┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد
قسط_نمبر_14
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ میڈیکل کالج میں چند روز ہوئے تھے جب ایک ویک اینڈ پر اسلام آباد آنے بعد اس نے رات کو زینب کے گھر لاہور فون کیا۔
"بیٹا! میں زینب کو بلاتی ہوں، تم ہولڈ رکھو۔" زینب کی امی فون رکھ کر چلی گئیں۔ وہ ریسیور کان سے لگائے انتظار کرنے لگی۔
کچھ نہیں مانگتا ہوں شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
مردانہ آواز میں فون پر سنائی دینے والی وہ نعت امامہ نے پہلے بھی سنی تھی مگراس وقت جو کوئی بھی اسے پڑھ رہا تھا وہ کمال جذب سے اسے پڑھ رہا تھا
پورے قد سے کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
اسے اندازہ نہیں تھا کہ کسی مرد کی آواز اتنی خوب صورت ہوسکتی ہے۔ اس قدر خوب صورت کہ پوری دنیا اس آواز کی قید میں لگے۔ امامہ نے اپنا سانس روک لیا یا شاید وہ سانس لینا بھول گئی۔
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

انسان کی زندگی میں کچھ ساعتیں سعد ہوتی ہیں۔ شبِ قدر کی رات میں آنے والی اس سعد ساعت کی طرح جسے بہت سے لوگ گزر جانے دیتے ہیں، صرف چند اس ساعت کے انتظار میں ہاتھ اٹھائے اور جھولی پھیلائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس ساعت کے انتظار میں جو چلتے پانی کو روک دے اور رکے ہوئے پانی کو رواں کردے، جو دل سے نکلنے والی دعا کو لبوں تک آنے سے پہلے مقدر بنا دے۔
امامہ ہاشم کی زندگی میں وہ سعد ساعت شبِ قدر کی کسی رات کو نہیں آئی تھی۔ نہ اس نے اس سعد ساعت کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے نہ جھولی پھیلائی تھی پھر بھی اس نے زمین و آسمان کی گردش کو کچھ دیر کے لئے تھمتے دیکھا تھا۔ پوری کائنات کو ایک گنبد ِبے در میں بدلتے دیکھا تھا جس کے اندر بس ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔
دست گیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
وہ اندھیروں سے بھی دزانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے پہ چمکتا ہے ستارا تیرا
آواز بہت صاف اور واضح تھی۔ امامہ بت کی طرح ریسیور ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی۔
"ہیلو امامہ!" دوسری طرف زینب کی آواز گونجی اور وہ آواز میں گم ہوگئی۔ چند لمحوں کے لئے زمین کی رکی ہوئی گردش دوبارہ بحال ہوگئی۔
"ہیلو امامہ! آواز سن رہی ہو میری؟" وہ ایک جھٹکے سے ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔
"ہاں، میں سن رہی ہوں۔"
"میں نے سوچا لائن کٹ گئی۔" دوسری طرف سے زینب نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔ امامہ اگلے چند منٹ اس سے بات کرتی رہی مگر اس کا دل و دماغ کہیں اور تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جلال الدین انصر زینب کا بڑا بھائی تھا اور امامہ غائبانہ طور پر اس سے واقف تھی۔ زینب اس کی کلاس فیلو تھی اور اس سے امامہ کا تعارف وہیں میڈیکل کالج میں ہواتھا۔ چند ماہ میں ہی یہ تعارف اچھی خاصی دوستی میں بدل گیا۔ اس تعارف میں اسے یہ پتا چلا کہ وہ لوگ چار بھائی بہن تھے۔ جلال سب سے بڑا تھا اور ہاؤس جاب کررہا تھا۔ زینب کے والد واپڈا میں انجینئر تھے اور ان کا گھرانہ کافی مذہبی تھا۔
اسلام آباد سے واپسی پر اس نے زینب سے نعت پڑھنے والے اس شخص کے بارے میں پوچھا۔
"زینب! اس رات میں نے تمہیں فون کیا تو کوئی نعت پڑھ رہا تھا، وہ کون تھا؟" اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
"وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ جلال بھائی تھے۔۔۔۔۔ ایک مقابلہ میں حصہ لینے کے لئے وہ نعت یاد کررہے تھے۔ فون کوریڈور میں ہے اور ان کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اس لئے آواز تم تک پہنچ گئی۔" زینب نے تفصیل سے بتایا۔
"بہت اچھی آواز ہے ان کی۔"
"ہاں،آواز تو بہت اچھی ہے ان کی۔ قرات تو نعت سے بھی زیادہ خوبصورت کرتے ہیں۔ بہت سے مقابلوں میں انعام بھی لے چکے ہیں۔ ابھی بھی کالج میں ایک مقابلہ ہونے والا ہے تم اس میں انہیں سننا۔"
زینب تب یہ نہیں جانتی تھی کہ امامہ کس مذہب کی تھی، وہ جس طرح پردے کا خیال رکھتی تھی زینب کا خیال تھا کہ وہ کسی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ خود زینب بھی خاصے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور چادر اوڑھا کرتی تھی۔
دو تین دن کے بعد امامہ جلال انصر کی نعت سننے کے لئے اپنی فرینڈز کو بتائے بغیر کلاسز بنک کرکے نعتوں کے اس مقابلے میں چلی گئی تھی۔
جلال انصر کو اس دن پہلی بار اس نے دیکھا تھا۔ کمپئیر نے جلال انصر کا نام پکارا اور امامہ نے تیز ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ زینب سے مشابہت رکھنے والے عام سی شکل و صورت اور داڑھی والے ایک چوبیس پچیس سالہ لڑکے کو اسٹیج پر چڑھتے دیکھا۔ اسٹیج پر سیڑھیاں چڑھنے سے لے کر روسٹرم کے پیچھے آکر کھڑے ہونے تک امامہ نے ایک بار بھی اپنی نظر جلال انصر کے چہرے سے نہیں ہٹائی۔ اس نے اسے سینے پر ہاتھ باندھتے اور آنکھیں بند کرتے دیکھا۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
امامہ کو اپنے پورے وجود میں ایک لہر سی دوڑتی محسوس ہوئی۔ ہال میں مکمل خاموشی تھی اور صرف اس کی خوبصورت آواز گونج رہی تھی۔ وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح بیٹھی اسے سنتی رہی۔ اس نے کب نعت ختم کی، کب وہ اسٹیج سے اتر کر واپس ہوا، مقابلے کا نتیجہ کیا نکلا، اس کے بعد کس کس نے نعت پڑھی، کس وقت سارے اسٹوڈنٹ وہاں سے گئے اور کس وقت ہال خالی ہوگیا امامہ کو پتا نہیں چلا۔
بہت دیر کے بعد اسے یکدم ہوش آیا تھا۔ اس وقت اپنے اردگرد دیکھنے پر اسے احساس ہوا کہ وہ ہال میں اکیلی بیٹھی تھی۔
"میں نے کل تمہارے بھائی کو نعت پڑھتے سنا۔" امامہ نے اگلے دن زینب کو بتایا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ انہیں پہلا انعام ملا ہے۔" زینب نے اس کی بات پر مسکرا کر اسے دیکھا۔
"بہت خوبصورت نعت پڑھی تھی انہوں نے۔" کچھ دیر کی خاموشی کے بعد امامہ نے پھر اس موضوع پر بات کی۔
"ہاں! وہ بچپن سے نعتیں پڑھتے آرہے ہیں۔ اتنے قرات اور نعت کے مقابلے جیت چکے ہیں کہ اب تو انہیں خود بھی ان کی تعداد یاد نہیں ہوگی۔" زینب نے تفاخر سے کہا۔
"ان کی آواز بہت خوب صورت ہے۔" امامہ نے پھر کہا۔ "ہاں خوبصورت تو ہے مگر ساری بات اس محبت اور عقیدت کی ہے، جس کے ساتھ وہ نعت پڑھتے ہیں۔ انہیں حضورﷺ سے عشق ہے۔ اتنی محبت کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ قرات اور نعت کے علاوہ انہوں نے کبھی کوئی اور چیز نہیں پڑھی، حالانکہ اسکول اور کالج میں انہیں بہت مجبور کیا جاتا رہا مگر ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ میں جس زبان سے حضرت محمد ﷺ کا قصیدہ پڑھتا ہوں اس زبان سے کسی اور شخص کا قصیدہ نہیں پڑھ سکتا۔ محبت تو ہم بھی حضور ﷺ سے کرتے ہیں مگر جیسی بھائی کرتے ہیں ویسی محبت تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ پچھلے دس سالوں میں ایک بار بھی انہوں نے نماز قضا نہیں کی۔ ہر ماہ ایک قرآن پاک پڑھتے ہیں۔ تم تو نعت کی تعریف کررہی ہواگر ان سے تلاوت سن لو تو۔"
وہ بڑے فخر سے بتا رہی تھی۔ امامہ چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے زینب سے اس کے بعد کچھ نہیں پوچھا۔
اگلے دن وہ صبح کالج جانے کے لئے تیار ہونے کی بجائے اپنے بستر میں گھسی رہی۔ جویریہ نے خاصی دیر کے بعد بھی اسے بستر سے برآمد نہ ہوتے دیکھ کرجھنجھوڑا۔
"اٹھ جاؤ امامہ! کالج نہیں جانا کیا۔ دیر ہورہی ہے۔"
"نہیں، آج مجھے کالج نہیں جانا۔" امامہ نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔
"کیوں؟" جویریہ کچھ حیران ہوئی۔
"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔" امامہ نے کہا۔
"آنکھیں تو بہت سرخ ہورہی ہیں تمہار، رات کو سوئیں نہیں تم؟"
"نہیں، نیند نہیں آئی اور پلیز اب مجھے سونے دو۔" امامہ نے اس کے کسی اور سوال سے بچپن کے لئے کہا۔ جویریہ کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اپنا بیگ اور فولڈر اٹھا کر باہر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ یہ بات ٹھیک تھی کہ وہ ساری رات سو نہیں سکی تھی اور اس کی وجہ جلال انصر کی آواز تھی۔ وہ اپنے ذہن کو اس آواز کے علاوہ اور کہیں بھی فوکس نہیں کر پارہی تھی۔
"جلال انصر!" اس نے زیر لب اس کا نام دہرایا۔ "آخر اس کی آواز کیوں مجھے اس قدر اچھی لگ رہی ہے کہ میں۔۔۔۔۔ میں اسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہی؟" اس نے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ بستر سے نکلتے ہوئے سوچا۔ وہ اپنے کمرے کی کھلی ہوئی کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔
"میرے بھائی کی آواز میں ساری تاثیر حضرت محمدﷺ کے عشق کی وجہ سے ہے۔" اس کے کانوں میں زینب کی آواز گونجی۔
"آواز میں تاثیر۔۔۔۔۔ اور عشق؟" اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ "سوز،گداز، لوچ، مٹھاس۔۔۔۔۔ آخر کیا تھا اس آواز میں؟" وہ اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ "دنیا عشق اللہ سے شروع ہوتی ہے اور عشق رسول ﷺ پر ختم ہوجاتی ہے۔" اسے ایک اور جملہ یاد آیا۔
"عشق رسول ﷺ؟" اس نے حیرانی سے سوچا۔ "عشق رسول ﷺ یا عشق محمد ﷺ؟" یکدم اسے اپنے ایک عجیب سا سناٹا اترتا محسوس ہوا۔ اس نے اس سناٹے اور تاریکی کو کوجھنا شروع کیا۔ اپنے اندر سیڑھی درسیڑھی اترنا شروع کیا۔ اسے کہیں کوئی روشنی نظر نہیں آئی۔ "آخر وہ کیا چیز ہوتی ہے جو حضرت محمد ﷺ کا نام سننے پر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر درود لے آتی ہے۔ عقیدت، عشق، محبت۔۔۔۔۔ ان میں سے کیا ہے؟ مجھے کچھ کیوں محسوس نہیں ہوتا۔ میری آنکھوں میں آنسو کیوں نہیں آتے؟ میرے ہونٹوں پر درود کیوں نہیں آتا؟ میری آواز میں تاثیر۔۔۔۔۔" وہ لمحہ بھر کے لئے رکی اس نے زیر لب پڑھا۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
اسے اپنی آواز بھرائی ہوئی محسوس ہوئی۔ "شاید ابھی جاگی ہوں، اس لئے آواز ایسی ہے۔" اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے سوچا۔ اس نے ایک بار پھر پڑھنا شروع کیا۔
"کچھ نہیں مانگتا۔۔۔۔۔" وہ ایک بار پھر رک گئی۔ اس بار اس کی آواز میں لرزش تھی۔ اس نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ "کچھ نہیں مانگتا ہوں شاہوں سے یہ شیدا تیرا۔" کھڑکی سے باہر نظریں مرکوز رکھتے ہوئے اس نے لرزتی بھرائی آواز اور کانپتے ہونٹوں کے ساتھ پہلا مصرع پڑھا پھر دوسرا مصرع پڑھنا شروع کیا اور رک گئی۔ کھڑکی سے باہر خلا میں گھورتے ہوئے وہ ایک بار پھر جلال انصر کی آواز اپنے کانوں میں اترتی محسوس کررہی تھی۔
بلند، صاف، واضح اور اذان کی طرح دل میں اتر جانے والی مقدس آواز۔۔۔۔۔ اسے اپنے گالوں پر نمی محسوس ہوئی۔
یکدم وہ اپنے ہوش و حواس میں آئی اور پتا چلا کہ وہ رو رہی تھی۔ کچھ دیر جیسے بے یقینی کے عالم میں وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دونوں آنکھوں پر رکھے دم بخود کھڑی رہی۔ اس نے اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پایا۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ آہستہ آہستہ گھٹنوں کے بل وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔
انسان کے لئے سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب اس کا دل کسی چیز کی گواہی دے رہا ہو مگر اس کی زبان خاموش ہو جب اس کا دماغ چلا چلا کر کسی چیز کی صداقت کا اقرار کررہا ہو مگر اس کے ہونٹ ساکت ہوں، امامہ ہاشم کی بھی اپنی زندگی اسی مرحلے پر آن پہنچی تھی، جو فیصلہ وہ پچھلے دو تین سالوں سے نہیں کر پارہی تھی وہ فیصلہ ایک آواز نے چند دنوں میں کروا دیا تھا۔ یہ جانے، یہ کھوجے، یہ پرکھے بغیر کہ آخر لوگ کیوں حضرت محمد ﷺ سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں۔ آخر کیوں عشق رسول ﷺ کی بات کی جاتی ہے۔ اس نے اتنے سال اپنے نبی کے قصیدے سنے تھے، اس پر کبھی رقت طاری نہیں ہوئی تھی، کبھی اس کا وجود موم بن کر نہیں پگھلا تھا، کبھی اسے کسی پر رشک نہیں آیا تھا مگر ہر بار حضرت محمد ﷺ کا نام پڑھتے، دیکھتے اور سنتے ہوئے وہ عجیب سی کیفیات کا شکار ہوتی تھی۔ ہر بار، ہر دفعہ اس کا دل اس نام کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا اور صبیحہ کے پاس نہ جانے کے اس کے سارے ارادے بھاپ بن کر اڑ گئے تھے۔ جلال انصر کی آواز تاریکی میں نظر آنے والے جگنو کی طرح تھی جس کے تعاقب میں وہ بنا سوچے سمجھے چل پڑی تھی۔
میں تجھے عالمِ اشیا میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالم بالا تیرا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امامہ کے لئے وہ ایک نئے سفر کا آغاز تھا۔ وہ پہلے کی طرح باقاعدگی سے صبیحہ کے پاس جانے لگی۔ ان اجتماعات میں شرکت نے اسے اگر ایک طرف اپنے فیصلے پر استقامت بخشی تو دوسری طرف اس باقی ماندہ شبہات کو بھی دور کردیا۔
مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ امامہ کے لئے کوئی چھوٹا یا معمولی فیصلہ نہیں تھا، اس ایک فیصلے نے اس کی زندگی کے ہر معاملے کو متاثر کیا تھا۔ وہ اب اسجد سے شادی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ غیر مسلم تھا۔ اسے جلد یا بدیر اپنے گھر والوں سے علیحدگی بھی اختیار کرنی تھی کیونکہ وہ اب ایسے کسی ماحول میں رہنا نہیں چاہتی تھی جہاں اسلام شعائر اور عقائد میں اتنے دھڑلے سے تحریفات کی جاتی تھیں۔ وہ اس پیسے کے بارے میں بھی شکوک کا شکار ہونے لگی تھی جو اسے اپنی تعلیم اور دوسرے اخراجات کے لئے ہاشم مبین کی طرف سے ملتے تھے۔ چند سال پہلے تک پریوں کی کہانی نظر آنے والی زندگی یکدم ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئی تھی اور زندگی کے اس مشکل راستے کا انتخاب اس نے خود کیا تھا۔ اسے بعض دفعہ حیرت ہوتی کہ اس نے اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کرلیا۔ اس نے اللہ سے استقامت ہی مانگی تھی اور اسے استقامت سے نوازا گیا تھا مگر وہ ابھی اتنی کم عمر تھی کہ خدشات اور اندیشوں سے مکمل پیچھا چھڑا لینا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔
"امامہ! تم فی الحال اپنے والدین کو مذہب کی تبدیلی کے بارے میں نہ بتاؤ۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجاؤ۔ اس وقت نہ صرف تم آسانی سے اسجد سے شادی سے انکار کرسکتی ہو بلکہ انہیں اپنے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں بھی بتا سکتی ہو۔"
صبیحہ نے ایک بار اس کے خدشات سننے کے بعد اسے مشورہ دیا۔
"میں اس پیسے کو اپنے اوپر خرچ کرنا نہیں چاہتی جو میرے بابا مجھے دیتے ہیں، اب جبکہ میں جانتی ہوں کہ میرے والد ایک جھوٹے مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں یہ جائز تو نہیں ہے کہ میں ایسے شخص سے اپنے اخراجات کے لئے رقم لوں؟"
"تم ٹھیک کہتی ہو مگر تمہارے پاس فی الحال کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بہتر ہے تم اپنی تعلیم مکمل کرلو، اس کے بعد تمہیں اپنے والد سے بھی کچھ نہیں لینا پڑے گا۔" صبیحہ نے اسے سمجھایا۔ صبیحہ اگر اسے یہ راہ نہ دکھاتی تب بھی امامہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ اس میں فی الحال اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش چھوڑ دیتی۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس وقت رات کے دس بجے تھے جب وہ سینما سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اب بھی پاک کارن کا پیکٹ تھا اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا پاپ کارن کھاتے ہوئے سڑک پر چل رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ تک سڑکیں ناپتے رہنے کے بعد اس نے ایک بہت بڑے بنگلے کی گھنٹی بجائی تھی۔
"صاحب کھانا لگاؤں؟" لاؤنج میں داخل ہونے پر ملازم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔
"نہیں۔" اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
"دودھ؟"
"نہیں۔" وہ رکے بغیر وہاں سے گزرتا چلا گیا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوکر اس نے دروازہ بند کرلیا۔ کمرے کی لائٹ آن کرکے وہ کچھ دیر بے مقصد ادھر اُدھر دیکھتا رہا پھر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔ شیونگ کٹ نکال کر اس کے اندر سے ایک ریزر بلیڈ نکال لیا اور اسے لے کر بیڈروم میں آگیا۔ اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ جلا لیا اور بیڈروم کی ٹیوب لائٹ بند کردی۔ ریزر بلیڈ کے اوپر موجود ریپر کو اتار کر وہ کچھ دیر لیمپ کی روشنی میں اس کی تیز دھار کو دیکھتا رہا پھر اس نے بلیڈ کے ساتھ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کی رگ کو ایک جھٹکے سے کاٹ دیا۔ اس کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور پھر اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کی کلائی بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی اور خون کی دھار اب سیدھا کارپٹ پر گر کر اس میں جذب ہورہی تھی۔
اس کا ذہن جیسے کسی گہری کھائی میں جارہا تھا پھر اس نے کچھ دھماکے سنے۔ تاریکی میں جاتا ہوا ذہن ایک بار پھر جھماکے کے ساتھ روشنی میں آگیا۔ شور اب بڑھتا جارہا تھا۔ وہ فوری طور پر شور کی وجہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں کھول دیں مگر وہ کسی چیز کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ سورہی تھی جب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ کوئی اس کا دروازہ بجا رہا تھا۔
"امامہ! امامہ!" وسیم دروازہ بجاتے ہوئے بلند آواز میں اس کا نام پکاررہا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟ کیوں چلا رہے ہو؟" دروازہ کھولتے ہی اس نے کچھ حواس باختگی کے عالم میں وسیم سے پوچھا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔
"فرسٹ ایڈ باکس ہے تمہارے پاس؟" وسیم نے اسے دیکھتے ہی فوراً پوچھا۔
"ہاں، کیوں؟" وہ مزید پریشان ہوئی۔
"بس اسے لے کر میرے ساتھ آجاؤ۔" وسیم نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"کیا ہوا؟" اس کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین کھسکنے لگی۔
"چوچو نے پھر خودکشی کی کوشش کی ہے۔ اپنی کلائی کاٹ لی ہے اس نے۔ ملازم آیا ہوا ہے نیچے اس کا، تم میرے ساتھ چلو۔" امامہ نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔
"تمہارے اس دوست کو مینٹل ہاسپٹل میں ہونا چاہئیے جس طرح کی یہ حرکتیں کرتا پھرتا ہے۔" امامہ نے ناگواری سے اپنے بیڈ پر پڑا ہوا دوپٹہ اوڑھتے ہوئے کہا۔
"میں تو اسے دیکھتے ہی بھاگ آیا ہوں، ابھی وہ ہوش میں تھا۔" اس نے مڑ کر امامہ کو بتایا۔ وہ دونوں اب آگے پیچھے سیڑھیاں اتر رہے تھے۔
"تم اسے ہاسپٹل لے جاتے۔" امامہ نے آخری سیڑھی پر پہنچ کر کہا۔
"وہ بھی لے جاؤں گا، پہلے تم اس کی کلائی وغیرہ تو باندھو، خون تو بند ہو۔"
"وسیم! میں اسے کوئی بہت اچھی قسم کی فرسٹ ایڈ نہیں دے سکتی۔ پتا نہیں اس نے کس چیز سے کلائی کاٹی ہے اور زخم کتنا گہرا ہے۔ اس کے اپنے گھر والے کہاں ہیں؟" بات کرتے کرتے امامہ کو خیال آیا۔
"اس کے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے، صرف ملازم ہیں۔ وہ تو کوئی فون کال آئی تھی جس پر ملازم اسے بلانے کے لئے گیا اور جب اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تو پریشان ہوکر دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر اس نے دروازہ توڑ دیا۔" وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اب اپنے گھر سے باہر نکل آئے۔
"تمہارا یہ دوست جو ہے نا۔۔۔۔۔" امامہ نے کچھ ناراضی کے عالم میں وسیم کے ساتھ چلتے ہوئے سالار کے بارے میں کچھ کہنا چاہا مگر وسیم نے غصے میں پلٹ کر اس کو جھڑک دیا۔
"فار گاڈ سیک۔ اپنی لعنت ملامت بند نہیں کرسکتیں تم۔ اس کی حالت سیریس ہے اور تم اس کی برائیوں میں مصروف ہو۔"
"ایسی حرکتیں کرنے والوں کے لئے میرے پاس کوئی ہمدردی نہیں ہے۔" وہ دونوں اب سالار کے لاؤنج میں پہنچ چکے تھے۔
چند قدم چلنے کے بعد وسیم ایک موڑ مڑا اور کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔ امامہ اس کے پیچھے ہی تھی مگرپھر جیسے کرنٹ کھا کر رک گئی۔ کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے قد آدم کھڑکیوں پر کچھ ماڈلز اور ایکٹریسز کی بڑی بڑی عریاں تصویریں اس طرح لگائی گئی تھیں کہ ایک لمحے کے لئے امامہ کو یوں لگا جیسے وہ تمام لڑکیاں حقیقی طور پر اس کمرے میں موجود ہیں۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ایک طرف بیڈ پر پڑے ہوئے زخمی کے بارے میں اس کی رائے کچھ اور خراب ہوگئی۔ وہ تصویریں اس کے کردار کی پستی کا ایک اور ثبوت تھیں اور کمرے میں تین چار لوگوں کی موجودگی میں اس کے لئے وہ تصویریں خاصی خفت اور شرمندگی کا باعث بن رہی تھیں۔ ان تصویروں سے نظریں چراتے ہوئے وہ تیز رفتاری سے ڈبل بیڈ کی طرف آگئی جہاں سالار سکندر لیٹا ہوا تھا۔ وسیم اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا فرسٹ ایڈ باکس کھول رہا تھا جبکہ امامہ کا بڑا بھائی سالار کی اس کلائی کو بیڈ شیٹ کے ایک لٹکے ہوئے کونے کے ساتھ دبا کر خون روکنے کی کوشش کررہا تھا جبکہ خود سالار نشے میں ڈوبے ہوئے کسی انسان کی طرح اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ وسیم اور وہاں ملازموں سے کچھ کہہ بھی رہا تھا۔
امامہ کے آگے بڑھتے ہی اس کے بڑے بھائی نے اس کرسی کو چھوڑ دیا، جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے۔
"اس کے زخم کو دیکھو، میں نے چادر سے خون روکنے کی کوشش کی ہے مگر میں کامیاب نہیں ہوا۔" انہوں نے اس کی کلائی امامہ کو تھماتے ہوئے کہا۔ امامہ نے کرسی پر بیٹھتے ہی اس کی کلائی کے گرد لپٹا ہوا کونہ ہٹایا۔ زخم بہت گہرا اور لمبا تھا۔ ایک نظر ڈالتے ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا۔
سالار نے پھر ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی مگر امامہ مضبوطی سے کلائی کے کچھ نیچے سے اس کا بازو پکڑے رہی۔ 
"وسیم! بس بینڈیج نکال دو۔ یہ زخم بہت گہرا ہے۔ یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ بینڈیج کرنے سے خون رک جائے گا پھر تم لوگ اسے ہاسپٹل لے جاؤ۔"اس نے ایک نظر نیچے کارپٹ پر جذب ہوتے خون پر ڈالی۔ وسیم تیزی سے فرسٹ ایڈ باکس میں سے بینڈیج نکالنے لگا۔
سالار نے بیڈ پر لیٹے لیٹے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اب دھندلاہٹ سی تھی مگر اس کے باوجود اس نے اپنے بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی اس لڑکی اور اس کے ہاتھ میں موجود اپنے بازو کو دیکھا۔
کچھ مشتعل ہو کر اس نے ایک اور جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ ہاتھ آزاد نہیں ہوا مگر درد کی ایک تیز لہر نے بے اختیار اسے کراہنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے چند لمحوں کے لئے یہی محسوس ہوا تھا جیسے اس کی جان نکل گئی مگر اگلے ہی لمحے وہ ایک بار پھر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔
"تم لوگ دفع ہو۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔ کہاں سے۔۔۔۔۔ آ گئے۔۔۔۔۔ ہو؟" اس نے کچھ مشتعل ہو کر لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔" یہ میرا۔۔۔۔۔ کمرہ ہے۔۔۔۔۔تم لوگوں۔۔۔۔۔ کو اندر۔۔۔۔۔آنے کی جرات کیسے۔۔۔۔۔ ہوئی۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔ وسیم تم۔۔۔۔۔دفع۔۔۔۔۔ ہو جاؤ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔جسٹ ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔بلڈی باسٹرڈ۔"
اس نے بلند آواز میں مگر لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔امامہ نے اس کے منہ سے نکلنے والی گالی کو سنا۔ ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے کا رنگ بدلا مگر وہ پھر اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے بیٹھی رہی۔ اس نے وسیم سے کاٹن لے کے کراہتے ہوئے سالار کی کلائی کے زخم پر رکھ دی جو ہاتھ کو کھینچنے اور ہلانے سے باز نہیں آ رہاتھا اور وسیم کے ہاتھ سے لے کر لپیٹنا شروع کر دیا۔ سالار نے دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اپنی کلائی کے گرد کسی چیز کی نرمی کو محسوس کیا۔
کچھ بے بسی اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں سالار نے اپنے بائیں ہاتھ کے زور سے اپنے دائیں ہاتھ کو چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کا آگے بڑھنے والا بایاں ہاتھ لڑکی کے سر سے ٹکرایا تھا۔ اس کے سر سے نہ صرف دوپٹہ اترا تھا بلکہ اس کے بال بھی کھل گئے تھے۔
امامہ نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا جو ایک بار پھر اپنا بایاں ہاتھ آگے لا رہا تھا۔ امامہ نے اپنے بائیں ہاتھ سے اس کی کلائی کو پکڑے رکھا جبکہ دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی بینڈیج چھوڑ کر اپنی پوری قوت سے اپنا دایاں ہاتھ اس کے دائیں گال پر سے مارا۔ تھپڑ اتنا زناٹے دار تھا کہ ایک لمحے کے لئے سالار کی آنکھوں کے سامنے چھائی ہوئی دھند چھٹ گئی۔ کھلے منہ اور آنکھوں کے ساتھ دم بخود اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا جو سرخ چہرے کے ساتھ بلند آواز میں اس سے کہہ رہی تھی۔
اب اگر تم ہلے تو میں تمہارا دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دوں گی، سنا تم نے۔"
سالار نے اس لڑکی کے عقب میں وسیم کو کچھ کہتے سنا مگر وہ کچھ سمجھ نہیں پایا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب رہا تھا مگر اس نے پھر ایک آواز سنی، نسوانی آواز۔" اس کا بلڈ پریشر چیک کرو۔۔۔۔۔" سالار کو بے اختیار چند لمحے پہلے اپنے گال پر پڑنے والا تھپڑ یاد آیا۔ وہ چاہنے کے باوجود آنکھیں نہیں کھول سکا۔ وہی نسوانی آواز ایک بار پھر گونجی تھی مگر اس بار وہ اس آواز کو کوئی مفہوم نہیں پہنا سکا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے