┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_17
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ احمقانہ تجویز اسجد کے علاوہ کسی دوسرے کی ہو ہی نہیں سکتی۔ اسے احساس نہیں ہے کہ ابھی میں پڑھ رہی ہوں۔" امامہ نے اپنی بھابھی سے کہا۔
"نہیں اسجد نے یا اس کے گھر والوں نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بابا خود تمہاری شادی کرنا چاہ رہے ہیں۔" امامہ کی بھابھی نے رسانیت سے جواب دیا۔
"بابا نے کہا ہے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ جب میں نے میڈیکل میں ایڈمیشن لیا تھا تب ان کا دور دور تک ایسا کوئی خیال نہیں تھا۔ وہ تو انکل اعظم سے بھی یہی کہتے تھے کہ وہ میرے ہاؤس جاب کے بعد ہی میری شادی کریں گے۔ پھر اب اچانک کیا ہوا؟"امامہ نے بے یقینی سے کہا۔
"کوئی دباؤ ہو گا مگر مجھے تو امی نے یہی بتایا تھا کہ یہ خود بابا کی خواہش ہے۔" بھابھی نے کہا۔
"آپ انہیں بتا دیں کہ مجھے ہاؤس جاب سے پہلے شادی نہیں کرنی۔"
"ٹھیک ہے میں تمہاری بات ان تک پہنچا دوں گی مگر بہتر ہے تم اس سلسلے میں خود بابا سے بات کرو۔" بھابھی نے اسے مشورہ دیا۔
بھابھی کے کمرے سے جانے کے بعد بھی وہ کچھ پریشانی سے وہیں بیٹھی رہی۔ یہ اطلاع اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ اس کے پیروں کے نیچے سے محاورتاً نہیں حقیقتاً زمین نکل گئی تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ اس کی ہاؤس جاب تک اس کی شادی کا مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا اور ہاؤس جاب کرنے کے بعد وہ اس قابل ہو جائے گی کہ خود کو سپورٹ کر سکے یا اپنی جلال سے شادی کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔ تب تک جلال بھی اپنی ہاؤس جاب مکمل کر کے سیٹ ہو جاتا اور ان دونوں کے لئے کسی قسم کا کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا مگر اب اچانک اس کے گھر والے اس کی شادی کی بات کر رہے تھے۔ آخر کیوں؟"
"نہیں اسجد اور اس کے گھر والوں نے مجھ سے اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ میں نے خودان سے بات کی ہے۔"
اس رات وہ ہاشم مبین کے کمرے میں موجود تھی۔ اس کے استفار پر ہاشم مبین نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا۔
"بات بھی کر لی ہے؟ آپ مجھ سے پوچھے بغیر کس طرح میری شادی ارینج کر سکتے ہیں۔" امامہ نے بے یقینی سے کہا۔
ہاشم مبین نے کچھ سنجیدگی سے اسے دیکھا۔" یہ نسبت تمہاری مرضی سے ہی طے ہوئی تھی۔ تم سے پوچھا گیا تھا۔" انہوں نے جیسے اسے یادہانی کرائی۔
"منگنی کی بات اور تھی۔۔۔۔۔ شادی کی بات اور ہے۔۔۔۔۔ آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ ہاؤس جاب سے پہلے آپ میری شادی نہیں کریں گے۔" امامہ نے انہیں ان کا وعدہ یاد دلایا۔
"تمہیں اس شادی پر اعتراض کیوں ہے۔ کیا تم اسجد کو پسند نہیں کرتیں؟"
"بات پسند یا ناپسند کی نہیں ہے۔ اپنی تعلیم کے دوران میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں آئی اسپیشلسٹ بننا چاہتی ہوں۔ اس طرح آپ میری شادی کر دیں گے تو میرے سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔"
"بہت سی لڑکیاں شادی کے بعد تعلیم مکمل کرتی ہیں۔ تم اپنی فیملی میں دیکھو ۔۔۔۔۔کتنی۔۔۔۔۔" ہاشم مبین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
امامہ نے ان کی بات کاٹ لی۔ "وہ لڑکیاں بہت ذہین اور قابل ہوتی ہوں گی۔ میں نہیں ہوں۔ میں ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتی ہوں۔"
"میں اعظم بھائی سے بات کر چکا ہوں، وہ تو تاریخ طے کرنے کے لئے آنے والے ہیں۔" ہاشم مبین نے اس سے کہا۔
"آپ میری ساری محنت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو میرے ساتھ یہی کرنا تھا تو آپ کو چاہئیے تھا کہ آپ اس طرح کا کوئی وعدہ ہی نہ کرتے۔" امامہ نے ان کی بات پر ناراضی سے کہا۔
"جب میں نے تم سے وعدہ کیا تھا تب کی بات اور تھی۔۔۔۔۔ تب حالات اور تھے اب۔۔۔۔۔"
امامہ نے ان کی بات کاٹی۔" اب کیا بدل گیا ہے۔۔۔۔۔حالات میں کون سی تبدیلی آئی ہے جو آپ میرے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں؟"
"میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اسجد تمہاری تعلیم میں تمہارے ساتھ پورا تعاون کرے گا۔ وہ تمہیں کسی چیز سے منع نہیں کرے گا۔" ہاشم مبین نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
"بابا مجھے اسجد کے ساتھ تعاون کی ضرورت نہیں ہے مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ آپ مجھے میری تعلیم مکمل کرنے دیں۔" امامہ نے اس بار قدرے ملتجیانہ انداز میں کہا۔
"امامہ تم فضول ضد مت کرو۔۔۔۔۔ میں وہی کروں گا جو میں طے کر چکا ہوں۔" ہاشم مبین نے دو ٹوک انداز میں کہا۔" میں ضد نہیں کر رہی درخواست کر رہی ہوں۔ بابا پلیز میں ابھی اسجد سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔" اس نے ایک بار پھر اسی ملتجیانہ انداز میں کہا۔
"تمہاری نسبت کو چار سال ہونے والے ہیں اور یہ ایک بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے خود کچھ عرصے کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے منگنی توڑ دی تو۔"
"تو کوئی بات نہیں کوئی قیامت نہیں آئے گی وہ منگنی توڑنا چاہیں تو توڑ دیں بلکہ ابھی توڑ دیں۔"
"تمہیں اس شرمندگی اور بے عزتی کا احساس نہیں ہے، جس کا سامنا ہمیں کرنا پڑے گا۔"
"کیسی شرمندگی بابا! یہ ان لوگوں کا اپنا فیصلہ ہو گا۔ اس میں ہماری تو کوئی غلطی نہیں ہو گی۔" اس نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے یا پھر تم عقل سے پیدل ہو۔" ہاشم مبین نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
"بابا! کچھ نہیں ہو گا لوگ دو چار دن باتیں کریں گے پھر سب کچھ بھول جائیں گے۔آپ اس بارے میں خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔" امامہ نے قدرے بے فکری اور لاپرواہی سے کہا۔
"تم اس وقت بہت فضول باتیں کر رہی ہو۔ فی الحال تم یہاں سے جاؤ۔" ہاشم مبین نے ناگواری سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
امامہ بادل ناخواستہ وہاں سے چلی آئی مگر اس رات وہ خاصی پریشان رہی۔
اگلے دن وہ واپس لاہور چلی آئی۔ ہاشم مبین نے اس سے اس سلسلے میں دوبارہ بات نہیں کی لاہور آ کر وہ قدرے مطمئن ہو گئی اور ہر خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے اپنے امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گئی۔
ہاشم مبین نے اس واقعہ کو ذہن سے نہیں نکالا تھا، وہ ایک محتاط طبیعت کے انسان تھے۔
وہ امامہ کے بارے میں پہلی بار اس وقت تشویش میں مبتلا ہوئے تھے، جب سکول میں تحریم کے ساتھ جھگڑے والا واقعہ پیش آیا تھا۔ اگرچہ وہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں تھا مگر اس واقعے کے بعد انہوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر امامہ کی نسبت اسجد کے ساتھ طے کر دی تھی۔ ان کا خیال تھا اس طرح اس کا ذہن ایک نئے رشتے کی جانب مبذول ہو جائے گا اور اگر اس کے ذہن میں کوئی شبہ یا سوال پیدا ہوا بھی تو اس نئے تعلق کے بعد وہ اس بارے میں زیادہ تردد نہیں کرے گی۔ ان کا یہ خیال اور اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
امامہ کا ذہن واقعی تحریم کی طرف سے ہٹ گیا تھا۔ اسجد میں وہ پہلے بھی کچھ دلچسپی لیتی تھی مگر اس تعلق کے قائم ہونے کے بعد اس دلچسپی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ہاشم نے اسے بہت مطمئن اور مگن دیکھا تھا۔ وہ پہلے ہی کی طرح تمام مذہبی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتی تھی۔
مگر اس بار جو کچھ وسیم نے انہیں بتایا تھا اس نے ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی۔ وہ فوری طور پر یہ نہیں جان سکے مگر انہیں یہ ضرور علم ہو گیا کہ امامہ کے عقائد اور نظریات میں خاصی تبدیلی آ چکی تھی اور یہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کے پورے خاندان کے لئے تشویش کا باعث تھا۔
وہ اپنی بڑی بیٹیوں کی طرح اسے بھی اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے اور یہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اسے شادی کے بعد خاندان ہی میں جانا تھا۔ وہ خاندان بہت تعلیم یافتہ تھا۔ خود ان کا ہونے والا داماد اسجد بھی امامہ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتا تھا۔ ہاشم مبین کے لئے اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے اسے گھر بٹھا لینا آسان نہیں تھا، کیونکہ اس صورت میں اسے اعظم مبین کو اس کی وجہ بتانی پڑتی اور امامہ سے سخت ناراض ہونے کے باوجود وہ نہیں چاہتے تھے کہ اعظم مبین اور ان کا خاندان امامہ کے ان بدلے ہوئے عقائد کے بارے میں جان کر برگشتہ اور بدظن ہوں اور پھر شادی کے بعد وہ اسجد کے ساتھ بری زندگی گزارے۔ انہوں نے ایک طرف اپنے گھر والوں کو اس بات کو راز رکھنے کی تاکید کی تو دوسری طرف امامہ کی منت سماجت پر اسے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
امامہ صبیحہ کے لیکچر اٹینڈ کرنے اور اس کے وہاں جانے یا جلال سے ملنے کے معاملے میں اس قدر محتاط تھی کہ اس کا یہ میل جول ان لوگوں کی نظروں میں نہیں آ سکا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ جویریہ اور رابعہ کو بھی ہر چیز کے بارے میں اندھیرے میں رکھے ہوئے تھی۔ ورنہ اس کے بارے میں ضرور کوئی نہ کوئی خبر اِدھر اُدھر گردش کرتی اور ہاشم مبین تک بھی پہنچ جاتی مگر ایسا نہیں ہوا ہاشم مبین اس کی طرف سے مطمئن ہو گئے تھے، مگر امامہ کے اندر آنے والی ان تبدیلیوں نے انہیں تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔
ان کے دماغ میں جو واحد حل آیا تھا وہ اس کی شادی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس کی شادی کر دینے سے وہ خود امامہ کی ذمہ داری سے مکمل طور پر آزاد ہو جائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس طرح اچانک اس کی شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔
"جلال! میرے پیرنٹس اسجد سے میری شادی کر دینا چاہتے ہیں۔" لاہور آنے کے بعد امامہ نے سب سے پہلے جلال سے ملاقات کی تھی۔
"مگر تم تو کہہ رہی تھی کہ وہ تمہاری ہاؤس جاب تک تمہاری شادی نہیں کریں گے۔" جلال نے کہا۔
"وہ ایسا ہی کہتے تھے، مگر اب وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی تعلیم شادی کے بعد بھی جاری رکھ سکتی ہوں۔ اسجد لاہور میں گھر لے لے گا تو میں زیادہ آسانی سے اپنی تعلیم مکمل کر سکوں گی۔"
جلال اس کے چہرے سے اس کی پریشانی کا اندازہ کر سکتا تھا۔ جلال بھی یک دم فکر مند ہو گیا۔
"جلال ! میں اسجد سے شادی نہیں کر سکتی۔ میں کسی صورت اسجد سے شادی نہیں کر سکتی۔" وہ بڑبڑائی۔
"پھر تم اپنے پیرنٹس کو صاف صاف بتا دو۔" جلال نے یک دم کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔
"کیا بتا دوں؟"
"یہی کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔"
"آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کس طرح ری ایکٹ کریں گے۔۔۔۔۔ مجھے انہیں پھر سب کچھ ہی بتانا پڑے گا۔" وہ بات کرتے کرتے کچھ سوچنے لگی۔
"جلال ! آپ اپنے پیرنٹس سے میرے سلسلے میں بات کریں۔ آپ انہیں میرے بارے میں بتائیں۔ اگر میرے پیرنٹس نے مجھ پر اور دباؤ ڈالا تو پھر مجھے پنا گھر چھوڑنا پڑے گا، پھر مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہو گی۔"
"امامہ! میں اپنے پیرنٹس سے بات کروں گا۔ وہ رضامند ہو جائیں گے۔ میں جانتا ہوں میں انہیں منا سکتا ہوں۔ " جلال نے اسے یقین دلایا پوری گفتگو کے دوران پہلی بار امامہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
اگلے چند ہفتے وہ اپنے پیپرز کے سلسلے میں مصروف رہی، جلال سے بات نہ ہو سکی۔ آخری پیپر والے دن وسیم اسے لینے کے لئے لاہور آ گیا تھا۔ وہ اسے وہاں یوں دیکھ کر حیران رہ گئی۔
"وسیم! میں ابھی تو نہیں جا سکتی۔ آج تو میں پیپرز سے فارغ ہوئی ہوں مجھے ابھی یہاں کچھ کام ہیں۔"
"میں کل تک یہیں ہوں۔ اپنے دوست کے ہاں ٹھہر جاتا ہوں جب تک تم اپنے کام نمٹا لو پھر اکٹھے چلیں گے۔" وسیم نے اس کے لئے مدافعت کا آخری راستہ بھی بند کر دیا۔
"میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔"امامہ نے کچھ بے دلی سے فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ وسیم اسے ساتھ لے کر ہی جائے گا۔
"تم اپنی چیزیں پیک کر لو۔ اب تم ساری چھٹیاں وہاں گزار کر ہی آنا۔" اسے واپس مڑتے دیکھ کر وسیم نے کہا۔
اس نے سر ہلا دیا مگر اس کا اپنی تمام چیزیں پیک کرنے یا اسلام آباد میں ساری چھٹیاں گزارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے طے کیا تھا کہ وہ چند دن وہاں گزار کر کسی نہ کسی بہانے سے واپس لاہور آ جائے گی اور یہ ہی اس کی غلط فہمی تھی۔
رات کے کھانے پر وہ سب گھر والوں کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی اور سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
"پیپرز کیسے ہوئے تمہارے؟" ہاشم مبین نے کھانا کھاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"بہت اچھے ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح۔" اس نے چاول کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
"ویری گڈ۔ چلو پیپرز کی ٹینشن تو ختم ہوئی۔ اب تم کل سے اپنی شاپنگ شروع کر دو۔"
امامہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔" شاپنگ؟کیسی شاپنگ؟"
"فرنیچر کی اور جیولر کے پاس پہلے چلے جانا تم لوگ۔ باقی چیزیں تو آہستہ آہستہ ہوتی رہیں گی۔"
ہاشم مبین نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس بار اپنی بیوی سے کہا۔
"بابا! مگر کس لئے؟" امامہ نے ایک بار پھر پوچھا۔"تمہاری امی نے بتایا نہیں تمہیں کہ ہم نے تمہاری شادی کی تاریخ طے کر دی ہے۔"
امامہ کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ کر لپیٹ میں جا گرا۔ ایک لمحے میں اس کا رنگ فق ہو گیا تھا۔
"میری شادی کی تاریخ؟" اس نے بے یقینی سے باری باری سلمیٰ اور ہاشم کو دیکھا جو اس کے تاثرات پر حیران نظر آ رہے تھے۔
"ہاں تمہاری شادی کی تاریخ۔۔۔۔۔" ہاشم مبین نے کہا۔
"یہ آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ مجھ سے پوچھے بغیر۔ مجھے بتائے بغیر۔" ہونق چہرے کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔
"تم سے پچھلی دفعہ بات ہوئی تھی، اس سلسلے میں۔" ہاشم مبین یک دم سنجیدہ ہو گئے۔
"اور میں نے انکار کر دیا تھا۔میں۔"
ہاشم مبین نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔" میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ مجھے تمہارے انکار کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میں اسجد کے گھر والوں سے بات کر چکا ہوں۔" ہاشم مبین نے تیز آواز میں کہا۔
ڈائیننگ ٹیبل پر یک دم گہری خاموشی چھا گئی کوئی بھی کھانا نہیں کھا رہا تھا۔
امامہ یک دم اپنی کرسی سے کھڑی ہو گئی۔" آئی ایم سوری بابا، مگر میں اسجد سے ابھی شادی نہیں کر سکتی۔آپ نے یہ شادی طے کی ہے۔ آپ ان سے بات کر کے اسے ملتوی کر دیں ورنہ میں خود ان سے بات کر لوں گی۔" ہاشم مبین کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
"تم اسجد سے شادی کرو گی اور اسی تاریخ کو جو میں نے طے کی ہے۔ تم نے سنا؟" وہ بے اختیار چلائے۔
“It’s not fair” امامہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"اب تم مجھے یہ بتاؤ گی کیا فئیر ہے اور کیا نہیں۔ تم بتاؤ گی مجھے؟" ہاشم مبین کو اس کی بات پر اور غصہ آیا۔
"بابا! جب میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی تو آپ زبردستی کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ۔" امامہ بےا ختیار رونے لگی۔
"کر رہا ہوں زبردستی پھر میں حق رکھتا ہوں۔" وہ چلائے۔ امامہ اس بار کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ بھنیچتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ تیزی سے ڈائیننگ روم سے نکل آئی۔
"میں اس سے بات کرتی ہوں، آپ پلیز کھانا کھائیں۔ اتنا غصہ نہ کریں۔ وہ جذباتی ہے اور کچھ نہیں۔" سلمیٰ نے ہاشم مبین سے کہا اور خود وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
ا ن کے کمرے سے نکلتے ہی وسیم کو دیکھ کر امامہ بے ختیار اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ نکل جاؤ۔"اس نے تیزی سے وسیم کے پاس جا کر اسے دھکا دینے کی کوشش کی وہ پیچھے ہٹ گیا۔
"کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟"
"جھوٹ بول کر اور دھوکا دے کر تم مجھے یہاں لے آئے ہو۔ مجھے اگر لاہور میں پتا چل جاتا کہ تم اس لئے مجھے اسلام آباد لا رہے ہو تو میں کبھی یہاں نہ آتی۔" وہ دھاڑی۔
"میں نے وہی کیا جو مجھ سے بابا نے کہا۔ بابا نے کہا تھا میں تمہیں نہ بتاوں۔" وسیم نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی۔
"پھر تم یہاں میرے پاس کیوں آئے ہو۔ بابا کے پاس جاؤ۔ ان کے پاس بیٹھو۔ بس یہاں سے دفع ہو جاؤ۔" وسیم ہونٹ بھینچتے ہوئے اسے دیکھتا رہا پھر کچھ کہے بنا کمرے سے نکل گیا۔
امامہ اپنے کمرے میں جا کر کمرے میں بیٹھ گئی۔ اس وقت اس کے پیروں سے صحیح معنوں میں زمین نکل چکی تھی۔ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے گھر والے اس کے ساتھ اس طرح کر سکتے ہیں۔ وہ اتنے قدامت پرست یا کٹر نہیں تھے جتنے وہ اس وقت ہو گئے تھے۔ اسے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب اس کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ مجھے اس صورت حال کا سامنا کرنا ہے۔ مجھے ہمت نہیں ہارنی۔ مجھے کسی نہ کسی طرح فوری طور پر جلال سے کانٹیکٹ کرنا ہے۔ وہ یقیناً اب تک اپنے پیرنٹس سے بات کر چکا ہو گا۔ اس سے بات کر کے کوئی نہ کوئی رستہ نکل آئے گا۔
وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچتی رہی۔ اس کے کمرے میں دوبارہ کوئی نہیں آیا۔
رات بارہ بجے کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ وہ جانتی تھی اس وقت تک سب سونے کے لئے جا چکے ہوں گے۔ اس نے جلال کے گھر کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ فون کسی نے نہیں اٹھایا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی بار نمبر ملایا۔ آدھ گھنٹہ تک اسی طرح کالز کرتے رہنے کے بعد اس نے مایوسی کے ساتھ فون رکھ دیا۔ وہ جویریہ یا رابعہ کو فون نہیں کر سکتی تھی۔ وہ دونوں اس وقت ہاسٹل میں تھی۔ کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد اس نے صبیحہ کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے والد نے فون اٹھایا۔
"بیٹا! صبیحہ تو پشاور گئی ہے اپنی امی کے ساتھ۔" صبیحہ کے والد نے امامہ کو بتایا۔
"پشاور۔" امامہ کے دل کی دھڑکن رک گئی۔
"اس کے کزن کی شادی ہے۔ وہ لوگ ذرا پہلے چلے گئے ہیں۔ میں بھی کل چلا جاؤں گا۔" اس کے والد نے بتایا۔"کوئی پیغام ہو تو آپ مجھے دے دیں میں صبیحہ کو پہنچا دوں گا۔"
"نہیں شکریہ انکل!" وہ ان کے ساتھ اس سارے معاملے میں کیا بات کر سکتی تھی۔
اس نے فون رکھ دیا۔ اس کے ڈیپریشن میں اضافہ ہونے لگا۔ اگر میرا جلال سے کانٹیکٹ نہ ہوا تو، اس کا دل ایک بار پھر ڈوبنے لگا۔
ایک بار پھر اس نے جلال کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا اور تب ہی کسی نے اس کے ہاتھ سے ریسیور لے لیا۔ وہ سن ہو گئی ہاشم مبین اس کے پیچھے کھڑے تھے۔
"کس کو فون کر رہی ہو؟" ان کے لہجے میں بے حد ٹھہراؤ تھا۔
"دوست کو کر رہی تھی۔" امامہ نے ان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ ان سے نظریں ملا کر جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔
"میں ملا دیتا ہوں۔" انہوں نے سرد آواز میں کہتے ہوئے ری ڈائل کا بٹن دبا دیا اور ریسیور کان سے لگا لیا۔ امامہ زرد چہرے کے ساتھ انہیں دیکھنے لگی۔ وہ کچھ دیر تک اسی طرح ریسیور کان سے لگائے کھڑے رہے پھر انہوں نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ یقیناً دوسری طرف کال ریسیو نہیں کی گئی تھی۔
"کون سی دوست ہے یہ تمہاری جس کو تم اس وقت فون کر رہی ہو۔" انہوں نے درشت لہجے میں امامہ سے پوچھا۔
"زینب۔۔۔۔۔" فون کی ا سکرین پر زینب کا نمبر تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہاشم مبین کو زینب پر کسی قسم کا شک ہو اور وہ جلال تک جا پہنچیں، اس لئے اس نے ان کے استفار پر جلدی سے اس کا نام بتا دیا۔
"کس لئے کر رہی ہو؟"
"میں اس کے ذریعے جویریہ تک ایک پیغام پہنچانا چاہتی ہوں۔" اس نے تحمل سے کہا۔
"تم مجھے وہ پیغام دے دو، میں جویریہ تک پہنچا دوں گا، بلکہ ذاتی طور پر خود لاہور دے کر آوں گا۔"
"امامہ! مجھے صاف صاف بتاؤ کسی اور لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو تم؟" انہوں نے کسی تمہید کے بغیر اچانک اس سے پوچھا۔ وہ انہیں کچھ دیر دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
"ہاں!"
ہاشم مبین دم بخود رہ گئے۔"کسی اور لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو؟" انہوں نے بے یقینی سے اپنا جملہ دہرایا۔ امامہ نے پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہاشم مبین نے بے ختیار اس کے چہرے پر تھپڑ کھینچ مارا۔
"مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا تم سے، مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا۔" وہ غصہ میں تنتنا سے گئے۔ امامہ گم صم اپنے گال پر ہاتھ رکھے انہیں دیکھ رہی تھی۔ یہ پہلا تھپڑ تھا جو ہاشم مبین نے اس کی زندگی میں اسے مارا تھا اور امامہ کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ تھپڑ اسے مارا گیا تھا۔ وہ ہاشم مبین کی سب سے لاڈلی بیٹی تھی پھر بھی انہوں نے۔۔۔۔۔ اس کے گالوں پر آنسو بہہ نکلے تھے۔
"اسجد کے علاوہ میں تمہاری شادی کہیں اور نہیں ہونے دوں گا۔ تم اگر کسی اور لڑکے میں انٹرسٹد ہو بھی تو اسے ابھی اور اسی وقت بھول جاؤ۔ میں کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔۔ کبھی تمہاری کہیں اور شادی نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔ اپنے کمرے میں چلی جاؤ۔۔۔۔۔ اور دوبارہ اگر میں نے تمہیں فون کے پا س بھی دیکھا تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔"
وہ اسی طرح گال پر ہاتھ رکھے میکانکی انداز میں چلتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔ اپنے کمرے میں آ کر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔" کیا بابا مجھے ۔۔۔۔۔ مجھے اس طرح مار سکتے ہیں؟" اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ بہت دیر تک اسی طرح روتے رہنے کے بعد اس کے آنسو خود بخود خشک ہونے لگے۔ وہ اٹھ کر اضطراب کے عالم میں اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف آ گئی اور خالی الذہنی کے عالم میں بند کھڑکیوں کے شیشوں سے باہر دیکھنے لگی۔
نیچے اس کے گھر کا لان نظر آ رہا تھا اور پھر لاشعوری طور پر اس کی نظر دوسرے گھر پر پڑی۔ وہ سالار کا گھر تھا۔ اس کا کمرہ نچلی منزل پر تھا۔ دور سے کچھ بھی واضح نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ اس گھر میں ایک دفعہ جانے کے بعد اس کی لوکیشن اور کمرے میں پھرنے والے کے حیلے اور جسامت سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ سالار کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔
"ہاں! یہ شخص میری مدد کر سکتا۔ اگر میں اسے ساری صورت حال بتا دوں اور اس سے کہوں کے لاہور جا کر جلال سے رابطہ کرے تو۔۔۔۔۔ تو میرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر اس سے رابطہ کیسے۔۔۔۔۔؟"
اس کے ذہن میں ایک دم اس کی گاڑی کے پچھلے شیشے پر لکھا ہوا اس کا موبائل نمبر اور نام یاد آیا۔ اس نے ذہن میں موبائل نمبر کو دہرایا، اسے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ کاغذ کا ایک ٹکڑا لے کر اس نے احتیاط کے طور پر اس نمبر کو لکھ لیا۔ تین بجے کے قریب وہ آہستہ آہستہ ایک بار پھر لاؤنج میں آ گئی اور اس نے وہ نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سالار نے نیند میں اپنے موبائل کی بیپ سنی تھی۔ جب لگاتار موبائل بجتا رہا تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور قدرے ناگواری کے عالم میں بیڈ سائیڈ ٹیبل کو ٹٹولتے ہوئے موبائل اٹھایا۔
"ہیلو!" امامہ نے سالار کی آواز پہچان لی تھی، وہ فوری طور پر کچھ نہیں بول سکی۔
"ہیلو۔" اس کی خوابیدہ آواز دوبارہ سنائی دی۔"سالار!" اس نے اس کا نام لیا۔
"بول رہا ہوں۔" اس نے اسی خوابیدہ آواز میں کہا۔
"میں امامہ بول رہی ہوں۔" وہ کہنے والا تھا ۔"کون امامہ۔۔۔۔۔ میں کسی امامہ کو نہیں جانتا۔" مگر اس کے دماغ نے کرنٹ کی طرح اسے سگنل دیا تھا اس نے بے اختیار آنکھیں کھول دیں۔ وہ نام کے ساتھ اس کی آواز کو بھی پہچان چکا تھا۔
"میں وسیم کی بہن بول رہی ہوں۔" اس کی خاموشی پر امامہ نے اپنا تعارف کرایا۔
"میں پہچان چکا ہوں۔"سالار نے ہاتھ بڑھا کر بیڈ سائیڈ لیمپ کو آن کر دیا۔ اس کی نیند غائب ہو چکی تھی۔ ٹیبل پر پڑی ہوئی اپنی رسٹ واچ اٹھا کر وقت دیکھا۔ گھڑی تین بج کر دس منٹ بجا رہی تھی۔ اس نے قدرے بے یقینی سے ہونٹ سکوڑتے ہوئے گھڑی کو دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ دوسری طرف اب خاموشی تھی۔
"ہیلو!" سالار نے اسے مخاطب کیا۔
"سالار! مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔" سالار کے ماتھے پر کچھ بل آئے۔" میں نے ایک بار تمہاری زندگی بچائی تھی، اب میں چاہتی ہوں تم میری زندگی بچاؤ۔" وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اس کی بات سنتا رہا۔" میں لاہور میں کسی سے رابطہ کرنا چاہتی ہوں مگر کر نہیں پا رہی۔"
"کیوں؟"
"وہاں سے کوئی فون نہیں اٹھا رہا۔"
"تم رات کے اس وقت۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔" پلیز! اس وقت صرف میری بات سنو، میں دن کے وقت فون نہیں کر سکتی اور شاید کل رات کو بھی نہ کر سکوں۔ میرے گھر والے مجھے فون نہیں کرنے دیں گے، میں چاہتی ہوں کہ تم ایک ایڈریس اور فون نمبر نوٹ کر لو اور اس پر ایک آدمی سے کانٹیکٹ کرو، اس کا نام جلال انصر ہے، تم اس سے صرف یہ پوچھ کر بتا دو کہ میرے پیرنٹس نے یہاں میری شادی طے کر دی ہے اور وہ مجھے اب شادی کے بغٖیر لاہور آنے نہیں دیں گے۔"
سالار کو اچانک اس سارے معاملے سے دلچسپی پیدا ہونے لگی۔ کمبل کو اپنے گھٹنوں سے اوپر تک کھینچتے ہوئے وہ امامہ کی بات سنتا رہا۔ وہ ایک ایڈریس اور فون نمبر دہرا رہی تھی۔ سالار نے اس نمبر اور ایڈریس کو نو ٹ نہیں کیا۔ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس نے پوچھا۔
"اور اگر میرے فون کرنے پر بھی کسی نے فون نہیں اٹھایا تو؟" جب وہ خاموش ہو گئی تو اس نے پوچھا۔
دوسری طرف لمبی خاموشی رہی پھر امامہ نے کہا۔" تم لاہور جا کر اس آدمی سے مل سکتے ہو۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ یہ میرے لئے بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔" اس بار امامہ کی آواز ملتجیانہ تھی۔
"اور اگر اس نے پوچھا کہ میں کون ہوں تو؟"
"تم جو چاہے اسے بتا دینا۔۔۔۔۔ مجھے اس سے دلچسپی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں صرف اس مصیبت سے چھٹکارا چاہتی ہوں۔"
"کیا یہ بہتر نہیں کہ ہے تم اس آدمی سے خود بات کرو۔" سالار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ شاید مجھے دوبارہ فون کا موقع نہ ملے اور فی الحال تو آدمی فون ریسیو نہیں کر رہا۔"
سالار نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا اور اس نے مایوسی کے عالم میں مزید کچھ کہے بغیر فون رکھ دیا۔
سالار موبائل بند کرنے کے بعد کچھ دیر اسے ہاتھ میں لے کر بیٹھا رہا۔جلال انصر۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم۔۔۔۔۔ رابطہ۔۔۔۔۔ پیرنٹس سے بات۔۔۔۔۔ زبردستی کی شادی۔۔۔۔۔" اس نے وہاں بیٹھے بیٹھے اس جگسا پزل کے ٹکڑوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ اس نے امامہ سے جلال کے بارے میں پوچھا نہیں تھا کہ اس سے امامہ کا تعلق کس طرح کا ہو سکتا تھا۔ وہ اپنی داہنی ٹانگ ہلاتے ہوئے ان دونوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ اسے یہ صورت حال خاصی دلچسپ محسوس ہو رہی تھی کہ امامہ جیسی لڑکی اس طرح کے کسی افئیر میں انوالو ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔ وہ اپنے لئے اس کی ناپسندیدگی سے بھی واقف تھا اور اسے یہ بات بھی حیران کر رہی تھی کہ اس سے باوجود وہ اس سے مدد مانگ رہی تھی۔
"یہ کیا کر رہی ہیں خاتون؟۔۔۔۔۔ مجھے استعمال کرنے کی کوشش۔۔۔۔۔ یا پھنسانے کی کوشش۔۔۔۔۔؟"
اس نے دلچسپی سے سوچا۔
کمبل اپنے سینے تک کھینچتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں، مگر نیند اس کی آنکھوں سے مکمل طور پر دور تھی۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے وسیم اور اس کے گھر والوں کو جانتا تھا۔ وہ امامہ کو بھی سرسری طور پر دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔ مگر ان ملاقاتوں میں اس نے امامہ پر کبھی غور نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ اس کے اپنے گھر والوں کے برعکس وسیم کا گھرانہ خاصا روایت پرست تھا اور وہ کبھی بھی اس طرح کھلے عام ان کے گھر نہیں جا سکا، جس طرح وہ اپنے دوسرے دوستوں کے گھروں میں جاتا تھا۔۔۔۔۔ مگر اس نے اس بات پر بھی کبھی زیادہ غور و خوض نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔ اس کا خیال تھا کہ ہر خاندان کا اپنا ماحول اور روایات ہوتی ہیں، اسی طرح وسیم کے خاندان کی بھی اپنی روایات تھیں۔ اسے امامہ کے موڈ اور ٹمپرامنٹ کا تھوڑا اندازہ تھا۔
مگر اس طرح اچانک امامہ کی کال وصول کر کے وہ اس حیرت کے جھٹکے سے سنبھل نہیں پا رہا تھا جو اسے لگا تھا۔
جب وہ کافی دیر تک سونے میں کامیاب نہیں ہوا تو وہ کچھ جھنجھلا گیا۔
To hell with Imama and all the rest (بھاڑ میں جائے امامہ اور یہ سارا قصہ) وہ بڑبڑایا اور کروٹ لے کر اس نے تکیہ اپنے چہرے کے اوپر رکھ دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امامہ اپنے کمرے میں آ کر بھی اسی طرح بیٹھی رہی، اسے اپنے پیٹ میں گرہیں پڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ صرف چند گھنٹوں میں سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ پوری رات سو نہیں سکی۔ صبح وہ ناشتے کے لئے باہر آئی۔ اس کی بھوک یک دم جیسے غائب ہو گئی تھی۔
دس ساڑھے دس بجے کے قریب اس نے پورچ میں کچھ گاڑیوں کے سٹارٹ ہونے اور جانے کی آوازیں سنیں۔ وہ جانتی تھی اس وقت ہاشم مبین اور اس کے بڑے بھائی آفس چلے جاتے تھے اور اسے ان کے آفس جانے کا انتظار تھا۔ ان کے جانے کے آدھ گھنٹہ بعد وہ اپنے کمرے سے باہر آئی۔ لاؤنج میں اس کی امی اور بھابھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ خاموشی سے فون کے پاس چلی گئی۔ اس نے فون کا ریسیور اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسے اپنی امی کی آواز سنائی دی۔
"تمہارے بابا کہہ کر گئے ہیں کہ تم کہیں فون نہیں کرو گی۔" اس نے گردن موڑ کر اپنی امی کو دیکھا۔
"میں اسجد کو فون کر رہی ہوں۔"
"کس لئے؟"
"میں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
"وہی فضول باتیں جو تم رات کو کر رہی تھیں۔" سلمیٰ نے تیز لہجے میں کہا۔
"میں آپ کے سامنے بات کر رہی ہوں، آپ مجھے بات کرنے دیں۔۔۔۔۔ اگر میں نے کوئی غلط بات کی تو آپ فون بند کر سکتی ہیں۔" اس نے پرسکون انداز میں کہا اور شاید یہ اس کا انداز ہی تھا جس نے سلمیٰ کو کچھ مطمئن کر دیا۔
امامہ نے نمبر ڈائل کیا مگر وہ ا سجد کو فون نہیں کر رہی تھی۔ چند بار بیل بجنے کے بعد دوسری طرف فون اٹھا لیا گیا۔ فون اٹھانے والا جلال ہی تھا۔ خوشی کی ایک لہر امامہ کے اندر سے گزر گئی۔
"ہیلو! میں امامہ بول رہی ہوں۔" اس نے جلال کا نام لیے بغیر اعتماد سے کہا۔
"تم بتائے بغیر اسلام آباد کیوں چلی گئیں میں کل تم سے ملنے ہاسٹل گیا تھا۔" جلال نے کہا۔
"میں اسلام آباد آئی ہوں اسجد!" امامہ نے کہا۔
"اسجد!" دوسری طرف سے جلال کی آواز آئی۔" تم کس سے کہہ رہی ہو؟"
"مجھے بابا نے رات ہی بتایا کہ میری شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے۔"
"امامہ؟" جلال کو جیسے ایک کرنٹ لگا۔"شادی کی تاریخ۔" امامہ اس کی بات سنے بغیر اسی پرسکون انداز میں بولتی رہی۔" میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم نے اپنے پیرنٹس سے بات کی ہے؟"
"امامہ! میں ابھی بات نہیں کر سکا۔"
"تو پھر تم بات کرو، میں تمہارے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہیں کر سکتی، یہ تم جانتے ہو۔۔۔۔۔ مگر میں اس طرح کی شادی نہیں کروں گی۔ تم اپنے پیرنٹس سے بات کرو اور پھر مجھے بتاؤ کہ وہ کیا کہتے ہیں۔"
"امامہ! کیا تمہارے پاس کوئی ہے۔" جلال کے ذہن میں اچانک ایک جھماکا ہوا۔
"ہاں۔"
"اس لئے تم مجھے اسجد کہہ رہی ہو؟"
"ہاں۔"
"میں اپنے پیرنٹس سے بات کرتا ہوں، تم مجھے دوبارہ رنگ کب کرو گی؟"
"تم مجھے بتا دو کہ میں تمہیں کب رنگ کروں؟"
"کل فون کر لو، تمہاری شادی کی تاریخ کب طے کی گئی ہے۔" جلال کی آواز میں پریشانی تھی۔
"یہ مجھے نہیں پتا۔"امامہ نے کہا۔
"ٹھیک ہے امامہ! میں آج ہی ا پنے پیرنٹس سے بات کرتا ہوں۔۔۔۔۔ اور تم پریشان مت ہونا۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔" اس نےا مامہ کو تسلی دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
امامہ نے شکر ادا کیا کہ اس کی بھابھی یا امی کو یہ شک نہیں ہو سکا کہ وہ اسجد سے نہیں کسی اور سے بات کر رہی تھی۔
"یہ شادی تمہارے بابا اور اعظم بھائی نے مل کر طے کی ہے۔ تمہارے یا اسجد کے کہنے پر وہ اسے ملتوی نہیں کریں گے۔" سلمیٰ نے اس بار قدرے نرم لہجے میں کہا۔
"امی! میں مارکیٹ تک جا رہی ہوں، مجھے کچھ ضروری چیزیں لینی ہیں۔" امامہ نے ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے کہا۔
"فون کی بات دوسری ہے مگر میں تمہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں سے سکتی۔ تمہارے بابا نہ صرف مجھے بلکہ چوکیدار کو بھی ہدایت کر گئے ہیں کہ تمہیں باہر جانے نہ دیں۔"
"آمی! آپ لوگ میرے ساتھ آخر اس طرح کیوں کر رہےہیں؟" امامہ نے کچھ بے بسی کے عالم میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔" میں نے آپ کو اپنی شادی سے تو منع نہیں کیا۔ میری ہاؤس جاب تک انتظار کر لیں، اس کے بعد میری شادی کر دیں۔"
"میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ تم شادی سے انکار کیوں کر رہی ہو، تمہاری شادی جلد ہو رہی ہے مگر تمہاری مرضی کے خلاف تو نہیں ہو رہی۔" اس بار اس کی بھابھی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"خواہ مخواہ کل رات سے پورا گھر ٹینشن کا شکا ر ہے اور میں تو تمہیں دیکھ کر حیران ہوں تم تو کبھی بھی اس طرح ضد نہیں کرتی تھیں پھر اب کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔۔۔ جب سے تم لاہور گئی ہو بہت عجیب ہو گئی ہو۔"
"اور ہمارے چاہنے سے ویسے بھی کچھ نہیں ہو گا۔ میں نے تمہیں بتایا ہے، تمہارے بابا نے طے کیا ہے یہ سب کچھ۔"
"آپ انہیں سمجھا تو سکتی تھیں۔" امامہ نے سلمیٰ کی بات پرا حتجاج کیا۔
"کس بات پر؟" سمجھاتی تو تب اگر مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض لگتی اور مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں لگی۔" سلمیٰ نے بڑے آرام سے کہا۔ امامہ غصہ کے عالم میں وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے