┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_18
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار صبح خلاف معمول دیر سے اٹھا۔ گھڑی دیکھتے ہوئے اس نے کالج نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ سکندر اور طیبہ کراچی گئے ہوئے تھے اور وہ گھر پر اکیلا ہی تھا، ملازم جس وقت ناشتہ لے کر آیا وہ ٹی وی آن کئے بیٹھا تھا۔
"ذرا ناصرہ کو اندر بھیجنا۔" اسے ملازم کو دیکھ کر کچھ یاد آیا۔ اس کے جانے کے چند منٹ بعد ناصرہ اندر داخل ہوئی۔
"جی صاحب! آپ نے بلایا ہے؟" ادھیڑ عمر ملازمہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"ہاں، میں نے بلایا ہے۔۔۔۔ تم سے ایک کام کروانا ہے۔" سالار نے ٹی وی کا چینل بدلتے ہوئے کہا۔
"ناصرہ! تمہاری بیٹی وسیم کے گھر کام کرتی ہے نا؟" سالار اب ریموٹ رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"ہاشم صاحب کے گھر؟" ناصرہ نے کہا۔
"ہاں، ان ہی کے گھر۔"
"ہاں جی کرتی ہے۔" وہ کچھ حیران ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگی۔
"کس وقت جاتی ہے وہ ان کے گھر؟"
"اس وقت ان کے گھر پر ہی ہے۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ سالار صاحب؟" ناصرہ اب کچھ پریشان نظر آنے لگی۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کے پاس جاؤ، یہ موبائل اسے دو اور اس سے کہو کہ یہ امامہ کو دےدے۔" سالار نے بڑے لاپرواہ انداز میں اپنا موبائل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
ناصرہ ہکا بکا رہ گئی۔ میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔
"یہ موبائل اپنی بیٹی کو دو اور اس سے کہو کسی کو بتائے بغیر یہ امامہ تک پہنچا دے۔"
"مگر کیوں؟"
"یہ جاننا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، تمہیں جو کہا ہے وہی کرو۔" سالار نے ناگواری کے عالم میں اسے جھڑکا۔
"لیکن اگر کسی کو وہاں پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔" ناصرہ کی بات کو اس نے درشتی سے کاٹ دیا۔
"کسی کو پتا تب چلے گا جب تم اپنا منہ کھولو گی۔۔۔۔۔ اور تم اپنا منہ کھولو گی تو صرف تمہیں اور تمہاری بیٹی کو نقصان ہو گا اور کسی کو نہیں۔۔۔۔۔ لیکن اگر تم اپنا منہ بند رکھو گی تو نہ صرف کسی کو پتا نہیں چلے گا بلکہ تمہیں بھی خاصا فائدہ ہو گا۔"
ناصرہ نے اس بار کچھ کہے بغیر خاموشی سے وہ موبائل پکڑ لیا۔" میں پھر کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ کسی کو اس موبائل کے بارے میں پتا نہیں چلنا چاہئیے۔" وہ اپنا والٹ نکال رہا تھا۔
ناصرہ سر ہلاتے ہوئے جانے لگی۔"ایک منٹ ٹھہرو۔" سالار نے اسے روکا۔ وہ اب اپنے والٹ سے کچھ کرنسی نوٹ نکال رہا تھا۔
"یہ لے لو۔" اس نے انہیں ناصرہ کی طرف بڑھا دئیے۔ ناصرہ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ نوٹ پکڑ لئے۔ وہ جن گھروں میں کام کرتی رہی تھی وہاں کے بچوں کے ایسے بہت سے رازوں سے واقف تھی، اسے بھی پیسے کمانے کا موقع مل گیا تھا۔ اس نے فوری اندازہ یہی لگایا تھا کہ امامہ اور سالار کا چکر چل رہا تھا اور یہ موبائل وہ تحفہ تھا جو اسے امامہ کو دینا تھا، مگر اسے حیرانی اس بات پر ہو رہی تھی کہ اس سب کا اسے پہلے پتا کیوں نہیں چلا۔۔۔۔۔ اور پھر امامہ۔۔۔۔۔ اس کی تو شادی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر وہ کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہی تھی۔
"اور دیکھو ذرا مجھے، میں امامہ بی بی کو کتنا سیدھا سمجھتی رہی۔" ناصرہ کو اب اپنی بے خبری پر افسوس ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"ابو! میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔" جلال رات کو اپنے والد کے کمرے میں چلا آیا۔ اس کے والد اس وقت اپنی ایک فائل دیکھنے میں مصروف تھے۔
"ہاں آؤ، کیابات ہے۔" انہوں نے جلال کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ان کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہا، اس کے والد نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا، انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کچھ پریشان ہے۔" انہیں یک دم تشویش ہونے لگی۔
"ابو! میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔" جلال نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
"کیا؟" انصر جاوید کو اس کے منہ سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔" تم کیا کرنا چاہتے ہو؟"
"میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
"یہ فیصلہ تم نے یک دم کیسے کر لیا۔ کل تک تو تم باہر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اوراب آج تم شادی کا ذکر لے بیٹھے ہو۔" انصر جاوید مسکرائے۔
"بس۔۔۔۔۔ معاملہ ہی کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ مجھے آپ سے بات کرنی پڑ رہی ہے۔"
انصر جاوید سنجیدہ ہو گئے۔
"آپ نے زینب کی دوست امامہ کو دیکھا ہے۔" اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔
"ہاں! تم اس میں انٹرسٹڈ ہو۔" انصر جاوید نے فوراً اندازہ لگایا۔
جلال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔" مگر وہ لوگ تو بہت امیر ہیں۔۔۔۔۔ اس کا باپ بڑا صنعت کا ر ہے اور وہ مسلمان بھی نہیں ہے۔" انصر جاوید کا لہجہ بدل چکا تھا۔
"ابو ! وہ اسلام قبول کر چکی ہے، اس کی فیملی قادیانی ہے۔" جلال نے وضاحت کی۔
"اس کے گھر والوں کو پتا ہے؟"
"نہیں۔"
"تمہارا خیال ہے وہ یہ پرپوزل قبول کر لیں گے؟" انصر جاوید نے چبھتے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔
"ابو! اس کی فیملی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کی اجازت کی بغیر ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔"
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟" اس بار انصر جاوید نے بلند آواز میں کہا۔" میں تمہیں کسی حالت میں اجازت نہیں دے سکتا۔"
جلال کا چہرہ اتر گیا۔"ابو! میری اس کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔" اس نے مدھم آواز میں کہا۔
"مجھ سے پوچھ کر کمٹمنٹ نہیں کی تھی تم نے۔۔۔۔۔ اور اس عمر میں بہت ساری کمٹمنٹس ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بندہ اپنی زندگی خراب کر لے۔۔۔۔۔ انہیں اپنے پیچھے لگا کر ہم سب برباد ہو جائیں گے۔"
"ابو! میں خفیہ طور پر شادی کر لیتاہوں۔۔۔۔۔ کسی کو بتائیں گے نہیں تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔"
"اور اگر پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔ میں ویسے بھی تمہاری تعلیم کے مکمل ہونے تک تمہاری شادی کرنا نہیں چاہتا۔ ابھی تمہیں بہت کچھ کرنا ہے۔"
"ابو! پلیز۔۔۔۔۔ میں اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتا۔" جلال نے مدھم آواز میں اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ ایسا ہے تو تم اس سے کہو کہ وہ اپنے والدین سے اس سلسلے میں بات کرے۔ اگر اس کے والدین مان جاتے ہیں تو میں تم دونوں کی شادی کر دوں گا۔" انہوں نے تیز مگر حتمی لہجے میں کہا۔" مگر میں تمہاری شادی کسی ایسی لڑکی سے قطعی نہیں کروں گا جو اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف تم سے شادی کرنا چاہے۔۔۔۔۔"
"ابو! آپ اس کا مسئلہ سمجھیں۔ وہ بری لڑکی نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ بس وہ کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے جس پر اس کے گھر والے راضی نہیں ہوں گے۔" جلال نے دانستہ طور پر اسجد اور اس کی منگنی کا ذکر گول کر دیا۔
"مجھے کسی دوسرے کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تمہیں بھی نہیں ہونی چاہئیے۔ یہ امامہ کا مسئلہ ہے، وہ جانے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچو۔" انصر جاوید نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"ابو ! پلیز۔۔۔۔۔ میری بات سمجھیں۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔"
"بہت سے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تم کس کس کی مدد کرو گے۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی ہمارے اور ان کے اسٹیٹس میں اتنا فرق ہے کہ ان سے کوئی دشمنی یا مخالفت مول لینا ہمارے بس کی بات نہیں، سمجھے تم اور پھر میں ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کر کے اپنے خاندان والوں کا سامنا کیسے کروں گا۔"
"ابو! وہ مسلمان ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو بتایا ہے۔" جلال نے جھنجھلا کر کہا۔
"چار ملاقاتوں میں وہ تم سے اتنی متاثر ہو گئی کہ ا س نے اسلام قبول کر لیا۔"
"ابو! اس نے مجھے ملنے سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔"
"تم نے اسلام قبول کرتے دیکھا تھا اسے؟"
"میں اس سے مذہب کے بارے میں تفصیلاً بات کرتارہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہے۔"
"بالفرض وہ ایسا کر بھی چکی ہے۔۔۔۔۔ تو پھر اسے اپنے مسائل سے خود نمٹنا چاہئیے۔ تمہیں بیچ میں نہیں گھسیٹنا چاہئیے۔ اپنے والدین سے دو ٹوک بات کرے، انہیں بتائے کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔۔ پھر میں اور تمہاری امی دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ دیکھو جلال اگر اس کا خاندان اپنی مرضی اور خوشی سے اس کی شادی تمہارے ساتھ کرنے پر تیار ہو جائے تو میں اسے بخوشی قبول کر لوں گا۔۔۔۔۔ مگر کسی بے نام و نشان لڑکی سے میں تمہاری شادی نہیں کروں گا۔ مجھے اس معاشرہ میں رہنا ہے۔۔۔۔۔ لوگوں کو منہ دکھانا ہے۔۔۔۔۔ بہو کے خاندان کے بارے میں کیا کہوں گا میں کسی سے۔۔۔۔۔ یہ کہ وہ گھر چھوڑ کر آئی ہے اور اس نے اپنی مرضی سے میرے بیٹے سے شادی کر لی ہے۔"
"ابو! یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ ہم اس کی مدد کریں اور۔۔۔۔۔" انصر جاوید نے تلخی سے اس کی بات کاٹ دی۔
"مذہب کو بیچ میں مت لے کر آؤ، ہر چیز میں مذہب کی شرکت ضروری نہیں ہوتی۔ صرف تم ہی یہ مذہبی فریضہ ادا کرنے والے رہ گئے ہو، باقی سارے مسلمان مر گئے ہیں۔"
"ابو! اس نے مجھ سے مدد مانگی ہے، میں اس لئے کہہ رہا ہوں۔"
"بیٹا! یہاں بات مدد کی یا مذہب کی نہیں ہے، یہاں صرف زمینی حقائق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت اچھی بات ہے کہ تم میں مدد کا جذبہ ہے اور تمہیں اپنے مذہبی فرائض کا احساس ہے مگر انسان پر کچھ حق اس کے والدین کا بھی ہوتا ہے اور یہ حق بھی مذہب نے ہی فرض کیا ہے اور اس حق کے تحت میں چاہتا ہوں کہ تم اس کے خاندان کی مرضی کے بغیر اس سے شادی نہ کرو۔۔۔۔۔ فرض کرو تم اس سے شادی کر بھی لیتے ہو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔ تم تو چند ماہ میں امریکہ ہو گے۔۔۔۔۔ اور وہ یہاں گھر بیٹھی ہو گی۔۔۔۔ میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ میں تم چاروں کی تعلیم پر بھی خرچ کروں اور اس کی تعلیم پر بھی۔۔۔۔۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تم پر میرا کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ تو وہ ڈاکٹر تو نہیں بنے گی۔۔۔۔۔ یہاں گھر میں کتنے سال تم اسے بٹھا سکتے ہو۔۔۔۔۔ اور اگر اس کے خاندان نے تم پر یا ہم پر کیس کر دیا تو اس صورت میں تم بھی پابند ہو کر رہ جاؤ گے اور میں بھی۔۔۔۔۔ تم کو اپنی بہن کا احساس ہونا چاہئیے، تم یہ چاہتے ہو کہ اس عمر میں، میں جیل چلا جاؤں۔۔۔۔۔ اور شاید تم بھی۔۔۔۔۔"
جلال کچھ بول نہیں سکا۔
"ان چیزوں کے بارے میں اتنا جذباتی ہو کر نہیں سوچنا چاہئیے۔ میں نے تمہیں راستہ بتا دیا ہے۔۔۔۔۔ اس سے کہو اپنے والدین سے بات کر کے انہیں رضامند کرے۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ رضامند ہو جائیں پھر مجھے کیا اعتراض ہو گا تم دونوں کی شادی پر لیکن اگر وہ یہ نہیں کرتی تو پھر اس سے کہو کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے اور تم ٹھنڈے دل سے سوچو، تمہیں خود پتا چل جائے گا کہ تمہارا فیصلہ کتنا نقصان دہ ہے۔"
انصر جاوید نے آخری کیل ٹھونکی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"باجی ! میں آپ کا کمرہ صاف کر دوں؟"ملازمہ نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔
"نہیں ، تم جاؤ۔"امامہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کے لیے کہا۔ملازمہ باہر جانے کی بجائے دروازہ بند کر کے اس کے پاس آ گئی۔
"میں نے تم سے کہا ہے نا کہ تم۔۔۔۔۔"امامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر پھر اس کی بات حلق میں ہی رہ گئی۔ملازمہ نے اپنی چادر کے اندر سے ایک موبائل نکالا تھا۔ امامہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
"باجی ! یہ میری ماں نے دیا ہے ، وہ کہہ رہی تھی کہ ساتھ والے سالار صاحب نے آپ کے لیے دیا ہے۔"اس نے امامہ کی طرف عجلت کے عالم میں وہ موبائل بڑھایا۔ امامہ نے تیزی سے موبائل کو جھپٹ لیا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
"دیکھو ، تم کسی کو بتانا مت کہ تم نے مجھے کوئی موبائل لا کر دیا ہے۔"امامہ نے اسے تاکید کی۔
"نہیں باجی ! آپ بےفکر رہیں ، میں نہیں بتاؤں گی۔ اگر آپ کو بھی کوئی چیز سالار صاحب کے لیے دینی ہو تو مجھے دے دیں۔"
"نہیں ، مجھے کچھ نہیں دینا ، تم جاؤ۔"اس نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
ملازمہ کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے کمرے کو لاک کر لیا۔ کانپتے ہاتھوں اور دل کی بےقابو ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ اس نے دراز سے موبائل اور اس پر جلال کا نمبر ڈائل کرنا شروع کیا۔ وہ اسے تفصیل سے ساری بات بتانا چاہتی تھی۔فون جلال کی امی نے اٹھایا۔
"بیٹا ! جلال تو باہر گیا ہوا ہے ، وہ تو رات کو ہی آئے گا۔تم زینب سے بات کر لو۔اسے بلا دوں؟"جلال کی امی نے کہا۔
"نہیں آنٹی ! مجھے کچھ جلدی ہے ، میں زینب سے پھر بات کر لوں گی۔بس میں نے ان سے چند کتابوں کا کہا تھا ، مجھے ان ہی کے بارے میں پوچھنا تھا۔میں دوبارہ فون کر لوں گی۔"امامہ نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
امامہ نے اس دن دوپہر کو بھی کھانا نہیں کھایا۔وہ صرف رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ جلال گھر آ جائے اور وہ اس سے دوبارہ بات کر سکے۔شام کے وقت ملازمہ نے اسے اسجد کے فون کی اطلاع دی۔
وہ جس وقت نیچے آئی اس وقت لاؤنج میں صرف وسیم بیٹھا ہوا تھا۔وہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے فون کی طرف چلی گئی۔فون کا ریسیور اٹھاتے ہی دوسری طرف اسجد کی آواز سنائی دی تھی۔بےاختیار امامہ کا خون کھولنے لگا۔یہ جاننے کے باوجود کہ اس شادی کو طے کرنے میں اسجد سے زیادہ خود ہاشم مبین کا ہاتھ تھا۔امامہ کو اس پر غصہ آ رہا تھا۔
وہ اس کا حال دریافت کر رہا تھا۔
" اسجد ! تم نے اس طرح میرے ساتھ دھوکا کیوں کیا ہے؟"
"کیسا دھوکہ امامہ ! "
"شادی کی تاریخ طے کرنا۔۔۔۔۔تم نے اس سلسلے میں مجھ سے بات کیوں نہیں کی۔"وہ کھولتے ہوئے بولی۔
"کیا انکل نے تم سے بات نہیں کی۔"
"انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا اور میں نے ان سے کہا تھا کہ میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتی۔"
"بہر حال اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔اور پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ شادی اب ہو یا کچھ سالوں کے بعد۔"اسجد نے قدرے لاپرواہی سے کہا۔
"اسجد ! تمہیں فرق پڑتا ہو یا نہیں ، مجھے پڑتا ہے۔میں اپنی تعلیم مکمل کرنے تک شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے تھے۔"
"ہاں ، میں جانتا ہوں مگر اس سارے معاملے میں ، میں تو کہیں بھی انوالو نہیں ہوں۔تمہیں بتا رہا ہوں ، شادی انکل کے اصرار پر ہی ہو رہی ہے۔"
"تم اسے رکوا دو۔"
"تم کیسی باتیں کر رہی ہو امامہ ! میں اسے کیسے رکوا دوں۔"اسجد نے کچھ حیرانی سے کہا۔
"اسجد پلیز ! "
"امامہ ! میں ایسا نہیں کر سکتا ، تم میری پوزیشن سمجھو۔اب تو ویسے بھی کارڈ چھپ چکے ہیں ، دونوں گھروں میں تیاریاں ہو رہی ہیں اور۔۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات سنے بغیر ریسیور پٹخ دیا۔وسیم نے اس پوری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔وہ خاموشی سے اسجد کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو سنتا رہا تھا جب امامہ نے فون بند کر دیا تو وسیم نے اس سے کہا۔
"تم خوامخواہ ایک فضول بات پر اتنا ہنگامہ کھڑا کر رہی ہو۔کل بھی تو تم نے شادی اسجد کے ساتھ ہی کرنی ہے پھر اس طرح کر کے تم خود اپنے لئے مسائل پیدا کر رہی ہو۔بابا تم سے بہت ناراض ہیں۔"
"میں نے تم سے تمہاری رائے نہیں مانگی ، تم اپنے کام سے کام رکھو۔جو کچھ تم میرے ساتھ کر چکے ہو وہ کافی ہے۔"
امامہ اس پر غرائی اور پھر واپس کمرے میں آ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ رات کو بھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی مگر ملازم کے کھانا لانے پر اس نے کھانا کھا لیا تھا۔رات کو گیارہ بجے کے قریب اس نے جلال کو فون کیا۔فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔شاید وہ امامہ کے فون کی توقع کر رہا تھا۔مختصر سی تمہید کے بعد وہ اصل موضوع کی طرف آ گیا۔
"امامہ ! میں نے ابو سے کچھ دیر پہلے بات کی ہے۔"اس نے امامہ سے کہا۔
"پھر؟"وہ اس کے استفسار پر چند لمحے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
"ابو ! اس شادی پر رضامند نہیں ہیں۔"
امامہ کا دل ڈوب گیا۔"مگر آپ تو کہہ رہے تھے انہیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔"
"ہاں ، میرا یہی خیال تھا مگر انہیں بہت ساری باتوں پر اعتراض ہے۔وہ سمجھتے ہیں تمہارے اور ہمارے گھرانے کے اسٹیٹس میں بہت فرق ہے۔۔۔۔۔اور وہ تمہارے خاندان کے بارے میں بھی جانتے ہیں اور انہیں سب سے بڑا اعتراض اس بات پر ہے کہ تم اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔انہیں یہ خوف ہے کہ اس صورت میں تمہارے گھر والے میرے گھر والوں کو تنگ کریں گے۔"
وہ ساکت بیٹھی موبائل کان سے لگائے اس کی آواز سنتی رہی۔"آپ نے انہیں رضامند کرنے کی کوشش نہیں کی۔"ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے کہا۔
"میں نے بہت کوشش کی۔انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر تمہارے گھر والے اس شادی پر تیار ہو جاتے ہیں تو پھر وہ بھی راضی ہو جائیں گے۔اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ تمہارا خاندان کیا ہے لیکن تمہارے گھر والوں کی مرضی کے بغیر وہ میری اور تمہاری شادی کو تسلیم نہیں کریں گے۔"جلال نے اس سے کہا۔
"اور آپ۔۔۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟"
"امامہ ! میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔"جلال نے کچھ بےبسی کے عالم میں کہا۔
"جلال ! میرے پیرنٹس کبھی آپ سے میری شادی پر تیار نہیں ہوں گے ، بصورتِ دیگر ہماری پوری کمیونٹی ان کا بائیکاٹ کر دے گی اور وہ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور پھر آپ اسجد سے میری منگنی کو کیوں بھول رہے ہیں۔"
"امامہ ! تم پھر بھی اپنے والدین سے بات تو کرو ، ہو سکتا ہے کوئی راستہ نکل آئے۔"
"میں کل بابا سے تھپڑ کھا چکی ہوں۔صرف یہ بتا کر کہ میں کسی دوسرے میں انٹرسٹڈ ہوں۔"امامہ کی آواز بھرانے لگی۔"اگر انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں جسے پسند کرتی ہوں وہ ان کے مذہب کا نہیں ہے تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔پلیز آپ انکل سے بات کریں۔آپ انہیں میرا پرابلم بتائیں۔"اس نے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔
"میں ابو سے کل دوبارہ بات کروں گا اور امی سے بھی۔۔۔۔۔پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہ کیا کہتے ہیں۔"جلال پریشان تھا۔
امامہ نے جس وقت اس سے بات کرنے کے بعد فون بند کیا وہ بےحد دل گرفتہ تھی۔اس کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ جلال کے والدین کو اس شادی پر اعتراض ہو گا۔
موبائل ہاتھ میں لیے وہ بہت دیر تک خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"تمہارے ابو مجھ سے پہلے ہی اس سلسلے میں بات کر چکے ہیں اور جو وہ کہہ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے۔تم کو اس طرح کے خطروں میں کودنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"جلال کی امی نے قطعی لہجے میں اس سے کہا۔وہ امامہ کے کہنے پر ان سے بات کر رہا تھا۔
"مگر امی ! اس میں خطرے والی کیا بات ہے۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ہو گا ، آپ خوامخواہ خوفزدہ ہو رہی ہیں۔"جلال نے کچھ احتجاجی انداز میں کہا۔
"تم حماقت کی حد تک بےوقوف ہو۔"اس کی امی نے اس کی بات پر اسے جھڑکا۔"امامہ کے خاندان اور اس کے والد کو تمہارے ابو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہارے ساتھ شادی ہونے کی صورت میں وہ تمہارا پیچھا چھوڑ دیں گے یا ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔"
"امی ! ہم اس شادی کو خفیہ رکھیں گے ، کسی کو بھی نہیں بتائیں گے۔میں اسپیشلائزیشن کے لئے باہر جانے کے کچھ عرصہ بعد اسے بھی وہاں بلوا لوں گا۔سب کچھ خفیہ ہی رہے گا کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا۔"
"ہم آخر ! امامہ کے لئے کیوں اتنا بڑا خطرہ مول لیں اور تمہیں ویسے بھی یہ پتا ہونا چاہئیے کہ ہمارے یہاں اپنی فیملی میں ہی شادی ہوتی ہے۔ہمیں امامہ یا کسی اور کی ضرورت نہیں ہے۔"امی نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
"مجھے اگر یہ اندازہ ہوتا کہ تم اس طرح اس لڑکی میں دلچسپی لینا شروع کر دو گے تو میں اس سے پہلے ہی تمہاری کہیں نسبت طے کر دیتی۔"اس کی امی نے قدرے ناراضی سے کہا۔
"امی ! میں امامہ کو پسند کرتا ہوں۔"
"اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم اسے پسند کرتے ہو یا نہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس بارے میں ، میں اور تمہارے ابو کیا سوچتے ہیں۔۔۔۔۔اور ہم دونوں کو نہ تو وہ پسند ہے اور نہ ہی اس کا خاندان۔"امی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"امی ! وہ بہت اچھی لڑکی ہے ، آپ اسے بہت اچھی طرح جانتی ہیں ، وہ یہاں آتی رہی ہے اور تب تو آپ اس کی بہت زیادہ تعریف کرتی تھیں۔"جلال نے انہیں یاد دلایا۔
"تعریف کرنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں اسے اپنی بہو بنا لوں۔"وہ خفگی سے بولیں۔
"امی ! کم از کم آپ تو ابو جیسی باتیں نا کریں۔تھوڑا سا ہمدردی سے سوچیں۔"اس بار جلال نے لجاجت آمیز لہجے میں کہا۔
"جلال ! تمہیں احساس ہونا چاہئیے کہ تمہاری اس ضد اور فیصلے سے ہمارے پورے خاندان پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ہمارا بھی خواب ہے کہ ہم تمہاری شادی کسی اچھے اور اونچے خاندان میں کریں۔تمہارے ابو اگر تمہیں اس شادی کی اجازت دے بھی دیں تو بھی میں کبھی نہیں دوں گی۔نہ ہی میں امامہ کو اپنی بہو کے طور پر قبول کروں گی۔"
" امی ! آپ اس کی صورتِ حال کو سمجھیں ، وہ کتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے۔اس وقت اسے مدد کی ضرورت ہے۔"
"اگر وہ اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے تو پھر اسے کم از کم دوسرے کے لیے کوئی پریشانی کھڑی نہیں کرنی چاہئیے۔میں اسے برا نہیں کہہ رہی۔وہ بہت اچھا فیصلہ کر رہی ہے مگر ہم لوگوں کو اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔تم کچھ عقل سے کام لو۔تمہیں اسپیشلائزیشن کے لیے باہر جانا ہے۔اپنا ہاسپٹل بنانا ہے۔"اس کی امی نے قدرے نرم لجے میں کہا۔"بیٹا ! اچھے خاندان میں شادی ہو تو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے بہت سے مواقع ملتے ہیں اور تمہارے لیے تو پہلے ہی بہت سے خاندانوں کی طرف سے پیغام آ رہے ہیں۔جب اسپیشلائزیشن کر لو گے تو کتنے اونچے خاندان میں تمہاری شادی ہو سکتی ہے۔تمہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔خود سوچو ، صرف امامہ سے شادی کر کے تمہیں کیا ملے گا۔۔۔۔۔خاندان اس کا بائیکاٹ کر چکا ہو گا۔۔۔۔۔۔معاشرے میں جو بدنامی ہو گی ، وہ الگ ہے۔۔۔۔۔اور تم سے شادی ہو بھی جائے تو کل کو تمہارے بچے تمہارے اور امامہ کے بارے میں کیا سوچیں گے۔۔۔۔۔یہ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ہے ساری عمر کی بات ہے۔"امی اسے سنجیدہ لہجے میں سمجھا رہی تھیں۔جلال کسی اعتراض یا احتجاج کے بغیر خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
اس کے چہرے سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ قائل ہوا ہے یا نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امامہ نے اگلی رات جلال کو پھر فون کیا۔فون جلال نے ہی اٹھایا تھا۔
"امامہ ! میں نے امی سے بھی بات کی ہے۔وہ ابو سے زیادہ ناراض ہوئی ہیں میری بات پر۔"امامہ کا دل گویا مکمل ڈوب گیا۔
"وہ کہہ رہی ہیں کہ مجھے ایک فضول معاملے میں خود انوالو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"جلال نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔"میں نے انہیں تمہارے پرابلم کے بارے میں بھی بتایا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ تمہارا پرابلم ہے ، ہمارا نہیں۔"
امامہ کو اس کے لفظوں سے شدید تکلیف ہوئی تھی۔
"میں نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ رضامند نہیں ہیں اور نہ ہی ہوں گی۔"جلال کی آواز دھیمی ہو گئی تھی۔
"مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے جلال ! "اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ کسی موہوم سی اُمید پر کہا۔
"میں جانتا ہوں امامہ ! مگر میں کچھ نہیں کر سکتا۔میرے والدین اس پرپوزل پر راضی نہیں ہیں۔"
"کیا تُم ان کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟"
"نہیں ، یہ میرے لیے ممکن نہیں ہے۔مجھے ان سے اتنی محبت ہے کہ میں انہیں ناراض کر کے تم سے شادی نہیں کر سکتا۔"
"پلیز جلال ! "وہ گڑگڑائی۔"تمہارے علاوہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔"
"میں اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، تم مجھے اس کے لیے مجبور نہ کرو۔"
"میں آپ کو نافرمانی کے لیے نہیں کہہ رہی ہوں۔میں تو آپ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہوں۔"
اس کے اعصاب چٹخ رہے تھے۔اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے زندگی میں کبھی کسی سے اتنے التجائیہ اور منت بھرے انداز میں بات کی ہو۔
"آپ مجھ سے صرف نکاح کر لیں ، اپنے والدین کو اس کے بارے میں نہ بتائیں۔بےشک آپ بعد میں ان کی مرضی سے بھی شادی کر لیں ، میں اعتراض نہیں کروں گی۔"
"تم اب بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔خود سوچو اگر ایسے کسی نکاح کے بارے میں ابھی میرے والدین کو پتا چل جاتا ہے تو وہ کیا کریں گے۔۔۔۔۔وہ تو مجھے گھر سے نکال دیں گے۔۔۔۔۔اور پھر تم اور میں کیا کریں گے۔"
"ہم محنت کر لیں گے ، کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔"
"تمہارے اس کچھ نہ کچھ سے میں باہر پڑھنے جا سکوں گا؟"اس بار جلال کا لہجہ چبھتا ہوا تھا ، وہ بول نہیں سکی۔
"نہیں امامہ ! میرے اتنے خواب اور خواہشات ہیں کہ میں انہیں تمہارے لیے یا کسی کے لیے بھی نہیں چھوڑ سکتا۔مجھے تم سے محبت ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر میں اس جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جس کا مظاہرہ تم کر رہی ہو۔تم دوبارہ مجھے فون مت کرنا کیونکہ میں اب اس سارے معاملے کو یہیں ختم کر دینا چاہتا ہوں ، مجھے تم سے ہمدردی ہے مگر تم اپنے اس مسئلے کا حل خود نکالو ، میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا ، خدا حافظ۔"
جلال نے فون بند کر دیا۔
رات دس بج کر پچاس منٹ پر اسے اپنے اردگرد کی پوری دنیا دھوئیں میں تحلیل ہوتی نظر آئی۔کسی چیز کے مٹھی میں ہونے اور پھر دور دور تک کہیں نہ ہونے کا فرق کوئی امامہ سے بہتر نہیں بتا سکتا تھا۔ماؤف ذہن اور شل ہوتے ہوئے اعصاب کے ساتھ وہ بہت دیر تک کسی بت کی طرح اپنے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی رہی۔
مجھے بتا دینا چاہئیے اب بابا کو سب کچھ۔۔۔۔۔اس کے سوا اب اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔۔۔۔۔شاید وہ خود ہی مجھے اپنے گھر سے نکال دیں۔۔۔۔۔کم از کم مجھے اس گھر سے تو رہائی مل جائے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے