┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد
قسط_نمبر_38
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان آنے کے بعد اسلام آباد اپنی پوسٹنگ کے دوران وہ سکندر عثمان کے گھر پر ہی رہتا رہا۔لاہور آنے کے بعد بھی کسی پوش علاقے میں کوئی بڑا گھر رہائش کے لئے منتخب کرنے کی بجائے اس نے فرقان کی بلڈنگ میں ایک فلیٹ کرائے پر لینے کو ترجیح دی۔
فرقان کے پاس فلیٹ لینے کی ایک وجہ اگر یہ تھی کہ وہ لاہور میں اپنی عدم موجودگی کے دوران فلیٹ کے بارے میں کسی عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوتا تھا تو دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ فلیٹ کی بجائے کوئی گھر لینے پر اسے دو چار ملازم مستقل رکھنے پڑتے جب کہ اس کا بہت کم وقت فلیٹ پر گزرتا تھا۔ فرقان کے ساتھ آہستہ آہستہ لاہور میں اس کا سوشل سرکل بہت وسیع ہونے لگا تھا۔فرقان بہت سوشل آدمی تھا اور اس کا حلقہء احباب بھی خاصا لمبا چوڑا تھا۔وہ سالار کے موڈ اور ٹمپرامنٹ کو سمجھنے کے باوجود اسے وقتاً فوقتاً اپنے ساتھ مختلف جگہوں پر کھینچتا رہتا۔
وہ اس رات فرقان کے ساتھ اس کے کسی ڈاکٹر دوست کی ایک پارٹی اور محفل غزل میں شرکت کے لیے گیا تھا۔وہ ایک فارم پر ہونے والی پارٹی تھی۔اس نے سالار کو مدعو کر لیا اور محفل غزل کا سن کر وہ انکار نہیں کر سکا۔
فارم پر شہر کی ایلیٹ کلاس کا اجتماع تھا۔وہ ان میں سے اکثریت کو جانتا تھا۔وہ اپنے شناسا کچھ لوگوں کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ڈنر چل رہا تھا اور ان ہی باتوں کے دوران اس نے فرقان کی تلاش میں نظر دوڑائی تھی وہ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔سالار ایک بار پھر کھانے میں مصروف ہو گیا۔کھانے کے بعد اسے چند لوگوں کے ساتھ فرقان کھڑا نظر آ گیا۔وہ بھی اس طرف بڑھ آیا۔
"آؤ سالار! میں تمہارا تعارف کرواتا ہوں۔"فرقان نے اس کے قریب آنے پر چند جملوں کے تبادلے کے بعد کہا۔"یہ ڈاکٹر رضا ہیں۔گنگا رام ہاسپٹل میں کام کرتے ہیں۔چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں۔"سالار نے ہاتھ ملایا۔
"یہ ڈاکٹر جلال انصر ہیں۔"سالار کو اس شخص سے تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔فرقان اب کیا کہہ رہا تھا وہ سن نہیں پایا۔اس نے جلال انصر کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔دونوں کے درمیان بہت رسمی سا مصافحہ ہوا۔جلال انصر نے بھی یقیناً اسے پہچان لیا تھا۔
سالار وہاں ایک اچھی شام گزارنے آیا تھا مگر اس وقت اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک اور بری رات گزارنے آیا تھا۔یادوں کا ایک سیلاب تھا جو ایک بار پھر ہر بند توڑ کر اس پر چڑھائی کر رہا تھا۔وہ سب اس طرف جا رہے تھے جہاں بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔اس کے ساتھ اب فرقان تھا۔جلال انصر اب اس سے کچھ آگے دوسرے ڈاکٹرز کے ساتھ تھا۔سالار نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کی پشت کو دیکھا۔
دشتِ تمہائی میں اے جانِ جہاں
لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے
تیرے ہونٹوں کے سراب
اقبال بانو گانا شروع کر چکی تھیں۔
دشتِ تنہائی میں
دوری کے
خس و خاشاک تلے
کھل رہے ہیں
تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
اس کے ارد گرد بیٹھے لوگ اپنا سر دھن رہے تھے۔سالار چند ٹیبلز کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔اسے زندگی میں کبھی کسی شخص کو دیکھ کر رشک نہیں آیا تھا ، اس دن پہلی بار آ رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ گزر جانے کے بعد اس نے فرقان سے کہا۔
"چلیں؟"فرقان نے چونک کر اسے دیکھا۔
"کہاں۔۔۔۔۔؟"
"گھر۔۔۔۔۔۔"
"ابھی تو پروگرام شروع ہوا ہے۔تمہیں بتایا تو تھا ، رات دیر تک یہ محفل چلے گی۔"
"ہاں ، مگر میں جانا چاہتا ہوں۔کسی کے ساتھ بھجوا دو۔تم بعد میں آ جانا۔"
فرقان نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
"تم کیوں جانا چاہتے ہو؟"
"مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے۔"اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"اقبال بانو کو سنتے ہوئے بھی کوئی دوسرا کام یاد آ گیا ہے؟"فرقان نے قدرے ملامتی انداز میں کہا۔
"تم بیٹھو میں چلا جاتا ہوں۔"سالار نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
"عجیب باتیں کرتے ہو۔یہاں سے کیسے جاؤ گے۔فارم اتنا دور ہے۔چلو اگر اتنی ہی جلدی ہے تو چلتے ہیں۔"فرقان بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
میزبان سے اجازت لیتے ہوئے وہ دونوں فرقان کی گاڑی میں آ بیٹھے۔
"اب بتاؤ۔یوں اچانک کیا ہوا ہے؟"گاڑی کو فارم سے باہر لاتے ہوئے فرقان نے کہا۔
"میرا وہاں ٹھہرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔"
"کیوں۔۔۔۔۔؟"سالار نے جواب نہیں دیا۔وہ باہر سڑک کو دیکھتا رہا۔
"وہاں سے اُٹھ آنے کی وجہ جلال ہے؟"
سالار نے بےاختیار گردن موڑ کر فرقان کو دیکھا۔فرقان نے ایک گہرا سانس لیا۔
"یعنی میرا اندازہ ٹھیک ہے۔تم جلال انصر کی وجہ سے ہی فنکشن سے بھاگ آئے ہو۔"
"تمہیں کیسے پتا چلا؟"سالار نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں کہا۔
"تم دونوں بڑے عجیب انداز میں آپس میں ملے تھے۔جلال انصر نے خلافِ معمول تمہیں کوئی اہمیت نہیں دی جب کہ تمہارے جیسی شہرت والے بینکر کے سامنے تو اُس جیسے آدمی کو کھل اٹھنا چاہئیے تھا۔وہ تعلقات بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا ، خود تم بھی مسلسل اُسے دیکھ رہے تھے۔"فرقان بہت آرام سے کہہ رہا تھا۔
"تم جلال انصر کو جانتے ہو؟"
سالار نے گردن سیدھی کر لی۔وہ ایک بار پھر سڑک کو دیکھ رہا تھا۔
"امامہ اسی شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی۔"بہت دیر بعد اس نے مدھم آواز میں کہا۔فرقان کچھ بول نہیں سکا۔اسے توقع نہیں تھی جلال اور سالار کے درمیان اس طرح کی شناسائی ہو گی ، ورنہ وہ شاید یہ سوال کبھی نہ کرتا۔
گاڑی میں بہت دیر خاموشی رہی پھر فرقان نے ہی اس خاموشی کو توڑا۔
"مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی ہے کہ وہ جلال جیسے آدمی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی۔یہ تو بڑا خرانٹ آدمی ہے۔ہم لوگ اس کو "قصائی" کہتے ہیں۔اس کی واحد دلچسپی پیسہ ہے۔مریض کیسے لا کر دے گا ، کہاں سے لا کر دے گا ، اسے دلچسپی نہیں ہوتی۔تم دیکھنا آٹھ سال میں یہ اسی رفتار کے ساتھ پیسہ کماتے ہوئے لاہور کا سب سے امیر ڈاکٹر ہو گا۔"
فرقان اب جلال انصر کے بارے میں تبصرہ کر رہا تھا۔سالار خاموشی سے سن رہا تھا۔جب فرقان نے اپنی بات ختم کر لی تو اس نے کہا۔
"اس کو قسمت کہتے ہیں۔"
"تمہیں اس پر رشک آ رہا ہے؟"فرقان نے قدرے حیرانی سے کہا۔
"حسد تو میں کر نہیں سکتا۔"سالار عجیب سے انداز میں مسکرایا۔"یہ جو کچھ تم مجھے اس کے بارے میں بتا رہے ہو۔یہ سب کچھ مجھے بہت سال پہلے پتا تھا۔تب ہی جب میں امامہ کے سلسلے میں اس سے ملا تھا۔یہ کیسا ڈاکٹر بننے والا تھا ، مجھے اندازہ تھا مگر آج اس فنکشن میں اسے دیکھ کر مجھے اس پر بےتحاشا رشک آیا۔کچھ بھی نہیں ہےاس کے پاس۔معمولی شکل و صورت ہے۔خاندان بھی خاص نہیں ہے۔اس جیسے ہزاروں ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔لالچی ، مادہ پرست بھی ہے مگر قسمت دیکھو کہ امامہ ہاشم جیسی لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہوئی۔اس کے پیچھے خوار ہوتی پھری۔میں اور تم اسے قصائی کہہ لیں ، کچھ بھی کہہ لیں ، صرف ہماری باتوں سے اس کی قسمت تو نہیں بدل جائے گی نہ اس کی نہ میری۔"
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔فرقان نے اس کے چہرے کو دھواں دھواں ہوتے دیکھا۔
"کوئی نہ کوئی خوبی تو ہو گی اس میں کہ۔۔۔۔۔کہ امامہ ہاشم کو اور کسی نہیں صرف اسی سے محبت ہوئی۔"وہ اب اپنی دونوں آنکھوں کو مسل رہا تھا۔
"مجھے اگر پتا ہوتا کہ یہاں تم جلال انصر سے ملو گے تو میں تمہیں کبھی اپنے ساتھ یہاں نہ لاتا۔"فرقان نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا۔
"مجھے بھی اگر یہ پتا ہوتا کہ میں یہاں اس کا سامنا کروں گا تو میں بھی کسی قیمت پر یہاں نہ آتا۔"سالار نے ونڈ اسکرین سے نظر آنے والی تاریک سڑک کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے سوچا۔
کچھ اور سفر بےحد خاموشی سے طے ہوا پھر فرقان نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
"تم نے اسے کبھی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی؟"
"امامہ کو۔۔۔۔۔؟یہ ممکن نہیں ہے۔"
"کیوں؟"
"میں اسے کیسے ڈھونڈ سکتا ہوں۔کئی سال پہلے ایک بار میں نے کوشش کی تھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اب۔۔۔۔۔۔اب تو یہ اور بھی مشکل ہے۔"
"تم نیوز پیپرز کی مدد لے سکتے ہو۔"
"اشتہار دوں اس کے بارے میں؟"سالار نے قدرے خفگی سے کہا۔"وہ تو پتا نہیں ملے یا نہ ملے لیکن اس کے گھر والے مجھ تک ضرور پہنچ جائیں گے۔شک تو ان کو مجھ پر پہلے بھی تھا اور فرض کرو میں ایسا کچھ کر بھی لوں تو نیوز پیپر میں کیا اشتہار دوں۔کیا کہوں؟"اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
"پھر اسے بھول جاؤ۔"فرقان نے بڑی سہولت سے کہا۔
"کوئی سانس لینا بھول سکتا ہے؟"سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔
"سالار! اب بہت سال گزر گئے ہیں۔تم آخر کتنی دیر اس طرح اس لاحاصل عشق میں مبتلا رہو گے۔تمہیں اپنی زندگی کو دوبارہ پلان کرنا چاہئیے۔تم اپنی ساری زندگی امامہ ہاشم کے لئے تو ضائع نہیں کر سکتے۔"
"میں کچھ بھی ضائع نہیں کر رہا ہوں۔نہ زندگی کو ، نہ وقت کو ، نہ اپنے آپ کو۔میں اگر امامہ ہاشم کو یاد رکھے ہوئے ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں اسے بھلا نہیں سکتا۔یہ میرے بس میں نہیں ہے۔مجھے اس کے بارے میں سوچنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن میں اس تکلیف کا عادی ہو چکا ہوں۔وہ میری پوری زندگی کو dominate کرتی ہے۔وہ میری زندگی میں نہ آتی تو میں آج یہاں پاکستان میں تمہارے ساتھ نہ بیٹھا ہوتا۔سالار سکندر کہیں اور ہوتا یا شاید ہوتا ہی نہ۔مجھ پر اس کا قرض بہت ہے۔جس آدمی کے مقروض ہوں اس کو چٹکی سے پکڑ کر اپنی زندگی سے کوئی باہر نہیں کر سکتا۔میں بھی نہیں کر سکتا۔"
سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"فرض کرو دوبارہ نہ ملے پھر۔۔۔۔۔۔؟"فرقان نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔یکلخت گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔بہت دیر بعد سالار نے کہا۔
"میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔کسی اور موضوع پر بات کرتے ہیں۔"اس نے بڑی سہولت سے بات بدل تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چند سالوں میں فرقان کی طرح اس نے بھی گاؤں میں بہت کام کیا تھا اور فرقان کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے کیونکہ فرقان سے برعکس وہ بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا۔اس نے چند سالوں میں اس گاؤں کی حالت بدل کر رکھ دی تھی۔صاف پانی ، بجلی اور بڑی سڑک تک جاتی پختہ سڑک ، اس کے پہلے دو سالوں کی کارکردگی تھی۔تیسرے سال وہاں ڈاک خانہ ، محکمہ وزارت کا دفتر اور فون کی سہولت آئی تھی اور چوتھے سال اس کے اپنے ہائی اسکول میں سہ پہر کی کلاسز میں ایک این جی او کی مدد سے لڑکیوں کے لئے دستکاری سکھانے کا آغاز کیا گیا۔گاؤں کی ڈسپنسری میں ایمبولینس آ گئی۔وہاں کچھ اور مشینری نصب کی گئی۔فرقان کی طرح یہ ڈسپنسری بھی اس نے اپنے وسائل سے اسکول کے ساتھ ہی شروع کی تھی اور اسے مزید بہتر بنانے میں فرقان نے اس کی مدد کی تھی۔
فرقان کے برعکس اس کی ڈسپنسری میں ڈاکٹر کی عدم دستیابی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔اس کی ڈسپنسری کا باقاعدہ آغاز ہونے سے بھی پہلے ایک ڈاکٹر اس کی کوششوں کی وجہ سے وہاں موجود تھا۔
اسکول پر ہونے والے تمام اخراجات تقریباً اسی کے تھے لیکن ڈسپنسری کو قائم کرنے اور اسے چلانے کے لیے ہونے والے اخراجات اس کے کچھ دوست برداشت کر رہے تھے۔یونیسیف میں کام کے دوران بنائے ہوئے کانٹیکٹ اور دوستیاں اب اس کے کام آ رہی تھیں اور وہ انہیں استعمال کر رہا تھا۔وہ یونیسیف اور یونیسکو میں اپنے بہت سے دوستوں کو پاکستان آنے پر وہاں لا چکا تھا۔وہ اب وہاں ووکیشنل ٹریننگ کی پلاننگ کرنے میں مصروف تھا ، مگر چوتھے سال میں صرف یہی کچھ نہیں ہوا تھا کچھ اور بھی ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سکندر عثمان اس دن سہ پہر کے قریب اسلام آباد آتے ہوئے گاڑی کا ٹائر پنکچر ہونے پر سڑک پر رُک گئے تھے۔ڈرائیور ٹائر بدلنے لگا اور وہ سڑک کے اطراف نظریں دوڑانے لگے۔تب ان کی نظر ایک سائن بورڈ پر پڑی۔وہاں لکھے ہوئے گاؤں کے نام نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔سالار سکندر کے حوالے سے وہ نام ان کے لئے نا آشنا نہیں تھا۔
ڈرائیور جب ٹائر بدل کر واپس ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا تو سکندر عثمان نے اس سے کہا۔
"اس گاؤں میں چلو۔"انہیں اچانک ہی تجسس پیدا ہوا تھا۔اس اسکول کے بارے میں جو سالار سکندر پچھلے کئی سالوں سے وہاں چلا رہا تھا۔
پکی سڑک پر تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے دس منٹ میں وہ گاؤں کے اندر موجود تھے۔آبادی شروع ہو چکی تھی۔کچھ کچی پکی دکانیں نظر آنے لگی تھیں۔شاید یہ گاؤں کا "کمرشل ایریا " تھا۔
"یہاں نیچے اتر کر کسی سے پوچھو کہ سالار سکندر کا اسکول کہاں ہے۔"سکندر عثمان نے ڈرائیور کو ہدایت دی۔اس وقت انہیں یاد آیا تھا کہ اس نے کبھی ان کے سامنے اسکول کا نام نہیں لیا تھا اور جہاں ان کی گاڑی موجود تھی وہاں آس پاس کسی اسکول کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔گاؤں کے لوگوں کے لیے چند سال پہلے سکند عثمان کی گاڑی بےحد اشتیاق یا تجسس کا باعث بنتی مگر پچھلے کچھ سالوں میں سالار اور فرقان کی وجہ سے وہاں وقتاً فوقتاً گاڑیوں کی آمد ہوتی رہتی تھی۔یہ پہلے کی طرح ان کے لیے تعجب انگیز نہیں رہی تھی مگر وہ گاڑی وہاں سے ہمیشہ کی طرح گزر جانے کی بجائے جب وہیں کھڑی ہو گئی تو یک دم لوگوں میں تجسس پیدا ہوا۔
سکندر عثمان کی ہدایت پر ڈرائیور نیچے اتر کر پاس کی ایک دکان کی طرف گیا اور وہاں بیٹھے چند لوگوں سے اسکول کے بارے میں پوچھنے لگا۔
"یہاں سالار سکندر صاحب کا کوئی اسکول ہے؟"علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا۔
"ہاں جی ہے۔۔۔۔۔یہ اسی سڑک پر آگے دائیں طرف موڑ مڑنے پر بڑی سی عمارت ہے۔"ایک آدمی نے بتایا۔
"آپ ان کے کوئی دوست ہیں؟"اس آدمی نے جواب کے ساتھ ساتھ سوال بھی کیا۔
"نہیں میں ان کے والد کے ساتھ آیا ہوں۔"
"والد؟"اس آدمی کے منہ سے بےساختہ نکلا اور وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ یک دم سکندر عثمان کی گاڑی کی طرف دیکھنے لگے۔پھر اس آدمی نے اٹھ کر ڈرائیور سے ہاتھ ملایا۔
"سالار صاحب کے والد آئے ہیں بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔"اس آدمی نے کہا اور پھر ڈرائیور کے ساتھ گاڑی کی طرف آنے لگا۔وہاں بیٹھے ہوئے باقی لوگ بھی کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے آئے۔
سکندر عثمان نے دور سے انہیں ایک گروپ کی شکل میں اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ کچھ اُلجھن کا شکار ہو گئے۔ڈرائیور کے پیچھے آنے والے آدمی نے بڑی عقیدت کے ساتھ کھڑکی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔سکندر عثمان نے کچھ تذبذب کے عالم میں اس سے ہاتھ ملایا جب کہ اس آدمی نے بڑے جوش و خروش سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اس سے مصافحہ کیا۔اس کے ساتھ آنے والے دوسرے آدمی بھی اب یہی کر رہے تھے۔سکندر کچھ اُلجھن کے انداز میں ان سے ہاتھ ملا رہے تھے۔
"آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے صاب۔"
پہلے ادھیڑ عمر آدمی نے عقیدت بھرے انداز میں کہا۔
"آپ کے لیے چائے لائیں یا پھر بوتل۔۔۔۔۔"وہ آدمی اسی جوش و خروش سے پوچھ رہا تھا۔ڈرائیور اب گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔
"نہیں۔۔۔۔۔کوئی ضرورت نہیں۔بس راستہ ہی پوچھنا تھا۔"انہوں نے جلدی سے کہا۔
ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔وہ آدمی اور اس کے ساتھ کھڑے دوسرے لوگ وہیں کھڑے گاڑی کو آگے جاتے دیکھتے رہے پھر اس آدمی نے قدرے مایوسی سے سر ہلایا۔
"سالار صاحب کی اور بات ہے۔"
"ہاں سالار صاحب کی اور ہی بات ہے۔وہ کبھی کچھ کھائے پئیے بغیر یہاں سے اس طرح جاتے تھے۔"ایک دوسرے آدمی نے تائید کی۔وہ لوگ اب واپس قدم بڑھانے لگے۔
سالار گاؤں میں موجود ان چند دکانوں کے پاس ہی اپنی گاڑی کھڑی کر دیا کرتا تھااور پھر وہاں موجود لوگوں سے ملتے ان کی پیش کردہ چھوٹی موٹی چیزیں کھاتا پیتا وہاں سے پیدل دس منٹ میں اپنے اسکول چلا جاتا تھا۔وہ لوگ مایوس ہوئے تھے۔سکندر عثمان نے تو گاڑی سے اترنے تک کا تکلف نہیں کیا تھا ، کھانا پینا تو دور کی بات تھی۔
گاڑی اب موڑ مڑ رہی تھی اور موڑ مڑتے ہی ڈرائیور سے مزید کچھ کہتے کہتے سکندر عثمان خاموش ہو گئے۔پچھلی سیٹ پر بیٹھے ونڈ اسکرین کے پار نظر آنے والی وسیع و عریض عمارت ان چھوٹے چھوٹے کچے پکے مکانوں اور کھلے کھیتوں کے درمیان دور سے بھی حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی تھی۔سکندر کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ وہاں اتنا بڑا اسکول چلا رہا تھا مگر ان کو دم بخود اس اسکول کی دور تک پھیلی ہوئی عمارت نے نہیں کیا تھا بلکہ اسکول کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر لگے اس سائن بورڈ نے کیا جس پر تیر کے ایک نشان کے اوپر جلی حروف میں اردو تحریر تھا۔سکندر عثمان ہائی اسکول ، ڈرائیور گاڑی اسکول کے سامنے روک چکا تھا۔
سکندر عثمان نے گاڑی سے اتر کر اس عمارت کے گیٹ کے پار عمارت کے ماتھے پر چمکتے ہوئے اپنے نام کو دیکھا ، ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیر گئی۔سالار سکندر نے ایک بار پھر انہیں کچھ بولنے کے قابل نہیں رکھا تھا۔گیٹ بند تھا مگر اس کے دوسری طرف چوکیدار موجود تھا جو گاڑی کو وہاں رُکتے دیکھ کر گیٹ کھول رہا تھا۔ڈرائیور جب تک گاڑی سے اترا چوکیدار باہر آ گیا۔
"صاحب شہر سے آئے ہیں ذرا اسکول دیکھنا چاہتے ہیں۔"ڈرائیور نے چوکیدار سے کہا۔سکندر عثمان ہنوز اس اسکول پر لگے اپنے نام کو دیکھ رہے تھے۔
"سالار صاحب کے حوالے سے آئے ہیں؟"چوکیدار نے پوچھا۔
"نہیں۔۔۔۔۔"ڈرائیور نے بلا توقف کہا۔"ویسے آئے ہیں۔"سکندر عثمان نے پہلی بار اپنی نظریں ہٹا کر ڈرائیور اور پھر چوکیدار کو دیکھا۔
"میں سالار سکندر کا باپ ہوں۔"سکندر عثمان نے مستحکم مگر بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ڈرائیور نے حیرانی سے ان کو دیکھا۔چوکیدار ایک دم بوکھلا گیا۔
"آپ۔۔۔۔۔آپ سکندر عثمان صاحب ہیں؟"سکندر کچھ کہے بغیر میکانکی انداز میں گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ شام کو جاگنگ ٹریک پر تھا جب موبائل پر سکندر عثمان کی کال آئی۔اپنی بےترتیب سانس پر قابو پاتے ہوئے وہ جاگنگ کرتے کرتے رُک گیا اور ٹریک کے پاس ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔
"ہیلو پاپا! السلام علیکم۔"
"وعلیکم السلام۔۔۔۔۔ٹریک پر ہو؟"انہوں نے اس کے پھولے ہوئے سانس سے اندازہ لگایا۔
"جی۔۔۔۔۔آپ کیسے ہیں؟"
"میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔"
"ممی کیسی ہیں؟"
"وہ بھی ٹھیک ہیں۔"سالار ان کی طرف سے کچھ مزید کہنے یا پوچھنے کا انتظار کرتا رہا۔دوسری طرف اب خاموشی تھی پھر چند لمحوں کے بعد وہ بولے۔
"میں آج تمہارا اسکول دیکھ کر آیا ہوں۔"
"رئیلی۔۔۔۔۔!” سالار نے بےساختہ کہا۔
"کیسا لگا آپ کو؟"
"تم نے یہ سب کیسے کیا ہے سالار؟"
"کیا۔۔۔۔۔؟"
"وہ سب کچھ جو وہاں پر ہے۔"
"پتا نہیں۔بس ہوتا گیا۔مجھے پتا ہوتا تو میں آپ کو خود ساتھ لے جاتا۔کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟"سالار کو تشویش ہوئی۔
"وہاں سالار سکندر کے باپ کو کوئی پرابلم ہو سکتی ہے؟"انہوں نے جواباً کہا۔سالار جانتا تھا وہ سوال نہیں تھا۔
"تم کس طرح کے آدمی ہو سالار؟"
"پتا نہیں۔۔۔۔۔آپ کو پتا ہونا چاہئیے ، میں آپ کا بیٹا ہوں۔"
"نہیں مجھے۔۔۔۔۔ مجھے تو کبھی بھی پتا نہیں چل سکا۔"سکندر کا لہجہ عجیب تھا۔سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔
"مجھے بھی کبھی پتا نہیں چل سکا۔میں تو اب بھی اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔"
"تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔سالار ایک انتہائی احمق ، کمینے اور خبیث انسان ہو۔"سالار ہنسا۔
"آپ ٹھیک کہتے ہیں ، میں واقعی ایسا ہوں۔۔۔۔۔اور کچھ۔۔۔۔۔؟"
"اور۔۔۔۔۔یہ کہ میں بڑا خوش قسمت ہوں کہ تم میری اولاد ہو۔"سکندر عثمان کی آواز لرز رہی تھی۔اس بار چپ ہونے کی باری سالار کی تھی۔
"مجھے اس اسکول کے ہر ماہ کے اخراجات کے بارے میں بتا دینا۔میری فرم ہر ماہ اس رقم کا چیک تمہیں بھجوا دیا کرے گی۔"
اس سے پہلے کہ سالار کچھ کہتا فون بند ہو چکا تھا۔سالار نے پارک میں پھیلی تاریکی میں ہاتھ میں پکڑے موبائل کی روشن اسکرین کو دیکھا۔پھر جاگنگ ٹریک پر لگی روشنیوں میں وہاں دوڑتے لوگوں کو کچھ دور وہ وہیں بیٹھا خالی الذہنی کے عالم میں ان لوگوں کو دیکھتا رہا پھر اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ٹریک پر آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رمشہ سے سالار کی پہلی ملاقات لاہور آنے کے ایک سال بعد ہوئی تھی۔وہ لندن اسکول آف اکنامکس کی گریجویٹ تھی اور سالار کے بینک میں اس کی تعیناتی ہوئی تھی۔اس کے والد بہت عرصے سے اس بینک کے کسٹمرز میں سے تھے اور سالار انہیں ذاتی طور پر جانتا تھا۔
رمشہ بہت خوبصورت ، ذہین اور خوش مزاج لڑکی تھی اور اس نے وہاں آنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی ہر ایک سے خاصی بےتکلفی پیدا کر لی تھی۔ایک کولیگ کے طور پر سالار کے ساتھ بھی اچھی سلام دعا تھی اور کچھ اس کے والد کے حوالے سے بھی وہ اس کی خاصی عزت کرتا تھا۔بینک میں کام کرنے والی چند دوسری لڑکیوں کی نسبت رمشہ سے اس کی کچھ زیادہ بےتکلفی تھی۔
لیکن سالار کو قطعی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ کس وقت رمشہ نے اسے کچھ زیادہ سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا۔وہ سالار کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھنے لگی تھی۔وہ اس کے آفس میں بھی زیادہ آنے جانے لگی تھی اور آفس کے بعد بھی اکثر اوقات اسے کال کرتی رہتی۔سالار کو چند بار اس کا رویہ کچھ خلافِ معمول لگا لیکن اس نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے شبہات کو جھٹک دیا مگر اس کا یہ اطمینان پورے ایک سال کے بعد ایک واقعے کے ساتھ رخصت ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار صبح آفس میں داخل ہوا اور داخل ہوتے ہی چونک گیا۔اس کی ٹیبل پر ایک بہت بڑا اور خوبصورت بکے پڑا ہوا تھا۔اپنا بریف کیس ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے وہ بکے اٹھا کر اس پر موجود کارڈ کھولا۔
"ہیپی برتھ ڈے ٹو سالار سکندر۔"
رمشہ ہمدانی۔
سالار نے بےاختیار ایک گہرا سانس لیا۔اس میں کوئی شک نہیں تھا آج اس کی سالگرہ تھی مگر رمشہ یہ کیسے جانتی تھی وہ کچھ دیر کسی سوچ میں گُم ٹیبل کے پاس کھڑا رہا پھر اس نے بکے ٹیبل پر ایک طرف رکھ دیا۔اپنا کوٹ اتار کر اس نے ریوالونگ چئیر کی پشت پر لٹکایا اور چئیر پر بیٹھ گیا۔بکے کے نیچے ٹیبل پر بھی ایک کارڈ پڑا ہوا تھا۔اس نے بیٹھنے کے بعد اس کارڈ کو کھولا۔چند لمحے تک وہ اس میں لکھی ہوئی تحریر پڑھتا رہا پھر کارڈ بند کر کے اس نے اپنی دراز میں رکھ دیا۔وہ نہیں جانتا تھا اس کارڈ اور بکے پر کس ردِ عمل کا اظہار کرے ، چند لمحے وہ کچھ سوچتا رہا پھر اس نے کندھے جھٹک کر اپنا بریف کیس کھولنا شروع کر دیا۔وہ اس میں سے اپنا لیپ ٹاپ نکال کر بریف کیس کو نیچے کارپٹ پر اپنی ٹیبل کے ساتھ رکھ رہا تھا جب رمشہ اندر داخل ہوئی۔
"ہیپی برتھ ڈے سالار۔"اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
سالار مسکرایا۔
"تھینکس۔۔۔۔۔"رمشہ اب ٹیبل کے سامنے پڑی کرسی کھینچ کر بیٹھ رہی تھی ، جب کہ سالار لیپ ٹاپ کو کھولنے میں مصروف تھا۔
"بکے اور کارڈ کے لیے بھی شکریہ۔یہ ایک خوشگوار سرپرائز تھا۔"
سالار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا وہ اب اپنا فون لیپ ٹاپ کے ساتھ اٹیچ کرنے میں مصروف تھا۔
"مگر تمہیں میری برتھ ڈے کے بارے میں پتا کیسے چلا؟"وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
"جناب یہ تو میں نہیں بتاؤں گی۔بس پتا چلانا تھا۔چلا لیا۔"رمشہ نے شگفتگی سے کہا۔"اور ویسے بھی دوست آپس میں یہ سوال نہیں کرتے۔اگر دوستوں کو ایسی چیزوں کا بھی پتہ نہیں ہوگا تو پھر وہ دوست تو نہیں ہوئے۔"
سالار لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں جمائے مسکراتے ہوئے اس کی بات سنتا رہا۔
"اب میں سارے اسٹاف کی طرف سے پارٹی کی ڈیمانڈ کے لیے آئی ہوں۔آج کا ڈنر تمہیں ارینج کرنا چاہئیے۔"سالار نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔
"رمشہ! میں اپنی برتھ ڈے سیلیبریٹ نہیں کرتا۔"
"کیوں۔۔۔۔۔۔؟"
"ویسے ہی۔۔۔۔۔۔"
"کوئی وجہ تو ہو گی۔۔۔۔۔۔؟"
"کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔بس میں ویسے ہی سیلیبریٹ نہیں کرتا۔"
"پہلے نہیں کرتے ہو گے مگر اس بار تو کرنی پڑے گی۔اس بار تو سارے اسٹاف کی ڈیمانڈ ہے۔"رمشہ نے بےتکلفی سے کہا۔
"میں کسی بھی دن آپ سب لوگوں کو کھانا کھلا سکتا ہوں۔میرے گھر پر ، ہوٹل میں ، جہاں آپ چاہیں مگر میں برتھ ڈے کے سلسلے میں نہیں کھلا سکتا۔"سالار نے صاف گوئی سے کہا۔
"یعنی تم چاہتے ہو ہم تمہارے لیے پارٹی ارینج کر دیں۔"رمشہ نے کہا۔
"میں نے ایسا نہیں کہا۔"وہ کچھ حیران ہوا۔
"اگر تم پورے اسٹاف کو پارٹی نہیں بھی دے سکتے تو کم از کم مجھے ڈنر پر تو لے جا سکتے ہو۔"
"رمشہ! میں آج رات کچھ مصروف ہوں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ۔"سالار نے ایک بار پھر معذرت کی۔
"کوئی بات نہیں میں بھی آ جاؤں گی۔"رمشہ نے کہا۔
"نہیں یہ مناسب نہیں ہو گا۔"
"کیوں۔۔۔۔۔؟"
"وہ سب مرد ہیں اور تم ان سے واقف بھی نہیں ہو۔"اس نے بہانا بنایا۔
"میں سمجھتی ہوں۔"رمشہ نے کہا۔
"پھر کل چلتے ہیں؟"
"کل نہیں۔۔۔۔۔پھر کبھی چلیں گے۔میں تمہیں بتا دوں گا۔"
رمشہ کچھ مایوس ہوئی مگر اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ اسے فی الحال باہر کہیں لے جانے کا ارداہ نہیں رکھتا۔
"اوکے۔۔۔۔۔"وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
"مجھے اُمید ہے ، تم نے مائنڈ نہیں کیا ہو گا۔"سالار نے اُسے اٹھتے دیکھ کر کہا۔
"نہیں بالکل نہیں۔It’s alright” وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔سالار اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔اس کا خیال تھا سالگرہ کا وہ معاملہ وہیں ختم ہو گیا۔یہ اس کی غلط فہمی تھی۔
لنچ آور کے دوران اس کے لیے ایک سرپرائز پارٹی تیار تھی۔اس کے باس مسٹر پال ملر نے بڑی گرم جوشی سے سالگرہ پر مبارک باد دی تھی۔وہ پارٹی رمشہ نے ارینج کی تھی اور کیک اور دوسرے لوازمات کو دیکھتے ہوئے وہ پہلی بار صحیح معنوں میں تشویش میں مبتلا ہوا تھا اگر پہلے رمشہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی پسندیدگی ظاہر کر رہی تھی تو اس دن اس نے بہت واضح انداز میں یہ بات ظاہر کر دی تھی۔وہ لنچ آور کے بعد تقریباً آدھ گھنٹہ اپنے آفس میں بیٹھا پہلی بار رمشہ کے بارے میں سوچتا رہا۔وہ اندازہ کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس سے کون سی ایسی غلطی ہوئی تھی، جس سے رمشہ کو اس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت خوبصورت تھی۔پچھلے کچھ عرصے میں ملنے والی چند اچھی لڑکیوں میں سے ایک تھی مگر وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس میں انوالو ہونے لگے۔وہ پچھلے کچھ عرصے سے رمشہ کے اپنے لیے خاص روئیے کو اس کی خوش اخلاقی سمجھ کر ٹالتا رہا تھا ، مگر اس دن آفس سے نکلتے ہوئے اس کی طرف سے دئیے جانے والے چند پیکٹس کو گھر جا کر کھولنے پر اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔وہ ابھی ان تحائف کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو رہا تھا ، جب فرقان آ گیا۔ڈرائنگ روم میں پڑے وہ پیکٹس فوراً اس کی نظر میں آ گئے۔
"واؤ ، آج تو خاصے تحائف اکٹھے ہو رہے ہیں۔دیکھ لوں؟"فرقان نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
سالار نے صرف سر ہلایا ، گھڑی ، پرفیومز ، ٹائیاں ، شرٹس ، وہ یکے بعد دیگرے ان چیزوں کو نکال نکال کر دیکھتا رہا۔
"یہ تمہاری بری کا سامان اکٹھا نہیں ہو گیا؟"فرقان نے مسکراتے ہوئے تبصرہ کیا۔"خاصا دل کھول کر گفٹس دئیے ہیں تمہارے کولیگز نے۔"
"صرف ایک کولیگ نے۔"سالار نے مداخلت کی۔
"یہ سب کچھ ایک نے دیا ہے؟"فرقان کچھ حیران ہوا۔
"ہاں۔"
"کس نے؟"
"رمشہ نے۔"فرقان نے اپنے ہونٹ سکوڑے۔
"تم جانتے ہو یہ سب گفٹس ایک ڈیڑھ لاکھ کی رینج میں ہوں گے۔"وہ اب دوبارہ ان چیزوں پر نظر ڈال رہا تھا۔
"صرف یہ گھڑی ہی پچاس ہزار کی ہے۔کوئی صرف کولیگ سمجھ کر تو اتنی مہنگی چیزیں نہیں دے گا۔تم لوگوں کے درمیان کوئی۔۔۔۔۔۔"فرقان بات کرتے کرتے رُک گیا۔
"ہم دونون کے درمیان کچھ نہیں ہے۔کم از کم میری طرف سے ، مگر آج میں پہلی بار پریشان ہو گیا ہوں۔مجھے لگتا ہے کہ رمشہ۔۔۔۔۔۔مجھ میں کچھ ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔"سالانے نے ان چیزوں پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
"بہت اچھی بات ہے۔چلو تم میں بھی کسی لڑکی نے دلچسپی لی۔"فرقان نے ان پیکٹس کو واپس سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
"ویسے بھی تم بہت کنوارے رہ لیے۔لگے ہاتھوں اس سال یہ کام کر لو۔"
"جب مجھے شادی ہی نہیں کرنی تو میں اس سلسلے کو آگے کیوں بڑھاؤں۔"
"سالار دن بہ دن تم بہت impractical کیوں ہوتے جا رہے ہو؟تمہیں اب سیٹل ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے۔ہر لڑکی سے کب تک اس طرح بھاگتے پھرو گے۔تمہیں اپنی ایک فیملی شروع کر لینی چاہئیے۔رمشہ اچھی لڑکی ہے۔میں اس کی فیملی کو جانتا ہوں۔کچھ ماڈرن ضرور ہے مگر اچھی لڑکی ہے اور چلو اگر رمشہ نہیں تو پھر تم کسی اور کے ساتھ شادی کر لو۔میں اس سلسلے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔تم اپنے پیرنٹس کی مدد لے سکتے ہو مگر اب تمہیں اس معاملے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے۔تمہیں ان تمام باتوں کے بارے میں غور کرنا چاہئیے اور کم از کم دوسرے کی بات پر کچھ کہہ ضرور دینا چاہئیے۔"
فرقان نے آخری جملے پر زور دیتے ہوئے کہا اس کا اشارہ اس کی خاموشی کی طرف تھا۔
"اس سے دوسرے کو یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ وہ کسی مجمعے کے سامنے تقریر نہیں کرتا رہا۔"فرقان نے کہا۔
"تم کبھی اپنی شادی کے بارے میں سوچتے نہیں ہو؟"
"کون اپنی شادی کے بارے میں نہیں سوچتا؟"سالار نے مدھم آواز میں کہا۔"میں بھی سوچتا ہوں مگر میں اس طرح نہیں سوچتا جس طرح تم سوچتے ہو۔چائے پیو گے؟"
"آخری جملے کے بجائے تمہیں کہنا چاہئیے تھا کہ بکواس بند کرو۔"
فرقان نے ناراضی سے کہا۔سالار نے مسکرا کر کندھے اچکا دئیے وہ اب چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے 

─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─