┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_06

"ہم نہ ہوں گے کیا ہو گا تمہارا "
واہ واہ واہ
"ہم نہ ہوں گے کیا ہو گا تمہارا " 
عمار نے راگ لگائی 
"کچھ بھی نہیں ہوں گا شکر کے دو نوافل پڑھ کر خوش و خرم رہے گے ہم تمہارے بنا "
روما نے لاؤنچ میں داخل ہو کر جملہ مکمل کیا 
اس کی بات پر سب کا قہقہہ بےسہتا تھا 
عمار نے خون خوار نظروں سے روما کو دیکھا "ہنس لوں ہنس لوں تم سب کے سب ایک دن دیکھ لینا میں بہت بڑا شاعر بنوں گا لوگ مجھ سے آٹوگراف مانگتے پھرے گے ..."
"اور امی آ کر تمہیں دو لگائی گئی تم خواب سے جاگ جاؤ گے "
شارق نے اس کی بات کاٹ کر مزے سے بات مکمل کی 
جس پر سب نے عمار کی رونی صورت دیکھ کر اپنی ہنسی ضبط کرنے کی ناکام کوشش کی 
"تمہاری تو ... " 
عمار اٹھ کر شارق کی طرف بڑھا 
"بیٹھ جاؤ عمار آج خبردار کسی نے بھی ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھایا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا "
چیف نے زور سے چلا کر کہا عمار کے پاؤں واپسی کے لیے موڑے 
"تم بہت بےانصافی کرتی ہوں اس روما کی بچی کو کچھ نہیں کہتی یہ ہر بار میرے ساتھ ایسا ہی کرتی ہے " 
عمار نے اپنی جگہ پر واپس بیٹھ کر روہنسی لہجے میں شکوہ کیا 
 وہ سب کھلکھلا کر ہنسے 
"اچھا یہ سب باتیں چھوڑوں او کچھ ہنگامہ برپا کرتے ہیں "
رانیہ نے اپنی رائے دی 
"حیال تو بہت اچھا ہے تو پھر کیا خیال ہے کیا کیا جائے آج "
ولید نے پر سوچ انداز میں پوچھا
"سنا ہے سامنے والے گھر میں نئی فیملی آئی ہے ان سے سلام دعا تو بنتا ہے..."
عمار نے شرارت بڑی مسکراہٹ سے اپنی رائے دی
"ہاں بلکل بہت دن ہو گئے ہے مفت کی دعوت نہیں اڑائی ہم سب نے آج اللّٰہ نے ہماری سن ہی لی "
بہروز نے بھی جوش میں جھومتے ہوئے کہا
"داجی کو پتا چل گیا تو..."
افشاں نے گھبرا کر انہیں دیکھا
"تم تو بس ڈر ڈر کر مر جانا بےوقوف لڑکی جب بھی کچھ کرنے کا سوچوں تم ڈرپوک بیچ میں بونگیاں مار لیتی ہوں"
شارق نے سخت نظروں سے دیکھا
"بس بس زیادہ دادا ابو بنے کی کوشش مت کیا کروں "
اس نے ناراضگی سے کہا 
"بعد کی بعد میں دیکھی جائے گئی ابھی سب میری بات غور سے سنو ہم سب کو کرنا کیا ہے "
زرشالہ نے سب کو مخاطب کر کے اپنے پلین کے بارے میں بتایا کریزی گروپ اج پھر کچھ کرنے والے تھے اللّٰہ ہی ان کی شرارتوں سے سب کو محفوظ رکھے تو رکھنے بندوں کی بس کی بات نہیں تھی
               .........................
وہ سب اس وقت لان میں بیٹھے مفت کی دعوت اڑا رہے تھے پیزا کھانے کے ساتھ ساتھ شارق اپنا کارنامہ بھی مرچ مصالحہ لگا کر سنا رہا تھا
"پوچھو مت یار کیا سین تھا جب میں نے پاس والے گھر کی بیل بجائی ایک ینگ سی آنٹی نے دروازا کھولا مجھے دیکھ کر پوچھنے لگی کیا کام بیٹا "
اس نے پیزا کا بڑا سا بائٹ لیا اوپر پیپسی کا گھونٹ پیا 
سب اس کی بات سنے میں مصروف تھے
"اب بک بھی چکو آگے کیا ہوا "
دنیا جہان کی بےصبری رانیہ جھنجھلا کر بولی 
"یہ تو ٹھوسنے دوں پہلے دیکھ نہیں رہی ٹھنڈا ہو رہا ہے "
شارق نے برہم ہو کر کہا 
"بتاتے ہوں یا ہم جائے یہاں سے "
پانچ منٹ تک جب اس نے بات نہیں پوری کی زرشالہ نے چڑ کر اسے گھوری سے نوازا 
شارق نے مزید نخرے دکھانا مناسب نہیں سمجھا جانتا تھا ابھی بھی نا بتایا تو ان سب نے مل کر اس کی بینڈ بجا دینی ہے 
"ہوا کچھ یوں میں نے معصوم سی شکل بنا کر کہا آنٹی آنٹی پلیز ہیلپ می میرے بھائی کا کار آکسیڈنٹ ہو گیا ہے اس سے پہلے ہمیں ڈاکوؤں نے روک کر سارے پیسے لوٹ لیے آگے بڑھے تو بھائی نے غم میں گاڑی ٹھوک دی اس کی حالات بہت حراب ہے پاس ہاسپٹل میں ایڈمنٹ کیا ہے گھر پہنچتے پہنچتے بہت وقت لگ جائے گا میرا بھائی مر جائے گا آنٹی بیچاری کے آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے کہنے لگی بیٹا میں آپ کی کیسے مدد کر سکتی ہوں میں نے کہا آ پ کچھ پیسے دے دے میں کل تک واپس کر دوں گا "
اس نے ڈرامائی انداز میں بیان کیا کچھ پل روک کر سب کے تاثرات دیکھے سب کھانا بھول کر اس کی بات منہ کھولے سن رہے تھے 
"ہاں تو آنٹی بھاگ کر اندار گئی پانچ ہزار کا نوٹ لا کر مجھے تھمایا کہنے لگی واپس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بس اللّٰہ آپ کے بھائی کو زندگی دے میں نے کہا آمین اور بھاگ آیا وہاں سے "
اس نے فخریہ انداز میں کالر جھاڑے 
"شارق کے بچے میں میں تمہیں یہ سب کرنے کا تو نہیں کہا تھا "
زرشالہ نے غصّے سے گھورا 
سب کے تاثرات بہت خون خوار تھے 
"اور یہ بتائو کون سے بھائی کا آکسیڈنٹ کروا کر آئے ہوں تم "
ولید نے آگے بڑھ کر تفسیسی انداز میں پوچھا
"یہ اپنے عمار کا "
اس نے فٹ جواب دیا
عمار نے آنکھیں پھاڑے اپنے ماں جائی کو دیکھا
"یہ دن دیکھنے کے لیے میں زندہ تھا ہائے ہائے اللّٰہ جی بھائی کے روپ میں دشمن دے دیے آپ نے تو مجھے اللّٰہ پوچھے تم سے شارق میں نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے جو تم مجھے مارنے پر تولے ہوئے ہوں "
عمار نے مصنوعی آنسو صاف کر کے دکھ بھرے لہجے میں کہا 
"ایک تو مفت کا پیزا ٹھوس رہے ہوں ایک آگے سے مجھے سنا بھی رہے ہوں خبردار اب کسی نے پیزے کو ہاتھ بھی لگایا "
شارق نے آگے بڑھ کر پیزا کا ڈبہ اٹھا لیا 
اس سے پہلے کے وہ اندار بھاگتا بہروز ولید عمار نے اسے دبوچ لیا 
پھر کیا تھا اس بچارے کو مار مار کر اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی بیچارے کو وہ ڈبہ واپس رکھنا ہی پڑا
            ........................
"گڈ مارننگ گڑیا"
زرشالہ کی آنکھ اپنے موبائل کے رنگ ٹون سے کھولیں زالان کا میسج پڑھ کر وہ ایک دم سے فریش ہو گئی
"مارننگ زالان گڑیا مس یو سو مچ"
اس نے جوابی پیغام بھیجا 
اٹھ کر فریش ہونے واشروم گئی یونی کے لیے بھی لیٹ ہو رہی تھی 
تیار ہو کر باہر نکلی اپنے کمرے کے باہر زالان کو دیکھ کر وہی شاک ہو گئی
"زالان آپ یہاں "
وہ خوشی سے چلائی 
"تو کیسا رہا میرا سرپرائز"
زالان کی اس کی طرف پست تھی زرشالہ کی آواز پر اس کی طرف مڑا ہاتھ میں خوبصورت سا سرخ گلابوں کا بوکا تھا ساتھ ایک گفٹ پیک تھا اس نے زرشالہ کی طرف بڑھایا 
"یہ کیا ہیں"
زرشالہ نے اس کے ہاتھ سے پھول اور گفٹ لے کر حیرانی سے دیکھا 
"وہ کیا ہوتا ہے جو تم آئے دن میرے لیے اسلام آباد بجواتی ہوں "
"تو آپ یہ مجھے دے کر بدلہ چکا رہے ہیں آپ "
"جی نہیں میں اپنی گڑیا کے اتنے دیر سارے پیار کا بدلہ تو نہیں اتار سکتا بس یہ تو چھوٹا سا تحفہ ہے اچھا لگا تمہارے لیے لے آیا اب تم غلط سوچ رہی ہوں تو میں کیا کہ سکتا ہوں "
زالان نے اس کی ناک دبا کر مسکرا کر کہا 
"او ہو آپ بدلے میں آج مجھے بہت ساری شاپنگ کرواں رہے ہوں نہ اس لیے ہی تو میں آپ کو چھوٹے موٹے تحفے دیتی ہوں سمجھا کرے نہ"
"کیا مطلب ہے تمہارا تم مجھے رشوت کے طور پر یہ سب دیتی ہوں "
اس نے گھو کر زرشالہ کو دیکھا 
زالان نے اس وقت بھی زرشالہ کا دیا وائٹ ٹی شرٹ پہن رکھی تھی وہ عام سے خلیے میں بھی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا 
زرشالہ نے دل ہی دل میں ماشاءاللہ کہا 
"ہاہاہا آپ کو تو پتا ہے آپ کے پیسوں پر شاپنگ کرنے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے"
"ہاں ہاں مجھ غریب کو لوٹنے میں تمہیں سکون ملتا ہے نہ"
"آپ اور غریب اللّٰہ معاف کرے آپ کے شیئرز کا سارا پرافٹ آپ کے اکاؤنٹ میں ہی جاتا ہے بہت آئے غریب"
زرشالہ نے اس کی غریب کہنے پر چھوٹ کی
زالان نے قہقہہ لگا کر اس کے سر پر تھپکی دی
"ہاں ہاں تم تو بہت غریب ہو ناں جیسے اپنے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا"
زالان نے پر سوچ انداز میں کہا
"میری تو بات ہی مت کریں آپ میں امیر ہو کر بھی امیر نہیں ہوں کریڈٹ کارڈ دادو چھپا کر رکھتی ہے مجھ سے کہی میں سارا پیسہ اڑا ہی ناں دوں بہت خوار ہونا پڑتا ہے ایمان سے"
زرشالہ نے اہ بھر کر افسوس سے کہا 
"اچھا گڑیا صاحبہ اور یہ جو آئے دل آپ وہ کریڈٹ کارڈ دادو کے روم سے چوری کر کے چلی جاتی ہے وہ بھول گی آپ "
زالان نے تھوڑا آگے جھک کر رازداری سے پوچھا 
"ہاہاہا ایک تو آپ کو ساری باتیں بتا کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتی ہوں میں.. چپ کر جائے دادو نے سن لیا ناں کریڈٹ کارڈ کو آگ ہی لگا دے گی "
اس نے ادھر ادھر نظریں گھوما کر دیکھا اس پاس کوئی نہیں تھا اس نے سکون کا سانس لیا
"ہاہاہا اللّٰہ نہ کریں اس کے بعد مجھ غریب کی آدھی سے زیادہ کمائی تم نے ہڑپ کر دینے ہی"
زالان نے مسکرا کر شرارت سے کہا
"کھڑورس خان "
زرشالہ چلائی 
"جنگلی مانو بلی "
زالان نے ہنس کر کہا 
"ہاہاہا چلے جلدی سے تیار ہو جائے آج غریب ہونے کے لیے"
زرشالہ نے آنکھ مار کر کہا
زالان نے اسے اس حرکت پر گھورا مگر وہاں پرواہ کیسے تھی وہ کھلکھلا کر ہنس دی
" چلو کیا یاد رکھوں گی آج ساری شاپنگ میری طرف سے پہلے تم یونیورسٹی جاؤ واپسی میں تمہیں لے جاؤ گا "
"میں کہی نہیں جا رہی آج کا پورا دن میں نے آپ کے ساتھ ہی گزرنا ہے میں یہ روم میں رکھ کر آتی ہوں پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں"
زرشالہ نے جلدی جلدی کہ کر اندار کی طرف ڈور لگائی
"اور ہاں لنچ اور ڈنر آپ کی طرف سے"
زرا کی زرا گردن موڑ کر ایک اور فرمائش کی "اب تم زیادہ فری ناں ہو لڑکی بہت مہنگی ہوتی جارہی ہوں"
زالان نے مصنوعی خفگی سے کہا
"اہو وہ تو بونس میں ملے گا ناں آپ کو تو پتا ہے پیٹ پوچے کے بنا گزرا ممکن نہیں یو نو نہ اس پیٹ کو بھرنے کے لیے لوگ آپ کی طرح دربدر کی خاک چھانتے پھرتے ہیں.... ۔ ویسے ٹینشن مت لے داجی سے ہڑپ کر لوں گی پیسے آپ تو رہے صدا کے غریب"
زرشالہ نے شرارت سے مسکرا کر کہا اور بھاگ کر اندار گئی
"پاگل ...."
زالان اس کی حرکت پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا 
               .........................
حورین نے آج شکر کا سانس لیا آج راستے میں وہ بالو نامی بلا موجود نہیں تھی اس نے جلدی جلدی بڑے بڑے قدم اٹھائے یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچ کر اسے روما کی کال آئی 
"کہاں ہوں تم دونوں"
فون ریسیو کرتے ہی اس نے ادھر ادھر بے بےصبری سے نظریں دوڑائیں وہ دنوں اسے کہی نظر نہیں آرہی تھی 
"یار یہی بتانے کے لیے تمہیں فون کیا ہے یار ہم تیار تھے زالان بھائی آگئے انہیں دیکھ کر زرشالہ صاحبہ نے آنے سے انکار کر دیا"
روما نے اپنا مدعا بیان کیا
"واٹ !روما تم مجھے ابھی بتا رہی ہوں جب کہ میں یونیورسٹی آ چکی ہوں اب کیا کروں گی میں یہاں تم جانتی ہوں میں اکیلے کبھی کالج میں نہیں گئی تم لوگوں کے بغیر "
حورین روہنسی ہو کر بولی 
"سوری یار قسم سے میں بلکل تیار تھی "
"اب میں کیا کروں گی "
حورین نے اس کی بات کاٹ کر غصے سے کہا 
"کچھ نہیں تم بس سارے لیکچر نوٹ کروں گئی کل جب ہم آئے گے تو ہمیں سمجھا دوں گئی "
روما جانتی تھی اگر وہ اس وقت حورین کے سامنے ہوتی تو ضرور اب تک اس کے ہاتھوں قتل ہو گئی ہوتی 
"تم دونوں تو مجھ سے بات ہی مت کروں"
حورین نے غصے میں فون بند کر کے واپس بیگ میں پٹھا 
روما بیچاری ہیلو ہیلو ہی کرتی رہ گئی 
حورین نے پہلے سوچا یہی سے واپس چلی جائے مگر اب اتنااہی گئی تھی تو واپس جانے کا فایدہ نہیں تھا اس لیے وہ اپنے ڈیپاٹمنٹ کی طرف بڑھی البتہ ان دونوں پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا جو این ٹائم پر اس کے ساتھ داغا بازی کر گئے تھے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 ................. 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─