┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیر_ِکامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_16
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلال انصر سے ہونے والی چند ملاقاتوں کے بعد امامہ نے پوری کوشش کی تھی کہ وہ دوبارہ کبھی اس کا سامنا نہ کرے، نہ اس کے بارے میں سوچے، نہ زینب کے گھر جائے۔ حتیٰ کہ اس نے زینب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی اپنی طرف سے بہت محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی ہر حفاظتی تدبیر برے طریقے سے ناکام ہوتی گئی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ امامہ کی بے بسی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور پھر اس نے گھٹنے ٹیک دئیے تھے۔
"اس آدمی میں کوئی چیز ایسی ہے، جس کے سامنے میری ہر مزاحمت دم توڑ جاتی ہے۔" اور شاید اس کا یہ اعتراف ہی تھا جس نے اسے ایک بار پھر جلال کی طرف متوجہ کر دیا تھا۔ پہلے اس کے لئے اس کی بے اختیاری لاشعوری تھی پھر اس نے شعوری طور پر جلال کو اسجد کی جگہ دے دی۔
"آخر کیا برائی ہے اگر میں اس شخص کا ساتھ چاہوں جس کی آواز مجھے بار بار اپنے پیغمبر ﷺ کی طرف لوٹنے پر مجبور کرتی رہی۔ میں کیوں اس شخص کے حصول کی خواہش نہ کروں جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے مجھ سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے۔ کیا مضائقہ ہے اگر میں اس شخص کو اپنا مقدر بنائے جانے کی دعا کروں، جس کے لئے میں انس رکھتی ہوں اور جس کے کردار سے میں واقف ہوں۔ کیا برا ہے اگر میں یہ چاہوں کہ میں جلال انصر کے نام سے شناخت پاؤں۔ اس واحد آدمی کے نام سے جسے سنتے، جیسے دیکھتے مجھے اس پر رشک آتا ہے۔" اس کے پاس ہر دلیل، ہر توجیہہ موجود تھی۔
بہت غیر محسوس طور پر وہ ہر اس جگہ جانے لگی جہاں جلال کے پائے جانے کا امکان ہوتا اور وہ اکثر وہاں پایا جاتا۔ وہ زینب کو اس وقت فون کرتی، جب جلال گھر پر ہوتا کیونکہ گھر پر ہوتے ہوئے فون ہمیشہ وہی ریسیو کرتا۔ دونوں کے درمیان چھوٹی موٹی گفتگو رفتہ رفتہ طویل ہونے لگی پھر وہ ملنے لگے۔
جویریہ ، رابعہ یا زینب تینوں کو امامہ اور جلال کے ان بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں پتا نہیں تھا۔ جلال اب ہاؤس جاب کر رہا تھا اور امامہ اکثر اس کے ہاسپٹل جانے لگی۔ باقاعدہ اظہار محبت نہ کرنے کے باوجود وہ دونوں اپنے لئے ایک دوسرے کے جذبات کے واقف تھے۔ جلال جانتا تھا کہ امامہ اسے پسند کرتی تھی اور یہ پسندیدگی عام نوعیت کی نہیں تھی۔ خود امامہ بھی یہ جان چکی تھی کہ جلال اس کے لئے کچھ خاص قسم کے جذبات محسوس کرنے لگا ہے۔
جلال اس قدر مذہبی تھا کہ اس نے کبھی اس کا بات کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ کسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جائے گا، نہ صرف یہ کہ وہ محبت کرے گا بلکہ اس طرح اس سے ملا کرے گا۔۔۔۔۔ مگر یہ سب کچھ بہت غیر محسوس انداز میں ہوتا گیا۔ اس نے کبھی زینب سے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس کے اور امامہ کے درمیان کسی خاص نوعیت کا تعلق ہے۔ اگر وہ یہ انکشاف کر دیتا تو زینب اسے یقیناً امامہ کی اسجد کے ساتھ طے شدہ نسبت سے آگاہ کر دیتی۔ بہت شروع میں ہی وہ امامہ کی ایسی کسی نسبت کے بارے میں جان لیتا تو وہ امامہ کے بارے میں بہت محتاط ہو جاتا پھر کم از کم امامہ کے لئے اس حد تک انوالو ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس حد تک وہ ہو چکا تھا۔
ان کے درمیان ہونے والی ایسی ہی ایک ملاقات میں امامہ نے اسے پرپوز کیا تھا۔ اسے امامہ کی جرات پر کچھ حیرانی ہوئی تھی کیونکہ کم از کم وہ خود بہت چاہنے کے باوجود ابھی یہ بات نہیں کہہ سکا تھا۔
"آپ کا ہاؤس جاب کچھ عرصے میں مکمل ہو جائے گا، اس کے بعد آپ کیا کریں گے؟" امامہ نے اس دن اس سے پوچھا تھا۔
"اس کے بعد میں سپیشلائزیشن کے لئے باہر جاؤں گا۔" جلال نے بڑی سہولت سے کہا۔
"اس کے بعد؟"
"اس کے بعد واپس آؤں گا اور اپنا ہاسپٹل بناؤں گا۔"
"آپ نے اپنی شادی کے بارے میں سوچا ہے؟" اس نے اگلا سوال کیا تھا۔ جلال نے حیران مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔
"امامہ! شادی کے بارے میں ہر ایک ہی سوچتا ہے۔"
"آپ کس سے کریں گے؟"
"یہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔"
امامہ چند لمحے خاموش رہی۔" مجھ سے شادی کریں گے؟"
جلال دم بخود اسے دیکھنے لگا۔ اسے امامہ سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔" آپ کو میری بات بری لگی ہے؟"
امامہ نے اسے گم صم دیکھ کر پوچھا۔ وہ یک دم جیسے ہوش میں آ گیا۔
"نہیں، ایسا نہیں ہے۔" اس نے بے اختیار کہا۔" یہ سوال مجھے تم سے کرنا چاہئیے تھا۔ تم مجھ سے شادی کروگی؟"
"ہاں ۔" امامہ نے بڑی سہولت سے کہا۔
"اور آپ؟"
"میں۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ ہاں ، آف کورس۔ تمہارے علاوہ میں اور کس سے شادی کر سکتا ہوں۔" اس نے اپنے جملے پر امامہ کے چہرے پر ایک چمک آتے دیکھی۔
"میں ہاؤس جاب ختم ہونے کے بعد اپنے ماں باپ کو تمہارے ہاں بھجواؤں گا۔"
وہ اس بار جواب میں کچھ کہنے کے بجائے چپ سی ہو گئی۔"جلال! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں آپ سے اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کر لوں؟"
جلال اس کی بات پر ہکا بکا رہ گیا۔" کیا مطلب؟"
"ہو سکتا ہے میرے پیرنٹس اس شادی پر تیار نہ ہوں۔"
"کیا تم نے اپنے پیرنٹس سے بات کی ہے؟"
"نہیں۔"
"تو پھر تم یہ بات کیسے کہہ سکتی ہو؟"
"کیونکہ میں اپنے پیرنٹس کو اچھی طرح جانتی ہوں۔" اس نے رسانیت سے کہا۔
جلال یک دم کچھ پریشان نظر آنے لگا۔" امامہ! میں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ تمہارے پیرنٹس کو ہم دونوں کی شادی پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ ایسا نہیں ہو گا۔"
"مگر ایسا ہو سکتا ہے۔ آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ اس صورت میں مجھ سے شادی کر لیں گے؟"
جلال کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ امامہ اضطراب کے عالم میں اسے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد جلال نے اپنی خاموشی کو توڑا۔
"ہاں، میں تب بھی تم ہی سے شادی کروں گا۔ میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اب کسی دوسری لڑکی سے شادی کر سکوں گا۔ میں کوشش کروں گا کہ تمہارے پیرنٹس اس شادی پر رضامند ہو جائیں لیکن اگر وہ نہیں ہوتے تو پھر ہمیں ان کی مرضی کے بغیر شادی کرنی ہو گی۔"
"کیا آپ کے پیرنٹس اس شادی پر رضامند ہو جائیں گے؟"
"ہاں ، میں انہیں منا لوں گا۔ وہ میری بات نہیں ٹالتے۔" جلال نے فخریہ انداز سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ ہیلو کی آواز پر پلٹی۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر سالار کھڑا تھا۔ وہ اپنے اسی بے ڈھنگے حلیے میں تھا۔ ٹی شرٹ کے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے اور وہ خود جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح کے ردِ عمل کا اظہار کرے۔
سالار کے ساتھ تیمور بھی تھا۔
"آؤ۔ اس لڑکی سے ملواتا ہوں تمہیں۔" سالار نے امامہ کو کتابوں کی دوکان پر دیکھا تو قریب چلا آیا۔
تیمور نے گردن موڑ کر دیکھا اور حیرانی سے کہا۔" اس چادر والی سے؟"
"ہاں۔" سالار نے قدم بڑھائے۔
"یہ کون ہے؟" تیمور نے پوچھا۔
"یہ وسیم کی بہن ہے۔" سالار نے کہا۔
"وسیم کی؟ مگر تم اس سے کیوں مل رہے ہو؟ وسیم اور اس کی فیملی تو خاصی کنزرویٹو ہے۔ اس سے مل کر کیا کرو گے؟" تیمور نے امامہ پر دور سے ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
"پہلی بار نہیں مل رہا ہوں، پہلے بھی مل چکا ہوں۔ بات کرنے میں کیا حرج ہے؟" سالار نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
امامہ نے میگزین ہاتھ میں پکڑے پکڑے ایک نظر سالار کو اور ایک نظر اس کے ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھا جو تقریباً سالار جیسے حیلے میں ہی تھا۔
"ہاؤ آر یو؟" سالار نے اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر کہا۔
"فائن۔" امامہ نے میگزین بند کرتے ہوئے اسے دیکھا۔
"یہ تیمور ہے، وسیم سے اس کی بھی خاصی دوستی ہے۔" سالار نے تعارف کرایا۔
امامہ نے ایک نظر تیمور کو دیکھا پھر ہاتھ کے اشارے سے شاپنگ سنٹر کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔" وسیم وہاں ہے۔"
سالار نے گردن موڑ کر اس طرف دیکھا جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا اور پھر کہا۔
"مگر ہم وسیم سے ملنے تو نہیں آئے۔"
"تو؟" امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
"آپ سے بات کرنے آئے ہیں۔"
"مگر میں تو آپ کو نہیں جانتی، پھر آپ مجھ سے کیا بات کرنے آئے ہیں؟"
امامہ نے سردمہری سے کہا۔ اسے سالار کی آنکھوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔ کاش یہ کسی سے نظریں جھکا کر بات کرنا سیکھ لیتا، خاص طور پر کسی لڑکی سے۔ اس نے میگزین دوبارہ کھول لیا۔
"آپ مجھے نہیں جانتیں؟" سالار مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔" آپ کے گھر کے ساتھ ہی میرا گھر ہے۔"
"یقیناً ہے مگر میں آپ کو"ذاتی" طور پر نہیں جانتی۔" اس نے اسی رکھائی سے میگزین پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔
"چند ماہ پہلے آپ نے ایک رات میری جان بچائی تھی۔" سالار نے مذاق اڑانے والے انداز میں اسے یاد دلایا۔
"میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہونے کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا۔ میرے سامنے کوئی بھی مر رہا ہوتا، میں یہی کرتی۔ اب مجھے ایکسکیوز کریں، میں کچھ مصروف ہوں۔"
سالار اس کے کہنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوا۔ تیمور نے اس کے بازو کو ہولے سے کھینچ کر چلنے کا اشارہ کیا۔ شاید اسے وسیم کے حوالے سے امامہ کا لحاظ تھا مگر سالار نے اپنا بازو چھڑا لیا۔
"میں اس رات آپ کی مدد کے لئے شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ آپ نے مجھے پروفیشنل طریقے سے ٹریٹمنٹ نہیں دیا تھا۔"
اس بار سالار نے سنجیدگی سے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر میگزین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
"آپ کا اشارہ اگر اس تھپڑ کی طرف ہے تو ہاں وہ بالکل پروفیشنل نہیں تھا اور میں اس کے لئے معذرت کرتی ہوں۔"
"میں نے اسے مائنڈ نہیں کیا۔ میرا اشارہ اس طرف نہیں تھا۔" سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"مجھے توقع تھی کہ آپ اس تھپڑ کو مائنڈ نہیں کریں گے۔"(کیونکہ اسی کے مستحق تھے اور ایک نہیں دس) اس نے جملے کا آدھا حصہ ضبط کر لیا۔
"ویسے آپ کا اشارہ کس طرف تھا؟"
"بے حد تھرڈ کلاس طریقے سے بینڈیج کی تھی آپ نے میری اور آپ کو پراپر طریقے سے بلڈ پریشر تک چیک کرنا نہیں آتا۔" سالار نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے چیونگم کی ایک اسٹک اپنے منہ میں ڈالی۔ امامہ کے کان کی لوئیں سرخ ہو گئیں۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
"افسوس ناک بات ہے کہ ایک ڈاکٹر کو ایسے معمولی کام نہ آتے ہوں، جو کسی بھی عام آدمی کو آتے ہیں۔"
اس بار اس کا انداز پھر مذاق اڑانے والا تھا۔
"میں ڈاکٹر نہیں ہوں، میڈیکل کے ابتدائی سالوں میں ہوں، پہلی بات اور جہاں تک unprofessional ہونے کا تعلق ہے تو اگلی بار سہی، آپ نے تو ابھی اس طرح کی کئی کوششیں کرنی ہیں۔ میں آہستہ آہستہ آ پ پر پریکٹس کر کے اپنا ہاتھ صاف کر لوں گی۔"
ایک لمحہ کے لئے وہ کچھ نہیں بول سکا پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ یوں جیسے وہ اس کی بات پر محظوظ ہوا تھا مگر شرمندہ نہیں اور اس نے اس کا اظہار بھی کر دیا۔
"اگر آپ مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش۔۔۔۔۔"
"کوشش کر رہی ہیں تو آپ اس میں ناکام ہوں گی۔ میں جانتی ہوں، آپ شرمندہ نہیں ہوتے، یہ صفت صرف انسانوں میں ہوتی ہے۔" امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
"آپ کے خیال میں، میں کیا ہو؟" سالار نے اسی انداز میں کہا۔
"پتا نہیں، ایک vet اس بارے میں آپ کو زیادہ بہتر گائیڈ کر سکے گا۔" وہ اس بار اس کی بات پر ہنسا۔
"دو پیروں پر چلنے والے جانور کو ہر میڈیکل ڈکشنری انسان کہتی ہے اور میں دو پیروں پر چلتا ہوں۔"
"ریچھ سے لے کر کتے تک ہر چار پیروں والا جانور دو پیروں پر چل سکتا ہے۔ اگر اسے ضرورت پڑے یا اس کا دل چاہے تو۔"
"مگر میرے چار پیر نہیں اور میں صرف ضرورت کے وقت نہیں، ہر وقت ہی دو پیروں پر چلتا ہوں۔" سالار نے عجیب سے انداز میں اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کے چار پیر نہیں ہیں، اسی لئے میں نے آپ کو vet سے ملنے کو کہا ہے۔ وہ آپ کو آپ کی خصوصیات کے بارے میں صحیح بتا سکے گا۔"
امامہ نے سرد آواز میں کہا۔ وہ اسے زچ کرنے میں واقعی کامیاب ہو چکا تھا۔
"ویسے جتنی اچھی طرح سے آپ جانوروں کے بارے میں جانتی ہیں، آپ ایک بہت اچھی vet ثابت ہو سکتی ہیں۔ آپ کے علم سے خاصا متاثر ہوا ہوں میں۔"امامہ کے چہرے کی سرخی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔"اگر آپ میری vet بن جاتی ہیں تو میں آپ کے بتائے ہوئے مشورے کے مطابق آپ ہی کے پاس آیا کروں گا تاکہ آپ میرے بارے میں ریسرچ کر کے مجھے بتا سکیں۔"
سالار نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی، صرف اسے دیکھ کر رہ گئی۔ وہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی منہ پھٹ تھا اور ایسے شخص کے ساتھ لمبی گفتگو کرنا آ بیل مجھے مار کہ مترادف تھا اور وہ یہ حماقت کر چکی تھی۔
"ویسے آپ کیا فیس چارج کریں گی؟" وہ بڑی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
"یہ وسیم آپ کو بتا دے گا۔" امامہ نے اس بار اسے دھمکانے کی کوشش کی۔
"چلیں ٹھیک ہے، یہ میں وسیم سے پوچھ لوں گا۔ اس طرح تو خاصی آسانی ہو جائے گی۔"
وہ اس کی دھمکی کو سمجھنے کے باوجود مرعوب نہیں ہوا اور اس نے امامہ کو یہ جتا بھی دیا۔ تیمور نے ایک بار پھر اس کا بازو پکڑ لیا۔
"آؤ سالار! چلتے ہیں، مجھے ایک ضروری کام یاد آ رہا ہے۔" اس نے عجلت کے عالم میں سالار کو اپنے ساتھ تقریباً گھسیٹنے کی کوشش کی مگر سالار نے توجہ نہیں دی۔
"چلتے ہیں یار! اس طرح کھینچو تو مت۔"وہ اس سے کہتے ہوئے ایک بار پھر امامہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
"بہرحال یہ سب مذاق تھا، میں واقعی آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا۔ آپ نے اور وسیم نے کافی مدد کی میری، گڈ بائے۔"
وہ کہتے ہوئے واپس مڑ گیا۔ امامہ نے بے اختیار ایک سکون کا سانس لیا۔ وہ شخص واقعی کریک تھا۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وسیم جیسا شخص کیسے اس آدمی کے ساتھ دوستی رکھ سکتا ہے۔
وہ ایک بار پھر میگزین کے ورق الٹنے لگی۔" سالار آیا تھا تمہارے پاس؟" وسیم نے اس کے پاس آ کر پوچھا۔ دور سے سالار اور تیمور کو دیکھ لیا تھا۔
"ہاں۔" امامہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک بار پھر میگزین دیکھنے لگی۔
"کیا کہہ رہا تھا؟" وسیم نے کچھ تجسس سے پوچھا۔
"مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم نے اس جیسے شخص کے ساتھ دوستی کیسے کر لی ہے۔ میں نے زندگی میں اس سے زیادہ بے ہودہ اور بدتمیز لڑکا نہیں دیکھا۔" امامہ نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔"میرا شکریہ ادا کر رہا تھا اور ساتھ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ مجھے بینڈیج تک ٹھیک سے کرنی نہیں آتی، نہ میں بلڈ پریشر چیک کر سکتی ہوں۔"
وسیم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔" اس کو دفع کرو، یہ عقل سے پیدل ہے۔"
"میرا دل تو چاہ رہا تھا کہ میں اسے دو ہاتھ اور لگاؤں، اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ منہ اٹھا کر اپنے دوست کو لے کر پہنچ گیا ہے یہاں۔ بھئی! کس نے کہا ہے تم سے شکریہ ادا کرنے کو اور مجھے تو وہ دوسرا لڑکا بھی خاصا برا لگا اور وہ کہہ رہا تھا کہ تمہاری اس کے ساتھ بھی دوستی ہے۔" امامہ کو اچانک یاد آیا۔
"دوستی تو نہیں، بس جان پہچان ہے۔" وسیم نے وضاحت پیش کی۔" تمہیں ایسے لڑکوں کے ساتھ جان پہچان رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حلیہ دیکھا تھا تم نے ان دونوں کا۔ نہ انہیں بات کرنے کی تمیز تھی، نہ لباس پہننے کا سلیقہ اور منہ اٹھا کر شکریہ ادا کرنے آ گئے ہیں۔ بہرحال تم اس سے مکمل طور پر قطع تعلق کر لو۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اس طرح کے لڑکوں سے جان پہچان کی بھی تمہیں۔"
امامہ نے میگزین رکھتے ہوئے ایک بار پھر اسے تنبیہ کی اور پھر باہر جانے کے لئے قدم بڑھا دئیے۔ وسیم بھی اس کے ساتھ چلنے لگا۔
"مگر میں ایک بات پر حیران ہوں یہ جس حالت میں تھا اسے کیسے یاد ہے کہ میں نے اس کی بینڈیج اچھی نہیں کی تھی یا بلڈپریشر لینے میں مجھے دقت ہو رہی تھی۔" امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"میں یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ ایسے ہی ہاتھ پاؤں جھٹک رہا ہے۔ مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ اپنے اردگرد ہونے والی چیزوں کو بھی observe کر رہا ہے۔"
"ایسے بینڈیج واقعی خراب کی تھی تم نے اور اگر میں تمہاری مدد نہ کرتا تو بلڈپریشر کی ریڈنگ لینا بھی تمہیں لینا نہیں آتی۔ کم از کم اس بارے میں وہ جو بھی کہہ رہا تھا ٹھیک کہہ رہا تھا۔" وسیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہاں، مجھے پتا ہے۔" امامہ نے اعتراف کرنے والے انداز میں کہا۔"مگر میں اس وقت بہت نروس تھی۔ میں پہلی بار اس طرح کی صورت حال کا شکار ہوئی تھی پھر اس کے ہاتھ سے نکلنے والا خون مجھے اور خوف زدہ کر رہا تھا اور اوپر سے اس کا رویہ۔۔۔۔۔ کسی خود کشی کرنے والے انسان کو اس طرح کی حرکتیں کرتے نہیں دیکھا تھا میں نے۔"
"اور تم ڈاکٹر بننے جا رہی ہو، وہ بھی ایک قابل اور نامور ڈاکٹر، ناقابل یقین۔" وسیم نے تبصرہ کیا۔
"اب کم از کم تم اس طرح کی باتیں نہ کرو۔" امامہ نے احتجاج کیا۔" میں نے اس لئے تمہیں یہ سب نہیں بتایا کہ تم مذاق اڑاؤ۔" وہ لوگ پارکنگ ایریا میں پہنچ گئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کچھ دنوں سے وہ جلال اور زینب کے رویے میں عجیب سی تبدیلی دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں اس سے بہت اکھڑے اکھڑے رہنے لگے تھے۔ ایک عجیب سا تناؤ تھا، جو وہ اپنے اور ان کے درمیان محسوس کر رہی تھی۔
اس نے ایک دو بار جلال کو ہاسپٹل فون کیا، مگر ہر بار اسے یہی جواب ملتا کہ وہ مصروف ہے۔ وہ زینب کو اگر کالج سے لینے بھی آتا تو پہلے کی طرح اس سے نہیں ملتا تھا اور اگر ملتا بھی تو صرف رسمی سی علیک سلیک کے بعد واپس چلا جاتا۔ وہ شروع میں اس تبدیلی کو اپنا وہم سمجھتی رہی مگر پھر زیادہ پریشان ہونے پر وہ ایک دن جلال کے ہاسپٹل چلی آئی۔
جلال کا رویہ بے حد سرد تھا۔ امامہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہیں آئی۔
"کافی دن ہو گئے تھے ہمیں ملے ہوئے، اس لئے میں خود چلی آ ئی۔" امامہ نے اپنے سارے اندیشوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"میری تو شفٹ شروع ہو رہی ہے۔"
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔"زینب بتا رہی تھی کہ اس وقت آپ کی شفٹ ختم ہوتی ہے، میں اسی لئے اس وقت آئی ہوں۔"
وہ ایک لمحہ کے لئے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔" ہاں صحیح ہے، مگر آج میری کوئی اور مصروفیت ہے۔"
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔"جلال! آپ کسی وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں؟" ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے کہا۔
"نہیں ، میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔" جلال نے اسی رکھائی سے کہا۔
"کیا آپ دس منٹ باہر آ کر میری بات سن سکتے ہیں؟"
جلال کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے اپنا اوور آل اپنے بازو پر ڈال لیا اور کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔
باہر جاتے ہی جلال نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر ڈوڑائی۔ یہ شاید اس کے لئے بات شروع کرنے کا اشارہ تھا۔"آپ میرے ساتھ اس طرح مس بی ہیو کیوں کر رہے ہیں؟"
"کیا مس بی ہیو کر رہا ہوں؟" جلال نے اکھڑ انداز میں کہا۔
"آپ بہت دنوں سے مجھے اگنور کر رہے ہیں۔"
"ہاں، کر رہا ہوں۔"
امامہ کو توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی صفائی سے اس بات کا اعتراف کر لے گا۔
"کیونکہ میں تم سے ملنا نہیں چاہتا۔" وہ کچھ لمحوں کے لئے کچھ نہیں بول سکی۔"کیوں؟"
"یہ بتانا ضروری نہیں۔" اس نے اسی طرح اکھڑ انداز میں کہا۔
"میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا رویہ یک دم کیوں تبدیل ہو گیا ہے۔ کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی اس کی۔" امامہ نے کہا۔
"ہاں وجہ ہے مگر میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم بہت سی باتیں مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھتیں۔"
"میں؟" وہ اس کا منہ دیکھنے لگی۔"میں نے کون سی باتیں آپ کو نہیں بتائیں؟"
"یہ کہ تم مسلمان نہیں ہو۔"جلال نے بڑے تلخ لہجے میں کہا۔ امامہ سانس تک نہیں لے سکی۔
"کیا تم نے یہ بات مجھ سے چھپائی نہیں؟"
"جلال! میں بتانا چاہتی تھی۔" امامہ نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
"چاہتی تھی۔۔۔۔۔ مگر تم نے بتایا تو نہیں۔۔۔۔۔ دھوکا دینے کی کوشش کی تم نے۔"
"جلال! میں نے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔" امامہ نے جیسے احتجاج کیا۔" میں آپ کو کیوں دھوکا دوں گی؟"
"مگر تم نے کیا یہی ہے۔" جلال نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
"جلال میں۔۔۔۔۔" جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
"تم نے جان بوجھ کر مجھے ٹریپ کیا۔" امامہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"ٹریپ کیا؟" اس نے زیرلب جلال کے لفظوں کو دہرایا۔
"تم جانتی تھیں کہ میں اپنے پیغمبر ﷺ سے عشق کرتا ہوں۔"
وہ شکست خوردہ انداز میں اسے دیکھتی رہی۔
"شادی تو دور کی بات ہے۔ اب جب میں تمہارے بارے میں سب کچھ جان گیا ہوں تو میں تم سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔ تم دوبارہ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔" جلال نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"جلال! میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔"امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔
"اوہ کم آن۔" جلال نے تحقیر آمیز انداز میں اپنا ہاتھ جھٹکا۔" یہاں کھڑے کھڑے تم نے میرے لئے اسلام قبول کر لیا۔" اس بار وہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔
"جلال! میں آپ کے لئے مسلم نہیں ہوئی۔ آپ میرے لئے ایک ذریعہ ضرور بنے ہیں، مجھے کئی ماہ ہو گئے ہیں اسلام قبول کیے اور اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو میں آپ کو ثبوت دے سکتی ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔"
اس بار جلال کچھ الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
"میں مانتی ہوں میں نے آپ کی طرف پیش قدمی خود کی۔ آپ کے بقول میں نے آپ کو ٹریپ کیا۔ میں نے ٹریپ نہیں کیا۔ میں صرف بے بس تھی۔ آپ کے معاملے میں مجھے خود پر قابو نہیں رہتا تھا۔ آپ کی آواز کی وجہ سے، آپ جانتے ہیں میں نے آپ کو بتایا تھا میں نے پہلی بار آپ کو نعت پڑھتے سنا تو میں نے کیا محسوس کیا تھا۔ آپ کو اگر میرے بارے میں پہلے ہی یہ سب کچھ پتا چل جاتا تو آپ میرے ساتھ یہی سلوک کرتے جو اب کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ مجھے صرف اس بات کا اندیشہ تھا جس کی وجہ سے میں نے آپ سے بہت کچھ چھپائے رکھا۔ بعض باتوں میں انسان کو اپنے اوپر اختیار نہیں ہوتا۔ مجھے بھی آپ کے معاملے میں خود پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔"
اس نے رنجیدگی سے کہا۔
"تمہارے گھر والوں کو اس بات کا پتا ہے؟"
"نہیں، میں انہیں نہیں بتا سکتی۔ میری منگنی ہو چکی ہے۔ میں نے آپ کو اس بارے میں بھی نہیں بتایا۔۔۔۔۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔"مگر میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں آ پ سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔ میں صرف اپنی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہوں۔ تب میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گی اور پھر میں آپ سے شادی کروں گی۔"
"چار پانچ سال بعد جب میں ڈاکٹر بن جاؤں گی تو شاید میرے پیرنٹس آپ سے میری شادی پر اس طرح اعتراض نہ کریں جس طرح وہ اب کریں گے۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میری تعلیم ختم کروا کر میری شادی اسجد سے کر دیں گے تو شاید میں انہیں ابھی اس بات کے بارے میں بتا دیتی کہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں مگر میں ابھی پوری طرح ان پر ڈپینڈنٹ ہوں۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ آپ وہ واحد راستہ تھے جو مجھے نظر آیا۔ مجھے واقعی آپ سے محبت ہے پھر میں آپ کو شادی کی پیشکش نہ کرتی تو اور کیا کرتی۔ آپ اس صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتے جس کا سامنا میں کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ میری جگہ پر ہوتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ میں جھوٹ بولنے کے لئے کتنی مجبور ہو گئی تھی۔"
جلال کچھ کہے بغیر پاس موجود لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا وہ اب پریشان نظر آرہا تھا۔ امامہ نے اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔
"کیا آپ کے دل میں میرے لئے کچھ بھی نہیں ہے؟ صرف اس لئے میرے ساتھ انوالو ہیں، کیونکہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں؟"
جلال نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
"امامہ ! بیٹھ جاؤ۔۔ پورا پینڈورا باکس کھل گیا ہے میرے سامنے۔۔۔۔ اگر میں تمہاری صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتا تو تم بھی میری پوزیشن کو نہیں سمجھ سکتی۔"
امامہ اس سے کچھ فاصلے پر رکھی بینچ پر بیٹھ گئی۔
"میرے والدین کبھی غیر مسلم لڑکی سے میری شادی نہیں کریں گے۔ قطع نظر اس کے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں یا نہیں۔"
"جلال! میں غیر مسلم نہیں ہوں۔"
"تم اب نہیں ہو مگر پہلے تو تھیں اور پھر تمہارا خاندان۔۔۔۔۔"
"میں ان دونوں چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔" امامہ نے بے بسی سے کہا۔
جلال نے جواب میں کچھ نہیں کہا کچھ دیر وہ دونوں خاموش رہے۔
"کیا آپ اپنے پیرنٹس کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟" کچھ دیر بعد امامہ نے کہا۔
"یہ بہت بڑا قدم ہو گا۔" جلال نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔" اور بالفرض میں یہ کام کرنے کا سوچ لوں تو بھی نہیں ہو سکتا۔ تمہاری طرح میں بھی اپنے پیرنٹس پر ڈیپنڈنٹ ہوں۔" جلال نے اپنی مجبوری بتائی۔
"مگر آپ ہاؤس جاب کر رہے ہیں اور چند سالوں میں اسٹیبلش ہو جائیں گے۔" امامہ نے کہا۔
"میں ہاؤس جاب کے بعد اسپیشلائزیشن کے لئے باہر جانا چاہتا ہوں اور یہ میرے پیرنٹس کی مالی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسپیشلائزیشن کے بعد ہی میں واپس آ کر اپنی پریکٹس اسٹیبلش کر سکتا ہوں تین چار سال اپنی اسٹڈیز ختم کرنے میں بھی لگ جائیں گے۔"
جلال نے اسے یاد دلایا۔
"پھر؟" امامہ نے اسے مایوسی سے دیکھا۔
"پھر یہ کہ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ شاید میں کوئی رستہ نکال سکوں، میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتا مگر میں اپنا کیرئیر بھی خراب نہیں کر سکتا۔ میرا پرابلم صرف یہ ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے ماں باپ کا ہے اور وہ اپنی ساری جمع پونجی مجھ پر خرچ کر رہے ہیں یہ سوچ کر کہ میں کل کو ان کے لئے کچھ کروں گا۔"
وہ بات کرتے کرتے رکا۔"کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمہارے والدین اپنی مرضی سے تمہاری شادی مجھ سے کر دیں۔ اس صورت میں کم از کم میرے والدین کو یہ اعتراض تو نہیں ہو گا کہ تم نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف انہیں بتائے بغیر مجھ سے شادی کی؟"
وہ جلال کا چہرہ دیکھنے لگی۔" میں نہیں جانتی۔۔۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتی۔ وہ میری بات مانیں گے یا نہیں۔ میں۔۔۔۔۔" امامہ نے کچھ مایوسی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی۔ جلال بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
"میری فیملی میں آج تک کسی لڑکی نے اپنی مرضی سے باہر کسی لڑکے سے شادی نہیں کی۔ اس لئے میں یہ نہیں بتا سکتی کہ ان کا ردِعمل کیا ہو گا مگر میں یہ ضرور بتا سکتی ہوں کہ ان کا ردِعمل بہت برا ہو گا۔ بہت برا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن مجھے یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ میں اتنا بڑا قدم اٹھاؤں۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہئیے کہ میرے بابا کو کتنی شرمندگی اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صرف میرے لئے تو وہ سب کچھ نہیں بدل دیں گے۔"
"اگر مجھے اپنی فیملی سے مدد کی توقع ہوتی تو میں گھر سے باہر سہاروں کی تلاش میں ہوتی نہ ہی آپ سے اس طرح مدد مانگ رہی ہوتی۔"
دھیمے لہجے میں اپنے آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے اس نے جلال سے کہا۔
"امامہ! میں تمہاری مدد کروں گا۔۔۔۔۔ میرے پیرنٹس میری بات نہیں ٹالیں گے۔ سمجھانے میں کچھ وقت لگے گا مگر میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں انہیں منا لوں گا۔ تم ٹھیک کہتی ہو کہ مجھے تمہاری مدد کرنی چاہئیے۔"
وہ پرسوچ مگر الجھے ہوئے انداز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ امامہ کو عجیب سی ڈھارس ہوئی۔ اسے جلال سے یہی توقع تھی۔
امامہ نے سوچا۔" میرا انتخاب غلط نہیں ہے۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے