ناول: محبت اور وہ 
از: جواد احمد سومرو
مکمل ناول (افسانہ)
قسط نمبر 1
نوٹ؛- اِس کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہانی میں استعمال ہونے والے نام اور واقعات فرضی ہیں اِس فرضی کہانی کے نام یا واقعات اگر کسی کی حقیقی زندگی سے ملتے جُلتے ہوئے تو یہ محض ایک اِتفاق ہوگا۔۔۔

 میں ایک سرکاری دفتر میں ملازم ہوں حیدرآباد میں اپنی امی کے ساتھ ایک عام سی زندگی گزار رہا تھا وقت اپنے تیز تیز قدم بھرتا ہوا چل رہا تھا دفتر جانا پھر دفتر سے گھر آنا امی کے ساتھ کچھ وقت گزارنا اور سو جانا 
زیادہ بات کرنے کی عادت نہیں تھی تو اپنے آپ میں ہی رہتا تھا بابا جانی اُس وقت اِس فانی دُنیا کو چھوڑ کر چلے گئے جب بیٹھنا بھی سھی نہیں سیکھا تھا 
امی نے دن رات ایک کرکے مجھے پڑھایا اور آج اللہ پاک کے فضل سے ایک دفتر میں کلرک کی نوکری کر رہا ہوں 
امی مجھ سے ہمیشہ ایک ہی بات کہتی تھیں کہ عارفین اب تو شادی کر لے لیکن میرا یہ ہی جواب ہوتا کہ اپنا گھر ہو جائے اور کچھ بن جائوں تو اس بارے میں سوچوں گا
میرے لئے رشتوں کی کمی نہیں تھی ہمارے موحلے کی مسجد کے اِمام صاحب قاری شفقت بھی کافی دفعہ اِشاروں میں کہہ چکے تھے کہ میاں عارفین اب عمر ہو گئ ہے تمہاری شادی کیوں نہیں کر لیتے۔
 مجھ سے ایک دفع امی نے امام صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی کا زکر کیا تھا تو میں سمجھ چُکا تھا کہ اِمام صاحب کے گھر سے میرے لئے رشتہ آ چُکا ہے (قاری صاحب اور ہمارا بہت پرانا تعلق تھا میرے بابا کے والد اور قاری صاحب کے والد بہت گھرے دوست تھے بعد میں میرے بابا اور قاری صاحب نے اس دوستی کو برقرار رکھا بابا کے اِنتقال کے بعد بھی یہ دوستی کا رشتہ امی اور قاری صاحب کی اہلیہ نے زندہ رکھا جو کہ اب کچھ وقت بعد رشتےداری میں بدلنے والا تھا ) تو بات کو زیادہ گول گھمانہ نا پڑا میں سمجھ چکا تھا کہ اب مجھے شادی سے کوئ نہیں بچا سکتا۔۔۔ 
مجھے شادی کرنے سے کوئ تکلیف نہیں تھی پر میں شادی کرنے سے پہلے کچھ بن جانا چاہتا تھا وقت یوں ہی گزرتا رہا۔
پھر ایک دن وہی ہوا جس بات کا مجھے ڈر تھا میں حسبِ معمول دفتر جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا کہ کمرے سے امی نے مجھے آواز دی 
عارفین! امی نے آج تھوڑا سخت آواز میں بُلایا تھا مجھے
میں جلدی سے ان کے کمرے میں گیا امی کرسی پر بیٹھی ہوئیں تھیں میں جا کر اُن کے قدموں میں بیٹھ گیا 
عارفین تمہیں آج یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ تم کیا چاہتے ہو شادی کروگے بھی یا نہیں (اُن کا لہجہ بتا رہا تھا کہ بات اب ٹالنے کی حد سے آگے نکل چُکی ہے)
میں نے اُن کے دونوں ہاتھ چوم کر کہا کہ امی آپکی خوشی میں ہی میری خوشی ہے آپکا فیصلہ سر آنکھوں پر۔۔۔ (یہ سننا تھا کہ امی کی خوشی کی اِنتہا نہ رہی) 
لیکن امی میری ایک شرط ہے
کیا؟ (امی نے سوالیہ انداز میں پوچھا)
میرا ابھی نکاح کروا دیں رُخصتی اُس وقت جب اپنا گھر ہو جائے اور ہاتھ میں کچھ آ جائے امی سوچ میں پڑ گئیں پھر کچھ دیر بعد بولیں میں میں بیگم شفقت سے بات کرکے دیکھتی ہوں پھر میں امی کو اللہ حافظ کہہ کر دفتر کے لئے نکل گیا اپنی کوئی سواری نہیں تھی تو بس میں سفر کرتا تھا 
گھر سے جیسے ہی باہر آیا تو ہمارے گھر سے تھوڑا فاسلے پر دودھ کی دکان ہے دوکاندار چاچا عبداللہ بہت اچھی شخصیت کے مالک تھے پورا محلہ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ چاچاعبداللہ نے کبھی بھی دودھ میں ملاوٹ نہیں کی 5 وقت نمازی تھے اور اللہ والے تھے اور جمعہ کے دن تقریر بھی کرتے تھے قاری شفقت اکثر اُن کے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے میں نے حسبِ معمول چاچا عبداللہ کو سلام کیا تو قاری شفقت بھی وہیں بیٹھے تھے ان کو سلام کرکے آگے بڑھا تھوڑا سا ہی آگے گیا تھا کہ پیچھے سے قاری صاحب نے آواز دی 
میاں عارفین میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو قاری صاحب تیز تیز قدموں سے میری طرف آ رہے تھے لگتا ہے بہت جلدی میں ہو میاں ؟ میں نے ادب سے سلام کرنے کے بعد کہا نہیں ایسی کوئ بات نہیں ہے قاری صاحب دراصل دفتر کے لئے دیر ہو رہی ہے تو اسی وجہ سے۔۔۔ ارے میاں آباد رہو بھلا ہو تمہارا ہم تو بھول ہی گئے تھے (اُنہوں نے میری بات کاٹ کر کچھ یاد کرتے ہوئے کہا )
آئیے میاں عارفین زرا ہمارے گھر اُنہوں نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر آگے بڑھتے ہوئے بات جاری رکھی
تمہاری چاچی کے لئے کچھ دوائیاں لینی ہیں
تو ہم بھی وہیں جا ریے ہیں آپ کو بھی دفتر چھوڑتے ہوئے جاتے ہیں 
میں نے جواب میں شکریہ کہا۔
اُنہوں نے دروازے کھٹکھٹایا اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی نے کھولا جیسے ہی دروازا کُھلا تو میں تو دیکھتا ہی رہ گیا میں چُپ رہا لیکن دل بری طرح دھڑک رہا تھا یہ وہی (چاند) تھی اُسکی حالت بھی کچھ الگ نہیں تھی وہ دروازہ کُھلا ہی چھوڑ کر جلدی سے پیچھے ہٹ گئ قاری شفقت گھر میں داخل ہوئے اور تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے موٹر سائکل نکالی اور ہم روانہ ہوگئے سارا سفر خاموشی میں گزرا دفتر کے پاس اُنہوں نے موٹر سائیکل روکی اور میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور دفتر میں داخل ہو گیا لیکن پورا دن کام پر دھیان نہیں دے پایا دفتر کا ٹائم ختم ہونے کے 20 منٹ پہلے ہی گھر کی طرف چل دیا بس اِسٹینڈ پر آدھے گھنٹے سے زیادہ ہوگیا لیکن بس آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی آدھا گھنٹہ اور گزر گیا لیکن بس نہیں آئی 6 بج چکے تھے اور وہاں رات 7 بجے کے بعد ماحول سُنسان ہو جاتا ہے تو میں نے پیدل چلنے میں ہی آفیت جانی اور تقریباً 25 منٹ کے بعد چاچا عبداللہ کی دکان پر پہنچا دودھ اور ڈبل روٹی لیکر گھر آ گیا جیسے ہی گھر پہنچا تو امی میری مُنتظر تھیں میں نے امی کو سلام کیا جواب دینے کے بعد اُنہوں نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو ساری بات بتا دی امی کو تسلی دے کر اپنے کمرے میں داخل ہوگیا اور نہانے چلا گیا کمرے سے باہر آیا تو عمدہ اور لذیز کھانا تیار تھا 
کھانا کھا کر اُٹھنا چاہا لیکن امی نے روک لیا اور کہنے لگیں کہ اُنہوں ہاں کردی ہے اب تو خوش ہے نا؟ (امی نے مجھے پیار سے تھپکی مارتے ہوے کہا) جی امی میں نے مسکرا کر کہا پھر کچھ دیر بعد نماز کا وقت ہؤا تو میں مسجد کے لئے نکل گیا نماز ادا کی کچھ دیر ذکرِ الٰہی کرنے کے بعد گھر کے لئے روانہ ہوا ہی تھا کہ قاری صاحب نے آواز دی عارفین میاں کدھر چل دیے آئیے زرا کچھ گفتگو کرنی ہے آپ سے 
میں اُن کے پاس جاکر بیٹھ گیا بہت مصروف آدمی ہو گئے ہیں نماز ادا کرکے جلدی ہی چلے جاتے ہیں کچھ رسمی باتوں کے بعد قاری صاحب نے کہا عارفین میاں اب تو خوش ہیں نا آپ سب کُچھ آپکی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے 
(میں نے جواباً کہا) بات مرضی کی نہیں ہے قاری صاحب بس یہ زمیداری سنبھالنے سے پہلے کچھ کرنا چھاہتا ہوں۔۔۔ارے ارے عارفین میاں ہم تو صرف ایسے ہی بات کر رہے تھے اور ہمیں علم ہے آپکی مجبوریوں کا اللّٰہ پاک آپکو کامیاب کریں (اُنہوں نے میرے شانے تھپکاے) پھر کچھ دیر دنیا جہاں کی باتیں ہوئیں پھر قاری صاحب نے کہا آئیے عارفین میاں گھر چلتے ہیں ٹائم کافی ہوگیا ہے اور آپکو کل دفتر بھی جانا ہے اُن کو گھر چھوڑ کر میں بھی گھر آگیا کچھ دیر امی سے باتیں کیں پھر اِجازت لی اور سونے کے لئے چلا گیا صبح معمول کے مطابق اُٹھا امی کو سلام کیا ناشتہ کرکے دفتر کے لئے نکل گیا آج کچھ خاص بات نہیں ہوئی وقت گزرتا گیا دفتر سے گھر آگیا نماز ادا کی کچھ کام کیے عشاء کی نماز کے بعد سونے کی کوشش کی لیکن نیند کا دور دور تک کچھ اتا پتا نہیں تھا دل میں ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا (شاید میں چاند کے بارے میں سوچ رہا تھا) چاند اور میری عمر میں زیادہ فرق نہیں تھا صرف ایک سال کا فرق تھا اب وہ بڑی تھی یا میں جب تک یہ پوچھنے کی سمجھ آئی اُس وقت تک شاید دیر ہو چکی تھی ہم ساتھ ہی بڑے ہوئے لیکن صرف 13 سال کی عُمر تک بعد میں اُس نے گھر سے نکلنا کم کر دیا 1 سال بعد بلکل ہی نکلنا بند کر دِیا زندگی یوں ہی چلتی رہی اب عمر تھی آدھے بچپن اور آدھی جوانی کی یعنی 16واں سال میں نہم جماعت میں تھا پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری کی بھی ضرورت تھی تو چاچا عبداللہ نے کام پر رکھ لیا میں اب پڑھتا بھی تھا اور کام بھی کرتا تھا کام اپنی جگہ مگر چاچا نے میری پڑھائی پر کوئی روک ٹوک نہ رکھی اس بیچ پڑھائی کرتا تھا پڑھائی سے فارغ ہو کر گھر کے کچھ کام کر لیتا تھا زمیداریاں عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئیں اُس کا خیال ذہن سے تقریباً نکل چُکا تھا میں نے گریجوایشن مکمل کرلی تھی اب باری تھی کچھ کرکے دِکھانے کی کچھ وقت بعد نوکری کی تلاش میں کوشیش جاری رکھیں 
ایک سرکاری دفتر میں کچھ کلرک ملازمین کی ضرورت تھی شہر جانے کی تیاریاں شروع کر دیں ضروری کاغذات پلاسٹک کے بیگ ڈال دیے چاچا کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا تھا لیکن اب گھر کے حالات بھی سنبھالنے تھے چاچا سے اِجازت مانگی تو چاچا نے میری ہمت بڑھاتے ہوے پنجابی انداز میں بولے (جا پتر اللہ تینوں کامیاب کرے) پھر چاچا نے مجھے گلے لگا لیا۔۔۔
 دوسرے ہی دن اللہ پاک کا نام لیکر نکل پڑا دفتر پہنچ کر ویٹنگ روم میں اپنی باری آنے کا انتظار کرنے لگا 
وہیں میری ملاقات یاسِر سے ہوئی لیکن مجھے اپنے آپ میں ہی رہنا پسند تھا تو میں نے زیادہ بات نہیں کی لیکن وہ چپ بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھا پہلے تو کافی تنگ کیا اُس نے لیکن اِنتظار میں بیٹھ بیٹھ کر اُس کی باتیں عجیب پر اچھی لگنے لگیں آخر کار انتظار ختم ہوا میری باری آئی 
وہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ باری اِتنی دیر سے کیوں آئی تھی ایک عمر رسیدہ شخص موٹا سا چشمہ لگائے بیٹھے تھے مجھ سے مخاطب ہو کر بولے برخوردار آپکا نام ؟
جی عارفین احمد
آپکے والد کا نام۔۔۔۔۔۔
سب تفصیلات جاننے کہ بعد اُنہوں نے 13 تاریخ کو آنے کا کہا اور مجھے جانے کی اجازت دی
اب یاسر کی باری تھی (میں نے اُسکے کان میں طنزیہ کہا) جائیے اپکی باری ہے بور ہونے کی وہ سمجھدار انسان تھا میری بات اچھی طرح سمجھ گیا اب گھر واپس جانا تھا شام کے 6 بج چُکے تھے صبح سے پانی کے علاوہ نہ کچھ کھایا تھا نہ پِیا تھا پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے کھانا کھانے کے بعد اپنے گاؤں کی بس میں بیٹھ کر واپس آگیا بس اِسٹینڈ پر چاچا میرا انتظار کر رہے تھے جلدی سے میری طرف بڑھے گھر تک ساتھ آئے راستے میں اُن کو ساری تفصیل بتا دی اُنہوں نے کامیابی کی دعائیں دیں گھر آیا تو امی میری منتظر بیٹھی تھیں امی کو بھی ساری بات مختصر بتائی کھانا کھایا اور سو گیا
 دن گزرتے گئے 13 تاریخ بھی آگئی ٹیسٹ میں کامیاب ہوا دو ہفتے بعد انٹرویو کے لیے بُلایا گیا اور اللہ پاک کے فضل و کرم سے کلرک کی نوکری مِل گئی کچھ مہینوں میں گھر کے ہالات بھی بہتر ہوگئے۔  
رات کو نجانے کس وقت نیند آئی صبح فجر کی اذان کی آواز کے ساتھ آنکھ کُھلی نماز ادا کی گھر کے کچھ کام مکمل کرکے دفتر جانے کی تیاری کرنے لگا ایسے ہی 5 دن اور گزر گئے اِن 5 دنوں میں کچھ خاص نہیں ہوا پھر ایک رات گھر واپس آیا تو امی نے بتایا کہ میرا نکاح 10 تاریخ کو رکھا گیا ہے۔۔۔۔
وقت اپنی اُسی رفتار سے سفر کر رہا تھا دن گُزرتے گئے آخر کار انتظار ختم ہوا 10 تاریخ بھی آگئی
آج 10 تاریخ تھی میرے نکاح کا دن گھر میں خوشی کا سماں تھا میری آنکھ حسبِ معمول 7 بجے کُھلی کمرے سے باہر آیا تو تیاریاں ہو رہی تھیں محلے کی چھوٹی بڑی لڑکیاں اور اُن کے چھوٹے چُنے مُّنے بھائی سب اپنے کد اور عمر کے مطابق کام کر رہے تھے (کوئی اِدھر بھاگ رہا تھا کوئی اُدھر) جِسکو جو کام مِل رہا تھا وہ بھاگا بھاگا جا رہا تھا محلے کی بزرگ خواتین ایک کونے میں محفل جمائے بیٹھی تھیں مَردوں کا یہاں کام نہیں تھا تو میں نے بھی رُکنا مناسب نہیں سمجھا نہانے کے بعد ایک نیا جوڑا نکالا جو الماری پہلے سے ہی اِستری ہوا پڑا تھا
 تیار ہوکر باہر آیا امی کو سلام کیا امی نے گلے سے لگا لیا بہت ساری دعائیں دیں اور بتایا کہ قاری صاحب بیٹھک میں اِنتظار کر رہیں ہیں مَردوں کی جگہ بیٹھک میں بنائی گئی تھی جو کہ قاری صاحب کے گھر کا چوتھا کمرہ تھا بیٹھک کا دروازہ کُھلا ہوا تھا یعنی قاری صاحب اندر ہی بیٹھے تھے میں اندر داخل ہوا تو قاری صاحب نے مجھے دیکھا اور بولے آئیے عارفین میاں ماشاءاللہ بہت خوب انتخاب ہے آپکا کپڑوں کے معاملے میں (اُنہوں نے تعریف کرتے ہوئے کہا) بیٹھیے پھر کافی دیر تک اُنہوں نے کُچّھ ہدایات دیں کچھ دنیا جہاں کی باتیں ہوئیں اِتنے میں چاچا عبداللہ بھی آگئے میں نے اُٹھ کر ادب سے سلام کیا ارے عارفین پُتر ایسے نہیں او گلے لگ جا (آنہوں نے پنجابی انداز میں بولا) ماشاءاللہ بہت خوب لگ رہے ہو عارفین پُتر پھر کافی دیر تک باتیں ہوئیں قاری صاحب کے مہمان اور کچھ محلے کے معزز لوگ اور بزرگ آئے سب نے بہت دعائیں دیں وقت کیسے گزر گیا کچھ پتا ہی نہیں چلا مغرب کی نماز کے بعد نکاح تھا ظہر کی نماز ادا کی (میں نے اللہ پاک سے خیر کی دعا مانگی کہ سب کچھ خیر و عافیت سے ہو جائے) اور اسکے کے بعد سب واپس بیٹھک میں آگئے دوپہر کا کھانا ساتھ کھایا کچھ مہمان جو دور سے آئے تھے وہ بیٹھک میں آرام کرنے لگے قاری صاحب کو کچھ معاملات نمٹانے گئے میں بھی گھر آگیا کہ شاید کسی چیز کی ضرورت ہو لیکن اللہ پاک کے فضل وکرم سے سب تیاریاں خیر خیریت سے ہو گئ تھیں امی نے بتایا کہ میں نے تیری خیر وعافیت کے لیے اللہ پاک سے دعا مانگی تھی عصر کی نماز کے بعد مرشد کی مزار پر حاضری دینے چلنا ہے 
جی امی (میں نے جواباً کہا) عصر کی نماز کے بعد مرشد کی مزار پر حاضری دی اور کچھ دیر بعد واپس آگئے پھر مغرب کی نماز کا وقت ہوا سب نے نماز ادا کی میرے لیے ایک نیا جوڑا آیا تھا قاری صاحب کے گھر سے بہت عمدہ طریقے سے سلائی کی گئی تھی نیا جوڑا پہن کر باہر آیا تو امی نے بولا ماشاءاللہ کسی کی نظر نہ لگے اور سرمے کا تلک میرے کان کے پیچھے لگا دیا دروازے پر دستک ہوئی دروازا کھولا تو چاچا عبداللہ تھے ماشاءاللہ آجا عارفین پُتر سب تیرا ہی انتظار کر رہے ہیں
بیٹھک میں پہنچا تو سب لوگ موجود تھے قاری صاحب اُٹھ کر آئے
 آئیے عارفین میاں آئیے میں قاری صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا قاضی محمد علی نکاح نامے پر کچھ لکھنے لگے تھوڑی دیر بعد ہی مجھ سے مخاطب ہوکر بولے برخوردار آپکا نام؟
عارفین احمد
والد کا نام؟
احمد سعید
پھر ساری تفصیلات نکاح نامے پر لکھیں 
(پتا نہیں کیوں سب کچھ خواب لگ رہا تھا یقیں نہیں آرہا تھا کہ میرا نکاح ہو رہا ہے وہ بھی چاند کے ساتھ میں جیسے کھو سا گیا تھا)
 پھر اچانک ہی قاضی محمد علی کی آواز سنائی دی 
کیا آپکو بُشرا ولٓد شفقت حسین سے نکاح قبول ہے؟
قبول ہے (میں جواباً کہا)
سوال تین مرتبہ دوہرایا گیا۔۔۔  
یہاں اپنی دستخط کریں
پھر قاضی محمد علی قاری صاحب سے مخاطب ہو کر بولے اب لڑکی سے پوچھا جائے گواہوں کی موجودگی میں 
پھر کچھ دیر بعد قاری صاحب آئے چاروں گواہوں نے گواہی دی اُس کے بعد نکاح پڑھایا گیا دعا مانگی گئ کچھ دیر بعد قاضی محمد علی کی آواز اُبھری آمین 
برخوردار نکاح مبارک ہو
پھر سب اُٹھے قاری صاحب نے مجھے گلے لگا لیا نکاح مبارک ہو میاں عارفین پھر سب نے مبارکباد دی اور مٹھائی تقسیم کی گئی سب کچھ اللّٰہ پاک کے فضل وکرم سے بہت اچھے سے ہو گیا ہم سب گھر آگئے محلے کی بزرگ خواتین ہمارے گھر اب بھی موجود تھیں مجھے سونا تھا رات کے 11 ہو رہے تھے مجھے کل دفتر بھی جانا تھا
5٬6 دن وہی معمول رہا دفتر سے گھر سے دفتر (میں نے ابھی تک اُس کو غور سے نہیں دیکھا تھا پھر اُس دن پورے 10 سال بعد دیکھا تھا میں نے اُسے لیکن جذبات میں بہہ جانے کا وقت نہیں تھا) اپنی ترقی کی کوششیں جاری رکھیں ساتھ ساتھ پرائیویٹ پڑھائی بھی جاری رہی اور وہی پڑھائی کام آگئ
 پھر ایک دن اِی میل موصول ہوا یہ پرموشن لیٹر تھا مجھے تو پہلے یقین ہی نہیں آیا دوسرے دن دفتر جاکر تصدیق کی میرے باس نے مجھے دیکھا اور اپنے کیبن میں آنے کا اِشارہ کیا 
میں نے دروازے پر دستک دی (Come in) اندر سے آواز آئی
میں اندر داخل ہوگیا بیٹھو عارفین (اُنہوں نے کُرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا)
مبارک ہو بھئ پروموشن ہو گیا ہے آپکا (وہ خوشی سے بولے) اب تو کراچی جا کر ہمیں تو بھول ہی جاؤ گے
کراچی؟؟؟(میں نے حیرت سے پوچھا)
اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے تم نےلیٹر غورسے نہیں دیکھا کیا؟(میں نے جلدی سے لیٹرکھول کر دیکھا تو اس پر کراچی واضع لکھا تھا) یار بہت خوش نصیب ہو جو کراچی جا رہے ہو مجھے دیکھو پوری زندگی اسی دفتر میں گزاری ہے کیا کیا کوششیں نہیں کی لیکن آج تک کچھ نہیں ہو سکا (باس نے حسرت بھری آواز میں کہا) خیر چھوڑو ان باتوں کو بتاؤ مٹھائی کب کھلا رہے ہو ؟ ضرور سر (میں نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور اپنی ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا خوشی اور فکر دونوں تھیں) ڈیسک پر ضروری فائلیں پہلے ہی ہی موجود تھیں کام بہت زیادہ تھا بنا وقت ضائع کئے کام میں مصروف ہوگیا دفتر کا ٹائم ختم ہونے میں ابھی 30 منٹ تھے کچھ ہی دیر بعد چاچا کمال آئے عارفین صاحب آپکو باس نے کیبن میں بلایا ہے 
ٹھیک ہے چاچا کمال آپ جائیے میں بس یہ فائل تیار کرکے آتا ہوں (میں نے جواباً کہا) 
میں نے دروازے پر پر دستک دی اور اندر داخل ہو گیا آؤ عارفین ایک بات تو تم سے کہنا ہی بول گیا تمہیں کراچی میں ایک سرونٹ کوارٹر دیا گیا ہے یہاں دستخط کرو (انہوں نے ایک فائل میرے سامنے کرتے ہوئے کہا) مبارک ہو بھئ اب کراچی جاکر بھول مت جانا!
 ایسا کیسے ہو سکتا ہے سر میں نے مسکرا کر کہا اس کے بعد دفتر کا وقت ختم ہوا گھر جانے سے پہلے مٹھائی کی دکان پر گیا مٹھائی لیکر گھر آگیا امی کو مٹھائی کھلائی اور ساری بات بتائی امی بہت خوش تھیں چاچا عبدللہ کی دکان پر گیا قاری صاحب بھی وہیں موجود تھے آئیے عارفین میاں بہت خوش لگ رہے ہیں کیا بات ہے؟ قاری صاحب کو ساری بات بتائی ماشاءاللہ عارفین میاں مبارک ہو
 وقت گزرتا گیا کراچی جانے سے ایک دن پہلے قاری صاحب اور ان کی اہلیہ ملنے آئے تھے آئیے قاری صاحب (میں نے سلام کیا) 
 قاری صاحب کو چائے پیش کی باتیں ہوئے قاری صاحب نے کہا عارفین میاں کراچی جاکر فون کرتے رہیئے گا 
ضرور قاری صاحب یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے کافی دیر باتیں کرنے کے بعد قاری صاحب نے کہا عارفین میاں اب ہمیں اجازت دیں ہمیں کچھ کام سے جانا ہے آئیے زرا ہمیں دروازے تک چھوڑ کر آئیے...
قاری صاحب چلے گئے اب مجھے چاچی کو گھر چھوڑ کر آنا تھا میں اپنے کمرے میں آگیا کل بہت سارے کام کرنے تھے سامان لوڈ کروانا تھا بس کی ٹکٹیں وغیرہ....
تقریباً رات کے 9 بجے امی نے مجھے آواز دی کہ چاچی کو چھوڑ کر آؤ جی امی (میں نے جواباً کہا) 
چاچی کو گھر تک چھوڑ کر جانے ہی لگا کہ چاچی نے آواز دی عارفین بیٹا پانی تو پی کر جاؤ
 نہیں چاچی دیر ہو رہی ہے (میں نے کہا) ارے عارفین بیٹا رکو ابھی لاتی ہوں اندر آؤ گے؟ نہیں چاچی بس یہیں ٹھیک ہوں 
عارفین! چاچی نے بگڑتے ہوئے دیکھا مجبوراً جانا پڑا گھر بلکل ویسا ہی تھا جیسا 12 سال پہلے تھا میری آنکھوں کے سامنے سب پرانی یادیں ایسے گھوم رہی تھیں جیسے کل کی ہی بات ہو... عارفین کے بچے! میرا سارا پانی گرا دیا تم نے اب تم ہی بھر کے دو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا امی عارفین کو دیکھیں نا میرا پانی گرا کر چلا گیا .... پانی... پانی... پانی ارے عارفین بیٹا کہاں کھو گئے (میں جیسے ہوش میں آگیا) جی؟ کچھ نہیں بس ایسے ہی....
 میں نے چاچی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو پانی کا گلاس ہاتھ میں لیے کھڑی تھیں میں نے پانی پیا اور گھر آگیا اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر ایک بار پھر چاند ذہن میں آگئی ایک دفعہ پھر الجھ کر رہ گیا رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا امی نے آواز دی بیٹا کچھ کھا کر آئے ہو کیا؟ نہیں امی تو پھر ایسے ہی سو رہے تھے؟
آؤ کھانا کھاؤ امی نے پیار بھری نظروں سے دیکھا
 جی امی(میں نے جواب دیا) کھانا کھانے کے بعد سو گیا
 آج بہت کام تھے ناشتا کرکے جو بچا ہوا سامان تھا اس کو ترتیب سے رکھا وقت گزرتا گیا شام کے 5 بج چکے تھے کام تقریباً مکمل ہو گیا تھا سامان ٹرک میں لوڈ ہو چکا تھا چاچا عبداللہ بھی موجود تھے ٹرک والے کے ساتھ باتیں کر رہے تھے اتنے میں قاری صاحب بھی آگئے لیکن آج چاند بھی ساتھ تھی چاچی اور چاند اندر چلی گئیں قاری صاحب نے پوچھا عارفین میاں سب خیریت سے ہو گیا؟ جی قاری صاحب بس اب ٹکٹ کروانا باقی ہے 
ارے میاں عارفین اس کی فکر مت کرو ہم نے پہلے سے ہی کروا رکھی تھیں 8 بجے کی گاڑی ہے آپکی 
بہت شکریہ قاری صاحب (اسکے علاوہ میں اور کیا کہتا) 
ہم 15 منٹ پہلے پہنچے گاڑی ابھی نہیں آئی تھی قاری صاحب بھی ساتھ تھے ٹرک نکل چکا تھا ہم گاڑی کا انتظار کر رہے تھے 8:15 ہو چکے تھے گاڑی ابھی تک نہیں آئی تھی چاچا عبداللہ سب کے لئے چائے لیکر آئے یہ لے پتر چائے (انہوں نے پنجابی انداز میں کہا) ارے چاچا اسکی کیا ضرورت تھی اوئے پتر کوئی بات نہیں یہ لے بھابھی کو بھی دے 9 بج چکے تھے گاڑی ابھی تک نہیں آئی تھی پوچھنے پر پتہ چلا کہ گاڑی خراب ہو گئی تھی 20 منٹ تک آجائے گی 9:30 بجے گاڑی آئی اچھا قاری صاحب اجازت دیں قاری صاحب نے مجھے گلے سے لگا لیا  
چاچا عبداللہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اوے پتر بھول نہ جائیں (انہوں نے اسی پنجابی انداز میں کہا) اور مجھے گلے سے لگا لیا پتر خیال رکھنا اور پہنچ کر کال کرنا
 جی( میری بھی آنکھیں بھر آئیں تھی)
 ہم گاڑی میں بیٹھ گئے کچھ دیر بعد گاڑی چل پڑی چاچا عبداللہ اور قاری صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے الوداع کہا (دل جیسے عجیب سا ہو رہا تھا زندگی کے 23 سال حیدرآباد میں گزرے تھے ہر ہنسی خوشی میں قاری صاحب اور چاچا عبداللہ نے ساتھ دیا تھا رشتےدار اس وقت تک اپنے تھے جب تک بابا تھے بابا کے جانے کے بعد سب نے اپنے رنگ دکھانا شروع کر دیے بس یوں سمجھ لیجیے کہ اپنے خاندان کے ہم آخری فرد ہیں بعد میں قاری صاحب کے ساتھ ایک نیا رشتہ بن گیا اللّٰہ پاک کے فضل و کرم سے پروموشن ہوگیا کراچی میں پوسٹنگ ہو گئی لیکن حیدرآباد سے ہمیشہ کے لئے چلے جانا اس احساس کو میں لفظوں میں نہیں لکھ سکتا (اگر آپ بھی کبھی کسی ایسی جگہ کو چھوڑ کر آئے ہیں تو آپ اس احساس کو سمجھ پائیں گے) نیا سفر شروع ہو گیا تھا تقریباً 4 گھنٹے بعد ہم کراچی پہنچے رات کا 1 ہو رہا تھا لیکن ایسا لگا جیسے ابھی رات کے 8 بج رہے ہوں یہ ال آصف تھا کراچی کا مشہور ترین بس اسٹینڈ ابھی ہم اترے ہی تھے کہ ایک بزرگ آدمی آئے کہاں جاؤ گے بیٹا (میں نے پتا بتایا ) بیٹا ایک ہی بات کروں گا آپ سے 300 روپیے لگیں گے 
ہم ٹیکسی میں بیٹھ گئے 
نئے لگ رہے ہو بیٹا کہاں سے آئے ہو؟
 جی حیدرآباد سے (میں نے جواب دیا) 
کسی کام کے سلسلے میں آئے ہو؟ جی انکل نوکری کے سلسلے میں آیا ہوں۔۔۔۔۔بعد میں مکمل خاموشی رہی بتائے گئے پتے پر ٹیکسی رکی رقم ادا کی گھر شہر سے تھوڑا سا دور تھا یعنی بس اسٹینڈ سے 10 منٹ کے فاصلے پر تھا دروازے پر پرانا سا تالا لگا ہوا تھا کافی زیادہ پرانا ہونے کی وجہ سے مشکل سے کھلا گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے کچھ عجیب سا احساس ہوا یہ اس وقت سمجھ پانا ذرا مشکل تھا
 دو کمرے اور ایک کچن باتھروم پر مشتمل ایک بڑا سا گھر تھا میں نے بیگ کمرے میں رکھی امی نے بولا عارفین گھر تو اچھا ہے نجانے کب سے بند ہے جگہ جگہ مکڑیوں کے جالے لگے ہوئے ہیں ہم ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ
 کچھ ہی دیر بعد ٹرک بھی پہنچ گیا سامان اندر لایا گیا فلحال کے لئے سارا سامان صحن میں رکھ دیا رات جیسے تیسے گزری کل اتوار تھا اور پیر والے دن دفتر جانا تھا 
دوسرے دن صبح کو دو سویپر لیکر آگیا گھر کی اچھی طرح سفائی کروائی گھر جیسے چمک اٹھا پرانی طرز کا یہ گھر کافی خوبصورت لگ رہا تھا گھر کے میں تمام چھوٹے چھوٹے کام کروانے کے بعد ایک ہیلپر کو بلا کر تمام بڑی چیزیں سیٹ کیں شام تک گھر گھر جیسا لگ رہا تھا پورے دن کی تھکان دور کرنے کے لیے نہانے چلا گیا کمرے میں آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا کب آنکھ لگ گئی پتا ہی نہیں چلا صبح 7 بجے آنکھ کھلی ناشتہ کیا اور دفتر کے لئے نکل گیا بس اسٹینڈ پر پہنچا گاڑی کا انتظار کرنے لگا 
اف میرے اللّٰہ میں نے جلدی سے منہ دوسری طرف کر لیا یہ یاسر تھا بہت تیز یاداشت تھی اسکی ایک لمحے میں پہچان لیا ارے آپ تو وہی ہیں نا آپ انٹرویو دینے آئے تھے وہ بزرگ آدمی نے واقعئ بہت زیادہ بور کر دیا تھا یاسر نے سلام کے لئے ھاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کیسے ہو؟ اب تک تو ٹھیک ہی تھا(میں نے بیزاری سے کہا) لیکن وہ درگزر کرنے والوں میں سے تھا بات کو بہت ہی اچھے طریقے سے بدلتے ہوئے بولا کراچی میں کیسے آنا ہوا؟
 دفتر کے سلسلے میں آیا ہوں۔۔۔
(مجھے اسکا طریقہ پسند آیا یہ پہلا شخص تھا جس کی باتیں عجیب پر اچھی لگیں تھی ورنہ میں سلام دعا سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا)
اچھا کہاں ہوئی ہے پوسٹنگ؟ 
تم بتاؤ کام ملا تم کو ؟(میں نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا
یہیں (x۔y۔z) دفتر میں۔۔
میں نے سر پکڑ لیا (میری بھی پوسٹنگ وہیں ہوئی تھی)
لگتا ہے اب تم کو جھیلنا پڑے گا
 کیا؟؟؟ تمہاری بھی پوسٹنگ وہیں ہوئی ہے؟(یاسر نے خوش ہوکر پوچھا)
ہاں !!!
گاڑی آچکی تھی دفتر پہنچ کر یاسر نے بقایا کام سنبھال لیے
 باس سے بات ہوئی آئیے عارفین کیسا لگا کراچی آکر؟
(باس کا چہرہ نورانی تھا انکی شخصیت مجھے متاثر کر گئی) سر بہت اچھا لگا 
آؤ عارفین آپکو تمام اسٹاف سے متعارف کروایا جائے
یہ مس شاہد ہیں یہ ہمارے سینئر آفیسر مسٹر ساجد ہیں۔۔۔۔۔۔
سب سے ملاقات کروانے کے بعد انہوں نے بولا انکو تو جانتے ہی ہونگے یہ مسٹر یاسر ہیں
 جی سر (میں نے یاسر کی طرف غصے سے دیکھا) جسے یاسر نے ہنس کر ٹال دیا 
یاسر عارفین کو انکا کیبن دکھائیں (جی سر یاسر نے چپکے سے ہنستے ہوۓ میری طرف دیکھا) 
کیبن میں آکر کرسی پر بیٹھ گیا کچھ ہی دیر بعد یاسر کچھ فائلیں لےکر آگیا یہ لیں سر اسکے چہرے پر مسکراہٹ تھی (جس پر مجھے غصہ نہیں آیا)
 اس نے بہت ہی احترام سے بولا سر کوئی اور کام ہو تو ٹیلیفون پر 9 ملا کر کال کر لیجیے گا 
وہ فائلیں دے کر چلا گیا دفتر کا ٹائم ختم ہوا ایک فائل پر باس کے دستخط چاہیے تھے تو میں خود اٹھ کر جانے لگا تو یاسر وہیں باہر ہی بیٹھا تھا اس نے فائل میرے ھاتھ سے لے لی سر مجھے دیں میں دستخط کروا کر آتا ہوں
 ارے نہیں بس یہ آخری فائل ہے میں خود کرلوں گا
  سر آپ سے پہلے ایک بہت ہی سخت آفیسر تھا وہ تو ہر دس منٹ بعد کام بولتا تھا اسکی وجہ سے میرے اپنے کام رہ جاتے تھے(اس نے اپنی بات مختصراً بتائی) 
میں باس کے کیبن میں آگیا میرے پیچھے یاسر بھی آگیا سر میں نے ان سے کہا تھا لیکن یہ خود آگئے 
کوئی بات نہیں یاسر(باس نے یاسر کو تسلی دی)
دستخط کروا کر میں اپنی کیبن میں آیا کام مکمل کرکے دفتر سے باہر آگیا (مجھے یاسر کے بدلے ہوئے انداز نے اس بات کا جواب دیا کہ کام کے وقت صرف کام پر دیہان دینا چاہیے) 
باہر آیا تو یاسر میرا منتظر تھا آئیے عارفین سر چائے پیو گے ؟( میں نے کہا)
جی سر لیکن چائے میری طرف سے ہوگی!
(پتا نہیں کیوں یاسر کی باتیں اچھی لگیں تھی ورنہ میں نے کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا تھا)
چائے پینے کے بعد ہم بس اسٹینڈ پر آگئے یاسر کا گھر میرے گھر سے 2 گلیاں چھوڑ کر تھا 
کچھ ہی دنوں میں ہم دونوں بے تکلف ہو گئے 
(یاسر نے مجھے دوستی کا اصل مطلب سمجھایا دفتر کے بعد یاسر کے ساتھ وقت گزارنے لگا ساتھ نماز پڑھتے تھے)
وقت گزرتا گیا پھر ایک دن وہ ہوا جسکا میں نے سوچا بھی نہیں تھا آج دفتر میں کافی زیادہ کام تھا تقریباً 7بج چکے تھے یاسر کو کسی کام سے جانا پڑ گیا تھا ورنہ ہم دونوں ساتھ ہی گھر آتے تھے بس اسٹینڈ پر آیا لیکن بس آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی عجیب اتفاق تھا ورنہ ہر دس منٹ بعد بس آتی تھی امی کو فون کرکے بتا دیا تھا تاکہ وہ پریشان نہ ہوں بس اخر کار نہین آئی پیدل چلنا پڑا میری عادت تھی میں ہمیشہ (آیت ال کرسی) پڑھ لیا کرتا تھا میں ذکر کرتا ہوا جا رہا تھا راستے میں ایک سنسان گلی آتی تھی رات کے پہر اندھیرا مزید خوفناک منظر پیش کرتا تھا (یاسر نے کافی بار اس بات کا ذکر کیا تھا کہ اس گلی میں کچھ عجیب ہے لیکن میں ہر بار اسکی بات کو مذاق میں ٹال دیتا تھا) 
گلی میں گھپ اندھیرا تھا موبائل کی ٹارچ کے سہارے راستہ دیکھ کر آگے بڑھ رہا تھا عجیب سی پراسرار خاموشی تھی اپنے قدموں کی آواز بھی واضع سنائی دے رہی تھی تھوڑا آگے چلنے کے بعد پیچھے سے کسی کے مدھم قدموں کی آہٹ سنائی دی (جیسے کوئی چپکے سے میرا پیچھا کر رہا ہو) میں نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا اپنا وہم سمجھ کر آگے بڑھا پھر پیچھے سے ویسی ہی آہٹ سنائی دی قدموں کی آواز دور سے آ رہی تھی
 (جیسے کوئی پاس آنا چاہتا ہو لیکن کسی وجہ سے پاس نہ آسکتا ہو) پھر اچانک ہی بجلی کی تیزی سے کوئی وجود میرے پاس سے گزر گیا اب مجھے یہ سب وہم نہیں لگ رہا تھا جسم میں ایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی یہ ایک سیاہ رنگ کا سایہ تھا جسے میں صرف ایک سیکنڈ ہی دیکھ سکا پھر اچانک ہی پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا (میں بری طرح چونکا) ارے ارے عارفین میں ہوں یاسر کیا ہوا اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہو؟ 
نن۔۔نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے (میں نے پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بمشکل بولا) عارفین کوئی تو بات ہے تم بہت ڈرے ہوئے ہو چلو میرے ساتھ بیٹھ کر بات کرتے ہیں ہم پاس ہی ایک چائے والے ہوٹل پر بیٹھ گئے 
بتاؤ کیا ہوا ہے؟
میں نے ساری بات بتائی یاسر سر پکر کر بیٹھ گیا تم پاگل ہو کیا عارفین (اس نے پریشانی سے کہا) مجھے فون کر دیتے میں آجاتا! 
دیکھو عارفین یہ کوئی مذاق نہیں ہے وہاں ایک بدروحوں کا پورا خاندان آباد ہے تم بیشک مجھے اپنا دوست نہ سمجھو لیکن میں نے تم کو بھائی کہا ہے تو اللّٰہ کے واسطے ایسا دوبارہ مت کرنا بلکہ آئندہ تم کو جتنے بھی کام ہوں میں اس وقت تک تمہارا انتظار کروں گا ساتھ ہی چلا کرینگے سمجھے! (اس نے ڈانٹ کر کہا)
چائے پینے کے بعد گھر تک چھوڑ کر گیا
 آنٹی سے بات مت کرنا اس بارے میں! 
بچہ سمجھا ہوا ہے کیا یاسر؟
گھر آیا امی کو سلام کیا کیا ہوا ہے عارفین پریشان لگ رہے ہو؟ کچھ نہیں امی بس تھوڑا کام کی تھکان ہے(امی نے میری طرف گہری نظر سے دیکھا) اچھا آؤ کھانا کھاؤ
کھانا کھانے کے بعد کمرے میں چلا گیا ذہن یقین ہی نہیں کر رہا تھا جو کچھ ہوا (میں بیڈ پر لیٹا یہ سوچ رہا تھا)
عارفین ایک نسوانی آواز کمرے کی کھڑکی کی طرف سے آئی میں نے اس طرف دیکھا تو ایک بھیانک منظر میرے سامنے تھا جلا ہوا چہرہ آنکھوں میں انگارے سلگ رہے تھے دل دہلا دینے والا منظر تھا میرے ہوش جواب دینے لگے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی آیت آل کرسی بلند آواز سے پڑھنے لگا دل دہلا دینے والی چیخ کے ساتھ وہ وجود ایک شیطانی ہنسی کے ساتھ غائب ہو گیا دل بری طرح دھڑک رہا تھا گلا خشک ہو رہا تھا پتا نہیں کتنے گلاس پانی پی گیا عجیب سی گھٹن ہو رہی تھی پوری رات نیند نہیں آئی پوری رات نیند نہ آنے کی وجہ سے سر میں درد تھا صرف چائے پی کر دفتر آگیا لیکن پورا دن کام نہیں کر پایا بار بار وہی منظر آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا دفتر کے کینٹن میں یاسر سے رات کا سارا واقعہ بیان کیا 
یار بات تو پریشان کن ہے اس کے بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے فکر نہیں کرو اللّٰہ پاک سب بہتر کر دینگے انشاءاللّٰہ 
3 دن گزر گئے اس بیچ کوئی واقعہ پیش نہیں آیا 
پھر ایک دن دفتر سے واپس آیا رات کے تقریباً 9 بج رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی دروازہ کھولا تو یاسر تھا 
عارفین آؤ زرا میرے ماموں کی طبیعت خراب ہے تم بھی ساتھ چلو رات کا وقت ہے ایک سے بھلے دو ہو جائیں گے یہیں پاس میں ہی انکا گھر ہے(مجھے بہت حیرانی ہوئی ایک تو اس کے بات کرنے کا انداز الگ تھا اور یاسر نے کبھی بھی کہیں چلنے کی وجہ نہیں بتائی تھی) لیکن میں نے یہ سوچ کر نظر انداز کیا کہ شاید یاسر پریشان ہے ہم چل پڑے
 چلتے چلتے 20 منٹ ہو گئے تھے یاسر رکشہ کروا لیتے ہیں کیا بولتے ہو؟ لیکن یاسر نے کوئی جواب نہیں دیا ایسے راستوں سے لیکر چل رہا تھا جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے تھوڑا آگے چل کر ایک کھنڈر نما جگہ آئی ایک ویران میدان تھا جہاں دور دور تک کوئی روشنی نہیں تھی میں نے ماحول کا جائزہ لینے کے بعد کہا
 یہ کیسی جگہ لیکر آئے ہو یاسر؟ میری حیرت کی انتہا نہ رہی یاسر وہاں موجود نہیں تھا اس ویران جگہ پر میرے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا ہر جگہ سے نحوست ٹپک رہی تھی اچانک ہی میرے گلے پر کسی کی گرفت مضبوط ہو گئ مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا نادیدہ ہاتھ میرا گلا گھونٹ رہے تھے مجھے اپنی موت صاف نظر آرہی تھی نیم بیہوشی کی حالت میں میں نے ایک بہت تیز روشنی دیکھی اچانک ہی نادیدہ ہاتھوں کی گرفت ختم ہو گئی پھر ایک دلخراش چیخ سنائی دی جس نے ساری خاموشی کا سکوت توڑ دیا بعد میں عجیب سی زبان میں کچھ لفظ سنائی دیے جو میں سمجھ نہیں سکا 
آنکھ کھلی تو ہسپتال کے بیڈ پر تھا یاسر ایک بینچ پر بیٹھا ہوا تھا امی بھی وہیں موجود تھیں جلدی سے میری طرف آئیں میرے پاس بیٹھ گئیں (امی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے)
کچھ دیر بعد یاسر نے بتایا کہ (میں دو دن سے بیہوشی کی حالت میں تھا میری نبض دھیمی چل رہی تھی پورا ایک دن آئی سی یو میں تھا ) 
اخر کیا ہوا تھا عارفین تم ہمیں قبرستان میں ملے تھے 
میں نے ساری بات بتائی امی سے بھی کوئی بات اب پوشیدہ نہیں تھی
مجھے شام تک ڈسچارج کر دیا گیا گھر آکر آرام کیا 
دوسرے دن کافی بہتر محسوس کر رہا تھا ناشتہ کرنے کے بعد کمرے میں آگیا (ذہن بری طرح الجھ سا گیا تھا سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں) حیدرآباد خبر پہنچ چکی تھی 
قاری صاحب نے فون پر خیریت پوچھی ان کو تسلی دی قاری صاحب سے بات کرنے کے بعد آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا کچھ دیر بعد مجھے ایک انجان نمبر سے فون آیا 
ہیلو ! دوسری طرف سے ہلکی سسکیاں سنائی دی 
عارفین میں چاند ابھی کیسی طبعیت ہے یہ سب کیا ہو رہا ہے تمہارے ساتھ ۔۔۔۔ اور پھر وہ رونے لگی
ارے ارے ۔۔۔۔۔ چاند اب سب کچھ ٹھیک ہے میں بلکل ٹھیک ہوں بس میرے لیے دعا کرنا 
میں تو ہر وقت تمہاری خیر و عافیت کی دعا کرتی ہوں 
اپنا خیال رکھنا عارفین میں اپنی دوست کے موبائل سے بات کر رہی ہوں بابا آنے والے ہونگے اب مجھے جانا ہوگا دوسری طرف سے فون بند ہوگیا (دل کو بہت خوشی ملی جو میں بیان نہیں کر سکتا ) 
ایک بار پھر بچپن کی خوبصورت اور شرارت سے بھری وادیوں میں کھو گیا
 شام کو یاسر کی فون پر آنکھ کھلی ہم ہوٹل پر آگئے 
یاسر نے بتایا کہ ایک بزرگ بابا ہیں بہت ہی نیک اور اللّٰہ والے ہیں بولو تو کل اتوار ہے چلیں ان کے پاس؟ 
یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔۔۔ ٹھیک ہے کل صبح 9 بجے چلیں گے پھر ساتھ نماز پڑھی اور میں گھر آگیا
ہم صبح 8:30 بجے ہی نکل گئے گرومندر کے پاس اتر کر یاسر نے بتایا کہ اب یہاں سے ہمیں گنگھر پھاٹک جانا ہے 
 کچھ دیر بعد ایک ویگن نما گاڑی آئی
 آؤ عارفین باقی کا سفر ہمیں اس سے کرنا ہے تقریباً 45 منٹ بعد ہم ایک چھوٹی سی بستی میں آگئے اکا دکا آبادی تھی 50 سے60 لوگوں پر مشتمل یہ بستی کافی خوبصورت تھی تھوڑا سا آگے جا کر ہم ایک مسجد میں آگئے نماز پڑھی اور اس کے بعد ہم بابا صاحب کے آستانے پر آگئے مسجد کے پیچھے ہی ایک کمرہ تھا وہیں ان بزرگ بابا کا آستانہ تھا ہم اندر داخل ہوئے کمرہ ایک بہت ہی پیاری خوشبو سے مہک رہا تھا 
ایک عمر رسیدہ بزرگ بیٹھے تھے نورانی چہرہ تھا آنکھیں بند تھی ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے 
آؤ یاسر بیٹا بزرگ بابا نے کہا (لیکن ان کی آنکھیں بند تھی)
ہم بیٹھ گئے کچھ دیر بعد بابا صاحب نے یاسر سے سوال کیا کیسے آنا ہوا ۔۔۔۔۔ بابا یہ میرا دوست عارفین ہے پھر یاسر نے ساری بات بابا صاحب کو بتائی
تھوڑی دیر بعد بابا صاحب نے بتایا کہ وہ جو بھی ہے وہ اس کو پسند کرتی ہے مگر اس کے قبیلے والے جن اس بات کے سخت خلاف ہیں اور اس رات ان میں سے ایک نے ہی اسے مارنے کی کوشش کی تھی 
بابا صاحب اسکا کوئی حل بتائیں ۔۔۔۔
 آپ لوگ میرے پاس دوسرے اتوار کو آئیں میں حساب کروں گا پھر ہی کوئی حل ممکن ہے 
پاک صاف رہیں اور یہ پانی پئیں (بابا صاحب نے ایک بوتل میں دم کر کے دیا)
 ہم واپس آگئے عصر کی نماز پڑھی گھر آگیا 
دوسرے دن دفتر کے لیے نکلا یاسر حسبِ معمول میرا انتظار کر رہا تھا دفتر پہنچا تو باس نے خیریت پوچھتے ہوئے کہا کیسے ہو عارفین ۔۔۔پہلے سے کافی بہتر سر
4 دن گزر چکے تھے سب کچھ اچھا ہی چل رہا تھا کوئی خاص بات نہیں ہوئی (لیکن چھوٹی چھوٹی حرکات ہوتی رہیں جیسے چیزوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جانا) یہ سب اب عام سی باتیں لگتی تھی  
اتوار کا دن بھی آگیا ہم بابا صاحب کے پاس پہنچ گئے ظہر کی نماز کا وقت تھا مسجد میں داخل ہوئے تو بابا صاحب وہیں موجود تھے نماز پڑھی اور بابا صاحب کے آستانے پر آگئے 
سلام کرنے کے بعد ہم دونوں بیٹھ گئے کچھ دیر بعد
بابا صاحب نے بتایا کہ وہ بدروح ہے اور اس کا تعلق اس گھر سے ہے جہاں تم رہ رہے ہو اور اس گلی میں بدروحوں کا قبیلہ آباد ہے تم جب پہلی بار اس گھر میں داخل ہوئے تو کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا ؟
جی (میں نے جواب دیا) تمہیں وہ گھر چھوڑنا ہوگا 
کچھ دیر بعد بابا صاحب نے ایک تعویذ دیتے ہوئے کہا اس تعویذ کو کبھی بھی مت اتارنا 
ایک مہینے کے بعد پھر آنا ہوگا آپ لوگوں کو اور جتنا جلدی ہو سکے گھر بدل لو 
میں نے 500 کا نوٹ نکال کر بابا صاحب کے پاس رکھا 
اسکی کوئی ضرورت نہیں میرے پاس اللّٰہ پاک کا دیا بہت کچھ ہے ان پیسوں کو اٹھا لو ۔۔۔۔ہم واپس گھر آ گئے
تعویذ پہن کر ایسا لگا جیسے میرے اوپر سے بوجھ اتر گیا ہو خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا 
گھر آگیا امی سے بابا صاحب کا ذکر کیا امی کو تسلی دی ۔۔۔۔
لیکن اب ایک اور مشکل میرے سامنے تھی گھر بدلنا بھی آسان نہیں تھا پھر ایک خیال ذہن میں آیا کہ باس کو ساری بات بتا دوں 
یاسر سے مشورہ کیا یاسر نے ہاں میں ہاں ملائی 
دوسرے ہی دن باس کو ساری بات بتا دی ۔۔۔۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد باس نے کہا عارفین مجھے ایک دن کا وقت دو میں کرتا ہوں کچھ ٹینشن نہیں لو
بہت شکریہ سر میں آپکا احسان مند رہوں گا 
دوسرے ہی دن شام کو باس نے اچھی خبر سنائی عارفین دفتر کے پیچھے ایک سوسائٹی میں ایک گھر دیکھا ہے تمہارے لئے اور اس کا معاوضہ صرف ایک ہزار روپے ہونگے باقی کے معاملات دفتر دیکھ لے گا 
بہت شکریہ سر آپ نے میرے سر سے یہ بوجھ اتار کر کتنی بڑی مہربانی کی ہے 
کیوں شرمندہ کر رہے ہو عارفین 
دفتر سے واپس آیا ایک دفعہ پھر سامان شفٹ کرنا تھا لیکن اس بار میں اکیلا نہیں تھا یاسر کافی مددگار ثابت ہوا 
دوسرے ہی دن شام تک ہم نئے گھر میں شفٹ ہو گئے یہ گھر کافی ماڈرن اور خوبصورت تھا لیکن اس گھر کے مقابلے اسکا آدھا تھا کافی ہوادار تھا نئے گھر میں کافی سکون ملا
پھر ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ (میں اسی ویران کھنڈر میں کھڑا ہوں میں نے ایک آدمی دیکھا جو ایک پاؤں سے لنگڑا تھا اس کا چہرہ کالا سیاہ تھا آنکھیں انگاروں کی طرح سلگ رہی تھی وہ میری طرف بڑھ رہا تھا جتنا فاصلا اسکے اور میرے درمیاں تھا اتنا ہی رہا لیکن وہ میرے پاس نہیں آ سکا تھا تب پیچھے سے ایک آواز آئی ہمت مت ہارنا یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔۔۔
میں پیچھے مڑا تو ایک تیز روشنی دیکھی وہ روشنی اتنی تیز تھی کہ میں زیادہ دیر نہیں دیکھ پایا 
آخر کب تک اسکی حفاظت کریگا علی شاہ! ) 
میری آنکھ کھل گئی۔۔۔۔
جو کچھ بھی ہوا وہ خواب کم حقیقت زیادہ لگ رہا تھا ایک نیا نام سامنے آیا تھا (علی شاہ) 
اس رات کا واقعہ یاد آگیا اس رات کھنڈر میں بھی وہی روشنی تھی جو میں نے خواب میں دیکھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ایک طرف دشمن ہیں اور دوسری طرف بچانے والی نادیدہ آواز۔۔۔۔۔ ذہن پوری طرح الجھا ہوا تھا آدھی رات کا وقت تھا نیند کا کوسوں دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا 
صبح فجر کی نماز پڑھی اور معمول کے مطابق دفتر آگیا یاسر مجھے دیکھ کر ہی سمجھ گیا اس نے مذاق کرتے ہوئے کہا؟ ابھی تو 8بج رہے ہیں عارفین اور تمہاری شکل پر 12بج رہے ہیں بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔۔
 مذاق کرنے کے موڈ میں بلکل بھی نہیں ہوں جلدی سے میرے کیبن میں آؤ! اور ایک کڑک چائے لیکر آنا یاسر جلدی سے چائے لیکر آگیا کیا ہوا ہے عارفین؟ 
میں نے ساری بات بتائی۔۔۔۔ 
بولا تھا کہ مجھے بلا لیتے اس رات لیکن نہیں میری سنتے ہی کب ہو اب بھگتو!!! (یاسر نے بگڑتے ہوئے کہا)
یاسر جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہو چکا اب یہ بتاؤ کہ بابا صاحب سے ملنے چلیں؟ لیکن بابا صاحب نے ایک مہینے کا بولا ہے اور ابھی 10 دن پڑے ہیں۔۔۔۔ یاسر نے کہا
تو اب کیا کریں؟میری تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔
سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا گھبراؤ نہیں آج کام کافی زیادہ تھا یاسر اپنے تمام کام ختم کرکے میرے پاس بیٹھ گیا تھا ہم تقریباً 8:30 بجے میں فارغ ہوئے دفتر سے گھر کا راستہ پیدل چلنے کا تھا یاسر مجھے گھر چھوڑ کر پھر اپنے گھر جاتا تھا ہم باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے راستے میں ہم نے ایک لڑکی کو دیکھا۔۔۔۔ یاسر نے کہا یار تم کو نہیں لگ رہا کہ وہ لڑکی کچھ کھوئی کھوئی ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی سے چھپ رہی ہو (لیکن میرے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا تھا) سانپ کا کاٹا رسی سے بھی ڈرتا ہے
 کہاں کھو گئے عارفین ہر جگہ جن بھوت نہیں ہوتے آؤ شاید اسے ہماری مدد کی ضرورت ہو 
ہم اس لڑکی کے پاس پہنچے ہمیں دیکھ کر جیسے لڑکی کی جان میں جان آئی 
یاسر نے کس قدر احترام سے پوچھا آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں ہم کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ 
وہ بری طرح چونک گئی جی؟ کیا ہم آپکی کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ یاسر نے سوال دوہراتے ہوئے کہا
دراسل میں راستہ بھول گئی ہوں یہ کونسی جگہ ہے؟ جی یہ xyz ایریا ہے آپ کو کہاں جانا ہے؟ (یاسر ہی ساری بات کر رہا تھا میں اب بھی یہی سوچ رہا تھا کہ کہیں معاملہ دوسرا تو نہیں ہے کیونکہ وہ لڑکی کچھ عجیب سا برتاؤ کر رہی تھی)
باس لڑکی بلکل سامنے ہے! تو پکڑ لو کس کا انتظار کر رہے ہو؟۔۔۔ فون پر اس شخص نے سخت آواز میں کہا
باس وہ اکیلی نہیں ہے وہاں دو لوگ اور ہیں کیا کرنا ہے باس؟ 
کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں وہاں سے نکلو!!!
جی باس اور فون کٹ ہو گیا۔۔۔۔
ہم اس سب سے بے خبر تھے کہ کوئی ہم پر نظر رکھے ہوئے تھا
چلیے آپکو جہاں جانا ہے آپکو وہاں چھوڑ کر آتے ہیں 
یاسر کیا کر رہے ہو؟ (میں یاسر کو ایک طرف لیکر گیا)
ابھی ہم ایک مصیبت سے نکلے نہیں ہیں اور تم ایک اور خطرہ مول لے رہے ہو!!!
عارفین دیکھو اس کی طرف اسے مدد کی ضرورت ہے تم زیادہ سوچ رہے ہو! ٹھیک ہے جیسا تم کو سہی لگے میں نے غصے میں کہا
ہم نے رکشہ کروایا جو پتہ اس لڑکی نے بتایا تھا یاسر نے رکشہ والے کو سمجھادیا رکشہ چلا گیا ہم گھر کی طرف چل دیئے یاسر کوئی مصیبت نہ کھڑی ہو جائے اللّٰہ جانے کون تھی عارفین دیکھو وہ مجبور تھی ہم نے مدد اب گھر پہنچ جائے گی بس! ہم ایسے ہی باتیں کرتے جا رہے تھے۔۔۔۔
کچھ دن بہت سکون سے گزر گئے سب کچھ ٹھیک رہا اس دن بھی ہم دفتر سے واپس گھر جا رہے تھے یاسر مجھے سوسائٹی تک چھوڑ کر گیا میں گھر کی طرف جا رہا تھا مجھے ایسا لگا جیسے کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے میں جیسے ہی پیچھے مڑا تو میری ناک سے ایک ناگوار بدبو ٹکرائی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا 
ہوش آیا تو خود کو ایک اندھیری جگہ میں پایا عجیب سی بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی جگہ جگہ مکڑی کے جالے لگے ہوئے تھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ سالوں سے یہ جگہ ویران پڑی ہو میرے ہاتھ رسیوں میں پیچھے کی طرف جکڑے ہوئے تھے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن کوئی فائدہ نہ 
ہوا تھوڑی دیر بعد کچھ آوازیں سنائی دی
جاری ہے