ناول: محبت اور وہ
از: جواد احمد سومرو
مکمل ناول (افسانہ)
قسط نمبر 2
آخری قسط

وہ لڑکی ملی؟ (بھاری اور سخت آواز سنائی دی اس نے گندی گالی دے کر کسی سے پوچھا) نہیں باس اس آواز میں لرزش تھی
ان دونوں کا کیا ہوا ہوش آیا انکو؟ جاؤ دیکھو!
دونوں؟ میں سمجھ گیا تھا کہ یاسر بھی یہیں ہے لیکن کہاں؟ اچانک ہی کمرے میں بہت تیز روشنی پھیل گئی روشنی بہت تیز تھی کچھ دیر بعد جب آنکھ کھلی تو کمرے کے دوسرے کونے میں یاسر بیہوش پڑا تھا پھر قدموں کی آواز سنائی دی مکمل خاموشی میں قدموں کی آواز گونج رہی تھی اچانک دروازہ کھلا ایک بھیانک شکل والا آدمی اندر داخل ہوا بنا کچھ بولے مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کی برسات کر ڈالی بتا کہاں ہے لڑکی؟ 
کونسی لڑکی؟(میں صرف اتنا ہی کہہ پایا) میرے منہ پر ایک مکہ رسید کیا کونسی لڑکی! اب نادان بن رہا ہے سیدھی طرح بک ورنہ یہیں پر ہی تیری قبر کھود دونگا سالے اور ساتھ ہی ایک اور گھونسا مارا 
مجھے سچ میں نہیں معلوم تم کس لڑکی کی بات کر رہے ہو 
سالے تو ایسے نہیں مانے گا اس نے بندوق نکالی اور میری کھوپڑی پر تان دی
 باس باس!!! ہم دیکھ لینگے خود پر قابو رکھیں اگر یہ مر گیا تو لڑکی بھی ہاتھ سے نکل جائے گی میں دیکھتا ہوں یہ کیسے اپنا منہ نہیں کھولتا 
وہ آدمی باہر چلا گیا میرا ہونٹ پھٹ گیا تھا خون بہہ رہا تھا یاسر کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا ان میں سے ایک نے یاسر کے منہ پر پانی گرایا یاسر ہڑبڑا اٹھا 
آس پاس کے ماحول کا جائزہ لینے لگا مجھے دیکھ کر بولا عارفین یہ کونسی جگہ ہے ہم کہاں ہیں اور یہ لوگ کون ہیں اور یہ تمہارا اتنا برا حشر کس نے کیا ہے (اس نے گھبراہٹ میں نجانے کتنے سوال پوچھ لئے) میرے سے بولا نہیں جا رہا تھا میں خاموش رہا 
وہ لڑکی کہاں ہے اس بار یاسر سے سوال پوچھا گیا
مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہے ۔۔۔ کیا بات ہوئی تھی تم دونوں کے بیچ؟ اس نے یاسر کو گھونسا مارا وہ رکشے میں کہاں گئی تھی؟اس نے xyz ایریا کا بتایا تھا بس اسکے الاوہ میں کچھ نہیں جانتا 
(میرے ذہن میں اس رات کا سارا واقعہ آگیا)
 لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ یاسر نے جگہ کا نام غلط کیوں بتایا شاید وہ اس لڑکی کو بچانا چاھتا ہو
وہ آدمی باہر چلا گیا 
یاسر میں نے پہلے ہی بولا تھا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے لیکن تم نہیں مانے!
 چپ کرو عارفین (کچھ دیر رکو سب پتا چل جائے گا) تقریباً آدھے گھنٹے بعد پولیس کے سائرن کی آواز سنائی دی پوری جگہ میں بھگدڑ مچ گئی انہی لوگوں میں سے ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا ہمارے ہاتھ کھولے جاؤ یہاں سے جلدی! 
چلو عارفین!!! ۔۔۔۔۔ یاسر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ 
سب کچھ بتاؤں گا پہلے یہاں سے نکلو عارفین!!!
باہر پولیس مقابلہ ہو رہا تھا اندھا دھن گولیاں چل رہیں تھی ہم کسی بھی گولی کا نشانہ بن سکتے تھے وہی ہؤا بھاگتے بھاگتے ہم اس جگہ سے نکلے ہی تھے کہ مجھے اچانک جھٹکا لگا گولی میرے سینے کو چیرتی ہوئی نکلی میں وہیں رک گیا 
عارفین!!! یاسر پیچھے مڑا بھاگتا ہوا آیا مجھے سہارا دیا میری آنکھیں بند ہو رہیں تھی ایمبولینس کی آواز سنائی دے رہی تھی 
ہوش آیا تو یاسر میرے سرہانے بیٹھا ہوا تھا قاری صاحب چاند اور انکی اہلیہ بھی موجود تھے امی نماز پڑھ کر دعا مانگ رہی تھیں وارڈ کا دروازہ کھلا چاچا عبداللہ اندر داخل ہوئے ان کے ہاتھ میں چائے تھی (عارفین پتر نوں ہوش آیا؟) جی جی اللّٰہ پاک کے کرم سے آگیا ہے(قاری صاحب نے خوش ہوکر بتایا) 
یاسر نے بتایا کہ گولی دل کے بلکل برابر سے گزری ہے اللّٰہ پاک کا کرم ہوگیا عارفین ورنہ ہم تمہیں کھو دیتے 
چاند کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے وہ مجھے بہت پیار سے دیکھ رہی تھی 3 دن بیڈ ریسٹ کے بعد مجھے ڈسچارج کر دیا گیا چاچا عبداللہ واپس حیدرآباد چلے گئے قاری صاحب کی فیملی رک گئی گھر آکر بھی مزید 2 دن آرام کرنا تھا باس بھی طبیعت پوچھنے آئے تھے کچھ دیر ان کے ساتھ باتیں ہوئیں بعد میں وہ بھی چلے گئے
یاسر نے ساری بات بتائی کہ(وہ تم سے پہلے مجھے اس جگہ لیکر گئے تھے راستے میں اس آدمی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ایک undercover پولیس افسر ہے اس لڑکی کی بھی اسی ہی نے فرار ہونے میں مدد کی تھی اور مجھے راستے میں ہی سمجھا دیا تھا تم وہی پتا بتاؤ گے جو میں تم کو بتاؤں گا پولیس پہلے سے ہی وہاں موجود ہوگی اگر سب کچھ پلان کے مطابق ہوا تو ہم اس گروپ کے ماسٹر مائنڈ تک پہنچ جائنگے) بعد کی بات تو تم کو معلوم ہے اور ان میں سے پولیس مقابلے میں 3 مارے گئے اور دو کی حالت تشویشناک ہے اور انکا باس بھاگنے میں کامیاب ہو گیا ۔۔۔۔۔تو یعنی کہ ابھی خطرہ نہیں ٹلا؟ 
نہیں !!! پولیس اسکی تلاش میں ہے۔۔۔۔
وہ تو صرف ایک پیادہ ہے حکم ماننے والا اب نجانے ایسا کونسا راز ہے جو وہ لڑکی جانتی ہے 
ہو سکتا ہے اسکے سارے غیر قانونی کاموں کا ثبوت ہو
اس لڑکی کا پتا چلا کون تھی؟؟؟ ہاں وہ ایک رپورٹر ہے لیکن اس وقت کہاں ہے کوئی نہیں جانتا لگتا ہے یار کراچی مجھے راس نہیں آیا۔۔۔۔ بس عارفین جو نصیب ہوتا ہے اسے کون ٹال سکتا ہے؟؟؟۔ یہ بات تو ہے کچھ دیر بعد یاسر بھی چلا گیا
زندگی بھی عجیب کھیل کھیل رہی تھی ایک طرف وہ بدروح اور دوسری طرف یہ سب کچھ (میں خیالوں میں گم ہو گیا تھا)
 تبھی اچانک ایک آواز سنائی دی وقت بہت امتحان لیگا اس کے لئے تم کو تیار رہنا ہوگا عارفین کبھی بھی خود کو کمزور مت سمجھنا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا بس انتظار کرو ۔۔۔۔۔۔
مجھے جیسے ہوش آگیا یہ وہی آواز تھی جو میں نے خواب میں سنی تھی لیکن میں اس بات کا اندازہ نہیں لگا پایا کہ میں نے خواب دیکھا یا ہوش میں یہ سب سنائی دیا 
عارفین؟ باہر سے آواز آئی تھوڑی دیر بعد چاند کمرے میں داخل ہوئی اسکے ہاتھ میں دوائیاں تھی گلابی رنگ کے لباس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی میں نے آج اسے غور سے دیکھا تھا
اب کیسی طبعیت ہے؟ پہلے سے کافی بہتر ہوں
کیا ہوا تھا عارفین؟ 
میں نے ساری بات تفصیل سے بتائی پھر کچھ دیر بعد وہ چلی گئی رات کے کھانے پر ملاقات ہوئی کھانا کھانے کے بعد دنیا جہان کی باتیں ہوئیں کچھ دیر کے لئے ایسا لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔۔۔میں اور چاند بار بار نظریں چرا کر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے تقریباً رات کے 11 بجے تک باتیں کرتے رہے ہم سب سونے چلے گئے
پھر رات کے تقریباً آیک بجے میری آنکھ چاند کے آواز دینے پر کھلی عارفین اس نے آہستہ سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی قاری صاحب برابر والی چارپائی پر سو رہے تھے میں دبے پاؤں کمرے سے باہر آگیا چاند صحن میں بیٹھی تھی اسکی پیٹھ میری طرف تھی
چاند؟ قسمت تیرا بہت ساتھ دے رہی ہے آج کل! لیکن کب تک؟اور ساتھ ہی ایک بھیانک ہنسی سنائی دی (اچانک ہی چاند نے گردن گھمائی) اف میرے اللّٰہ یہ چاند نہیں تھی
 وہی جلا ہوا چہرہ آنکھوں میں انگارے سلگ رہے تھے اندھیرا مزید خوفناک منظر پیش کر رہا تھا میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے زور زور سے آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دی قاری صاحب بھاگتے ہوئے آئے کیا ہوا عارفین میاں وہ۔۔۔وہ۔۔چاند۔۔۔ میں نے بوکھلا کر کہا
امی جاگ گئیں چاند اور آنٹی بھی باہر آگئے قاری صاحب نے چاند کو پانی لانے کا کہا چاند جلدی سے پانی لیکر آگئی پہلے پانی پیو عارفین اب بتائیں کیا بات ہوئی ہے 
میں نے ساری بات قاری صاحب کو بتائی۔۔۔۔ عارفین میاں یہ معاملہ تو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اس کے بارے میں کچھ سوچا ہے آپ نے ؟ جی قاری صاحب ایک بابا صاحب ہیں ان کے پاس میرے بہت ہی عزیز دوست کے ساتھ گیا تھا اور کافی بہتر بھی محسوس ہوا تھا انہوں نے ایک تعویذ۔۔۔۔۔ (میری زبان اٹک گئی تعویذ گلے میں نہیں تھا پتا نہیں کب وہ تعویذ میرے گلے سے اتر گیا تھا!) کیا ہوا عارفین میاں؟ 
قاری صاحب کو ساری بات تفصیل سے بتائی یہ تو اچھی بات ہے ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ان بزرگ کے پاس چلیں گے ۔۔۔ ضرور قاری صاحب کیوں نہیں 
آئیے عارفین میاں کمرے چلئیے آرام کیجئے...
صبح سویرے ہی ہم چل پڑے دوپہر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا نماز ادا کرکے ہم بابا صاحب کے آستانے پر آگئے لیکن گیٹ باہر سے بند تھا  
ایسا کبھی ہوا تو نہیں ہے کہ بابا صاحب کے آستانے پر تالا ہو آستانہ ہمیشہ مسافروں کے لئے کھلا رہتا ہے کوئی تو وجہ ضرور ہے!۔۔۔۔یاسر نے کہا ابھی ہم آپس میں باتیں ہی کر رہے تھے کہ مسجد سے ایک آدمی باہر آیا پوچھنے پر اس آدمی نے بتایا کہ بابا صاحب تو 5 دن پہلے وفات پا گئے 
کیا! لیکن کیسے؟ میں نے پوچھا۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ بابا صاحب کو کیا ہوا موت کافی پراسرار تھی فجر کی نماز کے وقت بابا صاحب نہیں آئے تو ہم آستانے میں گئے تو بابا صاحب جا چکے تھے۔۔۔۔ میں چپ چاپ سن رہا تھا یہ ان کے بیٹے ہیں ہو سکتا ہے آپکی کچھ مدد ہو جائے اس آدمی نے مسجد کے دروازے پر اشارہ کیا عبد الرحمٰن صاحب کچھ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں اچھا مجھے اجازت دیں۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ آدمی وہاں سے چلا گیا 
یاسر اب کیا ہوگا بابا صاحب ہی ہماری آخری امید تھے اب تو وہ بھی نہیں رہے عارفین نا امیدی کیوں دکھا رہے ہو اللّٰہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا انشاءاللّٰہ 
عبد الرحمٰن صاحب نورانی شخصیت کے مالک درمیانی عمر کے خوش اخلاق آدمی تھے جن کے بات کرنے کے انداز سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ صاحبِ حیثیت انسان ہیں آئیے بیٹھ کر بات کرتے ہیں انہوں نے سلام کرنے کے بعد آگے بڑھتے ہوئے کہا کچھ دیر بعد ہم نے پرانی طرز کا خوبصورت گھر دیکھا رحمٰن صاحب نے بیٹھک کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا آئیے ہم بیٹھ گئے کچھ دیر بعد وہ چائے لیکر آئے قاری صاحب نے بات شروع کی بابا صاحب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ تقریباً ایک مہینے سے انہیں ایک جن بہت تنگ کر رہا تھا ابو کے مطابق ہر بار کی طرح سب کچھ ٹھیک تھا ایسے واقعات تو ہوتے رہتے تھے ابو نے ہمیں مغرب اور عشاء کی نماز کے وقت کسی کو بھی آنے سے منع کرنے کا بولا تھا اس رات بھی ابو عشاء کی نماز کے بعد آستانے پر رک گئے اور صبح جب فجر کی نماز پر نہیں آئے تو آستانے پر جا کر پتا چلا کہ ابو دنیا سے جا چکے تھے۔۔۔۔
 آپ میں سے عارفین احمد کون ہیں؟ انہوں نے جیسے کوئی بات یاد کرتے ہوئے کہا 
جی میں عارفین ہو۔۔۔۔ میں نے جواب دیا ابو نے آپکو کچھ دینے کے لئے کہا تھا ایک منٹ! وہ ایک صندوق نما خانے میں کچھ ڈھونڈنے لگے پھر انہوں نے ایک جھولا نکالا جس میں ایک تعویذ اور ایک کاغذ تھا انہوں نے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ ابو آپ کے لئے چھوڑ کر گئے ہیں میں نے وہ کاغذ کھولا جس پر لکھا تھا (عارفین اب یہ معاملہ میرے ہاتھوں سے نکل چکا ہے وہ مخلوق طاقت اور تعداد میں بہت ہیں جن کا مقابلہ کرنا اب میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے مجھے تمہارے ساتھ ہونے والے واقعات کا بخوبی علم ہے اس رات جس سفید روشنی نے تمہاری جان بچائی تھی وہ میرے مرشد علی شاہ تھے اس تعویذ کو اب احتیاط سے رکھنا اور اب مت کھونا تمہیں ان کی مزار پر حاضری دینا ہوگی اب تمہاری تمام مصیبتوں کا حل وہیں ہوگا اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کا نام لیکر جتنا جلدی ہو سکے روانہ ہو جاؤ ) 
بہت شکریہ رحمٰن صاحب کچھ دیر بعد ہم نے اجازت مانگی اور گھر کے لیے روانہ ہو گئے گھر پہنچ کر امی کو ساری بات مختصراً بتائی قسمت نے ایک دفعہ اور سنبھلنے کا موقع دیا تھا میں نے تیاری کرنی شروع کر دی یاسر نے بھی ساتھ چلنے کی ضد کرلی ہم نے دوسرے ہی دن جانے کا فیصلہ کر لیا اب امی اکیلی تھیں پیچھے قاری صاحب نے میری پریشانی کا اندازہ لگایا اور کہا کہ امی ان کے ساتھ حیدرآباد جائیں گی جب تک ہم نہیں آجاتے ہمیں پنجاب جانا تھا دوپہر 2 بجے کی ٹرین تھی قاری صاحب ہمیں اسٹیشن تک چھوڑنے آئے کچھ دیر بعد ٹرین آگئی ہم ٹرین میں سوار ہو گئے 
قاری صاحب کی فیملی ہمارے جانے کے ایک دن بعد حیدرآباد روانہ ہونی تھی اب ایک نئے سفر کی شروعات ہوگئ ایک انجان شہر انجان لوگ پنجاب کے شہر جھنگ میں آگئے اب یہاں سے ہمیں مزار تک کا راستہ رکشہ سے طے کرنا تھا جو کہ دو گھنٹے کا تھا مزار پر پہنچ کر مسافر خانے میں ہم نے کچھ دیر آرام کیا پھر نہا دھو کر مزار کی طرف چل دیئے دعا مانگنے کے بعد ہم باہر آگئے پھر وہاں کے خدمت گزاروں میں ایک نے کہا یہاں بیٹھ جائیں اس نے ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے کہا ہم اس طرف چل دیئے کچھ دیر بیٹھے رہے پھر عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی رات کو لنگر کھا کر مسافر خانے میں آگئے اب مجھے اشارے کا انتظار تھا وہ رات گزر گئی صبح کو چائے پینے کے بعد ہم مزار پر آگئے تھوڑی دیر بعد ایک ضعیف فقیر ہماری طرف آئے کیا نام ہے تیرا لڑکے؟ جی عارفین۔۔۔۔
(اس فقیر کی آواز نے مجھے چونکا دیا آواز میں گرج تھی اس عمر میں ضعیف بزرگ لوگ ٹھیک سے بات بھی نہیں کر سکتے) تو یہاں خود نہیں آیا تجھے یہاں بھیجا گیا ہے تیری سب پریشانیوں کا حل یہاں ہے اللّٰہ پاک کی ذات پر بھروسہ رکھ یہ کہہ کر وہ فقیر چلے گئے
 میں نے پیچھے سے آواز دی تو یاسر نے کہا کسے بلا رہے ہو عارفین؟ ارے وہ بزرگ بابا جو ابھی یہاں آئے تھے وہ دیکھو میری زبان پر تالا لگ گیا۔۔۔۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا وہاں کوئی موجود نہیں تھا ارے عارفین ہم یہاں آدھے گھنٹے سے بیٹھے ہیں مجھے تو کوئی آتا ہوا یا جاتا ہؤا نظر نہیں آیا! میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ شاید میرا وہم ہو۔۔۔۔ مزید دو دن گزر گئے کوئی اشارہ نہیں ملا ایک رات وہی بزرگ فقیر مجھے پھر نظر آئے جب میں پانی پینے گیا تھا میں جلدی سے ان کے پاس پہنچا مزار کی ایک طرف وہ عبادت میں مصروف تھے میں ان کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا تجھے ریحان شاہ نے یہاں بھیجا ہے نا؟ جی ۔۔۔ میں نے جواب دیا 
ہمیں ساری بات بتا! میں نے شروع سے لیکر اب کے پیش آنے والے سارے واقعات بتاۓ 
ٹھیک ہے اب تو جا اور ہمارے بارے میں اپنے ساتھی سے ذکر مت کرنا اور مڑ کر پیچھے مت دیکھنا ورنہ انجام بہت نقصان دہ ہوگا میں واپس مسافر خانے میں آگیا
اس رات پھر ایک دل دہلا دینے والا خواب دیکھا (خود کو ایک قبرستان میں دیکھا چاروں طرف چھوٹی بڑی قبریں تھیں تمام قبروں کی حالت کافی خراب تھی ہر طرف پراسرار خاموشی نے اپنا قبضہ جما رکھا تھا اپنے دل کی دھڑکنیں مجھے واضع طور پر سنائی دے رہی تھیں جگہ جگہ سوکھے ہوئے پتے بکھرے پڑے تھے بہت پرانا قبرستان معلوم ہوتا تھا تھوڑا آگے گیا تو ایک قبر پر نظر پڑی دل کی دھڑکنیں جیسے تھم سی گئیں قبر کی صلیب پر "بُشرا شفقت حسین" لکھا تھا میرے قدم جیسے خود آگے بڑھ رہے تھے ایک اور قبر پر "یاسر حنیف" لکھا تھا کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا 
ہم سے جان چھڑانا چاہتا ہے؟
 تونے کیا سمجھا تو اس علی شاہ کے پاس آئے گا اور یہ تجھے بچا لے گا؟ پیچھے سے آواز آئی
 وہی بھیانک چہرہ میرے سامنے تھا۔۔۔۔
کچھ نہیں کر سکتا وہ سمجھا تو!
 تو نے بہت بڑی غلطی کی ہے بہت بڑی !!!
 چاروں طرف دھواں پھیل گیا ایک شیطانی ہنسی ہر طرف گونج اٹھی
 (میری خوف سے آنکھ کھل گئی)
 یا اللّٰہ رحم کر۔۔۔۔ 
میرے منہ سے بے اختیار نکلا
 یاسر گہری نیند میں تھا میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں ٹائم دیکھا تو رات کے 3 بج رہے تھے مزار سے کسی کے نعت پڑھنے کی آواز آرہی تھی اندر داخل ہوا تو دو لوگ نعت پڑھ رہے تھے کچھ لوگ بھی وہاں موجود تھے وہیں بیٹھ کر نعت سننے لگا فجر کی اذان تک نعت خوانی کا سلسلہ جاری رہا فجر کی نماز کے بعد دعا مانگتے وقت پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا روتا کیوں ہے؟ تیرا کام بہت جلد ہوگا ہم کل سے پڑھائی شروع کر دیں گے (یہ وہی بزرگ بابا تھے) پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔۔۔۔

 کچھ دیر بعد مسافر خانے میں آگیا یاسر گہری نیند میں تھا میں یاسر کے برابر میں لیٹ گیا عجیب سی خاموشی تھی میں لوگوں کی موجودگی میں بھی اکیلا محسوس کر رہا تھا ذہن میں سوچوں کے انبار لگے ہوئے تھے اب جو سب سے بڑا مسئلہ تھا وہ پیسوں کا تھا یاسر بھی کچھ دیر بعد جاگ چکا تھا ہم نے ناشتہ کیا ناشتہ کرتے ہوئے میں نے ساری بات یاسر کو بتا دی ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ پولیس کی کچھ گاڑیاں ہوٹل کے احاطے میں داخل ہوئیں کچھ اہلکار گاڑی سے باہر نکلے ان کے ہاتھ کچھ تصاویر تھیں ہوٹل میں داخل ہوئے کچھ دیر تصاویر پر غور کرنے کے بعد ہماری طرف بڑھے انہوں نے بندوقیں نکالیں (You Are Under arrest) اپنے ہاتھ اوپر کرو عارفین احمد !!! (مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اب کیا مصیبت ہے) 
رشیدہ قتل کیس میں آپ لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے گئے ہمیں پولیس وین میں بٹھایا گیا پورا سفر خاموشی میں گزرا ہم ایک دوسرے کے چہرے تک رہے تھے یقیناً دونوں کے ذہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ اب یہ رشیدہ کون تھی اور اس کے قتل کیس میں ہمارے کیا کردار تھے؟
ہمیں لاہور پولیس اسٹیشن لایا گیا ہمیں ایک ہی جیل میں رکھا گیا تھا تقریباً آدھے گھنٹے بعد ایک حوالدار آیا چلو تم دونوں کو صاحب نے بلایا ہے 
ہم S.H.O کی کیبن میں پہنچے تو دونوں طرف سے ایک ہی آواز آئی آپ؟؟؟ (یہ وہی آفیسر تھا جس نے ہمیں اس پولیس مقابلے کے دوران بھاگنے میں مدد کی تھی) 
ارے بھائی کیسا عجیب اتفاق ہے S.H.O "جواد احمد سومرو" نے مسکرا کر کہا 
مجھے معلوم تھا کہ یہ سب ہوگا کیونکہ وہ جرائم پیشہ افراد ہیں عارفین احمد! 
ان کے لئے کسی کو مارنا یا اغواء کرنا اور قتل کرکے کسی بےگناہ کو پھنسانا ان کے لئے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے 
(وہ رپورٹر لڑکی "رشیدہ سلطان" بہت کچھ جان چکی تھی غائب ہونے سے کچھ دن پہلے ایک دفعہ اسکی مجھ سے ملاقات ہوئی تھی یہ ایک قتل کیس کے بارے میں تھا جس کی ویڈیو ایک ثبوت کے طور پر اس نے ریکارڈ کرلی تھی جس کی وجہ سے یہ پورا تماشا ہوا ہے کراچی کا "Most Wanted Criminal K.D Khan" جس نے پورے کراچی کا جینا حرام کر رکھا ہے اس کو پھانسی کی سزا دلوانے کے لیے کافی تھی آپ لوگ تو بلاوجہ اس جال میں پھنس گئے بات یہاں تک آپہنچی کہ آپ سلاخوں کے پیچھے ہیں) لیکن ہم نے اسکے گھر کی تلاشی لی گھر کا ایک ایک کونا چھان مارا لیکن اسکا موبائل یا کوئی ویڈیو ریکارڈر برآمد نہیں ہوا 
دو دن پہلے اسکی لاش ایک کوڑے دان میں پڑی ہوئی ملی جسکی چھان بین کے بعد آپ لوگوں کی انگلیوں کے نشانات ملے جسکے بعد آپ لوگوں کو تلاش کر لیا گیا گے 
میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ بے قصور ہیں مگر میرے ہاتھ کچھ نہیں ہے سارے ثبوت آپ لوگوں کے خلاف ہیں مجھ سے جتنا ہو سکا میں مدد کروں گا 
 آپ لوگ اپنا بیان ریکارڈ کروا دیں میں اس کیس کی مزید تحقیق کروں گا آپ لوگ فکر نہ کریں (الف سے ی تک ایک ایک بات ہم نے تفصیل سے بتائی) بعد میں ہمیں پھر سے لاک اپ میں بند کر دیا گیا تین دن بعد عدالت میں پیش ہونا تھا وکیل جس نے ہمارا کیس سنبھالنے کی زمیداری اٹھائی تھی وہ بھی "جواد احمد سومرو" کا جاننے والا تھا
 حیدرآباد تک خبر پہنچ گئی تھی دوسری صبح امی قاری صاحب اور چاچا عبداللہ پہنچ چکے تھے 
ان کو بھی تمام تفصیلات بتا دی قاری صاحب نے یہ کہہ کر ہمت بڑھائی کہ"دکھ سکھ مصیبتیں سب زندگی کا حصہ ہیں انکو آنا ہے اور جانا ہے لیکن برا وقت ہمیشہ نہیں رہتا" کچھ دیر بعد حوالدار آگیا ملنے کا ٹائم ختم ہو گیا ہے آپ میرے ساتھ آئیں 
گھبرانا مت عارفین میاں (یہ کہہ کر قاری صاحب چلے گئے)
قسمت عجیب کھیل کھیل رہی تھی ایک طرف پراسرار واقعات اور ایک طرف یہ قتل کیس کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا (شاید کراچی راس نہیں آیا حیدرآباد کی مڈل کلاس زندگی یاد آ رہی تھی کوئی مشکل کوئی پریشانی نہیں تھی 5 وقت نماز دفتر اور گھر کے کام وغیرہ اسی سوچ میں آنکھ لگ گئی)
 "یہ وقت بھی گزر جائے گا عارفین بس ہمت مت ہارنا" اچانک ہی میری آنکھیں کھل گئیں (وہی پراسرا سفید روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی) صبر و تحمل کی ضرورت ہے! تمہاری منزل قریب ہے بہت قریب!(چاروں طرف خاموشی چھا گئی)
 اٹھ کر ماحول کا جائزہ لیا تو ایک حوالدار بینچ پر اونگھ رہا تھا یاسر بھی سویا ہوا تھا چونکہ میرا سامان لے لیا گیا تھا تو ٹائم کا اندازہ نہیں ہوا کچھ دیر بعد اذان ہوئی تو پتہ چلا کہ فجر ہو گئی ہے 
2 دن بعد عدالت میں پیشی تھی اور اب تک ہماری بیگناہی کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا لیکن مجھے اللّٰہ پاک کی ذات پر پورا یقین تھا 
صبح کے 9 بجے S.H.O جواد احمد سومرو نے خوشخبری سنائی کہ ویڈیو ریکارڈر مل گیا ہے رشیدہ نے اپنے ساتھی رپورٹر "عدنان" کے پاس محفوظ کروا لی تھی عدنان نے اپنے بینک کے لاکر میں اسے مزید محفوظ کر دیا تھا اب یہ ویڈیو ریکارڈر برآمد ہو چکا ہے تو K.D Khan کو اب مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا (S.H.O جواد احمد سومرو نے جوش میں مسکرا کر کہا) اریسٹ وارنٹ جاری کر دیا گیا ہے
 کراچی "Special Force's" کے کمانڈوز کو الرٹ جاری کر دیا گیا ہے بہت جلد ہی وہ سلاخوں کے پیچھے ہوگا "یہ کہہ کر جواد احمد چلا گیا ہم نے بھی سکون کا سانس لیا" 
شام کو پولیس اسٹیشن شور سے گونج اٹھا "نہیں چھوڑوں گا کسی کو نہیں چھوڑوں گا اپنی موت کو دعوت دے رہے ہو تم لوگ!!!"
ایک خوفناک شکل والا شخص دھمکیوں پر دھمکیاں دے رہا تھا ایک کمانڈو نے اسے دھکا دے کر کہا چپ کر ورنہ یہیں پر ہی انکاؤنٹر کر دوں گا سالے! 
پورا پولیس اسٹیشن شور سے گونج رہا تھا کچھ دیر بعد ماحول ٹھنڈا ہوا لیکن ابھی خطرہ پوری طرح نہیں ٹلا تھا یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں راستے میں ہی حملا ہو جائے گا 
پیشی کا دن بھی آگیا ہمیں پولیس وین میں بٹھایا گیا آدھے راستے تک ہم دوسری گاڑیوں کے ساتھ چلے لیکن اس کے بعد ہماری گاڑی نے راستہ بدل لیا میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سب دھیان بھٹکانے کے لیے تھا تھوڑا آگے جا کر ایک اور گاڑی ہمارے آگے چلنے لگی یقیناً آگے والی گاڑی میں K.D Khan ہوگا ہم ہائی کورٹ پہنچے تو وکیل "زاہد اقبال" ہمارے انتظار میں کھڑے تھے ارے جواد احمد بہت دیر ہو چکی ہے جلدی کرو ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگائی گئی ہم آگے چل دیے لاہور ہائی کورٹ میں پہنچ گئے کچھ دیر بعد سب آگئے لوگ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے وکیل صاحبان ثبوتوں کے کاغذات دیکھ رہے تھے 
                                                "Order Order" 
ہر طرف خاموشی چھا گئی عدالت شروع ہوئی
سوالات جوابات اختلاف کا سلسلہ شروع ہوگیا گواہوں کے بیانات لئے گئے 
 جج صاحب میرے مؤکل بیگناہ ہیں اور ان کی بیگناہی کا ثبوت اس ویڈیو ریکارڈر میں موجود ہے میری عدالت سے درخواست ہے کہ اس ویڈو کو دکھایا جائے بڑی اسکرین پر ویڈیو چلائی گئی 
"جس میں K.D Khan ایک مظلوم شخص پر مسلسل تشدد کرنے کے بعد اس کو گولیوں سے چھلنی کر دیا اور ویڈیو ختم ہو گئی"
جج صاحب یہ ویڈیو مرحومہ رشیدہ سلطان نے چھپ کر ریکارڈ کرلی تھی جس کے چند دنوں بعد ان کا قتل کرکے انہیں ایک کوڑے دان میں پھینک دیا گیا تھا

کچھ دیر بعد جج صاحب نے کہا تمام گواہوں اور ثبوتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ملزم K.D Khan کو عدالت سزائے موت کا حکم دیتی ہے اور جناب عارفین احمد اور یاسر حنیف کو بیگناہ ثابت کرتے ہوئے با عزت بری کرتی ہے عدالت برخاست!!! 

مبارک ہو عارفین احمد آج تمہاری مدد سے ہم نے کراچی کے بڑے ڈان کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں (S.H.O جواد احمد سومرو نے مجھے گلے لگا کر کہا) اس کے بعد ہمیں واپس مزار پر چھوڑا گیا چاچا عبداللہ اور قاری صاحب بھی ہمارے ساتھ ہی مزار پر آگئے تھے ہم نے مزار پر حاضری دی اس کے بعد مسافر خانے میں آگئے شام کے 5 بج رہے تھے عصر کی نماز ادا کی رات کے کھانے کے بعد ہم مزار پر آگئے نعت خوانی چل رہی تھی ہم سب ایک جگہ پر بیٹھ گئے مجھے پانی کی طلب محسوس ہوئی میں پانی پینے چلا گیا 
واپسی پر پیچھے سے آواز آئی اب مت گھبرانا تیرے سب مسئلے حل ہو جائیں گے مزار کے پیچھے ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہے رات کے 9 بجے وہاں آجا اپنے اس ساتھی٫سسر اور عبداللہ کے ساتھ ہم وہاں سب انتظام کرتے ہیں کیا سمجھا؟ پیچھے مت دیکھنا!!!
 میں واپس آگیا 9 بجے تک ہم وہاں پہنچ گئے مزار کے پیچھے ایک پرانا سا کمرہ بنا ہوا تھا وہ بزرگ بابا آنکھیں بند کئے بیٹھے تھے بیٹھ جاؤ کمرے میں ہر طرف خوشبو پھیلی ہوئی تھی کچھ دیر بعد بابا صاحب نے مجھے بلایا میرے سامنے آکر بیٹھ جا لڑکے اس کے بعد بلند آواز میں آیات پڑھنے لگے مجھے چکر آنے لگے میں وہاں بیٹھے بیٹھے جھوم رہا تھا پھر اچانک ہی میری آواز بدل گئی اب یاسر کے مطابق جو ہوا وہ بہت ہی خوفناک تھا میرے لہجے میں سختی تھی
کون ہے تو اور اسکے پیچھے کیوں پڑی ہے؟ بابا صاحب نے جلالی میں پوچھا۔۔۔
نہیں چھوڑوں گی اسے پیار کرتی ہوں میں اس کے ساتھ اور اسکو اپنی دنیا میں لےکر جاؤں گی (اس آواز میں غصّے کے ساتھ تکلیف بھی تھی) 
میں کہتا ہوں چھوڑ دے اسکو ورنہ یہیں پر ہی ختم کر دوں گا تجھے!!! ساتھ ہی کچھ پڑھ کر مجھ پر پھونکا 
اس کی خوفناک چیخ نکلی ہاہاہاہا تو کچھ نہیں کر سکتا!!! میرے ہاتھ میرے گلے پر گرفت مضبوط کرنے لگے مار دوں گی اسے اگر تو نے کچھ اور کیا تو !!!
کچھ نہیں کر سکتی تو اسے بابا صاحب نے ایک پانی کی بوتل اٹھائی اور کچھ پڑھ کر مجھ پر پانی چھڑک دیا اس نے ایک زوردار چیخ ماری پورا کمرہ اسکی چیچ سے گونج اٹھا 
ہاہاہاہاہا شیطانی ہنسی بلند ہوئی اور ساتھ ہی میں اٹھا اور دیوار میں سر مارنے لگا میرے سر سے خون بہنا شروع ہو گیا قاری صاحب اٹھے مجھے سہارا دینے کے لئے لیکن بابا صاحب نے انکو روک لیا بیوقوفی مت کر اسے کچھ نہیں ہوگا مگر یہ تجھے نقصان پہنچا سکتا ہے پیچھے ہٹ جا 
اس کے بعد بابا صاحب نے غصّے میں بولا آخری بار کہہ رہا ہوں اسے چھوڑ دے اپنے خاندان میں تو اکیلی بچی ہے بھول جا کہ تیرے والی وارث آئینگے ان سب کو ٹھکانے لگا چکا ہوں!!! 
لیکن وہ نہیں رکی خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے بولی نہیں چھوڑوں گی اسے میں یہ صرف میرا ہے اگر یہ میرا نہیں ہوا تو کسی کا بھی نہیں ہوگا!!! اور پھر ایک بار میری گرفت میری گردن پر مظبوط ہوگئی اسکے بعد بابا صاحب نے آخری دفہ کچھ پڑھ کر مجھ پر پھونکا تو ایک دل دہلا دینے والی چیچ گونجی اور ایک سایا میرے جسم سے جدا ہوگیا ساتھ ہی اس وجود میں آگ بھڑک اٹھی چیخ و پکار سے پورا کمرہ گونج اٹھا وہ سایا تڑپ رہا تھا کچھ دیر بعد وہ سایا ٹھنڈا پڑ گیا اور ایک دھواں کمرے سے باہر نکل گیا کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی 
میں نیم بیہوشی میں ماحول کا جائزہ لینے لگا اب یہ آزاد ہے اسے ہسپتال لے جاؤ یاسر نے میرا سر اپنے سرہانے رکھا اسکے بعد مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔۔۔
ہوش آیا تو خود کو ہسپتال میں پایا چاند میرے بیڈ کے برابر میں بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر میری طرف پیار سے دیکھ کر مسکرائی عارفین کو ہوش آگیا چاند نے قاری صاحب کو بتایا 
یاسر باقی کے معاملات قاری صاحب کے ساتھ دیکھ رہا تھا امی میرے برابر میں بیٹھی تھیں
کیسے ہیں عارفین میاں کیسا لگ رہا ہے؟؟؟
میں نے اشارے میں سر ہلایا اور مسکرا دیا کچھ دنوں بعد مجھے ڈسچارج کر دیا گیا ہم کراچی واپس آگئے تھے تقریباً ایک ہفتے بعد میں مکمل ٹھیک ہوگیا قاری صاحب نے مجھے بلایا اور کہا آئیے عارفین میاں اب آپ ماشااللہ بلکل ٹھیک ہو گئے ہیں اب میری مانیے تو اپنا ٹرانسفر کروا لیں اور حیدرآباد شفٹ ہو جائیں(قاری صاحب نے جیسے میرے دل کی بات چھین لی) 
کچھ دنوں بعد قاری صاحب کی فیملی واپس حیدرآباد جا چکی تھی۔۔۔
زندگی پھر سے معمول پر آگئی تھی 4 مہینے گزر گئے تھے لیکن اب کراچی سے دل بھرنے لگا تھا یاسر سے مشورہ لیکر اپنا ٹرانسفر حیدرآباد کروا لیا حیدرآباد میں ہی ایک چھوٹا سا خوبصورت گھر لے لیا اسکے 2 مہینے بعد چاند کو دھوم دھام سے اپنے گھر لیکر آگیا مجھے میری محبت مل گئی تھی اور ہمارا ایک خوبصورت بیٹا ہے۔۔۔
ختم شد۔۔۔