┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: ذت_عشق
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_15

دن بھر کی تھکاوٹ اور بھاگ دوڑ کے بعد اپنے نرم گرم بستر میں لیٹا زریس کسی معصوم بچے سے کم نہ لگ رہا تھا۔۔۔۔
تکیے کو دونوں ٹانگوں میں دبائے وہ لحاف لپیٹے خواب خرگوش کے خوب مزے لے رہا تھا۔۔۔۔۔
کہ اچانک پاس پڑے موبائل نے زور زور سے ڈھول بجانا شروع کردیا۔۔۔ عصار پہلے پہر اسے اپنے خواب کا ہی حصہ سمجھتا رہا لیکن. جب آواز بلند اور مسلسل ہوتی گئی تو بآلاخر اپنی نیند کو توڑتے ہوئے آنکھیں موندھے موبائل کی جانب ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیا۔۔۔۔۔ 
آنکھوں کو مسلتے ہوئے جب نظر موبائل کی سکرین پر پڑی تو وہ بینکاک کا انجان نمبر تھا۔۔۔۔۔ کچھ دیر نمبر کو یونہی دیکھتا رہا اور پہنچانے کی کوشش کرتا رہا لیکن جب کچھ سمجھ نہ آیا تو تھک ہار کر فون اٹھا ہی لیا۔۔۔۔۔
نیند چونکہ آنکھوں میں بھری ہوئی تھی آواز بھی نیند کی وجہ سے آہستہ اور کمزور تھی۔۔۔۔ دھیرے سے ہیلو کہتے ہوئے عصار نے دوسری جانب موجود شخص کو مخاطب کیا۔۔۔۔۔
میری نیندیں اڑا کر تم کیسے سکون میں سو سکتے ہو عصار چودھری۔۔۔۔۔۔
لائن سنتے ساتھ ہی عصار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اور وہ آنکھیں جو نیند سے کچھ دیر پہلے بھری ہوئی تھی . وہ نیند آنکھوں سے کوسوں دور بھاگ گئی تھی۔۔۔ تیزی سے ہڑبڑاہٹ میں اٹھتے ہوئے وہ پریشانی سے کھڑا ہوگیا۔۔۔۔
کون بات کررہا ہے ؟؟؟؟ اپنے آواز میں دلچسپی اور سنجیدگی ظاہر کرتے بولا۔۔۔۔۔
جبکہ جواب اس کی سوچ کے برعکس تھا جس نے اسے مزید بے چین کر کے رکھ دیا۔۔۔۔۔ 
میں زریس شاہ بات کررہا ہو جس کی محبت کو وآپس کرنے کا دعوی تم کچھ دن پہلے کر رہے تھے۔۔۔ سوچا تم سے تمہارے وعدے کے مکمل ہونے اور اس کی راہ منزل کا پوچھ لوں۔۔۔۔۔ ہاتھ میں سگریٹ تھامے وہ ناک سے دھووں کے بادل اڑاتے ہوئے بولا جبکہ اس کے لبوں سے بھی بولتے ہوئے دھواں کے چھوٹے چھوٹے بھبھوکے باہر نکل رہے تھے۔۔۔۔۔
زریس کا نام سنتے ہی عصار نے ایک گہری سانس لی اور وآپس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے موبائل کودوسرے کان سے لگاتے ہوئے خود بھی سگار جلانے کی کوشش کرنے لگ گیا۔۔۔۔۔
میں جٹ چودھری ہو زریس شاہ وعدے نبھانا اور اس کیلئے اپنی جان تک قربان کر دینا ہمارے خون میں ہی شامل ہوتا ہے۔۔۔ بے فکر ہو کر سو جاؤ اور میری نیند کو بھی حرام نہ کرو مجھ پر۔۔۔۔۔۔۔ عصار کے تیور بھی اب زریس کے لہجے کی سرد مہری کو دیکھتے ہوئے بدل گئے تھے۔۔۔۔۔۔
اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا خود پر فکری کو ڈھلنے نہ دیتے کیا؟؟؟ اور کیا آرام سے سو سکتے تھے اپنی محبت کو کسی کے ساتھ دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔ زریس نے سگریٹ کو دور پھینکتے ہوئے سختی سے لفظوں کو وزن دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اپنی حد میں رہوں مسٹر زریس شاہ اگر محبت کا اتنا ہی پاس تھا تو کبھی ایسی لڑکی سے محبت نہ کرتے۔ جس کو تمہاری ذرا برابر بھی فکر نہیں۔۔۔۔ جو تمہارا نام لینا بھی توہین اور حرام سمجھتی خود پر ہیں۔۔۔۔۔
تمہاری محبت میں پاکیزگی اور طاقت ہوتی تو تمہیں آج مجھے کال کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔۔۔۔۔۔۔ عصار نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
بہت ہوگیا عصار مجھ سے تمیز سے بات کروں وہ جو مرضی کرے یا مسجھے تمہیں اس سے کوئی لنک نہیں ہونا چاہیے اگر تم سے ہوسکتا ہے کہ تم اسے میرے تک وآپس لا سکتے ہو تو بات کرو ورنہ میرے پاس اور بھی بہت سے طریقے ہیں اسے اپنا بنانے کے۔۔۔۔۔۔. زریس کے الفاظ ابھی بھی سختی ظاہر کررہے تھے۔۔۔۔۔۔
مجھے بس کچھ دن کا اور وقت دو جلد عفہ کو تمہارے سامنے کھڑا کر دونگا اور پھر تمہاری محبت تمہارے سامنے کھڑی اپنی وفا کی دواہیاں دے رہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ عصار نے دوٹوک بات کرتے ساتھ ہی کال کاٹ دی۔۔۔۔ موبائل فون بیڈ پر پھینکتے ساتھ ہی بیڈ پر پیچھے کی جانب گرتے ہوئے لیٹ گیا اور نظریں چھت کی جانب ٹکا لی۔۔۔۔۔
ہاتھ کو اٹھاتے ہوئے چھت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عفہ کا نام ہوا میں محلول کرنے لگ گیا۔۔۔۔۔
بہت بری پھنسی ہو عفہ تم دو مردوں کے درمیان۔۔۔۔
اور جب عوت دو مردوں کے درمیان آجاتی ہیں تو اس میں صرف عورت کا ہی نقصان ہوتا ہے کیوں کہ اس کے بعد وہ محبت پر یقین کرنا اور دوسروں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔۔۔۔۔
 ایک وہ ہے جو تمہیں پانا چاہتا ہے اور ایک میں ہوں جو تمہیں پا کر کھونا چاہتا ہو شاید تبھی تم سبق سیکھ جاؤ۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں تمہاری قسمت اور تم کتنی خوش نصیب اور مضبوط ہو ۔۔۔۔۔۔ کہ دو مردوں کا مقابلہ کر سکوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت بڑی گیم ہے لڑکی جس میں ہر کوئی تمہیں جیتنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی سکون سے آنکھیں موندھ کر آگے کی پلینگ کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔۔

********************************
 عفہ میرے نوٹس مارگ کے پاس ہے پلیز جاتے ہوئے اس سے لے لینا تمہیں پتہ نہ مجھے رات کو پڑھنا ہوتا ہے میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ تمہیں کوپی کروا کر دے دیں تو پلیز یاد سے لے لینا میں جارہی ہو اب جاب پر شام کو ملتی ہو گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمرا آج جاب سے بہت لیٹ ہوگئی تھی لہذا عفہ کو کہتے ساتھ ہی وہ تیزی سے یونیورسٹی سے باہر نکل گئی جبکہ سمرا کے آرڈر کے مطابق وہ وہی کھڑی مارگ کا انتظار کرنے لگ گئی۔۔۔۔۔
کافی دیر ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹھلہتے ہوئے وہ تھک سی گئی تھی جب کہ موسم بھی اب اس کے انتظار کرنے سے جو موڈ بگڑ رہا تھا اب ویسا ہی بگڑنے لگ گیا تھا۔۔۔۔۔ خاموشی سے یونیورسٹی سے باہر کی جانب بڑھی کہ کہیں وہ باہر کھڑا اسکا انتظار نہ کر رہا ہو۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی وہ باہر کی جانب ہوئی تو مارگ بھی اندر کی جانب بڑھتے ہوئے اس کے سامنے آن کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔
مارگ کو سامنے دیکھتے ساتھ ہی وہ فورا اپنے قدموں کو روک بیٹھی اور ٹکرانے کے ڈر سے 
اس کی آنکھیں مینج چکی تھی۔۔۔۔۔
یہ لوں لڑکی تمہارے درینہ دوست کے نوٹس۔۔۔۔ سوری فار ویٹنگ بس یہاں رش تھا تو کہیں اور سے کوپی کروانے چلا گیا تھا۔۔۔۔۔ مارگ نے عفہ کے چہرے کے جانب نوٹس کو بڑھاتے ہوئے کہا تو عفہ نے فورا جھپٹنے کے انداز سے نوٹس چھین لیے۔۔۔۔۔۔ 
کب سے ویٹ کررہی تھی میں مارگ لیکن کوئی بات نہیں بہت شکریہ اب میں چلتی ہو ۔۔۔۔۔۔ عفہ کہتے ہی آگے بڑھنے لگی کہ تبھی مارگ نے اسے پیچھے سے آواز دے ڈالی۔۔۔۔۔
عفہ سمرا کو میری طرف سے شکریہ کہہ دینا۔۔۔۔۔ مسکراتے ساتھ وہ بولا اور وآپس یونیورسٹی کے جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
عفہ نے بھی مسکراہٹ دیتے سر حامی میں ہلایا اور خاموشی سے اپنے راستے کی جانب بڑھنے لگ گئی۔۔۔۔
کہ جیسے ہی اپنے ہاسٹل کے روڈ کی جانب بڑھی تو جھٹکے سے کسی نے اسے اپنی جانب کھینچا اپنی ہی سوچ میں گم ہونے کی وجہ سے اسے ایسی توقع نہ تھی تو لڑکھڑاتی ہوئی گرتے گرتے بچی۔۔۔۔۔
ڈر خوف اور حیرانگی سے خود کو کھینچے جانے کا سبب جاننے کیلئے جیسے ہی چہرہ اوپر کی جانب اٹھایا تو وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ زریس ہی تھا جس کی آنکھوں سے سرخی اور غصہ صاف نظر آرہا تھا۔۔۔۔۔ ہاتھ کو مزید زور دیتے ہوئے اس نے عفہ کی بازو پر دباؤ ڈالا ۔۔۔۔۔ جبکہ عفہ زریس کے رویےکی وجہ سمجھ نہ پارہی تھی اس سے پہلے وہ اس سے کچھ پوچھتی زریس نے عفہ کی بازو کو غصے سے مزید دباتے ہوئے زور زور سے چلانا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔
کون تھا وہ؟؟؟؟؟ کس کی ہمت ہوئی تمہاری طرف مسکراتی آنکھوں سے بھی دیکھے؟؟؟؟ 
زریس کا ایسا روپ دیکھ کر عفہ کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے وہ تو بس اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔۔
مجھ سے محبت کا کھیل نہ کھیلنا عفہ میں کہیں کا نہیں چھوڑو گا تمہیں۔۔۔۔۔ جب میں نے تمہیں کہہ دیا کہ تم صرف میری ہو تو اسکا مطلب یہی ہے کہ تم زریس کے نام کر دی گئی ہو۔۔۔۔۔ تو پھر تمہاری جرآت کیسے ہوئی مجھ سے بےوفائی کرنے کی ؟؟؟؟؟ زریس نے عفہ کو سختی سے خود کے قریب کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
عفہ کی آنکھوں سے زریس کا خوف آنسوں بن کر ٹپک رہا تھا ہاتھوں میں موجود نوٹس بھی جھٹکا لگنے کی وجہ سے ہاتھ سے گر چکے تھے۔۔۔۔۔
بولو۔۔۔۔۔ بولو بھی کون تھا وہ زندہ گاڑ دونگا اسے میں بینکاک کی کسی گندی زمین میں۔۔۔۔۔۔۔ جس نے میری محبت پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی بولو عفہ کون تھا وہ۔۔۔۔۔ زریس کے چلانے کو آواز دور تک جا رہی تھی کہ کچھ لوگ وہی کھڑے ہو گئے اور زریس کا وحشیانہ رویہ دیکھتے ہوئے عفہ کی جانب دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
ہمت کرتے ہوئے عفہ نے کچھ الفاظ کا ذخیرہ اپنے سوچ میں کیا اور پھر اٹکتے اور ڈرتے ہوئے بولنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔
زر۔۔۔ز۔۔۔۔۔زریس ایسا ک۔۔۔۔۔۔کچ۔۔۔۔۔کچھ نہیں وہ تو میں ۔۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے عفہ کچھ کہتی زریس نے پھر سے بازو کر دباؤ ڈالا۔۔۔۔۔۔۔
کیا نہیں ہاں بولو کیا نہیں میں نے خود دیکھا تم اس کے کتنے قریب کھڑی اس سے ہنستی ہوئی باتیں کر رہی تھی مڑ مڑ کر اسے دیکھ رہی تھی اور تم کہتی ہو کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ زریس غصے سے اسے جھنجھوڑتے ہوئے بول رہا تھا کہ عفہ کے نقاب پر لعاب کے چھینٹے بھی گر رہے تھے۔۔۔۔۔۔
م۔۔۔۔ میری بات تو سنے زریس ۔۔۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے وہ تو میں نوٹس۔۔۔۔۔۔
کہتے ساتھ ہی وہ اردگرد دیکھنے لگ گئی وہ نوٹس جو اس کے ہاتھ میں تھے وہ اب کہیں گر چکے تھے۔۔۔۔۔
وہ نوٹس زریس وہ سمرا کے نوٹس تھے وہ اس نے مارگ کو دیے تھے ۔۔۔۔۔ عفہ نے اپنے بازوؤں اس کے گرپ سے نکالنے کی کوشش کی لیکن گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے چھڑوا نہ سکی۔۔۔۔۔
زریس کی آنکھوں میں بےاعتباری دیکھ کر عفہ کا دل بیٹھ سا گیا تھا جیسے اس کی دنیا بس اجڑنے کے دہانے ہر بیٹھ گئی ہے۔۔۔۔۔
زریس مجھے درد ہورہا ہے بہت۔۔۔۔۔ پلیز چھوڑو۔۔۔۔۔ میں بتاتی ہو سب ناں پلیز مجھے درد ہورہا ہے بہت بازوؤں پر۔۔۔۔۔ عفہ کی التجائی نظروں کی جانب دیکھتے ہوئے زریس کو اپنے وحشی پن کا احساس ہوا اور لمحہ ضائع نہ کرتے ہوئے عفہ کو اپنی گرفت سے آزاد کردیا۔۔۔۔۔
گرفت سے آزاد ہوتے ہی عفہ نے زمین پر گرے نوٹس کو اٹھا لیا اور ایک ہاتھ سے دوسری جانب کے بازو کو مسلنے لگ گئی۔۔۔۔۔
بولوں اب کیا بولنا چاہ رہی تھی تم؟؟؟؟ کون تھا وہ کمینہ جو تمہارے قریب آنے کی جرآت کررہا تھا۔۔۔۔۔ زریس ایک قدم مزید عفہ کی جانب بڑھا اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر عفہ بھی سہم کر ایک قدم پیچھے کو ہوگئی۔۔۔۔۔
زریس وہ یہ نوٹس۔۔۔۔ نوٹس دیکھاتے اس نے بولنا شروع کیا۔۔۔۔۔
یہ سمرا کہ نو۔۔۔۔۔ نوٹس تھے۔۔۔ وہ مار۔۔۔۔مارگ نے لیے تھے۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسوں بہاتی وہ ہچکیوں کی زد میں آتے ہوئے ہکلا رہی تھی۔۔۔۔
سمرا نے کہا میں اس سے وآپس لے لوں تو وہ میں وآپس لیے تھے ۔۔۔۔۔زریس آیسا کچھ بھی نہیں ہے کوئی بھی قسم اٹھوا لے ایسا کچھ بھی نہیں وہ بس کلاس فیلو. ہے زریس ۔۔۔۔۔ اگر سمرا مجھے نہ کہتی تو میں کبھی بھی اس سے بات کی کرتی۔۔۔۔۔ عفہ روتے ہوئے زریس کے سامنے خود پر لگے بےوفائی کے الزام کو آنسوں سے دھو رہی تھی جبکہ وہ سامنے کھڑا خاموشی سے اس کو گڑگڑاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
زریس نے آگے بڑھتے ہوئے اس کے نقاب پر اپنا ہاتھ رکھ لیا تاکہ عفہ مزید نہ بول سکے۔۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسوں صاف کرنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔
عفہ سرخ آنکھوں میں آنسوں کی لہر لیے نرم پڑتے زریس کے بدلتے تیورکو دیکھ رہی تھی اور پل پل حیران ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ایم سوری وہ میں بس پاگل سا ہوجاتا ہو کہ اگر کوئی میرے پسندیدہ چیز کے قریب بھی جائے تو میرا دل کرتا ہے کہ سب تباہ کردو اور جو اس کو چھوئے اس کو زمین میں گاڑ دو۔۔۔۔۔۔ زریس چہرے پر ہاتھ رکھتے عفہ کو حوصلہ دیتے بولا۔۔۔۔۔۔
میں کوئی چیز نہیں زریس ایک زندہ جیگتی جاگتی انسان ہو۔۔۔۔۔ عفہ نے پلٹ کر جواب دیا۔۔۔۔۔
جانتا ہو لیکن میری جان مجھے نہیں پسند۔۔۔۔ عفہ کا سر دیکھتے ہوئے زریس اسے نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
 اچھا ایم سوری معاف کردو اپنے زریس کو میری جان اب نہیں کرتا۔ اب نہیں ڈانٹو گا اور شک تو بلکل بھی نہیں کرونگا۔۔۔۔۔ زریس نے مسکراتے ہوئے عفہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
بہت حیران ہوتی ہو میں آپ کے پل پل کے بدلتے ہوئے رنگ روپ اور رویے دیکھ کر۔۔۔۔۔ عفہ نے آنکھوں. سے آنسوں صاف کرتے بولا۔۔۔۔۔
اب اس چیز کی عادت ڈال لو لڑکی تم ۔۔۔۔۔پوری زندگی میرے ساتھ ہی رہنا ہے تم نے اب ۔۔۔۔۔تو یہ سب جھیلنا تو پڑے گا تمہیں ۔۔۔۔۔۔ زریس نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اور ویسے بھی میری محبت میں جنونیت اور دیوانے پن کی کوئی حد نہیں تو میں تمہارے بارے میں بہت پوزیسسو ہو تو اب تم میری اس کی جانے والی حرکت کو بھی اسی کا حصہ سمجھو۔۔۔۔۔ زریس بولتا جارہا تھا جبکہ عفہ حیرانگی سے اس کو دیکھتی جارہی تھی۔۔۔۔ بات ختم ہوتے ہی وہ بیگ سنبھالتی ہوسٹل کی جانب بڑھنے لگ گئی۔۔۔ جبکہ زریس اس کو خاموشی سے جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
********************************

 رات کے بارہ بج چکے تھے سمرا کے پاس پڑا موبائل مسلسل زوم زوم کررہا تھا سمرا آنکھیں مسلتے ہوئے اٹھ بیٹھی ۔ فون اٹھایا تو آلارم بج رہا تھا فورا بند کرتے ہوئے وہ عفہ کے بیڈ پر جا بیٹھی جو سکون سے اپنے آپ کو کمبل میں لپیٹے سو رہی تھی۔۔۔۔۔
سمرا نے ایک مسکراہٹ سجائی اور اسی طرح عفہ کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔۔۔
سالگرہ مبارک ہو عفہ میری جان میری بہن۔۔۔۔۔۔عفہ کو جھنجھوڑتے ہوئے وہ اسے اٹھانے کی بھر پور کوشش میں لگی ہوئی تھی کافی جھٹکے کھانے کے بعد عفہ سمرا کو دھکا دیتے ہوئے اٹھی۔۔۔۔۔
کیا ہے یار؟؟؟ رات ہے لڑکی صبح نہیں. اور نماز کا ابھی وقت نہیں ہوا تو سونے دو پلیز۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی وہ وآپس جیسے ہی بیڈ کی جانب بڑھتے ہوئے لیٹنے لگی تو سمرا پھر اس کی جانب بڑھی اور اس کو آپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔۔۔
میری جان کا بڑتھ ڈے اور میں وش بھی نہ کرو کوئی نہیں میں تو کرو گی۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور کچھ دیر میں ایک چھوٹی سی پیسٹری کو کیچن سے پلیٹ میں سجاتے ہوئے موم بتی کو روشن کیے ٹکائے عفہ کے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
سمرا ان سب کی کیا ضرورت تھی یار مجھے اپنا دنیا میں آنے کی کوئی خوشی نہیں. تو یہ لے جاؤ پلیز اب اور سونے دو۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ بلینکٹ لیتے جیسے ہی لیٹنے لگی سمرا اس کی بازوؤں کو کھینچتے ہوئے وآپس اسے اپنے سامنے بیٹھا لیا۔۔۔۔
بس کروں لڑکی میری خوشی کیلئے اس کو بجھا دو تم نہ کھانا میں کھا لوں گی بس تم اسے بجھا دو اور سو جاؤ۔۔۔۔۔
توبہ کتنی بھوکی ہو تم اب تو میں یہ کھا کر سو گی ۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی پھونک مار دی۔۔۔۔ اور فورا پیسٹری اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔۔۔۔۔
سمرا گھورتے ہوئے عفہ کو دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔۔ 
اچھا اچھا لڑکی آآآآ کرو۔۔۔۔ عفہ نے پیسٹری کا ایک ٹکڑا توڑا اور سمرا کی جانب بڑھا دیا۔۔۔۔۔
سمرا بھی خوشی خوشی منہ کھولے اس کے سامنے سج گئی اور اسطرح عفہ کی مسکراہٹ نے اس کی زندگی کے نئے سال کا استقبال پرجوش انداز سے کیا۔۔۔۔۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
چلوں چلوں لڑکی بہت لیٹ ہوگئے آج تو ہم۔۔۔۔۔۔ رات دیر سے سوئے ناں تو آنکھ ہی نہیں کھل سکی اب زیادہ دیر نہ لگاؤں اور جلدی نکلو۔ مجھے لیکچر سے لیٹ نہیں ہونا بہت کھڑوس سر ہے وہ ویسے بھی اچھی خاصی عزت کر دیتے تبھی گوروں کالوں کے سامنے۔۔۔۔ سمرا دروازے پر کھڑی بے چینی سے گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
ہاں ہاں تو کس نے کہا تھا اپنی بھی نیند حرام کرو اور میرء بھی۔۔۔ اچھی خاصی سو رہی تھی میں میرے بستر کو زلزلہ خیز زمینی حصہ بنا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔ اور اب جلدی جلدی کا نعرہ لگا رہی ہو۔۔۔۔۔ عفہ بھی تیزی سے بیگ اور فائیلز پکڑتے ہوئے منہ لٹکاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ کیونکہ اسے ابھی تک پاکستان سے کسی بھی کام نہ آئی تھی لہذا اس کا صبح سے ہی موڈ بہت آف تھا۔۔۔۔۔
لوں جی اب میں تمہیں وش بھی نہ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سمرا سوالی بن کر بولی۔۔۔ 
کرتی کرتی ضرور کرتی لیکن صبح تک کا انتظار کر لیتی میں نے کونسا رات کو دوبارہ بے بی گرل بن جانا تھا۔۔۔۔۔ عفہ کمر پر ہاتھ رکھتے سمرا کو تنگ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
سیریسلی بہت ہی بے مروت بد لحاظ اور بد تمیز لڑکی ہو تم ایک تو میں نے تمہارا احساس کیا اوپر سے تمہاری یہ باتیں۔۔۔۔۔۔ 
اب خبردار تم نے مجھے بلایا بھی۔۔۔۔ کہتے ساتھ منہ پھولائے غصہ سجائے سمرا لیفٹ کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔ جبکہ عفہ نے تیزی سے جاتی سمرا کو دیکھتے ہوئے جلدی سے فلیٹ کو لاک کیا اور اس کے پیچھے ہوگئی کیوں کہ اسے محسوس ہو چکا تھا کہ وہ کسی کا غصہ کسی پر اتار چکی تھی اب وہ اس کے پیچھے تھی کہ اسے منا سکے۔۔۔۔۔۔
پورے راستے سمرا منہ پھولائے بنا بات کیے چلتی رہی جبکہ عفہ اس کے پیچھے اس کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد منانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔۔
یونیورسٹی کا پورا وقت سمرا یونہی ناراض رہی عفہ نے سوچ لیا کہ وہ اسے یونیورسٹی کے بعد منا کر ہی رہے گی لہذا وہ وقت گزرنے کا انتظار کرنے لگ گئی۔۔۔۔
جیسے ہی دونوں کلاس سے باہر نکلی تو عفہ نے سمرا کو زبردستی گلے لگا لیا۔۔۔۔۔
اچھا ناں سمرا ایم سوری ناں یار اتنا بھی کیا ناراض ہونا اور آج تو میری بڑتھ ڈے ہیں ناں تو ناراض نہ ہو میری پیاری۔۔۔۔۔۔۔ عفہ بول رہی تھی جبکہ سمرا اسے اپنے سے الگ کرنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔۔۔
تمہیں پتہ مجھے ابھی تک صرف تم نے وش کیا گھر سے کسی کی بھی کال نہیں آئی اور ناں ہی مجھ سے پوچھا۔۔۔ بس اسی وجہ سے تھوڑا پریشان سی ہوگئی تھی۔ اور وہ غصہ اور پریشانی تم پر اتار ڈالی۔۔۔۔ بس بھی ناں اب۔۔۔۔۔ عفہ سمرا سے الگ ہوئی اور اس کے چہرے کو تھامتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
عفہ تم بس اپنا سوچتی ہو تمہیں میرا بھی خیال ہے کیا۔۔۔ تم یہ تو جانتی ہو ناں کہ میں بھی تمہارے سہارے ہی یہاں آئی ہو مجھے بھی گھر سے کوئی اتنی کالز نہیں آتی اور میں تمہیں ہی آپنی فیملی سمجھتی ہو لیکن تم۔۔۔۔۔ سمرا کہتے ساتھ ہی آبدیدہ سی ہوگئی۔۔۔۔۔
عفہ کو اب شرمندگی سی محسوس ہونے لگ گئی تھی۔۔۔ فورا اس کے ساتھ لگ گئی۔۔۔۔
ہائے میں نے اپنی پیاری معصوم دوست کو رلا دیا اس دوست کو جو سب سے زیادہ بہادر ہے جو مجھے ہر بار سنبھالتی ہے اور اسے میرے جنم دن کی اتنی خوشی ہوئی ہے کہ وہ اب آنسوں بھی بہا رہی ہیں۔۔۔۔۔ ہنستے ہوئے الگ ہوگئی
شرم تو نہیں آتی ویسے تمہیں لڑکی جتنا مرضی تمہیں فیل کروا دو لیکن تم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہنا۔۔۔۔۔۔۔ سمرا نے سنا تو اپنے سے الگ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہا نہیں آتی تمہارے ساتھ تو بلکل بھی نہیں آتی اب چلوں اچھا زیادہ منہ نہ بناؤ ورنہ میں بھی رو پڑنا اب۔۔۔۔ عفہ نے سمرا کو تھپکی دیتے ہوئے کہا اور ہاتھ پکڑتے ہوئے باہر کی جانب چل پڑی۔۔۔۔۔۔
شکر ہے تم باہر آگئی ہو مجھے تھا کہ آج تم یونیورسٹی نہیں آئی ہوگی اور میں وآپس جانے لگا تھا بس۔۔۔۔۔ سامنے کھڑے زریس کو دیکھ کر عفہ اور سمرا دونوں کے قدم یونیورسٹی کے دروازے میں ہی رک گئے۔۔۔۔۔ 
اب یہ یہاں کیا کررہا ہے عفہ؟؟؟؟ سمرا نے زریس کو دیکھتے پوچھا۔۔۔
مجھے نہیں پتہ یار یہ یہاں کیوں آیا ہے پتہ نہیں کیا جونک ہے یہ ۔۔۔۔۔میری زندگی کے ہر بڑے دن کو تباہ کرنے پہنچ جاتا ہے جیسے شیطان کا چیلا ہو۔۔۔۔ عفہ دانت پسیجتے ہوئے بولی۔۔۔۔
ہیپی بڑتھ ڈے عفہ سالگرہ بہت بہت مبارک ہو تمہیں اور یہ پھول تمہارے لیے امید ہے تمہیں پسند آئے گے؟۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی زریس نے پھولوں کا گلدستہ عفہ کے آگے بڑھا دیا جسے عفہ بس آنکھوں سے ہی دیکھتی رہی جبکہ زریس بھی ’اسی انداز میں کھڑا پھول آگے کیے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
نہیں چاہیے آپ کے پھول۔۔ کانٹوں جیسے خصلت ہیں ان میں۔۔۔۔
 کیوں آئے ہو آپ یہاں ؟؟؟ عفہ نے لاپرواہی سے بولتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وجہ اچھے سے جانتی ہو کیوں آیا ہو میں یہاں۔۔۔۔۔ اور کیوں آتا ہو بار بار۔۔۔۔
بآلاخر میری محبت کا آج جنم دن ہے اور میں اسے وش کرنے آیا ہو اور التجاء کرنے آیا ہو کہ ماضی کی ہر بات بھول کر مجھے اپنا لوں ۔ بہت تھک گیا ہو میں عفہ اب مزید مجھے زلیل نہ کرو۔۔۔۔۔ 
عفہ میں بہت اکیلا پڑ گیا ہو مجھے مزید تنہائی میں ڈوبنے نہ دو۔۔۔۔۔۔ زریس ایک سانس میں وہ بولتے جارہا تھا۔۔۔۔
بس بس پلیز آپ اپنی فلاسفی اپنے حد تک رکھے کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا اور نہ ہی جیتا ہے سب اپنے مفاد کو گود میں لیے بیٹھے ہیں۔۔۔۔ عفہ نے زریس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے سخت الفاظ اور لہجے کا استعمال کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
مانتا ہو میں کہ کوئی کسی کیلئے نہیں جیتا اور نہ مرتا لیکن کوئی کسی کی جینے کی وجہ ضرور ہوتا ہے دیکھو میں اپنی غلطی تسکین کرتا ہو میں نے بہت غلط کیا ہے تمہارے ساتھ لیکن اس کی اتنی بڑی سزا۔۔۔۔۔ زریس نے التجائی نظروں سے دیکھتے عفہ کی سنگدلی کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا لیکن. عفہ کے رویے سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ فقط اپنا وقت کا ضیاع کررہا ہے اس پر۔۔۔۔۔۔
دیکھے مسٹر زریس شاہ خود بھی سکون اور آرام کی زندگی گزارے اور مجھے بھی گزارنے کا حق دے بہت جلد میں یہاں سے چلی جاؤ گی امید ہے تب تک آپ مجھے تنگ نہیں کرے گے۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی وہ سمرا کے ساتھ آگے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔
جبکہ ہاتھوں میں پھول تھامے زریس اسے جاتا دیکھ رہا تھا غصے سے پھولوں کو وہی زمین پر دے مارا اور پھر پھولوں کو ٹانگ مارتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔
ایک بار تم مان جاؤ بس سود سمیت ساری ذلالت وآپس کرو دونگا تمہیں وعدہ ہے میرا تم سے۔۔۔۔ اردگرد دیکھتے ہوئے گلاسز کو آنکھوں آگے سجا دیا اور وہاں سے چلے جانا زیادہ مناسب سمجھا۔۔۔۔۔۔
شکر ہے عفہ بس ایک مہینہ رہ گیا ہے ہمارا یہاں ۔۔۔۔۔۔بس اب یہ بھی جلدی جلدی گزر جائے اور زریس نام کی جونک سے ہماری جان چھوٹے۔۔۔۔۔۔ سمرا عفہ کو خاموش چلتے دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ وہ پھر سے اداس ہوگئی ہے لہذا اسکا دھیان بٹانے کیلئے اس نے باتیں کرنا شروع کردی۔۔۔۔۔۔
ارے لڑکی مجھے ٹریٹ تو دو یار۔۔۔۔۔۔ سمرا چونکتے ہوئے اس کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔
یہ سہی ہے ویسے پہلے تو مجھ جیسی نیک معصوم روحیں زمین پر آتی ہیں تم زمین والوں پر احسان کرکے اور پھر انہیں سے ٹریٹ مانگی جاتی ہیں ان کی جیب خالی کروانے کیلئے بہت بڑا کھلا تضاد ہے یہ تو بلکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ تم مجھے کھانا کھلاؤ بلآخر مجھ جیسے دوست ملنا آسان نہیں ۔۔۔۔۔۔ عفہ نے سمرا کی جانب اکڑتے ہوئے دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔
ہاں ہاں محترمہ آپکا بہت احسان ہے ہم پر کہ آپ آئی رونق لائی اور میری زندگی کو مزید زندگی بخشی۔۔۔۔۔ اتنا جھوٹ کافی ہے یا اور بولو۔۔۔۔۔ سمرا نے بھی عفہ کو جوق در جوق جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
عفہ اس کی بات سن کر ہنس پڑی ۔۔۔۔۔
اچھا بتاؤ کیا کھانا ہے ؟؟؟ اور کہاں کھانا ہے جہاں آج میری بہن بولے گی وہی ہمارا آج کا کھانا ہوگا۔۔۔۔۔۔ عفہ مسکرا کر بولی۔۔۔۔۔
ارے واہ بڑا دل نکالا ہے تم نے آج۔۔۔۔۔۔ سمرا نے عفہ کو تنگ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اس سے پہلے عفہ کوئی جواب دیتی عصار کو اپنی جانب آتے دیکھ کر سمرا نے عفہ کو انگلی دیکھاتے چپ رہنے کا اشارہ دیا۔۔۔۔ لیکن عفہ سمجھی کہ شاید اب بھی سمرا اس کا مذاق اڑانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔
کیوں اب کیا ہوا میری بولتی کیوں بند کروا رہی ہو لڑکی۔۔۔۔۔ اتنی مشکل سے تو مجھے بولنا آیا ہے۔۔۔۔ ویسے ایک بات بتاؤ آج میں نے صیحح ڈانٹ پلائی نہ اس زریس کے بچے کو۔۔۔۔۔۔ 
ہہہہہہہہہہ رہتا نہیں کہیں کا مجنون۔۔۔۔۔۔ جس کی لیلی صحرا میں گم گئی ہو۔۔۔۔۔۔ عفہ کہتے ساتھ ہی کھکھکا کر ہنس دی۔۔۔۔۔
اللہ توبہ میں تو مجنوں کی توہین کردی ۔۔۔۔۔۔ کانوں کو ہاتھ لگاتے وہ ہنستے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔۔
کیا ہے بول کیوں نہیں رہی کچھ یار ؟؟؟؟؟ عفہ نے سمرا کی جانب دیکھا جو اسے مسلسل گھور رہی تھی کیونکہ اب عصار بلکل عفہ کے پیچھے کھڑا اس کی باتین سن رہا تھا جسکا چہرہ بلکل سپاٹ تھا شاید اسے عاشق کی توہین کرنا پسند نہ آرہا تھا۔۔۔۔۔
بلکل ایسے ہی گھورتا ہے وہ ۔۔۔۔۔ کیا نام ہے اسکا۔۔۔۔ ماتھے پر ہاتھ ٹکائے وہ سوچنے کے انداز میں آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے بولنے لگ گئی کہ تبھی اچھلتے ہوئے سمرا کے کندھے کو تھامتے ہوئے عصار کا نام لے لیا۔۔۔۔۔
سمرا وہ بھی بلکل ایسے ہی گھورتا ہے مجھے بلکل تمہاری طرح ۔۔۔۔۔ ایسا چہرہ بنایا ہوتا جیسے ابھی کہیں سے لڑ کر آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اوپر سے کہتا ہے دوستی کا ۔۔۔۔۔ بندہ دوستی اس سے کرے جو ساتھ چلتے ہوئے بھی اچھا لگا۔۔۔۔ مگر وہ تو مجھے پنجابی فلموں کا فلاپ ویلن لگتا ہے قسمیں۔۔۔۔ عفہ کہتے ساتھ ہی تالی مارتے ہوئے ہنس پڑی۔۔۔۔
ایک اور بات بتاؤں اس کے بارے میں..۔۔۔۔۔۔۔ عفہ نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے سمرا کو چمکتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اسے مزید بولنے سے روکنے کیلئے سمرا نے ایک دم عفہ کو گھوما دیا جس سے عفہ عصار کے روبرو کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ عصار کا چہرہ بلکل ویسے ہی بنا ہوا تھا جس کا تذکرہ عفہ ابھی کچھ دیر پہلے کر کررہی تھی۔۔۔۔
عصار کو اپنے سامنے یوں کھڑا دیکھ کر عفہ دنگ سی رہ گئی۔۔
عفہ نے اپنا سر پیچھے کی جانب کیا نظریں عصار کی چبھتی آنکھوں میں تھی جبکہ سمرا نے بھی عفہ کا جھکاؤ اپنی جانب آتے دیکھا تو وہ بھی تھوڑا اس کی جانب ہوئی ۔۔۔۔۔۔ 
سمرا مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ یہ نمونہ میرے پیچھے ہی کھڑا ہے؟؟؟؟ 
آنکھیں دیکھا تو رہی تھی لیکن. تمہیں تو اب بولنا آگیا ہے ناں تو اب بھگتو۔۔۔۔۔ سمرا کہتے ساتھ وآپس اپنی پوزیشن میں کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔
جبکہ عفہ ابھی بھی عصار کو ایسے ہی دیکھ رہی تھی۔ جیسے اس کی بہت بڑی چوری پکڑی گئی ہو۔۔۔۔۔
عصار کے چہرے پر عفہ کی حواس باختہ تاثرات دیکھ کر مسکراہٹ سی ابھر آئی۔۔۔۔۔۔
عفہ وآپس سمرا کی جانب جھکی ۔۔۔۔ سمرا لگتا ہے یہ نمونہ پاگل بھی ہوگیا ہے دیکھ کیسے مسکرا رہا ہے اپنے بارے میں سن کر جیسے میں نے اس کی تعریفوں کے پل باندھے ہیں۔۔۔۔۔۔ عفہ بول ہی رہی تھی کہ تبھی عصار بول اٹھا۔۔۔۔
کچھ اور کہنا ہے سمرا کے کانوں میں تو کہہ دو پھر مجھے بھی بہت کچھ کہنا وہ بھی تمہارے کانوں میں۔۔۔۔۔ عصار نے عفہ کی پیچھے کے جانب جھکی گردن کو دیکھا تو کہا۔۔۔۔۔۔
آپ یہاں کیسے؟؟؟ عفہ سیدھی ہوتے بولی۔۔۔۔۔
میں ۔۔۔۔۔۔ میں تو بس آپکو یہاں ملنے آیا ہو۔۔۔۔۔ عصار نے ایک سحر انگیز مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مطلب آپکو اور کوئی کام نہیں سوائے آوارہ گردی اور لڑکیوں کے پیچھے جانے کے۔۔۔۔۔ عفہ نے عصار پر طنز کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
جی نہیں اب ایسا بھی نہیں ایک آپ ہی لڑکی جس کے پیچھے میں یہاں تک آتا ہو ورنہ بینکاک میں لڑکیوں کی کمی نہیں جو میرے پیچھے بھاگتی ہیں۔۔۔۔۔۔ عصار نے عفہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
آپ دونوں کے الفاظوں کی جنگ اگر بند ہو تو کیا ہم کہیں جا کر کچھ کھا سکتے ہیں؟؟؟؟ مجھے بہت بھوک لگی ہیں اور آپ دونوں کے الفاظ میری بھوک کو مٹانے کیلئے ناکافی ہیں۔۔۔۔۔۔ سمرا نے دونوں کی جانب آتے ہوئے التجائیاں نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
ہاں کیوں نہیں سمرا چلوں چلتے ہیں مجھے بھی بہت زوروں کی بھوک لگی ہیں۔
جی بلکل اور مجھے پراپڑ ٹریٹ چاہیے میڈم ۔۔۔۔۔ اور آپ بھی جوائین کر لے ہمیں اگر آپ چاہے تو آج پہلی بار تاریخ میں لکھا جائے گا کہ مس عفہ بخاری مجھے اپنی بڑتھ ڈے کی ٹریٹ دے رہی ہیں۔۔۔۔۔ سمرا کی بات سن کر عفہ نے ایک گھوری ڈالی۔۔۔۔
واؤ مطلب آج عفہ کی سالگرہ ہے جنم دن بہت بہت مبارک ہو آپکو عفہ اللہ آپکو ہر خوشی دے آپ خوش رہو۔۔۔۔۔ عصار نے عفہ ہر جھکتے ہوئے کہا۔۔۔۔
بہت شکریہ آپکا۔۔۔۔ عفہ نے مروتا مسکرا کر جواب دیا۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں تینوں ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھے اپنی اپنی باتوں پر ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔
عصار اپ اتنے بھی عجیب نہیں ہے جتنا میں سمجھ رہی تھی آپ اچھے ہیں۔۔۔۔۔ عفہ نے عصار کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو وہ دو ہل کو رک سا گیا اور عفہ کو دیکھنے لگ گیا۔۔۔۔۔
آپ مجھے یہ بتائیں میں پہلی والی باتوں پر یقین کرو کہ اب والی بات کو مانو۔۔۔۔؟؟؟ ویسے میں اتنا بھی عجیب نہیں ہو ۔۔۔۔۔۔ 
زریس کے سوال نے عفہ کو کنفیوز کردیا تھا۔۔۔۔ 
چلیں اب آپ زیادہ پریشان نہ ہو۔۔۔ یہ بتائیں کہ کیا آرڈر کروانا ہے ؟؟؟؟ آج عفہ کی بجائے میں ٹریٹ دیتا ہو وہ بھی ہماری دوستی کے نام۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی عصار نے ویٹر کی جانب اشارہ کیا۔۔۔۔۔
عفہ نے سمرا کی جانب دیکھا۔۔۔۔
عصار آپ برا نہ مانے تو آپ کسی اور ٹیبل کہ جانب چلے جائے ہم یہاں دوسری جانب رخ کر کے کھانا کھا لے گی۔۔۔۔ 
عصار نے عفہ کی بات پر حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
لیکن کیوں؟؟؟؟ 
میں اپکے سامنے نقاب نہیں کھولنا چاہتی تو پلیز آپ کسی اور ٹیبل پر چلے جائے کھانا کھانے کے بعد وآپس آجانا آپ۔۔۔۔۔ 
عفہ کی بات سن کر عصار نے حامی میں سر ہلایا اور خاموشی سے اٹھ کر دوسری جانب بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
عفہ اور سمرا نے اپنی کرسیوں کا رخ دیوار کی جانب کیا کہ کوئی بھی انہیں دیکھ نہ سکے اور پر سکون انداز سے دونوں نے کھانا کھایا۔۔۔۔۔
کھانے کے فورا بعد عصار ان کی جانب بڑھ آیا۔۔۔۔ 
بہت بہت شکریہ آپکا۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا بل میں خود دونگی ۔۔۔۔۔ عفہ نے ویٹر کے ہاتھ سے بل تیزی سے پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
جی نہیں یہ بات نہیں. ہوئی تھی میں لایا تھا آپ دونوں کو یہاں تو پھر میں ہی دونگا بل تو پلیز آپ ادھر دے مجھے۔۔۔۔۔ عصار نے تیزی سے اپنا ہاتھ عفہ کی جانب کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میری برتھ ڈے کی ٹریٹ ہی سمجھ لے آپ پھر کبھی اپنا حساب برابر کر لینا۔۔۔۔ عفہ نے کہتے ساتھ ہی پاس کھڑے ویٹر کو پیسے دیے اور پھر دونوں ریسٹورینٹ سے باہر کی جانب نکل آئی۔۔۔۔۔
عصار کو بھی اپنے پہچھے آتا دیکھ کر دونوں وہی رک گئی۔۔۔۔
تو پھر میں اپنا حساب کب برابر کرو مجھے یہ بھی بتا دے آپ اب؟؟؟؟ 
بہت جلد کرے گے آپ اپنا حساب برابر اب چلتے ہیں ہم دونوں انشاء اللہ پھر ملے گے۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی عفہ نے کیب روکی اور دونوں اپنی منزل پر روانہ ہوگئیں۔۔۔۔
جی بلکل بہت جلد حساب پورا کرونگا آپکا کہ آپ برسوں تک عصار نام کی تسبیح زبان عام رکھے گی۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی اپنا موبائل نکالا اور کسی کو کال ملا دی۔۔۔۔۔
کال کرنے کی وجہ جان سکتا ہو میں؟؟؟؟ دوسری جانب سے آواز آئی۔۔۔۔
میں دیکھ چکا تھا آج تمہیں عفہ کے ساتھ تو سوچا تمہیں تھوڑا حوصلہ ہی دے دو کہ بہت جلد میں اسے تمہارے سامنے کھڑا کرنے والا ہو تو تب تک اس سے خود دور رہوں میں نہیں. چاہتا کہ کوئی بھی مسئلہ کھڑا ہو جائے اور میرا بنا بنایا کھیل سب بگڑ جائے۔۔۔۔۔ عصار اپنی گاڑی کی جانب بڑھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے لیکن صرف کچھ دن اس سے زیادہ کی توقع مجھ سے نہ رکھنا تم میں تمہاری اصلیت بھی اس کے سامنے رکھ سکتا ہو کہ تم کس مقصد سے اس کے ساتھ موجود ہو۔۔۔۔۔۔ زریس عصار کو دھمکاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
اس تک نوبت ہی نہیں آئے گی اور اگر آ بھی گئی تو یقین جانو مجھے ردی برابر بھی فرق نہ پڑے گا۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی عصار نے کال کاٹ دی اور گاڑی کے بونٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
اپنی ساری محنت اور وقت کا ضیاع میں ایسے ہی جانے نہیں دونگا ۔۔۔۔۔۔ بس ایک آخری کیل جو مجھے دو تین دن میں عفہ کے ذہن میں ٹھوکنا ہے اس کے بعد میں اپنی گلی اور وہ اپنی۔۔۔۔۔۔ 
میں نے محبت میں بہت کچھ کھویا ہے۔ لیکن میں کسی کو اپنے جیسا اجڑتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ محبت کی ضرب ہی ایسی ہے کہ سالوں سال تک انسان اس کا زخم چھپاتا پھڑتا ہے اور جیسے ہی وہ اپنے جیسا کوئی زخمی ناکام عاشق دیکھتا ہے تو اس کا زخم ابلے کی شکل اختیار کر کے روز اس میں سے خون رساتا ہے۔۔۔۔۔
کاش تم بلکل ایسی نہ ہوتی عفہ تو میں کبھی بھی ایسا نہ کرتا جو کر رہا ہو یا آگے کرنے جا رہا ہو۔۔۔۔ امید ہے کہ تم مجھے معاف کردو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے اور رائے ضرور دے😊

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─