┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄.

ناول: ذت_عشق
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_17

اندر کی جانب بڑھتے ہوئے عفہ کے قدم تو لڑکھڑا ہی رہے تھے جبکہ اس کی روح بھی کانپ رہی تھی۔ عصار کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کرنے کے باوجود وہ اس کے ساتھ گھسیٹتی چلے جارہی تھی کہ ایک قدم میں وہ ایک بڑے اندھیرے نما حال میں پہنچ گئی جہاں ایک عجیب فاسٹ میوزک لگا ہوا تھا جس پر ہر کوئی اپنی ہی مستی اور نشے میں مگن جھوم رہا تھا۔۔ 
وہی ناگوار بدبو ایک بار پھر اس کے نقاب سے ٹکرائی جو پہلے زریس کے ساتھ آنے پر اس نے محسوس کی تھی۔ 
ایک بار پھر عصار کی جانب ہوئی کہ شاید وہ اس کی بےبسی کو دیکھ کر اسے چھوڑ دے ۔۔۔۔
عفہ نے ایک بار پھر بھرپور کوشش لگائی اور عصار کے قدم روک ڈالے۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات سنے عصار پلیز مجھے نہیں جانا اندر یہ بہت گندی جگہ ہیں پلیز مجھے نہ لے کر جائے آپ کو میرا نہ سہی اس پردے کا واسطہ مجھے چھوڑ دے مجھے نہیں جانا یہ بہت گندے لوگ ہیں۔ مجھ سے ان کی نظریں برداشت نہیں ہونگی پلیز عصار میں آپکے سامنے ہاتھ جوڑتی ہو مجھے اتنا زلیل نہ کرے کہ میں خود کا سامنا نہ کر پاؤ۔۔۔۔۔۔ عفہ ہاتھ جوڑے عصار کے سامنے کھڑی تھی جسے عفہ کی ہر کئ گئی حرکت ایک دلکش فریب کے مانند نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔
واہ مکار عورت عجب تیری مکاری۔۔۔۔ عصار طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔ اور عفہ کو اپنے قریب کرتے ہوئے غصے سے پھٹتے ہوئے بولا آواز میں زور اور الفاظ میں تیر جیسی دھاڑ لیے وہ بظاہر چلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
 تب یہ گندی نظریں کہاں تھی جب مسکراتی ہوئی زریس کے ساتھ یہاں آئی تھی تب کیوں نہ پردے کی لاج یاد آئی تب کیوں نہ یہ نظریں یاد آئی جن کے سامنے تو بناء شرم و حیا لیے اپنے حسن کا پیکر بنے چادر کو تاڑ تاڑ کر رہی تھی جس کی دہائیاں تم آج دے رہی ہوں۔ ویسے شرم آتی ہیں تم جیسی عورتوں پر جو اپنے مفاد کیلئے پاک پردے کا استعمال کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عصار کی آگ اگلتی باتوں کو سن کر عفہ کو یقین آگیا تھا کہ وہ اب اس کے شر سے بچ نہیں سکتی لہذا جیسے ہی عصار عفہ کا ہاتھ پکڑے اندر کی جانب بڑھنے لگا عفہ نے عصار کے ہاتھ پر اپنے دانت گڑھ ڈالے جس کی تکلیف سے عصار بلبلا اٹھا اور تبھی عفہ کا ہاتھ عصار کے ہاتھ سے نکل گیا موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عفہ تیزی سے قدم اٹھاتی باہر کی جانب بڑھ گئی لیکن اس سے پہلے وہ باہر کو نکلتی پیچھے کی جانب دیکھتے ہوئے کہ عصار تو اس کے پیچھے نہیں آرہا وہ کسی کے سینے سے جا ٹکرائی جیسے وہ شخص چاہتا تھا کہ عفہ اس سے ٹکرائے اور وہ خود اپنی مرضی سے اس کی راہ میں کھڑا تھا۔۔۔۔۔
ٹکراتے ساتھ ہی عفہ پیچھے کی جانب گرنے لگی کہ کسی نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا اور وہ سنبھل گئی۔۔۔۔۔
سنبھلتے ہوئے جیسے ہی کھڑی ہوئی تو سامنے کے شخص کو دیکھ کر عفہ کا دل کیا کہ زمین وہی پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔۔۔
اپنا ہاتھ زریس کے ہاتھ میں دیکھ کر وہ طیش میں آگئی تھی اپنے ہاتھ کو بظاہر کھینچتے ہوئے وہ ایک مورت سی بنی اس کی غلیظ مسکراہٹ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
اب تک عصار بھی عفہ تک پہنچ چکا تھا اور زریس کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ عصار نے ہی اسے یہاں بلایا ہے۔۔۔۔۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا زریس عفہ کی جانب بڑھ رہا تھا جبکہ عفہ زریس کی آنکھوں میں موجود غلاظت کو دیکھ کر پیچھے کی جانب قدم اٹھا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
کیسی ہو میری جان عفہ ؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔ زریس ابھی بھی اس پر نظریں جمائے اسے ویسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ بھی کہتی عصار جو پیچھے کھڑا تھا اب وہ بھی عفہ کے ساتھ کھڑا زریس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
عفہ نے جیسے ہی عصار کو اپنے پاس کھڑا دیکھا فورا زریس کی گندی نظروں سے خود کو بچانے کیلئے اس کی بازو کو تھام لیا اور خود کو اس کے پیچھے چھپا لیا۔۔۔۔۔
پ۔۔۔۔۔۔پلیز ع۔۔۔۔۔عصار مجھے یہاں سے لے جائے نہیں تو میرا دم نکل جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز مجھے لے جائے یہاں سے۔۔۔۔۔نجھے یہاں مت چھوڑنا ۔۔۔۔۔۔ لے جائے یہاں سے مجھے۔۔۔۔۔ عفہ کی زبان ابھی بھی یہی بات دھرا رہی تھی جبکہ عصار کے چہرے پر نفرت انگیز تاثرات اپنا رقص جمائے بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔
عصار نے ایک نظر کانپتی عفہ کو دیکھا جس کا پورا وجود خوف کی وجہ سے لزر رہا تھا ایک پل کو اس کے دل میں رحم آیا کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا لیکن دوسرے ہی پل اپنی سوچ کی نفی کرتے ہوئے عفہ کے ہاتھ کو اپنے بازو سے بے دردی سے جھٹکا دیا۔۔۔۔۔ عفہ اس جھٹکے کو برداشت نہ کر سکی اور اب کی بار وہ نیچے گر گئی ۔۔۔۔
آنسوں تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھے سوچ یہی کہ کہ وہ اب تک مر کیوں نہ گئی۔۔۔۔۔۔ اسی اثناء میں عصار نے زریس کو اشارہ کیا اور خود عفہ کی جانب بڑھ گیا جو ابھی بھی ویسے ہی گری اپنے نصیب پر آنسوں بہا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
عفہ کو بازو سے پکڑتے ہوئے وہ فرعون کی شکل اختیار ر کیے اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔
ایک جھٹکا عفہ کی بازو پر دیا جس سے وہ سب کے درمیان آکر کھڑی ہوگئی۔۔۔۔ میوزک ابھی بھی چل رہا تھا لیکن وہاں موجود سب لوگ عفہ کو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
زریس بھی عصار کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا گو جیسے اب ایک لڑکی کی عزت کا تماشا لگنے والا ہو۔۔۔
ویٹر کو اشارہ دیا اور ایک ویکسی کا گلاس آرڈر کرواتے ہوئے عصار مظمئن انداز میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
نظریں جھکائے کھڑی عفہ کی رونے کی آواز اب مکمل ہچکیوں کی شکل ا ختیار کر چکی تھی جس کی اواز اب پورے کلب میں سنائی دے رہی تھی شاید گواہ بنا رہی ہو اس ہوا کو کہ آیک لڑکی کو اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی تھی۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں ویکسی تھامے عصار مسکراتا ہوا عفہ کی جانب بڑھا جس کی ہمت نہ تھی کہ اپنے اردگرد کے ماحول کا بھی جائزہ لے سکے ۔۔۔۔۔ 
زریس دیکھو تمہاری مجرم کیسے تمہارے سامنے کھڑی کردی میں نے۔۔۔۔۔ گھونٹ بھر گھونٹ بھرتے ہوئے وہ عفہ پر نظریں جمائے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
ویسے حیرت ہوئی یار تمہاری چوائس پر دل بھی ہارا تو کیسی بدکردار لڑکی پر جو پل بھر میں یار بدل لیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ عصار عفہ کے روبرو کھڑے اسے دیکھ بول رہا تھا۔۔۔۔
عفہ عصار کی باتیں سن رہی تھی اور ایک ایک لفظ کو اپنے دل و دماغ میں نقش کررہی تھی اور خود کو ایک سبق سیکھا رہی تھی کہ جب انسان اپنے اللہ کے علاؤہ کسی اور پر یقین کرتا ہے تو رسوائی کے سوا اسے اور کچھ نہیں ملتا اور اپنی اسی کی جانے والی غلطی کی سزا اس صورت میں دیکھ کر وہ خود اس سزا کی حقدار سمجھ چکی تھی۔۔۔۔
زریس نے عفہ کی بہتی ہوئی آنکھوں کو دیکھا تو فورا اس کی جانب لپکا اور جیسے ہی اس کے آنکھوں کو چھونے لگا۔۔۔ عفہ نے زریس کو ایک زور کا دھکا دیا اور نفی میں سر ہلانے لگ گئی۔۔۔۔۔
عصار جو یہ کھڑا سب دیکھ رہا تھا بولا۔۔۔۔
جھٹک کر بولا۔۔۔۔۔
واہ رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر دور ہوتے ہوئے سب کو اپنی جانب راغب کرتے ہوئے انگلش میں بولنا شروع کردیا۔۔۔۔۔
سب میری طرف متوجہ ہو آپ کو کسی حسین پری سے ملوانا ہے جس کا کام عاشقوں کو اپنے پیچھے لگوانا ہے میں چاہتا ہو آپ سب بھی اس سے ملے تو وہ لڑکی یہ ہے جو کالے لباس اور پردے کی شکل اختیار کیے لڑکوں کی ہمدردی لیتی ہیں ۔۔۔۔ نام عفہ بخاری ۔۔۔۔۔۔ نام پر زور دیتے ہوئے وہ طنز کرتے بولا۔۔۔۔۔۔
کل یہ زریس کی گرل فرینڈ تھی اور آج میری۔۔۔۔۔ مطلب جس سے اس کا دل بھر جاتا اسے وہ ماضی کا حصہ بنا دیتی ہیں۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی عفہ کی جانب بڑھا اور بولا۔۔۔۔
کیوں سہی کہہ رہا ہو میں کہ نہیں دیکھو۔ اگر کچھ بولنا بھول جاؤ تمہاری تعریف میں تو یاد کروا دینا مجھے میں وہ بھی بولنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرو گا۔۔۔۔۔۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے وہ عفہ کی سوجھی آنکھوں سے بہتے آنسوں کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
بس کردو عصار اور مت بولوں اب تم ۔۔۔۔۔ زریس عصار کی جانب بڑھا اور اسے ہاتھ سے روکتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
کیوں بس ابھی تو میں بولنا شروع ہوا ہو۔۔۔۔ میں تو چاہوں گا تن بھی اس کی اصلیت سے واقف ہو کہ یہ کسی کیلئے بھی تمہیں چھوڑ سکتی تو اپنی محبت کا ضیاع اس پر مت کرو۔۔۔۔ عصار زریس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
عفہ وہی خاموش کھڑی سب سن رہی تھی اور سزا کو اپنے پر لاگو کرتے کچھ بھی بولنے سے قاصر تھی۔۔۔۔
دیکھو عصار وہ جیسی بھی ہو مجھے محبت ہے اس سے بے پناہ محبت۔۔۔۔ مجھے کوئی غرض نہیں کہ اس کا ماضی کیا تھا۔۔۔۔ اور مجھے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ میرے علاؤہ کسی اور سے بھی تعلق رکھے مجھے بس اس کی محبت چاہیے ور اسکا ساتھ ۔۔۔۔ میں تو اسے ابھی اجازت دیتا ہو کہ اگر یہ کسی اور کہ ساتھ شادی بعد رہنا بھی چاہے تو رہ سکتی ہیں میں اسے اففف بھی نہ کہوں گا ۔۔۔۔
زریس کی باتیں سن کر عفہ نے اس کی جانب دیکھا اور پھر زریس کی جانب بڑھتے ہوئے ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے دے مارا۔۔۔۔ 
عصار بھی زریس کی باتوں کو ہضم نہ کر پارہا تھا کہ یہ کیسا مرد ہے جو اپنی بیوی کو کسی کے ساتھ بھی بھیجنے کا کہہ دے۔۔۔۔۔
بے غیرت مرد ہو تم جس کو اپنی عزت کا بھی پاس نہیں۔۔۔ اتنی دیر چپ رہنے کے بعد عفہ اب بول اٹھی تھی۔۔۔۔۔
عصار نے ایک نظر زریس کو دیکھا اور پھر عفہ کو گلاس ایک جانب رکھا اپنا کوٹ جھاڑا اور باہر کی جانب بڑھنے لگ گیا۔۔۔
عفہ جو زریس کے سامنے کھڑی تھی عصار کو جاتا دیکھ کر فورا اس کے پیچھے ہوئی ۔۔۔۔۔
عفہ کو اپنے ساتھ آتا دیکھ کر عصار نے اسے ہاتھ سے پیچھے آنے کی وجہ دریافت کی۔۔۔۔۔
مجھے یہاں چھوڑ کر مت جائے عصار۔۔۔ پلیز آپ نے جو کہنا تھا ذلیل کرنا تھا کر دیا لیکن مجھے یہاں مت چھوڑے۔۔۔۔ عفہ نے عصار کا بازو پکڑنے کیلئے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا عصار نے ایک بار پھر اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔۔
مجھ سے دور رہو اور تم ایسی ہی جگہ کے لائق ہو اسی کے قابل ہو پیچھے ہو مجھ سے اب ۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی وہ باہر کی جانب بڑھا فاتحانہ مسکراہٹ سجائے گاڑی سٹارٹ کی ایک بار عفہ کی جانب دیکھا جو ایک آس لگائے اسے دیکھ رہی تھی کہ شاید وہ اس پر تھوڑا رحم کر جائے اور اسے پنے ساتھ لے جائے لیکن۔ سب بے سود رہا گاڑی کو تیز بھاگا وہ عفہ کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔۔ 
سب کچھ ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر عفہ وہی زمین پر بیٹھ گئی۔۔۔ جس احساس کو اس نے اپنے پاس آنے بھی نہ دیا تھا اب اس کے دامن پر رگڑ دیا گیا تھا۔۔۔۔
ایک بدکردار لڑکی۔۔۔۔ وہ ان الفاظ کو دہراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی زریس عفہ کے پیچھے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا فورا اس کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔
کتنا کہتا تھا کہ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ دنیا ویسی نہیں جیسی سوچ میں سنائی بیٹھی ہو ہر کسی پر اعتبار کر لیتی ہو اور پھر اسیے ٹوٹ کر بکھرنے جاتی ہو۔۔۔۔۔۔ زریس نے عفہ کو جیسے ہی ہاتھ لگایا عفہ نے اسکا ہاتھ جھٹکا فورا ایک جیب روکی اور اس میں بیٹھ گئی۔۔۔۔ مشکل سے راستہ ڈرائیور کو سمجھایا اور بنا پیچھے دیکھے وہ اپنی راہ اختیار کیے پورے راستے آنسوں بہاتی گئی۔۔۔۔
جبکہ زریس وہی کھڑا مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہا تھا کہ تماشا ختم شد۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پھر موسم جم کر برس رہا تھا بارش کی وجہ سے کیں راستے میں ہی رک گئی ڈرائیور کو پیسے دے کر وہ اپنی روح کا بوجھ اٹھائے بارش میں بھیگتی ہوئی راہ لیے چل رہی تھی۔۔۔۔۔
ویسے شرم آتی ہیں تم جیسی عورتوں پر۔۔۔۔۔ کانوں میں یہ آواز کسی ثور سے کم نہ لگ رہی تھی۔۔۔۔
ایک دم عفہ دھڑم سے زمین پر گر گئی۔۔۔۔
آسمان کی جانب دیکھا اور پھر زمین پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے وہ چلا اٹھی ۔۔۔۔۔ 
سڑک مکمل سنسان تھی آواز ہر جانب گونج رہی تھی لیکن بارش کے شور میں مدہم ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
بد کردار ہو میں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ہوں۔۔ 
مجھے سزا مل گئی ۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین کرنے کی سزا مل گئی۔۔۔۔۔ وہ چلاتے ہوئے بول رہی تھی اپنے سر کو ہاتھ میں تھامے خود کو کوس رہی تھی۔۔۔۔
مجھے بھٹکنے کی سزا مل گئی۔۔۔۔۔ مجھے نامحرم سے ملنے کی سزا مل گئی۔۔۔۔۔ ہاتھ کو آسمان میں اٹھائے وہ گڑگڑا سی اٹھی۔۔۔۔
یاللہ مجھے معاف کردے۔۔۔۔ مجھے تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔ دیکھ تیری بندی آج کسانوں کے ہاتھ کا کھلونا بن بیٹھی۔۔۔۔۔۔
عفہ کے آنسوں کی طرح آج آسمان بھی خوب رو رہا تھا جیسے ایک لڑکی کی بربادی پر سوگ منا رہا ہو۔۔۔۔۔۔
جیسے تیسے کر کے عفہ گرتی پرتی بھیگتی ہوئی اپنے ہاسٹل پہنچ گئی۔۔۔ بیل بجائی تو مارا نے دورازہ کھولا۔۔۔۔
اپنی ہی مگن میں وہ بولتی چلی جارہی تھی۔۔۔
ویسے عجیب حرکت کی آج تم دونوں نے عفہ
۔۔ بندہ تھوڑا انتظار ہی کر لیتا ہے پتہ میں کتنا ویٹ کیا کہ ابھی تم آؤ گی ابھی آؤ گی لیکن مجال کے صبر کیا ہو میرا۔۔۔۔ اوپر سے وہ عصار ایک میسج کر کے سمجھا کہ اپنے فرض سے فارغ ہوگیا۔۔۔بندہ کال کر لیتا ہے لیکن نہیں پریشانی کا ٹھیکہ تو مس سمرا نے اپنے سر اٹھا کر رکھا ہے۔۔۔۔۔۔
بولتے بولتے جب سمرا کو محسوس ہوا کہ عفہ کی جانب سے کوئی بھی جواب نہیں آرہا توو وہ عدی کی جانب بڑھی جو مکمل بھیگ چکی تھی ۔۔۔۔
یار کیا ہوا چپ کیوں ہو؟؟؟ اور اتارو بھیگا ہوا عبایا سردی لگ جائے گی بیمار ہو جاؤ۔۔۔۔۔ اتارو اسے جلدی ۔۔۔۔۔۔
عفہ کی سرخ سوجھی آنکھوں نے جب سمرا کو دیکھا تو سمرا کا دل بیٹھ سا گیا۔۔۔۔۔
سمرا مجھے یہ بتاؤ میں مر کیسے سکتی ہو ؟؟؟ کیوں کہ مجھے نہیں جینا۔۔۔۔ 
سمرا نے عفہ کے چہرے کو اپنے ہاتھو میں لیا تو عفہ فورا سمرا کے گلے لگ گئی اور پھر وہ لاوا جو وہ دبائے بیٹھی تھی پھٹ پڑا۔۔۔۔۔
سمرا وہ کہتا میں بد کردار ہو وہ کہتا ہے کہ میں کسی کے ساتھ بھی رہ سکتی ہو۔۔۔۔
نہیں میری جان ایسا کچھ نہیں ہے کس نے کہا ایسا میں اسکا منہ توڑ دونگی ۔۔۔۔۔ بتاؤ مجھے کس نے کہا ایسا؟؟؟ سمرا نے عفہ کو خود سے الگ کیا اور پوچھا۔۔۔۔۔
عصار اور زریس نے۔۔۔۔۔ وہ دونوں مجھے بےوقوفی بنا رہے تھے دونوں ملے ہوئے تھے سمرا وہ دونوں ملے ہوئے تھے اور میں پاگل استعمال ہورہی تھی دیکھ رہی ہو ناں تم میں استعمال ہورہی تھی سمرا مجھے مرنا ہے مجھے مر جانا چاہیے اللہ کسی کو بھی ایسی اولاد نہ دے جو میرے ماں باپ کو ملی میری صورت میں ۔۔۔۔۔ عفہ دیوانہ وار چلا رہی تھی جبکہ سمرا بھی اسکی حالت دیکھ کر رو پڑی وہ رات عفہ کیلئے کسی اذیت سے کم نہ تھی کوئی بھی عورت اپنے اوپر ایسا الزام برداشت نہیں کرسکتی جو اس کی ذات کے نفی ہو اور یہاں تو الزام بنا ثبوت کے ثابت کر کے اسے مجرم تصور کر لیا گیا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی چلاتے ہوئے عصار خود کو قدرے پرسکون محسوس کررہا تھا ایک عجیب مسکراہٹ لیے اب وہ بطور ایک بے سرے سنگر کی طرح گنگنائے جا رہس تھا۔ بارش کی ننھی بوندوں نے اس کی آواز پر رقص کرنا شروع کردیا تھا اور شیشے پر گرتے ہوئے ایک ساز چھیڑ ڈالا تھا۔ اب تو وہ اور بھی پرجوش ہوگیا تھا کہ جیسے قدرت بھی اس کے اس کیے جانے والے عمل پر خوش ہے۔ وہ ایسا محسوس کررہا تھا جیسے اس نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو چیت کر دیا ہے گھر پہنچتے ساتھ ہی اپنا کوٹ گنگناتے ہوئے اتار کر صوفے پر دے مارا۔ اور اپنے وجود کو ہلکے سے گھوماتے ہوئے ہلاتے ہوئے واش روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
باتھ ٹب پر موجود گرم ٹیپ کو کھول کر پانی میں ہاتھ ہلا رہا تھا جیسے ایک مچھلی پانی میں جاتے ساتھ ہی مچل اٹھتی ہیں۔
اففففف شکر ہے اب کافی دنوں بعد سکون کی نیند لوں گا لیکن اس سے پہلے ایک گرم گرم باتھ ٹب سے باتھ لیا جائے گا۔ کہتے ساتھ ہی فارمر ڈریسنگ سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے باتھ ٹب میں جا کر بیٹھ گیا۔۔ اور آنکھیں موند کر خود کو سکون کی وادی میں ڈبو دیا۔۔ ابھی کچھ دیر یونہی آنکھیں موندھے بیٹھا تھا کہ تبھی اس کو اپنے بازوؤں پر کسی نرم گرم ہاتھ کا لمس محسوس ہوا کہ جیسے کوئی اس کا بازو مضبوطی سے تھامے کھڑا ہو۔۔۔ اس احساس کو محسوس کرتے ساتھ ہی اس کے جسم میں ایک خوف کی لہر دوڑی اور فورا آنکھیں کھول کر وہ اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لینے لگ گیا کہ کہیں اس کے گھر میں کوئی موجود تو نہیں۔۔۔۔
کافی دیر یونہی دیکھتے رہنے کے بعد اس کے دماغ میں ایک چیز کھٹکی اور سب چیزیں جو دھندھلا سی گئی تھی واضح ہوگئی کہ کلب میں عفہ نے خود کو زریس کی نظروں سے بچانے کیلئے اس کے بازو کو یوں تھاما تھا جسکا احساس آسے اب تک ہورہا تھا۔۔۔
سوچتے ساتھ ہی ٹاول کھینچا اور خود کو لپیٹتے ہوئے باہر کو نکل آیا سوچ ابھی بھی اسی میں گم لیکن مسلسل وہ خود کو جھٹلا رہا تھا۔۔۔۔
بلکل ٹھیک کیا میں نے عفہ کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے اس جیسی لڑکیوں کے ساتھ ایسی ہی گندی جگہوں پر اسے زلیل کرنا چاہیے تاکہ وہ گندے لوگ بھی اس پر تھو تھو کرے۔۔ شیشے میں خود کو دیکھتے ہوئے اس کے چہرے کے مزاج بدلنے لگ گئے تھے۔۔۔ 
میں کیوں سوچ رہا ہوں اسے ۔۔۔ میرے لیے وہ اتنی خاص نہیں جس پر اپنے وقت اور دماغ کا ضیاع کرو نہ ہی اتنی اس کی اوقات کے میری سوچ کا حصہ بنے۔۔۔ طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے پاس پڑی نائیٹی سے خود کے جسم کو لپیٹ لیا اور رخ وائین بار کا کیا۔۔۔
واہ ایک وقت تھا جب اس کی حرکتوں کو سوچ کر پیتا تھا اب ایک وقت ہے اس کی زلالت کو سوچ کر پیوں گا۔۔۔ ہائے عفہ گیم چل گئی تمہارے ساتھ ۔۔۔۔ گلاس میں وائین انڈیلتے وہ مسلسل خود سے باتیں کرتے ہوئے بول رہا تھا آہستہ سے چلتے ہوئے جلتی انگھیٹی کے سامنے کرسی پر براجمان ہوگیا اور گھونٹ گھونٹ بھرتے ہوئے خود کی پیاس کو اسیر کرنے لگ گیا۔۔۔۔
سوری عفہ میں نے تمہارے شکار کو بھاگا دیا۔۔ کہتے ساتھ ہی وہ ہنس پڑا اور خالی اپارٹمنٹ اس کی ہنسی سے گونج اٹھا۔۔۔
سہی یادیں دی میں نے تمہیں بینکاک کی جو کبھی بھی نہیں بھولوں گی بلکہ مرتے دم تک عصار کا نام تمہاری زبان پر عام اور ذہن پر تازہ رہے گا کیا یاد کرو گی عصار نامی بلا کو یاد کرکے۔۔۔ پوری رات عصار نے خود کو ویکسی اور وائین کے سہارے پر چھوڑ دیا اور خوب دل کھول کر اس کے نشے میں جھوما اور عفہ کی بربادی کا جشن منایا۔۔۔۔۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ دن گزر چکے تھے عصار خود کو اپنی روٹین لائف میں بزی کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا جبکہ عفہ ابھی بھی اس دن کے اثر اور عصار کی باتوں سے باہر نہ آ رہی تھی آتی بھی کیسے جب انسان کے کردار پر ایک داغ لگ جاتا ہے تو اس کی نیندیں اس پر حرام اور ضمیر ایک چیخ بن کر اس کو بے سکون کیے رکھتا ہے ۔۔۔۔
حالت ایسی تھی کہ جہاں بیٹھی ہوتی وہی دن بھر بیٹھی رہتی جب تک سمرا اس سے کھانے کا نہ پوچھ لیتی وہ ایک نوالہ بھی اپنے اندر نہ اتارتی تھی۔۔ سمرا بھی اب اسے اپنے ساتھ باہر جانے کا نہ کہتی تھی کیونکہ عفہ اپنے اندر اتنا ٹوٹ چکی تھی کہ اسے خود کو سمیٹنے میں ایک طویل وقت کی ضرورت تھی جبکہ اب وہ باہر جانے کے نام سے بھی خوف کھا بیٹھتی تھی کہ جیسے باہر نکلے گی تو زریس اور عصار کھڑے اس کے کردار کے اشتہار لگائے اس کی خوش آمدید کررہے ہو۔۔۔
سمرا اسے ان تین دنوں میں ایک پل کو بھی اکیلا نہ چھوڑتی تھی۔ کیونکہ کبھی بھی کسی بھی وقت عفہ چلانا شروع کر دیتی تھی نیند میں بھی وہ عصار کا نام دہراتے ہوئے گڑگڑا رہی ہوتی تھی اب تو سمرا بھی عفہ کے گھر سے آنے والے کالز سن سن کر تھک چکی تھی اور وہ بھی واپسی کے دن انگلیوں پر گننے لگ گئی تھی ۔۔
اب ان کے جانے میں بس مزید دو دن رہ گئے تھےجبکہ پچھلے پانچ دنوں میں کوئی بھی دن ایسا نہ تھا جب زریس عفہ کیلئے ہاسٹل نہ آتا تھا لیکن روم سے ناواقف ہونے کی وجہ سے الٹے پاؤں لوٹ جاتا تھا۔ معمول کے مطابق سمرا گھر کے کاموں میں مصروف تھی جبکہ عفہ کھڑکی کے پاس بیٹھے باہر کے نظاروں کو دیکھ کر اپنے اندر گرتے آنسؤں کو گن رہی تھی کہ تبھی دروازے کی دستک سن کر اس کا دھیان بٹ گیا۔۔ سمرا باہر نکلی اور عفہ کو اشارہ دیتے ہوئے خود دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔ ڈورونڈو سے باہر کی جانب دیکھا تو سمرا کے چہرے کے تاثرات جو پہلے نارمل تھے باہر کھڑے شخص کو دیکھ کر بدل سے گئے اور ایک عجیب سی ناگواری نے چہرے پر دھاک بیٹھا دی۔۔۔ فورا پیچھے کی جانب ہوئی اور ایک نظر عفہ پر ڈالی جو سیاہ چادر کی لپیٹ میں باہر کی جانب اپنی نظریں مرکوز کیے بیٹھی تھی۔۔۔ سوچا کہ فورا باہت کھڑے شخص کو اگنور کرو اور کیچن کی جانب بڑھ جاؤ لیکن ایک بار پھر دستک کی آواز نے عفہ کو سمرا کی جانب دیکھنے پر مجبور پر کردیا تھا۔۔۔ عفہ کی سوالیہ نظروں نے سمرا کو مجبور کیا کہ وہ ایک بار پھر دروازے کی جانب بڑھے۔۔۔
خاموشی سے اپنی چادر کو کرسی پر سے اٹھایا خود پر اچھے سے لپیٹا چہرے پر چادر کو ہاتھ کی مدد سے ٹانگا اور دروازہ کھولا کر فورا خود باہر کی جانب ہوئی اور دروازہ بند کردیا کہ عفہ کو باہر کی صورتحال سے واقف نہ کروایا جائے۔۔۔۔۔
کیسی ہو سمرا؟؟؟ پھولوں کو ہاتھ میں تھامے زریس مسکراہٹ سجائے سمرا کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
سمرا اپنے نام کو زریس کے منہ سے سن کر طیش میں آگئی۔۔۔ 
اپنی گندی پلید زبان سے میرا پاک نام مت لوں مسٹر ۔۔۔۔۔۔ 
کیا بد تمیزی ہے سمرا حد میں رہو اپنی۔۔ اور میں یہاں تمہاری فضول بکواس سننے نہیں آیا مجھے عفہ سے ملنا ہے راستے سے ہٹو اور اندر جانے دو مجھے۔۔۔۔۔ زریس اپنی اوقات دیکھاتے ہوئے سخت لہجے سے بولتا ہوا دو قدم آگے دروازے کی جانب بڑھائے کہ سمرا نے فوراً اسے اپنے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔۔۔۔
وہ ملنا نہیں چاہتی تم سے جاؤ یہاں سے آئی سمجھ۔۔۔۔۔ سمرا بھی جھٹک کر بولی۔۔۔
میں کیوں مانوں تمہاری بات راستہ چھوڑو میرا سمرا ورنہ۔۔۔۔۔ زریس انکھ اچکا کر بولا۔۔۔۔ 
ورنہ کیا ؟؟؟؟ کیا کروں گے ہاں؟؟؟ اور کتنا زلیل کرنا تم نے۔۔ عفہ کی جان بخش دو زریس وہ خود کو مارنے پر تلی ہیں اسی جیتے جی نہ مارو اور جاؤ یہاں سے۔۔۔ مجھے اتنا مجبور نہ کروں کہ مجھے گارڑز بلانے پڑے۔۔۔۔ سمرا کہتے ساتھ ہی جیسے ہی اندر کی جانب بڑھی ۔
زریس نے سمرا کو تیزی سے دھکا دیتے ہوئے پیچھے کیا اور خود پھولوں کے گلدستہ کو ہاتھ میں تھامے اندر کی جانب گھس آیا تاکہ عفہ سے مل سکے۔۔
عفہ جو کہ کھڑکی پر خاموش بیٹھی تھی زریس کو اس طرح اندر آتے دیکھ کر وہ مزید سہم سی گئی۔۔۔۔
سمرا۔۔۔۔۔۔۔ سمرا۔۔۔۔۔۔۔۔ زریس کو دیکھتے ساتھ ہی عفہ نے چلانا شروع کردیا۔۔۔ سمرا تیزی سے عفہ کی جانب بڑھی تاکہ اسے کمزور نہ پڑنے دیا جائے۔۔۔۔
زریس عفہ کی اجڑی حالت دیکھ کر پریشان سا ہوگیا پہلی دفعہ جب اس نے عفہ کو دیکھا تو اس کا اثر اس پر اب تک موجود تھا لیکن آج وہ عفہ کسی اجڑی ریاست کی شکل اختیار کیے اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔
کیسی ہو عفہ؟؟؟ زریس عفہ کو حیرانگی سے دیکھتے ہوئے اس کے قریب آنے لگا۔۔۔ تو عفہ فورا سمرا کے پیچھے ہوگئی اور آنکھیں موند کر کلمے کا ورد کرنے لگ گئی۔۔۔ 
زریس میں نے کہا نہ تمہیں دور رہو اور جاؤ یہاں سے تمہیں سمجھ نہیں آرہی کیا؟؟؟ سمرا ایک بار پھر چلا کر بولی۔۔۔۔
زریس نے ایک نظر سمرا پر ڈالی اور اسے اگنور کرتے ہوئے عفہ کو مخاطب کیا۔۔۔۔
دیکھو عفہ میں اتنے دن سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہو اور آج تم مل ہی گئی میں زیادہ لمبی بات کرنے نہیں آیا تم سے بس یہ بتانے آیا ہو کہ میں نے اپنے گھر میں ہماری شادی کے سلسلے میں بات کر لی ہے اب س تم پاکستان جاؤ تو میں رشتہ لے کر آجاؤ گا۔۔۔۔۔زریس بول رہا تھا جبکہ عفہ نے اپنے دونوں کانوں کو اپنی انگلیوں سے بند کردیا تاکہ زریس کی آواز کو بھی اپنے قریب بھٹکنے نہ دے۔۔۔
عفہ کی جانب سے جب کوئ رسپانس نہ ملا تو زریس نے پھول وہی میز پر رکھ دیے۔۔۔۔۔
اب ملے گے تم سے تمہارے محرم بن کر مسسز زریس شاہ۔۔۔۔ زریس ہنستے ہوئے بول کر وہاں سے چلا گیا جبکہ عفہ کے کانوں میں اس کے ہنسنے کی آواز ایسے گونج رہی تھی جیسے کوئی اس کی عزت کو روندھ رہا ہو اور وہ اسے دیکھ کر بھی بس چلانے کے علاؤہ کچھ کر نہ پا رہی ہو ۔۔۔۔۔۔
زریس نے جاتے ساتھ ہی سمرا نے عفہ کو اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔
سنا تم۔۔۔۔ت۔۔۔۔تم نے س۔۔۔۔سمرا وہ مجھے کے جائے گا سمرا وہ مجھےلے جائے گا سمرا وہ مجھے ختم کردے گا وہ مجھے تباہی کردے ہر وہ بدلا لے گا جسکا وہ مجھے حقدار سمجھتا ہے اور ان سب کی وجہ عصار ہے سمرا اس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا سمرا۔۔۔۔۔ خدا اسے کبھی خوش نہ رکھے۔۔۔۔ اسے کچھی خوش نہ رکھے۔۔۔ وہ ڈھونڈے گا مجھے معافی کیلئے میں نہیں دونگی معافی میں نہیں دو نگی۔۔۔۔۔
عفہ زمیں پر بیٹھے سر ہاتھوں میں تھامے عصار کے نام کی دہائیاں ڈال رہی تھی جبکہ پاس کھڑی سمرا کے پاس اب عفہ کو دینے کیلئے حوصلہ بھی موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کو کام میں لگانے کی جتن میں مصروف عصار مسلسل ناکامی کا شکار ہورہا تھا۔۔ ہاتھ میں پکڑی فائل کو دماغی تناؤ کی وجہ سے دور پھینکتے ہوئے وہ کرسی کو بے چینی سے گھومانے لگ گیا۔۔۔۔
کیوں میں نارمل نہیں ہورہا یار؟؟؟ اپنے سر کو ہاتھ میں وہ چلا ہی اٹھا تھا۔۔۔ 
نظر بار بار موبائل کی جانب جاتی جیسے ابھی عفہ کی کال آئے گی اوروہ اسے اپنے دن بھر کی روٹین سے آگاہ کرے گی۔۔ فون کو گھورتے ہوئے وہ ایک پل رکا اٹھایا اور پھر سامنے دیوار میں دے مارا۔۔۔۔۔
میں نے کچھ غلط نہیں کیا سمجھی تم۔۔۔۔ تم اسی لائق تھی بلکہ اس سے زیادہ کی حقدار تھی۔۔ میں نے تو بہت ہی چھوٹا سا کھیل کھیلا بس تو اب مجھے تنگ کرنا چھوڑو کیوں کہ تم مجھے پاگل کر رہی ہو عفہ۔۔۔۔۔ عصار کی سوچ اس پر ہاوی ہورہی تھی اوروہ بظاہر پاگلوں والی حرکتیں کرتے ہوئے خود سے ہی باتیں کررہا تھا۔۔۔۔۔
حماد نے شور کی آواز سنی تو فورا کمرے کی جانب بڑھا سب چیزیں بکھری پڑی تھی جیسے ایک بڑا طوفان یہاں سے گزر کر گیا ہو جس نے سب کچھ تباہ کر ڈالا ہو ایسی تباہی جو صرف چیزوں میں نظر آرہی تھی عفہ کی روح کو تباہی کرنے سے کم تر تھی۔۔
عصار نے نادانی میں جو موبائل توڑ ڈالا تھا فورا اس کی جانب بڑھا زمین پر بیٹھتے ہوئے ٹوٹے ہوئے پرزوں کو دیکھنے لگ گیا جس میں اسے روتی ہوئی عفہ کی شکل دکھائی دے رہی تھی جبکہ اب کانوں میں بھی اس سسکیاں گونج رہی تھی۔۔۔ پرزوں کو واپس زمین پر دے مارا حماد جو پاس کھڑا تھا عصار اس کی جانب بڑھا ۔۔۔
حماد سنو تمہیں کوئی آواز آرہی ہیں ؟؟؟؟ کانوں کو دیوانہ وار ہاتھ لگاتے وہ ہلکی آواز سے بولا۔۔۔۔
ن۔۔۔۔نہیں سر کونسی آواز؟؟ کیسی آواز؟؟ پریشانی سے عصار کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
 تمہیں آواز نہیں آرہی کیا؟؟؟ وہ چلا کر بولا بالوں کو نوچتے ہوئے آگے پیچھے پھرنے لگ گیا۔۔۔
کسی کی رونے کی آوازیں جیسے کوئی بہت درد میں رو رہا ہوں۔۔۔۔۔ وہ واپس حماد کی جانب امید سے دیکھتا ہوا جھکا کہ شاید اب وہ حامی میں سر ہلائے لیکن حماد نے واپس نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
پاگل لگتا ہو میں کیا تمہیں جسکو عجیب آوازیں سنائی دے رہی۔۔۔۔۔۔۔۔ سرخ آنکھوں سے دیکھتے بولا۔۔۔۔۔۔۔
نہیں سر ۔۔۔۔۔۔ 
تو دفع ہو جاؤ یہاں سے سب پاگل ہے یہاں جنہیں آواز سنائی نہیں دے رہی اور جھے پاگل کہہ رہے دفع ہوجاؤ سب۔۔۔۔۔۔ عصار چلاتے ہوئے بولا تو حماد ڈر کے ناتے واپس کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ اب وہ اپنی کرسی کی جانب بڑھا اور خود کو ریلیکس کرنے کیلئے آنکھیں موندھے بیٹھ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلوں آٹھو سمرا جلدی اٹھو یار ۔۔۔۔۔ سمرا کمبل کھینچتے ہوئے بولی۔۔۔
نہ کرو سمرا مجھے سوتی رہنے دو ورنہ میرا دماغ بھر جائے گا اور میں آنکھیں کھول کر دنیا کا مقابلہ نہ کر پاؤ گی پلیز مجھے سونے دو۔۔۔۔۔۔ 
عفہ کی بات سن کر سمرا بھی اس کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ ایک لمبا سانس بھرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
عفہ کل ہم بینکاک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہاں سے چلے جائے گے۔ تو پلیز خود کو نارمل کر کے پاکستان جاؤ میں نہیں چاہتی آنٹی فون کر کے پوچھے کہ آخر عفہ کو ہوا کیا ہے؟ اور میرے پاس جواب دینے کیلئے الفاظ نہ ہو۔۔۔ تو پلیز یہاں کی یادیں یہیں دفن کر کے جاؤ تو بہتر ورنہ تمہارا وجود اور تمہاری روح کبھی اس وزن سے نکل نہ پائے گی اور تم گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گی جو کہ میں نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔۔۔ سمرا کی بات سن کر عفہ نے اپنا منہ کمبل سے باہر نکالا اور بولی۔۔۔
سمرا کہنا بہت آسان لیکن کرنا بہت مشکل بلکل ایسے ہی جیسے مرتی مچھلی کو دوبارہ سانس میں لانا ور اسے زندہ کرنا۔۔۔ عفہ ایک پل کو ٹھہر گئی ۔۔۔
 تمہیں کیا لگتا ہے سمرا میں کوشش نہیں کرتی ۔۔۔۔ عفہ کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگ گئی۔۔۔۔
ہاتھوں کی انگلیوں کو مڑورتے ہوئے وہ اپنے خالی ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ کر بولی۔۔۔۔
جب جب میں سوچتی ہو کہ مجھے ان سب سے باہر نکلنا ہے تب تب میرے کانوں میں آواز گونجتی ہیں کہ تم بدکردار ہو تم جیسی لڑکیاں چادر کو میلا کرتی ہو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتی ہو ۔۔۔ عفہ کی آواز میں ہچکیاں ظاہر ہونے لگ گئی تھی۔۔ 
کیسے یہ سب بھول جاؤ سمرا کیسے؟؟؟ 
سمرا نے عفہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما عفہ سر کو بیڈ کی پشت کے ساتھ لگا کر بیٹھ گئی۔۔۔ کچھ لمحے کو سوچنے لگ گئی اور پھر سیدھی ہو کر بولی۔۔۔۔
سمرا میں سب کچھ بھول جاؤ گی سب کچھ بلکل نارمل ہو جاؤ گی جیسے تھی بس ایک بار مجھے عصار سے ملوا دو ۔۔۔ مجھے عصار سے ملنا ہے کیسے بھی کر کے۔۔۔۔ عفہ کی بات سمرا کی سمجھ سے باہر تھی لیکن وہ اس کی بات پر انکاری بھی نہ ہوسکتی اور حامی میں سر ہلا بیٹھی۔۔۔۔۔
سمرا کو دیکھ کر ایک ہلکی سی مسکراہٹ سجائے جس کو دیکھنے کیلئے ناجانے سمرا کیا کیا جتن کر بیٹھے تھی دیکھ کر مطمئن ہوگئی جبکہ عفہ واپس اپنے پہلی والی پوزیشن میں بیٹھ گئی تھی سمرا اور اب سمرا عصار سے واپس رابطہ کرنے کے بارے میں سوچنے لگ گئی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے اور رائے ضرور دیں 😊 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─