┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_37
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پچھلے کئی سالوں میں کئی بار پاکستان آتا جاتا رہا تھا اسے کبھی واپس جاتے ہوئے اس قسم کی کیفیا ت کا شکار نہیں ہونا پڑا تھا جس قسم کی کیفیات کا شکار وہ اس بار ہوا تھا۔ جہاز کے ٹیک آف کے وقت ایک عجیب سا خالی پن تھا، جو اس نےا پنے اندر اترتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ اس نے جہاز کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ بہت دور تک پھیلے ہوئے اس خطے میں کہیں امامہ ہاشم نام کی ایک لڑکی بھی تھی۔ وہ وہاں رہتا تو کبھی کہیں کسی وقت کسی روپ میں وہ اسے نظر آجاتی۔ اسے مل جاتی۔ یاکوئی ایسا شخص اسے مل جاتا جو اس سے واقف ہوتا لیکن وہ اب جہاں جا رہا تھا اس زمین پر امامہ ہاشم کہیں نہیں تھی۔ کوئی اتفا ق بھی ان دونوں کو آمنے سامنے نہیں لاسکتا تھا۔ وہ ایک بار پھر ایک لمبے عرصے کے لئے"امکان " کو چھوڑ کر جارہا تھا۔ وہ زندگی میں کتنی بار "امکان " کو چھوڑ کر جاتا رہے گا۔
دس منٹ کے بعد پانی سے ٹرینکولائز کو نگلتے ہوئے اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ زندگی میں کہیں بھی نہیں کھڑا تھا۔ وہ زندگی میں کبھی بھی نہیں کھڑا ہوپائے گا۔ اس کے پیروں کے نیچے زمین کبھی نہیں آسکے گی۔
ساتویں منزل پر اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے بھی اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ وہاں جانا نہیں چاہتا تھا وہ کہیں اور جانا چاہتا تھا۔کہاں۔۔۔۔۔؟
اس نے اپارٹمنٹ کے دروازے کو لاک کیا۔ لاؤنج میں پڑے ٹی وی کو آن کیا۔ سی این این پر نیوز بلیٹن آرہا تھا۔ اس نے اپنے جوتے اور جیکٹ اُتار کر دور پھینک دئیے۔ پھر ریموٹ لے کر صوفے پر لیٹ گیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ چینل بدلتا رہا ۔ ایک چینل سے گونجتی آوازنے اُسے روک لیا۔
ایک غیر معروف سا گلوکار کوئی غزل گا رہا تھا۔
میری زندگی تو فراق ہے ، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
اس نے ریموٹ اپنے سینے پر رکھ دیا۔ گلوگار کی آواز بہت خوبصورت تھی یا پھر شاید وہ اس کے جذبات کو الفاظ دے رہا تھا۔
ہمیں جاں دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر جو نہیں کوئی، تو ہمیں سہی
شاعری، کلاسیکل میوزک ، پرانی فلمیں ۔ انسٹرو مینٹل میوزک اسے ان تما م چیزوں کی worthکا اندازہ پچھلے کچھ سالوں میں ہی ہونا شروع ہوا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں نے اس کی موسیقی کے انتخاب کو بہت اعلیٰ کردیا تھا اور اردو غزلیں سننے کا تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
سر طور ہو، سر حشر ہو ، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں ، وہ کہیں ملیں ، وہ کبھی سہی ، وہ کہیں سہی
اسے ایک بار پھر امامہ یاد آئی۔ اسے ہمیشہ وہی یاد آتی تھی۔ پہلے وہ صرف تنہائی میں یاد آتی تھی پھر وہ ہجوم میں بھی نظر آنے لگی۔۔۔۔۔ اور وہ۔ وہ محبت کو پچھتاوا سمجھتا رہا۔
نہ ہو ان پہ جو مرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں ان ہی کا تھا، میں ان ہی کاہوں، وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
سالار یک دم صوفے سے اٹھ کر کھڑکیوں کی طرف چلا گیا۔ ساتویں منزل پر کھڑے وہ رات کو روشنیوں کی اوٹ میں دیکھ سکتا تھا۔ عجیب وحشت تھی جو باہر تھی۔ عجیب عالم تھا جو اندر تھا۔
ہو جو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پر نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں، وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
وہاں کھڑے کھڑکیوں کے شیشوں کے پار اندھیرے میں ٹمٹماتی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنے اندر اُترنے کی کوشش کی۔
"میں اور کبھی کسی لڑکی سے محبت کروں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"
بہت سال پہلے اکثر کہا جانے والا جملہ اسے یاد آیا۔ باہر تاریکی کچھ اور بڑھی ۔ اندر آوازوں کی بازگشت۔۔۔۔۔ اس نے شکست خوردہ اندا ز میں سر جھکایا پھر چند لمحوں کے بعد دوبارہ سر اٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ انسان کا اختیا ر کہاں سے شروع کہاں پر ختم ہوتا ہے؟ڈپریشن کا ایک اور دورہ ، وہ باہر نظر آنے والی ٹمٹاتی روشنیاں بھی اب بجھے لگی تھیں۔
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو ، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
سالار سکندر نے مڑ کر اس کی اسکرین کو دیکھا ، گلوگار لہک لہک کر بار بار آخری شعر دہرا رہا تھا۔ کسی معمول کی طرح چلتا ہوا وہ صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔ سینٹرل ٹیبل پر رکھے ہوئے بریف کیس کو کھول کر اس نے اندر سے لیپ ٹاپ نکال لیا۔
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو ، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
گلوکار مقطع دہرا رہا تھا۔ سالار کی انگلیاں لیپ ٹاپ پر برق رفتاری سے حرکت کرتے ہوئے استعفیٰ لکھنے میں مصروف تھیں۔ کمرے میں موسیقی کی آواز اب ڈوبتی جارہی تھی۔ استعفیٰ کی ہرلائن اس کے وجود پر چھائے جمود کو ختم کر رہی تھی وہ جیسے کسی جادو کے حصار سے باہر آرہا تھا۔ کوئی تو ڑ ہورہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"اپنے کیر ئیر کے اس اسٹیج پر اس طرح کا احمقانہ فیصلہ صر ف تم ہی کرسکتے تھے۔"
وہ فون پر سکندر عثمان کو خاموشی سے سن رہا تھا۔
"آخر اتنی اچھی پوسٹ کو کیوں چھوڑ رہے ہو اور وہ بھی اس طرح اچانک اور چلو اگر چھوڑنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر آکر اپنا بزنس کرو۔ بینک میں جانے کی کیا تک بنتی ہے۔" وہ اس کے فیصلے پر بری طرح تنفید کر رہے تھے۔
"میں اب پاکستان میں کام کرنا چاہتا ہوں ۔ بس اسی لئے جاب چھوڑ دی۔ بزنس نہیں کرسکتا اور بینک کی آفر میرے پاس بہت عرصے سے تھی۔ وہ مجھے پاکستان پوسٹ کرنے پر تیار ہیں، اسی لئے میں اسے قبول کر رہا ہوں۔" اس نے تمام سوالوں کا اکٹھا جواب دیا۔
"پھر بینک کو بھی جوائن مت کرو،میرے ساتھ آکر کام کرو۔"
"میں نہیں کرسکتا پا پا! مجھے مجبور نہ کریں۔"
"تو پھر وہیں پر رہو۔ پاکستان آنے کی کیا تک بنتی ہے؟"
“میں یہاں پر رہ نہیں پا رہا۔"
"حب الوطنی کا کوئی دورہ پڑا ہوا ہے تمہیں؟"
"نہیں۔۔۔۔۔"
"تو پھر۔۔۔۔۔؟"
"میں آپ لوگوں کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔" اس نے بات بدلی۔
"خیر یہ فیصلہ کم از کم ہماری وجہ سے تو نہیں کیا گیا۔" سکندر عثمان کا لہجہ نرم ہوا۔
سالار خاموش رہا۔ سکندر عثمان بھی کچھ دیر خاموش رہے۔
"فیصلہ تو تم کر ہی چکے ہو۔ میں اب اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کرسکتا۔ ٹھیک ہے آنا چاہتے ہو آجاؤ۔ کچھ عرصہ بینک میں کام کرکے بھی دیکھ لو لیکن میری خواہش یہی ہے کہ تم میرے ساتھ میرے بزنس کو دیکھو۔" سکندر عثمان نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
“تمہارا تو پی ایچ ڈی کا بھی ارادہ تھا۔اس کا کیا ہوا؟" سکندر عثمان کو بات ختم کرتے کرتے پھر یاد آیا۔
"فی الحال میں مزید اسٹڈیز نہیں کرنا چاہ رہا۔ ہوسکتا ہے کچھ سالوں بعد پی ایچ ڈی کے لئے دوبارہ باہر چلا جاؤں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پی ایچ ڈی کروں ہی نہ۔" سالار نے مدھم آواز میں کہا۔
"تم اس اسکول کی وجہ سے آرہے ہو؟" سکندر عثمان نے اچانک کہا۔" شاید۔۔۔۔۔ سالار نے تردید کی۔ وہ اگر اسکول کو اس کی واپسی کی وجہ سمجھ رہے تھے تو بھی کوئی حرج نہیں تھا۔
"ایک بار پھر سوچ لو سالار۔۔۔۔۔! سکندر کہے بغیر نہیں رہ سکے۔
"بہت کم لوگوں کو کیرئیر میں اس طرح کا اسٹارٹ ملتا ہے جس طرح کا تمہیں ملا ہے۔ تم سن رہے ہو۔"
"جی۔۔۔۔۔!" اس نے صرف ایک لفظ کہا۔
"باقی تم میچور ہو، اپنے فیصلے خود کرسکتے ہو،" انہوں نے ایک طویل کال کے اختتام پر فون بند کرنے سے پہلے کہا۔
سالار نے فون رکھنے کے بعد اپارٹمنٹ کی دیواروں پر ایک نظر دوڑائی۔ اٹھارہ دن کے بعد اسے یہ اپارٹمنٹ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پیر س سے واپسی پر اس کی زندگی کے ایک نئے فیز کا آغاز ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر وہ اسلام آباد میں اس غیر ملکی بینک میں کام کر تا رہا۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ اسی بینک کی ایک نئی برانچ کے ساتھ لاہور چلا آیا۔اسے کراچی جانے کا موقع مل رہا تھا مگر اس نے لاہور کا انتخاب کیا۔ اسے یہاں ڈاکٹر سبط کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل رہا تھا۔
پاکستان میں اس کی مصروفیات کی نوعیت تبدیل ہوگئی تھی مگر ان میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ یہاں بھی دن رات مصروف رہتا تھا۔ ایکexceptional ماہر معاشیات کے طور پر اس کی شہرت اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھی۔ حکومتی حلقوں کے لئے اس کا نام نیا نہیں تھا مگر پاکستان آجانے کے بعد فنانس منسٹری مختلف مواقع پر اپنے زیر تربیت آفیسر کو دیئے جانے والے لیکچرز کے لئے اسے بلواتی رہتی۔ لیکچرز کا سلسلہ بھی اس کے لئے نیا نہیں تھا۔Yale میں زیر تعلیم رہنے کے بعد وہ وہاں مختلف کلاسز کو لیکچر دیتا رہا تھا یہ سلسلہ نیویارک منتقل ہوجانے کے بعد بھی جاری رہا ۔ جہاں وہ کولمبیا یونیورسٹی میں ہیومن ڈویلپمنٹ پر ہونے والے سیمینارز میں حصہ لیتا رہا بعد میں اس کی توجہ ایک بار پھر اکنانکس کی طرف مبذول ہوگئی۔
پاکستان میں بہت جلد وہ ان سیمینارز کے ساتھ انوالو ہوگیا تھا۔ جوIBAاور LUMS, FAST اور جیسے ادارے کروارہے تھے۔اکنامکس اور ہیومن ڈویلپمنٹ واحد موضوعات تھے جن پر خاموشی اختیار نہیں کیا کرتا تھا۔ وہ اس کے پسندیدہ موضوع گفتگو تھے اور سیمینارز میں اس کے لیکچرز کا فیڈ بیک ہمیشہ بہت زبردست رہا تھا۔
وہ مہینے کا ایک ویک اینڈ گاوں میں اپنے اسکول میں گزارا کرتا تھا اور وہاں رہنے کے دوران وہ زندگی کے ایک نئے رخ سے آشنائی حاصل کر رہا تھا۔
"ہم نے اپنی غربت اپنے دیہات میں چھپادی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے لوگ مٹی کو کارپٹ کے نیچے چھپا دیتے ہیں۔"
اس اسکول کی تعمیر کا آغاز کرتے ہوئے فرقان نے ایک بار اس سے کہا تھا اور وہاں گزارے جانے والے دن اسے اس جملے کی ہولناکی کا احساس دلاتے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں غربت کی موجودگی سے نا آشنا تھا۔ وہ یونیسکو اور یونی سیف میں کام کے دوران دوسرے ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کے بارے میں بھی بہت ساری رپورٹس دیکھتا رہا مگر پاکستان میں غربت کی آخری حدوں کو بھی پار کرجانے والی لوگوں کو وہ پہلی بار ذاتی طور پر دیکھ رہا تھا۔
"پاکستان کے دس پندہ بڑے شہروں سے نکل جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ چھوٹے شہروں میں رہنے والے لوگ تیسری دنیا میں نہیں دسویں بارھویں دنیا میں رہتے ہیں۔ وہاں تو لوگوں کے پاس نہ روزگار ہے ، نہ سہولتیں ۔ وہ اپنی آدھی زندگی خواہش میں گزارتے ہیں اور آدھی حسرت میں مبتلا ہو کر۔ کون سی اخلاقیات سکھا سکتے ہیں آپ اس شخص کو جس کا دن سوکھی روٹی سے شروع ہوتا ہے اور فاقے پر ختم ہوجاتا ہے۔ اور ہم۔۔۔۔۔ ہم لوگوں کی بھوک مٹانے کے بجائے مسجدوں پر مسجدیں تعمیر کرتے ہیں۔ عالی شان مسجدیں، پرشکوہ مسجدیں، ماربل سے آراستہ مسجدیں۔ بعض اوقات تو ایک ہی سڑک پر دس دس مسجدیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ نمازیوں سے خالی مسجدیں۔"
فرقان تلخی سے کہتا تھا۔
"اس ملک میں اتنی مسجدیں بن چکی ہیں کہ اگر پورا پاکستان ایک وقت کی نماز کے لئے مسجدوں میں اکٹھا ہوجائے تو بہت سی مسجدیں خالی رہ جائیں گی۔ میں مسجد یں بنانے پر یقین نہیں رکھتا۔جہاں لوگ بھوک سے خودکشیاں کرتے پھر رہے ہوں جہاں کچھ خاص طبقوں کی پوری نسل جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہو وہاں مسجد کے بجائے مدرسے کی ضرورت ہے۔ اسکول کی ضرورت ہے، تعلیم اور شعور ہوگا اور رزق کمانے کے مواقع تو اللہ سے محبت ہوگی ورنہ صرف شکوہ ہی ہوگا۔
وہ فرقان کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا تھا۔ اس نے مستقل طور پر گاوں جانا شروع کیا تو اسے اندازہ ہوا تھا فرقان ٹھیک کہتا تھا۔ غربت لوگوں کو کفرتک لے گئی تھی۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتیں ان کے اعصاب پر سوار تھیں اور جو ان معمولی ضرورتوں کو پورا کردیتا وہ جیسے اس کی غلامی کرنے پر تیار ہوجاتے۔ اس نے جس ویک اینڈ پر گاؤں جانا ہوتا اسکول میں لوگ اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے جمع ہوتے۔ بعص دفعہ لوگوں کی قطاریں ہوتیں۔
"بیٹے کو شہر کی کسی فیکٹری میں کام پر رکھوادیں۔ چاہے ہزار روپیہ ہی مل جائے مگر کچھ پیسہ تو آئے۔"
"دوہزار روپے مل جاتے تو میں اپنی بیٹی کی شادی کردیتا۔"
"بارش نے ساری فصل خراب کردی ۔ اگلی فصل لگانے کے لئے بیج خریدنے تک کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ آپ تھوڑے پیسے قرض کے طور پر دے دیں۔ میں فصل کاٹنے کے بعد دے دوں گا۔"
"بیٹے کو پولیس نے پکڑ لیا ہے، قصور بھی نہیں بتاتے بس کہتے ہیں ہماری مرضی جب تک چاہیں اندر رکھیں تم آئی جی کے پاس جاؤ۔"
پٹواری میری زمین پر جھگڑا کر رہا ہے۔ کسی اور کو الاٹ کر رہا ہے۔ کہتا ہے میرے کاغذ جعلی ہیں۔"
"بیٹا کام کے لئے پاس کے گاؤں جاتا ہے۔ روز آٹھ میل چل کر آنا پڑتا ہے۔ آپ ایک سائیکل لے دیں مہربانی ہوگی۔"
"گھر میں پانی کا ہینڈ پمپ لگوانا ہے،آپ مدد کریں۔"
وہ تعجب سے ان درخواستوں کو سنتا تھا۔ کیا لوگوں کے یہ معمولی کام بھی ان کے لئے پہاڑ بن چکے ہیں ۔ ایسا پہاڑ جسے عبور کرنے کے لئے وہ زندگی کے کئی سال ضائع کر دیتے ہیں۔ وہ سوچتا۔
مہینے کے ایک ویک اینڈ پر جب وہ وہاں آتا تو اپنے ساتھ دس پندرہ ہزار روپے زیادہ لے کر آتا وہ روپے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بہت سے لوگوں کو بضاہر بڑی لیکن حقیقتاً بہت چھوٹی ضرورتیں پوری کر دیتے تھے۔ ان کی زندگی میں کچھ آسانیاں لے آتے اس کے لکھے ہوئے چند سفارشی رقعے اور فون کالز ان لوگوں کے کندھوں کے بوجھ اور پیروں میں نہ نظر پڑنے والی بیڑیوں کو کیسے اتاردیتے ۔ اس کا احساس شاید سالار کو خود بھی نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لاہور میں اپنے قیام کے دوران وہ باقاعدگی سے ڈاکٹر سبط صاحب کے پاس جاتا تھا۔ ان کے ہاں ہر رات عشاء کی نماز کے بعد کچھ لوگ جمع ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کسی نہ کسی موضوع پر بات کیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ اس موضوع کا انتخاب وہ خود کرتے بعض دفعہ ان کے پاس آنے والے لوگوں میں سے کوئی ان سے سوال کرتا اور پھر یہ سوال اس رات کا موضوع بن جاتا۔ عام اسکالرز کے برعکس ڈاکٹر سبط علی صرف خود نہیں بولتے تھے نہ ہی انہوں نے اپنے پاس آنے والے لوگوں کو صرف سامع بنادیا تھا بلکہ وہ اکثر اپنی بات کے دوران ہی چھوٹے موٹے سوالات بھی کرتے رہتے اور پھر ان سوالات کا جواب دینے کے لئے نہ صرف لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے بلکہ ان کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ان کے اعتراضات کو بڑے تحمل اور بردباری سے سنتے۔ ان کے پاس آنے والوں میں صرف سالار سکندر تھا جس نے کبھی سوال کیا تھا نہ کبھی ان کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی تھی۔ وہ کبھی کسی بات پر اعتراض کرنے والوں میں شامل نہ ہوا نہ کسی بات پر رائے دینے والوں میں۔
وہ فرقان کے ساتھ آتا۔ فرقان نہ آتا تو اکیلا چلا آتا، کمرے کے آخری حصے میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتا، خاموشی سے ڈاکٹر صاحب اور وہاں موجود لوگوں کوسنتا۔ بعض دفعہ اپنے دائیں بائیں آبیٹھنے والے لوگوں کے استفسار پر اپنا ایک جملہ پیش کرتا۔
"میں سالار سکندر ہوں، ایک بینک میں کام کرتا ہوں۔"
وہ جب تک امریکہ میں رہا تب ہر ہفتے ایک بار وہاں سے ڈاکٹر سبط علی کو فون کرتا رہا مگر فون پر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو بہت مختصر اور ایک ہی نوعیت کی ہوتی تھی۔ وہ کال کرتا ڈاکٹر صاحب ریسیو کرتے اور ایک ہی سوال کرتے۔
وہ پہلی بار اس سوال پر تب چونکا تھا جب وہ پاکستان سے چند دن پہلے امریکہ آیا تھا اور ڈاکٹر صاحب اس کی واپسی کا پوچھ رہے تھے۔ اسے تعجب ہوا تھا۔
"ابھی تو نہیں۔۔۔۔۔" اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا تھا۔ بعد میں وہ سوال اسے کبھی عجیب نہیں لگا کیونکہ وہ لاشعوری طور پر جان گیا تھا کہ وہ کیا پوچھ رہے تھے۔
آخری بار انہوں نے وہ سوال اس سے تب کیا تھا جب وہ امامہ کی تلاش میں ریڈ لائٹ ایریا میں پہنچا تھا۔ پیرس واپس پہنچنے کے ایک ہفتے کے بعد اس نے ہمیشہ کی طرح انہیں کا ل کیا تھا۔ ہمیشہ جیسی گفتگو کے بعد گفتگو اسی سوال پر آپہنچی تھی۔
"واپس پاکستان کب آرہے ہیں؟"
بے اختیار سالار کا دل بھر آیا۔ اسے خود کو کمپوز کرنے میں کچھ دیر لگی
"اگلے ماہ آجاوں گا ۔ میں ریزائن کر رہا ہوں۔ واپس آکر پاکستان میں ہی کام کروں گا۔"
"پھر ٹھیک ہے، آپ سے اگلے ماہ ملاقات ہوگی۔" ڈاکٹر صاحب نے تب کہا تھا۔
“دعا کیجئے گا۔" سالا ر آخر میں کہتا۔
"کروں گا کچھ اور۔۔۔۔۔؟"
"اور کچھ نہیں۔ اللہ حافظ۔۔۔۔۔" وہ کہتا۔
"اللہ حافظ۔" وہ جواب دیتے۔ گفتگو کا یہ سلسلہ پاکستان آنے تک جاری رہا جب وہ ان کے پاس باقاعدگی سے جانے لگا تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لاہور آنے کے بعد وہ باقاعدگی سے ان کے پاس جانے لگا تھا۔ اسے ان کے پاس سکون ملتا تھا۔ صرف ان کے پاس گزارا ہوا وقت ایسا ہوتا تھا جب وہ کچھ دیر کے لئے مکمل طور پر اپنے ڈپریشن سے آزادی حاصل کر لیتا تھا۔ بعض دفعہ ان کے پاس خاموش بیٹھے بیٹھے بے اختیار اس کا دل چاہتا وہ ان کے سامنے وہ سب کچھ اگل دے جسے وہ اتنے سالوں سے اپنے اندر زہر کی طرح بھرے پھر رہا تھا۔ پچھتاوا، احساس جرم ۔۔۔۔۔ بے چینی، بے بسی ، شرمندگی ، ندامت ، ہر چیز۔ پھر اسے خوف پیدا ہوتا ڈاکٹر سبط علی اس کو پتا نہیں کن نظروں سے دیکھیں گے۔ اس کی ہمت دم توڑ جاتی۔
ڈاکٹر سبط علی ابہام کو دور کرنے میں کمال رکھتے تھے۔ وہ ان کے پاس خاموش بیٹھا رہتا۔ صرف سنتا، صرف سمجھتا، صرف نتیجے اخذ کرتا۔ کوئی دھند تھی جو چھٹ رہی تھی۔ کوئی چیز تھی جو نظر آنے لگی تھی۔جن سوالوں کو وہ کئی سالوں سے سر پر بوجھ کی صورت میں لئے پھر رہا تھا ان کے پاس ان کے جواب تھے۔
"اسلام کو سمجھ کر سیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اس میں کتنی وسعت ہے۔ یہ تنگ نظری اور تنگ دلی کا دین نہیں ہے نہ ہی ان دونوں چیزوں کی اس میں گنجائش ہے۔ یہ میں سے شروع ہوکر ہم پر جاتا ہے۔ فرد سے معاشرے تک۔ اسلام آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ چوبیس گھنٹے سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح ہر جگہ مصلیٰ بچھائے بیٹھے رہیں۔ ہر بات میں اس کے حوالے دیتے رہیں۔ نہیں، یہ تو آپ کی زندگی سے ۔۔۔۔۔ آپ کی اپنی زندگی سے حوالہ چاہتا ہے۔ یہ تو آپ سے راست بازی اور پارسائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ دیانت داری اور لگن چاہتا ہے۔ اخلاص اور استقامت مانگتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان مانگتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان اپنی باتوں سے نہیں اپنے کردار سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔"
سالار ان کی باتوں کو ایک چھوٹے سے ریکارڈ ر میں ریکارڈ کرلیتا پھر گھر آکر بھی سنتا رہتا۔ اسے ایک رہبر کی تلاش تھی، ڈاکٹر سبط علی کی صورت میں اسے وہ رہبر مل گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"سالار آؤ، اب آ بھی جاؤ۔کتنی منتیں کرواؤ گے؟" انیتا نے اس کا بازو کھینچتے ہوئے ناراضی سے کہا۔
وہ عمار کی شادی میں شرکت کے لئے اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ تین دن کی چھٹی لے کر حالانکہ اس کے گھر والوں کا اصرار تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لئے آئے۔ شادی کی تقریبات کئی دن پہلے شروع ہوچکی تھیں۔ وہ ان تقریبات کی "اہمیت" اور " نوعیت" سے واقف تھا۔ اس لئے گھر والوں کے اصرار کے باوجود تین دن کی رخصت لے کر آیا اور اب وہ عمار کی مہندی کے فنکشن میں شرکت کرہا تھا جو عمار اور اس کے سسرال والے مل کر کر رہے تھے۔ عمار اور اسری ٰ دونوں کے عزیز و اقارب اور دوست مختلف فلمی اور پاپ گانوں پر رقص کرنے میں مصروف تھے۔ ایک طوفان بدتمیزی تھا جو وہاں برپا تھا۔ سلیولیس شرٹس، کھلے گلے ، جسم کے ساتھ چپکے ہوئے کپڑے، باریک ملبوات، سلک اور شیفون کی ساڑھیاں ، نیٹ کے بلاؤز اس کی فیملی کی عورتیں بھی دوسری عورتوں کی طرح اسی طرح کے ملبوسات پہنے ہوئے تھیں۔
مکسڈ گیدرنگ تھی اور وہ تقریب شروع ہونے پر اس ہنگامے سے کافی دور کچھ ایسے لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو کارپوریٹ یا بینکنگ سکیٹر سے تعلق رکھتے تھے اور سکندر یا اس کے اپنے بھائیوں کے شناسا تھے۔
مگر پھر مہندی کی رسومات کا آغاز ہونے لگا اور انیتا اسے اسٹیج کی طرف لے گئی۔ اسریٰ اور عمار بے تکلفی سے اسٹیج پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ پہلی بار اسریٰ سے مل رہا تھا۔ عمار نے اس کا اور اسری ٰ کا تعارف کروایا۔ مہندی کی رسومات کے بعد اس نے وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر کامران اور طیبہ نے اسے زبردستی روک دیا۔
بھائی کی مہندی ہورہی ہے اور تم اس طرح وہاں کونے میں بیٹھے ہو۔" طیبہ نے اسے ڈانٹا تھا۔ تمہیں یہاں ہونا چاہیئے۔"
وہ ان کے کہنے پر وہیں کامران اور اس کی بیوی کے ساتھ کھڑا ہوگیا ۔ اس کے ایک کزن نے ایک بار پھر دوپٹہ اس کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی جو وہ سب ڈالے ہوئے تھے۔ اس نے ایک بار پھر قدرے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے اسے تنبیہ کی۔
اگلے چند منٹوں کے بعد وہاں رقص شروع ہوچکا تھا۔ عمار سمیت سارے بہن بھائی اور کزنز رقص کر رہے تھے اور انتیا نے اسے بھی کھینچنا شروع کردیا تھا۔
"نہیں انیتا! میں نہیں کرسکتا۔ مجھے نہیں آتا۔"
اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے معذرت کی مگر اس کی معذرت قبول کرنے کے بجائے وہ اور عمار اسے کھینچ کر رقص کرنے والوں کے ہجوم میں لے آئے تھے۔ کامران اور معیز کی شادی میں وہ بھی ایسے ہی رقص کرتا رہا تھا، مگر عمار کی مہندی پر وہ پچھلے سات سالوں میں اتنا لمبا ذہنی سفر طے کرچکا تھا کہ وہاں اس ہجوم کے درمیان خالی بازو کھڑے کرنا بھی اس کے لئے دشوار تھا۔ قدرے بے بس مسکراہٹ کے ساتھ وہ اسی طرح ہجوم کے درمیان کھڑا رہا پھر اس نے انیتا کے کان میں کہا۔
"انیتا۔۔۔۔۔ میں ڈانس بھول چکا ہوں۔Please let me go۔ (برائے مہربانی مجھے جانے دو) ۔"
"تم کرنا شروع کرو۔۔۔۔۔آجائے گا۔" انیتا نے جواباً اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اب اسریٰ بھی اس ہجوم میں شامل ہوچکی تھی۔
"میں نہیں کرسکتا ۔ تم لوگ کرو۔ میں انجوائے کر رہا ہوں۔ مجھے جانے دو۔"
اس نے مسکراتے ہوئے نکلنے کی کوشش کی ۔ اسریٰ کی آمد نے اسے اس کوشش میں کامیاب کردیا۔
"عروج ہرقوم ، ہر نسل کا خواب ہوتا ہے اور پھر وہ قومیں جن پر الہامی کتابیں ناز ل ہوئی ہوں وہ تو عروج کو اپنا حق سمجھتی ہیں ، مگر کبھی بھی کسی قوم پر عروج صرف اس بنا پر نہیں آیا کہ اسے کتاب اور نبی دے دیا گیا جب تک اس قوم نے اپنے اعمال اور افعال سے عروج کے لئے اپنی اہلیت ثابت نہیں کردی وہ کسی مرتبہ کسی مقام کسی فضیلت کے قابل نہیں ٹھہریں۔ مسلمان قوم یا امت کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے ۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اعلی طبقات تعیش اور نفس پرستی کا شکا ر ہیں۔ یہ دونوں چیزیں وبا کی طرح ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے سے دوسرے سے تیسرے اور پھر یہ سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔" اسے وہاں کھڑے ان ناچتی عورتوں اور مردوں کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے بے اختیار ڈاکٹر سبط کی باتیں یاد آنے لگیں۔
"مومن عیاش نہیں ہوتا نہ تب جب وہ رعایا ہوتا ہے نہ تب جب وہ حکمران ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کسی جانور کی زندگی جیسی نہیں ہوتی۔ کھانا پینا، اپنی نسل کو آگے بڑھانا اور فنا ہوجانا۔ یہ کسی جانور کی زندگی کا انداز تو ہوسکا ہے مگر کسی مسلمان کی نہیں۔ "سالار بے اختیار مسکرا دیا۔ وہ آج پھر "جانوروں " اور"حشرات الارض"کا ایک گروہ دیکھ رہا تھا۔ اسے خوشی ہوئی ، وہ بہت عرصہ پہلے ان میں سے نکل چکا تھا۔ وہاں ہر ایک خوش باش ، پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ بلند قہقہے اور چمکدار چہرے اور آنکھیں۔ اس کے سامنے طیبہ عمار کے سسر کے ساتھ رقص کر رہی تھیں ۔ انیتا اپنے سب سے بڑے بھائی کامران کے ساتھ۔
سالار نے اپنے ہاتھ کی ا نگلیوں سے دائیں کنپٹی کو مسلا۔ شاید یہ تیز میوزک تھا یا پھر اس وقت اس کا ذہنی اضطراب اسے اپنی کنپٹی میں ہلکی سی درد کی لہر گزرتی محسوس ہوئی۔ اپنے گلاسز اُتار کر اس نے بائیں ہاتھ سے اپنی دونوں آنکھیں مسلیں۔ دوبارہ گلاسز آنکھوں پر لگاتے ہوئے اس نے مڑ کر راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی، کچھ جدوجہد کے بعد وہ اپنی جگہ چھوڑتے ہوئے اس دائرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسے بخوشی راستہ دے دیا گیا۔
"کدھر جارہے ہو؟" بے ہنگم شور میں طیبہ نے بلند آواز میں جانے سے پہلے اس کا بازو پکڑ کر پوچھا تھا۔ وہ ابھی رقص کرتے کرتے تھک کر اس کے پاس کھڑی ہوئی تھیں ان کا سانس پھولا ہوا تھا۔
"ممی! میں ابھی آتا ہوں۔ نماز پڑھ کر۔"
"آج رہنے دو۔۔۔۔۔"
سالار مسکرایا مگر اس نے جواب میں کچھ نہیں کہا بلکہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے نرمی سے ان کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا دیا۔
وہ اب باہر نکلنے کی تگ ودو کر رہا تھا۔
"یہ کبھی نارمل نہیں ہوسکتا۔ زندگی کو انجوائے کرنا بھی آرٹ ہے اور یہ آرٹ اس بے وقوف کو کبھی نہیں آئے گا۔" انہوں نے اپنے تیسرے بیٹے کی پشت کو دیکھتے قدرے افسوس سے سوچا۔
سالار نے اس ہجوم سے نکل کر بے اختیار سکون کی سانس لی تھی۔
وہ جس وقت نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر کے گیٹ سے باہر نکل رہا تھا۔ سنگر اس وقت گانے میں مصروف تھا۔ اس وقت مسجد کی طرف جانے والا وہ اکیلا تھا۔ شاید گاڑیوں کی لمبی قطاروں کے درمیان سے سڑک پر چلتے ہوئے وہ مسلسل ڈاکٹر سبط علی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ "سینکڑوں "کے اس مجمع کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا جو اس کے گھر ناچ گانے میں مصروف تھے۔ مسجد میں کل" چودہ" لوگوں نے باجماعت نماز ادا کی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے