┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_27
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دو دن ہاسپٹل میں گزارے تھے۔ وہاں سے گاڑی میں گزرنے والے کسی جوڑے نے اسے گرتے دیکھا تھا اور وہی سے اُٹھا کر ہاسپٹل لے آئے تھے۔ ڈاکٹرز کے مطابق وہ فوڈ پوائزن کا شکار ہوا تھا۔ وہ ہاسپٹل آنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہوش میں آگیا تھا اور وہاں سے چلے جانے کی خواہش رکھنے کے باجود وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو اتنی بری حالت میں محسوس کر رہا تھا کہ وہاں سے جا نہیں سکا ۔
اگلے دن شام تک اس کی حالت کچھ بہتر ہونے لگی مگر ڈاکٹرز کی ہدایت پر سالار نے وہ رات بھی وہیں گزاردی۔ اتوار کو سہ پہر وہ گھر آگیا تھا اور گھر آتے ہی اس نے ٹور آپریٹر کے ساتھ طے پایا جانے والا پروگرام چند دنوں کے لئے ملتوی کر دیا۔اسے پیر کی صبح نکلنا تھا اور اس نے طے کیا تھا کہ جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سینڈرا کو کال کرے گا لیکن اب پروگرام کینسل کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اس کو یا بلکہ کسی بھی دوست کو کال کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔
ایک ہلکے سینڈوچ کے ساتھ کافی کا ایک کپ پینے کے بعد اس نے سکون آور دوا لی اور سونے کے لئے چلا گیا۔
اگلے دن جب اس کی آنکھ کھلی اس وقت گیارہ بج رہے تھے۔ سالار کو نیند سے بیدار ہوتے ہی سر میں شدید درد کا احساس ہوا۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر اس نے اپنا ماتھا اور جسم چھوا ، اس کا ماتھا بہت زیادہ گرم تھا۔ 
"کم آن! "وہ بیزاری سے بڑبڑایا۔ پچھلے دو دن کی بیماری کے بعد وہ اگلے دو دن پستر پر پڑے ہوئے نہیں گزارنا چاہتا تھا اور اس وقت اسے اس کے آثار نظر آرہے تھے۔
جوں توں بیڈ سے نکل کر وہ منہ ہاتھ دھوئے بغیر ایک بار پھر کچن میں آگیا کافی بننے کے لئے رکھ کر وہ آکر answerphone پر ریکارڈ کالز سننے لگا۔ چند کالز سعد کی تھیں جس نے واپس پاکستان جانے سے پہلے اس سے ملنے کے لئے بار بار اسے رنگ کیا تھا اور پھر آخری کال میں اس کے اس طرح غائب ہونے پر اسے اچھی خاصی صلواتیں سنائی تھیں۔
سینڈرا کا اندازہ تھا کہ وہ اس سے ملے بغیر سکینگ کے لئے چلا گیا تھا۔ یہی خیال سکندر اور کامران کا تھا۔ انہوں نے بھی اسے چند کالز کی تھیں۔ چند کالز اس کے کچھ کلاس فیلوز کی تھیں۔ وہ بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے کی گئی تھیں۔ ہر ایک نے اسے تاکید کی تھی کہ وہ انہیں جوابی کال کرے مگر اب وہ جانتا تھا کہ اب وہ سب واپس جا چکے ہوں گے البتہ وہ سکندر اور کامران اور سعد کو پاکستان میں کال کرسکتا تھا مگر اس وقت وہ یہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
کافی کے ایک مگ کے ساتھ دو سلائس کھانے کے بعد اس نے گھر پر موجود چند میڈیسنز لیں اور پھردوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ بخار کے لئے اتنا ہی کافی تھا اور شام تک وہ اگر مکمل طور نہیں تو کافی حد تک ٹھیک ہوچکا ہوگا۔
اس کا اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا ۔ شام کے وقت میڈیسن کے زیر اثر آنے والی نیند سے بیدار ہوا تو اس کا جسم بری طرح بخار میں پھنک رہا تھا۔ اس کی زبان اور ہونٹ خشک تھے اور اسے اپنا حلق کانٹوں سے پھرا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ پورے جسم کے ساتھ ساتھ اس کا سر درد بھی شدید درد کی گرفت میں تھا اور شاید اس کے اس طرح بیدار ہونے کی وجہ یہ شدید بخار اور تکلیف ہی تھی۔
اس بار وہ اوندھے منہ بیڈ پر لیٹےہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ تکیے پر ماتھے کے نیچے رکھتے ہوئے ہاتھوں کے انگوٹھوں سے کنپٹیوں کو مسلتے ہوئے سر میں اُٹھنے والی درد کی ٹیسوں کو کم کرنے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح ناکام رہا۔ چہرہ تکیے میں چھپائے وہ بے حس و حرکت پڑا رہا۔
تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش میں وہ کب دوبارہ نیند کی آغوش میں گیا اسے اندازہ نہیں ہوا۔ پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ رات ہوچکی تھی اور صرف کمرہ ہی نہیں پورا گھر تاریک تھا وہ پہلے سے زیادہ تکلیف میں تھا۔ چند منٹوں تک بیڈ سے اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد وہ دوبارہ لیٹ گیا۔ ایک بار پھر اس نے اپنے ذہن کو تاریکی میں ڈوبتے محسوس کیا مگر اس بار یہ نیند نہیں تھیں۔ وہ غنودگی کی کسی درمیانی کیفیت میں گزر رہا تھا ۔ وہ اب خود کو کراہتے ہوئے سن رہا تھا مگر وہ اپنی آواز کا گلا نہیں گھونٹ پارہا تھا۔ سینٹرل ہیٹنگ ہونے کے باجود اسے بے تحاشا سردی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا اور کمبل اس کی کپکپاہٹ کو ختم کرنے میں ناکام تھا وہ جسمانی طور پر خود کو اٹھ کر کچھ بھی پہننے یا اوڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اسے اپنے سینے اور پیٹ میں ایک بار پھر درد محسوس ہونے لگا۔
اس کی کراہوں میں اب شدت آتی جارہی تھی۔ ایک بار پھر متلی محسوس کرنے پر اس نے اٹھنے اور تیزی سے واش روم تک جانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا تھا ۔ چند لمحوں کے لئے وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھنے میں کامیاب ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ بیڈ سے اترنے کی کوشش کرتا اسے ایک زور کی ابکائی آئی۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اندر رہ جانے والی تھوڑی بہت خوراک بھی باہر آگئی تھی ۔ وہ غشی کے عالم میں بھی اپنے کپڑوں اور کمبل سے بے نیا ز نہیں تھا مگر وہ مکمل طور پر گندگی سے لتھڑے ہوئے بے بس تھا اسے اپنا پورا وجود مفلوج محسوس ہورہا تھا۔ بے جان سی حالت میں وہ اسی طرح دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ وہ ارد گرد کے ماحول سے مکمل طور بے نیاز ہوچکا تھا۔ غشی کی کیفیت میں کراہوں کے ساتھ اس کے منہ میں جو کچھ آرہا تھا وہ بولتا جارہا تھا۔
غشی کا یہ سلسلہ کتنے گھنٹے جاری رہا تھا اسے یاد نہیں۔ ہاں البتہ اسے یہ ضرور یا د تھا اس کی کیفیت کے دو ران اسے ایک بار یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ مر رہاہے اور اسی وقت زندگی میں پہلی بار موت سے عجیب سا خوف محسوس ہوا تھا وہ کسی نہ کسی طرح فون تک پہنچنا چاہتا تھا وہ کسی کو بلانا چاہتا تھا مگر وہ بستر سے نیچے نہیں اتر سکا ۔ شدید بخار نے اسے مکمل طور مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔
اور پھر بالاآخر وہ خود ہی اس کیفیت سے باہر آگیا تھا اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا جب وہ اس غنودگی سے باہر نکلا تھا۔ آنکھیں کھولنے پر اس نے کمرے میں وہی تاریکی دیکھی تھی مگر اس کا جسم اب پہلے کی طرح گرم نہیں تھا۔ کپکپی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی اس کے سر اور جسم میں ہونے والا درد بھی بہت ہلکا تھا۔
کمرے کی چھت کو کچھ دیر گھورنے کے بعد اس نے لیٹے لیٹے اندھیرے میں سائیڈ لیمپ کو ڈھونڈ کر آن کردیا۔ روشنی نے کچھ دیر کے لئے اس کی آنکھوں کو چندھیا کر بند ہوجانے پر مجبور کردیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر آنکھوں کے بند پپوٹوں کو چھوا۔ وہ سوجے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں چبھن ہورہی تھی۔ سوجے ہوئے تمام پپوٹوں کو بمشکل کھلے رکھتے ہوئے وہ اب ارد گرد کی چیزوں پر غور کرتا رہا تھا اور اپنے ساتھ ہونے والے تمام واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہلکے ہلکے جھماکوں کے ساتھ اسے سب کچھ یاد آتا جارہا تھا۔
اسے بے اختیار اپنے آپ سے گھن آئی بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر اسے اتار کر پھینک دیا۔ پھر لڑکھڑاتے ہوئے بیڈ سے اتر گیا اور کمبل اور بیڈ شیٹ بھی کھینچ کر اس نے بیڈ سے اتار کر فرش پر ڈال دئیے۔
ان ہی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ سوچے سمجھے بغیر باتھ روم میں گھس گیا۔
باتھ روم میں موجود بڑے آئینے کے سامنے اپنے چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے جیسے شاک لگا تھا۔ اسکی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں اور ان کے گرد پڑنے والے حلقے بہت نمایاں تھے اور چہرہ بالکل زرد تھا۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ اسے اس وقت دیکھنے والا یہی سوچتا کہ وہ کسی لمبی بیماری سے اٹھا ہے۔
"چوبیس گھنٹوں میں اتنی شیو بڑھ گئی ہے؟" اس نے حیرانی کے عالم میں اپنے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔" اتنی بری شکل تو میری فوڈ پوائزنگ کے بعد ہاسپٹل میں رہ کر بھی نہیں ہوئی تھی جتنی ایک دن کے اس بخار نے کردی ہے۔"
وہ بے یقینی کے عالم میں اپنے حلقوں کو دیکھتے ہوئے بڑ بڑایا۔ ٹب میں پانی بھر کر وہ اس میں لیٹ گیا۔ اسے حیرانی ہورہی تھی کہ بخار کی حالت میں بھی اس نے فوری طور اسی وقت اپنے کپڑے کیوں نہیں بدل لئے وہ کیوں وہیں پڑا رہا۔
باتھ روم سے نکلنے کے بعد بیڈ روم میں رہنے کے بجائے وہ کچن میں چلا گیا۔ اسے بے تحاشا بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے نوڈلز بنائے اور انہیں کھانے لگا۔" مجھے صبح ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا تفصیلی چیک اپ کروانا چاہیئے۔ اس نے نوڈلز کھاتے ہوئے سوچا۔ تھکن ایک بار پھر اس کے اعصاب پر سوار ہورہی تھی۔ نہانے کے بعد اسے اگرچہ اپنا وجود بہت ہلکا پھلکا محسوس ہورہا تھا مگر اس کی نقاہت ختم نہیں ہوئی تھی۔
نوڈلز کھانے کے دوران اس نے ٹی وی آن کردیا اور چینل سرچ کرنے لگا۔ ایک چینل پر آنے والا ٹاک شو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ رکھ دیا اور پھر نوڈلز کے پیالے پر جھک گیا۔ اس نے ابھی نوڈلز کا دوسرا چمچہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ وہ بے اختیار رک گیا۔ الجھی ہوئی نظروں سے ٹاک شو کو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ کو ایک بار پھر اٹھالیا۔ ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے وہ ایک بار پھر چینل سرچ کرنے لگا مگر اس بار وہ ہر چینل کو پہلے سے زیادہ ٹھہر ٹھہر کر دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کی الجھن بڑھتی جارہی تھی۔
"یہ کیا ہے؟" وہ بڑ بڑایا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا وہ جمعہ کی رات کو سڑک پر بے ہوش ہونے کے بعد ہاسپٹل گیا تھا۔ ہفتہ کا سارا دن اس نے وہیں گزارا تھا اور اتوار کی سہ پہر کو وہ واپس آیا تھا۔ اتوار کی سہ پہر کو سونے کے بعد وہ اگلے دن گیارہ بجے کے قریب اٹھا تھا۔ پھر اسی رات اسے بخار ہوگیا تھا۔ شاید اس نے منگل کا سارا دن بخار کی حالت میں گزارا تھا اور اب یقیناً منگل کی رات تھی مگر ٹی وی چینلز اسے کچھ اور بتارہے تھے وہ ہفتہ کی رات تھی اور اگلا طلوع ہونے والا دن اتوار کا تھا۔
اس نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر دوڑائی جو لونگ روم کی میز پر پڑی تھی۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس نے نوڈلز کا پیالہ میز پر رکھ دیا یک لخت ہی جیسے اس کی بھوک اڑ گئی تھی۔ وہاں موجود تاریخ نے اسے جیسے ایک اور جھٹکا دیا تھا۔
"کیا مطلب ہے ، کیا میں پانچ دن بخار میں مبتلا رہا ہوں۔ پانچ دن ہوش و حواس سے بے خبر رہا ہوں ؟ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟" وہ بڑا بڑارہا تھا۔
"پانچ دن ، پانچ دن تو بہت ہوتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے، مجھے پانچ دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلے۔۔۔۔۔ میں پانچ دن تک اس طرح بے ہوش کیسے رہ سکتا ہوں۔"
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ تیزی سے answer phone کی طرف بڑھ گیا، فون پر اس کے لئے کوئی ریکارڈ پیغام نہیں تھا۔
"پاپا نے مجھے کوئی کال نہیں کی اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ سعد سب کو کیا ہو گیا۔۔۔۔۔کیا میں انہیں یاد نہیں رہا۔"
اسے جیسے کوئی پیغام نہ پا کر شاک لگا تھا۔ وہ بہت دیر تک بالکل ساکت فون کے پاس بیٹھا رہا۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاپا کو میرا خیال ہی نہ رہا ہو، یا کسی اور فرینڈ کو۔۔۔۔۔ یا پھر کسی اور کو۔۔۔۔۔اس طرح مجھے کیسے چھوڑ دیا انہوں نے۔ اور اس وقت اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ ایک بار پھر کپکپا رہے تھے۔ وہ نقاہت یا کمزوری نہیں تھی پھر وہ کیا تھا جو اسے کانپنے پر مجبور کر رہا تھا۔ وہ اٹھ کر واپس صوفے کی طرف چلا آیا۔
نوڈلز کے پیالے کو ہاتھ میں لے کر وہ ایک بار پھر انہیں کھانے لگا اس بار نوڈلز میں چند منٹ پہلے کا ذائقہ بھی ختم ہو چکا تھا۔ اسے لگا وہ بے ذائقہ ربڑ کے چند نرم ٹکڑوں کو چبا رہا ہے۔چند چمچے لینے کے بعد اس نے پیالہ دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اسے کھا نہیں پا رہا تھا۔ وہ اب بھی عجیب سی بے یقینی کی گرفت میں تھا۔ کیا واقعی وہ پانچ دن یہاں اکیلا اس طرح پڑا رہا تھا کہ اسے خود اپنے بارے میں پتا تھا اور نہ ہی کسی اور کو۔
وہ ایک بار پھر واش روم میں چلا گیا۔ اس کا چہرہ کچھ دیر پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا۔ نہانے سے وہ کچھ بہتر ہو گیا تھا مگر اس کی شیو اور آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقے اب بھی اسی طرح موجود تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ کچھ دیر تک اپنی آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقوں کو چھوتا رہا جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ واقعی وہاں موجود تھے یا پھر اس کا وہم ہے۔ اسے یک دم اپنے چہرے پر موجود بالوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
وہیں کھڑے کھڑے اس نے شیونگ کٹ نکالی اور شیو کرنے لگا۔ شیو کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے اسے تین کٹ لگے۔ اس نے شیو کے بعد اپنا چہرہ دھویا اور اس کے بعد تولیے سے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے اسے خشک کرنے لگا۔ جب اسے ان زخموں سے رستے ہوئے خون کا احسا س ہوا تو اس نے چہرے کو تولیے سے تھپتھپانا بند کر دیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھنے لگا۔
اس کے گالوں پر آہستہ آہستہ ایک بار پھر خون کے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ گہرا سرخ رنگ، وہ پلکیں جھپکائے بغیر ان قطروں کو دیکھتا رہا۔ تین ننھے ننھے سرخ قطرے۔
“What is next to estacy?”
“Pain”
سرد اور مدھم آواز آئی ۔ وہ پتھر کے بت کی طرح ساکت ہو گیا۔
“What is next to pain?”
“Nothingness”
اسے ایک ایک لفظ یاد تھا
“Nothingness”
وہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ اس کے گالوں کی حرکت سے خون کے قطرے اس کے گالوں پر پھسلنے لگے۔
“And what comes next to nothingness”
“Hell”
سالار کو یک دم ابکائی آئی۔وہ واش بیسن پر بے اختیار دوہرا ہو گیا۔ چند منٹ پہلے کھائی گئی خوراک ایک بار پھر باہر آ گئی تھی۔ اس نے نل کھول دیا۔ اس نے اس کے بعد کیا پوچھا تھا۔ اس نے اس کے جواب میں کیا کہا تھا اسے یاد تھا۔
"ابھی تمہیں کوئی چیز سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آئے گی بھی نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب تم سب کچھ سمجھ جاؤ گے۔ ہر شخص پر ایک وقت آتا ہے جب وہ سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ جب کوئی معمہ، معمہ نہیں رہتا۔ میں اس دور سے گزر رہی ہوں۔ تم پر وہ دور آئندہ کبھی آئے گا۔ اس کے بعد تم دیکھنا۔ کیا تمہیں ہنسی آتی ہے۔"
سالار کو ایک اور ابکائی آئی، اسے اپنی آنکھوں سے پانی بہتا ہوا محسوس ہوا۔
"زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتا ہے۔ کوئی ماں باپ ، کوئی بہن بھائی، کوئی دوست نہیں ہوتا۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی آسمان، بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلا میں بھی تھامے ہوئے ہے۔ پھر پتا چلتا ہے ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک ذرے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے۔ صرف ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔"
سالار کو اپنے سینے میں عجیب سا درد محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے بہتے ہوئے پانی کو منہ میں ڈالا اسے ایک بار پھر ابکائی آئی۔
"اس کے بعد ہماری عقل ٹھکانے آ جاتی ہے۔"
وہ اس آواز کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی وہ اسے اس وقت کیوں یاد ئی تھی۔
اس نے پانی کے چھینٹے اپنے چہرے پر مارنے شروع کر دئیے۔ چہرے کو ایک بار پھر پونچھنے لگا۔ آفٹر شیو کی بوتل کھول کر اس نے گالوں پر موجود ان زخموں پر لگانا شروع کر دیا جہاں اب اسے پہلی بار تکلیف ہو رہی تھی۔
واش روم سے باہر نکلتے ہوئے اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کے ہاتھ اب بھی کانپ رہے ہیں۔
"مجھے ڈاکٹر کے پاس چلے جانا چاہئیے۔" وہ اپنی مٹھیاں بھینچنے لگا۔" مجھے مدد کی ضرورت ہے اپنا چیک اپ کروانا ہے۔"
وہ نہیں جانتا تھا اسے یک دم وہاں وحشت کیوں ہونے لگی تھی۔ اسے اپنا سانس وہاں بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ یوں جیسے کوئی اس کی گردن پر پاؤں رکھے آہستہ آہستہ دباؤ ڈال رہا تھا۔
"کیا یہ ممکن ہے کہ سب لوگ مجھے اس طرح بھول جائیں۔ اس طرح۔۔۔۔۔"
اس نے اپنی وارڈروب سے نئے کپڑے نکال کر ایک بار پھر کچھ دیر پہلے کا پہنا ہوا لباس بدلنا شروع کر دیا۔ وہ جلد از جلد ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا تھا اسے اپنے اپارٹنمٹ سے یک دم خوف محسوس ہونے لگا تھا۔
اس رات گھر آ کر وہ تقریباً ساری رات جاگتا رہا تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت نے اسے اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ اس کا ذہن یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ اسے اس طرح بھلا دیا گیا ہے۔ وہ ماں باپ کی ضرورت سے زیادہ توجہ ہمیشہ حاصل کرتا رہا تھا۔ کچھ اس کی حرکتوں کی وجہ سے بھی سکندر عثمان اور طیبہ کو اس کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہونا پڑا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس کے بارے میں فکر مند رہے تھے، مگر اب یک دم چند دنوں کے لئے وہ جیسے سب کی زندگی سے نکل گیا تھا۔ دوستوں کی، بہن بھائیوں کی، ماں باپ کی۔وہ اگر اس بیماری کے دوران وہاں اس اپارٹمنٹ میں مر جاتا توکسی کو پتا تک نہیں چلتا شاید تب تک جب تک اس کی لاش گلنے سڑنے نہ لگتی اور اس موسم میں ایسا ہونے میں کتنے دن لگتے۔
وہ اس رات ایک ایک گھنٹے کے بعد اپنے answer phone کو چیک کرتا رہا۔ اگلا پورا ہفتہ اس نے اسی بے یقینی کے عالم میں اپنے اپارٹمنٹ میں گزارا، پورے ہفتے کے دوران اسی کہیں سے کوئی کال نہیں ملی۔
"کیا یہ سب لوگ مجھے بھول گئے ہیں؟"
وہ وحشت زدہ ہو گیا۔ ایک ہفتہ تک بے وقوفوں کی طرح کسی کی کال کا انتظار کرتے رہنے کے بعد اس نے خود سب سے رابطہ کی کوشش کی۔
وہ ا نہیں فون پر بتانا چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ کس کیفیت سے گزرا تھا۔ وہ ان کے ساتھ شکوہ کرنا چاہتا تھا ، مگر ہر ایک سے رابطہ کرنے پر اسے پہلی بار یوں محسوس ہوا جیسے کسی کو اس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ ہر ایک کے پاس اپنی مصروفیات کی تفصیلات تھیں۔
سکندر اور طیبہ اسے اسٹریلیا میں اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ وہاں کیا کر رہے تھے، کتنا انجوائے کر رہے تھے۔ وہ کچھ غائب دماغی کے عالم میں ان کی باتیں سنتا رہا۔
"تم انجوائے کر رہے ہو اپنی چھٹیاں؟"
بہت لمبی چوڑی بات کے بعد طیبہ نے بالآخر اس سے پوچھا۔
"میں؟ہاں، بہت۔۔۔۔۔" وہ صرف تین لفظٖ بول سکا۔
وہ واقعی نہیں جنتا تھا کہ اسے طیبہ سے کیا کہنا، کیا بتانا چاہئیے۔"
باری باری سب سے بات کرتے ہوئے وہ پہلی بار اس قسم کی صورت حال اور کیفیت سے دوچار ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کو بنیادی طور پر صرف زپنی زندگی سے دلچسپی تھی۔ شاید وہ انہیں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتاتا تو وہ اس کے لئے تشویش کا اظہار کرتے۔ پریشان ہو جاتے مگر وہ سب بعد میں ہوتا۔ اس کے بتانے کے بعد، اس سے پہلے ان کی زندگی کے دائرے میں اس کی زندگی کہاں آتی تھی۔ کس کو دلچسپی تھی یہ سننے میں کہ اس کے چند دن کس طرح غائب ہو گئے۔
اور شاید تب ہی اس نے پہلی بار سوچا اگر میری زندگی ختم بھی ہو گئی تو کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ دنیا میں کیا تبدیلی آئے گی؟ میرا خاندان کیا محسوس کرے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ چند دنوں کے دکھ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور دنیا میں تو شاید چند لمحوں کے لئے بھی کوئی تبدیلی نہ آئے۔
سالار سکندر اگر غائب ہو جائے تو واقعی کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ چاہے اس کا آئی کیو لیول +150 ہو۔ وہ اپنی سوچوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتا مگر ایسی مایوسی اور اس طرح کی ذہنی حالت۔۔۔۔۔ آخر مجھے ہو کیا گیا ہے اگر سب لوگ کچھ دنوں کے لئے مجھے بھول بھی گئے تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے میں بھی تو بہت بار بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطہ نہیں رکھ پاتا۔ پھر اگر میرے ساتھ ایسا ہو گیا تو۔
مگر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اور اگر واقعی میں، میں اس بے ہوشی سے واپس نہ آتا تو۔۔۔۔۔اگر میرا بخار کم نہ ہواتا اگر سینے یا پیٹ کا وہ درد ختم نہ ہوتا۔۔۔۔۔ اپنے ذہن سے وہ یہ سب کچھ جھٹکنے کی کوشش کرتا لیکن ناکام رہتا یہ تکلیف سے زیادہ خوف تھا جس کا شکار وہ اس اچانک بیماری کےدوران ہوا تھا۔"شاید میں کچھ زایدہ حساس ہوتا جا رہا ہوں۔" وہ سوچتا ورنہ ایک معمولی سی بے ہوشی کو خواہ مخواہ ہوا بنا کر سر پر کیوں سورا کر رہا ہوں۔
وہ جھنجھلاتا۔
"کم از کم اب تو ٹھیک ہو چکا ہوں پھر آخر اب مجھے کیا تکلیف ہے کہ میں اس طرح موت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ آخر پہلے بھی تو کئی بار بیمار ہو چکا ہوں۔ خود کشی کی کوشش کر چکا ہوں، جب مجھے کسی خوف نے تنگ نہیں کیا تو اب کیوں مجھے اس طرح کے خوف تنگ کرنے لگے ہیں۔"
اس کی الجھن اور اضطراب میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
"اور پھر مجھے تو بخار کی وہ تکلیف ٹھیک سے یاد بھی نہیں۔ میرے لئے تو یہ صرف خواب یا کوما کی طرح ہے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں"۔ وہ مسکرانے کی کوشش کرتا۔
"کیا چیز ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہو۔ کیا بیماری؟ یا پھر یہ بات کہ کسی کو میری ضرورت نہیں پڑی۔ کسی کو میری یاد نہیں آئی۔ خیال تک نہیں، میرے اپنے لوگوں کو بھی، میرے فیملی ممبرز کو، دوستوں کو۔۔۔۔۔"
"مائی گاڈ۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہوا ہے سالار؟"یونیورسٹی کھلتے ہی پہلے ہی دن سینڈرا نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
"مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔" سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"تم بیمار رہے ہو؟" اسے تشویش ہوئی۔
"ہاں تھوڑا بہت۔"
"مگر مجھے تو نہیں لگتے کہ تم تھوڑے بہت بیمار رہے ہو۔ تمہارا وزن کم ہو گیا ہے اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں۔ کیا بیماری تھی تمہیں؟"
"کچھ نہیں۔ تھوڑا سا بخار اور فوڈ پوائزننگ۔۔۔۔۔" وہ پھر مسکرایا۔
"تم پاکستان گئے ہوئے تھے؟"
"نہیں ، یہیں تھا۔"
"مگر میں نے تو تمہیں نیو یارک جانے سے پہلے کئی بار رنگ کیا۔ ہمیشہ answer phone ہی ملا۔ تم یہ ریکارڈ کروا دیتے کہ تم پاکستان جا رہے ہو۔"
"جسٹ سٹاپ اٹ!" وہ بے اختیار جھنجھلایا۔"سوال پر سوال کرتی جا رہی ہوتم۔"
سینڈرا حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔"تم میری بیوی تو نہیں ہو کہ اس طرح بات کر رہی ہو مجھ سے؟"
"سالار کیا ہوا؟"
"کچھ نہیں ہوا، بس تم ختم کرو یہ ساری بات۔ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کہاں رہے؟ کیوں رہے، ربش۔"
سینڈرا چند لمحے بول نہیں سکی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح ری ایکٹ کرے گا۔
سینڈرا اس دن اس سے یہ سارے سوال پوچھنے والی اکیلی نہیں تھی۔ اس کے تمام دوستوں اور جاننے والوں نے اسے دیکھتے ہی کچھ اس طرح کے سوال، تبصرے یا تاثرات دئیے تھے۔
وہ دن ختم ہونے تک بری طرح جھنجھلاہٹ کا شکار ہو چکا تھا اور کسی حد تک مشتعل بھی۔ وہ کم از کم ان سوالوں کو سننے کے لئے یونیورسٹی نہیں آیا تھا۔ اس طرح کے تبصرے اسے بار بار یادہانی کروا رہے تھے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہو چکا ہے اور وہ ان احساسات سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"مووی دیکھنے کا پروگرام ہے اس ویک اینڈ پر، چلو گے؟" دانش اس دن اس کے پاس آیا ہوا تھا۔
"ہاں چلوں گا۔" سالار تیار ہو گیا۔
"پھر تم تیار رہنا، میں تمہیں پک کر لوں گا۔" دانش نے پروگرام طے کیا۔
دانش پروگرام کے مطابق اسے لینے کے لئے آ گیا تھا۔ وہ کئی ہفتوں کے بعد کسی سینما میں مووی دیکھنے کے لئے آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کم از کم اس رات وہ ایک اچھی تفریح میں کچھ وقت گزار سکے گا مگر مووی شروع ہونے کے دس منٹ بعد اسے وہاں بیٹھے بیٹھے اچانک شدیش قسم کی گھبراہٹ ہونے لگی۔ سامنے اسکرین پر نظر آنے والے کردار اسے کٹھ پتلیاں نظر آنے لگے جن کی حرکات اور آوازوں کو وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر بہت آہستگی کے ساتھ اٹھ کر باہر آ گیا۔ وہ پارکنگ میں بہت دیر تک دانش کی گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا رہا، پھر ایک ٹیکسی لے کر اپنے اپارٹمنٹ پر واپس آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─