┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_25
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار پچھلی رات ایک فاسٹ فوڈ outlet سے اپنا پسندیدہ برگر لے کر آیا تھا۔وہ فریج میں پڑا تھا۔سعد نے اسے نکال لیا۔
"اسے رکھ دو ، یہ تم نہ کھانا۔"سالار نے جلدی سے کہا۔
"کیوں؟"سعد نے مائیکروویو کی طرف جاتے ہوئے پوچھا۔
"اس میں پورک (سؤر کا گوشت) ہے۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"مذاق مت کرو۔"سعد ٹھٹک گیا۔
"اس میں مذاق والی کون سی بات ہے۔"سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔سعد نے جیسے پھینکنے والے انداز میں پلیٹ شیلف پر رکھ دی۔
"تم پورک کھاتے ہو؟"
"میں پورک نہیں کھاتا۔میں صرف یہ برگر کھاتا ہوں کیونکہ یہ مجھے پسند ہے۔"سالار نے برنر جلاتے ہوئے کہا۔
"تم جانتے ہو ، یہ حرام ہے؟"
"اسلام میں؟"
"ہاں ! "
"اور پھر بھی ؟"
"اب تم پھر وہی تبلیغی وعظ شروع مت کرنا ، میں صرف پورک ہی نہیں کھاتا ، ہر قسم کا گوشت کھا لیتا ہوں۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔وہ اب فریج کی طرف جا رہا تھا۔
"مجھے یقین نہیں آ رہا۔"
"خیر اس میں ایسی بےیقینی والی کیا بات ہے۔یہ کھانے کے لیے ہی ہوتا ہے۔"وہ اب فریج میں پڑے دودھ کے پیکٹ کو نکال رہا تھا۔
"ہر چیز کھانے کے لیے نہیں ہوتی۔"سعد کچھ تلملایا۔"ٹھیک ہے تم زیادہ مذہبی نہ سہی مگر مسلمان تو ہو اور اتنا تو تم جانتے ہی ہو گے کہ پورک اسلام میں حرام ہے ، کم از کم ایک مسلمان کے لیے۔"سالار خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہا۔
"میرے لئے کچھ مت بنانا ، میں نہیں کھاؤں گا۔"سعد یک دم کچن سے نکل گیا۔
"کیوں؟"سالار نے مڑ کر اسے دیکھا۔سعد واش بیسن کے سامنے کھڑا صابن سے ہاتھ دھو رہا تھا۔
"کیا ہوا؟"سالار نے اس سے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
سعد نے جواب میں کچھ نہیں کہا وہ اسی طرح کلمہ پڑھتے ہوئے ہاتھ دھوتا رہا۔سالار چھبتی ہوئی نظروں سے ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا۔ہاتھ دھونے کے بعد اس نے سالار سے کہا۔
"میں تو اس فریج میں رکھی کوئی چیز نہیں کھا سکتا ، بلکہ تمہارے برتنوں میں بھی نہیں کھا سکتا۔اگر تم یہ برگر کھا لیتے ہو تو اور بھی کیا کچھ نہیں کھا لیتے ہو گے۔چلو باہر چلتے ہیں ، وہیں جا کر کچھ کھاتے ہیں۔"
"یہ بہت انسلٹنگ ہے۔"سالار نے قدرے ناراضی سے کہا۔
"نہیں ، انسلٹ والی تو کوئی بات نہیں ہے۔بس میں یہ حرام گوشت نہیں کھانا چاہتا اور تم اس معاملے میں پرہیز کے عادی نہیں ہو۔"سعد نے کہا۔
"میں نے تمہیں یہ گوشت کھلانے کی کوشش نہیں کی۔تم نہیں کھاتے ، اس لیے میں نے وہ برگر پکڑتے ہی تمہیں منع کر دیا۔"سالار نے کہا۔"مگر تم کو تو شاید کوئی فوبیا ہو گیا ہے۔تم اس طرح ری ایکٹ کر رہے ہو جیسے میں نے اپنے پورے فلیٹ میں اس جانور کو پالا ہوا ہے اور رات دن ان ہی کے ساتھ رہتا ہوں۔"سالار ناراض سا ہو گیا۔
"چلو باہر چلتے ہیں۔"سعد نے اس کی ناراضی کو ختم کرتے ہوئے کہا۔
"باہر چل کر کچھ کھائیں گے تو میں بل پے نہیں کروں گا ، تم کرو گے۔"سالار نے کہا۔
"ٹھیک ہے ، میں کر دوں گا ، نو پرابلم۔تم چلو۔"سعد نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
"اور اگلی دفعہ تم میرے اپارٹمنٹ پر آتے ہوئے گھر سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آنا۔"سالار نے قدرے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔
"اچھا لے آؤں گا۔"سعد نے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس ویک اینڈ پر جھیل کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔اس کی طرح بہت سے لوگ وہاں پھر رہے تھے۔وہ کچھ دیر اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد ایک بینچ پر آ کر بیٹھ گیا۔بہت لاپرواہی سے ایک آئس کریم اسٹک کھاتے ہوئے وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے میں مصروف تھا جب اس کی توجہ تین سال کے ایک بچے نے اپنی طرف مبذول کر لی۔وہ بچہ ایک فٹ بال کے پیچھے دوڑ رہا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر سیاہ حجاب اوڑھے ایک لڑکی کھڑی تھی جو مسکراتے ہوئے اس بچے کو دیکھ رہی تھی۔وہ وہاں موجود بہت سے ایشین میں سے ایک تھی مگر حجاب میں ملبوس واحد لڑکی تھی۔وہ لاشعوری طور پر اسے دیکھے گیا۔وہ بچہ فٹ بال کو پاؤں سے ٹھوکر لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی بینچ کی طرف آ گیا تھا۔ایک اور ٹھوکر نے بال کو سیدھا سالار کی طرف بھیج دیا۔کسی غیر ارادی عمل کے تحت سالار نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپنے دائیں پاؤں میں پہنے ہوئے جاگر کی مدد سے اس بال کو روکا اور پھر پاؤں ہٹایا نہیں بلکہ اسی طرح فٹ بال پر ہی رکھا مگر اس بار اس کی نظر اس لڑکی کی بجائے اس بچے پر تھی جو تیز رفتاری سے اس بال کے پیچھے اس کی طرف آیا تھا۔
اس کے بالکل پاس آنے کی بجائے وہ کچھ دُور رک گیا۔شاید وہ توقع کر رہا تھا کہ سالار بال کو اس کی طرف لڑھکا دے گا مگر سالار اسی طرح فٹ بال پر ایک پاؤں رکھے بائیں ہاتھ سے آئس کریم کھاتے ہوئے دور کھڑی اس لڑکی کو دیکھتا رہا۔شاید اسے توقع تھی کہ اب وہ قریب آئے گی۔ایسا ہی ہوا تھا۔کچھ دیر تک اسے فٹ بال نہ چھوڑتے دیکھ کر وہ لڑکی کچھ حیرانی سے آگے اس کی طرف آئی تھی۔
"یہ فٹ بال چھوڑ دیں۔"
اس نے قریب آ کر بڑی شائستگی سے کہا۔سالار چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے فٹ بال سے اپنا پاؤں اٹھایا اور وہیں بیٹھے بیٹھے فٹ بال کو ایک زور دار کک لگائی۔
فٹ بال اڑتے ہوئے بہت دور جا گری۔کک لگانے کے بعد اس نے اطمینان سے اس لڑکی کو دیکھا۔اس کا چہرا اب سُرخ ہو رہا تھا جبکہ وہ بچہ ایک بار پھر اس فٹ بال کی طرف بھاگتا جا رہا تھا جو اب کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔اس لڑکی نے زیرِلب اس سے کچھ کہا اور پھر واپس مڑ گئی۔سالار اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو سن یا سمجھ نہیں سکا مگر اس کے سُرخ چہرے اور تاثرات سے وہ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتا تھا کہ وہ کوئی خوشگوار الفاظ نہیں تھے۔اسے اپنی حرکت پر شرمندگی بھی ہوئی مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی وہ لڑکی امامہ سے مشابہت رکھتی تھی۔
وہ لمبے سے سیاہ کوٹ میں سیاہ حجاب اوڑھے ہوئے تھی۔دراز قد اور بہت دُبلی پتلی تھی۔بالکل امامہ کی طرح۔اس کی سفید رنگت اور سیاہ آنکھیں بھی اسے امامہ جیسی ہی محسوس ہوئی تھیں۔امامہ بہت لمبی چوڑی چادر میں خود کو چھپائے رکھتی تھی۔وہ حجاب نہیں لیتی تھی مگر اس کے باوجود اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے اسے اس کا خیال آیا تھا اور لاشعوری طور پر اس نے وہ نہیں کیا جو وہ لڑکی چاہتی تھی۔شاید اسے کسی حد تک یہ تسکین ہوئی تھی کہ اس نے امامہ کی بات نہیں مانی مگر۔۔۔۔۔وہ امامہ نہیں تھی۔
"آخر کیا ہو رہا ہے مجھے ، اس طرح تو۔۔۔۔۔"اس نے حیران ہوتے ہوئے سوچا۔وہ جیب میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگانے لگا۔سگریٹ کے کش لیتے ہوئے وہ ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو اپنے بچے کو فٹ بال کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔سالار اسے دیکھ رہا تھا اور اس کے علاوہ ہر شے سے بےنیاز نظر آ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس رات وہ کافی دیر تک امامہ کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔اس کے اور جلال انصر کے بارے میں اسے یقین تھا اب تک وہ دونوں شادی کر چکے ہوں گے ، کیونکہ اپنا نکاح نامہ سکندر سے حاصل کرنے کے بعد وہ یہ جان چکی ہو گی کہ طلاق کا حق پہلے ہی اس کے پاس تھا۔اسے اس سلسلے میں سالار کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔یہ جاننے کے باوجود کہ جلال انصر اس کے کہنے پر بھی امامہ سے شادی پر تیار نہیں ہوا تھا اسے پھر بھی نہ جانے کیوں یہ یقین تھا کہ جلال انصر ایک بار امامہ کے پاس پہنچ جانے پر اسے انکار نہیں کر سکا ہو گا۔اس کی منت سماجت پر وہ مان گیا ہو گا۔
امامہ اس کے مقابلے میں بہت خوبصورت تھی اور امامہ کا خاندان ملک کے طاقت ور ترین خاندانوں میں سے ایک تھا۔کوئی احمق ہی ہو گا جو جلال انصر جیسی حیثیت رکھتے ہوئے امامہ کو سونے کی چڑیا نہ سمجھتا ہو یا پھر ہو سکتا ہے وہ واقعی امامہ کی محبت میں مبتلا ہو جو بھی تھا اسے یقین تھا کہ وہ دونوں شادی کر چکے ہوں گے اور پتا نہیں کس طرح ہاشم مبین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چھپنے میں کامیاب ہوئے ہوں گے یا یہ بھی ممکن ہے کہ ہاشم مبین نے اب تک انہیں ڈھونڈ نکالا ہو۔
"مجھے پتا تو کرنا چاہئیے اس بارے میں۔"اس نے سوچا اور پھر اگلے ہی لمحے خود کو جھڑکا۔"فارگاڈ سیک سالار ! دفع کرو اسے ، جانے دو ، کیوں خوامخواہ اس کے پیچھے پڑ گئے ہو۔یہ جان کر آخر کیا مل جائے گا کہ ہاشم مبین اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔"اس نے بےاختیار خود کو جھڑکا مگر اس کا تجسس ختم نہیں ہوا۔
"واقعی میں نے یہاں آنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ ہاشم مبین اب تک اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔"اسے حیرانی ہو رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میرا نام وینس ایڈورڈ ہے۔"
وہ لڑکی اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی تھی۔وہ اس وقت لائبریری کی بک شیلف سے ایک کتاب نکال رہا تھا ، جب وہ اس کے قریب آئی تھی۔
"سالار سکندر ! "اس نے وینس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
"میں جانتی ہوں ، تمہیں تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔"
وینس نے بڑی گرم جوشی سے کہا۔سالار نے اسے یہ نہیں کہا کہ اسے بھی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔وہ اپنی کلاس کے پچاس کے پچاس لوگوں کو ان کے نام سے جانتا اور پہچانتا تھا۔نہ صرف یہ بلکہ وہ بریف بائیوڈیٹا بھی بغیر اٹکے کسی غلطی کے بتا سکتا تھا۔جیسے وہ اس وقت وینس کو یہ بتا کر حیران کر سکتا تھا کہ وہ نیو جرسی سے آئی تھی۔وہاں وہ سال ایک ہیوریج کمپنی میں کام کرتی رہی تھی۔اس کے پاس مارکیٹنگ میں ایک ڈگری تھی اور وہ اب دوسری ڈگری کے لیے وہاں آئی تھی اور وہ اس سے کم از کم چھ سات سال بڑی تھی۔اگرچہ اپنے قدوقامت سے سالار اس سے بہت بڑا لگتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ اس وقت اپنے بیچ میں سب سے کم عمر تھا۔اپنے بیچ میں صرف وہی تھا جو کسی قسم کی جاب کیے بغیر سیدھا ایم بی اے کے لیے آیا تھا۔باقی سب کے پاس کہیں نہ کہیں کچھ سال کام کرنے کا تجربہ تھا مگر اس وقت وینس کو یہ سب کچھ بتانا اسے خوش فہمی کا شکار کرنے کے مترادف تھا۔
"اگر میں آپ کو کافی کی دعوت دوں تو؟"وینس نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا۔
"تو میں اسے قبول کر لوں گا۔"
وہ اس کی بات پر ہنسی۔"تو پھر چلتے ہیں ، کافی پیتے ہیں۔"سالار نے کندھے اُچکائے اور کتاب کو دوبارہ شیلف میں رکھ دیا۔
کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر وہ دونوں تقریباً آدھہ گھنٹہ تک ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔یہ وینس کے ساتھ اس کی شناسائی کا آغاز تھا۔سالار کے لیے کسی لڑکی کے ساتھ تعلقات بڑھانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔وہ یہ کام بہت آسانی سے کر لیا کرتا تھا۔اس بار مزید آسانی یہ تھی کہ پہل وینس کی طرف سے ہوئی تھی۔
تین چار ملاقاتوں کے بعد اس نے ایک رات وینس کو اپنے فلیٹ پر رات گزارنے کے لیے انوائٹ کر لیا تھا اور وینس نے کسی تامل کے بغیر اس کی دعوت قبول کر لی۔وہ دونوں یونیورسٹی کے بعد اکٹھے بہت ہی جگہوں پر پھرتے رہے۔سالار کے فلیٹ پر ان کی واپسی لیٹ نائٹ ہوئی تھی۔
وہ کچن میں اپنے اور اس کے لیے گلاس تیار کرنے لگا جبکہ وینس نے بےتکلفی سے اِدھر اُدھر پھرتے ہوئے اس کے اپارٹمنٹ کا جائزہ لے رہی تھی پھر وہ اس کے قریب آ کر کاؤنٹر کے سامنے کھڑی ہو گئی۔"بہت اچھا اپارٹمنٹ ہے تمہارا۔میں سوچ رہی تھی کہ تم اکیلے رہتے ہو تو اپارٹمنٹ کا حلیہ خاصا خراب ہو گا مگر تم نے تو ہر چیز بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔تم ایسے ہی رہتے ہو یا یہ اہتمام خاص میرے لیے کیا گیا ہے۔"
سالار نے ایک گلاس اس کے آگے رکھ دیا۔"میں ایسے ہی رہتا ہوں ، قرینے اور طریقے سے۔"اس نے گھونٹ بھرا اور گلاس دوبارہ کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے وہ وینس کے قریب چلا آیا اس نے اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔وینس مسکرا دی۔سالار نے اسے اپنے کچھ اور قریب کیا اور پھر یک دم ساکت ہو گیا۔اس کی نظریں وینس کی گردن کی زنجیر میں جھولتے اس موتی پر پڑی تھیں ، جسے آج اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔سردی کے موسم کی وجہ سے وینس بھاری بھرکم سویٹرز اور جیکٹس پہنا کرتی تھی۔اس نے ایک دو بار اس کے کھلے کالر سے نظر آنے والی اس زنجیر کو دیکھا تھا مگر اس زنجیر میں لٹکا ہوا وہ موتی آج پہلی بار اس کی نظروں میں آیا تھا کیونکہ آج پہلی بار وینس ایک گہرے گلے کی شرٹ میں ملبوس تھی۔وہ اس شرٹ کے اوپر ایک سویٹر پہنے ہوئے تھی جسے اس نے سالار کے اپارٹمنٹ میں آ کر اُتار دیا تھا۔
اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ایک جھماکے کے ساتھ وہ موتی اسے کہیں اور۔۔۔۔۔کہیں بہت پیچھے ۔۔۔۔۔کسی اور کے پاس لے گیا تھا۔۔۔۔۔مسح کرتے ہاتھ اور انگلیاں ۔۔۔۔۔ہاتھ اور کلائی۔۔۔۔۔کلائی سے کہنی تک کا سفر کرتی انگلیاں۔۔۔۔۔آنکھوں سے پیشانی۔۔۔۔۔پیشانی سے سفید چادر کے نیچے سیاہ بالوں پر پھسلتے ہوئے ہاتھ۔۔۔۔۔
امامہ کی گردن کے گرد موجود زنجیر تنگ تھی۔اس میں لٹکنے والا موتی اس کی ہنسلی کی ہڈی کے بالکل ساتھ جھولتا تھا۔زنجیر تھوڑی سی بھی لمبی ہوتی تو وہ اسے دیکھ نہ پاتا۔اس رات وہ بہت تنگ گلے کی شرٹ اور سویٹر میں ملبوس تھی۔اس موتی کو دیکھتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لیے مفلوج ہو گیا۔
وہ اسے کس وقت یاد آئی تھی۔اس نے موتی سے نظریں چُرانے کی کوشش کی۔وہ اپنی رات خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس نے وینس کو دیکھ کر دوبارہ مسکرانے کی کوشش کی۔وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
"مجھے تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت لگتی ہیں۔"
"مجھے تمہاری آنکھوں سے گھن آتی ہے۔"
کسی آواز نے اسے ایک چابک مارا تھا اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہو گئی۔وینس کے وجود سے اپنے بازو ہٹاتے ہوئے وہ چند قدم پیچھے مڑا اور کاؤنٹر پر پڑا ہوا گلاس اٹھا لیا۔وینس ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیا ہوا؟"وہ چند قدم آگے بڑھ آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ تشویش سے پوچھا۔
سالار نے کچھ کہے بغیر ایک ہی سانس میں خالی کیا۔وینس اس کے جواب نہ دینے پر اب کچھ اُلجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔
وینس میں اس کی دلچسپی ختم ہونے میں صرف چند منٹ لگے تھے۔وہ نہیں جانتا اسے کیوں اس کے وجود سے اُلجھن ہونے لگی تھی۔وہ پچھلے دو گھنٹے ایک نائٹ کلب میں اس کے ساتھ ڈانس کرتا رہا تھا اور وہ اس کے ساتھ بےحد خوش تھا اور اب چند منٹوں میں۔۔۔۔۔۔"
سالار نے اپنے کندھے جھٹکے اور سنک کی طرف چلا گیا۔وہ اپنا گلاس دھونے لگا۔وینس دوسرا گلاس لے کر اس کے پاس چلی آئی۔سالار نے اس سے گلاس لے لیا۔وہ اپنے سینے پر دونوں بازو لپیٹے اس کے بالکل پاس کھڑی اسے دیکھتی رہی۔سالار کو اس کی نظروں سے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔
"میں ۔۔۔۔۔میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔"
گلاس کو شیلف پر رکھتے ہوئے اس نے وینس سے کہا۔وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔وہ بالواسطہ طور پر اسے وہاں سے جانے کے لیے کہہ رہا تھا۔وینس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔سالار کا رویہ بےحد توہین آمیز تھا۔وہ چند لمحے اسے گھورتی رہی پھر تیزی کے ساتھ اپنا سویٹر اور بیگ اٹھا کر اپارٹمنٹ کا دروازہ دھماکے سے بند کر کے باہر نکل گئی۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
وینس اور امامہ میں کہیں کسی قسم کی کوئی مشابہت نہیں تھی۔دونوں کی گردنوں میں موجود موتی بھی بالکل ایک جیسا نہیں تھا اس کے باوجود اس وقت اس کی گردن میں جھولتے اس موتی کو دیکھ کر بےاختیار وہ یاد آئی تھی۔کیوں۔۔۔۔۔؟اب پھر کیوں۔۔۔۔۔؟آخر اس وقت کیوں۔۔۔۔۔؟وہ بےحد مشتعل ہو رہا تھا۔اس کی وجہ سے اس کی رات خراب ہو گئی تھی ، اس نے سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا ایک کرسٹل کا گلدان اُٹھایا اور پوری قوت سے اسے دیوار پر دے مارا۔
ویک اینڈ کے بعد وینس سے اس کی دوبارہ ملاقات ہوئی ، لیکن وہ اس سے بڑے روکھے اور اکھڑے ہوئے انداز میں ملا۔یہ اس سے تعلقات شروع کرنے سے پہلے ہی ختم کرنے کا واحد راستہ تھا۔اسے ہر اس عورت سے جھنجلاہٹ ہوتی تھی جو اسے کسی بھی طرح سے امامہ کی یاد دلاتی اور وینس ان عورتوں میں شامل ہو گئی تھی۔وینس جو اس کی طرف سے کسی معذرت اور اگلی دعوت کا انتظار کر رہی تھی وہ اس کے اس رویے سے بری طرح دلبرداشتہ ہوئی تھی۔Yale میں یہ اس کا پہلا افئیر تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے چند ماہ وہ پڑھائی میں بےحد مصروف رہا ، اتنا مصروف کہ امامہ کو یاد رکھنے اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کو کل پر ٹالتا رہا شاید یہ سلسلہ ابھی چلتا رہتا اگر اس شام اچانک اس کی ملاقات جلال انصر سے نہ ہو جاتی۔
وہ ویک اینڈ پر بوسٹن گیا ہوا تھا جہاں اس کے چچا رہتے تھے وہ وہاں اپنے ایک کزن کی شادی اٹینڈ کرنے آیا تھا۔
اس شام سالار اپنے کزن کے ہمراہ تھا جو ایک ریسٹورنٹ چلا رہا تھا۔وہ وہاں کھانا کھانے آیا ہوا تھا۔اس کا کزن آرڈر دینے کے بعد کسی کام سے اٹھ کر گیا تھا۔سالار کھانے کا انتظار کر رہا تھا جب کسی نے اس کا نام لے کر پکارا۔
"ہیلو۔۔۔۔۔! " سالار نے بےاختیار مڑ کر اسے دیکھا۔
"آپ سالار ہیں؟"اس آدمی نے پوچھا۔
وہ جلال انصر تھا۔اسے پہچاننے میں لحظہ بھر کے لیے دقت اس لیے ہوئی تھی کیونکہ اس کے چہرے سے اب داڑھی غائب تھی۔
سالار نے کھڑے ہو کر اس سے ہاتھ ملایا۔ایک سال پہلے کا ایڈونچر ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے جلال کو رسماً کھانے کی دعوت دی۔
"نہیں ، مجھے ذرا جلدی ہے۔بس آپ پر اتفاقاً نظر پڑ گئی تو آ گیا۔"جلال نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
"امامہ کیسی ہے؟"جلال نے بات کرتے کرتے اچانک کہا۔سالار کو لگا وہ اس کا سوال ٹھیک سے سن نہیں سکا۔
"سوری۔۔۔۔۔"اس نے معذرت خواہانہ انداز میں استفسار کیا۔جلال نے اپنا سوال دُہرایا۔
"میں امامہ کا پوچھ رہا تھا۔وہ کیسی ہے؟"
سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔وہ امامہ کے بارے میں اس سے کیوں پوچھ رہا تھا۔
"مجھے نہیں پتا یہ تو آپ کو پتا ہونا چاہئیے۔"اس نے کچھ اُلجھتے ہوئے انداز میں کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
اس بار جلال حیران ہوا۔"مجھے کس لئے؟"
"کیونکہ وہ آپ کی بیوی ہے۔"
"میری بیوی؟"جلال کو جیسے کرنٹ لگا۔
"آپ کیا کہہ رہے ہیں۔میری بیوی کیسے ہو سکتی ہے وہ۔میں نے اس سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ایک سال پہلے آپ ہی تو آئے تھے اس سلسلے میں مجھ سے بات کرنے کے لیے۔"جلال نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔"میں نے تو آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ آپ خود اس سے شادی کر لیں۔"
سالار بےیقینی سے اسے دیکھتا رہا۔
"میں تو یہ سوچ کر آپ کے پاس آیا تھا کہ شاید آپ نے اس سے شادی کر لی ہو گی۔"وہ اب وضاحت کر رہا تھا۔
"آپ نے اس سے شادی نہیں کی؟"سالار نے پوچھا۔
"نہیں۔۔۔۔۔آپ سے تو ساری بات ہوئی تھی میں نے انکار کر دیا پھر اس سے میری شادی کیسے ہو سکتی تھی؟پھر میں نے سنا کہ وہ گھر سے چلی گئی۔میں نے سوچا آپ کے ساتھ کہیں چلی گئی ہو گی۔اسی لیے تو آپ کو دیکھ کر آپ کی طرف آیا تھا۔"
"میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔میں تو پچھلے سات آٹھ ماہ سے یہیں ہوں۔"سالار نے کہا۔
"اور مجھے یہاں آئے دو ماہ ہوئے ہیں۔"جلال نے بتایا۔
"مجھ سے ملاقات کے بعد کیا اس نے دوبارہ آپ سے رابطہ یا ملاقات کرنے کی کوشش کی تھی؟"
سالار نے کچھ اُلجھتے ہوئے انداز میں پوچھا۔
"نہیں۔۔۔۔۔"وہ مجھ سے نہیں ملی۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لاہور جا کر اس نے آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔"سالار کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
"مجھ سے رابطہ کرنے سے کیا ہوتا؟"
"آپ کے لیے وہ گھر سے نکلی تھی۔اسے آپ کےپاس جانا چاہئیے تھا۔"
"نہیں۔۔۔۔۔وہ میرے لیے گھر سے نہیں نکلی تھی۔آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ میں اس سے شادی نہیں کر سکتا۔پھر آپ یہ مت کہیں کہ وہ میرے لیے گھر سے نکلی تھی۔"جلال کے لہجے میں اچانک کچھ تبدیلی آ گئی۔"ساری بات آپ ہی سے تو ہوئی تھی۔"
"کیا آپ واقعی سچ کہہ رہے ہیں کہ وہ دوبارہ آپ کے پاس نہیں گئی؟"
"میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا اور اگر وہ میرے ساتھ ہوتی تو میں آپ کے پاس اس کے بارے میں پوچھنے کیوں آتا۔مجھے دیر ہو رہی ہے۔"جلال کے لہجے میں اب بےنیازی تھی۔
"آپ مجھے اپنا کانٹیکٹ نمبر دے سکتے ہیں؟"سالار نے کہا۔
"نہیں۔۔۔۔۔میں نہیں سمجھتا کہ آپ کو مجھ سے اور مجھے آپ سے دوبارہ رابطے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔"جلال نے بڑی صاف گوئی سے کہا اور واپس مڑ گیا۔
سالار کچھ الجھے ہوئے انداز میں اس کی پشت پر نظریں جمائے رہا ، یہ باقابلِ یقین بات تھی کہ وہ جلال سے نہیں ملی۔کیوں۔۔۔۔۔؟کیا اس نے میری اس بات پر واقعی یقین کر لیا تھا کہ جلال نے شادی کر لی ہے؟سالار کو اپنا جھوٹ یاد آیا مگر یہ کیسے ممکن ہے وہ مزید اُلجھا۔۔۔۔۔۔میری بات پر اسے یقین کیسے آ سکتا ہے جبکہ وہ کہہ بھی رہی تھی کہ اسے میری بات پر یقین نہیں ہے۔
وہ کرسی کھینچ کر دوبارہ بیٹھ گیا۔
اور اگر جلال کے پاس نہیں گئی تو پھر وہ کہاں گئی۔کیا کسی اور شخص کے پاس؟جس سے اس نے مجھے بےخبر رکھا ، مگر یہ ممکن نہیں ہے اگر کوئی اور ہوتا تو وہ مجھے اس سے بھی رابطہ کرنے کے لیے کہتی۔اگر وہ فوری طور پر جلال کے پاس نہیں بھی گئی تھی تو سکندر سے نکاح نامہ لینے اور طلاق کے حق کے بارے میں جاننے کے بعد اسے اسی کے پاس جانا چاہئیے تھا ، وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے جلال کی اس فرضی شادی کے بارے میں اسے کیوں بتایا۔شاید وہ اسے پریشان کرنا چاہتا تھا یا پھر یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اب کیا کرے گی یا پھر شاید وہ بار بار اس کے اس مطالبے سے تنگ آ گیا تھا کہ وہ پھر جلال کے پاس جائے ، پھر جلال سے رابطہ کرے ، وہ ایسا کرنے کی وجہ نہیں جانتا تھا، جو بھی تھا بہر حال اسے یقین تھا ! امامہ جلال کے پاس جائے گی۔
مگر سالار کو اب پتا چلا تھا کہ اس کی توقع یا اندازے کے برعکس وہ وہاں گئی ہی نہیں۔
ویٹر اب کھانا سرو کر رہا تھا ، اس کا کزن آ چکا تھا ، وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے کھانا کھاتے رہے مگر سالار کھانا کھاتے اور باتیں کرتے ہوئے بھی مسلسل امامہ اور جلال کے بارے میں سوچتا رہا۔کئی ماہ بعد یک دم وہ اس کے ذہن میں پھر تازہ ہو گئی تھی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دوبارہ اپنے گھر واپس چلی گئی ہو؟"کھانا کھاتے کھاتے اسے اچانک خیال آیا۔
"ہاں یہ ممکن ہے۔۔۔۔۔"اس کا ذہن متواتر ایک ہی جگہ اٹکا ہوا تھا۔مجھے پاپا سے بات کرنی چاہئیے۔انہیں یقیناً اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا ہو گا۔"سکندر عثمان بھی ان دنوں شادی میں شرکت کی غرض سے وہیں تھے۔
واپس گھر آنے کے بعد رات کے قریب جب اس نے سکندر کو تنہا دیکھا تو اس نے ان سے امامہ کے بارے میں پوچھا۔
"پاپا ! کیا امامہ واپس اپنے گھر آ گئی ہے؟"اس نے کسی تمہید کے بغیر سوال کیا۔
اور اس کے سوال نے کچھ دیر کے لیے سکندر کو خاموش رکھا۔
"تم کیوں پوچھ رہے ہو؟"چند لمحوں کے بعد انہوں نے درشتی سے کہا۔
"بس ایسے ہی۔"
"اس کے بارے میں اتنا غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تم اپنی اسٹڈیز پر اپنا دھیان رکھو تو بہتر ہے۔"
"پاپا ! پلیز آپ میرے سوال کا جواب دیں۔"
"کیوں جواب دوں۔۔۔۔۔تمہارا اس کے ساتھ تعلق کیا ہے؟"سکندر کی ناراضی میں اضافہ ہو گیا۔
"پاپا ! اس کا ایک بوائے فرینڈ مجھے آج ملاہے یہاں ، وہی جس کے ساتھ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔"
"تو پھر۔۔۔۔۔؟"
"تو پھر یہ کہ ان دونوں نے شادی نہیں کی۔وہ بتا رہا تھا کہ امامہ اس کے پاس گئی ہی نہیں۔جب کہ میں سمجھ رہا تھا کہ لاہور جانے کے بعد وہ اسی کے پاس گئی ہو گی۔"
سکندر نے اس کی بات کاٹ دی۔"وہ اس کے پاس گئی یا نہیں۔ اس نے اس شادی کی یا نہیں۔یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔نہ ہی تمہیں اس میں انوالو ہونے کی ضرورت ہے۔"
"ہاں ، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے مگر میں جاننا چاہتا ہوں کیا امامہ آپ کے پاس آئی تھی؟آپ نے اسے شادی کے پیپرز کیسے بھجوائے تھے۔میرا مطلب کس کے ذریعے۔"سالار نے کہا۔
"تم سے کس نے کہا کہ اس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا؟"
وہ ان کے سوال پر حیران ہوا۔"میں نے خود اندازہ لگایا۔"
"اس نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا وہ رابطہ کرتی تو میں ہاشم مبین کو اس کے بارے میں بتا دیتا۔"
سالار ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔"میں نے تمہارے کمرے کی تلاشی لی تھی اور میرے ہاتھ وہ نکاح نامہ لگ گیا۔"
"مجھے یہاں بھجواتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ آپ وہ پیپرز امامہ تک بھجوا دیں گے۔"
"ہاں۔۔۔۔۔یہ اس صورت میں ہوتا اگر وہ مجھ سے رابطہ کرتی مگر اس نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔تمہیں یہ یقین کیوں ہے کہ اس نے مجھ سے ضرور رابطہ کیا ہو گا۔"اس بار سکندر نے سوال کر ڈالا۔
سالار کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے پوچھا۔
"پولیس کو اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا؟"
"نہیں ، پولیس کو پتا چلتا تو اب تک وہ ہاشم مبین کے گھر واپس آ چکی ہوتی مگر پولیس ابھی بھی اس کی تلاش میں ہے۔"سکندر نے کہا۔
"ایک بات تو طے ہے سالار کہ اب تم دوبارہ امامہ کے بارے میں کوئی تماشا نہیں کرو گے۔وہ جہاں ہے جس حال میں ہے تمہیں اپنا دماغ تھکانے کی ضرورت نہیں ، تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔پولیس جیسے ہی اسے ڈھونڈے گی میں وہ پیپرز ہاشم مبین تک پہنچا دوں گا ، تاکہ تمہاری جان ہمیشہ کے لیے اس سے چھوٹ جائے۔"
"پاپا ! کیا اس نے واقعی کبھی گھر فون نہیں کیا مجھ سے بات کرنے کے لیے۔"سالار نے ان کی بات پر غور کیے بغیر کہا۔
"کیا وہ تمہیں فون کیا کرتی تھی؟"
وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگا۔"گھر سے چلے جانے کے بعد اس نے صرف ایک بار فون کیا تھا پھر میں یہاں آ گیا۔ہو سکتا ہے اس نے دوبارہ فون کیا ہو جس کے بارے میں آپ مجھے نہیں بتا رہے۔"
"اس نے تمہیں فون نہیں کیا۔اگر کرتی تو میں تمہاری اور اس کی شادی کے بارے میں بہت سے معاملات کو ختم کر دیتا۔میں تمہاری طرف سے اسے طلاق دے دیتا۔"
"یہ سب آپ کیسے کر سکتے ہیں۔"
سالار نے بہت پُر سکون انداز میں کہا۔
"یہاں تمہیں بھجوانے سے پہلے میں نے ایک پیپر پر تمہارے signatures لیے تھے ، میں طلاق نامہ تیار کروا چکا ہوں۔"سکندر نے جتاتے ہوئے کہا۔
"fake document (جعلی ڈاکومنٹ)۔"سالار نے اسی انداز میں تبصرہ کیا۔"میں تو نہیں جانتا تھا کہ آپ طلاق نامہ تیار کروانے کے لیے مجھ سے سائن کروا رہے ہیں۔"
"تم پھر اس مصیبت کو میرے سر پر لانا چاہتے ہو؟"سکندر کو ایک دم غصہ آ گیا۔
"میں نے یہ نہیں کہا کہ میں اس کے ساتھ رشتہ کو قائم رکھنا چاہتا ہوں۔میں آپ کو صرف یہ بتا رہاں ہوں کہ آپ میری طرف سے یہ رشتہ ختم نہیں کر سکتے۔یہ میرا معاملہ ہے میں خود ہی اسے ختم کروں گا۔"
"تم صرف یہ شکر کرو کہ تم اس وقت یہاں اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہو ، ورنہ تم نے جس خاندان کو اپنے پیچھے لگا لیا تھا وہ خاندان قبر تک بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑتا اور یہ بھی ممکن ہے وہ یہاں بھی تمہاری نگرانی کروا رہے ہوں۔یا انتظار کر رہے ہوں کہ تم مطمئن ہو کر دوبارہ امامہ کے ساتھ رابطہ کرو اور وہ تم دونوں کے لیے ایک کنواں تیار کر لیں۔"
"آپ خوامخواہ مجھے خوفزدہ کر رہے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یہ ماننے پر تیار نہیں ہوں کہ یہاں امریکہ میں کوئی میری نگرانی کر رہا ہو گا اور وہ بھی اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اور دوسری بات یہ کہ میں امامہ کے ساتھ تو کوئی رابطہ نہیں کر رہا کیونکہ میں واقعی نہیں جانتا وہ کہاں ہے ، پھر رابطے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"
"تو پھر تمہیں اس کے بارے میں اس قدر کانشس ہونے کی کیا ضرورت ہے۔وہ جہاں ہے جیسی ہے ، رہنے دو اسے۔"سکندر کو کچھ اطمینان ہوا۔
"آپ میرے موبائل کے بل چیک کریں۔وہ موبائل اس کے پاس ہے۔ہو سکتا ہے پہلے نہیں تو اب وہ اس سے کالز کر لیتی ہو۔"
"وہ اس سے کالز نہیں کرتی۔موبائل مستقل طور پر بند ہے۔جو چند کالز اس نے کی تھیں وہ سب میڈیکل کالج میں ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کو ہی کی تھیں اور پولیس پہلے ہی انہیں انویسٹی گیٹ کر چکی ہے۔لاہور میں وہ ایک لڑکی کے گھر گئی تھی مگر وہ لڑکی پشاور میں تھی اور اس کے واپس نے سے پہلے ہی وہ اس کے گھر سے چلی گئی ، کہاں گئی ، یہ پولیس کو پتا نہیں چل سکا۔"
سالار چھبتی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔"آپ کو حسن نے میرے اور اس کے بارے میں بتایا تھا؟"
سکندر کچھ بول نہیں سکے۔موبائل کے امامہ کے پاس ہونے کے بارے میں صرف حسن ہی جانتا تھا۔کم از کم یہ ایسی بات تھی جو سکندر عثمان صرف اس کے کمرے کی تلاشی لے کر نہیں جان سکتے تھے۔اسے ان سے بات کرتے ہوئے پہلی بار اچانک حسن پر شبہ ہوا تھا کیونکہ سکندر عثمان کو اتنی چھوٹی موٹی باتوں کا پتا تھا جو صرف اسے پتا تھیں یا پھر حسن کو۔۔۔۔۔کوئی تیسرا ان سے واقف نہیں تھا۔اس نے سکندر عثمان کو کچھ نہیں بتایا تھا تو یقینی طور پر یہ حسن ہی ہو سکتا تھا جس نے انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مجھے حسن نے بتایا ہے یا کسی اور نے۔۔۔۔۔یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ اس بات کے بارے میں مجھے پتا نہ چلتا۔یہ صرف میری حماقت تھی کہ میں نے ہاشم مبین کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور تمہارے جھوٹ پر یقین کر لیا۔"
سالار نے کچھ نہیں کہا ، وہ صرف ماتھے پر تیوریاں لئے انہیں دیکھتا اور ان کی بات سنتا رہا۔"اب جب میں نے تمہیں اس سارے معاملے سے بچا لیا ہے تو تمہیں دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئیے جس سے۔۔۔۔۔"
سکندر عثمان نے قدرے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا مگر اس سے پہلے کہ ان کی بات مکمل ہوتی سالار ایک جھٹکے سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─