┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیر_ِکامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_15
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی بار جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک پرائیویٹ کلینک میں موجود تھا۔ آنکھیں کھول کر اس نے ایک بار پھر اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش کی۔ کمرے میں اس وقت ایک نرس موجود تھی جو اس کے پاس کھڑی ڈرپ کو صحیح کرنے میں مصروف تھی۔ سالار نے اسے مسکراتے دیکھا تھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اس کا ذہن ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔
دوسری بار اسے کب ہوش آیا، اسے اندازہ نہیں ہوا مگر دوسری بار آنکھیں کھولنے پر اس نے اس کمرے میں کچھ شناسا چہرے دیکھے تھے۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر ممی اس کی طرف بڑھ آئی تھیں۔
"کیسا محسوس کر رہے ہو تم؟" انہوں نے اس پر جھکتے ہوئے بے تابی سے کہا۔
"جسٹ فائن۔" سالار نے دور کھڑے سکندر عثمان کو دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ اس سے پہلے کہ اس کی ممی کچھ اور کہتیں کمرے میں موجود ایک ڈاکٹر آگے آ گیا تھا۔ وہ اس کی نبض چیک کرنے لگا تھا۔
ڈاکٹر نے انجکشن لگانے کے بعد ایک بار پھر اسے ڈرپ لگائی۔ سالار نے کچھ بیزاری کے ساتھ یہ کاروائیاں دیکھیں۔ ڈرپ لگانے کے بعد وہ سکندر عثمان اور اس کی بیوی سے باتیں کرنے لگا۔ سالار اس گفتگو کے دوران چھت کو گھورتا رہا پھر کچھ دیر بعد ڈاکٹر کمرے سے نکل گیا۔
کمرے میں اب بالکل خاموشی تھی۔ سکندر عثمان اور اس کی بیگم اپنا سر پکڑے بیٹھے تھے۔ ان کی تمام کوششوں اور احتیاط کے باوجود یہ سالار سکندر کی خود کشی کی چوتھی کوشش تھی اور اس بار وہ واقعی مرتے مرتے بچا تھا۔ ڈاکٹرزکے مطابق اگر چند منٹو ں کی تاخیر ہوجاتی تو وہ اسے نہیں بچا سکتے تھے۔
سکندر اور ان کی بیوی کو ملازم نے رات کے دو بجے سالار کی خودکشی کی اس کوشش کے بارے میں بتایا تھا اور وہ دونوں میاں بیوی پوری رات سو نہیں سکے تھے۔ سکندر عثمان نے صبح فلائٹ ملنے تک تقریباً ڈیڑھ سو سگریٹ پھونک ڈالے تھے، مگر اس کے باوجود ان کی بے چینی اور اضطراب میں کمی نہیں ہو پار رہی تھی۔
"میری سمجھ میں نہیں آتا یہ آخر اس طرح کی حرکتیں کیوں کرتا ہے۔ آخر اس پر ہماری نصیحتوں اور ہمارے سمجھانے کا اثر کیوں نہیں ہوا۔" سکندر عثما ن نے دوران سفر کہا۔"میرا تو دماغ پھٹنے لگتا ہے جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں۔ کیا نہیں کیا میں نے اس کے لئے۔ ہر سہولت، بہترین تعلیم حتیٰ کہ بڑے سے بڑے سائیکاٹرسٹ کو دکھا چکا ہوں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔۔۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ سے کیا غلطی ہو گئی ہے جو مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔ جاننے والوں کے درمیان مذاق بن گیا ہوں میں اس کی وجہ سے۔" سکندر عثمان بہت پریشان تھے۔" ہر وقت میرا دم حلق میں اٹکا رہتا ہے کہ پتا نہیں وہ کس وقت کیا کر گزرے۔ اتنی احتیاط برتنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک بار ہم غافل ہوئے اور وہ پھر وہی حرکت کر گزرا ہے۔" طیبہ نے اپنی آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کو ٹشو کے ساتھ صاف کیا۔ وہ دونوں اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد آئے تھے مگر سالار کے سامنے آ کر دونوں کو چپ لگ گئی تھی۔ ان دونوں ہی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس حالت میں اس سے کیا کہیں۔
سالار کو ان کی دلی اور ذہنی کیفیات کا اچھی طرح اندازہ تھا اور ان کی خاموشی کو وہ غنیمت جان رہا تھا۔ انہوں نے اس دن اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ اگلے دن بھی وہ دونوں خاموش ہی رہے تھے۔
مگر تیسرے دن ان دونوں نے اپنی خاموشی توڑ دی تھی۔
"مجھے صرف یہ بتاؤ کہ آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟"سکندر نے اس رات بڑی تحمل مزاجی سے اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا تھا۔" آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔ میں نے اسی وعدے پر تمہیں اسپورٹس کار بھی لے کر دی تھی۔ ہر بات مان رہے ہیں ہم لوگ تمہاری، پھر بھی تمہیں قطعاً احساس نہیں ہے ہم لوگوں کا، نہ خاندان کی عزت کا۔" سالار اسی طرح چپ بیٹھا رہا۔
"کسی اور کا نہیں تو تم ہم دونوں کا ہی خیال کرو۔ تمہاری وجہ سے ہماری راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔" طیبہ نے کہا۔" "تمہیں کوئی پریشانی، کوئی پرابلم ہے، تو ہم سے ڈسکس کرو، ہم سے کہو۔۔۔۔۔ مگر اس طرح مرنے کی کوشش کرنا۔۔۔۔۔ تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر تم ان کوششوں میں کامیاب ہو جاتے تو ہمارا کیا ہوتا۔" سالار خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ ان کی باتوں میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ خود کشی کی ہر کوشش کے بعد وہ ان سے اسی طرح کی باتیں سنتا تھا۔
"کچھ بولو، چپ کیوں ہو؟ کچھ سمجھ میں آ رہا ہے تمہیں؟" طیبہ نے جھنجھلا کر کہا۔ وہ انہیں دیکھنے لگا۔" ماں باپ کو اس طرح ذلیل کر کے بڑی خوشی ملتی ہے تمہیں۔"
"اس قدر شاندار مستقبل ہے تمہارا اور تم اپنی احمقانہ حرکتوں سے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ لوگ ترستے ہیں اس طرح کے اکیڈمک ریکارڈ کے لئے۔" سکندر عثمان نے اسے اس کا اکیڈمک ریکارڈ یاد دلانے کی کوشش کی۔سالار نے بے اختیار ایک جماہی لی۔ وہ جانتا تھا اب وہ اس کے بچپن سے لے کر اس کی اب تک کی کامیابیوں کو دہرانا شروع کریں گے۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ اگلے پندرہ منٹ اس موضوع پر بولنے کے بعد انہوں نے تھک کر پوچھا۔
"آخر تم کچھ بول کیوں نہیں رہے ، بولو"
"میں کیا بولوں، سب کچھ تو آپ دونوں نے کہہ دیا۔" سالارنے کچھ اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔" میری زندگی میرا پرسنل معاملہ ہے پھر بھی میں نے آپ کو بتایا ہے کہ دراصل میں مرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔" سکندر نے اس کی بات کاٹی۔
"تم جو بھی کر رہے تھے، وہ مت کرو، ہم پر کچھ رحم کھاؤ۔" سالار نے ناراضی سے باپ کو دیکھا۔
"تم آخر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تم آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔ فضول میں بحث کیوں کرتے جا رہے ہو؟" اس بار طیبہ نے اس سے کہا۔
"اچھا ٹھیک ہے، نہیں کروں گا، ایسی کوئی بھی حرکت۔" سالار نے بے زاری سے جیسے ان دونوں سے جان چھڑانے کے لئے کہا۔ سکندر نے ایک گہری سانس لی۔ وہ اس کے وعدے پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ نہ وہ۔۔۔۔۔ نہ ان کی بیوی۔۔۔۔۔ مگر ایسے وعدے لینے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ بچپن سے اپنے اس بیٹے پر فخر کرتے آ رہے تھے، مگر پچھلے کچھ سالوں سے ان کا وہ فخر ختم ہو گیا تھا۔ جتنا پریشان انہیں سالار نے کیا تھا اتنا ان کے باقی بچوں نے مل کے بھی نہیں کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"اب کیسا ہے تمہارا دوست؟ گئے تھے تم اس کی خیریت دریافت کرنے؟" امامہ وسیم کے ساتھ مارکیٹ جا رہی تھی کہ اچانک اسے سالار کا خیال آیا۔
"پہلے سے تو حالت کافی بہتر ہے اس کی۔ شاید کل پرسوں تک ڈسچارج ہو جائے۔" وسیم نے اسے سالار کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔" تم چلو گی واپسی پر اس کو دیکھنے؟" وسیم کو اچانک خیال آیا۔
"میں؟" امامہ حیران ہوئی۔" میں کیا کروں گی جا کر۔۔۔۔۔"
"خیریت دریافت کرنا اور کیا کرنا ہے تمہیں۔" وسیم نے سنجیدگی سے کہا۔
"اچھا۔" امامہ نے کچھ تامل سے کہا۔
"چلو ٹھیک ہے، چلیں گے۔ حالانکہ اس طرح کے مریض کی عیادت کرنا فضول ہے۔" اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"ایسے مجھے توقع تھی کہ ا س کے پیرنٹس ہمارے گھر آئیں گے، شکریہ وغیرہ ادا کرنے کہ ہم نے ان کے بیٹے کی جان بچا لی۔ کس قدر بروقت مدد کی تھی ہم نے، مگر انہوں نے تو بھولے سے ہمارے گھر کا رخ نہیں کیا۔" امامہ نے تبصرہ کیا۔
"تم ان بیچاروں کی کنڈیشن کا اندازہ ہی نہیں کر سکتیں۔ کس منہ سے وہ شکریہ ادا کرنے آئیں اور پھر اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ آپ کے بیٹے نے ایسی حرکت کیوں کی تو وہ دونوں کیا جواب دیں گے۔۔۔۔۔ وہ بیچارے عجیب مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔"
وسیم نے قدرے افسوس کرنے والے انداز میں کہا۔" ویسے اس کے پیرنٹس نے میرا بہت شکریہ ادا کیا ہے اور امی اور بابا پرسوں جب اس کی خیریت دریافت کرنے گئے تھے تو انہوں نے وہاں بھی ان دونوں کا بہت شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ تو امی اور بابا کی سمجھداری تھی کہ انہوں نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا سالار کے بارے میں، ورنہ تو ادھر بھی خاصی خفت کا سامنا کرنا پڑتا انہیں۔" وسیم نے گاڑی موڑتے ہوئے کہا۔
"مگر آخر تمہارے اس دوست کا مسئلہ کیا ہے، کیوں بیٹھے بٹھائے اس طرح کی احمقانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے؟" امامہ نے پوچھا۔
"تم مجھ سے اس طرح پوچھ رہی ہو جیسے وہ مجھے سب کچھ بتا کر یہ سب کچھ کرتا ہو گا۔ مجھے کیاپتا وہ کس لئے یہ سب کرتا ہے یا کیوں کرتا ہے۔"
"تمہارا اتنا گہرا دوست ہے، تم پوچھتے کیوں نہیں اس سے؟"
"اتنا گہرا بھی نہیں ہے کہ ایسی باتوں کے بارے میں بھی مجھے بتانے لگے اور ویسے بھی میں کیوں کریدوں، ہو گا اس کا کوئی مسئلہ۔"
"تو پھر بہتر نہیں ہے کہ تم ایسے دستوں سے کچھ فاصلے پر رہو، ایسے لوگوں سے دوستی اچھی نہیں ہوتی۔ اگر کل کو تم نے بھی اس طرح کی حرکتیں شروع کر دیں تو۔۔۔۔۔؟"
"ویسے تم نے اس دن جو حرکت کی تھی وہ اگر اسے یاد رہی تو ہماری دوستی میں خود ہی خاصا فرق آ جائے گا۔" وسیم نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
"میں نہیں سمجھتی کہ ا سے وہ تھپڑ یاد ہو گا۔ وہ صحیح طور پر ہوش میں تو نہیں تھا۔ تم سے ذکر کیا اس نے اس بارے میں؟" امامہ نے پوچھا۔
"نہیں مجھ سے کہا تو نہیں مگر ہو سکتا ہے کہ اسے یاد ہو۔ تم نے اچھا نہیں کیا تھا۔"
"اس نے حرکت ہی ایسی کی تھی۔ ایک تو اپنا ہاتھ کھینچ رہا تھا دوسرے گالیاں دے رہا تھا اوپر سے میرا دوپٹہ بھی کھینچ لیا۔"
"اس نے دوپٹہ نہیں کھینچا تھا، اس کا ہاتھ لگا تھا۔" وسیم نے سالار کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
"جو بھی تھا، اس وقت تو مجھے بہت غصہ آیا تھا مگر بعد میں مجھے بھی افسوس ہوا تھا اور میں نے تو اللہ کا بہت شکر ادا کیا کہ وہ بچ گیا۔ اگر کہیں وہ مر جاتا تو مجھے تو بہت ہی پچھتاوا ہوتا اپنے اس تھپڑ کا۔" امامہ نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"چلو تم آج جا رہی ہو تو معذرت کر لینا۔" وسیم نے مشورہ دیا۔
"کیوں ایکسکیوز کروں، ہو سکتا ہے اسے کچھ یاد ہی نہ ہو پھر میں خواہ مخواہ گڑے مردے اکھاڑوں۔ اسے یاد دلاؤں کہ میں نے اس کے ساتھ ایسا کیاتھا۔" امامہ نے فوراً کہا۔
"اور فرض کرو اسے سب کچھ یاد ہوا تو۔۔۔۔۔؟"
"تو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔ وہ کون سا ہمارا رشتہ دار ہے کہ اس سے تعلقات خراب ہو جائیں گے یا میل جول میں فرق پڑے گا۔" امامہ نے لاپرواہی سے کہا۔
شاپنگ کرنے کے بعد سالار اسے کلینک لے آیا جہاں سالار زیر علاج تھا۔
وہ دونوں جس وقت اس کمرے میں داخل ہوئے اس وقت وہ سوپ پینے میں مصروف تھا۔
سالار نے وسیم کے ساتھ آنے والی لڑکی کو دیکھا اور فوراً پہچان لیا تھا۔ اگرچہ اس رات اس حالت میں وہ اسے شناخت نہیں کر سکا مگر اس وقت اسے دیکھتے ہی وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اپنی ممی سے یہ بات وہ پہلے ہی جان چکا تھا کہ وسیم کی بہن نے اسے فرسٹ ایڈ دی تھی مگر اسے وہ فرسٹ ایڈ یاد نہیں تھی، بس وہ زناٹے دار تھپڑ یاد تھا جو اس رات اسے پڑا تھا۔ اس لئے امامہ کو دیکھتے ہی وہ سوپ پیتے پیتے رک گیا۔
اس کی چبھتی ہوئی نظروں سے امامہ کو اندازہ ہو گیا کہ اسے یقیناً اس رات ہونے والے واقعات کسی نہ کسی حد تک یاد تھے۔
رسمی علیک سلیک کے بعد اس کی ممی امامہ کا شکریہ ادا کرنے لگیں، جبکہ سالار نے سوپ پیتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ وسیم سے اس کی دوستی کو کئی سال گزر چکے تھے اور اس نے وسیم کے گھر میں امامہ کو بھی کئی بار دیکھا تھا مگر اس نے پہلے کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ اس دن پہلی بار وہ اس پر قدرے تنقیدی انداز میں غور کر رہا تھا۔ اس کے دل میں امامہ کے لئے تشکر یا احسان مندی کے لئے کوئی جذبات نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے اس کے سارے پلان کا بیڑہ غرق ہو گیا تھا۔
امامہ اس کی ممی سے گفتگو میں مصروف تھی مگر وہ وقتاً فوقتاً اپنے اوپر پڑنے والی اس کی نظروں سے بھی واقف تھی۔ زندگی میں پہلی بار اسے کسی کی نظریں اتنی بری لگی تھیں۔
ایک لمحے کے لئے اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے۔سالار کے بارے میں اس کی رائے اور بھی خراب ہو گئی تھی۔ وہ اپنے اس تھپڑ کے لئے معذرت کے ارادے سے وہاں آئی تھی مگر اس وقت اس کا دل چاہا اسے دو چار اور تھپڑ لگا دے۔
تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد فوراً ہی وہ واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور واپس جاتے ہوئے اس نے سالار کے ساتھ علیک سلیک کا تکلف بھی نہیں کیا تھا۔ وہ صرف اس کی ممی کے ساتھ دعا سلام کے بعد سالار کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل آئی تھی اور باہر آ کر اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔
"اس طرح کے دوست بنائے ہوئے ہیں تم نے؟" اس نے باہر نکلتے ہی وسیم سے کہا جس نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
"کیوں ، اب کیا ہوا ہے؟"
"اسے دیکھنے تک کی تمیز نہیں ہے۔ اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ میں اس کے دوست کی بہن ہوں اور اس کے دوست کے ساتھ اس کے کمرے میں موجود ہوں۔"
وسیم اس کی بات پر کچھ خفیف سا ہو گیا۔
"یہ آدمی اس قابل نہیں کہ اس کی عیادت کے لئے جایا جائے اور تم اس کے ساتھ میل جول بند کرو۔"
"اچھا ٹھیک ہے میں محتاط رہوں گا۔ اب تم بار بار اس بات کو نہ دہراؤ۔" وسیم نے موضوع گفتگو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ امامہ دانستہ طور پر خاموش ہو گئی مگر سالار اس کے ناپسندیدہ افراد کی لسٹ میں شامل ہو چکا تھا۔
یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ وہ ان دنوں کچھ چھیاں گزارنے اسلام آباد آئی ہوئی تھی ورنہ شاید سالار سے اس کا اتنا قریبی اور اتنا ناپسندیدہ تعارف اور تعلق کبھی پیدا نہ ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے پہلی بار جلال انصر کو تب قریب سے دیکھا جب ایک دن وہ چاروں کالج کے لان میں بیٹھی گفتگو میں مصروف تھیں، وہ وہاں کسی کام سے آیا تھا۔ رسمی سی علیک سلیک کے بعد وہ زینب کے ساتھ چند قدم دور جا کھڑا ہوا تھا۔ امامہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ ایک عجیب سی مسرت اور سر خوشی کا احساس اسے گھیرے میں لے رہا تھا۔
وہ چند منٹ زینب سے بات کرنے کے بعد وہیں سے چلا گیا۔ امامہ اس کی پشت پر نظریں جمائے اس وقت تک اسی دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔ اس کے اردگرد بیٹھی اس کی فرینڈز کیا باتیں کر رہی تھیں، اسے اس وقت اس کا کوئی احساس نہیں تھا جب وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تو یکدم جیسے دوبارہ اپنے ماحول میں واپس آ گئی۔
جلال انصر سے اس کی دوسری ملاقات زینب کے گھر پر ہوئی تھی۔ اس دن وہ کالج سے واپسی پر زینب کے ساتھ اس کے گھر آئی تھی۔ زینب کچھ دنوں سے ان سب کو اپنے ہاں آنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ باقی سب نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیا تھا، مگر امامہ اس دن اس کے ساتھ اس کے گھر چلی آئی تھی۔ اس کے گھر آ کر اسے عجیب سے سکون کا احساس ہوا تھا۔ شاید اس احساس کی وجہ جلال انصر سے اس گھر کی نسبت تھی۔
وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی اور زینب چائے تیار کرنے کے لئے کچن میں گئی تھی۔ جب جلال ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔ امامہ کو وہاں دیکھ کر کچھ چونک گیا۔ شاید اسے امامہ کو وہاں دیکھنے کی توقع نہیں تھی۔
"السلام علیکم! کیا حال ہے آپ کا؟" جلال نے شاید اس طرح بے دھڑک اندر داخل ہونے پر اپنی جھینپ مٹانے کے لئےکہا۔ امامہ نے رنگ بدلتے چہرے کے ساتھ اس کا جواب دیا۔
"زینب کے ساتھ آئی ہیں آپ؟" اس نے پوچھا۔
"جی۔"
"زینب کہاں ہے۔ میں دراصل اس کو ڈھونڈتے ہوئے یہاں آ گیا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ اس کی کوئی دوست یہاں موجود ہے۔" کچھ معذرت خواہانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ پلٹ گیا۔
"آپ بہت اچھی نعت پڑھتے ہیں۔" امامہ نے بے ساختہ کہا۔ وہ ٹھٹک گیا۔
"شکریہ۔" وہ کچھ حیران نظر آیا۔" آپ نے کہاں سنی ہے؟"
"ایک دن میں نے زینب کو فون کیا تھا جب تک فون ہولڈ رہا مجھے آپ کی آواز آتی رہی، پھر زینب سے آپ کے بارے میں پتا چلا۔ میں اس نعتیہ مقابلے میں بھی گئی تھی جہاں آپ نےوہ نعت پڑھی تھی۔"
وہ بے اختیار کہتی چلی گئی۔ جلال انصر کی سمجھ میں نہیں آیا وہ حیران ہو یا خوش۔
"بہت اچھی تو نہیں، بس پڑھ لیتا ہوں۔ اللہ کا کرم ہے۔" اس نے حیرت کے اس جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے سفید چادر میں لپٹی اس دبلی پتلی دراز قامت لڑکی کو دیکھا جس کی گہری سیاہ آنکھیں کوئی بہت عجیب سا تاثر لئے ہوئے تھیں۔ اپنی آواز کی تعریف وہ بہت سوں سے سن چکا تھا مگر اس وقت اس لڑکی کی تعریف اس کے لئے قدرے غیر معمولی تھی اور جس انداز میں اس نے یہ کہا تھا وہ اس سے بھی زیادہ عجیب۔
وہ پلٹ کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل گیا۔ وہ ویسے بھی لڑکیوں سے گفتگو میں مہارت نہیں رکھتا تھا اور پھر ایک ایسی لڑکی سے گفتگو جس سے وہ صرف چہرے کی حد تک واقف تھا۔
امامہ ایک عجیب سی مسرت کے عالم میں وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس نے جلال انصر سے بات کی تھی۔ اپنے سامنے۔۔۔۔۔ خود سے اتنے قریب۔۔۔۔۔ وہ ڈرائنگ روم کے دروازے سے کچھ آگے کارپٹ پر اس جگہ کو دیکھتی رہی جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑا تھا۔ تصور کی آنکھ سے وہ اسے ابھی بھی وہیں دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ان کی اگلی ملاقات ہاسپٹل میں ہوئی۔ پچھلی دفعہ اگر امامہ دانستہ طور پر زینب کے گھر گئی تھی تو اس بار یہ ایک اتفاق تھا۔ امامہ، رابعہ کے ساتھ وہاں آئی تھی جسے وہاں اپنی کسی دوست سے ملنا تھا۔ ہاسپٹل کے ایک کوریڈور میں فائنل سٹوڈنٹس کے ایک گروپ میں اس نے جلال انصر کو دیکھا۔ اس کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔ کوریڈور میں اتنا رش تھا کہ وہ اس کے پاس نہیں جا سکتی تھی اور اس وقت پہلی بار امامہ کو احسا س ہوا کہ اسے سامنے دیکھ کر اس کے لئے رک جانا کتنا مشکل کام تھا۔ رابعہ کی دوست کے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی اس کا دھیان مکمل طور پر باہر ہی تھا۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ رابعہ کے ساتھ اس کی دوست کے کمرے سے باہر آئی تھی۔ اب وہاں فائنل ائیر کے اسٹوڈنٹس کا وہ گروپ نہیں تھا۔ امامہ کو بے اختیار مایوسی ہوئی۔ رابعہ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے باہر نکل رہی تھی جب سیڑھیوں پر ان دونوں کا آمنا سامنا جلال سے ہو گیا۔ امامہ کے جسم سے جیسے ایک کرنٹ سا گزر گیا تھا۔
"السلام علیکم۔ جلال بھائی! کیسے ہیں آپ؟" رابعہ نے پہل کی تھی۔
"اللہ کا شکر ہے۔"
اس نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
"آپ لوگ یہاں کیسے آ گئے؟" اس بار جلال نے امامہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"میں اپنی ایک فرینڈ سے ملنے آئی تھی اور امامہ میرے ساتھ آئی تھی۔" رابعہ مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی جبکہ امامہ خاموشی سے اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
اس کی آواز سنتے ہوئے وہ ایک بار پھر ٹرانس میں آ رہی تھی۔ اس نے بہت کم لوگوں کو اتنے شستہ لہجے میں اردو بولتے ہوئے سنا تھا، جس لہجے میں وہ بات کر رہا تھا۔ پتا نہیں کیوں ہر بار اس کی آواز سنتے ہی اس کے کانوں میں اس کی پڑھی ہوئی وہ نعت گونجنے لگتی تھی۔ اسے عجیب سا رشک آ رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے۔
جلال نے رابعہ سے بات کرتے ہوئے شاید اس کی محویت کو محسوس کیا تھا، اسی لئے بات کرتے کرتے اس نے امامہ کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ امامہ نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔ بے اختیار اس کا دل چاہا تھا وہ اس شخص کے اور قریب چلی جائے۔ جلال سے نظریں ہٹا کر اردگرد گزرتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے اس نے تین بار لاحول پڑھی۔"شاید اس وقت شیطان میرے دل میں آ کر مجھے اس کی طرف راغب کر رہا ہے۔" اس نے سوچا مگر لاحول پڑھنے کے بعد بھی اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اب بھی جلال کے لئے ویسی ہی کشش محسوس کر رہی تھی۔
اسجد سے اتنے سالوں کی منگنی کے بعد بھی کبھی اس نے اپنے آپ کو اس کے لئے اس طرح بےاختیار ہوتے نہیں دیکھا تھا جس طرح وہ اس وقت ہو رہی تھی۔ وہاں کھڑے اسے پہلی بار جلال سے بہت زیادہ خوف آیا۔ میں کیا کروں گی اگر میرا دل اس آدمی کو دیکھ کر اسی طرح بے اختیار ہوتا رہا، آخر اسے دیکھ کر مجھے۔۔۔۔۔ اس نے جیسے بے بسی کے عالم میں سوچا۔ میں اتنی کمزور تو کبھی بھی نہیں تھی کہ اس جیسے آدمی کو دیکھ کر اس طرح۔۔۔۔۔ اس نے اپنے وجود کو موم کا پایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"بھائی! آپ فارغ ہیں؟" اس رات زینب دروازے پر دستک دے کر جلال کے کمرے میں داخل ہوئی۔
"ہاں ، آ جاؤ۔" اس نے اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے گردن موڑ کر زینب کو دیکھا۔
"آپ سے ایک کام ہے۔" زینب اس کے پاس آتے ہوئے بولی۔
"کیا کام ہے؟"
"آپ ایک کیسٹ میں اپنی آواز میں کچھ نعتیں ریکارڈ کر دیں۔" زینب نے کہا۔ جلا ل نے حیرت سے اس کی فرمائش سنی۔
"کس لئے؟"
"وہ میری دوست ہے امامہ اس کو آپ کی آواز بہت پسند ہے اس لئے۔۔۔۔۔ اس نے مجھ سے فرمائش کی اور میں نے ہامی بھر لی۔" زینب نے تفصیل بتائی۔
جلال اس فرمائش پر مسکرایا۔ امامہ سے کچھ دن پہلی ہونے والی ملاقات اسے یاد آ گئی۔
"یہ وہی لڑکی ہے جو اس دن یہاں آئی تھی؟" جلال نے سرسری انداز میں پوچھا۔
"ہاں وہی لڑکی ہے، اسلام آباد سے یہاں آئی ہے۔"
"اسلام آباد سے؟ ہاسٹل میں رہ رہی ہے؟" جلال نے کچھ دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
"جی ہاسٹل میں رہ رہی ہے، کافی اچھا خاندان ہے اس کا، بہت بڑے انڈسٹریلسٹ ہیں اس کے فادر۔۔۔۔۔ مگر امامہ سے مل کے ذرا محسوس نہیں ہوتا۔" زینب نے بے اختیار امامہ کی تعریف کی۔
"کافی مذہبی لگتی ہے۔ میں نے اسے ایک دو بار تمہارے ساتھ کالج میں بھی دیکھا ہے۔ کالج میں بھی چادر اوڑھی ہوتی ہے اس نے۔ یہاں کالج کی"آب و ہوا" کا ابھی تک اثر نہیں ہوا اس پر۔" جلال نے کہا۔
"بھائی! اس کی فیملی بھی خاصی مذہبی ہے کیونکہ وہ جب سے یہاں آئی ہے اسی طرح ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کافی کنزرویٹو لوگ ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کی فیملی خاصی تعلیم یافتہ ہے۔ نہ صرف بھائی بلکہ بہنیں بھی۔ یہ گھر میں سب سے چھوٹی ہے۔" زینب نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔" تو پھر آپ کب ریکارڈ کر کے دیں گے؟" زینب نے پوچھا۔
"تم کل لے لینا۔ میں ریکارڈ کر دوں گا۔" جلال نے کہا۔ وہ سر ہلاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ جال کچھ دیر کسی سوچ میں ڈوبا رہا پھر دوبارہ اس کتاب کی طرف متوجہ ہو گیا جسے وہ پڑھ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ان کی اگلی ملاقات لائبریری میں ہوئی تھی۔ اس بار امامہ اسے وہاں موجود دیکھ کر بے اختیار اس کی طرف چلی گئی تھی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد امامہ نے کہا۔
"میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔"
جلال نے حیرانی سے اسے دیکھا۔" کس لئے؟"
"اس کیسٹ کے لئے، جو آپ نے ریکارڈ کر کے بھجوائی تھی۔" جلال مسکرایا۔
"نہیں ، اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کبھی کوئی مجھ سے ایسی فرمائش کر سکتا ہے۔"
"آپ بہت خوش قسمت ہیں۔" امامہ نے مدھم آواز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں۔۔۔۔۔ کس حوالے سے؟" جلال نے ایک بار پھر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
"ہر حوالے سے۔۔۔۔۔ آپ کے پاس سب کچھ ہے۔"
"آپ کے پاس بھی تو بہت کچھ ہے۔"
وہ جلال کی بات پر عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ جلال کو شبہ ہوا کہ اس کی آنکھوں میں کچھ نمی نمودار ہوئی تھی مگر وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ وہ اب نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
"پہلے کچھ بھی نہیں تھا، اب واقعی سب کچھ ہے۔" جلال نے مدھم آواز میں اسے کہتے سنا وہ نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
"آپ اتنی محبت سے رسوال ﷺ کا نام لیتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ۔۔۔۔۔" اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ جلال خاموشی سے اس کی بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
"مجھے آپ پر رشک آتا ہے۔" چند لمحے بعد وہ آہستہ سے بولی۔
"سب لوگوں کو تو اس طرح کی محبت نہیں ہوتی جیسی محبت آپ کو حضرت محمد ﷺ سے ہے۔ ہو بھی جائے تو ہر کوئی اس طرح اس محبت کا اظہار نہیں کر سکتا کہ دوسرے بھی رسول ﷺ کی محبت میں گرفتار ہونے لگیں۔ محمد ﷺ کو بھی آپ سے بڑی محبت ہو گی۔" اس نے نظریں اٹھائیں ۔ اس کی آنکھوں میں کوئی نمی نہیں تھی۔
"شاید مجھے وہم ہوا تھا۔" جلال نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔
"یہ میں نہیں جانتا، اگر ایسا ہو تو میں واقعی بہت خوش قسمت انسان ہوں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ مجھے واقعی حضور اکرم ﷺ سے بڑی محبت ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ ہر ایک کو اللہ اس محبت سے نہیں نوازتا۔"
وہ بڑی رسانیت سے کہہ رہا تھا۔ امامہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ اسے کبھی کسی شخص کے سامنے اس طرح کا احساس کمتری نہیں ہوا تھا، جس طرح کا احساس کمتری وہ جلال انصر کے سامنے محسوس کرتی تھی۔
"شاید میں بھی نعت پڑھ لوں۔ شاید میں بھی بہت اچھی طرح اسے پڑھ لوں مگر میں۔۔۔۔۔ میں جلال انصر کبھی نہیں ہو سکتی۔ کبھی بن ہی نہیں سکتی۔ کبھی میری آواز سن کر کسی کا وہ حال نہیں ہو سکتا جو جلال انصر کی آواز سن کر ہوتا ہے۔" وہ لائبریری سے نکلتے ہوئے مسلسل مایوسی کے عالم میں سوچ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے