ناول: تنہا_سفر
از: رضیہ_احمد
قسط_نمبر_08
آخری_قسط

بیٹے کی کامیابی دیکھ کر موم کے دِل کو سكون تھا . سمر اپنے دفتر میں بیٹھا اک بہت ضروری میٹنگ میں تھا . اس کے سیل پر بار بار اک ان نون نمبر کی کال آ رہی تھی . میٹنگ اتنی ضروری تھی کے کال اُٹھاناسے مناسب نہ لگا . مگر فون کرنے والا بھی بہت ڈیٹھ تھا . سمر کو وہ میٹنگ فوراً روکنی پری  

سمر : ہیلو ؟ ! . . . واٹ ؟ ؟ ! . . . اوہ میرے خدایا ! اچھا یو ڈونٹ وری میں ابھی آتا ہوں ! … ایکسیوز میں آئی ہیو این ایمرجنسی آئی ہیو تو رش ! آہ . . ہممم . . . . ثمرین پلیز میک آ نیو ڈیٹ فور دس میٹنگ عیث سون عیث پوسیبل . آئی ایم ویری سوری ایوری بڈی

سمر نے ڈرائیور کو گاری نکلنے کو بولا . سمر کی گاری اسپتال کی طرف روانہ ہو رہی تھی . جیسے ہی سٹی اسپتال کے میں گیٹ کو پوحونچا وہاں اس نے افی کی وائف کو دیکھا . عالیہ بہت پریشان تھی . افی کا بہت برا ایکسڈینٹ ہوا تھا اور وہ اِس وقت بہت سیریوس حالت 
میں تھا . عالیہ نے سمر کو افی کے آئی سی یو تک پوحونچایا . سمر افی کو دیکھ کر بہت گھبرا گیا .اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ ڈاکٹر سے بات کرے یا دعا کرے . جو ڈاکٹر افی کا علاج کر رہا تھا اس كے عجیب قسِم کے نخرے تھے . وہ علاج کےبارے میں کم اور پیسوں کی بات زیادہ کرتا . اب سمر اِس حالت میں غصہ تو کرنے سے رہا . عالیہ کی آنکھیں رَو رَو کر سوج چکی تھی . سمر کو اچانک مولوی صاحب یاد آئے اور اس نے فوراً ان کو فون ملایا . مولوی صاحب اک ڈاکٹر کو لیکر اس اسپتال میں پوحونچ گئے . تقریباً 6 گھنٹے تکافی کی حالت کو سودھارنے میں کوشش جاری رہی . اور 6 گھنٹے بعدافی کو ہوش آ گیا اور وہ خطرے سے باہر ہو گیا . سمر نے سكون کا سانس لیا اور وہ اپنے دوست سے ملنے چلا گیا . تقریباً 2 سال بَعْد وہ اپنے بچپن کے دوست افی کو دیکھ رہا تھا . اسکی حالت بھی کسی فقیر جیسی تھی . سمر اس کے سامنے پِھر بھی اک ہیرے کی طرح چمک رہا تھا . جب اس نے پِھر عالیہ کو دیکھا تو وہ بھی کسی 
فقیرنی سے کم نہیں لگ رہی تھی . سمر کو آج بھی وہ دن یاد ہے جب جوا کھیلنے کے لیے اس نے افی کے سامنے ہاتھ پھیلائے تھے اور افی نے اسے پیسے دینے سے منع کر دیا تھا . کیوں کے سمر بہت بَدَل چکا تھا اسلئےاسے بدلہ لینے کا تو خیال ہی نہیں آیا . سمر نے اسپتال میں اسے کے علاج کی ساری پیمنٹ کی .افی اسکا احسان مانتا رہا . ان پچھلے 2 سالوں میںافی کے مالی حالات بہت خراب ہو چکے تھے . امریکہ جانے کے چکر میں افی نے اپنا گھر باڑ پیسہ سب کچھ کھو چکا تھا . وہ اپنی بیوی کے ساتھ امریکہ تو نہیں جا پایا لیکن اک چوٹی سی بستی میں اپنی زندگی بسر کر رہا تھا . اک زمانہ تھا جب افی نئی نئی گاڑیوں میں سفر کرتا تھا اور آج وہ مزدوری کے لیے 10 میل پیدل چل کر جاتا ہے . عالیہ گھر کے پاس میں اک چوٹی سی فیکٹری میں نوکری کرتی تھی . سمر نے جب یہ سب سنا تواسے بہت دکھ ہوا

سمر : یار . . . تونے مجھے یاد کیوں نہیں کیا ؟

افی: کیسے یاد کرتا دوست ؟ میں تو تجھ سے شرمندہ ہوں . بچپن سے لے کر آج تک تونے مجھے سب کچھ دیا اور اس دن میں نے تیری دوستی کو پیسوں کی لالچ میں آ کر ٹھکرا دیا . ناجانے کیسے کب اور کیا ہوا کچھ پتہ ہی نہیں چلا

سمر : تو پریشان کیوں ہوتا ہے ؟ میں ابھی زندہ ہوں

افی : توکہاں چلا گیا تھا یار

سمر : میں ، . . . کیا بتاوں تجھے . جس دنیا میں گیا تھا وہ دنیا اِس دنیا سے کئی زیادہ حَسِین اور پر سكون نکلی . کاش کے ہمارے ماں باپ نے ہمیں اس دنیا کا رخ دکھایا ہوتا

افی : کس دنیا کی بات کر رہا ہے ؟

سمر : یہ میں تجھے ایسے نہیں بتاونگا تو جلدی سے ٹھیک ہوجا . میرے گھر چل میرے ساتھ کام کر تجھے سب سمجھ میں آجائیگا . اور عالیہ 
بابھی آپ ، فوراً فیکٹری میں نوکری چھوڑے . فوراً

عالیہ : لیکن سمر

سمر : میں کچھ نہیں سننا چاہتا . پلیز میری بات مان لو

افی سوچ میں پر گیا . سمر کا بات کرنے کا طریقہ اسکی نظر جھکی ہوئی اور عالیہ سے بھی باتکارتع ہوے نظری جھکا کر کر رہا تھا . لگتا ہے سمر واقعی کسی ایسی دنیا سے ہو کر آیا ہے جہاں سے انسان کی روح تک شاید تبدیل ہو جاتی ہے . عالیہ نے بھی فوراً نوکری چور ڈی . جس وقت یفی نے سمر کے گھر میں قدم رکھا یوز اک سكون محسوس ہونے لگا . اس نے سمر کے گھر کی حالت دیکھی . گھر تو وہی تھا . فرنیچر بھی وہی تھا لیکن اس گھر کی خوشبو اتنی حَسِین تھی کے بس . . . افی اک کمرے کے پاس سے گزر جو کبھی سمر کا پارٹی روم ہوا کرتا تھا . اسکا دروزہ بند تھا . افی اس دروازے کے سامنے رک گیا  
سمر نےاسے دیکھا وہ کمرہ اب عبادت کا کمرہ تھا . وہا ں قران تسبیح اور جائے نماز بیچے ہوئے تھے . اور عین اس وقت ملکہ وہاں نماز ادآ کر رہی تھی .افی نے سوالی نظروں سے سمر کی طرف دیکھا . وہ مسکرایا . پِھر سمر نے افی کو اپنی پچھلے 2 سالوں کی زندگی کی کہانی سنائی . افی بہت شرمندہ ہوا اور سمر سے التجا کرنے لگا کے وہ اسے اپنے ساتھ اِس پر سكون دنیا میں رکھلیا . سمر نےاسے کہا

سمر : تو تمہیں کس نے منع کیا ہے . آؤ

افی اور سمر کی دوست پہلے سے پکّی ہوگئی . سمر اتنا امیر تھا کے اس نےافی کو اک نئے مکان میں جگه دی اور افی اس کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگا . کچھ عرسی میں افی اور سمر کی دوستی کی چرچہ پورے شہر میں ہوتی تھی . جہاں سمر جاتا وہاں افی جاتا . جو وہ کھاتا وہی وہ کھاتا . افی کی زندگی بھی کافی 
حَسِین ہو چکی تھی . سمر اور افی اکثر بنٹی کے بڑے میں گفتگو کرتے تھے لیکن ان دونوں کے علم میں بنٹی کے بارے میں کچھ نہیں تھا . ان دونوں نے اک دن بنٹی کو ڈھونڈے کا فیصلہ کیا . سارہ کے بارے میں کچھ علم نہ تھا . سمر اور افی دونوں بہت تھک چکے تھے . انکی سمجھ میں یہ بات بالکل بھی نہیں آ رہی تھی کے وہ بنٹی کو کہاں سے دھوندھے. ایک دن مولوی صا حب سمر سےملنے چلے گیےسمر مولوی صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوا لیکن بنٹی کی پریشانی کی وجہ انکی ٹھیک سے خاطر بھی نہ کر پایا . مولوی صاحب سمر کی پریشانی سمجھ گئے . مولوی صاحب کے پوچھنے پر سمر نے اپنی پریشانی ان کے سامنے رکھی . مولوی صاحب سمر اورافی کے ساتھ پِھر سے بنٹی کو ڈھونڈنے کو نکلے مگر بنٹی کا کچھ پتہ نہیں تھا . اس کے پُرانے بنگلےپر تالا لگا ہوا تھا . اسکا نمبر بھی اوف تھا . بنٹی کے جتنے جاننے والے شہر میں رہتے تھے وہ سب اپنے گھروں میں موجود نہیں تھے . سمر ہار کر بیٹھ 
گیا . اگلے دن جمعہ تھا اور نمازادا کرنے کے بعد سمر حسب عادت اپنے ڈیڈ کی قبر پر دعا کرنے جاتا . واپسی پر افی اور سمر پِھر بنٹی کے پُرانے بگنلے کے پاس گزارے . اِس بار انہوں نے اک فقیر کو دیکھا . سمر نے جب اس فقیر کو دیکھا تو اسے اپنی فقیر یاد آئی . یہ انسان تو … سمر نے گاری روکی اور اس فقیر کے پاس جا پوحونچا . اپنی جیب سے نوٹ نکل کر اسکی کٹوری میں رکھ دیئے کہا

سمر : دعا کرنا ، میرا دوست کھو گیا وہ مجھے مل جائے 

اس فقیر نے جب سمر کی طرف دیکھا تو اس نے سمر کا ہاتھ تھم لیے

بنٹی : مل گیا

سمر نے غور کیا . . ! اُف میرے خدایا ؟ یہ سمر کا بنٹی ہے ؟ یہ کیا حالت ہوگئی اسکی ؟ سمر نےاسےگلے لگایا اور پُھٹ پُھٹ کر رونے لگا .اسے کو یہ حرکت بہت 
عجیب لگی .افی گاری سے باہر نکلا اور اس نے سمر کو اس فقیر سے الگ کرنے کی کوشش کی اور جب وہ الگ ہوا تو سمر کے کپڑے میلے ہو گئے تھے . لیکن افی نے جب بنٹی کو پہچانا تو وہ بھی اسے گلے لگ کر بہت رویا . شام ہورہی تھی سورج ڈوب رہا تھا . سمر افی اور بنٹی اپنی پچھلی زندگیوں کو لیکر بیٹھے ہوئے تھے . اک زمانہ تھا جب یہ لوگ ہر ہفتے نئی گاری ، کلب کے شوق اور عیاشی والی زندگی بصر کرتے تھے . مگر آج اِس طرح مل کے اپنے ضمیر سے شرم آنے لگی تھی . بنٹی تو شادی کے بعد ہی کافی بَدَل گیا تھا اور کلب جیسی عیاشی کا تواسے بہت پہلے سے شوق تھا . وہ شوق اسے لے ڈوبا . آج وہ اک چوٹی سی جھوپڑی میں رہتا ہے . کبھی جب بارش ہوتی ہے تو اس کی چھت سے پانی ٹپکتا ہے . بنٹی اپنی جھوپڑی میں سوکھی جاگہ ڈھونڈ کر بیٹھ جاتا ہے . . . بنٹی کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں رہا تھا . سب لوگ اسکی ان عادت کی وجه سے پریشان تھے . یہ سب لوگ اتنے شریف کیسے ہو گئے ؟ ! عجیب ہے 
انسان کی زندگی بھی جب انسان کو کسی چیز کا چسکا پر جاتا ہے تو وہ سمجھتا کے اب یہی سب کچھ ہے ، اب وہ تنہا نہیں لیکن یہی چیزیں انسان کو اک پل میں تنہا سفر چلنے پر مجبور کرسکتی ہے . آج سمر پِھر سے اسی جاگہ پر کھڑا تھا بلکہ اس سے بہتر جگه پر کھڑا تھا اور پل پل خدا کا شکر ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا  

ڈیئر ریڈرز ! اپنے اوپراس طرح کی چیزوں کو حاوی نہ ہونے دے کے آپ رشتوں اور اللہ کی نعمتوں جیسے ہاتھ دھو بیٹھے . دولت کی خواہش کرنا کوئی گناہ نہیں مگر اسی دوالت کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا بھی حکم ہے . آپ اگر خدا کی راہ میں خرچ کرینگے اللہ آپکو اور دیگا 
سمر ،افی اور بنٹی پِھر اک ساتھ مل چکے تھے اور تینوں اک سادی زندگی بصر کر رہے تھے . اک دن سمر کو اک پیغام آیا . سمر بھاگتا ہوا اس بستی میں گیا سے 
 . مولوی صاحب کے گھر کے باہر بہت لوگوں کا ہجوم تھا . سمر گھبراتا ہوا اس گھر کی طرف بڑھا . وہاں اسے فاطمہ کو ایک میّت کے پس بیٹھے روتے ہوئے دیکھا . سمر کا دِل بہت زور زور سے دھرک رہا تھا . اس نے اپنےکامپتے ہوئے ھاتھوں سے اس میّت کے چہرے سے چادر اُٹھائی . مولوی صاحب اِس دنیا کو چور کر جا چکے تھے 
کیا تکلیف دے منظر تھا وہ سمر کے لیے . سمر انکا نورانی چہرہ خاموشی سے دیکھتا رہا

، ، یا اللہ ، کیوں ؟ . . . ’ ’

 یہ سوال سمر کے ذہن میں بار بار گونج رہا تھا . فاطمہ کے ابّا نے سمر کو اک خط لا لفافہ ہاتھ میں دیا اور سمر نے اپنے کانپتے ہوئے ھاتھوں سے اس خط کو کھولا

پیارے بیٹے
  اجب تم سے ملا تھا تو مجھے یقین تھا کے تم بھی اک دن خدا کی راہ پر چلوگے . تمہاری کامیابی دیکھ کر تمھارے بارے میں سن کر مجھے بہت اچھا لگا . سمر ، میری اک بات مانو ، خدا کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا . دولت آنے جانی چیز ہے آج ہے تو کل نہیں بھی ہو سکتی . مگر خدا سے تعلق آنی جانی نہیں . اپنی اولاد اور اپنے دوستوں کو اِسبات کی تربیت ضرور کرنا . اور آج میں جانے سے پہلے یہ اعلان کرتا ہوں کے تم آج کے بَعْد میرے جانشین ہو . تم اِس بستی کے وارث ہو . میری بستی کا خیال رکھنا . اللہ حافظ  

سمر نے بڑے ادب سے وہ خط فولڈ کیا اور اپنی جیب میں رکھا . اس نے مولوی صاحب کی پیشانی پر پیار کیا اور مولوی صاحب کے چہرے کو ڈھانپ دیا . کسی نے کہا
شخص : مولوی صاحب کا جنازہ کون پڑھائے گا

سمر : میں . . . آپ سب لوگ تیاری کرے

سمر نے پِھر وہی سفید جوڑا پہنا جو اس نے مولوی صاحب کے گھر میں پہلی بار پہنا تھا . اِس بار جب وہ آئینے کی طرف گیا تو وہ پہلے سے زیادہ امیر لگ رہا تھا .افی بنٹی سمر اور فاتمہ کے ابّا نے مولوی صاحب کا جنازہ اٹھایا اور قبرستان میںسپوردے خاک کر دیا . سمر کافی دیر تک قبرستان میں بیٹھا رہا اور آنسوں بہاتا رہا . لیکن یہ اشک کوئی معمولی اشک نہیں تھے . اس سمر صرف اور صرف خدا کی راہ میں چلنا اپنی شان سمجھتا تھا .
ختم شد
اللہ جسے ھدایت دے

*****************************