┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: ذت_عشق
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_12

صبح سے مسلسل عفہ سے کسی نہ کسی طریقے سے ملنے کے بارے میں سوچ سوچ کر عصار کا دماغ گھوم چکا تھا اپنے آپ کو اس معاملے میں گھسیٹنے کی وجہ سے وہ اپنے کام سے اب مکمل بےخبر رہتا تھا۔۔۔۔ 
آفس میں ہونے کے باوجود بھی کسی کام پر توجہ نہ دیتا اور ہر پل اسی سوچ میں گم رہتا تھا کیسے عفہ کو اس کی غلطی کا احساس کروایا جائے۔۔۔۔۔۔
سر کیا میں اندر آ سکتا ہو؟؟؟؟ حماد اندر آتے ساتھ ہی عصار کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔
ہاں آجاؤ۔۔۔۔۔۔۔
سر یہ کچھ فائلز ہے ان پر آپ کے سائن چاہیے ۔۔۔۔۔ حماد آگے بڑھتے ہی عصار کے آگے فائلز رکھتے بولا۔۔۔۔۔۔
وہ تو ٹھیک ہے پر یہ کس قسم کی فائلز ہے اور کس پراجیکٹ سے بلونگ کرتی ہے ؟؟؟؟؟ عصار فائلز کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
سر یہ وہ..... یہ اس۔۔۔۔۔۔ حماد کے چہرے پر گھبراہٹ نمودار ہوگئی تھی اور زبان بھی لڑکھڑا سی گئی تھی۔۔۔۔۔
اچھا اچھا یہ اس پراجیکٹ کی فائلز ہے جو ابھی سٹارٹ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ خود سے سوچتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
ج۔ ج۔۔۔۔۔جی سر صیحح کہہ رہے ہیں آپ یہ اس پراجیکٹ کی ہی فائلز ہے۔۔۔۔۔ خود کو سنبھالتے ہوئے حماد نے مشکل سے مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں پڑھ کر سائن کردو نگا اب تم جاسکتے ہو یہاں سے میں کچھ دیر میں تمہیں بلا لوں گا تب لے جانا فائلز آ کر۔۔۔۔۔۔ 
حماد کے چہرے سے ایک سرد اور ڈر کی لہت دوڑ گئی جب عصار کی بات سنی۔۔۔۔
لیکن سر یہ آج ہی بھیجنی ہے ارجنٹ ہے آپ ابھی سائن کردے اور میں نے یہ ساری خود پڑھی ہے۔۔۔۔۔ حماد تیزی سے فائل آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے عصار کچھ کہتا تبھی اسکے فون پر رپورٹر نام کا نمبر چمکنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔
ہاں بولو کیا بات ہے؟؟؟؟؟ عصار نے ایک کان پر فون لگایا اور دوسرے ہاتھ سے فائلز پر بناء پڑھے سائن کرنے لگ گیا۔۔۔۔۔
سائن کرتے ساتھ ہی اٹھا اور فون سنتے ہوئے باہر کو ہوگیا۔۔۔۔۔۔
حماد نے خاموشی سے فائلز اٹھائی اور چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے باہر کو آگیا۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں کتنی بار کہا مجھے وقت بہ وقت تنگ نہ کیا کرو سمجھ نہیں آتی تمہیں کیا؟؟؟؟؟ عصار غڑاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
سر وہ ۔۔۔۔۔۔ 
اب بولوں کیا بات ہے ۔۔۔۔۔۔ عصار خود پر قابو کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
سر وہ لڑکی اپنی دوست کے ساتھ یونیورسٹی کی طرف جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں پہنچ جاتا ہو لیکن اب تب تک کال نہ کرنا مجھے جب تک میں خود نہ کر لو۔۔۔۔۔۔ آرہا ہو میں اب۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی گاڑی کی جانب بڑھا اور رخ عفہ کی یونیورسٹی کی جانب کیا۔۔۔۔۔۔
********************************
عفہ کی آنکھوں سے منظر تھا کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا مسلسل آنکھوں کے سامنے گھومتی گندی نظریں اور نازیبا لباس میں پھرتی لڑکیاں مسلسل اس کے چین میں خلل پیدا کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
صبح سے یونہی بیٹھی ہو لڑکی کل جب سے آئی ہو یونہی بیٹھی کسی سوچ میں گم ہو کچھ پوچھ لوں تو رونے لگ جاتی ہو آخر ہوا کیا ہے مجھے بھی کچھ بتاؤ گی کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ سمرا عفہ کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
عفہ کا موبائل کل رات سے مسلسل بج رہا تھا اور ابھی بھی وہ اسی طرح ڈانس کرتے عفہ کی جانب رخ کیے پڑا تھا۔۔۔۔۔۔
کب سے فون آرہا ہے تمہیں کون کر رہا ہے اتنے کالز یار ۔۔۔۔۔۔۔۔ سمتا فون کی جانب دیکھتے بولی۔
زریس ہے اسی کی کالز آرہی ہے۔۔۔۔۔ عفہ نے بے رخی سے فون کال کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔
تو اٹھا کیوں نہیں رہی ،رات سے دیکھ رہی ہو فون مسلسل آرہا ہے لیکن مجال ہے تم نے ایک بھی کال اٹینڈ کی ہو۔ اٹھاؤ اور دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔
تو کیا کروں سمرا مجھے ایسے انسان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا جس کو اپنی عزت کا خیال نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔ اب کی بار عفہ چلا کر بولی۔۔۔۔۔
میں اس کی عزت ہی ہو ناں جس کی حفاظت کرنا اس پر فرض ہے تو پھر وہ میری حفاظت کیوں نہیں کرتا سمرا۔۔۔۔۔۔ محبت ایسی تو نہیں ہوتی کہ بس جتلا دینا بتا دینا اور بس۔۔۔۔۔ 
فون ایک بار پھر سے بجنا شروع ہوگیا۔۔۔۔۔ سمرا عفہ کی جانب دیکھنے لگ گئی کہ اسکا اگلا ری ایکشن کیا ہوگا۔۔۔۔۔
عفہ نے غصے سے موبائل اٹھا اور کان پر لگا لیا۔۔۔۔۔
یہ کیا بدتمیزی تھی عفہ جو تم نے کل حرکت کی میں اسے کبھی نہیں معاف کرو نگا تم سے اتنا نہ ہوسکا کہ میرا انتظار کر لوں پتہ کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی مجھے تمہارے رویے کہ وجہ سے۔۔۔۔
 اور کل رات سے میں پاگلوں کی طرح تمہیں کالز کررہا ہو تمہیں ذرا بھی احساس ہے میرا کہ نہیں ۔۔۔۔۔ زریس بھی غصے سے بھرے لہجے میں چکا کر بول رہا تھا۔
احساس کی بات آپ کررہے ہیں زریس آپ ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے منہ سے جچتا نہیں یہ لفظ۔۔۔۔۔ آپ کو ذرا بھی شرم نہ آئی مجھے ایسی جگہ پر لے جاتے ہوئے جہاں ان کی گندی نظریں میری چادر کا محاصرہ کیے بیٹھی تھی۔۔۔۔ وہ غیر مرد میرے قریب ہونے کو آرہا تھا اور آپ مسکرا رہے تھے مجھے اس کے آگے پیش کررہے تھے۔۔۔۔۔۔ شرمندگی کی بات آپ کررہے آپکو آنی چاہیے شرم جس کو اپنی عزت کا خیال نہیں اس پر محبت کیوں ضائع کرو میں اپنی۔۔۔۔۔ عفہ نے بھی اسی لہجے سے جواب دیا۔۔۔۔
فضول مت بولو وہ سب میرے دوست تھے اور ان کی تمہاری طرح ایسی سوچ نہیں بند اور کند ذہن کے مالک نہیں وہ لوگ۔۔۔۔۔ 
میں اگر بند اور کند ذہن کی ہو تو مجھے فخر ہے پھر خود پر مسٹر زریس آئندہ سے عفہ بخاری کا کوئی تعلق نہیں آپ سے مجھے ایسے کم ظرف اور بے غیرت مرد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے زریس کچھ اور کہتا عفہ نے اپنی بات سناتے ساتھ ہی اپنا موبائل زمین پر پٹخ دیا موبائل ٹوٹ کر بکھر گیا ویسے ہی جیسے عفہ ٹوٹی بیٹھی تھی اور وہی اپنا سر ٹانگوں پر ٹکائے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
سمرا کی سمجھ میں اب سب کچھ آچکا تھا چونکہ عفہ ٹینشن میں تھی لہذا اس سے مزید کچھ نہ پوچھا اور اٹھ کر خاموشی سے کیچن کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی نماز کی ادائیگی کی۔۔۔۔۔۔۔
بادلوں نے آسمان کو سمیٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے ہر طرف اندھیرے نے اپنی آوٹ جمائی ہوئی تھی۔۔۔۔ کھڑکی سے بادلوں کا جھکاؤ دیکھتے ہوئے وہ خود کو پرسکون محسوس کررہی تھی۔۔۔۔ ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر چکی تھی اور بادلوں کے ٹکریوں کی آنکھ مچولی دیکھتے ہوئے اس کی نظر نیچے کھڑے زریس پر پڑی جو ناجانے کب سے نیچے کھڑا اسکا انتظار کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ عفہ فورا پیچھے کو ہٹ گئی کیونکہ زریس نے آج تک اسے نہیں دیکھا اور نہ ہی اسے فلیٹ نمبر معلوم تھا۔۔۔۔۔۔
سمرا آج ہم تھوڑا لیٹ نکلے گے ۔۔۔۔۔ عفہ کیچن کی جانب بڑھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔
لیکن کیوں یار آج تو پریزنٹیشن بھی ہے تو وقت پر جانا لازم ہے ورنہ نمبر نہیں ملے گے۔۔۔۔۔۔
یار وہ زریس نیچے کھڑا ہے کیسے جاؤ باہر اب مجھے اسکا سامنا نہیں کرنا۔۔۔۔۔۔۔ 
لوں یہ کیا بات ہوئی غلط تم تھی کہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
وہ غلط تھا۔۔۔۔۔۔۔ عفہ نے سمرا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
تو سامنا نہ کرنے کی ہمت اس میں نہیں ہونی چاہیے تم کیوں منہ چھپائے بیٹھو گی۔۔۔۔۔۔ سمرا نے عفہ کو جوش دلانے والے انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔
ہاں ٹھیک ہے بلکل ٹھیک کہہ رہی ہو میں کیوں لیٹ جاؤ وہ بھی اس کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔ تیار ہوتی میں پھر ہم چلتے ہیں ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ عفہ نے سر حامی میں ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
شاباش یہ ہوئی ناں بات۔۔۔۔۔۔۔ سمرا کندھے پر تھپکی دیتے بولی۔۔۔۔۔
کچھ دیر میں دونوں نیچے کی جانب بڑھی جیسے ہی زریس نے انہیں باہر آتے دیکھا تو ان کی جانب بھاگتے ہوئے آیا۔۔۔۔۔۔۔۔
عفہ نے سمرا کا ہاتھ تھاما اور قدم تیز بڑھا دیے۔۔۔۔۔۔
میری بات سنو عفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ زریس بھاگتے ہوئے آگے آیا اور ان کا راستہ روک لیا۔۔۔۔۔۔
مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی سر ۔۔۔۔۔ راستہ چھوڑے ہمارا ورنہ میں شور مچاسکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔ عفہ نے تلخ بھرے لہجے سے ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
نہیں جاؤں گا کرلو جو کرنا تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو ہاتھ چھوڑ کر پیچھے ہوجائے یا ہاتھ چھوڑنے دے کسی کو۔۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو مجھے بہت برا لگتا ہے جب کوئی ہاتھ چھوڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ زریس نے سختی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں کہ میں شور مچاؤ۔۔۔۔۔۔ عفہ نے تنبہیہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
مطلب تم نہیں مانو گی تو ٹھیک ۔۔۔۔۔۔۔۔ زریس دو قدم پیچھے کو ہوا۔۔۔۔۔۔ اور چلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
عفہ تم میری ہو آئی سمجھ آئی لو یو۔۔۔۔۔۔ اور میں تمہیں خود سے الگ ہونے نہیں دونگا۔۔۔۔۔۔ 
یہ کیا کر رہے ہیں آپ زریس چپ ہوجائے سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ عفہ جھنجھلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔
تم نے ہی تو کہا تھا تم شور مچاؤ گی تو میں نے تمہارا یہ کام کردیا اب بولوں میری بات سنو گی کہ نہیں ۔۔۔۔۔ زریس مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
میں اپنی بات پر ابھی بھی قائم ہو۔۔۔۔۔۔۔ عفہ کہتے ساتھ ہی چل پڑی ابھی کچھ قدم لیے ہی تھے کہ اچانک زریس کے چیخنے کی آواز آئی جیسے ہی عفہ نے مڑ کر دیکھا تو زریس زمین پر گرا ہوا تھا جبکہ اس کے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے خون بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔
دیکھتے ساتھ ہی بےچینی اور پریشانی سے اس کی جانب بھاگی اور اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔۔۔۔۔
یہ کیا حرکت تھی زریس یہ کیا کیا آپ نے؟؟؟؟ عفہ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے تھے جو بارش کے بوند کی مانند زریس کے چہرے پر گر رہے تھے۔۔۔۔۔۔
یہی حال ہوگا میرا اگر تم مجھ سے دور ہوئی تو آئی سمجھ مار دونگا خود کو میں۔۔۔۔۔۔
بہت محبت کرتا ہو میں تم سے عفہ بہت محبت۔۔۔۔۔ آہستہ سے بولتے ہوئے زریس بے ہوش ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔
********************************
آنکھوں کا سیراب تب ٹوٹا جب ایک آنسوں جھلک کر گالوں کو چھوتے ہوا نیچے گرا۔۔۔۔۔۔۔
ایک نرس کمرے سے نکلتے ہوئے فورا عفہ اور سمرا کی جانب بڑھی جو کب سے بیٹھی ڈاکٹر کے باہر آنے کا انتظار کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
آپ میں سے عفہ کون ہے؟؟؟؟؟ نرس نے تجسس بھرے لہجے سے دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔
سمرا نے عفہ کی جانب دیکھا تو وہ نرس کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔
 جی میں ہوں میرا نام ہے عفہ ۔۔۔۔۔۔۔
پیشنٹ بےپوشی کی حالت میں بھی صرف آپکا نام لے رہا ہے آپ کیا لگتی ہے ان کی؟؟؟؟؟ نرس نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔
میرے خیال ہے اپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور یہ بتانا میں مناسب نہیں سمجھتی آپکو ، تو آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور یہ بتائیں کہ انہیں کب تک ہوش آئے گا اور ہم کب تک ان کا انتظار کر سکتے ہیں؟؟؟؟ عفہ کو اس کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
جی بس آدھا گھنٹا زیادہ چوٹ سر کے پچھلی سائیڈ پر آئی ہے تبھی وہ بےہوش ہے جیسے ہی وہ مکمل ہوش میں آجائے گے تب آپ مل سکے گے ان سے۔۔۔۔۔۔۔ نرس نے جواب دیا۔۔۔
جی شکریہ آپکا۔۔۔۔۔۔۔ سمرا نے آگے بڑھتے ہوئے جواب دیا تو وہ عجیب نظروں سے عفہ کو دیکھتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔۔۔
 کہیں تو چپ رہا کرو اگر اس نے سوال کر ہی لیا تو لازم نہیں تم بھی کوئی الٹا جواب ہی دو۔۔۔۔۔ سمرا عفہ کا بازو کھینچتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔
وہ کون ہوتی ہے ایسے سوال کرنے والی۔۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی میں جارہی ہو یہاں سے جب مجھے اس انسان سے کوئی لنک ہی نہیں تو میں اپنا وقت اس پر ضائع کیوں کرو۔ اگر چلنا ہے میرے ساتھ تو چلوں۔۔۔۔۔۔۔ عفہ نے بیگ سنبھالا اور جانے جو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔
عفہ تم کتنی سخت دل ہوچکی ہو وہ بندہ تمہاری وجہ سے اس حالت تک پہنچا اور تم سے اتنا نہیں کہ دیکھ سکوں کہ زندہ ہے کہ مرگیا۔۔۔۔۔۔ حیرت ہے مجھے تم پر اور تمہارے رویے پر جو دن بدن بد سے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے۔۔۔۔۔ سمرا بولتی جارہی تھی جبکہ عفہ بت بنی وہی کھڑی سمرا کی باتوں اور الفاظوں کی تلخی سے خود کو لہولہان ہوتا محسوس کررہی تھی۔۔۔۔۔۔
میں نہیں جارہی عفہ تم نے جانا تو جاؤ مجھ میں انسانیت ابھی زندہ ہے اگر تم میں بھی ہے تو رک سکتی ہو ورنہ کوئی زبردستی نہیں تم پر۔۔۔۔۔۔ سمرا کہتے ساتھ ہی عصار کے کمرے کی جانب بڑھ گئی جبکہ عفہ وہی کھڑی سمرا کی باتوں کو سوچتی رہ گئی۔۔۔۔۔۔
عصار کے حواس آہستہ آہستہ بحال ہو رہے تھے۔ 
عفہ میری بات سنو ۔۔۔۔۔۔ ایک بار تو سنوں۔۔۔۔۔۔ بےہوشی میں بھی وہی الفاظ اس کے ہونٹوں پر سجے تھے۔۔۔۔
سمرا جو کہ پاس کھڑی تھی عفہ کا نام سن کر بولی۔۔۔۔۔
وہ یہاں نہیں ہے سر وہ جا چکی ہیں۔ اگر آپ بہتر محسوس کررہے ہیں تو آپ کسی کو بلا لے تاکہ وہ آپ کے پاس رک سکے۔۔۔۔۔ 
لیکن مجھے صرف عفہ چاہیے مجھے اسے کا ساتھ چاہیے آپ اسے بلا دے مجھے بات کرنی ہیں اس سے پلیز۔۔۔۔۔۔ اب کی بار عصار کی آواز میں چوٹ کے درد کی کراہٹ بھی صاف محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔۔
سمرا نے سنا تو باہر جانے کیلئے دروازے کی جانب جیسے ہی بڑھی تو عفہ کو اندر آتے دیکھ کر اس کے قدم وہی رک گئے۔۔۔۔۔
عفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
سمرا تم باہر جاؤ مجھے بات کرنی ہے ان سے اکیلے میں کچھ۔۔۔۔۔ عفہ سمرا کی جانب بناء دیکھے بولی اس سے پہلے سمرا کچھ کہتی وہ آگے بڑھتی ہوئی عصار کے بیڈ کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔
سمرا نے ایک پل کیلئے عفہ کی جانب دیکھا جو اسے اپنی بے رخی اور ناراضگی کا بارہا اظہار کرچکی تھی۔ لہذا کچھ بھی بولے بغیر باہر جانا زیادہ مناسب سمجھا۔۔۔۔۔۔
آگئی ہو ناں تم مجھے پتہ تھا دل کہہ رہا تھا کہ تم آؤ گی ضرور آؤ گی۔۔۔۔۔۔ عصار نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
لیکن جیسے ہی اٹھنے لگا عفہ آگے بڑھتے ہوئے اسے سہارا دینے لگ گئی۔۔۔۔۔ عصار مسلسل اس کی جانب دیکھ رہا تھا جبکہ وہ نظریں جھکائے نیچے کی جانب متوجہ تھی۔۔۔۔۔
آپ ٹھیک ہے اب ؟؟؟؟ ویسے آپکا ابھی اٹھنا مناسب نہیں تھا لیکن آگے آپکی مرضی۔۔۔۔۔۔ عفہ روایتی انداز سے بولی۔۔۔۔۔
جی اب بہت بہتر ہو آپ جو آگئی اب بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گا۔۔۔۔۔ عصار مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
انشاء اللہ۔۔۔۔۔ عفہ نے آگے سے جواب دیا۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر دونوں ایسے ہی خاموشی سے بیٹھے رہے اور ایک سکونت کا لمحہ دونوں کے درمیان جنم لے چکا تھا دونوں ہی اپنی جگہ الفاظ کی آنکھ مچولی کا سامنا کررہے تھے لیکن پھر عفہ نے حوصلہ کیا اور پھت الفاظ کا بہتر بناؤ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔
دیکھیے عصار مجھے آپ سے بات کرنی ہیں۔۔۔۔۔ عفہ سوچتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
جی جی عفہ سن رہا ہو میں آپ بولے۔۔۔۔۔ عصار آگے جھکتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
عفہ نے ایک لمبی سانس بھری اور بولنا شروع کیا۔۔۔۔۔
دیکھیے عصار اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ مجھ سے متاثر ہوئے ہیں لیکن ہر متاثر کردہ احساس محبت نہیں ہوتی۔۔ میں آپ کے احساسات کی قدر کرتی ہو لیکن. اگر آپ مجھ پر اپنے احساس کو تھوپنا چاہتے ہیں تو وہ محبت نہیں ہوگی خودغرضی ہوگی۔۔۔۔ 
محبت جب زبردستی بن جائے تو وہ ایک بوجھ کے مانند ہوجاتی ہیں اور مجھ میں اتنی صلاحیت یا ہمت نہیں کہ میں یہ بوجھ اٹھا سکوں۔۔۔۔ اور ویسے بھی میں سید ہو اور آپ چودھری جٹ دور دور تک کوئی ایسی کہانی نہیں جس میں جٹ اور سید کا میل ہو۔۔۔۔ 
محبت میں کوئی ذات پات نہیں ہوتی عفہ اب آپ غلط بول رہی ہیں اب۔۔۔۔ عصار جو کہ کب سے عفہ کی بات سن رہا تھا اس کو ٹوکتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔بلکل ٹھیک بات ہے یہ لیکن خیر سیدھی بات عصار صاحب آپ جتنی مرضی کڑیاں جوڑ لے مجھے آپ سے محبت نہیں ہے اور نہ کبھی ہوگی۔۔۔ یہ بات آپ اگر سمجھ سکتے تو آپ کی اپنی اور میری ذات پر بہت بڑا احسان ہوگا۔۔۔۔ امید ہے اب میں آپ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کرو۔۔۔۔ اور میرے خیال سے میں نے بہت اچھا سمجھایا ہے آپکو تو آپکو بھی سمجھ جانا چاہیے ۔۔۔۔۔عفہ بولتے ہوئے چپ ہوگئی اور عصار کے چہرے کے سپوٹ زاویے کو جاچنے لگ گئی۔۔۔۔
اب چلتی ہو میں اپنا خیال رکھیں آپ اب۔۔۔۔۔۔ عفہ عصار کی جانب دیکھتے بولی اور جیسے ہی آگے بڑھنے لگی۔۔۔۔۔۔
میری بات سنے عفہ آپ کی بات میں سمجھ گیا ہو لیکن اگر میں آپکی ایک بات مان رہا ہو تو آپ بھی میری ایک بات مانے گی ۔۔۔۔۔۔۔ عصار نے عفہ کو یوں جاتے دیکھا تو فورا روکتے ہوئے کہا۔۔۔۔
عفہ نے عصار کی بات سنی تو مڑ کر سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔۔
محبت نہ سہی آپ مجھ سے دوستی تو کرسکتی ہیں کہ اس کے لیے بھی ذات پات کا کوئی اصول موجود ہے جو مجھے اپنانا پڑے گا۔۔۔۔۔ عصار نے مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
عفہ کچھ دیر تو یونہی کھڑی سوچتی رہی کہ اچانک عصار نے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھایا۔۔۔۔۔
ہاتھ دیکھ کر اس نے عصار کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو انکھ سے اشارہ کرتے ہوئے اس نے ہاتھ ملانے کا کہا۔۔۔۔۔
عفہ اس کی جانب بڑھی اور ہاتھ سے ہاتھ ملا دیا۔۔۔۔۔ اور اب شروع ہوئی یہاں سے اصل داستان جس کا نتیجہ سوچ سے باہر نکلا اور پھر عشق بنا ذت عشق۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب تک یونہی دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی رہو گی عفہ۔۔۔۔۔۔ دیکھو یار میں بلکل ٹھیک ہو بس تھوڑی سی چوٹ لگی تھی اور وہ بھی اب ٹھیک ہوگئی ہے اب کب تک یونہی دور رہو گی میرے سے پاس آ کر بیٹھو یہاں۔۔۔۔۔۔ 
زریس نے عفہ کو اپنی جانب ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بلایا۔۔۔۔۔۔
سر جھکائے چہرہ دوسری جانب کیے وہ چپ چاپ کھڑی زریس کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔
ارے لڑکی کہہ رہا ہو ناں کہ ٹھیک ہو میں تو اب کیوں منہ بنائے کھڑی ہو یار۔۔۔۔۔
دیکھو مجھے درد بھی ہورہا ہے یہاں ۔۔۔۔۔۔ زریس آہستگی سے کڑاہتے ہوئے اپنی چوٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ 
 خاموش سی کھڑی عفہ نے جب کڑاہنے کی آواز سنی تو تیزی سے اس کی جانب بڑھی۔ اور سر پر لگی چوٹ کی جانب جھکتے ہوئے دیکھ کر بولنے لگ گئی۔۔۔۔۔
صیحح ہوا آپ کے ساتھ بلکل ٹھیک ہوا۔ دو چار اور چوٹ لگنی چاہیے تھی۔ ذرا سکون ملتا آپکو پتہ کیا آپ اسے کے قابل تھے میرا دل دکھایا تھا نہ مجھ سے لڑ رہے تھے وہ بھی بلاوجہ تو سزا ملی آپکو اللہ کی طرف سے اب اور کروں گے تنگ نہ تو اس سے بڑی سزا ملے گی آپکو دیکھنا تو ذرا۔۔۔۔۔۔
عفہ بچوں کی طرح شکایت بھرے انداز سے بول رہی تھی جبکہ زریس کی نظریں اس کی شکوہ بھری آنکھوں کی جانب مرکوز تھی۔۔
عفہ نے زریس کو اپنی جانب یوں دیکھتے دیکھا تو پٹی پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔۔
زریس کو دباؤ محسوس ہوا تو چلا سا اٹھا۔۔۔۔
ارے لڑکی جان لوں گی کیا اب اور کتنا ظلم کرنا معصوم سی جان پر جو یہاں تک اتر آئی کہ زخموں پر نمک چھڑکو گی۔۔۔۔۔۔ زریس پٹی پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
نمک ارے میں تو تیل بھی چھڑک سکتی ہو اور مجھے یوں نہ دیکھے آپ آئی سمجھ آپکو ، اور مجھے آپ سے مزید کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔۔ 
آپکی بے وقوفیاں اور نادانیاں مجھے آپ سے دور کر دیتی ہیں اس سے بہتر کہ میرا دل مزید دکھے میں یہاں سے خود ہی چلی جاؤ۔۔۔۔۔ عفہ بولتے ساتھ ہی زریس سے پیچھے کو ہوئی اور جیسے ہی مڑنے لگی تو زریس نے آگے بڑھتے ہی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔۔۔۔
عفہ کو زریس کا گرم لمس محسوس ہوا تو مڑ کر دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔
تمہیں کتنی بار کہا عفہ سمجھ کیوں نہیں آتی میری تمہیں میرا ہاتھ مت چھڑوایا کرو مجھے اتنا غصہ آتا ہے کہ دل کرتا ہے کہ تمہیں کسی بیگ میں بند کر کے اوپر کی گیلری میں لوک لگا کر رکھ دوں تاکہ کوئی کوئی بھی تمہارے تک نہ پہنچ سکے اور تم بس میرے پاس رہوں۔۔۔۔۔۔ زریس نے کہتے ساتھ ہی عفہ کو اپنی جانب کھینچا اور بےدھیانی میں کھڑی عفہ لڑکھڑاتی ہوئی زریس پر جا گری۔۔۔۔۔ 
چہرے پر سجا نقاب جھٹکا لگنے کی وجہ سے کھل گیا جبکہ عفہ کا چہرہ زریس کے سینے کے ساتھ جا ٹکرایاا گیا جس کی وجہ سے وہ زریس کی بانہوں میں سہم سی گئی تھی۔۔۔۔۔
زریس کو خود بھی ایسی بات کی توقع نہ تھی کہ عفہ کا چہرہ آج بے نقاب ہوجائے گا۔۔۔۔۔
عفہ جس کو پتہ لگ چکا تھا خاموشی سے زریس پر جھکی رہی جبکہ زریس کا ہاتھ عفہ کے چہرے کو بھی چھو چکا تھا اور وہ بھی جان چکا تھا کہ آج بادلوں سے چاند کا دیدار ہو ہی جائے گا ۔۔۔۔۔۔
ایسے کتنی دیر میری دل کے قریب رہو گی عفہ لگتا ہے میری دھڑکنیں گن رہی ہو۔۔۔۔ بولو صیحح کہہ رہا ہو ناں میں کہ نہیں۔۔۔۔۔ زریس نے عفہ کو تنگ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
چپ رہے آپ اچھا سمجھ تو آپ بھی گئے ہیں کہ میں یوں کیوں جھکی ہو اب زیادہ نہ بنے آپ۔۔۔۔۔ عفہ غرا کر بولی۔۔۔۔۔
ہووووووو غصہ مجھ پر غصہ اٹھو میرے دل سے بوجھ بنائے بیٹھی ہو اس پر اٹھو شاباش۔۔۔۔۔ 
زریس نے عفہ کی بازوؤں کو جیسے ہی الگ کرنے کیلئے تھاما تو عفہ اور زریس کے قریب ہوگئی۔۔۔۔۔
ارے ارے کیا کرتے ہو موقع کا فائدہ اٹھا رہے ہیں آپ زریس بہت غلط بات ہے آپ جانتے نہ میرا نقاب اتر گیا تبھی یہ کر رہے ہو آپ۔۔۔۔۔۔۔ 
کون اٹھا رہا ہے موقع کا فائدہ ابھی کوئی اندر آئے اور تمہیں میرے ساتھ چپکے دیکھے تو وہ آسانی سے سمجھ جائے گا کون کیا کررہا ہے۔۔۔۔۔ زریس شیطانی مسکراہٹ سجاتے ہوئے عفہ کی جانب جھکتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
بس بھی ناں ویسے بھی یہ آپکی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔۔ عفہ منہ پھولاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
عفہ میرے پاس بیٹھی ہو سوچ کر بولنا لمحہ بھی نہیں لگنا چہرہ اوپر کرتے ہوئے اور ہوسکتا کوئی نادانی بھی سرزد ہوجائے۔۔۔۔۔۔ زریس نے اپنی بازوؤں کو عفہ کے گرد مائل کیا۔۔۔۔۔۔
چپ رہے ایک تو بتائیں بھلا لڑکی کو کوئی ایسے کھینچتا ہے وہ بھی اتنی نازک پتلی پیاری اچھی معصوم ۔۔۔۔۔۔ عفہ بھی بول ہی رہی تھی کہ زریس نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
توبہ اتنا جھوٹ بولتی ہو تم کہاں سے معصوم پیاری نازک۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی اونچی آواز سے ہنس پڑا۔۔۔۔۔۔
عفہ کا پارا اب چڑھنے لگ گیا۔۔۔۔ زریس کو اپنے قریب محسوس کرتے اس کی سانسیں بھی دھیرے دھیرے تیز ہونے لگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
بس کردو زریس. اب اچھا اور ایک کام کرو ابھی۔۔۔۔۔
کیا کرنا مجھے بس حکم دو یقین جانو سر آنکھوں سے حکم کی تکمیل ہوگی۔۔۔۔۔ زریس نے ڈرامائی انداز اپناتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پھر تو بہت اچھے۔۔۔۔۔ 
آپ ناں اپنی پیاری پیاری چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو بند کرو میں جلدی جلدی نقاب کر لونگی۔۔۔۔۔ 
کیا؟؟؟؟ کیوں؟؟؟؟ آنکھیں میں کروں بند کبھی بھی نہیں ہرگز نہیں قدرت نے اچھا بھلا موقع دیا اور میں گنوا دو نہ نہ ۔۔۔۔۔۔ زریس نے ڈھٹائی سے کہا۔۔۔۔۔
زریس آپ اچھے ہیں ناں ۔۔۔۔۔ عفہ منت کرتے بولی۔۔۔۔۔
بلکل بھی نہیں میں تو بہت برا ہو۔۔۔۔۔۔
ہووووووو میں بہت محبت کرتی ہو آپ سے ناں۔۔۔۔۔۔۔
میں تو تم سے زیادہ کرتا ہو ناں۔۔۔۔۔۔
زریس پلیز ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عفہ اپنے الفاظ کو لمبا کرتے بولی۔۔۔۔۔۔
جی نہیں ناں۔۔۔۔۔۔۔ زریس بھی اسی انداز کو اپناتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
بس کرو عفہ آج تو ہو ہی جائے دیدار اگر تم پیاری نہ بھی نکلی تو خیر ہے اب کیا ہوسکتا محبت تو ہوچکی ناں اب ۔۔۔۔۔۔۔۔ زریس مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔
لیکن. زریس۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کچھ نہیں پہلی بار کہا ہے اگر نہیں چاہتی تو کوئی بات نہیں میں زور نہیں دونگا۔۔۔۔۔ زریس کا موڈ آف سا ہوگیا۔۔۔۔۔
عفہ کچھ دیر یونہی جھکی سوچتی رہی لیکن زریس ناراض ہوگیا تو؟؟؟؟ نہیں نہیں ۔۔۔۔۔ سوچتے ساتھ ہی زریس کے سینے پر اپنے نرم گرم ہاتھ رکھے۔ زریس سمجھ گیا کہ وہ سامنے آنے لگی ہیں۔۔ زریس کا دل اب زور زور سے دھڑکنے لگ گیا۔۔۔۔
عفہ آہستگی سے زریس کے سینے پر سے اٹھی اور آنکھیں جھکائے زریس کے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔۔
عفہ کو دیکھتے ساتھ ہی زریس کی آنکھیں رک سی گئی جس عفہ کی صورت وہ اپنے خیالوں میں ہر وقت بنتا رہتا تھا عفہ کی خوبصورتی کے آگے بہت ہی کم تر تھا۔۔۔ وہ مسلسل عفہ کو ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا جیسے کوئی خواب سامنے سچ بنے بیٹھا ہو جبکہ عفہ خاموشی سے اس کے سامنے بیٹھے آنکھیں گھوما رہی تھی۔۔۔۔ زریس نے آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے اس کو آپنے قریب کیا۔۔۔۔
عفہ ابھی بھی نظریں جھکائے زریس کے سامنے بیٹھی تھی جبکہ زریس بس یونہی اسے دیکھتے جارہا تھا۔۔۔۔۔
کچھ لمحوں میں زریس عفہ کے چہرے کے قریب آگیا۔۔ عفہ کو زریس کے گرم سانسیں اور لمس صاف صاف محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔ زریس مزید عفہ کے قریب ہوا۔۔ 
 کہ اس سے پہلے وہ اسے چھوتا اچانک ہی عفہ کو اپنی اور زریس کے درمیان موجود دیوار ہلتی محسوس ہوئی تو اس نے فورا زریس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے خود کو اس سے الگ کرتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔
دونوں کو اپنی قربت کا احساس ہورہا تھا عفہ بناء کچھ کہے نقاب پہنتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھ گئی جبکہ زریس وہی بیٹھا اپنے بالوں میں نادانی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے عفہ کی صورت کو دوبارہ سوچنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمرا آج یونیورسٹی کے بعد میں نے ہسپتال جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ عفہ تیار ہوتی سمرا کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔
کیوں عفہ خیریت؟؟؟؟؟ سمرا نے عفہ کی بات سنی تو چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔
ہاں خیریت ہی ہے وہ عصار سے ملنے جانا ہے سوچا دیکھ لوں کہ اب ان کی طبیعت کیسی ہیں؟؟ 
بے رخی سے بولتی عفہ ابھی بھی سمرا سے ناراض تھی لہزا اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو موڑتے ہوئے بناء سامنے دیکھے دروازے کے پاس کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔
لگتا ہے یہ ابھی بھی کہ کی بات سے مجھ سے ناراض ہے تبھی بے رخی سے بات کررہی ہیں مجھ سے۔۔۔۔ سمرا نے شیشے میں نظر آتی عفہ کی جانب دیکھتے ہوئے سوچا۔۔۔۔ خاموشی سے اس کی جانب بڑھی جو کہ دوسرے جانب رخ کیے کھڑی تھی۔۔۔۔
عفہ؟؟؟؟؟ سمرا نے عفہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی جانب رخ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
عفہ نے کوئی جواب نہ دیا اور اس کی جانب دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔۔
ہاں تو کرو یار اتنی بھی کیا بے رخی یار؟؟؟؟ 
سمرا تم نے کل جو بھی بات کی یقین جانو ایسے لگ رہا تھا کہ جسم سے روح الگ ہوگئی ہیں اور میری مخالفت کرنے کو تیار ہے۔۔۔۔۔ عفہ کی آنکھوں میں بولتے ہوئے آنسوں تیرنے لگ گئے۔۔۔۔۔
نہیں. یار ایسا نہیں ہے وہ بس تمہارے رویے کو دیکھتے ہوئے مجھے ذرا غصہ آگیا تھا۔۔۔۔۔۔
سمرا میں بہت کچھ جھیل چکی ہوں مجھے سب زریس جیسے نظر آتے ہیں تم نے نوٹ نہیں کیا زریس کا بھی ویسا ایکسیڈنٹ ہوا تھا جیسا عصار کا ہوا تھا کل۔۔۔۔ 
میں نے جب عصار کو ہسپتال میں لیٹے دیکھا تو یقین جانو مجھے وہی لمحے آنکھوں کے گرد گھومتے ہوئے نظر آئے۔۔۔۔ میرا دل کررہا تھا وہاں سے چلاتی ہوئی نکل جاؤ اور چیخ چیخ کر رؤں۔۔۔۔ 
سمرا نے عفہ کی آنکھوں سے بہتے آنسوں دیکھے تو فورا اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔۔۔ 
مجھے معاف کردو عفہ بہت برا بولی میں پتہ نہیں. کیا ہوگیا تھا مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا کوئی بات نہیں یار اب چلوں جلدی پھر مجھے جانا بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عفہ نے سمرا کو خود سے الگ کیا اور دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہی عفہ نے ہسپتال کا رخ کیا جہاں عصار زیر علاج تھا۔۔۔۔۔۔
کمرے میں داخل ہوئی تو اسے ایک عجیب سی بو جو ناک کو ناگوار سی لگی محسوس ہوئی حجاب پر ہاتھ رکھتے ہوئے آہستگی سے اندر داخل ہوئی تو عصار ہاتھ میں وائین گلاس تھامے آرام سے چسکیاں بھر رہا تھا اور سامنے لگے ٹی وی پر کوئی انگریزی ہورر مووی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
عصار اپنے ہی آپ میں اتنا مگن تھا کہ اسے عفہ کے اندر آنے کا بھی پتہ نہ چلا۔۔۔ اچانک اپنے پاس کسی کو کھڑا محسوس کیا تو ڈر کی وجہ سے وائین گلاس ہاتھ سے چھوٹ گیا اور حیرانگی کا نشان بنا عصار عفہ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا جس کی آنکھوں سے خوف اور ڈر صاف واضح ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔
عصار کو ڈرتے ہوئے دیکھ کر عفہ بےاختیار کھلکھلا کر ہنسنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔
اللہ عصار آپ ڈر گئے ہاہاہاہاہاہاہاہا آپ تو مجھ سے ہی ڈر گئے توبہ اتنے ڈرپوک ہوگے آپ سوچا نہیں تھا میں نے۔۔۔۔۔ ہنستے ہنستے وہ گرنے کے انداز میں صوفے پر جا کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
خود پر عفہ کو ہنستا دیکھ کر عصار کو شرمندگی سی محسوس ہوئی کیونکہ وہ بھی جانتا تھا کہ وہ بہت بری طرح سے ڈر گیا تھا۔۔۔۔ غصے سے ریموٹ کو پکڑا اور ٹی وی کو بند کردیا۔۔۔۔۔۔
عفہ ابھی بھی مسلسل ہنس رہی تھی یہاں تک کہ اس کی آنکھوں سے پانی بھی آنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔۔۔
پہلے پہر تو عصار کو خود پر بہت غصہ آرہا تھا لیکن عفہ کی چہچہاتی ہنسی دیکھ کر وہ اسے دیکھنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔
ویسے جب آپ ڈراؤنی فلم دیکھ نہیں سکتے تو لگاتے کیوں ہیں پہلی بار کسی مرد کو ڈرتے دیکھا میں وہ بھی اتنی بری طرح۔۔۔۔۔۔
عفہ عصار کو دیکھتے ہوئے ہنس رہی تھی تبھی اسے محسوس ہوا کہ عصار اسے دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔
فورا خود کو ٹھیک کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔ جبکہ عصار بھی اب ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر عفہ چوری چوری عصار کو دیکھتی رہی اور اپنی ہنسی دباتے کی کوشش کرتی رہی۔۔۔۔۔
عفہ کی کھسرپھسر سن کر عصار غصے سے عفہ کی جانب دیکھنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔
اچھا اچھا پکا اب نہیں. ہنستی پکا اب نہیں بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔ عفہ چلبلی سی ادا سجائے عصار کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
بلکل۔۔۔۔۔
وہ تو بس یونہی ہوجاتا اکثر میرا مطلب کبھی کبھی۔۔۔۔۔ عصار اپنی ڈر کو چھپاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
جی جی بلکل ٹھیک کہہ رہے آپ۔۔۔۔۔
یہ بتائے آپ کیسے ہیں اب اور دوائیاں لے رہے ہیں آپ؟؟؟؟
جی لے رہا ہوں اور اب بہت بہتر ہو۔۔۔۔۔۔ ویسے مجھے امید نہیں تھی کہ آپ ائے گی۔۔۔۔۔ 
جی وہ بس میں نے سوچا کہ ایک بار مل لوں تو بس آگئی۔۔۔۔۔ عفہ مسکرا کر بولی۔۔۔۔
عصار نے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔۔۔۔۔۔
ایک بات کہوں آپ سے؟؟؟؟ عفہ عصار کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
جی بولے۔۔۔۔۔ عصار کی نظریں اب عفہ پر ٹکی تھی۔۔۔۔
آپ کیوں پیتے ہیں یہ؟؟؟؟ عفہ سوالیہ انداز اپنائے بولی۔۔۔
سکون کیلئے ۔۔۔۔۔۔ عصار نے وائین کو ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پھر تو مجھے فیکٹریوں میں بیٹھ جانا چاہیے اگر سکون اس سے ملتا ہے تو میں بہت بےچین ہو بے سکون ہو ۔۔۔۔۔۔ عفہ خود سے بات کرتے بولی۔۔۔۔
جی کیا میں کچھ سمجھا نہیں؟؟؟؟؟ 
کچھ نہیں بس یہ کہ یہ حرام ہے سکون اس میں نہیں نماز میں ڈھونڈے جو آپکو اللہ سے جوڑتا ہے اور اللہ پاک انسان کے دل کو پرسکون کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔
اچھا تو آپ کا مطلب یہ ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔ عصار نے بوتل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
جی بلکل یہ ٹھیک نہیں. ہے اگر سکون اس سے ملنا ہوتا تو آج سب شراب تھامے بیٹھے ہوتے۔۔۔ ہمارے مذہب میں شراب حرام ہے کیونکہ انسان اس کو پینے کے بعد اپنے حواس کھو دیتا ہے اور ساتھ انسان کی زبان چالیس دن تک ناپاک ہوجاتی ہیں اور جس انسان کا دل پلید ہو وہاں پاک ذات اپنا بسیرا نہیں کرتی تبھی تو انسان یہی سمجھتا ہے کہ وہ بے سکون ہے جبکہ اصل وجہ یہ ہے وہ اپنے رب سے دور ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ خود کو اکیلا پاتا ہے اور دل بے سکون اور بے چین ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔
عفہ بول رہی تھی جبکہ عصار منہ کھولے اس کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔۔۔۔
جیسے اپنے کانوں پر یقین نہ آرہا ہو کہ جس کے بارے میں اس نے اتنا کچھ غلط سنا اور دیکھا وہ اسے ایسے سبق دے رہی ہیں۔۔۔۔ 
عصار کو ایسے دیکھ کر عفہ نے جانا مناسب سمجھا۔۔
اچھا عصار اب میں چلتی ہو امید ہے اگلی بار میں آپکو پیتے ہوئے نہیں دیکھو گی۔۔۔۔۔۔ عفہ اپنا بیگ تھامتے اٹھی اور دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔
عصار عفہ کی بات سننے کے بعد ابھی بھی اپنی سوچ میں تھا کہ تبھی اسے عفہ کی آواز دوبارہ سنائی دی۔۔۔۔۔
ہم تو اب دوست ہے ناں تو پھر دوست کی بات تو ماننی چاہیے۔۔۔۔۔ عفہ عصار کی جانب دیکھ کر بولی اور پھر باہر کو بڑھ گئی۔۔۔۔۔
عصار پھر عفہ کی بات سن کر حیرانگی سے اس کے جانے کے بعد بھی اس کی باتوں کو یاد کر کے دروازے جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
آج پہلی بار احساس ہوا ہے جسے میں بےسکونی سمجھتا تھا وہ میرے رب سے میری دوری تھی۔ عصار اسی سوچ میں گم تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھ گیا جبکہ عفہ ایک گہرا اثر اسکے دماغ میں چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے اور رائے ضرور دے😊

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─