┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_24
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پورے عرصے کے دوران سالار امامہ کی کال کا منتظر ۔ اس نے کئی بار امامہ کو اس کے موبائل پر کال بھی کیا مگر اسےموبائل آف ملتا۔اسے یہ تجسس ہو رہا تھا کہ وہ کہاں تھی۔اس تجسس کو ہوا دینے میں کچھ ہاتھ حسن کا بھی تھا جو بار بار اس سے امامہ کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا ، بعض دفعہ وہ چڑ جاتا۔
"مجھے کیا پتا کہ وہ کہاں ہے اور مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کر رہی۔بعض دفعہ مجھے لگتا ہے اسے مجھ سے زیادہ تمہیں دلچسپی ہے۔"
اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ حسن کا یہ تجسس اور دلچسپی کسی مجبوری کی وجہ سے تھی۔وہ بری طرح پھنسا ہوا تھا۔سالار کا خیال تھا کہ امامہ اب تک جلال کے پاس جا چکی ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے شادی بھی کر چکی ہو اگرچہ اس نے امامہ سے جلال کی شادی کے بارے میں جھوٹ بولا تھا مگر اسے یقین تھا کہ امامہ نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا ہو گا۔وہ اس کے پاس دوبارہ ضرور گئی ہو گی۔خود سالار بھی چاہتا تھا کہ وہ خود جلال سے رابطہ قائم کرے یا پھر ذاتی طور پر جا کر ایک بار اس سے ملے۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ امامہ اس کے ساتھ رہ رہی ہے یا نہیں ، مگر فی الحال یہ دونوں کام اس کے لیے ناممکن تھے۔سکندر عثمان مسلسل اس کی نگرانی کروا رہے تھے اور وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ وہ یہ نگرانی کروانے والے واحد نہیں ہیں۔ہاشم مبین احمد بھی یہی کام کروا رہے تھے اور اگر وہ لاہور جانے کا ارادہ کرتا تو اول تو سکندر عثمان اسے جانے ہی نہ دیتے اور بالفرض جانے کی اجازت دے بھی دیتے تو شاید خود بھی اس کے ساتھ چل پڑتے اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سارے معاملے میں اس کی دلچسپی کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔اسے اب یہ سب کچھ ایک حماقت لگ رہا تھا۔ایسی حماقت جو اسے کافی مہنگی پڑ رہی تھی۔سکندر اور طیبہ اب ہمہ وقت گھر پر رہتے تھے اور اسے کہیں بھی جانے کے لیے اسے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی۔حسن اب اس سے کم کم ملنے لگا تھا۔وہ اس کی وجہ بھی نہیں جانتا تھا۔اس صورت حال سے وہ بہت بور ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس رات کمپیوٹر پر بیٹھا تھا جب اس کے موبائل پر ایک کال آئی تھی۔اس نے کی بورڈ پر ہاتھ چلاتے ہوئے لاپرواہی سے موبائل اٹھا کر دیکھا اور پھر اسے ایک جھٹکا لگا تھا۔اسکرین پر موجود نمبر اس کے اپنے موبائل کا تھا۔امامہ اسے کال کر رہی تھی۔
"تو بالآخر آپ نے ہمیں یاد کر ہی لیا۔"اس نے بےاختیار سیٹی بجائی۔اس کا موڈ یک دم فریش ہو گیا تھا۔کچھ دیر پہلے والی بوریت یکسر غائب ہو گئی تھی۔
"میں تو سمجھ بیٹھا تھا کہ اب تم مجھے کبھی کال نہیں کرو گی۔اتنا لمبا عرصہ لگا دیا تم نے۔"رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا۔
"میں بہت دنوں سے تمہیں فون کرنا چاہ رہی تھی مگر کر نہیں پا رہی تھی۔"دوسری طرف سے امامہ نے کہا۔
"کیوں ، ایسی کیا مجبوری آ گئی تھی۔فون تو تمہارے پاس موجود تھا۔"سالار نے کہا۔
"بس کوئی مجبوری تھی۔"اس نے مختصراً کہا۔
"تم اس وقت کہاں ہو؟"سالار نے کچھ تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
"بچکانہ سوال مت کرو سالار ! جب تم جانتے ہو کہ میں تمہیں یہ نہیں بتاؤں گی تو پھر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟"
"میرے گھر والے کیسے ہیں؟"
سالار کچھ حیران ہوا۔اسے امامہ سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔
"بالکل ٹھیک ہیں ، خوش و خرم ہیں ، عیش کر رہے ہیں۔"اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔"تم واقعی بہت اچھی بیٹی ہو ، گھر سے جا کر بھی تمہیں گھر اور گھر والوں کا کتنا خیال ہے۔ہاؤ نائس۔"
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی پھر امامہ نے کہا۔"وسیم کیسا ہے؟"
"یہ تو میں نہیں بتا سکتا مگر میرا خیال ہے ٹھیک ہی ہو گا۔وہ خراب کیسے ہو سکتا ہے۔"اس کے انداز اور لہجے میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
"انہیں یہ تو پتا نہیں چلا کہ تم نے میری مدد کی تھی؟"سالار کو امامہ کا لہجہ کچھ عجیب سا لگا۔
"پتا لگا۔۔۔۔۔؟مائی ڈئیر امامہ ! پولیس اسی دن میرے گھر پہنچ گئی تھی جس دن میں تمہیں لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔"سالار نے کچھ استہزائیہ انداز میں کہا۔"تمہارے فادر نے میرے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی تھی تمہیں اغوا کرنے کے سلسلے میں۔"وہ ہنسا۔"ذرا سوچو میرے جیسا بندہ کسی کو اغوا کر سکتا ہے اور وہ بھی تمہیں۔۔۔۔۔جو کسی بھی وقت کسی کو شوٹ کر سکتی ہے۔"
اس کے لہجے میں اس بار طنز تھا۔"تمہارے فادر نے پوری کوشش کی ہے کہ میں جیل پہنچ جاؤں اور باقی کی زندگی وہاں گزاروں مگر بس میں کچھ خوش قسمت واقع ہوا ہوں کہ بچ گیا ہوں۔گھر سے کالج تک میری نگرانی کی جاتی ہے۔ڈمب کالز ملتی ہیں اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔اب تمہیں کیا کیا بتاؤں۔بہر حال تمہاری فیملی ہمیں خاصا زچ کر رہی ہے۔"اس نے جتانے والے انداز میں کہا۔
"میں نہیں جانتی تھی کہ وہ تم تک پہنچ جائیں گے۔"اس بار امامہ کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔"میرا خیال تھا کہ انہیں کسی بھی طرح تم پر شک نہیں ہو گا۔مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہیں اتنے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔"
"واقعی تمہاری وجہ سے مجھے بہت سے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔"
"میری کوشش تھی کہ میں پہلے خود کو محفوظ کر لوں پھر ہی تمہیں فون کروں اور اب میں واقعی محفوظ ہوں۔"
سالار نے کچھ تجسس آمیز دلچسپی کے ساتھ اس کی بات سنی۔"تمہارا موبائل اب میں استعمال نہیں کروں گی اور میں اسے واپس بھیجنا چاہتی ہوں ، مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔"وہ اسے بتا رہی تھی۔"میں تمہیں کچھ پیسے بھی بھجواؤں گی۔ان تمام اخراجات کے لئے جو تم نے میرے لئے کئے۔۔۔۔۔"
سالار نے اس بار اس کی بات کاٹی۔"نہیں ، پیسے رہنے دو۔مجھے ضرورت نہیں ہے۔موبائل کی بھی ضرورت نہیں ہے۔میرے پاس دوسرا ہے۔تم چاہو تو اسے استعمال کرتی رہو۔"
"نہیں ، میں اب اسے استعمال نہیں کروں گی۔میری ضرورت ختم ہو چکی ہے۔"
اس نے کہا۔کچھ دیر وہ خاموش رہی پھر اس نے کہا۔"میں چاہتی ہوں کہ تم اب مجھے طلاق کے پیپرز بھجوا دو اور طلاق کے پیپرز کے ساتھ نکاح نامہ کی ایک کاپی بھی جو میں پہلے تم سے نہیں لے سکی۔"
"کہاں بھجواؤں؟"سالار نے اس کے مطالبے کا جواب کہا۔اس کے ذہن میں یک دم ایک جھماکا ہوا تھا۔وہ اگر اب طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی تو اس کا مطلب یہی تھا کہ اس نے ابھی تک کسی سے شادی نہیں کی تھی نہ ہی طلاق کے اس حق کو استعمال کیا تھا ، جو نکاح نامہ میں وہ اس کی خواہش پر اسے تفویض کر چکا تھا۔
"تم اسی وکیل کے پاس وہ پیپرز بھجوا دو جس کو تم نے ہائر کیا تھا اور مجھے اس کا نام اور پتا لکھوا دو ، میں وہ پیپرز اس سے لے لوں گی۔"
سالار مسکرایا۔وہ بےحد محتاط تھی۔"مگر میرا تو اس وکیل کے ساتھ ڈائریکٹ کوئی رابطہ نہیں ہے۔میں تو اسے جانتا بھی نہیں ہوں پھر پیپرز اس تک کیسے پہنچاؤں؟"
"جس دوست کے ذریعے تم نے اس وکیل سے رابطہ کیا تھا اسی دوست کے ذریعے وہ پیپرز اس تک پہنچا دو۔"یہ تو طے تھا کہ وہ اسے کسی بھی طرح اپنا کوئی اتا پتا نہ دینے کا فیصلہ کر چکی تھی اور اس پر پوری طرح قائم تھی۔
"تم طلاق لینا کیوں چاہتی ہو؟"وہ اس وقت بہت موڈ میں تھا۔
دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی۔شاید وہ اس سے اس سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی۔
"طلاق کیوں لینا چاہتی ہوں؟تم کتنی عجیب بات کر رہے ہو۔یہ تو پہلے ہی طے تھا کہ میں تم سے طلاق لوں گی پھر اس سوال کی کیا تک بنتی ہے"۔امامہ کے لہجے میں حیرانی تھی۔
"وہ تب کی تھی ، اب تو خاصا لمبا وقت گزر گیا ہے اور میں تمہیں طلاق دینا نہیں چاہتا۔"سالار نے بےحد سنجیدگی سے کہا۔وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ دوسری طرف اس وقت امامہ کے پیروں کے نیچے سے حقیقتاً زمین نکل گئی ہو گی۔
"تم کیا کہہ رہے ہو؟"
"میں یہ کہہ رہا ہوں امامہ ڈئیر ! میں تمہیں طلاق دینا نہیں چاہتا ، نہ ہی دوں گا۔"اس نے ایک اور دھماکہ کیا۔
"تم۔۔۔۔۔تم طلاق کا حق پہلے ہی مجھے دے چکے ہو۔"امامہ نے بےاختیار کہا۔
"کب کہاں۔۔۔۔۔۔کس وقت۔۔۔۔۔۔کس صدی میں۔"سالار نے اطمینان سے کہا۔
"تمہیں یاد ہے ، میں نے نکاح سے پہلے تمہیں کہا تھا کہ نکاح نامے میں طلاق کا حق چاہتی ہوں میں۔اگر تم طلاق نہیں بھی دیتے تو میں خود ہی وہ حق استعمال کر سکتی ہوں۔تمہیں یہ یاد ہونا چاہئیے۔"وہ جتا رہی تھی۔
"اگر میں تمہیں یہ حق دیتا تو تم یہ حق استعمال کر سکتی تھی مگر میں نے تو تمہیں ایسا کوئی حق دیا ہی نہیں۔تم نے نکاح نامہ دیکھا وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔خیر تم نے دیکھا ہی ہو گا ورنہ آج طلاق کی بات کیوں کر رہی ہوتیں۔"
دوسری طرف ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔سالار نے ہوا میں تیر چلایا تھا مگر وہ نشانے پر بیٹھا تھا۔امامہ نے یقیناً پیپرز سائن کرتے ہوئے انہیں دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔سالار بےحد محفوظ ہو رہا تھا۔
"تم نے مجھے دھوکا دیا۔"بہت دیر بعد اس نے امامہ کو کہتے سنا۔
"ہاں ، بالکل اسی طرح جس طرح تم نے پسٹل دکھا کر مجھے دھوکا دیا۔"وہ برجستگی سے بولا۔
"میں سمجھتا ہوں کہ تم اور میں بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ہم دونوں میں اتنی برائیاں اور خامیاں ہیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو مکمل طور پر Complement کرتے ہیں۔"وہ اب ایک بار پھر سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
"زندگی۔۔۔۔۔سالار ! زندگی اور تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔یہ نا ممکن ہے۔"امامہ نے تند لہجے میں کہا۔
"مجھے نپولین کی بات دُہرانی چاہئیے کہ میری ڈکشنری میں نا ممکن کا لفظ نہیں ہے یا مجھے تم سے یہ ریکویسٹ کرنی چاہئیے کہ آؤ ! اس نا ممکن کو مل کر ممکن بنائیں۔"وہ اب مذاق اڑا رہا تھا۔
"تم نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں ، ایک احسان اور کرو۔مجھے طلاق دے دو۔"
"نہیں ، میں تم پر احسان کرتے کرتے تھک گیا ہوں ، اب اور نہیں کر سکتا اور یہ والا احسان یہ تو نا ممکن ہے۔"سالار ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا تھا۔
" میں تمہارے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہوں سالار ! تمہارا اور میرا لائف اسٹائل بہت مختلف ہے ، ورنہ شاید میں تمہاری پیشکش پر غور کرتی مگر اب اس صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔تم پلیز ، مجھے طلاق دے دو۔"وہ اب نرم لہجے میں کہہ رہی تھی۔سالار کا دل بےاختیار ہنسنے کو چاہا۔
"تم اگر میری پیش کش پر غور کرنے کا وعدہ کرو تو میں اپنا لائف اسٹائل بدل لیتا ہوں۔"سالار نے اسی انداز میں کہا۔
"تم سمجھنے کی کوشش کرو ، تمہاری اور میری ہر چیز مختلف ہے۔زندگی کی فلاسفی ہی مختلف ہے۔ہم دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔"اس بار وہ جھنجلائی۔
"نہیں۔۔۔۔۔نہیں میری اور تمہاری فلاسفی آف لائف بہت ملتی ہے۔تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر یہ ملتی نہ بھی ہوئی تو بھی ذرا سے ایڈجسٹمنٹ کے بعد ملنے لگے گی۔"وہ اس طرح بولا جیسے اپنے بہترین دوست سے گفتگو کر رہا ہو۔
"ویسے بھی مجھ میں کمی کیا ہے۔میں تمہارے پُرانے منگیتر اسجد سے خوبصورت نہ سہی مگر جلال انصر جیسا معمولی شکل و صورت کا بھی نہیں ہوں۔میری فیملی کو تم اچھی طرح جانتی ہو۔کیرئیر میرا کتنا برائٹ ہو گا ، اس کا تمہیں اندازہ ہے۔میں ہر لحاظ سے جلال سے بہتر ہوں۔"وہ اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے بولا۔اس کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔وہ امامہ کو بری طرح زچ کر رہا تھا اور وہ ہو رہی تھی۔
"میرے لیے کوئی بھی شخص جلال جیسا نہیں ہو سکتا اور تم۔۔۔۔۔تم تو کسی صورت بھی نہیں۔"اس کی آواز میں پہلی بار نمایاں خفگی تھی۔
"کیوں؟"سالار نے بےحد معصومیت سے پوچھا۔
"تم مجھے اچھے نہیں لگتے ہو۔آخر تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے۔دیکھو ، تم نے اگر مجھے طلاق نہ دی تو میں کورٹ میں چلی جاؤں گی۔"وہ اب اسے دھمکا رہی تھی۔سالار اس کی بات پر بےاختیار ہنسا۔
"یو آر موسٹ ویلکم۔جب چاہیں جائیں۔کورٹ سے اچھی جگہ میل ملاقات کے لیے اور کون سی ہو گی۔آمنے سامنے کھڑے ہو کر بات کرنے کا مزہ ہی اور ہو گا۔"وہ محفوظ ہو رہا تھا۔
"ویسے تمہیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئیے کہ کورٹ میں صرف میں نہیں پہنچوں گا ، بلکہ تمہارے پیرنٹس بھی پہنچیں گے۔"وہ استہزائیہ انداز میں بولا۔
"سالار ! میرے لیے پہلے ہی بہت سے پرابلمز ہیں تم ان میں اضافہ نہ کرو۔میری زندگی بہت مشکل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔کم از کم تم تو میری مشکلات کو نہ بڑھاؤ۔"اس بار امامہ کے لہجے میں رنجیدگی و بےچارگی تھی۔وہ کچھ اور محفوظ ہوا۔
"میں تمہارے مسائل میں اضافہ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔؟مائی ڈئیر ! میں تو تمہاری ہمدردی میں گھل رہا ہوں ، تمہارے مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔تم خود سوچو ، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزار سکتی ہو۔"وہ بظاہر بڑی سنجیدگی سے بولا۔
"تم جانتے ہو نا ، میں نے اتنی مشکلات کس لیے سہی ہیں۔تم سمجھتے ہو ، میں ایک ایسے شخص کے ساتھ رہنے پر تیار ہو جاؤں گی جو ہر وہ کبیرہ گناہ کرتا ہے جسے میرے پیغمبر ﷺ نا پسند کرتے ہیں۔نیک عورتیں نیک مردوں کے لیے ہوتی ہیں اور بری عورتیں برے مردوں کے لیے۔میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد میری زندگی میں آئے۔جلال مجھے نہیں ملا مگر میں تمہارے ساتھ بھی زندگی نہیں گزاروں گی۔"اس نے بے حد تلخ انداز میں تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔
"شاید اسی لیے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی ، کیونکہ نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہوتی ہیں ، تمہارے جیسی نہیں۔"سالار نے اسی ٹکڑا توڑ انداز میں جواب دیا۔
دوسری طرف خاموشی رہی۔اتنی لمبی خاموشی کہ سالار کو اسے مخاطب کرنا پڑا۔"ہیلو۔۔۔۔۔تم سن رہی ہو؟"
"سالار ! مجھے طلاق دے دو۔"اسے امامہ کی آواز بھرائی ہوئی لگی۔سالار کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا۔
"تم کورٹ میں جا کر لے لو ، جیسے تم مجھ سے کہہ چکی ہو۔"سالار نے ترکی بہ ترکی کہا اور دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔
حسن نے ان چند ماہ میں سالار سے امامہ کے بارے میں جاننے کی بےحد کوشش کی تھی (حسن کے اپنے بیان کے مطابق ) مگر وہ ناکام رہا تھا۔وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے کہ سالار اور امامہ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔سالار کی طرح خود انہوں نے موبائل پر بار بار اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔
سکندر نے سالار کو امریکہ میں مختلف یونیورسٹیز میں اپلائی کرنے کے لیے کہہ دیا تھا۔وہ جانتے تھے کہ اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا کہ کوئی بھی یونیورسٹی اسے لینے میں خوشی محسوس کرے گی
امامہ نے سالار کو دوبارہ فون نہیں کیا تھا حالانکہ سالار کا خیال تھا کہ وہ اسے دوبارہ فون کرے گی اور تب وہ اسے بتا دے گا کہ وہ اسے نکاح نامے میں پہلے ہی طلاق کا حق دے چکا ہے اور وہ نکاح نامے کی کاپی بھی اس کے حوالے کر دے گا۔وہ اس سے یہ بھی کہہ دے گا کہ اس نے اس کے ساتھ صرف ایک مذاق کیا تھا مگر امامہ نے اس سے دوبارہ رابطہ قائم نہیں کیا ، نہ ہی سالار نے اپنے پیپرز میں اس نکاح نامے کو دوبارہ دیکھنے کی زحمت کی ، ورنہ وہ بہت پہلے وہاں اس کی عدم موجودگی سے واقف ہو جاتا۔
جس دن وہ آخری پیپر دے کر واپس گھر آیا۔سکندر عثمان کو اس نے اپنا منتظر پایا۔
"تم اپنا سامان پیک کر لو ، آج رات کی فلائٹ سے تم امریکہ جا رہے ہو ، کامران کے پاس۔"
"کیوں پاپا ! اس طرح اچانک۔۔۔۔۔سب کچھ ٹھیک تو ہے؟"
"تمہارے علاوہ سب کچھ ٹھیک ہے۔"سکندر نے تلخی سے کہا۔
"مگر پھر آپ مجھے اس طرح اچانک کیوں بھیج رہے ہیں؟"
"یہ میں تمہیں رات کو ائیرپورٹ چھوڑنے کے لیے جاتے ہوئے بتاؤں گا۔فی الحال تم جا کر اپنا سامان پیک کرو۔"
"پاپا پلیز ! آپ مجھے بتائیں آپ اس طرح مجھے کیوں بھجوا رہے ہیں؟"سالار نے کمزور احتجاج کیا۔
"میں نے کہا نا میں تمہیں بتا دوں گا۔تم جا کر اپنا سامان پیک کرو ، ورنہ میں تمہیں سامان کے بغیر ہی ائیرپورٹ چھوڑ آؤں گا۔"
سکندر نے اسے دھمکایا۔ وہ کچھ دیر انہیں دیکھتا رہا پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔اپنا سامان پیک کرتے ہوئے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ وہ سکندر عثمان کے اس اچانک فیصلے کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔اس نے اپنی دراز کھول کر اپنے پیپرز نکالنے شروع کر دئیے۔وہاں نکاح نامہ نہیں تھا۔اسے ان کے اس فیصلے کی سمجھ آ گئی تھی اور اسے پچھتاوا ہوا کہ اس نے نکاح نامے کو اتنی لاپرواہی سے وہاں کیوں رکھا تھا۔وہ نکاح نامہ سکندر عثمان کے علاوہ کسی اور کے پاس ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ ان کے علاوہ کوئی اور اس کمرے میں آنے اور اس کی دراز کھولنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
اس کے ذہن میں اب کوئی الجھن نہیں تھی۔اس نے بڑی خاموشی کے ساتھ اپنا سامان پیک کیا۔وہ اب صرف یہ سوچ رہا تھا سکندر عثمان سے ائیرپورٹ جاتے ہوئے کیا بات کرے گا۔
رات کو ائیر پورٹ چھوڑنے کے لیے صرف سکندر اس کے ساتھ آئے تھے ، طیبہ نہیں۔ان کا لہجااور انداز بےحد روکھا اور خشک تھا۔سالار نے بھی اس بار کوئی سوال نہیں کیا۔ائیرپورٹ جاتے ہوئے سکندر عثمان نے اپنا بریف کیس کھول کر ایک سادہ کاغذ اور قلم نکالا اور بریف کیس کے اوپر رکھ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
"اس پر سائن کر دو۔"
"یہ کیا ہے؟"سالار نے حیرانی سے اس سادہ کاغذ کو دیکھا۔
"تم صرف سائن کرو ، سوال مت کرو۔"انہوں نے بے حد روکھے انداز میں کہا۔سالار نے مزید کچھ کہے بغیر ان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا قلم لے کر اس کاغذ پر سائن کر دیے۔سکندر نے اس کاغذ کو تہہ کر کے بریف کیس میں رکھا اور بریف کیس کو دوبارہ بند کر دیا۔
"جو کچھ تم کر چکے ہو ، اس کے بعد تم سے کچھ کہنا یا کوئی بات کرنا بےکار ہے۔تم مجھ سے ایک کے بعد دوسرا ، اور دوسرے کے بعد تیسرا جھوٹ بولتے رہے۔یہ سمجھتے ہوئے کہ مجھے تو کبھی حقیقت کا پتا ہی نہیں چلے گا۔میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں امریکہ بھیجنے کی بجائے ہاشم مبین کے حوالے کر دوں تاکہ تمہیں اندازہ ہو اپنی حماقت کا ، مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تمہارا باپ ہوں ، مجھے تمہیں بچانا ہی ہے۔تم میری اس مجبوری کا آج تک فائدہ اٹھاتے رہے ہو مگر آئندہ نہیں اٹھا سکو گے۔میں تمہارا نکاح نامہ امامہ کے حوالے کر دوں گا اور اگر مجھے دوبارہ یہ پتا چلا کہ تم نے اس سے رابطہ کیا ہے یا رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو میں اس بار جو کروں گا تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔تم میرے لیے کافی مصیبتیں کھڑی کر چکے ہو ، اب ان کا سلسلہ بند ہو جانا چاہئیے سمجھے تم۔"
انہوں نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔وہ جواب میں کچھ کہنے کی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔اس کے انداز میں عجیب طرح کی لاپرواہی اور اطمینان تھا۔سکندر عثمان بے اختیار سلگا۔یہ ان کا وہ بیٹا تھا جو 150 + کا آئی کیو رکھتا تھا۔کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ وہ سرے سے کوئی آئی کیو رکھتا بھی تھا یا نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے چند ماہ جو اس نے امریکہ میں گزارے تھے وہ اس کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔وہ اس سے پہلے بھی کئی بار سیر و تفریح کے لیے اپنی فیملی کے ساتھ اور ان کے بغیر امریکہ اور یورپ جاتا رہا تھا مگر اس بار جس طریقے سے سکندر نے اسے امریکہ بھجوایا تھا اس نے جہاں ایک طرف اسے مشتعل کیا تھا تو دوسری طرف اس کے لیے بہت سے دوسرے پرابلمز بھی پیدا کر دئیے تھے۔اس کے جو دوست اے لیول کے بعد امریکہ آ گئے تھے۔وہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں پڑھ رہے تھے۔وہ کسی ایک اسٹیٹ میں نہیں تھے۔ کچھ یہی حال اس کے رشتہ داروں اور کزنز کا تھا۔ خود اس کے اپنے بہن بھائی بھی ایک جگہ پر نہیں تھے۔وہ اپنی فیملی سے اتنا اٹیچ نہیں تھا کہ ان کی کمی محسوس کرتا یا ہوم سکنیس کا شکار ہوتا۔یہ صرف اس طرح اچانک وہاں بھجوائے جانے کا نتیجہ تھا کہ وہ اس طرح اضطراب کا شکار ہو رہا تھا۔
کامران سارا دن یونیورسٹی میں ہوتا اور اگر وہ گھر آتا بھی تو اپنی اسٹڈیز میں مصروف ہو جاتا۔اس کے ایگزامز قریب تھے جبکہ سالار سارا دن یا تو اپارٹمنٹ میں بیٹھا فلمیں دیکھتا رہتا یا پھر چینلز گھمانے میں مصروف رہتا اور جب وہ ان دونوں کاموں سے بیزار ہو جاتا تو آوارہ گردی کے لیے نکل جاتا۔اس نے وہاں اپنے قیام کے دوران نیو یارک میں اس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا تھا جہاں کامران رہ رہا تھا۔وہاں کا کوئی نائٹ کلب ، ڈسکو ، پب ، بار ، تھیٹر ، سینما یا میوزیم اور آرٹ گیلری ایسی نہیں تھی جہاں وہ نہ گیا ہو۔
اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا کہ جن تین levy league کی یونیورسٹیز میں اس نے اپلائی کیا تھا ان تینوں میں رزلٹ آنے سے پہلے ہی اس کی ایڈمیشن کی درخواستیں قبول کی جا چکی تھیں۔وہ تینوں یونیورسٹیز ایسی تھیں جن میں اس کے دور یا قریب کا کوئی رشتے دار نہیں تھا اور یہ اس نے جان بوجھ کر کیا تھا۔وہ جانتا تھا کہ سکندر عثمان اپنی پوری کوشش کریں گے کہ اسے کسی ایسی یونیورسٹی میں ایڈمٹ کروائیں جہاں اس کے بہن بھائیوں میں سے نہیں تو کم از کم اس کے رشتہ داروں میں سے کوئی ضرور موجود ہو تاکہ وہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہیں۔سالار کی جگہ ان کا کوئی دوسرا بیٹا levy league کی کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا تو سکندر عثمان فخر میں مبتلا ہوتے اور اس چیز کو اپنے اور اپنی پوری فیملی کے لئے اعزاز سمجھتے مگر یہاں وہ اس خوف میں مبتلا ہو گئے تھے کہ وہ سالار پر نظر کیسے رکھ سکیں گے۔سالار نے ان یونیورسٹیز میں سے Yale کو چُنا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ صرف Yale میں ان کا کوئی شناسا اور واقف کار نہیں تھا ، بلکہ New Haven میں بھی سکندر عثمان کا کوئی رشتہ دار اور دوست نہیں تھا۔
رزلٹ آنے کے بعد اسے یونیورسٹی سے میرٹ اسکالر شپ بھی مل گیا تھا۔اپنے باقی بھائیوں کے برعکس اس نے ضد کر کے ہوسٹل میں رہنے کے بجائے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا تھا۔سکندر عثمان اسے اپارٹمنٹ میں رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے ، مگر اسکالرشپ ملنے کی وجہ سے اس کے پاس اتنی رقم آ گئی تھی کہ وہ خود ہی کوئی اپارٹمنٹ لے لیتا کیونکہ یونیورسٹی کے اخراجات کے لیے سکندر اس کے کاؤنٹ میں پہلے ہی ایک لمبی چوڑی رقم جمع کروا چکے تھے حالانکہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بھی اسکالر شپ لے رہا تھا مگر سالار سکندر کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان سے ہر وہ "کام" اور "مطالبہ" کرنے کے لئے بنایا تھا جو اس سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔وہ زمین پر خاص طور پر انہیں تنگ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا جس چیز کو ان کے دوسرے بچے مشرق کہتے وہ اسے مغرب کہتا۔جسے دوسرے زمین قرار دیتے وہ اس کے آسمان ہونے پر دلائل دینا شروع کر دیتا۔وہ اس کی باتوں ، حرکتوں اور ضد پر زیادہ سے زیادہ اپنا بلڈ پریشر اور کولیسٹرول لیول ہائی کر سکتے تھے اور کچھ نہیں۔
New Haven جانے سے پہلے سکندر اور طیبہ اس کے لیے خاص طور پر پاکستان سے امریکہ آئے تھے۔وہ کئی دن تک اسے سمجھاتے رہے تھے ، جنہیں وہ اطمینان سے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتا رہا تھا۔وہ کئی سالوں سے نصیحتیں سننے کا عادی تھا اور عملی طور پر وہ نصیحتیں اب اس پر قطعاً کوئی اثر نہیں کرتی تھیں۔دوسری طرف سکندر اور طیبہ واپس پاکستان جاتے ہوئے بےحد فکرمند بلکہ کسی حد تک خوفزدہ بھی تھے۔
وہ Yale سے فنانس میں ایم بی اے کرنے آیا تھا اور اس نے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا۔
پاکستان میں جن اداروں میں وہ پڑھتا رہا تھا اگرچہ وہ بھی بہت اچھے تھے مگر وہاں تعلیم اس کے لیے کیک واک تھی۔Yale میں مقابلہ بہت مشکل تھا وہاں بےحد قابل لوگ اور ذہین اسٹوڈنٹ موجود تھے۔اس کے باوجود وہ بہت جلد نظروں میں آنے لگا تھا۔
اس میں اگر ایک طرف اس کی غیر عمولی ذہنی صلاحیتوں کا دخل تھا تو دوسری طرف اس کے رویے کا بھی۔ایشین اسٹوڈنٹس والی روایتی ملنساری اور خوش اخلاقی اس میں مفقود تھی۔اس میں لحاظ و مروت بھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ احساسِ کمتری اور مرعوبیت تھی جو ایشین اسٹوڈنٹس امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیز میں فطری طور پر لے کر آتے ہیں۔اس نے بچپن ہی سے بہترین اداروں میں پڑھا تھا۔ایسے ادارے جہاں پڑھانے والے زیادہ تر غیر ملکی تھے اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بھی کوئی علم کے بہتے ہوئے سر چشمے نہیں ہوتے۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ Yale نے اسکالر شپ دے کر اس پر کوئی احسان نہیں کیا وہ اگر باقی دونوں یونیورسٹیز میں سے کسی کا انتخاب کرتا تو اسکالر شپ اسے وہاں سے بھی مل جاتا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی اسے یہ معلوم تھا کہ اس کے ماں باپ کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ جہاں چاہتا ایڈمیشن لے سکتا تھا۔اگر اپنے فیملی بیک گراؤنڈ اسٹیٹس اور قابلیت کا زعم نہ ہوتا تب بھی سالار سکندر اس قدر تلخ اور الگ تھلگ نیچر رکھتا تھا کہ وہ کسی کو اپنی خوش اخلاقی کے جھوٹے مظاہرہ سے متاثر نہیں کر سکتا تھا۔رہی سہی کسر اس کے آئی کیو لیول نے پوری کر دی تھی۔
شروع کے چند ہفتوں میں ہی اس نے اپنے پروفیسرز اور کلاس فیلوز کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی تھی اور یہ بھی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔وہ بچپن سے تعلیمی اداروں میں اسی قسم کی توجہ حاصل کیا کرتا تھا۔وہ ایسا اسٹوڈٹ نہیں تھا ، جو فضول باتوں پر بحث برائے بحث کرتا۔اس کے سوال ہی اس طرح کے ہوتے تھے کہ اس کے اکثر پروفیسرز کو فوری طور پر ان کا جواب دینے میں دشواری ہوتی۔جواب غیر تسلی بخش بھی ہوتا ، تب بھی وہ جتاتا نہیں تھا صرف خاموش ہو جاتا تھا ، مگر وہ یہ تاثر بھی نہیں دیتا تھا کہ وہ مطمئن ہو گیا تھا یا اس جواب کو تسلی کر رہا تھا۔وہ بحث صرف ان پروفیسرز سے کرتا تھا ، جن کے بارے میں اسے یہ یقین ہوتا کہ وہ ان سے واقعی کچھ نہ کچھ سیکھے گا یا جب کے پاس روایتی یا کتابی علم نہیں تھا۔
پڑھائی وہاں بھی اس کے لیے بہت مشکل نہیں تھی ، نہ ہی اس کا سارا وقت پڑھائی میں گزرتا تھا۔پہلے کی نسبت اسے کچھ زیادہ وقت دینا پڑتا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے لئے اور اپنی سرگرمیوں کے لئے وقت نکال لیا کرتا تھا۔
وہ وہاں کسی ہوم سکنیس کا شکار نہیں تھا کہ چوبیس گھنٹے پاکستان کو یاد کرتا رہتا یا پاکستان کے ساتھ اس طرح کے عشق میں مبتلا ہوتا کہ ہر وقت اس کے کلچر کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرتا نہ ہی امریکہ اس کے لیے کوئی نئی اور اجنبی جگہ تھی اس لیے اس نے وہاں موجود پاکستانیوں کو تلاش کرنے اور ان کے ساتھ روابط بڑھانے کی دانستہ طور پر کوئی کوشش نہیں کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود بخود وہاں موجود کچھ پاکستانیوں سے اس کی شناسائی ہو گئی۔
یونیورسٹی کی دوسری بہت سی سوسائٹیز ، ایسوسی ایشنز اور کلبز میں اس کی دلچسپی تھی اور اس پاس ان کی ممبر شپ بھی تھی۔
پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا زیادہ تر وقت بے کار پھرنے میں ضائع کرتا تھا۔خاص طور پر ویک اینڈز۔۔۔۔۔سینما ، کلبز ، ڈسکوز ، تھیٹرز ۔۔۔۔۔اس کی زندگی ان ہی چاروں کے درمیان تقسیم شدہ تھی۔ہر نئی فلم ، ہر نیا اسٹیج پلے ، ہر نیا کنسرٹ ، اور کوئی بھی نئی انسسٹر و مینٹل پرفارمنس وہ نہیں چھوڑتا تھا یا پھر ہر نیا چھوٹا ، بڑا ریسٹورنٹ ، مہنگے سے مہنگا اور سستے سے سستا ۔۔۔۔۔اسے ہر ایک کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔
اور سب کے درمیان وہ ایڈونچر اس کے ذہن میں اب تک تھا جس کی وجہ سے وہ امریکہ میں موجود تھا۔سکندر کو اس کے نکاح کا پتا کب چلا تھا ، کیسے چلا تھا ، سالار نے جاننے کی کوشش نہیں کی مگر وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ سکندر عثمان کو اس کے بارے میں کیسے پتا چلا ہو گا۔یہ حسن یا ناصرہ نہیں تھے جنہوں نے سکندر عثمان کو سالار اور امامہ کے بارے میں بتایا ہو گا۔وہ ان کی طرف سے مطمئن تھا یہ خود امامہ ہی ہو گی ، جس نے اس سے فون پر بات کرنے کے بعد یہ سوچا ہو گا کہ اس کے بجائے سکندر عثمان سے ساری بات کی جائے اور اس نے یقیناً ایسا ہی کیا ہو گا ، اسی لیے اس نے دوبارہ سالار سے رابطہ نہیں کیا۔سکندر نے اس سے رابطہ کرنے کے بعد ہی اس کے کمرے کی تلاشی لے کر وہ نکاح نامہ برآمد کر لیا تھا۔
مگر یہ سب کب ہوا تھا۔۔۔۔۔؟یہ وہ سوال تھا ، جس کا جواب وہ نہیں ڈھونڈ پا رہا تھا۔
جو بھی تھا امامہ کے لیے اس کی نا پسندیدگی میں پاکستان سے امریکہ آتے ہوئے کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔یکے بعد دیگرے وہ اس کے ہاتھوں زک اٹھانے پر مجبور ہوا تھا اور اب وہ پچھتاتا تھا کہ اس نے اس تمام معاملے میں امامہ کی مدد کیسے کی۔بعض دفعہ اسے حیرانی ہوتی تھی کہ آخر وہ امامہ جیسی لڑکی مدد کرنے پر تیار کیسے ہو گیا تھا اور اس حد تک مدد کہ۔۔۔۔۔
وہ اب ان تمام واقعات کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی کوفت محسوس کرتا تھا۔آخر میں نے اس کی مدد کیوں کی جبکہ مجھے جو کرنا چاہئیے تھا کہ اس کے رابطہ کرنے پر میں وسیم کو ، اس کے والدین کو یا خود اپنے والدین کو اس سارے معاملے کے بارے میں بتا دیتا یا پھر جلال کے بارے میں انہیں بتا دیتا یا پھر اس کے کہنے پر اس کے ساتھ سرے سے نکاح کرتا ہی نہ یا اسے گھر سے فرار ہونے میں تو کبھی اس طرح مدد نہ کرتا۔
بعض دفعہ اسے لگتا کہ جیسے وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کے ہاتھوں میں استعمال ہوا تھا۔اتنی فرنبرداری ، اتنی تابع داری آخر کیوں۔۔۔۔۔؟جبکہ وہ اس کے ساتھ کوئی تعلق یا واسطہ نہیں رکھتی تھی اور وہ کسی طرح سے بھی اس کی مدد کرنے پر مجبور نہیں تھا۔
اب اسے وہ سب کچھ ایک ایڈونچر سے زیادہ حماقت لگتا۔وہ کسی سائیکالوجسٹ کی طرح امامہ کے بارے میں اپنے رویے کا تجزیہ کرتا اور مطمئن ہو جاتا۔
"جوں جوں وقت گزرتا جائے گا وہ مکمل طور پر میرے ذہن سے نکل جائے گی نہ بھی نکلی تب بھی مجھے کیا فرق پڑے گا۔"وہ سوچتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اس کے حلقہ احباب میں اضافہ ہونے لگا اور اسی حلقہ احباب میں ایک نام سعد کا تھا۔اس کا تعلق کراچی سے تھا۔سالار کی طرح وہ بھی امیر کبیر گھرانے سے تعلق تھا مگر سالار کے برعکس اس کا گھرانہ خاصا مذہبی تھا۔یہ سالار کا اندازہ تھا۔سعد کی حس مزاح بہت اچھی تھی اور وہ بہت ہینڈسم بھی تھا۔نیوہیون میں ایک امریکی دوست کے توسط سے اس کی ملاقات سعد سے ہوئی تھی اور اس کی طرف دوستی میں پہل کرنے والا سعد ہی تھا۔سالار نے اس دوستی کو قبول کرنے میں قدرے تامل کیا کیونکہ اسے یوں لگتا تھا جیسے سعد اور اس کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔سعد وہاں سے ایم فل کر رہا تھا۔سالار کے برعکس وہ پڑھائی کے ساتھ جاب بھی کرتا تھا۔اس کا حلیہ اس کی مذہب سے جذباتی وابستگی بتانے کے لیے کافی تھا۔اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور مذہب کے بارے میں اس کا علم بہت زیادہ تھا۔سالار نے زندگی میں پہلی بار کسی ایسے شخص سے دوستی کی تھی جو مذہبی تھا۔
سعد پانچ وقت کی نماز پڑھتا تھا اور دوسروں کو بھی اس کے لیے کہتا رہتا۔وہ مختلف آرگنائزیشنز اور کلبز میں بھی بہت ایکٹو تھا۔سالار کے برعکس امریکہ میں اس کا کوئی قریبی رشتے دار نہیں تھا ، صرف ایک دور کے چچا تھے جو کسی دوسری اسٹیٹ میں رہتے تھے۔شاید اسی لیے اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے وہ بہت زیادہ سوشل تھا۔سالار کے برعکس وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور شاید یہ لاڈ اور پیار ہی تھا جس نے اس کے والدین کو اسے اتنی دور تعلیم کے لیے بھیج دیا تھا ورنہ اس کے باقی دونوں بھائی سعد کے والد کے ساتھ گریجویشن کے بعد بزنس میں شریک ہو گئے تھے۔
وہ بھی ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے کر رہتا تھا مگر اس کے ساتھ اس اپارٹمنٹ میں چار اور لوگ بھی رہتے تھے۔ان چار میں سے دو عرب اور ایک بنگلہ دیشی کے علاوہ ایک اور پاکستانی تھا۔وہ تمام اسٹوڈنٹس تھے۔
سعد پہلی ہی ملاقات میں سالار سے بہت بےتکلف ہو گیا تھا۔سالار کے امریکی دوست جیف نے جب سعد کو سالار کی اکیڈیمک کامیابیوں کے بارے میں بتایا تو ہر ایک کی طرح سعد بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا۔
سالار کو سعد کا چہرہ دیکھ کر اور خاص طور پر اس کی داڑھی دیکھ کر ہمیشہ جلال کا خیال آتا۔داڑھی کی وجہ سے دونوں میں عجیب سی مماثلت اور مشابہت نظر آتی۔کئی بار دوسرے دوستوں کے علاوہ سعد بھی ویک اینڈ پر اس کے ساتھ ہوتا۔
"تم مسلمان ہو لیکن مذہب کی سرے سے پابندی نہیں کرتے۔"سعد نے ایک دفعہ سالار سے کہا تھا۔
"اور تم ضرورت سے زیادہ مذہبی ہو۔"سالار نے جواباً کہا۔
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کہ جس طرح تم پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے رہتے ہو اور ہر وقت اسلام کی بات کرتے رہتے ہو یہ کچھ اوور ایکٹنگ ٹائپ چیز ہو جاتی ہے۔"سالار نے بڑی صاف گوئی کے ساتھ کہا۔"تم تھکتے نہیں ہو ہر وقت نمازیں پڑھ کر۔"
"یہ فرض ہے۔اللہ کی طرف سے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں ، اسے ہر وقت یاد رکھیں۔"سعد نے زور دیتے ہوئے کہا۔سالار نے ایک جماہی لی۔
"تم بھی عبادت کیا کرو ، آخر تم بھی مسلمان ہو۔"سعد نے اس سے کہا
"میں جانتا ہوں اور عبادت نہ کرنے سے کیا میں مسلمان نہیں رہوں گا۔"اس نے کچھ تیکھے لہجے میں سعد سے کہا۔
"صرف نام کا مسلمان بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تم؟"
"سعد ! پلیز اس قسم کے فضول ٹاپک پر بات مت کرو۔میں جانتا ہوں تمہیں مذہب میں دلچسپی ہے مگر مجھے نہیں ہے۔بہتر ہے ہم ایک دوسرے کی رائے اور جذبات کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے پر کچھ ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔جیسے میں تم سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم نماز چھوڑ دو ، اس طرح تم بھی مجھ سے یہ نہ کہو کہ میں نماز پڑھوں۔"سالار نے انتہائی صاف گوئی سے کہا تو سعد خاموش ہو گیا۔
مگر کچھ دنوں بعد وہ اس کے اپارٹمنٹ پر آیا۔سالار اس کی تواضع کے لیے کچھ لانے کے لیے کچن میں گیا تو سعد بھی اس کے پیچھے ہی آ گیا۔اس نے باتوں کے دوران فریج کھول لیا اور اس میں موجود کھانے کی چیزوں پر نظر دوڑانے لگا۔سالار پچھلی رات ایک فاسٹ فوڈ outlet سے اپنا پسندیدہ برگر لے کر آیا تھا۔وہ فریج میں پڑا تھا۔سعد نے اسے نکال لیا۔
"اسے رکھ دو ، یہ تم نہ کھانا۔"سالار نے جلدی سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─,