┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: ذت_عشق
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_13

 سمرا یار تمہارے پاس نوٹس ہے مارکیٹنگ کے؟؟؟؟ 
کتابوں کو کھنگالتی عفہ نے آرام سے بیٹھی سمرا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کونسے چیپٹر کے ؟؟؟؟ 
ساتویں چیپٹر کے۔۔۔۔۔۔۔ عفہ نے پریشانی سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
ہاں ہیں میرے پاس ایک منٹ دیتی ہو۔۔۔۔۔۔ سمرا کہتے ساتھ اٹھی اور اپنے بیگ سے نوٹس نکالتے ہوئے عفہ کے آگے رکھ دیے۔۔۔۔
افففففففف شکر ہے مل گئے۔۔۔۔ اتنے دن ہوگئے ہیں میں نے کچھ نہیں پڑھا اور دھیان بھی نہیں دیا کہ کونسے ٹاپکس میرے پاس ہے اور کونسے نہیں ۔۔۔۔۔۔ عفہ مسکراہٹ سجائے نوٹس کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اسے کھویا ہوا خزانہ مل گیا ہو۔۔۔۔
بس تم میرا شکریہ ادا کرو جو تمہیں ہر چیز آرام سے مل جاتی ہیں ورنہ تمہارے جو حالات چل رہے تھے ناں تو بس پھر اللہ ہی مالک ہونا تھا تمہارا۔۔۔۔۔۔ سمرا جتلانے کے انداز میں خود پر فخر کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
جی جی بلکل کیوں کہ آپ میری اماں پارٹ ٹو ہے جو یہاں میری ہر کی جانے والی حرکت ہر چیز پر نظر جمائے بیٹھی ہے۔۔۔۔۔۔ عفہ بولتے ساتھ ہی ہنس پڑی جبکہ سمرا کمر پر ہاتھ ٹکائے اسے گھور رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اچھا اچھا تم تو جان ہو میری میں بریڈ تم انڈا۔۔۔۔۔
میں چاول تم دال۔۔۔۔۔
میں مٹن تم چیکن۔۔۔۔۔۔
ہاتھوں سے اشارے کرتے بیڈ پر کھڑی عفہ کسی ہیروئن کی طرح ایک خراب سی اداکاری کا نہایت ہی ڈھٹائی سے مظاہرہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
بہت ہی گندی مثال دی ہیں محترمہ آپ نے۔۔۔۔۔ سمرا ابھی بھی منہ بنائے اسی انداز میں کھڑی اسے گھور رہی تھی۔۔۔۔۔
عفہ فورا سیدھی کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔ اور سمرا کو ٹیرھی آنکھوں سے دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔۔
کچھ دیر تو یونہی چلا پھر دونوں ہی آہستہ آہستہ کھسر پھسر کر کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہنسنے لگ گئی۔۔۔۔
چند ہی لمحے میں دونوں کی ہنسی پورے فلیٹ میں گونج رہی تھی۔۔۔۔
سمرا ہنستے ہنستے عفہ کا بازو پکڑتے بیٹھ گئی جبکہ عفہ مسلسل اسے چیکن کے لقب سے نواز رہی تھی۔۔۔۔۔ 
ابھی وہ ہنس ہی رہی تھیں کہ تبھی عفہ کا موبائل زور زور سے میز کی سطح سے خود کو ٹکرانے لگ گیا۔۔۔۔۔
چلوں اب کس کا فون آگیا ۔۔۔۔۔۔ 
پتہ سمرا یہ دنیا والے ہماری محبت کے دشمن ہے دیکھ نہیں سکتے کہ ہم چند لمحے ساتھ بیٹھ کر ہنسے۔۔۔۔۔
بس کرو اور کتنے ڈرامے کرنے لڑکی تم نے کال اٹھاؤ دیکھو گھر سے کال نہ آرہی ہو۔۔۔۔۔ سمرا نے عفہ کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا تو وہ اٹھ کر میز کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔
سکرین پر کوئی انجان نمبر چمک رہا تھا۔۔۔۔ نمبر دیکھتے ساتھ ہی عفہ سوچ میں پڑ گئی کہ کون اسے کال کر رہا ہے۔۔۔۔
سمرا جو پاس بیٹھی تھی کال کی آواز سن کر عفہ کی جانب دیکھتے ہوئے مڑی۔۔۔۔۔
کیا ہوا اٹھا کیوں نہیں رہی فون؟؟؟ کون ہے؟؟؟ جس کی کال آرہی۔۔۔۔ سمرا نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔۔۔
پتہ نہیں سمرا کوئی بینکاک کا ہی نمبر ہے جس سے فون آرہا ہے۔۔۔۔ عفہ نے کندھے اچکاتے ہوئے سمرا کو انجان بنتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔۔ تو اٹھا لوں کال دیکھو ہے کون جو تمہیں کال کر رہا ہے۔۔۔۔ سمرا عفہ کے پاس آتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
عفہ نے حامی میں سر ہلاتے ہوئے فون کو کان سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے عفہ کچھ بولتی دوسرے جانب سے ایک مردانہ آواز نے عفہ کے کانوں میں گھلنا شروع کردیا ۔۔۔۔۔۔
ہیلو عفہ دوست کیسی ہیں آپ؟؟؟؟ خوش گوار اور تازگی سے بھری آواز سے بولا۔۔۔۔۔۔
جج جی کون؟؟؟؟ عفہ نے حیرانگی سے سمرا کی جانب آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
عفہ اتنی جلدی بھول گئی دوست آپ تو مجھے۔۔۔۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا ۔۔۔۔۔ دوست کو ایسے بھولا جاتا ہے کیا؟؟؟؟
عفہ نے آواز سنی تو کچھ دیر یونہی خاموش سوچتی رہی جبکہ سمرا مسلسل اشارے کرتے ہوئے اسے اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔
آپکو یاد آیا کچھ کہ نہیں؟؟؟ 
ایک بار پھر عفہ کے کانوں میں یاد دہانی کروانے کی کوشش کرتے مردانہ آواز نے دوبارہ گونجنا شروع کردیا۔۔۔۔
اچانک عفہ کا دماغ عصار کی جانب جا کر اٹکا تو بےاختیار بول اٹھی۔۔۔۔۔
عصار چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
عصار نے اپنا نام سنا تو خوشی کے مارے کھلکھلا کر ہنس پڑا۔۔۔۔۔
وللہ آپکو میں یاد ہو اسکا مطلب۔۔۔۔ ذہے نصیب بہت ہی خوش قسمت ٹھہرا میں تو ،،،آپکا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔
عفہ نے سنا تو کنفیوز سا چہرہ سجائے سمرا کی جانب دیکھنے لگ گئی جو ہزار اشارے کر کے اس سے فون والے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
جی جی بس یاد آ ہی گئے آپ۔۔۔ تو کیسے ہیں آپ عصار اور طبیعت کیسی ہیں آپکی اب؟؟؟ عفہ نے عصار پر زور ڈالتے ہوئے سمرا کو اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
سمرا نے حامی میں سر ہلایا اور پھر اپنا کان فون کے قریب کرتے ہوئے بات سننے کی کوشش کرنے لگ گئی۔۔۔۔۔
جی طبیعت میری بلکل ٹھیک ہے بس آپکا ہی انتظار کررہا تھا کہ آج بھی آپ ائے گی اور شاید مجھے آپ سے ملنے کا شرف دوبارہ نصیب ہوجائے۔۔۔۔۔۔ عصار نے ڈائیلاگ بازی کرتے ہوئے کہا تو سمرا نے فورا اپنی منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔۔۔
ج۔۔۔ جی۔۔۔۔
مطلب آپ آرہی ہیں ملنے۔۔۔۔ عصار خوشی سے چلا کر بولا۔۔۔
 مطلب یہ کہ نہیں مطلب ہاں مطلب کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف عصار اور دوسرے جانب سمرا کو دیکھتے ہوئے عفہ بوکھکلا سی گئی۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا آپکو عفہ کوئی مسئلہ ہے کیا ؟؟؟؟ عصار نے فون کی دوسری جانب سے کھسر پھسر اور کھرکھراہٹ کی آواز سنی تو بولا۔۔۔۔۔۔۔
جی بس ایک منٹ ذرا۔۔۔۔۔۔ عفہ نے فون سائیڈ پر رکھا اور سمرا کی جانب بھاگی جو پہلے ہی عفہ کا پھولتا ہوا منہ دیکھ کر سمجھ چکی تھی۔۔۔۔۔۔
بھاگتے ہوئے کیچن کی جانب بڑھی اور دروازے کو اندر سے لاک کر دیا۔۔۔۔۔۔
سمرا کو چھپتے دیکھ کر عفہ وآپس فون کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔
جی اب بولے کیا ہوا آپ نے کال کیوں کی؟؟؟؟ عفہ نے سانس بھرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
نہیں کچھ نہیں بس یونہی دل کیا اور کردیا فون۔۔۔۔۔۔
وہ تو ٹھیک ہے آپ نے کال کی لیکن مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی۔۔ آپ کے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا جہاں تک مجھے یاد میں نے تو آپکو اپنا نمبر نہیں دیا تھا۔۔۔۔ عفہ نے تجسس بھرے لہجے سے پوچھا۔۔۔۔۔۔
لوں اب اسکا کیا جواب دو اسے بہت تیز ہے یہ لڑکی اتنی جلدی اتنا کچھ کیسے سوچ لیتی ہیں یہ؟؟؟ عصار دل ہی دل میں سوچتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
بولے بھی آپ۔۔۔۔۔کہاں سے آیا نمبر اپنے پاس ؟؟؟؟؟ عفہ زور دیتے بولی۔۔۔۔
لوں اب آپ یہ بھی بھول گئی ہیں کیا؟؟؟ ہسپتال آپ ہی لائی تھی مجھے تو میں نے ہسپتال سے ہی لیا آپکا نمبر۔۔۔۔۔۔ بولتے ساتھ ہی سکھ کا سانس بھرا۔۔۔۔۔
اچھا پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔۔عفہ نے جواب دیا۔۔۔۔ 
جی اب آپکی انکوائری پوری ہوگئی ہو تو کیا آپ بتا سکتی ہیں مجھے کہ آج آپ آئے گی ملنے کہ نہیں؟؟؟؟ عصار نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا تو عفہ نے فورا نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔۔۔
جی نہیں۔۔۔۔۔۔۔
کیا؟؟؟؟؟؟ عصار نے یقین نہ ہونے پر بے اختیار بولا۔۔۔۔۔
جی یہی کہنا چاہ رہی ہو کہ نہیں آج نہیں مل سکتی مجھے پڑھنا ہے۔۔۔۔۔۔
ہاں نہ تو آپ پڑھے ناں لیکن مجھ بے بس اور مظلوم انسان کا بھی سوچے۔۔۔۔۔۔۔ عصار نے منت کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
دیکھے میری بات سمجھے۔۔۔۔۔۔ عفہ بول رہی تھی لیکن عصار نے بات کاٹ دی۔۔۔۔۔۔
کچھ نہیں بس کہہ دیا نہ میں نے اب آپ کی بات میں نے مانی تھی ناں اب آپکی باری ۔۔۔۔۔ دوستی کی ہے تو نبھائیں بھی مکمل۔۔۔۔۔۔۔
عصار کی بات سن کر عفہ مزید کچھ نہ کہہ سکی ۔۔۔۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے عصار آپ ہسپتال سے فری ہو جائے تو پھر آپ سے ملوں گی میں۔۔۔۔۔
سچ بولیں پکا ناں۔۔۔۔۔۔۔۔ عصار نے کنفرم کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔
ہاں جی پکا۔۔۔۔۔۔ عفہ نے زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے پھر دوست آپکا انتظار رہے گا مجھے ۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی کال کاٹ دی۔۔۔۔۔
عفہ نے کال بند کی تو جیسی ہی مڑی تو پاس کھڑی سمرا کو ہنستے پایا۔۔۔۔۔
ارے لڑکی میں تمہاری جان لے لوں گی کیوں ہنسی جارہی ہوں؟؟؟؟ عفہ تکیہ اٹھاتے سمرا کی پیچھے بھاگی جس کو آج نہ جانے کیا بیماری لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔

********************************
کیسے ہیں آپ ؟؟؟؟؟ اندر آتی عفہ نے زریس کو لیٹے دیکھا تو بولی۔۔۔۔
واؤ آگئی میری فیوچر زوجہ۔۔۔۔۔۔ سریسلی بہت یاد کررہا تھا تمہیں آج میں عفہ۔۔۔۔۔ زریس نے سیدھے بیٹھتے ہوئے عفہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اچھا تو دیکھو پھر آپ نے یاد کیا اور میں آگئی۔۔۔۔۔۔ اور پتہ میں آپ کے لیے ڈھیر سارے پھول بھی لائی ہو۔۔۔۔۔۔
پھولوں کو زریس کے آگے رکھتے ہوئے عفہ پرجوش انداز سے بولی۔۔۔۔۔
ارے واہ میرا اتنا خیال بہت بہت شکریہ آپکا ظالم حسینہ۔۔۔۔۔
ارے باز آئے یہ کیا الفاظ مجھے آپ دے رہے؟؟؟ عفہ منہ پھولاتے بولی۔۔۔۔۔
جس کی تم حقدار ہو۔۔۔۔۔ خیر بہت اچھے پھول ہے بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔ زریس نے پھولوں کیی خوشبو کو تازہ دم بھرتے ہوئے اپنے پاس پڑے ٹیبل پر رکھ دیا اور اب عفہ کو دیکھنے لگ گیا۔۔۔۔۔
کیا ہوا زریس ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں آپ مجھے؟؟؟؟ 
یونہی دل کر رہا ہے کہ تمہیں دیکھتا رہوں لیکن تمہارا نقاب دیوار بن رہا ہے چاند سے بادل کی آوٹ ہٹاؤ بلکہ ایک کام کرو نقاب کھول دو میرا دل کر رہا تمہیں دوبارہ دیکھو اور دیکھتا جاؤ جب تک میری آنکھیں اسیر نہ ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔ زریس ہاتھ کے سہارے سر رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
کیوں زریس ؟؟؟؟ اب کیا ضرورت دیکھنے کی آپ نے مجھے دیکھنا تھا نہ تو دیکھ لیا اب کیوں نقاب کھولو میں۔۔۔۔ 
کیوں ناں ہو ضرورت دیکھنے کی کس عاشق کا دل نہیں کرتا کہ وہ اپنے محبوب کا دیدار بار بار کرے۔۔۔۔۔۔ 
اب نخرے نہ کرو کھول دو نقاب کل بھی تو کھولا تھا ناں تو آج کیا مسئلہ؟؟؟؟ زریس نے اکڑتے ہوئے عفہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
زریس کل میں نے نہیں کھولا تھا وہ تو کل اپنے کھینچا تو۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ آگے بولتے تو زریس بول اٹھا۔۔۔۔
بس کرو یار اب کیوں چھپا رہی ہو جب پردہ کھل ہی گیا تو اب مکمل ہی کھول دو چلوں اب اتارو نقاب اور پاس آ کر بیٹھو میرے ۔۔۔۔۔۔۔۔
زریس کی باتیں سن کر عفہ کو یقین نہ آرہا تھا دل کیا کہ وہ ایک تھپڑ زریس کے چہرے پر رسید کر دے۔۔۔۔
آپ بہت ہی فضول بول رہے ہو زریس۔۔۔۔۔ عفہ غرا کر بولی۔۔۔۔۔
کچھ فضول نہیں ہے میں اچھے سے جانتا ہو کہ لڑکیاں نقاب کیوں کرتی ہیں لیکن اب تم کیوں نقاب کیے اب کیا فائدہ جب کہ میں دیکھ چکا ہو تو اب کیا کردیا ہم دونوں میں اور ویسے بھی میرے سامنے ہی بیٹھی ہو اور یہاں کوئی دوسرا نہیں جس سے تمہیں پردہ کرنے کی ضرورت ہو۔۔۔۔ کھولو نقاب یار بلکہ رکو میں آتا ہو خود اور ایک میٹھی میٹھی بشی بھی دے جاتا ہو لپی پہ۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی زریس عفہ کی جانب بڑھنے لگ گیا۔۔۔۔۔
زریس بات چہرہ دیکھنے کی نہیں جب آپ دیکھ چکے تو اب آپکو ضرورت نہیں ہونے چاہیے ۔۔۔۔۔ عفہ نے ایک بار پھر زریس کو دیکھتے بولا۔۔۔۔۔
یار زیادہ چوں چاں نہ کرو جھے یہ نخرے پسند نہیں آئی سمجھ۔۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے عفہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
عفہ وہی بیٹھی زریس کو اپنے قریب آتے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ زریس اب اس کے سر تک آن پہنچا۔۔۔۔۔ 
عفہ نے اپنے قریب آتے زریس کے ہاتھ کو دیکھا تو ایسے محسوس ہوا کہ ایک لمحے میں اس کے بابا کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے سے گزر کر گیا ہے تبھی عفہ نے ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ دور کیا۔۔۔۔۔
تمیز سے زریس۔۔۔۔ آپ اپنی حد کراس کررہے ہیں مجھے بھی ایسی فضولیات پسند نہیں۔۔۔۔۔۔۔ عفہ غصے بھرے لہجے سے بولی۔۔۔۔۔
کس بات کی تمیز یار تم میری فیوچر وائف ہو تو یہ میرا حق ہے۔۔۔۔۔ زریس نے عفہ کو اپنے قریب کھینچتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
زریس چھوڑے مجھے۔۔۔۔۔ میں ان سب باتوں کو نہیں مانتی کہ فیوچر کے شوہر کو حق دیا جائے کہ وہ کچھ بھی کردے۔۔۔۔۔۔ اور رہی بات میرے حجاب کی تو کل اپکی وجہ سے میرا نقاب کھولا اگر مجھے پتہ ہوتا کہ آپ مجھے ایسے طنز کرے گے اور ایسے حرکتیں کرے گے تو یقین کرے پردے میں مرا ہوا پاتے آپ مجھے اپنے سامنے۔۔۔۔۔۔۔ عفہ نے زور کا جھٹکا زریس کو دیا جس وہ لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے کو گرتے گرتے بچا۔۔۔۔۔
عفہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے یوں دھکا دینے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ زریس غصے سے بھپڑتا ہوا عفہ کو کھینچ کر ابھی کھڑا ہی ہوا تھا۔۔۔۔
 کہ اچانک ایک لڑکی کمرے میں داخل ہوئی زریس کو عفہ کے قریب دیکھتے ہی وہ تیزی سے زریس کی جانب بڑھی اور عفہ سے الگ کرتے ہوئے عفہ کے روبرو ہوگئی۔۔۔۔۔۔
زریس بھی اس لڑکی کو دیکھ کر پریشان سا ہوگیا تھا ایک ذرد بھری لہر چہرے پر صاف عیاں تھا۔۔۔ 
کون ہو تم اور یوں زریس کے ساتھ چپکے رہنے کی وجہ؟؟؟؟ وہ چلا کر عفہ کو پڑی۔۔۔۔
عفہ نے ایک نظر زریس کو دیکھا جو پریشانی اور چونک جانے کی وجہ سے حواس باختہ کھڑا دونوں کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
بولوں لڑکی تمہاری ہمت کیسے ہوئی جو میرے منگیتر کے اتنے قریب آئی تم ؟؟؟؟؟
عفہ کیلئے یہ الفاظ کسی عذاب سے کم نہ تھا دماغ میں مسلسل چھوٹے دھماکوں کی گونج سنائی دے رہی تھی جبکہ کانوں میں سائیں سائیں الگ ہی محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔
آپ منگیتر؟؟؟ خود کو سنبھالتے وہ زریس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
جی بلکل یہ میرے منگیتر ہے تو اپنی حد میں رہے ۔۔۔۔ آگے بڑھتی وہ لڑکی زریس کے ہاتھوں میں ہاتھ تھام کر کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔
عفہ ان دونوں کی قربت دیکھ کر کچھ سمجھ نہ پا رہی تھی۔۔۔ اور حیرانگی کا نشان بنے ان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
اور تم زریس ایری غیری لڑکی کے ساتھ ٹائم پاس کرتے ہو یہ تمہارا سٹینڈر نہیں۔۔۔۔ اتنی کمتر چوائس تمہاری۔۔۔۔۔ وہ مسلسل زریس کے چہرے کو آپنے ہاتھوں میں لیے عفہ کی جانب اشارہ کرتے بول رہی تھی جبکہ زریس کی آنکھیں عفہ کی سرخ پڑتی آنسوں برساتی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
عفہ نے تیزی سے اپنا بیگ اٹھایا اور دروازے کی جانب بڑھی۔۔ زریس نے تیزی سے عفہ کا راغب کیا لیکن پاس کھڑی لڑکی نے فورا زریس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اپنی جانب کھینچ لیا اور عفہ ہسپتال سے نکلتے ہوئے کھلے آسمان تلے قدم چلاتی اگے بڑھنے لگ گئی۔۔۔۔۔
********************************
سب سمجھتے ہے کہ عورت کمزور ہے بےوقوف ہے. صیحح سمجھتے ہیں ہم بہت جلدی بہک جاتی ہیں شاید اپنی اصلیت سے بھاگتی ہیں کہ کوئی یہ نہ دیکھ لے کہ ہمیں ان کی محبت چاہیے۔ عورت ہمیشہ محبت کی بھوکی ہوتی ہے جہاں اسے اپنے لیے محبت نظر آتی وہ وہاں جھک جاتی ہیں نقصان اٹھاتی اور پھر کسی اور محبت کرنے والے کی تلاش میں سر ایڑی کا زور لگاتی ہیں جو اس کی قدر کرے اس کی عزت کرے اسے سہارا اور بھرپور تحفظ دے۔۔۔۔۔
آج کافی دنوں کے بعد عفہ نے اپنی پرانی ڈائیری نکالی اور لکھنا شروع کردیا۔۔۔۔۔ اپنے دل کی بےچینی اکثر وہ اس ڈائیری میں لکھ دیا کرتی تھی اور پھر جس صندوق سے وہ اسے نکالا کرتی تھی اسے میں وآپس دفنا دیا کرتی تھی۔۔۔۔ آج کتابوں کو کھنگالتے ہوئے اس کی یہ ڈائیری وآپس زندہ ہو کر اس کے سامنے پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ جسے وہ آج پھر اپنے نازک ہاتھوں سے لکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔۔۔۔
لیکن پرانی یادوں کے بوجھ تلے دبتے اس کے ہاتھ آج پھر وہی داستان لکھ رہے تھے۔۔۔۔ 
 شاید میں بھی بھوکی ہو لیکن میری امی اباں تو بہت محبت کرتے ہیں مجھ سے تو مجھے کیا ضرورت کسی اور کی محبت کی۔۔۔۔۔۔ 
اپنے مہرون گھنے لمبے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ اب خود سے خوفزدہ سی ہوگئی تھی شاید یہ بات سوچتے ہوئے اسکا اپنے دماغ اور دل اس کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھے اور اسے بھی انہیں عورتوں میں شامل ہونے کا کہہ رہے تھے جس کا تذکرہ کرتے اور لکھتے ہوئے وہ خود کو الگ سمجھ رہی تھی۔۔۔۔۔
بس کردو عفہ کیوں خود کو پاگل کرنے پر تل گئی ہو ۔ کیوں خود کی دشمن بنے بیٹھی ہو کوئی محبت نہیں تمہیں کسی سے سب فریب یہاں سب جال ۔۔۔۔۔۔ بالوں کو نوچتی عفہ خود کو ہزاروں زار کوس رہی تھی۔۔۔۔
کیوں پاگل ہو گئی ہو سوچ سوچ کر کیوں آس لگائے بیٹھی ہو کہ کوئی آ کر ایک بار کہے کہ تم غلط تھی وہ ٹھیک تھا۔۔۔ یہ کیوں نہیں سوچتی ہو وہ ایک فریب تھاے جھوٹ تھاے جس کی ذات ہی جھوٹ پر مبنی ہے۔۔۔ 
ناجانے کیوں لوگ جھوٹ بولتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرتے کیوں ان کو چین کی نیند آجاتی ہیں کیوں وہ بے چین نہیں ہوتے اتنی ہمت کہاں سے لاتے وہ کیوں انکا ضمیر انہیں سنگسار نہیں کرتا۔۔۔۔۔ 
ڈائیری کو ہاتھ مار کر پیچھے کی طرف پھینکتی عفہ خود کو نوچنتے ہوئے زور سے چلانا شروع کر رہی تھی شاید آج پھر وہ سوچ کر اسی روز کی طرح ڈپریشن میں چلے گئی تھی۔۔۔۔۔
سمرا جو کچھ دیر پہلے ہی کسی کام سے باہر گئی تھی اندر آتے عفہ کی یہ حالت دیکھی تو بیگ وہی پھینکتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو پکڑلیا۔ جس سے وہ خود کو زخمی کرنے پر تلی تھی۔۔۔۔ 
سمرا عفہ کی حت دیکھتے سمجھ گئی تھی کہ اس کو پھر ڈپریشن کا اٹیک آیا سمرا کی بھر پور کوشش ہوتی تھی کہ وہ اسے کبھی اکیلے نہ چھوڑے۔۔۔۔
کیا ہوگیا عفہ ؟؟؟؟ خود کو سنبھالو کیوں سوچتی ہو وہ سوچ جس سے صرف تم اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہو۔۔۔۔ بس کردو سمرا تمہیں تمہارے ماں باپ کا واسطہ خود کو برباد نہ کرو۔۔۔ جس کے پیچھے روتی ہو پٹتی ہو وہ عیاشی کر رہا ہے کیوں نہیں سمجھتی یار۔۔۔۔۔
تو کیا کروں سمرا۔۔۔۔۔ کیا کروں میں۔۔۔۔۔۔۔ عفہ سمرا کو خود سے الگ کرتے چلا کر بولی۔۔۔۔
اپنے ہوش سے بے خبر وہ ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کے مانند آخر بار خود کو بچانے کی کوشش کرتے بولی۔۔۔۔
میری پہلی محبت تھی وہ سمرا۔۔۔۔۔ میری پہلی محبت۔۔۔۔۔ جس پر مجھے بہت یقین تھا سمرا ۔۔۔۔۔ جس پر بہت یقین تھا۔۔۔۔۔ پہلی محبت اس نئے گھر کی مانند کی پہلی بنیادی اینٹ کی نانند ہوتی ہے جس ہر پورے گھر کی بنیاد کا انحصار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
سمرا وہ میرے بنیادیں تک ہلا گیا۔۔۔۔
نفرت ہے مجھے خود سے بہت نفرت ۔۔۔۔۔۔۔
ہائے یہ محبت مر کیوں نہیں جاتی سمرا یہ محبت مرتی کیوں نہیں اور کتنے دل تباہ کرے گی یہ۔۔۔۔ کبھی کسی کو جدائی کا دکھ دیتی تو کسی کو دھوکے کا۔۔۔۔ 
اس کو سکون کیوں نہیں مر کیوں نہیں جاتی یہ۔۔۔۔ عفہ ایک بار پھر خود کے بالوں کو پکڑتے روتے ہوئے سر ٹکائے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔
سمرا پاس بیٹھی اسے ایسے ہی روتے پٹتے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔ کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ ابھی اس کو کچھ بھی کہنا اسے مزید ڈپریشن کی جانب دھکیلنا ہوگا۔۔۔۔۔
ناجانے کب اس کے دل سے یہ بوجھ نکلے گا؟؟ کب تک یہ بے سکون رہے گی بے سکونی بھی کیسا عالم ہے اچھے بھلے انسان کو مردہ جیتے جی مردہ کر دیتی ہیں۔۔۔۔۔ بس دعا ہے کہ جلد ہم یہاں. سے چلے جائے تاکہ اس کے دل کو جس اذیت کا سامنا ہے اس سے خود کو نجات کروا سکے۔۔۔
بہت مشکل سے سمرا نے عفہ کو سنبھالتے ہوئے نیند کی گولی دی تاکہ وہ سکون سے سو سکے۔۔۔۔ اور خود اسی کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔ اور سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر ماتھے کو سہلانے لگ گئی۔۔۔۔۔
شام کے پانچ بجے رہے تھے جب سمرا بھی اس کے ساتھ لیٹی وہی سو گئی تھی کہ تبھی دروازے پر کسی نے دستک دینا شروع کردی۔۔۔۔۔۔
پہلے پہر تو سمرا اس کو اپنے خواب کا حصہ سمجھ کر ہی دوبارہ لیٹ گئی لیکن. جب دستک کی آواز میں مسلسل اضافہ اور رفتار بڑھنے لگ گئی تو وہ اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔
دروازے میں موجود ڈور ونڈو سے باہر کی جانب دیکھا تو سر پر سفید پٹی سجائے عصار ہاتھوں میں. پھولوں کا گلدستہ تھامے دروازہ کھلنے کا انتظار کررہا تھا۔۔۔۔۔
اللہ اب یہ یہاں کیا کرنے آیا ہے؟؟؟؟ عفہ کی یہ حالت کہیں اس کے سامنے آگئی تو۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی عفہ کی جانب بھاگی۔۔۔۔
جلدی سے اس پر مکمل بلینکٹ دیا اور خود بھی چادر تھامے چہرہ چھپائے دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔
جیسے ہی دروازہ کھولا عصار کا ہاتھ وہی رک گیا جیسے وہ ایک بار پھر دستک دینے لگا تھا۔۔۔۔۔
سمرا کو سامنے دیکھنا اس کی توقع کے برعکس تھا۔۔۔
السلام علیکم۔۔۔۔۔ کیسی ہیں آپ سمرا؟؟؟؟ عصار نے مروتا انداز سے بھرے لہجے سے سمرا کی جانب دیکھا جو اسے مشکوک نظروں سے آنے کی وجہ پوچھنے کو تیار کھڑی تھی۔۔۔۔۔
وعلیکم سلام۔۔۔۔۔ میں بکل ٹھیک ہو۔۔۔۔۔۔ آپ یہاں. کیسے؟؟؟؟ 
جس سوال کا انتظار عصار کررہا تھا وہ سمرا اب اس کے سامنے رکھ چکی تھی۔۔۔۔۔ 
جی وہ بس یونہی۔۔۔۔۔۔۔ وہ عفہ ؟؟؟؟؟ عصار پریشان کھڑا سمرا کو دیکھتے رہا تھا جبکہ نظریں مسلسل اندر کی جانب دیکھنے کی کوشش کررہا تھا کہ کیسے بھی کر کے اسے عفہ کی جھلک نظر آجائے۔۔۔۔۔۔
جی وہ عفہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تو وہ میڈیسن لے کر سو گئی ہے۔۔۔۔۔۔ 
کیوں کیا ہوا اسے زیادہ طبیعت خراب تو ڈاکٹر کے پاس لے جائے بلکہ میرے ساتھ چلے ان کا چیک آپ کروا لے۔۔۔۔۔۔ عصار نے اندر کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ تو سمرا سامنے آ کر کھڑی ہوگئی۔۔۔۔
نہیں نہیں زیادہ مسئلہ نہیں میڈیسن دی ہے وہ ٹھیک ہوجائے گی آپکا شکریہ۔۔۔۔ سمرا نے اسے جھاڑتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔ عصار نے پھر سے جانے کی کوشش کی تو سمرا نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ وہ یہ پھول میں عفہ کیلئے لایا تھا آپ انہیں یہ دے دینا۔۔۔۔۔ اور میرا بتا دینا آپ کہ میں آیا تھا۔۔۔۔۔ عصار نے مجبورا پھول سمرا کے ہاتھ تھاما دیے اور پھر الٹے قدم لیے وآپس لیفٹ کی جانب بڑھنے لگ گیا۔۔۔۔
عصار کے جاتے ہی سمرا نے پٹخ کر دروازہ دے مارا۔۔۔۔
عجیب ہی زچ ذات بندہ ہے پیچھے ہی پڑ جاتا یہ تو۔۔۔۔۔ پھولوں کو سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ بڑبڑاتی ہوئی عفہ کی جانب بڑھی اور پھر ٹھیک طریقے سے کمبل دیتے ہوئے اس کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔
یار اب اس لڑکی کو کیا ہوگیا۔۔۔۔۔ اتنی مشکل سے اسے پھنسایا تھا اپنی باتوں میں اور اب یہ بیماری۔۔۔۔۔ گاڑی میں بیٹھے زریس نے اپنا ہاتھ سٹیرنگ پر مارتے ہوئے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اتنے آسانی سے تو ہاتھ سے نکلنے نہیں دے سکتا ۔۔۔۔۔۔ اب تو اس پلین میں میرا خون بھی شامل ہو گیا ہے۔۔۔۔ اپنے پیشانی پر ہاتھ رکھتے عصار نے مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
عصار نے گاڑی سٹارٹ کی اور آنکھوں پر گوگلز سجاتے ہوئے آگے بڑھا دی۔۔۔۔
اپنی ہی سوچ میں وہ گم سامنے بنتے اور بگڑتے موسم کو دیکھتے آگے بڑھ رہا تھا کہ تبھی دو گاڑیوں نے اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔۔۔
پہلے پہر تو عصار نے گاڑی کو آگے بڑھ جانے کا سگنل دیا لیکن کچھ ہی لمحے میں اسے محسوس ہوگیا کہ کوئی اسکا پیچھا کررہا ہے۔۔۔۔۔ بھاگنے کی بجائے عصار نے اپنی گاڑی وہی درمیان میں روک دی اور باہر نکل کر دونوں گاڑیوں کو اپنی جانب آتے دیکھنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔
دونوں گاڑیوں نے عصار کے قریب آ کر بریک لگا دی۔ عصار کی نظریں دونوں گاڑیوں میں بیٹھے افراد کی جانب ٹکی ہوئی تھی کہ تبھی ایک گاڑی کا دروازہ کھلا اور زریس بلیک جیکٹ اور پینٹ میں. ملبوس گوگلز سجائے عصار کی جانب بڑھنے لگ گیا۔۔۔۔
زریس کو دیکھتے ساتھ ہی عصار سمجھ گیا تھا کہ وہ کس معاملے اور وجہ سے اس سے ملنے آیا ہوگا۔۔۔۔۔۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا زریس اب عصار کے سامنے کھڑا آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
کب سے جانتے ہو اسے؟؟؟؟ زریس نے عصار کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
کس کو؟؟؟ انجان بنتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔
تم بہت اچھے سے جانتے ہو میں کس کی بات کررہا ہو۔۔۔۔۔ زریس کے لہجے سے تلخی صاف عیاں تھی۔۔۔۔
لیکن میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہو کہ تم کس بارے میں بات کررہے ہو اور کسکا پوچھ رہے ہو۔۔۔۔۔
زریس ایک دم عصار کے روبرو قریب ہو کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ 
ایک بات اپنے دماغ میں اچھے سے ڈال لوں وہ صرف میری ہے اور میری ہی رہے گی۔ اس کے قریب جانے کی کوشش بھی کی تو یقین جانو بینکاک کیا پوری دنیا میں تمہارا نشان کسی کو نہیں ملے گا۔۔۔۔۔
دیکھو مسٹر زریس۔۔۔۔۔ عصار نے جیسے ہی بولا تو زریس چونک اٹھا۔۔۔۔
ایک منٹ میرا نام تمہیں. کیسے پتہ۔؟؟؟؟؟ زریس نے چونکتے اور حیرانگی سے سوال کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
میں صرف تمہارا نام نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ جانتا ہو۔۔۔۔۔۔ تو بہتر ہے یہ دھمکی اپنے تک ہی رکھوں کیونکہ تمہیں مجھے غائب کرنے میں جتنے لوگوں کی ضرورت پڑے گی ان سب کو زمین میں گاڑنے کیلئے میں میری اکیلی ذات ہی کافی ہو۔۔۔۔۔۔ عصار نے تنبہیہ کرتے کہا۔۔۔۔۔۔۔
گوگلز ہاتھ میں پکڑے زریس عصار کو دیکھتے ہوئے سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔۔۔
جبکہ عصار اس کی پریشانی کو مکمل طور پر سمجھ چکا تھا ۔۔۔۔۔
اپنی فکری اور بے یقینی کو اپنے دماغ سے دور رکھو۔۔۔ فکر نہ کرو عفہ تمہاری ہی ہے ۔۔۔۔۔۔ عصار نے زریس کو مزید پریشانی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
لیکن تم اس کے ساتھ کیوں؟؟؟؟؟ زریس سوالیہ نظروں سے عصار کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔
اس کے ساتھ بھی میں صرف تمہاری ذات کی وجہ سے ہو۔۔ وہ تمہاری ہی ہے اور تمہاری ہی رہے گی بس اسے یہ احساس کروانا ہے اور یہی وجہ کہ میں اس کے ساتھ ہو۔۔۔۔۔۔ عصار نے زریس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا اور گاڑی کی جانب مڑ گیا۔۔۔۔۔
لیکن اگر تم اس کے قریب آئے تو۔۔۔۔۔
میں کیسے تمہارا اعتبار کرو۔۔۔۔۔۔ زریس نے جاتے عصار کو پیچھے سے آواز دی۔۔۔۔۔
عفہ پر تو یقین ہے ناں اسی لحاظ سے مجھ پر بھی کرلو۔۔۔۔ تمہاری عفہ تمہارے پاس ویسے ہی آئے گی جیسے تمہیں چھوڑ کر وہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
عصار کہتے ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھ گیا اور پھر ہوا کے گھوڑے پر سوار وہ اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگ گیا۔۔۔۔۔
جبکہ زریس وہی کھڑا جاتے عصار کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
********************************
 تین سے زریس مسلسل عفہ کو کالز کررہا تھا لیکن. جواب نہ ملنے کی صورت میں وہ اب عفہ کے ہوسٹل کے باہر کھڑا مسلسل کالز کرتا جارہا تھا۔۔۔۔۔
لیکن ابھی تک عفہ سے اسکا رابطہ نہ ہو رہا تھا۔۔۔۔
کیا مسئلہ ہے آپکو زریس؟؟؟؟؟ عفہ کی روہانسی آواز بلکل تین دن کے بعد زریس کے کانوں کو سننا مل ہی گئی۔۔۔۔۔
تم۔۔۔۔۔۔۔ تم مسئلہ ہو میرا۔۔۔۔۔۔۔
زریس مجھے آپ پر اپنی محبت ضائع نہیں کرنی ہے اور آپ محبت کے قابل نہیں ہے لہذا مجھے معاف کرے اور اپنی راہ لے۔۔۔۔۔۔۔ عفہ نے تیر چھوڑتے الفاظ زریس کے دل پر دے مارے۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو عفہ تم میری پاگل پنتی سے مکمل واقف ہو۔۔۔۔۔ میں کچھ بھی کرسکتا ہو کچھ بھی۔۔۔۔۔ زریس کی آواز میں سنسناہٹ اور وحشی پن صاف واضح تھا۔۔۔۔۔۔
تو کیوں پھر وہ ملنے آئی آپ سے جب وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی۔۔۔۔ تو کیوں وہ اپکے پاس یوں ٹھہری۔۔۔۔۔ زریس میرے سوال کا جواب دے سکتے آپ کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عفہ وہ تب میری منگیتر تھی۔۔۔۔۔۔ زریس نے کہا۔۔۔۔
تب ۔۔۔۔۔۔ تب کا کیا مطلب زریس؟؟؟؟؟
یہی کہ کل رات میں نے اس کی رنگ وآپس کردی ہے اور اپنے گھر والوں سے بھی کہہ دیا کہ مجھے اس سے کوئی لنک نہیں رکھنا اور نہ ہی وہ میری نسبت میں ہے اب۔۔۔۔۔۔ 
جھوٹ ایک اور جھوٹ۔۔۔۔۔۔اور کتنا جھوٹ بولے گے آپ زریس۔۔۔۔۔۔ عفہ غرا کر بولی۔۔۔۔۔
اپنی محبت کی قسم کھا کر کہتا ہوں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں میں۔۔۔۔۔ میرا اس سے اب کوئی لنک نہیں ہے بہت دور چلی گئی ہیں وہ مجھ سے اب اور میں نے صرف تمہاری وجہ سے اور ہماری محبت کی وجہ سے اسے خود سے دور کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ہمارے درمیان کسی کو آنے نہیں دینا عفہ اس بات کو اپنے دماغ میں گراہ لگا کر باندھ لوں۔۔۔۔۔۔ تم اب میری ہو صرف میری ضد سمجھو چاہے محبت تم خود بھی چاہو مجھ سے دور ہونا تو میں تمہیں اس کی اجازت دینا۔۔۔۔۔
زریس یہ زبردستی ہے محبت نہیں۔۔۔۔۔۔ عفہ نے حیرانگی سے جواب دیا۔ جس کو زریس کی باتوں سے اب خود سا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔
میں ایسا کی ہوں۔۔۔
جو بھی ہے تم اگر محبت سے نہ ملی تو ضد ہی سہی۔۔۔۔۔ جان لوں تم اب ۔۔۔۔۔۔ تم میری ہو ماردنگا ان سب کو جو کوئی تمہارے قریب بھی آیا۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی زریس نے کال بند کردی۔۔۔۔۔ جبکہ عفہ فون کان پر لگائے وییسے ہی کافی دیر تک یونہی بیٹھی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
*******************************
جاری ہے اور رائے ضرور دے😊

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─