آخر پڑتی بھی ناں کیوں اس کی سہیلی جیسی بہن کو ڈپریشن میں واپس پھینکنے والا عصار کا ہی اہم کردار تھا۔۔۔۔۔۔
اصل بات کرو آخر کیوں کال کی اور ویسے بھی جیسی تمہاری دوست ویسی ہی تم کوئی فرق نہیں تم دونوں میں۔۔۔۔۔۔ 
کاش ایسا سچ ہوتا میں اس کی جیسی ہوتی لیکن افسوس۔۔ نہیں ہو اس جیسی لیکن اس کی دوست ہونے پر فخر ہے مجھے ۔۔۔۔
کال کی وجہ بتاؤ زیادہ باتیں نہ گھوماؤ میرے ساتھ اس کی تعریفیں سنانے کیلئے کال کی تو بہن نکلوں یہاں سے میں بھی عصار ہو زریس نہیں جو تمہاری باتوں میں گھلتا جاؤ گا۔۔۔۔۔ عصار ایک بار پھر بولا۔۔۔۔۔
ملنا چاہتی ہیں تم سے وہ اگر مل سکتے ہو تو بتا دو جگہ اور وقت بتا دیتی ہو۔۔۔۔۔۔ سمرا سیدھی اصل بات پر آئی۔۔۔۔۔۔۔
کیوں اب کیا رہ گیا؟؟ جو ملنا اس میم نے مجھ سے۔۔ مجھے کوئی شوق نہیں اس سے ملنے کا کہہ دو اسے اپنے جادو اور یہ نخرے تماشے کسی اور کو دیکھائے مجھ پر انکا کوئی اثر نہیں۔۔۔۔۔
عصار کی بات سن کر سمرا کا دل کیا کہ وہی فون سے ہی ہاتھ نکال کر اسے ایک زور دار تھپڑ رسید کردے تاکہ اس کی کھوئی ہوئی یاداش اور عقل دونوں ہی اپنے ٹھکانے آجائے۔۔۔۔
لیکن کچھ بھی نہ بولی اور خاموش رہی یہ سوچ کر کہ بھوکنے والے کے آگے بولوں گی تو مجھ میں اور اس میں جو انسانی فطرت کا فرق ہے وہ مٹ جائے گا۔۔۔۔۔
اگر آنا ہو گا تو شام چار بجے تک اپنی سائیٹ پر آجانا وہ بھی آجائے گی چار تیس تک تمہارا انتظار کرے گی۔۔۔۔ دل کیا تو آجانا ورنہ میں تو کہوں گی اسے انتظار ہی کروا دینا کیونکہ اب میں خود چاہتی ہو وہ ٹوٹ کر بکھرے مکمل اور اس کیلئے بہتر ہے کہ تم نہ ہی آؤ۔۔۔۔ سمرا کی بات سن کر عصار پریشان سا ہوگیا کہ یہ کیسی دوست ہے جو اسے خود توڑنا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔
اس کا زور نہ ہوتا تو کبھی تم جیسے کو کال بھی نہ کرتی لیکن خیر پیغام تم تک پہنچا دیا ہے آگے تمہاری مرضی۔۔۔
اور میں جانتی ہو تم ابھی کیا سوچ رہے ہو کہ کیسی دوست ہو میں جو دوست کو توڑنا چاہتی ہے۔۔۔۔
سمرا کی بات سن کر اب تو عصار لاجواب ہی ہوگیا اور اس کا منہ حیرانگی سے کھل گیا کہ اسے کیسے پتہ چلا اس کی سوچ کا؟۔۔۔۔۔۔
تم لوگوں نے اس کو توڑا اور جوڑا جس سے اس کی ذات میں جگہ جگہ خلا اور وہ بےڈھنگہ سا ہوگیا ہے اب کی بار وہ اسیے ٹوٹنے چاہیے کہ جب بھی سمیٹے خود کو مکمل کر کے ہی اٹھے۔۔۔۔۔ 
کہتے ساتھ ہی سمرا نے کال کاٹ دی اور اب عصار کے ذہن میں ایک نئی کشمکشِ شروع ہوگئی کہ وہ جائے کہ نہ جائے۔۔۔۔اسی سوچ میں وہ اٹھا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔۔ برش کرتے ہوئے خود کو شیشے میں دیکھنے لگ گیا۔۔۔۔ 
اور یہی سوچ رہا کہ اسکا جانا بہتر ہے کہ نہیں؟؟ 
فریش ہوتے ساتھ ہی آفس کا رخ کیا کیونکہ کام کا بہت زیادہ ضیاع ہوگیا تھا اور اب اس کام کے خلا کو پر کرنے کیلئے اس پر مکمل توجہ دینے کی ضرورت تھی۔۔۔۔ لہذا خود کو فائلز کے ڈھیر میں دبا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات بھر کروٹیں بدلنے کے بعد بلآخر کانوں میں اذان کی آواز گونج اٹھی آنکھوں کو ملتے ہوئے بیڈ پر اٹھ بیٹھی باہر نیلی سیاہی چادر ہر طرف اندھیرا کیے آسمان پر دھاک جمائے بیٹھی تھی۔۔۔
تکیہ کے پاس پڑی چادر کو اٹھایا سوئی ہوئی سمرا کے پاس سے گزر کر واش روم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر میں وضو کر کے جائے نماز بچھائی اور اللہ کے حضور نماز کی ادائیگی کیلئے کھڑی ہوگئی آج پانچ دن بعد وہ وقت پر نماز کی ادائیگی کر رہی تھی لہذا نماز میں مسرور عفہ کو خبر بھی نہ ہوئی کہ سمرا اٹھ گئی تھی اور اب اسے نماز پڑھتے دیکھ رہی تھی۔۔۔
ٹائم کی جانب نظر دھرائی تو وقت پانچ بج گئے تھے عفہ کی بات دماغ میں کھٹکی فورا اپنا موبائل پکڑا اور خاموشی سے واش روم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔
فورا عصار کا نمبر نکالا اور پھر دیکھ کر سوچ میں پڑ گئی۔۔۔۔
میں نے عفہ سے تو کہہ دیا تھا کہ ملوا دونگی لیکن اگر وہ نہ مانا تو۔۔۔۔ 
پھر سوچنے کے بعد بولی۔۔۔۔
نہیں مانتا تو بہت ہی اچھی بات ہیں یہی کا گند یہی رہے تو بہتر۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی عصار کا نمبر ملادیا۔۔۔ ایک دو بیل بجی اور پھر عصار نے فون اٹھا لیا۔۔۔۔۔۔
عفہ نماز ادا کر چکی تھی جبکہ اب دعا مانگنے کیلئے ہاتھ اٹھائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔
ایک دعا بس اس کے لب پر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
یاللہ مجھے بخشش دے میں گنہگار بندی تیری بھٹک گئی تھی بس مجھے گمراہی سے بچا اور میری عزت کی حفاظت فرما۔۔۔۔۔
آنکھوں میں آنسوں لیے وہ ابھی دعا گو ہی تھی کہ تبھی سمرا کی آہٹ سنائی دی فورا آنسوں پونچھ کر کھڑی ہوگئی جبکہ سمرا اس کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔
بس آنسوں بہانے کا آج تمہارا آخری دن نہیں بلکہ یہ آخری لمحات ہے آج کے بعد تم نہیں روؤں گی روئے گے وہ لوگ جنھوں نے تمہیں اس حال تک پہنچایا آئی سمجھ ۔۔۔۔۔ سمرا کی بات سن کر عفہ نے سر حامی میں ہلایا۔۔۔۔۔
ایسا کرو۔ تم سامان دیکھو کوئی رہ تو نہیں گیا کچھ باہر ۔۔۔ ویسے تو میں نے سب کچھ بیگ میں رکھ دیا تھا لیکن پھر بھی ایک بار دیکھ لوں میں نہیں چاہتی یہاں کا کچھ بھی چاہے کوئی چیز ہو یا یاد ہمارے ساتھ پاکستان جائے اور ہماری کوئی چیز یہاں رہے۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی سمرا جائے نماز پر کھڑی ہوگئی جبکہ عفہ اپنے سامان کو دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔
ٹکٹ کنفرم ہو چکی تھی اور پاکستان میں بھی سب کو اطلاع کر دی گئی تھی کہ شام چھ بجے کی فلائیٹ میں عفہ اور سمرا بینکاک سے پاکستان کیلئے نکل آئیں گی۔۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تین بج گئے عفہ کی نظریں مسلسل گھڑی کی بھاگتی سوئیوں کو دیکھ رہی تھی سمرا نے عفہ کو تیار ہونے کا کہا اور خود کیب کو بلا لیا۔۔۔۔۔
عبایا میں ملبوس بیگ سنبھالتی عفہ نے ایک نظر بھر کر کمرے کی جانب دیکھا جو کہ اب بلکل خالی تھا وہی کمرہ جس میں اس کے قہقہوں والے لمحے بھی گزرے اور آنسوں بہاتی آنکھیں بھی بہے ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ سجائے وہ ایک لمحے کی شکل میں اپنے گزارے چار سال کی جھلک کو فلم کی مانند آنکھوں کے سامنے چلتے دیکھ رہی تھی۔۔۔ سمرا نے تیزی سے عفہ کو چلنے کا کہا اور پھر باہر کو دونوں نکل گئی فلیٹ کو تالا لگاتے ہوئے عفہ سمرا کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جبکہ سمرا بھی اس کی الجھن کو سمجھ گئی تھی لہذا اس کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے لیفٹ کی جانب بڑھی اور دونوں نیچھے چابی ہاسٹل والوں کے سپرد کر کے کیب کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔
کیب میں بیٹھتے ہوئے عفہ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے کیونکہ ایک عرصہ یہاں گزارنے کے بعد وہ اس جگہ سے کافی مانوس ہوگئی تھی۔۔۔ 
گاڑی چل پڑی اور یوں سب سے پہلے اس سائیٹ کی جانب بڑھی جہاں عصار کو ملنے کیلئے بلایا تھا۔۔۔۔۔
گاڑی رفتار اور عفہ کی آنکھوں میں گزرتے لمحے دونوں کی رفتار ایک مانند تھی جبکہ آنسوں کی لڑی بھی ایک بندھ باندھ چکی تھی۔۔۔۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ سائیٹ پر پہنچ گئی اور اب گاڑی سے باہر نکل کر عصار کے آنے کا انتظار کرنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جانب عصار کوشش کے باوجود اپنا دھیان بٹا نہیں۔ پارہا تھا۔۔۔۔ دماغ اور دل کی جنگ مسلسل صبح سے جاری تھی فائلز کو ہاتھ سے سائیڈ پر کرتے ہوئے وہ کرسی کی پشت پر سر ٹکا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
کچھ دیر آنکھیں موندھے بیٹھا رہا اچانک اٹھا چابی اٹھائی اور کیبن سے باہر کی جانب بڑھ گیا جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ دماغ اور دل کی جنگ میں جیت دل کی ہوئی۔۔۔۔ گاڑی کو تیزرفتاری میں بھاگاتے ہوئے اس کے دل میں عفہ کے حوالے سے ہزار خیالات جنم لے رہے تھے ۔۔۔۔
کچھ ہی پل میں وہ بھی اس سائیٹ پر پہنچ گیا جہاں پہلے سے ہی ایک گاڑی کھڑی تھی اور اس کو اپنی گاڑی سے صاف نظر آرہا تھا کہ اسی درخت کے پاس کوئی لڑکی عبایا اور نواب میں ملبوس ایک سیاہ رنگ کی شال کو لپیٹے کھڑی اس کا انتظار کررہی ہیں جس کے پاس اس نے کھڑے ہو کر عفہ کی ساری باتیں سنی تھی۔۔۔۔۔
گاڑی سے باہر نکلتے ہی گلاسز کو چہرے پر سجاتے ہوئے بڑے قدموں کے ساتھ وہ عفہ کی جانب بڑھا جو ڈوبتے سورج کی آخری لڑائی کو دیکھتے ہوئے محظوظ ہورہی تھی۔۔۔۔
عفہ کے پاس کھڑے ہو کر اسے محسوس ہوا جیسے غلط ہونے کے باوجود وہ بہت ہی پر سکون اور مطمئن کھڑی ہو جبکہ بنا غلطی کے خود کو بے سکونی کے عالم سے جونجتا عصار اس کی پرسکون شخصیت کو دیکھ کر ماتم کناں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد عفہ نے بولنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم کیسے ہیں آپ؟؟؟؟
عفہ کے مطمئن لہجہ اسے پاگل کررہا تھا۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ٹھیک ہو میں۔۔۔۔ اب بولوں کیوں بلایا ہے مجھے یہاں ؟؟؟ عصار اصل بات کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
عصار وہ ڈوبتا سورج دیکھ رہے ہیں آپ جس کو آپ پسند نہیں کرتے تھے بھلا مجھے کیوں پسند تھا اس دن میں جواب نہیں دے پائی تھی شاید میں خود بھی نہیں جانتی تھی لیکن آج جواب ہے کیونکہ مجھ میں اس سورج جیسی تپش موجود ہے اور میں بھی خود میں لڑ رہی ہو۔۔ اس کی خاصیت بھلا کیا ہے؟؟ عفہ عصار کی جانب دیکھ کر بولی۔۔۔۔۔
عصار سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
کہ اگر یہ آج ڈوبے گا تو کل کو پھر سے نئی امید اور کرن کے ساتھ ابھرے گا۔۔۔۔۔
دیکھوں مجھے اگر یہ فلاسفی سنانے کیلئے بلایا ہے تو بہت ہی گھٹیا حرکت کی ہے تم نے میرے ساتھ جارہا ہو میں ۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی جیسے ہی پلٹا تو عفہ نے اسے پیچھے سے آواز دے دی۔۔۔۔۔
چلے جانا عصار آپ آپ ہی کیوں بلکہ میں جارہی ہو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آپکے اس نام نہاد اور بےوفا بینکاک سے دور ایک سکون ماحول میں۔۔۔ لیکن جانے سے پہلے مجھے آپ سے سوال کرنا ہے اور مجھے اس کا جواب چاہیے۔۔۔ عفہ کی آواز میں اب لڑکھڑاہٹ آگئی تھی جیسی وہ اب رو رہی ہو۔۔۔۔۔
آخر کیوں کیا میرے ساتھ آپ نے ایسا؟؟؟ کیوں مجھے جلتی آگ کے تندور میں پھینک دیا جہاں میں پوری عمر جلتی رہو گی؟؟؟۔
عفہ کے سوال سن کر عصار پیچھے کی جانب مڑا اور اسے دیکھنے لگ گیا۔۔۔۔۔
عفہ چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پاس کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں آنسوں لیے وہ اس کو اپنے روداد سنانا چاہتی تھی ۔۔۔
آپکو کس نے حق دیا کہ آپ کسی کے بھی معاملے میں انٹر فیئر کریں ؟؟ کس نے حق دیا کہ آپ کسی کے بھی احساسات کا مذاق اڑائے اسکا فائدہ اٹھائے۔۔۔؟؟؟ آپ ٹھیک کہتے تھے کہ میں ہو بےوقوف جو آپ جیسے کم ظرف اور نام نہاد مردوں پر یقین کر بیٹھی۔۔۔۔
ایک مرد چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ تعلق بناؤ بنا شادی کے بناء حلال رشتے کے اور ایک مرد چاہتا تھا کہ میں اسی آگ میں کود کر ایک طوائف کی مانند بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔ عفہ کی آواز اب اونچی ہوگئی تھی۔ جب کہ عفہ کے الفاظ سن کر عصار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔۔۔ 
یہ سب کیا بکواس کررہی ہو اپنی فضول باتیں بند کرو آئی سمجھ کسی کی کردار کشی کرنے سے پہلے اپنے دامن کو دیکھو۔ جو داغدار 
ہے۔۔۔۔۔۔ عصار بھی بول اٹھا۔۔۔۔
ہمممم بلکل ٹھیک کہا میرا دامن جس کو آپ لوگوں نے داغدار کیا آپ لوگوں نے۔۔۔۔۔ جس کا چاہا مجھے کھلونا بنا کر کھیلنے کی کوشش کرتا رہا کیوں بنوں میں کھلونا کسی کا کیا؟؟ مجھ میں احساس نہیں؟؟ میں زندہ نہیں ہو کیا؟؟؟ مجھے جینے کا حق نہیں؟؟؟ 
اچھا حق کی بات کرتی ہو تو تمہیں کس نے حق دیا کسی کے ساتھ محبت کا جھوٹا ڈرامہ کرو تم جو بھی کر وہ ٹھیک ہم اگر سبق سیکھائے تو داغ ارے واہ رے واہ ۔۔۔۔ عصار نے عفہ کو بازوؤں سے مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
میں نے کوئی ڈرامہ نہیں کیا عصار اتنی سی بات آپکو ابھی تک سمجھ نہ آ سکی اتنا وقت گزار دیا اپنے میرے ساتھ اور یہ نہ سمجھ سکے کہ میں کیسی لڑکی ہو؟؟؟ حیرت ہوتی آپ مردوں کی سوچ پر جو کہتے ہو کہ ہم اڑتے پرندے کے پر بھی گن سکتے۔۔۔۔۔۔ 
کس نے کہا میں نے ڈرامہ کیا زریس کے ساتھ خود زریس نے کہا آپ سے یا کوئی اور گواہ؟؟؟ عفہ کی باتوں کا عصار کے پاس سچ میں کوئی جواب نہ تھا بلکہ وہ خود بھی یہ سب سوچ کر حیران ہوگیا تھا کہ اس نے یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں ۔۔۔ 
بولے ؟؟؟؟؟ عفہ نے عصار کے بازوؤں کو جھٹکا اور خود کو اس کے حصار سے نکالا۔۔۔۔
نہیں جواب نہ آپ کے پاس معلوم تھا مجھے لیکن میرے پاس ہے۔ آپ اس زریس سے پوچھنا کہ کیا عفہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اپنے گھر والوں سے بات کرنے لگی تھی میں عصار اس کے پیچھے لگ کر لیکن وہ تو نہایت گھٹیا انسان نکلا مجھے زبردستی اپنے ساتھ کمرے میں لے گیا اور ۔۔۔۔۔۔۔
عفہ کہتے کہتے رک گئی جبکہ عصار کے منہ سے خودبخود "اور " لفظ نکل آیا۔۔۔۔۔
اور یہ کہ میں خود کو بچا کر نکل آئی۔۔۔ وہ اس قدر غلیظ انسان ہے کہ اس کی ہر رات کسی نہ کسی لڑکی کے ساتھ گزرتی ہیں وہ ایک فریب ہے ایک جھوٹ ہے جو مجھے بھی تباہ کرنا چاہتا تھا یہی وجہ تھی کہ میں اس سے دور ہوگئی۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔
عفہ روتے ہوئے اب اپنی کیب کی جانب بڑھنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔
عصار نے جاتے دیکھا تو بولا۔۔۔۔۔
لیکن کیا عفہ لیکن کیا؟؟؟؟ 
عفہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک درد بھرا آنسوں اس کی گال پر ٹپک پڑا۔۔۔۔
لیکن آپ نے مجھے تباہ کردیا ۔۔۔ مجھے اس کے حوالے کردیا جو اب مجھے نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔ اور معلوم میں جب جب جیتے جی مرو گی ناں اپکو کو یاد کرو نگی اور دعا کرونگی کہ اپکو بھی کبھی سکون نہ ملے میں اگر پل پل مرو گی آپ بھی تڑپے گے آپ نے مجھے اس کے حوالے کیا میں اپکو اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے لحاظ سے اللہ کے حوالے کرتی ہو روز قیامت میں سفید چادر لیے آپ کے گریبان کو پکڑو گی اور یہی سوال کرونگی اس بات کو یاد رکھیے گا عصار چودھری اس بات کو یاد رکھیے گا۔۔۔۔۔۔
عفہ کہتے ساتھ ہی کیب کی جانب بڑھ گئی جو کب سے اس کی راہ تک رہی تھی جبکہ عصار عفہ کی باتیں سن کر سکتے میں آگیا تھا اور اس کے دل میں عفہ باتوں کا خوف اس طرح بیٹھ رہا تھا کہ اگر عفہ کی بات کا ہر حرف سچ پر مبنی ہوا تو وہ کیسے خود کا دامن اللہ کے سامنے بچا پائے گا۔۔۔۔۔
گاڑی چلی گئی اور عصار کے لیے ایک کڑی آزمائش چھوڑ گئی وہی سورج کو ڈوبتے دیکھتا رہا حتی کے رات کی سائیں سائیں ہر طرف پھیل گئی اور اب تک عفہ بھی بینکاک کو آخری بار دیکھنے کے بعد پاکستان کی جانب اپنی فلائیٹ میں بیٹھ کر روانہ ہوچکی تھی ہزاروں میل کی بلندی پر بھی موجود عفہ اپنے درد کو دبانے کی ناکام کوشش کررہی تھی جبکہ اب عصار کو اپنی بے چینی کا آہستہ آہستہ اندازہ ہونے لگ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
………………................................................................................
جاری ہے اور رائے ضرور دیں 😊 


─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─