┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: ذت_عشق
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_19

کچھ ہی گھنٹوں میں عفہ اور سمرا بینکاک کی کھلی اور خاموش فضاؤں کو چھوڑ کر پاکستان کی گنگناتی اور ہل چل مچا دینے والی ہواؤں میں سانس لینے لگ گئی۔۔۔ آئیر پورٹ میں آدھے گھنٹے کی کاروائی کے بعد بلآخر چار سال کے لمبے عرصے کو پار کرکے عفہ آج اپنے گھر والوں کی شکل دیکھنے جارہج تھی جو دور کھڑے عفہ کو دیکھ کر بے تاب ہوگئے تھے ہاتھوں میں سامان لیے دونوں تیزی سے اپنے اپنے گھر والوں کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
عفہ تیزی سے قدم اٹھاتی جیسے ہی صبین بی بی( والدہ) کی جانب بڑھی تو مشتاق صاحب(والد) دونوں کے درمیان آگئے۔۔۔ والد صاحب کو اچانک اپنے سامنے آتے دیکھ کر عفہ کہ قدم وہی رک گئے۔۔۔ اور وہ ٹھٹک سی رہ گئی۔۔۔
والد صاحب کی آنکھوں میں زیادہ دیر تک دیکھنے کی ہمت نہ تھی تو فورا نظریں جھکائے سلام کر کے خاموش ہوگئی ۔۔۔۔۔
مشتاق صاحب مسلسل عفہ کو دیکھ رہے تھے جیسے بغور اس کی آنکھوں کا جائزہ کرنے کی کوشش کررہے ہو کہ شاید ان کی بیٹی پچھلی راتیں خوب روئی ہیں۔۔۔
 سمجھ نہ آنے کی صورت میں بلآخر سوال کر ہی بیٹھے۔۔۔۔۔
پہلے یہ بتاؤ میری عزت کا خیال رکھا ہے وہاں کہ نہیں؟؟؟؟ آواز میں دبدبہ اور مردانی طاقت کا استعمال بہتر طریقے سے کرتے ہوئے بولے ۔۔۔۔۔۔
سوال کو سنتے ساتھ ہی عفہ ایک دم جھنیب سی گئی جیسے اس کے زلالت کے پوسٹر پاکستان بھی لگ چکے ہو ۔۔۔
بولو بھی کچھ پوچھ رہا ہو میں تم سے عفہ بخاری؟؟؟؟ ایک بار پھر گرج کر بولے۔۔۔۔
آواز سن کر عفہ مزید ڈر سی گئی ایک تو رات بھر سوئی نہیں تھی دوسرا سفر کے تھکاوٹ اس کے چہرے اور آنکھوں پر صاف عیاں تھی اور نہلے پہ دھلا کہ سامنے کھڑے بابا جانی جو کہ پہلے بھی اس کے جانے پر بہت زیادہ ناراض تھے اور بینکاک جانے کے بعد بھی اس سے بہت ہی کم بات کرتے تھے آج اس کے سامنے کھڑے سوال کناں تھے ۔۔۔۔
بناء کچھ بولے عفہ آگے کو بڑھی اؤر مشتاق صاحب کے ساتھ لگ گئی۔۔۔۔
جیسے ہی وہ لگی مشتاق صاحب کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔
جبکہ چار سال بعد دور ہونے کی وجہ سے عفہ کی آنکھوں سے آنسوں برس پڑے اور وہ گلے لگنے کے بعد رونے لگ گئی۔۔۔۔۔۔
بہت مس کیا میں نے بابا آپکو بہت مس کیا آپکو؟؟؟ انکھوں سے انسوں بہاتی عفہ اپنا سر مشتاق صاحب کے دل پر رکھتے ہوئے اپنی بازوؤں سے مضبوطی سے ان کو تھام لیا ۔۔۔
میرا بچہ ڈر گیا تھا بابا کے لہجے سے۔۔۔۔۔ بابا نے بہت مس کیا اپنی جان کو ۔۔۔۔۔ پتہ کتنا سکون مل رہا ابھی گلے لگا کر ایسے لگ رہا جیسے جسم کا ایک حصہ جو الگ ہوگیا تھا آج واپس وہی صیحح سلامت اپنی جگہ پر آ کر لگ گیا ہے میں نے بھی بہت یاد کیا بہت زیادہ۔۔۔۔ اپنی بانہوں کو عفہ کے گرد حمائل کرتے مشتاق صاحب نے عفہ کو اپنے حصار میں لے لیا۔۔۔۔
جبکہ عفہ جو کہ ایک تو واپس ملنے پر خوش ہو رہی تھی جبکہ دوسری جانب مشتاق صاحب کے سوال کا جواب نہ دینے پر بھی اپنے آنسوں کا ضیاع کررہی تھی۔۔۔۔۔
اچھا اب بس بھی کریں آتے ساتھ ہی اسے رلا دیا اب آپ نے مل لیا تو میں بھی مل لوں اپنی بیٹی سے کہ نہیں اوپر سے دیکھے کتنی کمزور ہوگئی ہیں آگے ہی تیلی میں جان اٹکی تھی اب تنکے میں آگئی ہیں ۔۔۔۔۔ صبین بی بی مشتاق صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولی جو کب سے انتظار کررہی تھی کہ کب باپ بیٹی کا پیار ختم ہو اور وہ اپنی لاڈیاں عفہ پر نچھاور کرے۔۔۔۔
ہاں جی مل لیں آپ بھی لیکن یاد رکھیں یہ بس میری بیٹی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مشتاق صاحب مسکراہٹ دیتے ہوئے بولے اور عفہ کے کندھوں کو تھامتے ہوئے اسے صبین بی بی کے سامنے کھڑے کردیا۔۔۔۔
اماں کو دیکھتے ہی ناجانے کیوں عفہ کا دل ابھر آیا دوبارہ جیسی ہی ساتھ لگی پھر سے رونے لگ گئی۔۔۔۔۔۔
اللہ کیا ہوا میری بچی کو آتے ساتھ ہی روتی جارہی ہیں کچھ ہوا ہے کیا؟؟؟ کسی نے کہا کچھ؟؟؟؟ پریشانی سے مشتاق صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
نہیں۔ اماں کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔۔۔ بس دل بھر آیا آپکو اتنے سالوں بعد ملی نہ تو بس اس لیے۔۔۔۔۔ خود کو سنبھالتے ہوئے وہ سبین بی بی کے سامنے کھڑی ہوئی تو سبین بی بی نے اپنے ہاتھوں سے اس کی آنکھوں کو صاف کیا اور ماتھے پر اپنے لب رکھ کر ایک پیار بھرا بوسہ اس کے ماتھے پر چھوڑ دیا جس کی عفہ کو اشد ضرورت تھی ۔۔۔۔۔
عفہ کو ائیر پورٹ پر لینے صرف مشتاق صاحب اور صبین بی بی ہی آئیں تھے لہذا فورا سمرا سے سرسی سی الوداعی ملاقات کے بعد سب نے گاڑی کا رخ کیا اور گھر کی راہ لی۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے راستے صبین بی بی عفہ کو پیار کرتی رہیں اسے اپنے ساتھ لگا کر بیٹھی رہی جبکہ عفہ بھی اپنی بانہوں سے اماں کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے رہی۔۔۔ جیسے ایک عرصے کے بعد اس کو سکون کی چھاؤں ملی ہو ورنہ بینکاک میں سمرا کی تسلی کے باوجود اسے ہمیشہ اکیلا پن اور بے چینی سی رہتی تھی لیکن آج اماں کی آنچل میں بیٹھنے سے اسے ہر طرح کے شر سے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
کافی دیر گاڑی کی مسافت برداشت کرنے کے بعد بلآخر عفہ گھر میں داخل ہو ہی گئی۔۔۔ سارے خاندان والے عفہ کا استقبال کرنے کیلئے گھر میں موجود سجاوٹ کیے انتظار کررہے تھے عفہ کو اندر آتے دیکھتے ہی اس پر پھولوں کی پتیاں برسائی گئی اور حیرانگی کی تصویر بنی عفہ بس اردگرد کے ماحول کو دیکھ کر پریشان سی ہوگئی تھی ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے عفہ باہر سے پڑھ کر نہیں بلکہ ایک بڑی جنگ لڑ کر آئی ہیں جو کہ غلط کہنا ٹھیک نہ ہوگا۔۔۔۔۔
سب لوگوں سے ملاقات کرنے کے بعد کچھ دیرعفہ سب میں بیٹھی رہی کچھ اپنی بتانے لگ گئی اور کچھ ان کی سننے لگ گئی ۔ سر میں درد جو پہلے ہلکا سا اپنا احساس دلوا رہا تھا اب اس کے سر پر ہتھوڑے بنے دماغ میں بجتے ہوئے ایک ناقابل برداشت تکلیف پیدا کررہا تھا آہستگی سے خود کو اس ماحول سے غائب کرتے ہوئے وہ فورا پنے کمرے کی جانب بڑھی جہاں وہ جانے سے پہلے رہا کرتی تھی جیسا چھوڑ کر گئی تھی ویسا ہی سب کچھ پا کر ایک عجیب سی خوشی اس کے چہرے پر ظاہر سی ہوئی فورا عبایا سے خود کو آزاد کیا اور چھلانگ لگاتی ویسے ہی بیڈ پر بیٹھ گئی جیسے وہ بیٹھا کرتی تھی خود کو پہلے جیسا محسوس کر کے اسے اندر سے سکون اور اطمینان سا محسوس ہورہا تھا اپنی پرانی یادوں میں کھوتی عفہ وہی سر تکیہ پر دہرے نیند کی وادیوں کی لمبی سیر پر روانہ ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا عصار بظاہر تو سو رہا تھا لیکن دماغ میں وہی سب عفہ کی باتیں گونج رہی تھی جس سے وہ بے چینی سے اپنے بیڈ پر گھوم رہا تھا تھکاوٹ کی وجہ سے آج آتے ساتھ ہی اسے ڈریس میں وہ بیڈ پر گر گیا تھا نہ جوتے اتارنے کی ہوش نہ کھانے کی تمنا۔۔۔ ایک دم اسے اپنے کان کے پاس کسی لڑکی کے رونے کی زور دار طریقے سے آواز آئی ۔۔۔۔ آواز سنتے ہی عصار تیزی سے جھٹکا کھاتے ہوئے زمین بوس ہوگیا اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیا کسی کو نا پایا تو دوبارہ بیڈ پر بالوں کو ہاتھوں میں جکڑے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
یاللہ رحم مجھے کس بات کی سزا مل رہی ہے میں نے تو کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تو پھر یہ سب کیوں؟؟؟ ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک عفہ کی طرف سے دی جانے والی دعا میں چھپی بدعا عصار کے ذہن میں ڈنکا بجاتے ہوئے گھومنے لگ گئی۔۔۔۔۔
کہیں اس کی طرف سے جو مجھے بدعا ملی یہ سب اس کی کارستانیاں تو نہیں۔۔۔۔۔۔ پریشانی سے اٹھا اور ٹہلتے ہوئے بولنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔
ارے نہیں جو لوگ خود ایک بدعا کہ شکل میں دنیا میں موجود ہو ان کی بدعا کہاں لگتی بھلا۔۔۔۔۔ مجھے لگتا میں نے بہت زیادہ ہی اس کی باتوں کو سر پر سوار کرلیا ۔۔۔۔
کچھ بریک لینا چاہیے مجھے خود کو سکون دینا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ اردگرد نظر گھوماتے ہوئے اپنی جیکٹ پکڑی گاڑی کی چابی ہاتھ میں تھامے ایک نظر گھڑی کی چلتی سوئیوں کی جانب ڈالی جہاں رات کے ایک بج رہے تھے۔۔۔
تیزی سے اپنے فلیٹ سے باہر نکلا اور بناء منزل کے گاڑی کو دوڑانا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہو میں ٹھیک ہو اور میں نے ٹھیک کیا۔۔۔ اسے سبق سیکھانا بہت ضروری تھا اب کسی کے ساتھ بھی ایسا کرتے ہوئے اسے یہ یاد ضرور آئے گی کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی عصار نامی بندہ اس کے ناپاک چہرے کو فاش کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی کو بیگانہ وار گھوماتے وہ اردگرد کی عمارتوں پر نظر گھوما رہا تھا کہ تبھی اسے جگ مگ کرتا ایک کلب نظر آیا جہاں سے ہلکی ہلکی سی آواز باہر کی جانب سب کو اپنے سروں میں محصور کیے رکھی۔۔۔۔۔۔۔
کچھ پل گاڑی میں بیٹھا اس کلب کو دیکھتا رہا جہاں اس نے عفہ کو سب کے سامنے زلالت کی حد کو چھوتا ہوا زلیل کیا تھا۔۔۔۔۔
گاڑی سے باہر نکلا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے وہ اس کلب کے اندر جانے کا سوچنے لگا کہ شاید وہاں سے اسے کچھ پل سکون کے میسر نہ ہو سکے۔ لیکن ہر قدم اسے اپنے ادا کیے جانے والے الفاظ اورسسکیاں بھرتی عفہ کی یاد دلاتی رہا تھس کہ تبھی اسے پھر سے اپنے بازو پر عفہ کے وہی گرم ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔۔۔ قدم وہی رک گئے ایک پل کو مڑا تو جیسے اس کا ضمیر اسے ملامت کررہا ہو لیکن اس کی سوچ اس کے ضمیر کی ملامت کو مسلسل درگزر کر رہی تھی۔ کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ منہ میں بڑبڑانے کے انداز الفاظ گو ہوا۔۔۔۔۔
میں نے ٹھیک کیا تھا عفہ کے ساتھ آئی سمجھ تمہیں سمجھ آرہی ہے ناں کیوں پاگل کر رہے ہو خود کو عصار تم ٹھیک تھے ہو اور رہوں گے بس کرو اب ۔۔۔۔
چلتے چلتے اچانک اس کی ٹکر کسی سے ہوئی لیکن وہ شخص لڑکھڑاتا ہوا اندر کی جانب بناء دیکھے بڑھ گیا۔۔۔ عصار کو محسوس ہوا کہ شاید وہ اس شخص کو جانتا ہے کانوں سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے وہ فورا اسکی شخص کی جانب مڑا اپنی سوچ کو سائیڈ پر کرتے وہ قدم بہ قدم قریب بڑھا۔۔۔۔۔
کلب کے اندر جانتے ہوئے ایک تیز میوزک اس کے کان پر تباہیاں کررہا تھا۔۔۔ لیکن وہ بس اس شخص کے راغب چل رہا تھا۔۔۔۔
اچانک وہ شخص رک گیا اور ایک فرنگن لڑکی جو کہ نازیبا لباس میں ملبوس اس لڑکے کے قریب کھڑی مسکرا رہی تھی کہ تبھی وہ لڑکی اس شخص کے چہرے پر جھکی اور دونوں کے چہرے کے درمیان فاصلے نہ رہا۔۔۔ دیکھتے ساتھ ہی عصار نے اپنا چہرہ دوسری جانب کیا اور پھر لمحہ گزرتے ساتھ ہی واپس دیکھ تو وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ زریس ہی تھا۔۔۔۔
یہ بہت غلیظ انسان ہے جس کی ہر رات کسی لڑکی کے ساتھ گزرتی ہیں ۔۔۔۔ عفہ کی آواز اس کے سماعت کے ساتھ ٹکرائی اور آنکھوں سے گھورتا ہوا وہ اس شخص کے نزدیک ہوا۔۔۔۔۔
لیکن اس سے پہلے وہ اس تک جاتا وہ شخص اس لڑکی کے ساتھ کہیں غائب ہو چکا تھا۔۔۔ لوگوں کو اردگرد کرتے وہ اس شخص کو ڈھونڈنے کیلئے پورے کلب کو کھنگال رہا تھا لیکن ناکام ہوتے ہوئے واپس اس کلب سے باہر آگیا۔۔۔۔۔۔
کہیں عفہ کی بات ٹھیک تو نہیں تھی۔۔۔ یاللہ کس عذاب میں پڑگیا میں میں کیوں کودا اس معاملے عصار تو دنیا کا بےوقوف ترین انسان ہے جو بےگانی شادی میں دیوانہ وار گھوم رہا تھا۔ مجھے اس کا پتہ لگانا پڑے گا تاکہ میرا ضمیر جو مجھے روز سولی پر لٹکاتا ہے اس سے خود کو آزاد کروا سکوں گا اور اس کیلئے مجھے زریس کے سارے ٹھکانوں کی معلومات لینی پڑنی ہے۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی موبائل نکالا سور اپنی اسے رپوڑٹر کو اب زریس کے بارے میں آگیا کرتے ہوئے فون بند کردیا۔۔۔۔ آسمان آج سیاہ تھا لیکن چاند اپنی جوبن پر تھا لہذا رات کی تاریکی میں بھی ہر طرف چاند کی روشنی اپنی چمک چہچہا رہی تھی۔۔۔۔
آسمان کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔
یاللہ میرا سر نہ جھکائی اور جس بات کا ڈر میرے اندر پننپ رہا ہے وہ ڈر صرف ڈر ہی رہے میرے سامنے سچ بن کر نہ ابھرے۔۔۔ ورنہ ناجانے عدہ کی بدعا سچ بن کر مجھ پر کیا قیامت ڈھائے۔۔۔۔۔۔ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے وہ خاموش کھڑے عفہ کیلئے کی جانے والی باتوں کو سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا دال پانی اور ہوا کھاتے عفہ کو دو دن گزر چکے تھے لیکن ابھی تک وہ خود کو اس ماحول میں ایڈجسٹ نہیں کر پارہی تھی ۔۔
خاموشی سے کمرے میں بیٹھا پورا وقت گزرجاتا جبکہ سبین بی بی اس کی حالت کو دیکھ کر پریشان سی ہوگئی تھی ۔ بلآخر مشتاق صاحب کے کہنے پر عفہ کے کمرے میں بنا دروازہ ناک کیے آگئی تھی۔ عفہ کا کمرہ گراونڈ فلور پر گھر کی پشت جبکہ باغ کے سامنے جہاں سے وہ روز کھڑکی کو کھول کر سورج کی پہلی آنے والی کرنوں کو مسکراتی ہوئی ایسی خوشآمدید کرتی تھی جیسے وہ کرنیں نئے دن کے آغاز کے ساتھ اس کیلئے ڈھیروں ڈھیر امیدیں اور خوشیاں لاتی ہیں کمرہ خوبصورت رنگوں اور یونیک خوبصورت چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔۔ جو پہلے تو بلکل اس کے مزاج جیسا تھا لیکن اب وہ سب چیزیں اس کو بلکل بھی نہ بھاتی تھی ۔ خاموش بستر پر سر دہرے چھت کی طرف آنکھیں گھاڑی لیٹی عفہ اماں کی آمد پر بےخبر ڈگڈی باندھیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ سبین بی بی اس کے پاس آکر بیٹھ گئی اور ہلکے سے اس کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگ گئی ایک نظر سبین بی بی کو دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ دیتے ہوئے عفہ واپس چھت کو دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔۔۔۔
ایسی کیا بات ہوئی عفہ کیوں اکیلے بیٹھی رہتی ہو۔؟؟؟ کچھ ہوا ہے کوئی مسئلہ ہے تو بتاؤ ایسے کمرے میں بند رہنا ٹھیک نہیں نہ..... سبین بی بی کی پریشانی دیکھ کر عفہ فورا ان کے گود پر اپنا سر ٹکائے ہاتھوں سے نرم اور پیار بڑھی گود کو پکڑے سکون اور محبت کے مزے لینے لگ گئی تھی۔۔۔۔
نہیں اماں ایسا کچھ بھی نہیں وہ بس یونہی۔۔۔۔۔۔
نہیں عفہ یونی کوئی جواب نہیں ہوتا ۔۔ اتنے سالوں بعد آئی ہو سب ملنے کو آرہے ہیں بھائی کے سسرال والے بہن کے سسرال تمہاری اپنی کزنز خالہ ماموں دادکے سے سب آرہے ہیں لیکن تم بس مل کر واپس کمرے کی جانب بھاگ پڑتی ہو جیسے نہ جانے کونسے کانٹے گاڑے وہ تمہارے لیے بیٹھے ہیں ۔ شرمندگی ہوتی مجھے جب تم جاتی ہو ان کے درمیان سے اٹھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے زبردستی تمہیں وہاں بٹھایا ہو اور جان چھوٹتے ہی بھاگ نکلتی ہو۔۔۔۔۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولی۔۔۔۔۔۔
نہیں اماں ایسا کچھ نہیں۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔ عفہ اٹھ کر ان کے سامنے بیٹھ گئی اور معزرت خواہ ہوتے بولی۔۔۔۔
آپکو تو پتہ ہے وہاں جا کر پہلے مجھے آپ لوگوں کی یاد آتی تھی لیکن اب وہاں رہ رہ کر مجھے خاموشی پسند آگئی ہے تبھی شور شرابے سے دل گھبراتا ہے اب میرا اور میں موقع دیکھتے ہی بھاگ نکلتی ہو۔۔۔ بس کچھ دن دے مجھے میں جلد سیٹ ہوجاؤ گی۔۔۔۔۔ انگلیوں کو ایک دوسرے میں الجھاتے ہوئے بولی ۔۔۔
لیکن بیٹا پتہ نہ بھائی کی شادی سر پر ہے اور ہم دن رکھ چکے ہیں اب اگر تم ایسے ہی کمرے میں بند رہو گی تو کیسے چلے گا؟؟؟
عفہ خاموشی سے ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھی رہی۔۔۔۔۔
چلوں اب منہ بند کیے بیٹھ گئی یہ لڑکی میرے سامنے سمجھ سے باہر یہ تو۔۔۔۔۔۔
اماں تو کیا بولوں آپ سے کہہ تو رہی ہو جلد ایڈجسٹ ہوجاؤ گی۔۔۔۔۔ عفہ منہ بسورتے بولی۔۔۔۔
اور وہ جلد جلد ہی آجائے تو اچھا تمہارے بابا بھی مجھ سے بار بار سول کرتے ہیں جسکا جواب میرے پاس ہوتا نہیں اور تم دینا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔۔
خیر آج چلوں میرے ساتھ کپڑے لے کر آنے اور جیولری بھی دوپہر تک خود کو تیار رکھو اور کوئی بہانہ نہیں اب مجھے بہت کام۔۔۔۔ فریش ہو کر رہنا تم اب۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی سبین بی بی اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک بار سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے واپس کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔
سبین بی بی کے جاتے ساتھ ہی عفہ وآپس گرنے کے انداز میں اپنا سر تکیہ پر گراتے ہوئے لیٹ گئی اور وآپس چھت پر دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں آپ نے جیسی عفہ بینکاک بھیجی تھی مار دیا انہوں نے اسے بے دردی سے۔۔۔ کچلنے کے بعد زندہ درگور کردیا۔۔ نہ چیخ سنی نہ آواز سنی اور نہ ہی کوئی روداد مار کر وہی کسی گہرے دلدل میں پھینک دیا جہاں روز میں دستی چلی جارہی ہو اور پھر بھی کوئی سننے والا نہیں۔۔۔۔۔۔
سوچتے ہوئے ایک آنسوں سیدھی آنکھ کی کنپٹی سے بہتا ہوا تکیہ پر جاگرا جسے اس نے خود میں بخوبی قبول کیا ۔۔۔۔۔۔
بقول اماں کہ خود کو فریز کر کے واپس اپنی روٹین میں آنے کی پہلی سیڑھی چڑھتے ہوئے وہ اماں کے پاس عین وقت پر چلی گئی اور پھر بازاروں کی خاک چھننے کیلئے تگ و دو کرنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کال اٹھاؤ میری حماد کہاں مر گئے ہو؟؟؟؟ مسلسل تین چار بار کالز کرنے کے باوجود کوئی رسپانس نہیں آرہا تھا۔۔ لہذا نومبر کی سردی اور ہلکی ہلکی دھند میں جیکٹ اور مفلر سے خود کو جکڑے وہ چلتا جارہا تھا۔۔
ابھی دوبارہ حماد کو کال ملاتا اس سے پہلے ہی اس کو رپوڑٹر کی جانب سے کال آگئی تھی۔۔۔۔
اور اس کے بعد جو جو اس نے سنا اس کو محسوس ہوا کہ جیسے اس کا جسم جو ابھی سردی سے ٹھنڈا پڑ رہا تھا ایک پل میں سرد ہوچکا تھا ۔۔۔۔۔
جی بولوں کیوں فون کیا؟؟ کوئی خبر؟؟؟ عصار نے ٹھنڈے اور لزرتے ہاتھوں کو ایک دوسرے سے رگڑنے کے بعد وہ لڑکھڑاتے ہوئے الفاظ کی ادائیگی کر کے بولا۔۔۔۔۔۔
سر آپ نے جس بندے کے بارے میں پتہ لگاوانے کا کہا تھا وہ تو نہایت ہی گھٹیا انسان ہے کوئی ایسا بار کلب نہیں جہاں وہ بدنام نہ ہو۔۔
مطلب کیا کہنا چاہ رہے ہو تم؟؟؟؟؟ عصار نے سنا تو چلا کر کاٹ کھانے کو دوڑا کیوں کہ یہ سن کر اسے اپنے غلط ہونے کا احساس محسوس ہونے لگ گیا تھا جس سے وہ کئی روز سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔۔۔
میں ٹھیک کہہ رہا ہو سر روز نئی لڑکی اس کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے ڈرگز ڈرنکنگ یہ سب اسکا معمول ہے اور اپنے جس لڑکی کے پیچھے مجھے پہلے لگوایا تھا وہ بھی اس کی گرل فرینڈ تھی لیکن جلد ہی اس کی عادات اور خصلتوں کی وجہ سے اس سے دور ہوگئی تھی۔۔
اس نے بہت برا کیا اس لڑکی کے ساتھ اس کے قریبی دوست سے معلوم ہوا تھا کہ شادی کا جھانسہ دے کر اس کا استعمال کرنا چاہتا تھا اور کئی بار ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن وہ لڑکی کو ناجانے کس کی دعاؤں نے زریس کے شر سے بچا لیا ورنہ یہ انسان ہر گندے اور برے کاموں میں ملوث ہے اسے خود کی اترن بنا کر کسی اور کے حوالے کر دیتا ۔۔۔۔۔
رپورٹر اسے ہر چیز کی وضاحت دے رہا تھا جبکہ اس کی آواز عصار کیلئے اپنے کانوں میں گھلتا اور گرتا ہوا سیسہ محسوس ہورہا تھا جو اسے تکلیف سے دوچار کیے رکھا تھا اب تو اسے اپنے پاؤں سے بھی سیخ سا محسوس ہورہا تھا۔۔۔
سننے کے بعد اس کے ذہن میں ایک طوفان برپا ہوگیا وہ ساری باتیں وہ ساری کی جانے والی حرکتیں اور عفہ کی دلیلیں سب اس کے سامنے گھوم رہا تھا ۔زبان پر ایسے تالا لگ گیا جیسے کوئی سانپ اس کی زبان اور بدن کر سونگھ گیا ہو۔۔۔ سخت سردی میں بھی اسے اپنی کنپٹی پر سے پیسنے کا اخراج محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
و۔۔۔۔وہ کہاں ہیں ابھی۔۔۔۔؟؟؟؟ مشکل سے ہڑبڑاہٹ سے بولتا ہوا عصار سوال کناں ہوا۔۔۔۔
سر وہ اس وقت بھی ایک بار میں موجود کسی کی عزت کو خوش اسلوبی سے پامال کرنے میں مصروف ہے میں آپکو اسکا ایڈریس ابھی سینڈ کر دیتا ہو۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی اس نے کال کاٹ دی جب کے عصار اپنا سر پکڑے پیچھے قدم لینے لگ گیا۔۔۔۔۔
اوہ میرے خدا میں نے یہ کیا گناہ کر ڈالا۔۔۔ مجھ سے یہ کیا ہو گیا۔۔؟؟؟ وہ چیختی رہی چلاتی رہی میں اسے وہاں اکیلا چھوڑ آیا تھا۔۔۔
اپنے ہاتھوں۔ کو آسمان کی جانب اٹھایا اور پھر انہیں کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
 یاللہ اس کی حفاظت تو تو نے کی تھی ناں بولے بھی؟؟تو نے کیوں نہ روکا مجھے کسی کی عزت سے کھیلتے ہوئے؟؟؟ کیوں میں کسی کے انسوں اور سسکیوں کی وجہ بناء؟؟؟ خدارا میں نے اسے نیم پاگل کردیا۔۔۔۔ آسمان کی جانب دیکھتے وہ پاگلوں کی طرح بول رہا تھا الٹے قدم چلتا عصار ایک دم گر گیا۔۔۔۔
وہ سہی کہتی تھی کہ میں کم ظرف انسان ہو۔۔۔ جو کسی کی عزت کا کھیلونا بنا کر بیچ سکتا ہے۔۔۔۔
وہ پا۔۔۔۔پاک تھی میں اسے گندہ کردیا۔۔۔۔ یہ سب کیا کردیا میں نے ؟؟؟ کیوں نہ سنی اس کی۔۔۔۔؟؟؟ گرتا پڑتا اٹھتا عصار اپنی گاڑی کی جانب بھاگا ۔۔۔۔
سٹئرنگ سنبھالا ہی تھا کہ تبھی رپوڑٹر کا میسج بھی آگیا میسج پڑتے ساتھ ہی گاڑی کو ایڈریس کی سمت لیا۔۔۔۔
گاڑی چلاتے ہوئے بھی وہ خود کو کوس رہا تھا بار بار اپنا ہاتھ وہ سٹئرنگ پر مارتا اور پھر خود چلا اٹھتا۔۔۔۔
آنکھوں سے پہلے بار ایک لڑکی کیلئے آنسوں بہاتے ہوئے اسکا دل پھٹ رہا تھا لڑکی بھی وہ جس کے ساتھ اس نے برا کرنے اور اسے زلیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔
کچھ پل میں ہی وہ اس کلب کے باہر موجود تھا جسکاایڈریس رپورٹر نے بھیجا تھا ۔ اپنے اندر ایک طوفان کو تھامے وہ اندر کی جانب بڑھا جسم میں حرارت تیز جس سے چہرہ کان اور ناک سرخ ہوچکے تھے۔ وہی تیز سر کو چیڑ کر رکھ دینے والا میوزک ساری طرف گونج رہا تھا اپنی نظروں کو گھوماتے ہوئے وہ زریس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھا کہ تبھی اسے زریس کی پشت نظر آئی اپنے اردگرد کے لوگوں کو دھکیلتا ہوا وہ زریس کی جانب بڑھا۔۔
کمر پر ہلکی سی تھپکی دی کہ کنفرم کر لے کہ وہ زریس ہے بھی کہ نہیں۔۔۔ جیسے ہی اس نے پیچھے چہرہ کیا تو وہ زریس ہی نکلا۔۔۔۔۔
خود کے غصے پر قابو کیے جو بیٹھا تھا زریس کو ایک لڑکی کے ساتھ چپکے دیکھ کر ایک مکا اس کے منہ پر دے مارا جس سے اس کی ناک سے خون کی لڑی پھوٹن لگ گئی اور وہ دور جا کر گر گیا ۔۔۔
ہاتھ سے اپنے ناک سے نکلتے ہوئے خون کو دیکھ کر زریس نے سوالیہ نظروں سے اس طرح مارنے کی وجہ پوچھی۔۔۔
عصار ایک بار پھر اس کی جانب بڑھا زریس چونکہ گرا ہوا تھا لہذا اسی پر سوار ہوگیا اور دے مکے پر مکا مسلسل اس کے چہرے پر مارتا گیا۔۔۔ یہاں تک اس کا چہرہ خون آلود ہوگیا۔۔۔۔ اور عصار کی اپنی انگلیوں سے بھی خون نکلنے لگ گیا۔۔۔ کالر سے پکڑتے ہوئے اسے باہر کی جانب کھینچ لیا۔۔۔ سب عصار کی جارحانہ انداز کو منہ کھولے دیکھ رہے تھے جبکہ زریس اسی طرح کھینچا اس کے ساتھ چل رہا تھا جیسے اسے اب ہوش نہ ہو۔۔۔
باہر ٹھنڈی ہوا میں لا کر اسے زمین پر پٹخ دیا۔۔۔۔۔
زمین بوس زریس کو ابھی تک ایسی دشمی کی وجہ بھی معلوم نہ تھی۔۔۔۔ جبکہ عصار وہی اس کے پاس ٹھہلتا گھوم رہا تھا جیسے خود پر قابو کرنے کی کوشش کررہا ہو۔۔۔۔۔۔۔ کہ تبھی اسے پولیس کی گاڑی کے ہارنے کی آواز سنائی دی اس سے پہلے وہ وہاں سے جا پاتا پولیس عصار کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئی جبکہ اب لوگ خون آلود زریس کے اردگرد کھڑے ایمبولینس کا انتظار کررہے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے اور رائے ضرور دیں 😊نوٹ: رائٹر کی اجازت کے بناء کوئی کاپی نہ کرے
#ذت_عشق
#از_رابعہ_بخاری
#ناول_ہی_ناول
#قسط_نمبر_19

کچھ ہی گھنٹوں میں عفہ اور سمرا بینکاک کی کھلی اور خاموش فضاؤں کو چھوڑ کر پاکستان کی گنگناتی اور ہل چل مچا دینے والی ہواؤں میں سانس لینے لگ گئی۔۔۔ آئیر پورٹ میں آدھے گھنٹے کی کاروائی کے بعد بلآخر چار سال کے لمبے عرصے کو پار کرکے عفہ آج اپنے گھر والوں کی شکل دیکھنے جارہج تھی جو دور کھڑے عفہ کو دیکھ کر بے تاب ہوگئے تھے ہاتھوں میں سامان لیے دونوں تیزی سے اپنے اپنے گھر والوں کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
عفہ تیزی سے قدم اٹھاتی جیسے ہی صبین بی بی( والدہ) کی جانب بڑھی تو مشتاق صاحب(والد) دونوں کے درمیان آگئے۔۔۔ والد صاحب کو اچانک اپنے سامنے آتے دیکھ کر عفہ کہ قدم وہی رک گئے۔۔۔ اور وہ ٹھٹک سی رہ گئی۔۔۔
والد صاحب کی آنکھوں میں زیادہ دیر تک دیکھنے کی ہمت نہ تھی تو فورا نظریں جھکائے سلام کر کے خاموش ہوگئی ۔۔۔۔۔
مشتاق صاحب مسلسل عفہ کو دیکھ رہے تھے جیسے بغور اس کی آنکھوں کا جائزہ کرنے کی کوشش کررہے ہو کہ شاید ان کی بیٹی پچھلی راتیں خوب روئی ہیں۔۔۔
 سمجھ نہ آنے کی صورت میں بلآخر سوال کر ہی بیٹھے۔۔۔۔۔
پہلے یہ بتاؤ میری عزت کا خیال رکھا ہے وہاں کہ نہیں؟؟؟؟ آواز میں دبدبہ اور مردانی طاقت کا استعمال بہتر طریقے سے کرتے ہوئے بولے ۔۔۔۔۔۔
سوال کو سنتے ساتھ ہی عفہ ایک دم جھنیب سی گئی جیسے اس کے زلالت کے پوسٹر پاکستان بھی لگ چکے ہو ۔۔۔
بولو بھی کچھ پوچھ رہا ہو میں تم سے عفہ بخاری؟؟؟؟ ایک بار پھر گرج کر بولے۔۔۔۔
آواز سن کر عفہ مزید ڈر سی گئی ایک تو رات بھر سوئی نہیں تھی دوسرا سفر کے تھکاوٹ اس کے چہرے اور آنکھوں پر صاف عیاں تھی اور نہلے پہ دھلا کہ سامنے کھڑے بابا جانی جو کہ پہلے بھی اس کے جانے پر بہت زیادہ ناراض تھے اور بینکاک جانے کے بعد بھی اس سے بہت ہی کم بات کرتے تھے آج اس کے سامنے کھڑے سوال کناں تھے ۔۔۔۔
بناء کچھ بولے عفہ آگے کو بڑھی اؤر مشتاق صاحب کے ساتھ لگ گئی۔۔۔۔
جیسے ہی وہ لگی مشتاق صاحب کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔
جبکہ چار سال بعد دور ہونے کی وجہ سے عفہ کی آنکھوں سے آنسوں برس پڑے اور وہ گلے لگنے کے بعد رونے لگ گئی۔۔۔۔۔۔
بہت مس کیا میں نے بابا آپکو بہت مس کیا آپکو؟؟؟ انکھوں سے انسوں بہاتی عفہ اپنا سر مشتاق صاحب کے دل پر رکھتے ہوئے اپنی بازوؤں سے مضبوطی سے ان کو تھام لیا ۔۔۔
میرا بچہ ڈر گیا تھا بابا کے لہجے سے۔۔۔۔۔ بابا نے بہت مس کیا اپنی جان کو ۔۔۔۔۔ پتہ کتنا سکون مل رہا ابھی گلے لگا کر ایسے لگ رہا جیسے جسم کا ایک حصہ جو الگ ہوگیا تھا آج واپس وہی صیحح سلامت اپنی جگہ پر آ کر لگ گیا ہے میں نے بھی بہت یاد کیا بہت زیادہ۔۔۔۔ اپنی بانہوں کو عفہ کے گرد حمائل کرتے مشتاق صاحب نے عفہ کو اپنے حصار میں لے لیا۔۔۔۔
جبکہ عفہ جو کہ ایک تو واپس ملنے پر خوش ہو رہی تھی جبکہ دوسری جانب مشتاق صاحب کے سوال کا جواب نہ دینے پر بھی اپنے آنسوں کا ضیاع کررہی تھی۔۔۔۔۔
اچھا اب بس بھی کریں آتے ساتھ ہی اسے رلا دیا اب آپ نے مل لیا تو میں بھی مل لوں اپنی بیٹی سے کہ نہیں اوپر سے دیکھے کتنی کمزور ہوگئی ہیں آگے ہی تیلی میں جان اٹکی تھی اب تنکے میں آگئی ہیں ۔۔۔۔۔ صبین بی بی مشتاق صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولی جو کب سے انتظار کررہی تھی کہ کب باپ بیٹی کا پیار ختم ہو اور وہ اپنی لاڈیاں عفہ پر نچھاور کرے۔۔۔۔
ہاں جی مل لیں آپ بھی لیکن یاد رکھیں یہ بس میری بیٹی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مشتاق صاحب مسکراہٹ دیتے ہوئے بولے اور عفہ کے کندھوں کو تھامتے ہوئے اسے صبین بی بی کے سامنے کھڑے کردیا۔۔۔۔
اماں کو دیکھتے ہی ناجانے کیوں عفہ کا دل ابھر آیا دوبارہ جیسی ہی ساتھ لگی پھر سے رونے لگ گئی۔۔۔۔۔۔
اللہ کیا ہوا میری بچی کو آتے ساتھ ہی روتی جارہی ہیں کچھ ہوا ہے کیا؟؟؟ کسی نے کہا کچھ؟؟؟؟ پریشانی سے مشتاق صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
نہیں۔ اماں کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔۔۔ بس دل بھر آیا آپکو اتنے سالوں بعد ملی نہ تو بس اس لیے۔۔۔۔۔ خود کو سنبھالتے ہوئے وہ سبین بی بی کے سامنے کھڑی ہوئی تو سبین بی بی نے اپنے ہاتھوں سے اس کی آنکھوں کو صاف کیا اور ماتھے پر اپنے لب رکھ کر ایک پیار بھرا بوسہ اس کے ماتھے پر چھوڑ دیا جس کی عفہ کو اشد ضرورت تھی ۔۔۔۔۔
عفہ کو ائیر پورٹ پر لینے صرف مشتاق صاحب اور صبین بی بی ہی آئیں تھے لہذا فورا سمرا سے سرسی سی الوداعی ملاقات کے بعد سب نے گاڑی کا رخ کیا اور گھر کی راہ لی۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے راستے صبین بی بی عفہ کو پیار کرتی رہیں اسے اپنے ساتھ لگا کر بیٹھی رہی جبکہ عفہ بھی اپنی بانہوں سے اماں کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے رہی۔۔۔ جیسے ایک عرصے کے بعد اس کو سکون کی چھاؤں ملی ہو ورنہ بینکاک میں سمرا کی تسلی کے باوجود اسے ہمیشہ اکیلا پن اور بے چینی سی رہتی تھی لیکن آج اماں کی آنچل میں بیٹھنے سے اسے ہر طرح کے شر سے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
کافی دیر گاڑی کی مسافت برداشت کرنے کے بعد بلآخر عفہ گھر میں داخل ہو ہی گئی۔۔۔ سارے خاندان والے عفہ کا استقبال کرنے کیلئے گھر میں موجود سجاوٹ کیے انتظار کررہے تھے عفہ کو اندر آتے دیکھتے ہی اس پر پھولوں کی پتیاں برسائی گئی اور حیرانگی کی تصویر بنی عفہ بس اردگرد کے ماحول کو دیکھ کر پریشان سی ہوگئی تھی ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے عفہ باہر سے پڑھ کر نہیں بلکہ ایک بڑی جنگ لڑ کر آئی ہیں جو کہ غلط کہنا ٹھیک نہ ہوگا۔۔۔۔۔
سب لوگوں سے ملاقات کرنے کے بعد کچھ دیرعفہ سب میں بیٹھی رہی کچھ اپنی بتانے لگ گئی اور کچھ ان کی سننے لگ گئی ۔ سر میں درد جو پہلے ہلکا سا اپنا احساس دلوا رہا تھا اب اس کے سر پر ہتھوڑے بنے دماغ میں بجتے ہوئے ایک ناقابل برداشت تکلیف پیدا کررہا تھا آہستگی سے خود کو اس ماحول سے غائب کرتے ہوئے وہ فورا پنے کمرے کی جانب بڑھی جہاں وہ جانے سے پہلے رہا کرتی تھی جیسا چھوڑ کر گئی تھی ویسا ہی سب کچھ پا کر ایک عجیب سی خوشی اس کے چہرے پر ظاہر سی ہوئی فورا عبایا سے خود کو آزاد کیا اور چھلانگ لگاتی ویسے ہی بیڈ پر بیٹھ گئی جیسے وہ بیٹھا کرتی تھی خود کو پہلے جیسا محسوس کر کے اسے اندر سے سکون اور اطمینان سا محسوس ہورہا تھا اپنی پرانی یادوں میں کھوتی عفہ وہی سر تکیہ پر دہرے نیند کی وادیوں کی لمبی سیر پر روانہ ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا عصار بظاہر تو سو رہا تھا لیکن دماغ میں وہی سب عفہ کی باتیں گونج رہی تھی جس سے وہ بے چینی سے اپنے بیڈ پر گھوم رہا تھا تھکاوٹ کی وجہ سے آج آتے ساتھ ہی اسے ڈریس میں وہ بیڈ پر گر گیا تھا نہ جوتے اتارنے کی ہوش نہ کھانے کی تمنا۔۔۔ ایک دم اسے اپنے کان کے پاس کسی لڑکی کے رونے کی زور دار طریقے سے آواز آئی ۔۔۔۔ آواز سنتے ہی عصار تیزی سے جھٹکا کھاتے ہوئے زمین بوس ہوگیا اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیا کسی کو نا پایا تو دوبارہ بیڈ پر بالوں کو ہاتھوں میں جکڑے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
یاللہ رحم مجھے کس بات کی سزا مل رہی ہے میں نے تو کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تو پھر یہ سب کیوں؟؟؟ ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک عفہ کی طرف سے دی جانے والی دعا میں چھپی بدعا عصار کے ذہن میں ڈنکا بجاتے ہوئے گھومنے لگ گئی۔۔۔۔۔
کہیں اس کی طرف سے جو مجھے بدعا ملی یہ سب اس کی کارستانیاں تو نہیں۔۔۔۔۔۔ پریشانی سے اٹھا اور ٹہلتے ہوئے بولنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔
ارے نہیں جو لوگ خود ایک بدعا کہ شکل میں دنیا میں موجود ہو ان کی بدعا کہاں لگتی بھلا۔۔۔۔۔ مجھے لگتا میں نے بہت زیادہ ہی اس کی باتوں کو سر پر سوار کرلیا ۔۔۔۔
کچھ بریک لینا چاہیے مجھے خود کو سکون دینا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ اردگرد نظر گھوماتے ہوئے اپنی جیکٹ پکڑی گاڑی کی چابی ہاتھ میں تھامے ایک نظر گھڑی کی چلتی سوئیوں کی جانب ڈالی جہاں رات کے ایک بج رہے تھے۔۔۔
تیزی سے اپنے فلیٹ سے باہر نکلا اور بناء منزل کے گاڑی کو دوڑانا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہو میں ٹھیک ہو اور میں نے ٹھیک کیا۔۔۔ اسے سبق سیکھانا بہت ضروری تھا اب کسی کے ساتھ بھی ایسا کرتے ہوئے اسے یہ یاد ضرور آئے گی کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی عصار نامی بندہ اس کے ناپاک چہرے کو فاش کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی کو بیگانہ وار گھوماتے وہ اردگرد کی عمارتوں پر نظر گھوما رہا تھا کہ تبھی اسے جگ مگ کرتا ایک کلب نظر آیا جہاں سے ہلکی ہلکی سی آواز باہر کی جانب سب کو اپنے سروں میں محصور کیے رکھی۔۔۔۔۔۔۔
کچھ پل گاڑی میں بیٹھا اس کلب کو دیکھتا رہا جہاں اس نے عفہ کو سب کے سامنے زلالت کی حد کو چھوتا ہوا زلیل کیا تھا۔۔۔۔۔
گاڑی سے باہر نکلا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے وہ اس کلب کے اندر جانے کا سوچنے لگا کہ شاید وہاں سے اسے کچھ پل سکون کے میسر نہ ہو سکے۔ لیکن ہر قدم اسے اپنے ادا کیے جانے والے الفاظ اورسسکیاں بھرتی عفہ کی یاد دلاتی رہا تھس کہ تبھی اسے پھر سے اپنے بازو پر عفہ کے وہی گرم ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔۔۔ قدم وہی رک گئے ایک پل کو مڑا تو جیسے اس کا ضمیر اسے ملامت کررہا ہو لیکن اس کی سوچ اس کے ضمیر کی ملامت کو مسلسل درگزر کر رہی تھی۔ کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ منہ میں بڑبڑانے کے انداز الفاظ گو ہوا۔۔۔۔۔
میں نے ٹھیک کیا تھا عفہ کے ساتھ آئی سمجھ تمہیں سمجھ آرہی ہے ناں کیوں پاگل کر رہے ہو خود کو عصار تم ٹھیک تھے ہو اور رہوں گے بس کرو اب ۔۔۔۔
چلتے چلتے اچانک اس کی ٹکر کسی سے ہوئی لیکن وہ شخص لڑکھڑاتا ہوا اندر کی جانب بناء دیکھے بڑھ گیا۔۔۔ عصار کو محسوس ہوا کہ شاید وہ اس شخص کو جانتا ہے کانوں سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے وہ فورا اسکی شخص کی جانب مڑا اپنی سوچ کو سائیڈ پر کرتے وہ قدم بہ قدم قریب بڑھا۔۔۔۔۔
کلب کے اندر جانتے ہوئے ایک تیز میوزک اس کے کان پر تباہیاں کررہا تھا۔۔۔ لیکن وہ بس اس شخص کے راغب چل رہا تھا۔۔۔۔
اچانک وہ شخص رک گیا اور ایک فرنگن لڑکی جو کہ نازیبا لباس میں ملبوس اس لڑکے کے قریب کھڑی مسکرا رہی تھی کہ تبھی وہ لڑکی اس شخص کے چہرے پر جھکی اور دونوں کے چہرے کے درمیان فاصلے نہ رہا۔۔۔ دیکھتے ساتھ ہی عصار نے اپنا چہرہ دوسری جانب کیا اور پھر لمحہ گزرتے ساتھ ہی واپس دیکھ تو وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ زریس ہی تھا۔۔۔۔
یہ بہت غلیظ انسان ہے جس کی ہر رات کسی لڑکی کے ساتھ گزرتی ہیں ۔۔۔۔ عفہ کی آواز اس کے سماعت کے ساتھ ٹکرائی اور آنکھوں سے گھورتا ہوا وہ اس شخص کے نزدیک ہوا۔۔۔۔۔
لیکن اس سے پہلے وہ اس تک جاتا وہ شخص اس لڑکی کے ساتھ کہیں غائب ہو چکا تھا۔۔۔ لوگوں کو اردگرد کرتے وہ اس شخص کو ڈھونڈنے کیلئے پورے کلب کو کھنگال رہا تھا لیکن ناکام ہوتے ہوئے واپس اس کلب سے باہر آگیا۔۔۔۔۔۔
کہیں عفہ کی بات ٹھیک تو نہیں تھی۔۔۔ یاللہ کس عذاب میں پڑگیا میں میں کیوں کودا اس معاملے عصار تو دنیا کا بےوقوف ترین انسان ہے جو بےگانی شادی میں دیوانہ وار گھوم رہا تھا۔ مجھے اس کا پتہ لگانا پڑے گا تاکہ میرا ضمیر جو مجھے روز سولی پر لٹکاتا ہے اس سے خود کو آزاد کروا سکوں گا اور اس کیلئے مجھے زریس کے سارے ٹھکانوں کی معلومات لینی پڑنی ہے۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی موبائل نکالا سور اپنی اسے رپوڑٹر کو اب زریس کے بارے میں آگیا کرتے ہوئے فون بند کردیا۔۔۔۔ آسمان آج سیاہ تھا لیکن چاند اپنی جوبن پر تھا لہذا رات کی تاریکی میں بھی ہر طرف چاند کی روشنی اپنی چمک چہچہا رہی تھی۔۔۔۔
آسمان کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔
یاللہ میرا سر نہ جھکائی اور جس بات کا ڈر میرے اندر پننپ رہا ہے وہ ڈر صرف ڈر ہی رہے میرے سامنے سچ بن کر نہ ابھرے۔۔۔ ورنہ ناجانے عدہ کی بدعا سچ بن کر مجھ پر کیا قیامت ڈھائے۔۔۔۔۔۔ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے وہ خاموش کھڑے عفہ کیلئے کی جانے والی باتوں کو سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا دال پانی اور ہوا کھاتے عفہ کو دو دن گزر چکے تھے لیکن ابھی تک وہ خود کو اس ماحول میں ایڈجسٹ نہیں کر پارہی تھی ۔۔
خاموشی سے کمرے میں بیٹھا پورا وقت گزرجاتا جبکہ سبین بی بی اس کی حالت کو دیکھ کر پریشان سی ہوگئی تھی ۔ بلآخر مشتاق صاحب کے کہنے پر عفہ کے کمرے میں بنا دروازہ ناک کیے آگئی تھی۔ عفہ کا کمرہ گراونڈ فلور پر گھر کی پشت جبکہ باغ کے سامنے جہاں سے وہ روز کھڑکی کو کھول کر سورج کی پہلی آنے والی کرنوں کو مسکراتی ہوئی ایسی خوشآمدید کرتی تھی جیسے وہ کرنیں نئے دن کے آغاز کے ساتھ اس کیلئے ڈھیروں ڈھیر امیدیں اور خوشیاں لاتی ہیں کمرہ خوبصورت رنگوں اور یونیک خوبصورت چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔۔ جو پہلے تو بلکل اس کے مزاج جیسا تھا لیکن اب وہ سب چیزیں اس کو بلکل بھی نہ بھاتی تھی ۔ خاموش بستر پر سر دہرے چھت کی طرف آنکھیں گھاڑی لیٹی عفہ اماں کی آمد پر بےخبر ڈگڈی باندھیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ سبین بی بی اس کے پاس آکر بیٹھ گئی اور ہلکے سے اس کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگ گئی ایک نظر سبین بی بی کو دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ دیتے ہوئے عفہ واپس چھت کو دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔۔۔۔
ایسی کیا بات ہوئی عفہ کیوں اکیلے بیٹھی رہتی ہو۔؟؟؟ کچھ ہوا ہے کوئی مسئلہ ہے تو بتاؤ ایسے کمرے میں بند رہنا ٹھیک نہیں نہ..... سبین بی بی کی پریشانی دیکھ کر عفہ فورا ان کے گود پر اپنا سر ٹکائے ہاتھوں سے نرم اور پیار بڑھی گود کو پکڑے سکون اور محبت کے مزے لینے لگ گئی تھی۔۔۔۔
نہیں اماں ایسا کچھ بھی نہیں وہ بس یونہی۔۔۔۔۔۔
نہیں عفہ یونی کوئی جواب نہیں ہوتا ۔۔ اتنے سالوں بعد آئی ہو سب ملنے کو آرہے ہیں بھائی کے سسرال والے بہن کے سسرال تمہاری اپنی کزنز خالہ ماموں دادکے سے سب آرہے ہیں لیکن تم بس مل کر واپس کمرے کی جانب بھاگ پڑتی ہو جیسے نہ جانے کونسے کانٹے گاڑے وہ تمہارے لیے بیٹھے ہیں ۔ شرمندگی ہوتی مجھے جب تم جاتی ہو ان کے درمیان سے اٹھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے زبردستی تمہیں وہاں بٹھایا ہو اور جان چھوٹتے ہی بھاگ نکلتی ہو۔۔۔۔۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولی۔۔۔۔۔۔
نہیں اماں ایسا کچھ نہیں۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔ عفہ اٹھ کر ان کے سامنے بیٹھ گئی اور معزرت خواہ ہوتے بولی۔۔۔۔
آپکو تو پتہ ہے وہاں جا کر پہلے مجھے آپ لوگوں کی یاد آتی تھی لیکن اب وہاں رہ رہ کر مجھے خاموشی پسند آگئی ہے تبھی شور شرابے سے دل گھبراتا ہے اب میرا اور میں موقع دیکھتے ہی بھاگ نکلتی ہو۔۔۔ بس کچھ دن دے مجھے میں جلد سیٹ ہوجاؤ گی۔۔۔۔۔ انگلیوں کو ایک دوسرے میں الجھاتے ہوئے بولی ۔۔۔
لیکن بیٹا پتہ نہ بھائی کی شادی سر پر ہے اور ہم دن رکھ چکے ہیں اب اگر تم ایسے ہی کمرے میں بند رہو گی تو کیسے چلے گا؟؟؟
عفہ خاموشی سے ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھی رہی۔۔۔۔۔
چلوں اب منہ بند کیے بیٹھ گئی یہ لڑکی میرے سامنے سمجھ سے باہر یہ تو۔۔۔۔۔۔
اماں تو کیا بولوں آپ سے کہہ تو رہی ہو جلد ایڈجسٹ ہوجاؤ گی۔۔۔۔۔ عفہ منہ بسورتے بولی۔۔۔۔
اور وہ جلد جلد ہی آجائے تو اچھا تمہارے بابا بھی مجھ سے بار بار سول کرتے ہیں جسکا جواب میرے پاس ہوتا نہیں اور تم دینا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔۔
خیر آج چلوں میرے ساتھ کپڑے لے کر آنے اور جیولری بھی دوپہر تک خود کو تیار رکھو اور کوئی بہانہ نہیں اب مجھے بہت کام۔۔۔۔ فریش ہو کر رہنا تم اب۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی سبین بی بی اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک بار سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے واپس کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔
سبین بی بی کے جاتے ساتھ ہی عفہ وآپس گرنے کے انداز میں اپنا سر تکیہ پر گراتے ہوئے لیٹ گئی اور وآپس چھت پر دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں آپ نے جیسی عفہ بینکاک بھیجی تھی مار دیا انہوں نے اسے بے دردی سے۔۔۔ کچلنے کے بعد زندہ درگور کردیا۔۔ نہ چیخ سنی نہ آواز سنی اور نہ ہی کوئی روداد مار کر وہی کسی گہرے دلدل میں پھینک دیا جہاں روز میں دستی چلی جارہی ہو اور پھر بھی کوئی سننے والا نہیں۔۔۔۔۔۔
سوچتے ہوئے ایک آنسوں سیدھی آنکھ کی کنپٹی سے بہتا ہوا تکیہ پر جاگرا جسے اس نے خود میں بخوبی قبول کیا ۔۔۔۔۔۔
بقول اماں کہ خود کو فریز کر کے واپس اپنی روٹین میں آنے کی پہلی سیڑھی چڑھتے ہوئے وہ اماں کے پاس عین وقت پر چلی گئی اور پھر بازاروں کی خاک چھننے کیلئے تگ و دو کرنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کال اٹھاؤ میری حماد کہاں مر گئے ہو؟؟؟؟ مسلسل تین چار بار کالز کرنے کے باوجود کوئی رسپانس نہیں آرہا تھا۔۔ لہذا نومبر کی سردی اور ہلکی ہلکی دھند میں جیکٹ اور مفلر سے خود کو جکڑے وہ چلتا جارہا تھا۔۔
ابھی دوبارہ حماد کو کال ملاتا اس سے پہلے ہی اس کو رپوڑٹر کی جانب سے کال آگئی تھی۔۔۔۔
اور اس کے بعد جو جو اس نے سنا اس کو محسوس ہوا کہ جیسے اس کا جسم جو ابھی سردی سے ٹھنڈا پڑ رہا تھا ایک پل میں سرد ہوچکا تھا ۔۔۔۔۔
جی بولوں کیوں فون کیا؟؟ کوئی خبر؟؟؟ عصار نے ٹھنڈے اور لزرتے ہاتھوں کو ایک دوسرے سے رگڑنے کے بعد وہ لڑکھڑاتے ہوئے الفاظ کی ادائیگی کر کے بولا۔۔۔۔۔۔
سر آپ نے جس بندے کے بارے میں پتہ لگاوانے کا کہا تھا وہ تو نہایت ہی گھٹیا انسان ہے کوئی ایسا بار کلب نہیں جہاں وہ بدنام نہ ہو۔۔
مطلب کیا کہنا چاہ رہے ہو تم؟؟؟؟؟ عصار نے سنا تو چلا کر کاٹ کھانے کو دوڑا کیوں کہ یہ سن کر اسے اپنے غلط ہونے کا احساس محسوس ہونے لگ گیا تھا جس سے وہ کئی روز سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔۔۔
میں ٹھیک کہہ رہا ہو سر روز نئی لڑکی اس کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے ڈرگز ڈرنکنگ یہ سب اسکا معمول ہے اور اپنے جس لڑکی کے پیچھے مجھے پہلے لگوایا تھا وہ بھی اس کی گرل فرینڈ تھی لیکن جلد ہی اس کی عادات اور خصلتوں کی وجہ سے اس سے دور ہوگئی تھی۔۔
اس نے بہت برا کیا اس لڑکی کے ساتھ اس کے قریبی دوست سے معلوم ہوا تھا کہ شادی کا جھانسہ دے کر اس کا استعمال کرنا چاہتا تھا اور کئی بار ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن وہ لڑکی کو ناجانے کس کی دعاؤں نے زریس کے شر سے بچا لیا ورنہ یہ انسان ہر گندے اور برے کاموں میں ملوث ہے اسے خود کی اترن بنا کر کسی اور کے حوالے کر دیتا ۔۔۔۔۔
رپورٹر اسے ہر چیز کی وضاحت دے رہا تھا جبکہ اس کی آواز عصار کیلئے اپنے کانوں میں گھلتا اور گرتا ہوا سیسہ محسوس ہورہا تھا جو اسے تکلیف سے دوچار کیے رکھا تھا اب تو اسے اپنے پاؤں سے بھی سیخ سا محسوس ہورہا تھا۔۔۔
سننے کے بعد اس کے ذہن میں ایک طوفان برپا ہوگیا وہ ساری باتیں وہ ساری کی جانے والی حرکتیں اور عفہ کی دلیلیں سب اس کے سامنے گھوم رہا تھا ۔زبان پر ایسے تالا لگ گیا جیسے کوئی سانپ اس کی زبان اور بدن کر سونگھ گیا ہو۔۔۔ سخت سردی میں بھی اسے اپنی کنپٹی پر سے پیسنے کا اخراج محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
و۔۔۔۔وہ کہاں ہیں ابھی۔۔۔۔؟؟؟؟ مشکل سے ہڑبڑاہٹ سے بولتا ہوا عصار سوال کناں ہوا۔۔۔۔
سر وہ اس وقت بھی ایک بار میں موجود کسی کی عزت کو خوش اسلوبی سے پامال کرنے میں مصروف ہے میں آپکو اسکا ایڈریس ابھی سینڈ کر دیتا ہو۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی اس نے کال کاٹ دی جب کے عصار اپنا سر پکڑے پیچھے قدم لینے لگ گیا۔۔۔۔۔
اوہ میرے خدا میں نے یہ کیا گناہ کر ڈالا۔۔۔ مجھ سے یہ کیا ہو گیا۔۔؟؟؟ وہ چیختی رہی چلاتی رہی میں اسے وہاں اکیلا چھوڑ آیا تھا۔۔۔
اپنے ہاتھوں۔ کو آسمان کی جانب اٹھایا اور پھر انہیں کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
 یاللہ اس کی حفاظت تو تو نے کی تھی ناں بولے بھی؟؟تو نے کیوں نہ روکا مجھے کسی کی عزت سے کھیلتے ہوئے؟؟؟ کیوں میں کسی کے انسوں اور سسکیوں کی وجہ بناء؟؟؟ خدارا میں نے اسے نیم پاگل کردیا۔۔۔۔ آسمان کی جانب دیکھتے وہ پاگلوں کی طرح بول رہا تھا الٹے قدم چلتا عصار ایک دم گر گیا۔۔۔۔
وہ سہی کہتی تھی کہ میں کم ظرف انسان ہو۔۔۔ جو کسی کی عزت کا کھیلونا بنا کر بیچ سکتا ہے۔۔۔۔
وہ پا۔۔۔۔پاک تھی میں اسے گندہ کردیا۔۔۔۔ یہ سب کیا کردیا میں نے ؟؟؟ کیوں نہ سنی اس کی۔۔۔۔؟؟؟ گرتا پڑتا اٹھتا عصار اپنی گاڑی کی جانب بھاگا ۔۔۔۔
سٹئرنگ سنبھالا ہی تھا کہ تبھی رپوڑٹر کا میسج بھی آگیا میسج پڑتے ساتھ ہی گاڑی کو ایڈریس کی سمت لیا۔۔۔۔
گاڑی چلاتے ہوئے بھی وہ خود کو کوس رہا تھا بار بار اپنا ہاتھ وہ سٹئرنگ پر مارتا اور پھر خود چلا اٹھتا۔۔۔۔
آنکھوں سے پہلے بار ایک لڑکی کیلئے آنسوں بہاتے ہوئے اسکا دل پھٹ رہا تھا لڑکی بھی وہ جس کے ساتھ اس نے برا کرنے اور اسے زلیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔
کچھ پل میں ہی وہ اس کلب کے باہر موجود تھا جسکاایڈریس رپورٹر نے بھیجا تھا ۔ اپنے اندر ایک طوفان کو تھامے وہ اندر کی جانب بڑھا جسم میں حرارت تیز جس سے چہرہ کان اور ناک سرخ ہوچکے تھے۔ وہی تیز سر کو چیڑ کر رکھ دینے والا میوزک ساری طرف گونج رہا تھا اپنی نظروں کو گھوماتے ہوئے وہ زریس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھا کہ تبھی اسے زریس کی پشت نظر آئی اپنے اردگرد کے لوگوں کو دھکیلتا ہوا وہ زریس کی جانب بڑھا۔۔
کمر پر ہلکی سی تھپکی دی کہ کنفرم کر لے کہ وہ زریس ہے بھی کہ نہیں۔۔۔ جیسے ہی اس نے پیچھے چہرہ کیا تو وہ زریس ہی نکلا۔۔۔۔۔
خود کے غصے پر قابو کیے جو بیٹھا تھا زریس کو ایک لڑکی کے ساتھ چپکے دیکھ کر ایک مکا اس کے منہ پر دے مارا جس سے اس کی ناک سے خون کی لڑی پھوٹن لگ گئی اور وہ دور جا کر گر گیا ۔۔۔
ہاتھ سے اپنے ناک سے نکلتے ہوئے خون کو دیکھ کر زریس نے سوالیہ نظروں سے اس طرح مارنے کی وجہ پوچھی۔۔۔
عصار ایک بار پھر اس کی جانب بڑھا زریس چونکہ گرا ہوا تھا لہذا اسی پر سوار ہوگیا اور دے مکے پر مکا مسلسل اس کے چہرے پر مارتا گیا۔۔۔ یہاں تک اس کا چہرہ خون آلود ہوگیا۔۔۔۔ اور عصار کی اپنی انگلیوں سے بھی خون نکلنے لگ گیا۔۔۔ کالر سے پکڑتے ہوئے اسے باہر کی جانب کھینچ لیا۔۔۔ سب عصار کی جارحانہ انداز کو منہ کھولے دیکھ رہے تھے جبکہ زریس اسی طرح کھینچا اس کے ساتھ چل رہا تھا جیسے اسے اب ہوش نہ ہو۔۔۔
باہر ٹھنڈی ہوا میں لا کر اسے زمین پر پٹخ دیا۔۔۔۔۔
زمین بوس زریس کو ابھی تک ایسی دشمی کی وجہ بھی معلوم نہ تھی۔۔۔۔ جبکہ عصار وہی اس کے پاس ٹھہلتا گھوم رہا تھا جیسے خود پر قابو کرنے کی کوشش کررہا ہو۔۔۔۔۔۔۔ کہ تبھی اسے پولیس کی گاڑی کے ہارنے کی آواز سنائی دی اس سے پہلے وہ وہاں سے جا پاتا پولیس عصار کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئی جبکہ اب لوگ خون آلود زریس کے اردگرد کھڑے ایمبولینس کا انتظار کررہے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے اور رائے ضرور دیں 😊

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─