┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد
قسط_نمبر_36
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار سکندر کی زبان حلق سے کھینچ لی گئی تھی۔امامہ ہاشم اس کی بیوی تھی اس کی منکوحہ۔ایلیٹ کلاس کی وہ عورت جس کا اس بازار سے کبھی واسطہ نہیں پڑتا۔سالار سکندر نے ایک بار پھر خود کو مارگلہ کی پہاڑیوں پر رات کی تاریکی میں درخت کے ساتھ بندھا پایا۔۔۔۔۔ بےبسی کی انتہا تھی۔
"صاحب! میرے ساتھ چلو ، ہر عمر کی لڑکی ہے میرے پاس۔اس علاقے کی سب سے اچھی لڑکیاں ، قیمت بھی زیادہ نہیں ہے۔"اس کے ساتھ ایک آدمی چلنے لگا۔
"میں اس لئے یہاں نہیں آیا ہوں۔"سالار نے مدھم آواز میں اس پر نظر ڈالے بغیر کہا۔
"کوئی ڈرنک چاہئیے ، کوئی ڈرگ میں سب کچھ سپلائی کر سکتا ہوں۔"
عاکف نے یک دم قدم روک کر قدرے اکھڑے ہوئے انداز میں اس آدمی سے کہا۔"تمہیں ایک بار کہا ہے نا کہ ضرورت نہیں پھر پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔"
اس آدمی کے قدم تھم گئے۔سالار خاموشی سے چلتا رہا۔اس کا ذہن کسی آندھی کی زد میں آیا ہوا تھا۔امامہ ہاشم وہاں ، کب ، کیوں ، کیسے آ گئی تھی۔ماضی ایک فلم کی طرح اس کی نظروں کے سامنے آیا تھا۔
"پلیز ، تم ایک بار۔۔۔۔۔ایک بار اس کو جا کر میرے بارے میں سب کچھ بتاؤ ، اس سے کہو مجھ سے شادی کر لے۔اس سے کہو ، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ، صرف ایک نام ہے۔اس کو تم حضرت محمد ﷺ کا واسطہ دو گے تو وہ انکار نہیں کرے گا۔وہ اتنی محبت کرتا ہے ان ﷺ سے۔"اس نے بہت سال پہلے اپنے بیڈ پر نیم دراز چپس کھاتے ہوئے موبائل فون پر بڑے اطمینان کے ساتھ اس کو بلکتے سنا تھا۔
"بائے دا وے تم امامہ کے کیا لگتے ہو؟"
"میں۔۔۔۔۔؟میں اور امامہ بہت گہرے اور پرانے فرینڈز ہیں۔"جلال انصر کے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔سالار نے عجیب سی سرشاری محسوس کی۔جلال اس وقت امامہ اور اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا۔وہ اچھی طرح اندازہ کر سکتا تھا۔
"اس سے جا کر صاف صاف کہہ دو کہ میں اس سے شادی نہیں کروں گا۔"
وہ جلال انصر کا یہ پیغام سنتے ہوئے امامہ ہاشم کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا۔اس نے چیونگم کے ببل بناتے ہوئے امامہ کو موبائل پر خبر دی تھی۔
"تم نے مجھ پر اتنے احسان کیے ہیں ، ایک احسان اور کرو۔مجھے طلاق دے دو۔"وہ فون پر گڑگڑائی تھی۔
"نہیں ، میں تم پر احسان کرتے کرتے تھک گیا ہوں ، اب اور احسان نہیں کر سکتا اور یہ والا احسان ۔۔۔۔۔یہ تو ناممکن ہے۔"اس نے جواباً کہا تھا۔
"تم طلاق چاہتی ہو ، کورٹ میں جا کر لے لو مگر میں تو تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔"
سالار کے حلق میں پھندے لگنے لگے۔
"ہاں ، میں نے یہ سب کچھ کیا تھا لیکن میں نے ، جلال انصر کی غلط فہمی کو دور کر دیا تھا۔میں نے اسے سب کچھ بتا دیا تھا ، کچھ بھی نہیں چھپایا۔میں نے صرف ایک مذاق کیا تھا ، ایک پریکٹیکل جوک۔میں یہ تو نہیں چاہتا تھا کہ امامہ کے ساتھ یہ سب کچھ ہو۔"وہ جیسے کسی عدالت میں آن کھڑا ہوا تھا۔
"ٹھیک ہے میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی اسے طلاق نہیں دے کر۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔میں نے پھر بھی یہ خواہش تو نہیں کی تھی کہ وہ یہاں آ پھنسے۔میں نے۔۔۔۔۔میں نے اسے گھر چھوڑنے سے روکا تھا ، میں نے مذاق میں ہی سہی مگر اسے مدد کی آفر بھی کی تھی۔میں تو اسے یہاں لے کر نہیں آیا تھا۔کوئی مجھے تو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا اس سب کا۔"
وہ بےربط جملوں میں وضاحتیں دے رہا تھا۔اس کے سر میں سنسناہٹ ہونے لگی تھی۔درد کی ایک تیز مگر مانوس سی لہر میگرین (آدھے سر کا درد ) کا ایک اور اٹیک۔وہ چلتے چلتے رُکا ، ہونٹ بھینچتے ہوئے اس نے بےاختیار اس نے اپنی کنپٹی کو مسلا ، درد کی لہر گزر گئی تھی۔آنکھیں کھول کر اس نے گلی کے پیچ و خم کو دیکھا۔وہ اندھی گلی تھی ، کم از کم اس کے لئے اور امامہ ہاشم کے لئے۔اس نے قدم آگے بڑھائے۔عاکف ایک چوبارے نما گھر کے سامنے رُک گیا تھا۔اس نے مڑ کر سالار کو دیکھا۔
"یہی گھر ہے۔"سالار کا چہرہ کچھ اور زرد پڑ گیا۔قیامت اب اور کتنی دور رہ گئی تھی۔
"اوپر کی منزل پر جانا ہے ، صنوبر اوپر ہی ہو گی۔"عاکف کہتے ہوئے ایک طرف موجود تنگ اور تاریک سی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔سالار کو پہلی سیڑھی پر ہی ٹھوکر لگی۔وہ بےاختیار جھکا ، عاکف نے مڑکر اسے دیکھا اور رُک گیا۔
"احتیاط سے آؤ ، سیڑھیوں کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے۔اوپر سے یہ لوگ بلب لگوانے کے بھی روادار نہیں۔"سالار سیدھا ہو گیا۔اس نے عاکف کا سہارا لے کر اوپر والی سیڑھی پر قدم رکھا۔سیڑھیاں بل کھا کر گولائی کی صورت میں اوپر جا رہی تھیں اور اتنی تنگ تھیں کہ صرف ایک وقت میں ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا۔ان کی سیمنٹ بھی اکھڑی ہوئی تھی۔وہ بوٹ پہننے کے باوجود ان کی خستہ حالت کو جانچ سکتا تھا جس دیوار کا سہارا لے کر وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔اس دیوار کی سیمنٹ بھی اکھڑی ہوئی تھی۔سالار اندھوں کی طرح دیوار ٹٹولتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
پہلی منزل کے ایک دروازے کے کھلے ہوئے پٹ سے آنے والی روشنی نے سالار کی رہنمائی کی تھی۔عاکف وہاں کہیں نہیں تھا۔یقیناً وہ دروازہ پار کر کے آگے چلا گیا تھا۔سالار چند لمحوں کے لیے وہاں رُکا پھر اس نے دہلیز کے پار قدم رکھا۔وہ اب ایک چوبارے میں تھا۔ایک طرف بہت سے کمروں کے دروازے تھے۔دوسری طرف نیچے گلی نظر آ رہی تھی۔برآمدے نما لمبا چوبارہ بالکل خالی تھا۔تمام کمروں کے دروازے اسے وہاں کھڑے بند ہی لگ رہے تھے۔عاکف کہاں گیا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔اس نے بہت محتاط انداز میں اپنے قدم آگے بڑھائے۔یوں جیسے وہ کسی بھوت بنگلے میں آ گیا تھا۔ابھی کوئی دروازہ کھلتااور امامہ ہاشم اس کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی۔
"میرے خدا۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ میں اس کا سامنا یہاں کیسے کروں گا۔" اس کا دل ڈوبا۔
وہ ان بند دروازوں پر نظر ڈالتے ہوئے چلتا جارہا تھا۔ جب اس برآمدے کے آخری سرے پر ایک دروازے میں سے عاکف نکلا۔
"تم یہاں رہ گئے ہو۔" وہ وہیں سے بلند آواز میں بولا۔"یہاں آؤ۔"
سالار کے قدموں کی رفتار تیز ہوگئی ۔ سالار دروازے تک پہنچنے سے پہلے چند لمحے کے لئے رُک گیا۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن کی آواز باہر تک سن رہا تھا پھر آنکھیں بند کئے سرد ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔ وہاں عاکف ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک لڑکی اپنے بالوں پر برش کرتے ہوئے عاکف سے باتیں کر رہی تھی۔
"یہ امامہ نہیں ہے۔" بے اختیار سالار کے منہ سے نکلا۔
"ہاں یہ امامہ نہیں ہے۔ وہ اندر ہے ، آؤ۔"عاکف نے اٹھتے ہوئے ایک اور کمرے کا دروازہ کھولا۔ سالار ہموار قدموں سے اس کے پیچھے گیا۔ عاکف اگلے کمرے کو بھی پار کرگیا اور ایک اور دروازہ کھول کر ایک دوسرے کمرے میں داخل ہوگیا۔
"ہیلو صنوبر!"سالار نے دور سے عاکف کو کہتے ہوئے سنا۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ ایک لمحے کے لئے اس کا جی چاہا وہ وہاں سے بھاگ جائے۔۔۔۔۔ ابھی اسی وقت۔۔۔۔۔ سرپٹ۔۔۔۔۔ ادھر اُدھر دیکھے بغیر۔۔۔۔۔ اس گھر سے۔۔۔۔۔ اس علاقے سے۔۔۔۔۔ اس شہرسے۔۔۔۔۔ اس ملک سے۔۔۔۔۔ دوبارہ کبھی وہاں کا رخ تک نہ کرے۔۔۔۔۔ اس نے گردن موڑ کر اپنے عقب میں موجود دروازے کو دیکھا۔
"آؤ سالار! عاکف نے اسے مخاطب کیا۔ وہ اب گردن موڑ ے اندر کسی لڑکی سے مصروف گفتگو تھا ۔ سالار نے تھوک نگلا۔ اس کا حلق کانٹوں کا جنگل بن گیا تھا۔وہ آگے بڑھا۔ عاکف نے اپنی پشت پر اس کے قدموں کی آواز سنی تو دروازے سے ہٹ گیا۔ سالار دروازے میں تھا۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑی تھی۔
“یہ ہے صنوبر۔" عاکف نے تعارف کروایا۔ سالار اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ وہ بھی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
"امامہ؟" وہ بے حس و حرکت اسے دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
"ہاں امامہ! عاکف نے تصدیق کی۔
سالار گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑا۔ عاکف گھبرا گیا۔
"کیا ہوا، کیا ہوا؟" وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑتے ہوئے سجدے میں تھا۔ وہ ایک طوائف کے کوٹھے پر سجدے میں گرنے والا پہلا مرد تھا۔
عاکف پنجوں کے بل بیٹھا اسے کندھے سے پکڑے ہلا رہا تھا۔ سالار سجدے میں بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
"پانی۔۔۔۔۔ پانی لاؤں؟"صنوبر گھبراتے ہوئے تیزی سے بیڈ کے سرہانے پڑے جگ اور گلاس کی طرف گئی اور گلاس میں لے کر سالار کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
"سالار صاحب! آپ پانی پئیں۔"
سالار ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ یوں جیسے اسے کرنٹ لگا ہو۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ کچھ کہے بغیر اس نے اپنی جینز کی جیب سے والٹ نکالا اور پاگلوں کی طرح اس میں سے کرنسی نوٹ نکال کر صنوبر کے سامنے رکھتا گیا اس نے والٹ چند سیکنڈ میں خالی کردیا تھا۔ اس میں کریڈٹ کارڈ ز کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ پھر وہ کچھ کہے بغیر اٹھ کھڑا ہوا اور الٹے قدموں دروازے کی دہلیز سے ٹھوکر کھاتا ہوا باہر نکل گیا۔ عاکف ہکا بکا اس کے پیچھے آیا۔
"سالار۔۔۔۔۔سالار۔۔۔۔۔! کیا ہوا ہے؟ کہاں جارہے ہو؟"
اس نے سالار کو کندھے سے پکڑکر روکنے کی کوشش کی ۔ سالار وحشت زدہ اس سے اپنے آپ کو چھڑانے لگا۔
"چھوڑو مجھے ۔ ہاتھ نہ لگاؤ۔ مجھے جانے دو۔"
وہ بلند آواز میں روتے ہوئے ہذیانی انداز میں چلا یا۔
"امامہ سے ملنا تھا تمہیں۔" عاکف نے اسے یاد دلایا۔
"یہ اما مہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے امامہ ہاشم۔۔۔۔۔"
"تو ٹھیک ہے۔ مگر میرے ساتھ جانا ہے تمہیں۔"
"میں چلا جاؤں گا۔ میں چلا جاؤں گا۔ مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔" وہ اُلٹے قدموں اپنا کندھا چھڑاکر بھاگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ عاکف زیرلب کچھ بڑبڑایا۔ اس کا موڈ آف ہوگیا تھا مڑ کر وہ صنوبر کے کمرے میں گھس گیا جو ابھی بھی حیرانی سے نوٹوں کے ڈھیر کو دیکھ رہی تھی۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سیڑھیاں اب بھی اسی طرح تاریک تھیں مگر اس بار وہ جس ذہنی حالت میں تھا اسے کسی دیوار، کسی سہارے ، کسی روشنی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اندھا دھند تاریک سیڑھیوں سے نیچے بھاگا اور بری طرح گرا۔ اگر سیڑھیاں سیدھی ہوتیں تو وہ سیدھا نیچے جاکر گرتا مگر سیڑھیوں کی گولائی نے اسے بچالیا تھا۔ وہ اندھیرے میں ایک بار پھر اُٹھا۔ گھٹنوں اور ٹخنوں میں اٹھنے والی ٹیسوں سے بے پروا اس نے دوبارہ اسی طرح بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اترنے کی کوشش کی۔ چند سیڑھیاں اُترنے کے بعد لگائی جانے والی چھلانگ نے اسے پھر زمین بوس کیا تھا۔ اس بار اس کا سر بھی دیوار سے ٹکرایا۔ وہ خوش قسمت تھا کہ اس کی ہڈی نہیں ٹوٹی۔ شاید سیڑھیوں سے گرنے کے بعد نیچے والی سیڑھیوں پر آگیا تھا۔ سامنے گلی کی روشنی نظر آرہی تھی۔ وہ سیڑھیو ں سے نکل آیا مگر آگے نہیں جاسکا۔ چند قدم آگے چل کر اس گھر کے باہر تھڑے پر بیٹھ گیا۔ اسے متلی محسوس ہورہی تھی۔ سر کو تھامتے ہوئے بے اختیار اسے ابکائی آئی وہ تھڑے پر بیٹھے بیٹھے جھک گیا تھا ، وہ ابکائیاں کرتے ہوئے بھی اسی طرح سے رورہا تھا۔ گلی میں سے گزرنے والے لوگوں کے لئے یہ سین نیا نہیں تھا۔یہاں بہت سے شرابی اور نشئی ضرورت سے زیادہ نشہ استعمال کرنے کے بعد یہی سب کچھ کیا کرتے تھے۔صرف سالار کا لباس اور حلیہ تھا جوا سے کچھ مہذب دکھا رہا تھا اور اس کے آنسو اور واویلا۔ کسی طوائف کی بے وفائی کا نتیجہ تھا شاید۔ طوائف کا کوٹھا ہر کسی کو راس نہیں آتا۔ گزرنے والے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے گزر رہے تھے۔ کوئی اس کے پاس نہیں آیا تھا۔ اس بازار میں حال احوال جاننے کا رواج نہیں تھا۔
عاکف نیچے نہیں آیاتھا۔ آتا تو شاید سالار کے پاس رُک جاتا۔ امامہ ہاشم وہاں نہیں تھی۔ صنوبر امامہ ہاشم نہیں تھی۔ کتنا بڑا بوجھ اس کے کندھوں سے اٹھالیا گیا تھا۔ کیسی اذیت سے اسے بچالیا گیا تھا۔ تکلیف دے کر اسے آگہی نہیں دی گئی۔صرف تکلیف کا احساس دے کر اسے آگہی سے شناسا کردیا گیا تھا۔اسے وہاں نہ دیکھ کر وہ اس حالت میں جاپہنچا تھا۔ وہ اسے وہاں دیکھ لیتا تو اس پر کیا گزرتی۔ اسے اللہ سے خوف آرہا تھا بے پناہ خوف۔ وہ کس قدر طاقتور تھا کیا نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کس قدر مہربان تھا ۔ کیا نہیں کرتا تھا۔ انسان کو انسان رکھنا اسے آتا تھا۔ کبھی غضب سے ، کبھی احسان سے۔ وہ اسے اس کے دائرے میں ہی رکھتا تھا۔
اسے کبھی اپنی زندگی کے اس سیاہ باب پر اتنا چھتاوا اتنی نفرت نہیں ہوئی جتنی اس وقت ہورہی تھی۔۔۔۔۔
"کیوں؟کیوں۔۔۔۔۔؟ کیوں آتا تھا میں یہاں پر۔۔۔۔۔؟ کیوں خریدتا تھا میں ان عورتوں کو۔۔۔۔۔؟ کیوں گناہ کا احساس میرے اندر نہیں جاگتا تھا؟" وہ چبوترے پر بیٹھا دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بلک رہا تھا۔
"اور اب ۔۔۔۔۔ اب جب میں یہ سب کچھ چھوڑ چکا ہوں تو اب۔۔۔۔۔ اب کیوں۔۔۔۔۔ یہ تکلیف۔۔۔۔۔ یہ چبھن ہورہی ہے مجھے۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔ جانتا ہوں مجھے اپنے ہر عمل کے لئے جواب دہ ہونا ہے مگر یہ حساب یہاں۔۔۔۔۔ اس طرح نہ لے۔۔۔۔۔ جس عورت سے میں محبت کرتا ہوں اسے کبھی بازار میں نہ پھینک۔"
وہ روتے ہوئے رکا، کون سا انکشاف کہاں ہورہا تھا۔
"محبت؟" وہ گلی سے گزرتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے بڑبڑایا۔
"کیا میں۔۔۔۔۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں؟" کوئی لہر اس کے سر سے پیروں تک گزری تھی۔
"کیا یہ تکلیف صرف اس لئے ہورہی ہے مجھے کہ میں اس سے۔۔۔۔۔" اس کے چہرے پر سائے لہرائے تھے۔" کیا وہ میرا پچھتاوا نہیں ہے۔ کچھ اور ہے۔۔۔۔۔؟
اسے لگا وہ وہاں سے کبھی اٹھ نہیں پائے گا۔
“تو یہ پچھتاوا نہیں محبت ہے، جس کے پیچھے میں بھاگتا پھر رہا ہوں۔" اسے اپناجسم ریت کا بنا ہوا لگا۔
"امامہ پھانس نہیں ہے روگ ہے؟۔ آنسو اب بھی اس کی گالوں پر بہ رہے تھے۔"
"اور اس بازار میں اس عورت کی تلاش میں اٹھتے میرے قدموں میں لرزش اس لئے تھی کیونکہ میں نے اسے اپنے دل کے بہت اندر کہیں بہت اونچی جگہ رکھا تھا۔ وہاں جہاں خود میں بھی اس کو محسوس نہیں کرپارہا تھا۔ چیک میٹ۔"
"150 پلس آئی کیو لیول کا وہ مرد منہ کے بل زمین پر گرایا گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کون سازخم تھا جو وہاں بیٹھا ہرا ہورہا تھا۔ کون سی تکلیف تھی جو سانس لینے نہیں دے رہی تھی۔ آئینے نے اسے کہاں بر ہنہ کیا تھا۔ اسے کیا یاد تھا؟ کیا لیا تھا؟ وہ اٹھ کر وہاں سے چلنے لگا۔ اسی طرح بلک بلک کر روتے ہوئے ۔ اسے خود پر قابو نہیں تھا۔ اسے پاس سے گزرنے والوں کی نظروں کی بھی پروا نہیں تھی۔ اسے اپنے وجود سے کبھی زندگی میں اتنی نفرت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اس وقت ہورہی تھی۔ وہ ریڈ لائٹ ایریا اس کی زندگی کا سب سے سیاہ باب تھا۔ ایسا سیاہ باب جسے وہ کھرچ کر اپنی زندگی سے علیحدہ نہیں کر پایا تھا۔ وہ ایک بار پھر اس کی زندگی میں آکھڑا ہوگیا تھا۔ کئی سال پہلے وہاں گزاری گئی راتیں اب بلاؤں کی طرح اسے گھیرے ہوئے تھیں اور وہ ان سے فرار حاصل نہیں کر پارہا تھا اور اب جس خوف نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا وہ تو۔۔۔۔۔
"اگر ۔۔۔۔۔اگر۔۔۔۔۔امامہ اس بازار میں آگئی ہوتی تو۔۔۔۔۔؟ صنوبر، امامہ ہاشم نہیں تھی مگر کوئی اور۔۔۔۔۔" اس کے سر میں درد کی ایک لہر اٹھی۔ میگرین اب شدت اختیار کرتا جارہا تھا۔ اس کا ذہن بیٹھ گیا تھا۔ گاڑیوں کے ہارن اور لائٹس نے اس کے درد کو اور بڑھا دیا تھا پھر اس کا ذہن کسی تاریکی میں اتر گیا تھا۔
کسی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا پھر کچھ کہا۔۔۔۔۔ ایک دوسری آواز نے جواباً کچھ کہا۔ سالار سکندر کے حواس آہستہ آہستہ کام کرنے لگے تھے۔ مضمحل تھکن زدہ۔۔۔۔۔ مگر آوازوں کو شناخت کرتا ہوا ذہن۔
بہت آہستہ آہستہ اس نے آنکھیں کھولیں۔ اسے حیرانی نہیں ہوئی۔ اسے یہیں ہونا چاہیئے تھا۔ وہ ہاسپٹل یا کسی کلینک کے ایک کمرے میں ایک بیڈ پر تھا۔ بے حد نرم اور آرام دہ بیڈ، اس سے کچھ فاصلے پر فرقان کسی دوسرے ڈاکٹر کے ساتھ ہلکی آواز میں باتیں کر رہا تھا۔ سالار نے ایک گہراسانس لیا۔ فرقان اور دوسرے ڈاکٹر نے گردن موڑ کر باتیں کرتے اسے دیکھا پھر دونوں اس کی طرف چلے آئے۔
سالار نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں ۔آنکھیں کھلا رکھنا اسے مشکل لگ رہا تھا۔ فرقان نے پاس آکر نرمی سے اس کے سینے کو تھپتھپایا۔
"کیسے ہو اب سالار؟"
سالا نے آنکھیں کھول دیں۔ اس نے مسکرا نے کی کوشش نہیں کی۔ صرف چند لمحے خالی الذہنی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا۔
"فائن۔۔۔۔۔"اس نے کہا۔
دوسرا ڈاکٹر اس کی نبض دیکھنے میں مصروف تھا۔
سالار نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں۔ فرقان اور دوسرا ڈاکٹر آپس میں ایک بار پھر گفتگو میں مصروف تھے۔ اسے اس گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے کسی بھی چیز میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ باقی سب کچھ ویسا ہی تھا۔ احسا س جرم ، پچھتاوا۔ عاکف ، صنوبر۔۔۔۔۔امامہ۔۔۔۔۔ریڈ لائٹ ایریا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ اس کا دل چاہا کاش وہ ابھی ہوش میں نہ آتا۔
تو سالار صاحب۔۔۔۔۔! اب کچھ تفصیلاً گفتگو ہوجائے آپ کے ساتھ۔" اس نے فرقان کی آواز پر آنکھیں کھول دیں۔ وہ اس کے بیڈ کے بالکل قریب ایک اسٹول پر بیٹھا ہوا تھا۔ دوسرا ڈاکٹر باہر جا چکا تھا۔ سالار نے اپنی ٹانگوں کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ اس کے منہ سے کراہ نکلی۔ اس کے ٹخنے اور گھٹنوں میں شدید ہورہا تھا۔ اس کی ٹانگوں پر کمبل تھا وہ انہیں نہیں دیکھ سکتا مگر اس کو اندازہ تھا کہ اس کے ٹخنے اور گھٹنے پر کچھ لپٹا ہوا تھا۔ وہ اپنے کپڑوں میں بھی نہیں تھا بلکہ مریضوں کے لئے مخصوص لباس میں تھا۔
"کیا ہوا ہے؟" سالار نے بے اختیار کراہ کر ٹانگ سیدھی کرتے ہوئے کہا۔
"sprained ankleدونوں گھٹنوں اور calfپر کچھ خراشیں اور سوجن مگر خوشی قسمتی سے کوئی فریکچر نہیں۔ بازوں اور کہنیوں پر بھی کچھBruises خوش قسمتی سے پھر کوئی فریکچر نہیں ۔ سر کے بائیں پچھلے حصے میں چھوٹا ساکٹ تھوڑی سی بلیڈنگ ، مگر سی ٹی اسکین کے مطابق کوئی سیریس انجری نہیں۔ سینے پر بھی رگڑ کی وجہ سے معمولی خراشیں مگر جہاں تک تمہارے سوال کا تعلق ہے کہ کیا ہوا ہے؟ تو یہ تم بتاو کہ کیا ہوا ہے؟"
فرقان کسی ماہر ڈاکٹر کی طرح بات کرتے کرتے بولا۔ سالار چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
"میں پہلے سمجھتا رہا کہ میگرین کا اٹیک اتنا شدید تھا کہ تم بے ہوش ہوگئے مگر بعد میں تمہارا چیک اپ کرنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ ایسا نہیں تھا۔ کیا کسی نے حملہ کیا تھا تم پر؟" وہ اب سنجیدہ تھا۔ سالار نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے سر کو جھٹکا۔
"تم مجھ تک کیسے پہنچے بلکہ میں یہاں کیسے پہنچا؟"
"میں تمہارے موبائل پر تمہیں کال کر رہا تھا اور تمہارے بجائے کسی آدمی نے وہ کال ریسیو کی ، وہ اس وقت فٹ پاتھ پر تمہارے قریب تھا۔ تمہیں ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے مجھے تمہاری حالت کے بارے میں بتایا۔اچھا آدمی تھا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ تمہیں کسی ٹیکسی میں قریبی ہاسپٹل لے جائے۔ وہ لے گیا پھر میں وہاں پہنچ گیا اور تمہیں یہاں لے آیا۔"
"ابھی کیا وقت ہے؟"
"صبح کے چھے بج رہے ہیں۔ سمیر نے تمہیں رات کو پین کلر ز دیئے اسی لئے تم ابھی تک سو رہے تھے۔"
فرقان کو بات کرتے کرتے ہوئے احساس ہوا کہ وہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ اس کی نظروں میں ایک عجیب سی سرد مہری محسوس ہوئی تھی۔ یوں جیسے فرقان اسے کسی تیسرے شخص کی حالت کے بارے میں بتارہا تھا۔
"تم مجھے۔۔۔۔۔ دوبارہ۔۔۔۔۔"سالار نے اسے خاموش ہوتے ہوئے دیکھ کر کہنا شروع کیا۔ پھر قدرے الجھن آمیز انداز میں رکا۔ آنکھیں بند کیں جیسے ذہن پر زور دے رہا ہو۔
"ہاں ۔۔۔۔۔کوئی ٹرینکولائز دے دو۔ میں بہت لمبی نیند سونا چاہتا ہوں۔"
"سوجانا۔۔۔۔۔مگر یہ تو بتاؤ۔۔۔۔۔ہوا کیا تھا؟"
"کچھ نہیں۔" سالار نے بیزری سے کہا۔
"میگرین ۔۔۔۔۔ اور میں فٹ پاتھ پر گر پڑا، گرنے سے چوٹیں لگ گئیں۔"
فرقان نے اسے غور سے دیکھا۔
"کچھ کھالو۔۔۔۔۔"
سالار نے اس کی بات کاٹی۔" نہیں۔۔۔۔۔ بھوک ۔۔۔۔۔ نہیں ہے۔ تم بس مجھے کچھ دو۔۔۔۔۔ ٹیبلٹ ، انجکشن ، کچھ بھی ، میں بہت تھکا ہوا ہوں۔"
"اسلام آباد تمہارے گھر والوں ۔۔۔۔۔"
سالار نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
"نہیں، اطلاع مت کرنا۔ میں جب سو کر اٹھوں گا تو اسلام آباد چلا جاؤں گا۔"
"اس حالت میں؟"
"تم نے کہا ہے میں ٹھیک ہوں۔"
“ٹھیک ہو مگر اتنے بھی ٹھیک نہیں ہو۔ دو چار دن آرام کرو۔ یہیں رہو لاہور میں ، پھر چلے جانا۔"
"اچھا پھر تم پا پا کو یا ممی کو اطلاع مت دینا۔"
فرقان نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھا۔ اس کے ماتھے پر چند بل آگئے۔" اچھا۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ کچھ۔۔۔۔۔؟"
"ٹرینکولائز۔۔۔۔۔"
فرقان اسے سوچتے ہوئے دیکھنے لگا۔
"میں رہوں تمہارے پاس۔۔۔۔۔؟"
"فائدہ۔۔۔۔۔؟ میں تو ابھی سو جاؤں گا۔ تم جاؤ۔ جب میں اٹھوں گا تو تمہیں کال کروں گا۔"
اس نے بازو کے ساتھ اپنی آنکھیں ڈھانپ لیں۔ اس کے انداز میں موجود روکھے پن اور سرد مہری نے فرقان کو کچھ اور پریشان کیا۔ اس کا رویہ بہت ابنارمل تھا۔
"میں سمیر سے بات کرتا ہوں، مگر ٹرینکولائز چاہیئے تو پہلے تو تمہیں کچھ کھا نا ہوگا۔" فرقان نے اٹھتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا۔ سالار نے آنکھوں سے باز و نہیں ہٹایا۔
دوبارہ اس کی آنکھ جس وقت کھلی اس وقت شام ہورہی تھی۔ کمرہ خالی تھا۔ اس کے پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ جسمانی طور پر صبح سے زیادہ تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا۔ اپنی ٹانگوں سے کمبل پرے ہٹا کر اس نے لیٹے لیٹے بائیں ٹخنے اور گھٹنوں میں اٹھتی ہوئی ٹیسوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹانگوں کو سکیڑ لیا۔ اسے اپنے اندر ایک عجیب سی گھٹن محسوس ہورہی تھی۔ اتنی گھٹن جیسے کسی نے اس کے سینے کو جکڑ لیا ہو۔ وہ اسی طرح لیٹے لیٹے چھت کو گھور تا رہا پھر جیسے اسے کوئی خیال آیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ہوٹل آکر اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب فرقان نے دروازے پر دستک دی۔ سالار نے دروازہ کھول دیا۔ فرقان کو دیکھ کر وہ حیران ہوا۔ اسے اندا زہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی اس کے پیچھے آجائے گا۔
"عجیب انسان ہو تم سالار۔۔۔۔۔" فرقان اسے دیکھتے ہی ناراضی سے بولنے لگا۔
"یوں کسی کو بتائے بغیر سمیر کے کلینک سے چلے آئے، مجھے پریشان کر دیا۔ اوپر سے موبائل کوبھی آف کر رکھا ہے۔"
سالار نے کچھ نہیں کہا۔ وہ لنگڑاتا ہو ایک بار پھر اپنے بیگ کے پاس آگیا۔ جس میں وہ اپنی چیزیں پیک کر رہا تھا۔
"تم جارہے ہو؟" فرقان بیگ دیکھ کر چونکا۔
"ہاں۔۔۔۔۔!"سالار نے یک لفظی جواب دیا
"کہاں۔۔۔۔۔؟" سالار نے بیگ کی زپ بند کردی اور بیڈ پر بیٹھ گیا
"اسلام آباد؟" فرقان اس کے سامنے صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔
“نہیں ۔" سالار نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"پھر ۔۔۔۔۔؟"
کراچی جارہا ہوں۔"
"کس لئے؟" فرقان نے حیرانی سے پوچھا۔
"فلائٹ ہے میری۔"
"پیرس کی؟"
"ہاں۔۔۔۔۔!"
"چار دن بعد ہے تمہاری فلائٹ ، ابھی جاکر کیا کروگے؟" فرقان اسے دیکھنے لگا۔ سمیر کا اندازہ ٹھیک تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بے حد عجیب تھے۔
"کام ہے مجھے وہاں۔"
"کیا کام ہے؟"
وہ جواب دینے کے بجائے بیڈ پر بیٹھا پلکیں جھپکائے بغیر چپ چاپ اسے دیکھتا رہا ۔فرقان سا ئیکالوجسٹ نہیں تھا۔ پھر بھی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی آنکھوں کو پڑھنے میں اسے کوئی مشکل نہیں ہوئی ۔ سالار کی آنکھوں میں کچھ بھی نہیں تھا۔ صرف سرد مہری تھی۔ یوں جیسے وہ کسی کو جانتا ہی نہ ہو۔ اسے اور اپنے آپ کو بھی۔ وہ ڈپریس تھا۔ فرقان کو کوئی شبہ نہیں تھا مگر اس کا ڈپریشن اسے کہاں لے جا رہا تھا۔ فرقان یہ جاننے سے قاصر تھا۔
"تمہیں آخر کیا پریشانی ہے سالار؟" وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
"سالار نے توقف کیا۔ پھر کندھے جھٹکے۔
"کوئی پریشانی نہیں ہے۔"
"تو پھر۔۔۔۔۔" سالار نے فرقان کی بات کاٹ دی۔
"تم جانتے ہو مجھے میگرین ہے۔ کبھی کبھار اس طرح ہوجاتا ہے مجھے۔"
"میں ڈاکٹر ہوں سالار!" فرقان نے سنجیدگی سے کہا۔" میگرین کوکوئی مجھ سے زیادہ بہتر نہیں جانتا۔ یہ سب کچھ میگرین کی وجہ سے نہیں تھا۔"
"تو تم بتاؤ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟" سالار نے اُلٹاا س سے سوال کیا۔
"کسی لڑکی کا پرابلم ہے؟" سالار پلکیں جھپک نہیں سکا ۔ فرقان کہاں جا پہنچا تھا۔
"ہاں ۔۔۔۔۔" وہ نہیں جانتا اس نے “نہیں" کیوں نہیں کہا تھا۔
"کسی میں انوالو ہو تم؟" فرقان کو اپنے اندازے کے صحیح ہونے پر جیسے یقین نہیں آیا۔
"ہاں۔۔۔۔۔"
فرقان بہت دیر چپ بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ یوں جیسے اپنی بے یقینی پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہو۔
"کس کے ساتھ انوالو ہو؟"
"تم اسے نہیں جانتے۔"
"شادی نہیں ہو سکی تمہاری اس کے ساتھ؟" سالار اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
"ہوگئی تھی۔" اس کے لہجے میں آنچ تھی۔
"شادی ہوگئی تھی؟" فرقان کو پھر یقین نہیں آیا۔
"ہاں۔۔۔۔۔"
پھر۔۔۔۔۔ طلاق ہوگئی؟" اس نے پوچھا۔
"نہیں۔"
"تو۔۔۔۔۔؟" سالار کے پاس آگے بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔
"تو بس۔۔۔۔۔"
"بس کیا۔۔۔۔۔؟ سالار اس کے چہرے سے نظریں ہٹا کر اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی دائیں ہاتھ میں موجود دل کی لکیرپر پھیرتا رہا۔
"کیا نام ہے اس کا؟" فرقان نے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔ وہ ایک بار پھر اس طرح لکیر کو چھوتے ہوئے بہت دیر تک خاموش رہا ۔ بہت دیر۔۔۔۔۔ پھر اس نے کہا۔
"امامہ ہاشم۔۔۔۔۔" فرقان نے بے اختیار سانس لیا۔ اسے اب سمجھ میں آیا کہ وہ اس کی چھوٹی بیٹی کو ڈھیروں کے حساب سے تحفے کیوں دیا کرتا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے میں جب سے سا لار سے اس کی شناسائی ہوئی تھی اور سالار کا اس کے گھر آنا جانا شروع ہوا تھا سالار اور امامہ کی بہت دوستی ہوگئی تھی۔ وہ پاکستان سے جانے کے بعد بھی اسے وہاں سے کچھ نہ کچھ بجھواتا رہتا تھا مگر فرقان کو اکثر صرف ایک بات پر حیرانی ہوئی تھی۔ وہ کبھی امامہ کا نام نہیں لیتا تھا اور وہ خود اس سے بات کرتا تو اسے نام کے بغیر مخاطب کرتا رہتا۔ فرقان کو چند ایک بار یہ بات محسوس ہوئی تھی مگر اس نے اسے نظر انداز کردیا تھا لیکن اب امامہ ہاشم کا نام سن کر وہ جان گیا تھا کہ وہ کیوں اس کا نام نہیں لیتا تھا۔
وہ اب رُک رُک کر بے ربط جملوں میں مدھم آواز میں اسے اپنے اور امامہ کے بارے میں بتارہا تھا۔ فرقان دم سادھے سن رہا تھا۔ جب وہ سب کچھ بتانے کے بعد خاموش ہوا تو دیر تک فرقان بھی کچھ بول نہیں سکا۔ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ تسلی دے یا پھر کچھ اور کہے۔۔۔۔۔ کوئی نصیحت۔۔۔۔۔
"تم اسے بھول جاؤ۔" اس نے بالآخر کہا۔" سوچ لو کہ وہ جہاں بھی ہے خوش ہے اور محفوظ ہے۔ ضروری نہیں اس کے ساتھ کوئی سانحہ ہی ہوا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ بالکل محفوظ ہو۔ فرقان کہہ رہا تھا۔" تم نے اس کی مدد کی ، جس حد تک تم کر سکتے تھے۔ پچھتاؤں سے اپنے آپ کو نکال لو۔ اللہ مدد کرتا ۔ تمہارے بعد ہوسکتا اسے تم سے بہتر کوئی اور مل گیا ہو۔ تم کیوں اس طرح کے وہم لئے بیٹھے ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ جلال سے اس کی شادی نہ ہونے کی وجہ تم تھے۔ جو کچھ تم نے مجھے جلال کے بارے میں بتایا ہے۔ میرا ندازہ یہی ہے کہ وہ کسی صورت میں امامہ سے شادی نہ کرتا، چاہے تم بیچ میں آتے نہ آتے۔ کوشش کرتے نہ کرتے۔ جہاں تک امامہ کو طلاق نہ دینے کا سوال ہے اسے چاہیئے تھا وہ تم سے دوبارہ رابطہ کرتی۔ وہ ایسا کرتی تو یقیناً تم اسے طلاق دے دیتے۔ اگر اس معاملے میں تم سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو اللہ تمہیں معاف کردے گا کیونکہ تم پچھتارہے ہو۔ تم اللہ سے معافی بھی مانگتے آرہے ہو۔ یہ کافی ہے مگر اس طرح ڈپریشن کا شکار ہونے سے کیا ہوگا۔ سالار کی خاموشی سے اسے امید بندھی کہ شاید اس کی کوشش رنگ لارہی تھی مگر ایک لمبی تقریر کے بعد جب وہ خاموش ہوا تو سالار اٹھ کر اپنا بریف کیس کھولنے لگا۔
"کیا کر رہے ہو؟" فرقان نے پوچھا۔
"میری فلائٹ کا ٹائم ہورہا ہے۔" وہ اب اپنے بریف کیس میں سے کچھ پیپر نکال رہا تھا۔ فرقان کی سمجھ نہیں آیا وہ اس سے کیا کہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─