┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_26
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر عثمان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد وہ ساری رات اس تمام معاملے کے بارے میں سوچتا رہا۔ پہلی بار اسے ہلکا سا افسوس اور پچھتاوا ہوا تھا۔اسے امامہ ہاشم کو اس کے کہنے پر فوراً طلاق دے دینی چاہئیے تھی پھر شاید وہ جلال کے پاس چلی جاتی اور وہ دونوں شادی کر لیتے۔امامہ کے لیے بےحد ناپسندیدگی رکھنے کے باوجود اس نے پہلی بار اپنی غلطی تسلیم کی۔ 
"اس نے دوبارہ مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔وہ طلاق لینے کے لیے کورٹ نہیں گئی۔اس کے خاندان والے بھی ابھی تک اسے ڈھونڈ نہیں سکے۔وہ جلال انصر کے پاس بھی نہیں گئی تو پھر آخر وہ گئی کہاں ، کیا اس کے ساتھ کوئی حادثہ۔۔۔۔۔؟"
وہ پہلی بار بہت سنجیدگی سے ، کسی ناراضی یا غصے کے بغیر اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
"یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ مجھ سے اتنی شدید نفرت اور ناپسندیدگی رکھنے کے بعد میری بیوی کے طور پر کہیں خاموشی کی زندگی گزار رہی ہو ، پھر آخر کیا وجہ ہے کہ امامہ کسی کے ساتھ بھی دوبارہ رابطہ نہیں کر رہی۔ اب تک جب ایک سال سے زیادہ گزر گیا ہے کیا وہ واقعی حادثے کا شکار ہو گئی ہے؟کیا حادثہ پیش آ سکتا ہے اسے۔۔۔۔۔؟
اس کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی ذہنی رو ایک بار پھر بہکنے لگی۔
"اگر کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔وہ اپنے رسک پر گھر سے نکلی تھی اور حادثہ تو کسی کو کسی بھی وقت پیش آ سکتا ہے پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے؟پاپا ٹھیک کہتے ہیں جب میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا تجسس بھی نہیں رکھنا چاہئیے۔خاص طور پر ایک ایسی لڑکی کے بارے میں جو اس حد تک احسان فراموش ہو جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتی ہو اور جو مجھے اتنا گھٹیا سمجھتی ہو اس کے ساتھ جو بھی ہوا ہو گا ٹھیک ہی ہوا ہو گا وہ اسی قابل تھی۔"
اس نے اس کے بارے میں ہر خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
کچھ دیر پہلے کی تاسف آمیز سنجیدگی وہ اب محسوس نہیں کر رہا تھا نہ ہی اسے کسی قسم کے پچھتاوے کا احساس تھا۔ وہ ویسے بھی چھوٹی موٹی باتوں پر پچھتانے کا عادی نہیں تھا۔ اس نے سکون کے عالم میں آنکھیں بند کر لیں اس کے ذہن میں اب دور دور تک کہیں امامہ ہاشم کا تصور موجود نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"کبھی Van dame گئے ہو؟"اس دن یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے مائیک نے سالار سے پوچھا۔
"ایک دفعہ۔"
"کیسی جگہ ہے؟"مائیک نے سوال کیا۔
"بری نہیں ہے۔"سالار نے تبصرہ کیا۔
"اس ویک اینڈ پر وہاں چلتے ہیں۔"
"کیوں۔۔۔۔۔؟"میری گرل فرینڈ کو بہت دلچسپی ہے اس جگہ میں۔۔۔۔۔وہ اکثر جاتی ہے۔"مائیک نے کہا۔
"تو تمہیں تو پھر اس کے ساتھ ہی جانا چاہئیے۔"سالار نے کہا۔
"نہیں سب لوگ چلتے ہیں ، زیادہ مزہ آئے گا۔"مائیک نے کہا۔
"سب لوگوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟"اس بار دانش نے گفتگو میں حصہ لیا۔
"جتنے دوست بھی ہیں ۔۔۔۔۔سب۔۔۔۔۔! "
"میں ، سالار ، تم ، سیٹھی اور سعد ۔"
"سعد کو رہنے دو۔۔۔۔۔۔وہ نائٹ کلب کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگانے لگے گا یا پھر ایک لمبا چوڑا وعظ دے گا۔"سالار نے مداخلت کی۔
"تو پھر ٹھیک ہے ہم لوگ ہی چلتے ہیں۔"دانش نے کہا۔
"سینڈرا کو بھی انوائیٹ کر لیتے ہیں۔"سالار نے اپنی گرل فرینڈ کا نام لیا۔
اس ویک اینڈ پر سب وہاں گئے اور تین چار گھنٹوں تک انہوں نے وہاں خوب انجوائے کیا۔اگلے روز سالار صبح دیر سے اٹھا۔وہ ابھی لنچ کی تیاری کر رہا تھا جب سعد نے اسے فون کیا۔
"ابھی اٹھے ہو؟"سعد نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
"ہاں دس منٹ پہلے۔۔۔۔۔"
"رات کو دیر تک باہر رہے ہو گے۔اس لئے۔۔۔۔۔"سعد نے اندازہ لگایا۔
"ہاں۔۔۔۔۔ہم لوگ باہر گئے ہوئے تھے۔"سالار نے دانستہ طور پر نائٹ کلب کا نام نہیں لیا۔
"ہم لوگ کون۔۔۔۔۔؟تم اور سینڈرا؟"
"نہیں پورا گروپ ہی۔"سالار نے کہا۔
"پورا گروپ۔۔۔۔۔؟مجھے لے کر نہیں گئے۔میں مر گیا تھا؟"سعد نے چڑ کر کہا۔
"تمہارا خیال ہی نہیں آیا ہمیں۔"سالار نے اطمینان سے کہا۔
"بہت گھٹیا آدمی ہو تم سالار ، بہت ہی گھٹیا۔۔۔۔۔یہ دانش بھی گیا تھا؟"
"ہم سب مائی ڈئیر ، ہم سب۔۔۔۔۔"سالار نے اسی اطمینان کے ساتھ کہا۔
"مجھے کیوں نہیں لے کر گئے تم لوگ ! " سالار کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
"تم ابھی بچے ہو۔۔۔۔۔ہر جگہ بچوں کو لے کر نہیں جا سکتے۔"سالار نے شرارت سے کہا۔
"میں ابھی آ کر تمہاری ٹانگیں توڑتا ہوں ، پھر تمہیں اندازہ ہو گا کہ یہ بچہ بڑا ہو گیا ہے۔"
"مذاق نہیں کر رہا یار ۔۔۔۔۔ہم نے تمہیں ساتھ جانے کو اس لیے نہیں کہا کیونکہ تم جاتے ہی نہیں۔"اس بار سالار واقعی سنجیدہ ہوا۔
"کیوں تم لوگ دوزخ میں جا رہے تھے کہ میں وہاں نہ جاتا۔"سعد کے غصے میں کوئی کمی نہیں آئی۔
"کم از کم تم اسے دوزخ ہی کہتے ہو۔ہم لوگ نائٹ کلب گئے ہوئے تھے اور تم کو وہاں نہیں جانا تھا۔"
"کیوں مجھے وہاں کیوں نہیں جانا تھا۔"سعد کے جواب نے سالار کو کچھ حیران کیا۔
"تم ساتھ چلتے؟"
"آف کورس۔۔۔۔۔"
مگر تمہیں وہاں جاکر کیا کرنا تھا۔ نہ تم ڈرنک کرتے ہو، نہ ڈانس کرتے ہو۔۔۔۔۔ پھر وہاں جاکر تم کیا کرتے۔۔۔۔۔ ہمیں نصیحتیں کرتے۔"
"ایسی بات نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ڈرنک اور ڈانس نہیں کرتا، مگر آؤٹنگ تو ہوجاتی ہے۔ میں انجوائے کرتا۔" سعد نے کہا۔
"مگر ایسی جگہوں پر جانا اسلام میں جائز نہیں ہے؟" سالار نےچبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ سعد چند لمحے کچھ کہہ نہیں سکا۔
"میں وہاں کوئی غلط کام کرنے تو نہیں جارہا تھا۔ تم سے کہہ رہا ہوں صرف آؤٹنگ کی غرض سے جاتا۔" چند لمحوں بعد اس نے قدرے سنبھلتے ہوئے کہا۔
"اوکے!اگلی بار ہمارا پروگرام بنے گا تو تمہیں بھی ساتھ لے لیں گےبلکہ مجھے پہلے پتہ ہوتا تو کل رات بھی تمہیں ساتھ لے لیتا ہم سب نے واقعی بہت انجوائے کیا۔" سالار نے کہا۔
"چلو اب میں کر بھی کیا کرسکتا ہوں۔ خیر آج کیا کر رہے ہو؟" سعد اب اس سے معمول کی باتیں کرنے لگا۔ دس پندرہ منٹ تک ان دونوں کے درمیان
گفتگو ہوتی رہی پھر سالار نے فون بند کردیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم اس ویک اینڈ پر کیا کرہے ہو؟ اس دن سعد نے سالار سے پوچھا۔ وہ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں موجود تھے۔
"میں اس ویک اینڈ پر نیویارک جارہا ہوں، سینڈرا کے ساتھ۔"سالار نے اپنا پروگرام بتایا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟" سعد نے وچھا۔
"اس کے بھائی کی شادی ہے۔ مجھے انوائٹ کیا ہے اس نے۔"
"واپس کب آؤ گے؟"
"اتوار کی رات کو۔"
"تم ایسا کرو کہ اپنے اپارٹمنٹ کی چابی مجھے دے جاؤ۔ میں دو دن تمہارے اپارٹمنٹ پر گزاروں گا۔ کچھ اسائمنٹس ہیں جو مجھے تیار کرنے ہیں اور اس ویک اینڈ پر وہ چاروں ہی گھر ہوں گے ۔ وہاں بڑا رش ہو گا میں تمہارے اپارٹمنٹ میں اطمینان سے پڑھ لوں گا۔" سعد نے کہا۔
"اوکے تم میرے اپارٹمنٹ میں رہ لینا۔" سالار نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
اسے سینڈرا کے ساتھ جمعہ کی رات کو نکلنا تھا۔ سالار کا بیگ اس کی گاڑی کی ڈگی میں تھا۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ سینڈرا کو عین آخری وقت میں چند کام نبٹانے پڑ گئے اور وہ جو سر شام نکلنے کا ارادہ کئے بیٹھ تھے ان کا پروگرام ہفتے کی صبح تک ملتوی ہوگیا۔ سینڈرا پے انگ گیسٹ کے طور پر کہیں رہتی تھی اور وہ اس کے پاس رات نہیں گزار سکتا تھا۔ اسے اپنے پارٹمنٹ واپس آنا پڑا۔
رات کو تقریباً گیارہ بجے سینڈرا کو اس کی رہائش گاہ پر ڈراپ کرنے کے بعد اپارٹمنٹ چلا آیا۔ اس نے سعد کو ایک چابی دی تھی۔ دوسری چابی اس کے پاس ہی تھی وہ جانتا تھا کہ سعد اس وقت بیٹھا پڑھ رہا ہوگا مگر اس نے اسے ڈسٹرب کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ اپارٹمنٹ کا بیرونی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا ، لونگ روم کی لائٹ آن تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا تھا وہ اپنے بیڈروم میں جانا چاہتا تھا مگر بیڈ روم کے دروازے پر ہی رُک گیا۔
بیڈ روم کا دروازہ بند تھا مگر اس کے باوجود اندر سے اُبھرنے والے قہقہے اور باتوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔ سعد کے ساتھ اندر کوئی عورت تھی۔ وہ جامد ہوگیا۔ اس کے گروپ میں صرف سعد تھا جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ کسی لڑکی کے ساتھ اس کے تعلقات نہیں تھے۔وہ جتنا مذہبی آدمی تھا اس سے یہ توقع کی ہی نہیں جاسکتی تھی وہ اندر داخل نہیں ہوا۔قدرے بے یقینی سے واپس مڑگیا اور تب اس کی نظر لونگ روم کی ٹیبل پر رکھی بوتل اور گلاس پر پڑی ، وہاں سے کچن کاؤنٹر جہاں کھانے کے برتن ابھی تک پڑے تھے۔ وہ مزید وہاں رُکے بغیر اسی طرح خاموشی سے وہاں سے نکل آیا۔
اس کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ سعد وہاں کسی لڑکی ساتھ رہنے کے لئے آیا تھا۔ بالکل نا قابل یقین۔ جو شخص حرام گوشت نہ کھاتا ہو۔ شراب نہ پیتا ہو پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہ،و ہر وقت اسلام کی بات کرتا رہتا ہو، دوسروں کو اسلام کی تبلیغ کرتا ہو، وہ کسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔۔ اپارٹمنٹ کے دروازے کو باہر سے بند کیے ہوئے اسی طرح شاک کے عالم میں تھا۔ بوتل اور گلاس ظاہر کر رہے تھے کہ اس نے پی بھی ہوئی ہےاور شاید کھانا وغیرہ بھی کھایا ہوگا۔ اسی فریزراور کچن میں جہاں کا وہ پانی تک پینے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا۔ اسے ہنسی آرہی تھی جو اپنے آپ کو جتنا اچھا اور سچا مسلمان ظاہر کرنے یا بننے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے وہ اتنا بڑا فراڈ ہوتا ہے ایک یہ شخص تھا جو یوں ظاہر کرتا تھا جیسے پورے امریکہ میں ایک ہی مسلمان ہے اور ایک لڑکی امامہ تھی۔ جو ٹینٹ جتنی بڑی چادر اوڑھتی تھی اور کردار اس کا یہ تھا کہ ایک لڑکے کے لئے گھر سے بھاگ گئی۔۔۔۔۔ اور بنتے پھرتے ہیں سچے مسلمان۔" نیچے اپنی گاڑی میں آکر بیٹھتے ہوئے اس نے کچھ تنفر سے سوچا۔"منافقت اور جھوٹ کی حد ان پر ختم ہوجاتی ہے۔"
وہ گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہوئے بڑ بڑا رہا تھا اس وقت وہ سینڈرا کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے دانش کے پاس واپس جانے کا فیصلہ کیا وہ اسے دیکھ کر حیران ہوا۔ سالار نے بہانہ بنادیا کہ وہ بور ہورہا تھا اس لئے اس نے دانش کے پاس آنے اور رات وہاں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ دانش مطمئن ہوگیا۔
اتوار کی رات کو جب وہ واپس نیو ہیوں اپنے اپارٹمنٹ آیا تو سعد وہاں نہیں تھا، اس کے فلیٹ میں کہیں بھی ایسے آثار نہیں تھے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ وہاں کوئی عورت آئی تھی، وائن کی وہ بوتل بھی اسے کہیں نہیں ملی۔ وہ زیر لب مسکراتا ہوا پورے اپارٹمنٹ کا تفصیلی جائزہ لیتا رہا۔ وہاں موجو د ہر چیز ویسے ہی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ سالار نے اپنا سامان رکھنے کے بعد سعد کو فون کیا۔ کچھ دیر رسمی باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ موضوع پر آگیا۔
"پھر اچھی رہی تمہاری اسٹڈیز۔۔۔۔۔ اسائمنٹ بن گئے۔؟
"ہاں یار! میں تو دو دن اچھا خاصا پڑھتا رہا، اسائمنٹس تقریبا ً مکمل کرلی ہیں۔ تم بتاؤتمہارا ٹرپ کیسا رہا؟" سعد نے جواباً پوچھا۔
"بہت اچھا۔۔۔۔۔"
"کتنی دیر میں پہنچ گئے تھے وہاں ، رات کو سفر کرتے ہوئے کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟"
سعد نے سرسری سے لہجے میں پوچھا۔
"نہیں رات کو سفر نہیں کیا؟"
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کے فرائیڈے کی رات کو نہیں سیٹرڈے کی صبح گئے تھے ہم لوگ وہاں۔" سالار نے بتایا۔
" تم پھر سینڈ را کی طرف رہے تھے۔؟"
"نہیں دانش کے پاس۔"
"کیوں یہاں آجاتے اپنے اپارٹمنٹ پر۔"
"آیا تھا۔" سالار نے بڑے اطمینان سے کہا۔
دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔ سالار دل ہی دل میں ہنسا۔ سعد کے پیروں نیچے سے یقیناً اس وقت زمین نکل گئی تھی۔
"آئے تھے۔۔۔۔۔؟ کب۔۔۔۔۔؟ اس بار وہ بے اختیار ہکلایا۔
"گیارہ بجے کے قریب۔۔۔۔۔ تم اس وقت کسی لڑکی کے ساتھ مصروف تھے۔ میں نے تم لوگوں کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لئے وہاں سے واپس آگیا۔"
وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ سعد پر اس وقت سکتہ طاری ہوچکا ہوگا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ سالار اس طرح اس کا بھانڈا پھوڑ دے گا۔
"ویسے تم نے کبھی اپنی گرل فرینڈ سے ملوایا نہیں۔" اس نے مزید کہا۔ سعد کو سانس لینے میں جتنی دقت ہورہی ہوگی وہ اندازہ کرسکتا تھا۔
"بس ویسے ہی ملوادوں گا۔" اس نے دوسری طرف سے بے حد مدھم اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"مگر تم کسی اور سے اس کا ذکر مت کرنا۔" اس نے ایک ہی سانس میں کہا۔
"میں کیوں ذکر کروں گا، تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔"
سالار اس کی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ اسے اس وقت سعد پر کچھ ترس آرہا تھا۔
اس رات سعد نے چند منٹوں بعد ہی فون رکھ دیا۔ سالار کو اس کی شرمندگی کا اچھی طرح اندازہ تھا۔
اس واقعے کے بعد سالار کا خیال تھا کہ سعد دوبارہ کبھی اس کے سامنےاپنی مذہبی عقیدت اور وابستگی کا ذکر نہیں کرے گا مگر اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ سعد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ اب بھی اسی شدومد سے مذہب پر بات کرتا۔ دوسروں کو ٹوک دیتا۔ نصیحتیں کرتا۔ نماز پڑھنے کی ہدایت دیتا۔ صدقہ ، خیرات دینے کے لئے کہتا۔ اللہ سے محبت کے بارے میں گھنٹوں بولنے کے لئے تیار رہتا اور ،مذہب کے بارے میں بات کر رہا ہوتا تو کسی آیت یا حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے۔
اس کے گروپ کے لوگوں کے ساتھ اور بہت سے لوگ سعد سے بہت متاثر تھے اور اسکے کردار سے بہت مرعوب ۔۔۔۔۔ اور اللہ سے اس کی محبت پر رشک کا شکار ، ایک مثالی مسلم۔۔۔۔۔ جوانی کی مصروف زندگی میں بھی۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ سعد بات کرنا جانتا تھا اس کا انداز بیاں بے حد متاثر کن تھا۔ اور اس کے شناسا لوگوں میں صرف سالار تھا، جس پر اس کی نصیحت کوئی اثر نہیں کرتی تھی جو اس سے ذرہ برابر متاثر نہیں تھا اور نہ ہی کسی رشک کا شکار۔ جسے سعد کی داڑھی اس کے دین لئے استقامت کا یقین دلانے میں کامیاب ہوئی تھی نہ ہی دوسروں کے لئے اس کا ادب واحترام اس کا نرم انداز گفتگو۔
امامہ سے مذہبی لوگوں کے لئے اس کی نا پسندید گی کا آغاز ہوا تھا۔ جلال سے اسے آگے بڑھایا تھا اور سعد نے اسے انتہا پر پہنچا دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مذہبی لوگوں سے بڑھ کر منافق کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ داڑھی رکھنے والا مرد اور پر دہ کرنے والی عورت کسی بھی قسم کی بلکہ ہر قسم کی برائی کا شکار ہوتے ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ جو خود کو مذہبی نہیں کہتے۔ 
اتفاق سے ملنے والے تینوں لوگوں نے اس یقین کو مستحکم کیا ۔ امامہ ہاشم پردہ کرنے والی لڑکی اور ایک لڑکے کے لئے اپنے منگیتر ، اپنے خاندان اپنے گھر کو چھوڑ کر رات میں فرار ہوجانے والی لڑکی۔
جلال انصر۔۔۔۔۔ ڈاڑھی والا مرد، حضور ﷺ کی محبت میں سرشار ہو کر نعتیں پڑھنے والا اور ایک لڑکی سے افئیر چلانے والا اور پھر اسے بیچ راستے میں چھوڑ کر ایک طرف ہوجانے والا ، پھر دین الگ دنیا الگ کر بات کرنے ولا۔ سعد ظفر کے بارے میں اس کی رائے ایک اور واقعہ سے اور خراب ہوئی۔
وہ ایک دن اس کے اپارٹمنٹ پر آیا ہوا تھا۔ سالار اس وقت کمپیوٹر آن کئے اپنا کام کرتے ہوئے اس سے باتیں کرنے لگا۔ پھر اسے کچھ چیزین لانے کے لئے اپارٹمنٹ سے قریبی مارکیٹ جانا پڑا اور اسے پیدل وہاں آنے جانے اور شاپنگ کرنے میں تیس منٹ لگے تھے۔ سعد اس کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ جب سالار واپس آیا تو سعد کمپیوٹر پر چیٹنگ میں مصروف تھا۔ وہ کچھ دیر مزید اس کے پاس بیٹھا گپ شپ کرتا رہا پھر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد سالار نے لنچ کیا اور ایک بار پھر کمپیوٹر پر آکر بیٹھ گیا۔
وہ بھی کچھ دیر چیٹنگ کرنا چاہتا تھا اور یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس نے لاشعوری طور پر کمپیوٹر چلاتے ہوئے اس کی ہسٹری دیکھی۔ وہاں ان ویب سائٹس اور پیجز کی کچھ تفصیلات تھیں جو کچھ دیر پہلے اس نے یا سعد نے دیکھی تھیں۔
سعد نے جن چند ویب سائٹس کو دیکھا تھا وہ بیہودہ تھیں ۔ اسے اپنے یا کسی دوسرے دوست کے ان پیجز دیکھنے یا ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر حیرت نہ ہوتی نہ اعتراض ۔ وہ خود ایسی ویب سائٹس کا وزٹ کرتا رہتا تھا مگر سعد کے ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر اسے حیرت ہوئی تھی۔ اس کی نظروں میں وہ کچھ اور نیچے آگیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"پھر تمہاری کیا پلاننگ ہے؟ پاکستان آنےکا ارادہ ہے"
وہ اس دن فو ن پر سکندر سے بات کررہا تھا۔ سکندر نے اسے بتایا تھا کہ وہ طیبہ کے ساتھ کچھ ہفتوں کے لئے آسٹریلیا جارہے ہیں۔ انہیں وہاں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ہونے والی شادی کی کچھ تقریبا میں شرکت کرنی تھی۔
آپ دونوں وہاں نہیں ہوں گے تو میں پاکستان آکر کیا کروں گا۔" اسے مایوسی ہوئی۔
"یہ کیا بات ہوئی ۔ تم بہن بھائیوں سے ملنا، انیتا تمہیں بہت مس کر رہی ہے۔ سکندر نے کہا۔
پاپا!میں ادھر ہی چھٹیاں گزاروں گا۔ پاکستان آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔"
"تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہمارے ساتھ آسٹریلیا چلو، معیز بھی جارہا ہے۔" انہوں نے اس کے بڑے بھائی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"میرا دماغ خراب نہیں ہے کہ میں اس طرح منہ اٹھا کر آپ کے ساتھ آسٹریلیاچلوں۔ معیز کے ساتھ میری کون سی انڈر اسٹینڈنگ ہے، جو آپ مجھے اس کے جانے کا بتارہے ہیں۔" اس نے خاصی بیزاری کے ساتھ کہا۔
"میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا اگر تم وہیں رہنا چاہتے ہو تو ایسا ہی سہی بس اپنا خیال رکھنا اور دیکھو سالار کوئی غلط کام مت کرنا۔"
انہوں نے اسے تنبیہ کی ۔ وہ اس غلط کام کی نوعیت کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا اور وہ یہ جملہ سننے کا عادی ہوچکا تھا کہ اب اگر سکندر ہر بار فون بند کرنے سے پہلے اس سے یہ جملہ نہ کہتے تو اسے حیرت ہوتی۔
سکندر سے بات کرنے کے بعد اس نے فون کرکے اپنی سیٹ کینسل کروادی۔ فون کا ریسیور رکھنے کے بعد صوفے پر چت لیٹا چھت کو گھورتے ہوئے وہ یونیورسٹی بند ہونے کے بعد کے کچھ ہفتوں کی مصروفیات کے بارے میں سوچتا رہا۔
"مجھے چند دن سکینگ کے لئے کہیں جانا چاہیے یا پھر کسی دوسری اسٹیٹ کو وزٹ کرنا چاہیے۔" وہ منصوبہ بنانے لگا۔"ٹھیک ہے میں کل یونیورسٹی سے آکے کسی آپریٹر سے ملوں گا۔ باقی کا پرواگرام وہیں طے کروں گا۔" اس نے فیصلہ کا۔
اگلے دن اس نے ایک دوست کے ساتھ مل کر سکینگ کے لئے جانے کا پروگرام طے کرلیا۔ اس نے سکندر اور اپنے بڑے بھائی کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتادیا۔
چھٹیاں شروع ہونے سے ایک دن پہلے اس نے ایک انڈین ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا وہ کھانا کھانے کے بعد بھی کافی دیر وہاں بیٹھا رہا پھر وہ ایک قریبی پب میں چلا گیا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے دوران اس نے وہاں کچھ پیگ پئے۔
رات دس بجے کے قریب ڈرائیونگ کرتے ہوئے اسے اچانک متلی ہونے لگی۔ گاڑی روک کر وہ کچھ دیر کے لئے سڑک کے گرد پھیلے ہوئے سبزے پر چلنے لگا سرد ہوا اور خنکی نے کچھ دیر کے لیے اسے نارمل کردیا مگر چند منٹوں کے بعد ایک بار پھر اسے متلی ہونے لگی۔ اسے اب اپنے سینے اور پیٹ میں ہلکا ہلکا درد بھی محسوس ہورہا تھا۔
یہ کھانے کا اثر تھا یا پیگ کا۔ فوری طور پر اسے کچھ اندازہ نہیں ہوا۔ اب اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔ یک دم جھکتے ہوئے اس نے بے اختیارقے کی اور پھر چند منٹ اسی طرح جھکا رہا۔ معدہ خالی ہوجانے کے بعد بھی اس کو اپنی حالت بہتر محسوس نہیں ہوئی۔ سیدھا کھڑے رہنےکی کوشش میں اس کے پیر لڑکھڑا گئے۔ اس نے مڑ کر کر اپنی گاڑی کی طرف جانے کی کوشش کی مگر اس کا سر اب پہلے سے زیادہ چکرا رہا تھا۔ چند گز دور کھڑی گاڑی کو دیکھنے میں بھی اسے دقت ہورہی تھی۔ اس نے بمشکل چند قدم اٹھائے مگر گاڑی کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی وہ چکرا کر زمین پر گر پڑا اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا جارہا تھا ۔مکمل طور پر ہوش کھونے سے پہلے اس نے کسی کو اپنے آپ کو جھنجھوڑتے محسوس کیا۔ کوئی بلند آواز میں اس کے قریب کچھ کہہ رہا تھا۔ آوازیں ایک سے زیادہ تھیں۔
سالار نے اپنے سر کو جھٹکنے کی کوشش کی ۔ وہ پورے سر کو حرکت نہیں دے سکا۔ اس کی آنکھیں کھولنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ وہ اب مکمل طور پر تاریکی میں جاچکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─