نشہ_عشق🌹

از : حنا 

قسط 3



"یہ بوس کو کیا ہوا ہے وہ تو کھبی اپنے رول کے خلاف نہیں جاتے اور نہ ہی کسی کو اغواء کرتے ہیں "

یہ اسکی پرانی ملازمہ تھی جو بہت ٹائم سے انکے پاس تھی اسنے کھبی نہیں دیکھا تھا کے کسی بھی لڑکی کو اٹھا کر لایا ہو 

"پتا نہیں بوس کو کیا ہوگیا ہے کہی محبت تو نہیں ہوگئی انہیں "

پاس کھری دوسری ملازمہ نے کہا

" نہیں محبت کا تو مطلب ہی نہیں پتا ہوگا انہیں۔۔۔ انکے بس کی بات نہیں ہے محبت کرنا "

ملازمہ برتن دھوتی ہوئی بولی 

"پر کچھ تو ہے نا اس لڑکی میں کہ بوس نے اپنے رول توڑ دیے"

وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی 

"چھوڑنا ہمیں کیا کچھ بھی کرے ادھر آ میری مدد کر کچھ کام کر لیا کر ہر وقت فضول کا سوچنا"

" آرہی ہو نا "

وہ چڑ کر بولی اور اسکا ہاتھ بٹانے لگی

*****

" یہ میرے گھر میں جلنے کی بدبو کہا سے آرہی ہے "

وہ اپنے کمرے کے دروازے کے پاس جارہا تھا تو اسے جلنے کی بدبو آئی۔۔ اسکا کمرہ اس لڑکی کے بلکل برابر میں ہی تھا جسکی وجہ سے بدبو کچھ زیادہ ہی آرہی تھی وہ اسکے کمرے کے پاس بھاگا کہ کہیں اسنے خود کو کچھ کر نا دیا ہو 

" دروازہ کھولو تم ٹھیک ہو؟؟ آواز آرہی ہے تمھیں میری "

وہ پریشان سا دروازہ بجا رہا تھا اسکے دماغ میں عجیب عجیب خیلات آرہے تھے

وہ جو ابھی واشروم سے نکلی تھی دروازہ بجنے پر ٹھٹک گئی پھر خود کو نارمل کرکے دروازہ کھولا

" کہاں تھی کب سے؟؟؟ آواز نہیں آرہی تھی یا بہیری ہوگئی ہو؟؟ "

وہ اسکے سامنے کھڑا غصّے سے کہنے لگا 

" یہیں تھی آنے میں ٹائم بھی لگتا ہے انسان ہوں مشین تو ہو نہیں کہ دبایا اور چلنا شروع۔۔۔۔ عجیب انسان ہو۔۔۔"

وہ اپنی گھبراہٹ چھپانے کے لیے کہے جارہی تھی اگر اسے پتا چل گیا کہ میں نے نیے کپڑے جلا دیے تو پتانی یہ میرا کون سا قیمہ بناے گا یہی سوچ کر اسکے منہ میں جو آیا کہ دیا

وہ اسکی گھبراہٹ با خوبی سمجھ رہا تھا اور سمجھتا بھی کیوں نہیں لڑکیوں سے واسطہ جو پڑا تھا اور سامنے کھڑی ہوئی تو اسکی جان تھی کیسے نہ جانتا؟؟؟؟؟

" یہ بدبو کہاں سے آرہی ہے "

وہ کمرے کا جائزہ لیتے ہویے بولا

" مجھے کیا پتا تمہاری ناک کے ساتھ مسلا ہوگا ویسے بھی سارے اسکرو تو ڈھیلے ہی ہیں ناک خراب ہوجاے تو اتنا مسلا نہیں ہوگا۔۔ "

وہ آخری بات منہ میں بڑبڑای

" کیا کہا تم نے "

وہ کڑے تیور لیے اسکے قریب آتے ہوئے بولا 

" کہ۔۔۔کہ۔۔۔۔کچھ نہیں میں کہاں کچھ بولتی ہوں "

وہ اسے اپنح قریب آتا دیکھ بوکھلا گی

وہ اسکی بات پر دھیرے سے مسکرایا

یہ مسکراتا بھی ہے 

وہ اسکے مسکرانے پر من ہی من بولی 

" تم بتا رہی ہو یہ بدبو کہا سے آرہی ہے؟؟ یا میں خود پتا لگاوا لوں؟؟ خود بتائو گی تو تمھارے حق میں بہتر ہوگا۔ "

وہ اسکے فورن موڈ بدلنے پر حیران رہ گی

" وہ دراصل۔۔۔ "

وہ سوچ رہی تھی کہ کیا کہے جو کیا ہے اس حساب سے سیدھا میرا گلہ ہی نا دبا دے

" کیا وہ وہ کررہی ہو۔۔۔ "

وہ اسے کڑے تیور سے دیکھ کر اسکی طرف بڑھ رہا تھا 

" واشروم سے آرہی ہے "

وہ اسکو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر جلدی میں بولی 

وہ سیدھا واشروم گیا دیکھنے کے لیے تو اسے پہلے تو حیرت ہوئی کہ یہ سب کس نے کیا ہوگا پر پھر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا " میری گنڈی " بڑابڑاتا ہوا دھیرے سے مسکرایا 

" ہہ تم نے کیا ہے؟؟ کپڑے کیوں جلاے "

وہ غصے سے اسے دیکھ کر بولا 

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں "

اسے خاموش پا کر اسکی کلائی پکڑ کر بولا

" مجھے پسند نہیں آے "

وہ پہلے تو گھبرا گئی پھر ہمت مجتمع کر کے بولی

"کیا مطلب ہے پسند نہیں آے اتنے مہنگے کپڑے تھے "

وہ اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر۔بولا 

" میں کیا کرو مہنگے تھے تو میں نے تو نہیں کہاں تھا مجھے کپڑے چائیے چھوڑے میرے ہاتھ "

وہ اپنا ہاتھ چھرانے کی کوشش کرر ہی تھی جو نا ممکن لگررہا تھا 

" نہ چھوڑو تو؟ "

وہ اسکی کیفیت سے لطف اٹھا رہا تھا 

" تو تو میں چلاؤ نگی "

وہ کچھ سوچ کر بولی 

" اچھا چلاؤ کوشش کرلو یہاں میری مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہیلتا "

اسکی نازک کمر کے گرد حصار باندھ کر مزید قریب کیا 

" دور ہٹو "

وہ اسکے اتنے قریب آنے پر سٹپٹا گئی  

" ویسے سزا تو تمہیں ملے گی بہت کرلی اپنی من مانی "

اسنے اپنا حصار مزید تنگ کیا اور اس پر جھکنے لگا

اسکو اپنے اوپر جھکتا پا کر اسنے زور سے دھکا دیا اسکی خود کی دھڑکنے تیز چل رہیں تھیں

اسکے دھکے سے وہ تھوڑا دهور ہٹا 

تو اسکو گھیرے گھیرے سانس لیتے ہویے پایا

مقصد صرف ڈرانہ تھا جو کہ پورا ہوگیا تھا 

" آئندہ ایسی کوئی حرکت کی تو وہ کرونگا جو تم سوچ بھی نہیں سکتی "

کہ کر کمرے سے باہر چلا گیا 

وہ وہیی کرسی پر بھیٹ گئی 

" تم سے برا کوئی ہے بھی نہیں "

نم انکھوں سے کہنے لگی 

" چھچوڑا "

اسکی کچھ دیر پہلے کی حرکت کو سوچ کر بولی

 ___________

"یار تم کیا کرہی ہو پکڑی جاوگی بند کرو یہ چلو کچھ کھانے کے لیے چلتے ہے "

سارہ آبش اور عنایہ کو بک کے اندر گھسے دیکھ کر بولی 

تینوں آج جلدی کلاس لے کر لائبریری آئی تھیں اسکی وجہ انکا ایک عدد ناول تھا جسے پڑھ کے وہ پاگل ہوجاتیں ابھی بھی وہ ہیرو کا سین پڑھ رہیں تھیں جس میں ہیرو اپنے پیار کے لیے لڑ رہا ہوتا ہے اتنی جوش سے پڑھ رہیں تھیں کہ انھیں سارہ کی پکار بھی سنائی نا دی 

"ٹھیک ہے تم لوگ پڑھو میں جارہی ہو "

سارہ کرسی سے اٹھ کر بولی 

"یار 2 منٹ رک جا بہترین سین آنے والا ہے بس تھوڑی دیر صبر کرجا" 

عنایہ اسکو اٹھتے دیکھ فوراً بولی 

"نہیں تم لوگ پڑھو مجھے بھیٹنا ہی نہیں ہے "

سارہ جاتے ہویے بولی 

"اچھا رک سین پڑھ کر منانے جاتے ہیں"

آبش عنایہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی 

"ہاں یہ بھی سہی ہے سمجدار ہوگئی ہے میرے ساتھ رہ رہ کر "

عنایہ کرسی کھیچ کر بھیٹتے ساتھ بولی

"اچھا گھوڑنا تو بند کر پتا ہے بہت اچھی لگ رہی ہوں "

آبش کے مسلسل گھورنے پر بولی

"پڑھ لے ورنہ ضائع ہو جائے گی میرے ہاتھ سے"

آبش نے تپ کر کہا 

"اچھا ٹھیک ہے غصہ کیوں کررہی ہے "

عنایہ نے چھڑنے کے انداز میں کہا

*****

"ایک تو اسنے مجھے بند کردیا ہے اور۔ بتا بھی نہیں رہا کہ چاہتا کیا ہے؟؟ یار مجھ سے نہیں بھیٹا جارہا مجھے میرے اندر کا کیرا بھیٹنے نہیں دے رہا کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آرہا کم از کم کسی بندے کو ہی بھیج دے باتیں کرنے کے لیے اب یہاں بھیٹے بھیٹے خود سے باتیں کرو یہ چاہتا ہی یہی ہے کہ میں پاگل ہوجاؤ پر میں ایسا ہونے نہیں دونگی یار کوئی مجھے باہر ہی لے جائے"

وہ روم میں چکر کاٹتے ہویے جنجہلا کر بولی

وہ صبح سے بیڈ پر بھیٹی بھیٹی تھک گئی تھی کچھ کرنے کو بھی نہیں تھا کرے تو کرے کیا 

"آجاؤ" 

دروازہ بجنے کی آواز آئ تو اسنے بولا 

" آپ کھانا کھالے بوس نے بھجوایا ہے "

ملازمہ سائیڈ ٹیبل پر کھانے کی ڈیش رکھتے ہویے بولی 

" مجھے نہیں کھانا اپنے بوس کو بولو مجھے بندی بنا کر کیا ملےگا انکو بولو اتنی ہمت ہے تو مجھے گھر میں گھومنے کی اجازت دے پر نہیں تمھارے بوس کو تو ڈر ہوگا۔ کہیں میں بھاگ نہ جاؤں نام کے ہی بوس ہیں بس تم انکو چھوڑ کر دوسری نوکری پکڑ لو "

وہ اسکا مذاق اڑاتے ہویے بولی مقصد صرف باہر نِکلنے۔ کا تھا جو تیر پر لگا یا نہیں اسکا پتا نہیں پر خود کو تسلی دینے کے لیے کوشش ضرور کی 

"میم ہم کچھ نہیں کہ سکتے وہ اپنی مرضی کے مطابق چلتے ہیں "

ملازمہ پہلے تو حیران ہوئی پھر تھوڑا سمبھل کر کہا کہ کہیں بوس نہ آجائے

" تمھیں بہت شوق ہورہا ہے نا باہر جانے کا اور مجھے ڈر بھی ہے کہ تم بھاگ نہ جاؤ چلو آج میں اپنا ڈر نکالتا ہوں "

یہ کہ کر وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لا کر کیچن میں کھڑا کر گیا

وہ اسکے ساتھ کھنچتی چلی گئی اور سوچ ہی رہی تھی کہ پتا نہیں تیر نشانے پر گیا ہے یا رخ مور کر میرے پاس ہی آیا ہے 

جب بھی ملازمہ اسے کھانا دینے جاتی تو وہ اسکو ضرور دھیکتا کہ اسنے سہی سےکھایا یہ نہیں آج بھی وہ اسے دیکنے آیا تھا تو اسکی انوکھی باتیں سن کر اسکے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ ابھری 

" تم بور ہورہی تھیں نا چلو تمہیں کام بتاتا ہوں ویسے تو بہت کام ہے لکین تم پہلی بار کیچن میں آئی ہو تو چھوٹا موٹا کام بتا دیتا ہوں "

وہ اسکو گھیری نظروں سے دیکھ رہا تھا

اسکو کیسے پتہ چلا میں بور ہورہی تھی

وہ من ہی من سوچنے لگی 

" میں تمہیں با آسانی پڑھ سکتا ہو تمہارا من بھی "

وہ اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا

وہ بدک کر پیچھے ہوئی 

" ابھی تو میں نے تمھیں کچھ بتایا ہی نہیں ہے تم تو پہلے ہی پیچھے ہوگئی ابھی تو تمہیں میرا ڈر بھی ختم کرنا ہے 

اچھا چلو اب مجھے اچھی سی چاے بنا کر دو "

کہ کر وہ کیچن کی سلپ پر بھیٹ گیا

" میں وہ بھی چاے میں تمہاری کوئی نوکرانی نہیں ہوں اتنا۔ شوق ہورہا ہے تو خود ہی بنا لو اور ہاں ایک کپ میرے لیے بھی "

وہ کیچن کہ ڈائنگ ٹیبل کی کرسی کھیچ کر بولی 

" میں کب سے یہی سوچوں تم نے کچھ بولا کیوں نہیں تم جب تک الٹے جواب نا دے دو تب تک تمہیں سکون نہیں آتا "

وہ اسکے پاس آتے ہویے بولا 

"پھر کیو اٹھا کر لائے ہو میں تو جیسے تمہارے انتظار میں بھیٹی تھی کہ کوئی بوس آئیگا اور مجھے اٹھا کر لے جاے گا اور نہ ہی میں گھر میں بور ہورہی تھی کہ سوچلو چل کر کچھ ایڈونچر کرتے ہیں "

وہ جہن بھن کر بولی 

اسکی بات سن کر اسکا جاندار قہقہ گونجا 

" جاہل بس ہنستا رہتا ہے "

اسکی ہسی سن کر من میں کہنے۔ لگی منہ پر تو کہ نہیں سکتی تھی تو لہٰذا اپنے من سے کام چلا رہی تھی

" چلو بہت ہوگیا مذاق۔۔۔ بنا رہی ہو یا میں اپنے طریقے سے بنانا سیکھائوں "

وہ فوراً سنجیدہ ہوگیا 

" مجھے نہیں آتی چاے بنانا " 

وہ منہ بسور کر بولی 

" تمہیں اپنی فیملی سے بات کرنی ہے اگر نہیں کرنی تو کوئی بات نہیں میں کسی اور سے۔کہتا ہوں چاے بنا دیگا "

وہ مسکراہٹ دبا کر کسی ملازمہ کو ڈھونڈنے لگا جسکو اسنے پہلے ہی بھیج دیا تھا 

" نہیں میں بنا رہی ہو "

گھر والوں کا ذکر سن کر فوراً بولی 

" نہیں تمہیں کہاں آتی ہے چاے بنانے تم رہنے دو "

" اب کہ رہی ہوں کہ بنا دیتی ہوں تو تمہارے نخرے ہیں ہر چیز میں مسلا ہے " 

وہ تیور چڑھا کر بولی 

" تم نے ہی تو کہا تھا کہ تمہیں نہیں آتی "

وہ پورا اس پر فوکس کیے ہویے بولا 

" امی کو بناتے ہویے دیکھا تھا "

وہ اپنی گھبراہٹ چھپا کر بولی 

" ٹھیک ہے پھر لاؤنج میں لے آنا میں وہی ہوں "

وہ کہ کر باہر چلا گیا

" میں لاؤنج میں بھیٹا ہوں "

وہ ہاتھ ہلا کر اسکی ایکٹنگ کرنے لگی

" ہوشیار "

وہ منہ بنا کر کہنے لگی 

" اسکے جاتے ہی ملازمہ اندر آی اور اسے ساری چیزے دینے لگی 

" اہاں اب مزہ آئیگا "

وہ چاے کی چیزوں کو دیکھ کر بولی 

" چلو تم جاؤ میں دیکھ لونگی "

اسکے جاتے ہی وہ چاے کا پانی چڑھانے لگی چینی پتی ڈال کر ابلنے کہ بعد اسمیں دودھ ڈالنے لگی کپ میں ڈال کر لال مرچ کا مسالا ڈالا جو کہ بہت ڈھوڈنے کہ بعد اسے آخری کیبنٹ سے ملا 

بہت شوق ہے نا مجھ سے چاے بنوانے کا؟؟ پر اگر اس نے میرے گھر والوں سے مجھے نا ملوایا تو؟ ؟

وہوہ چاے کو دیکھنے لگی 

"دفع کرو نا بھی ملواے میں یہاں سے بھاگ جائونگی اور پھر اسکا منہ بھی تو دیکھنا ہے " 

" ہاےےے کتنا مزہ آئیگا "

وہ دونوں ہاتھ آپس میں جوڑتی ہوئی بولی 

" یہ لیں آپ کی چاے "

وہ بہت تمیز کہ دائرے میں کہ رہی تھی 

وہ بہت حیرت میں اسکو دیکھ رہا تھا 

" میں نے تو غلط نہیں سنا "

وہ اپنے کان میں اگلی ڈال کر سوچنے لگا 

اسکا فوراً سامنے آکر بھیٹنا اور پھر شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اسکو دیکھنا اسے چھپا ہوا نا تھا

وہ اسکے سامنے بھیٹ کر پوری چائے پی گیا اور اسکے چہرے پر ایک شکن بھی نا آئی 

" اسے کچھ ہوا کیوں نہیں "

وہ من ہی من سوچنے لگی 

" یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے ابھی تم اس کھیل میں کچی ہو اگلی بار مرچی کا زیادہ استمال کرنا اتنا تو میرے جسم پر بھی نہیں لگتا منہ کے زاویے کیسے بدلیں گے بےبی "

وہ اسکے بلکل قریب آکر کہنے لگا پھر اسکے گال پر اپنا لمس چھوڑ کر باہر چلا گیا 

وہ حیران ہو کر اسکی اگلے حرکت پر غصے سے لال ہوگی 

" بیہودہ "

اپنا گال رگڑ کر اسکو گالیوں سے نوازتی کمرے میں چلی گئی 

*****

" بس ہر وقت ناول ناول پتا نہیں کیا رکھا ہے ناول میں حد ہوتی ہے "

سارہ بڑبڑاتی ہوئی یونی کے گارڈن میں جا کر بھیٹ گئی 

"انی پرابلم لیڈی "

وہ اسکے پاس بیٹھتے ساتھ بولا

"کون لیڈی؟؟ آنکھیں دیکھیں ہے اپنی سہی سے نظر نہیں آتا اگر مسلا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاؤ میرا بی.پی نا بڑھاؤ چلتے بنو"

سارہ ویسے ہی تپی ہوئی تھی پھر اسکے لیڈی بولنے پر آگ بگولہ ہوگئی 

"اچھا تو کیا کہوں آپ کو "

وہ کچھ سوچ کر بولا 

"کیوں میں تمہاری چچا کی بیٹی لگتی ہوں جو تم مجھے کچھ بلاؤ گے"

سارہ بیگ سائیڈ پر رکھتی ہوئی بولی 

"میں نے ایسا تو نہیں کہا آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں "

وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا 

"میں تمہیں کون سا سہی سمجھ رہی ہوں اور اگر میں نے تمہیں غلط سمجھ بھی لیا تو تم کون سا میرے رشتے دار ہو جو چار لوگوں کو بتانے جاؤ گے"

سارہ جنجھلا کر بولی 

"تم کوئی سائیکو تو نہیں ہو"

وہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کے وہ کیا کہ رہی ہے 

"تم نے مجھے سائیکو کہا تمھیں پتہ ہے میں کون ہو"

سارہ کھڑے ہوتے ہویے بولی 

مجبورً اسے بھی کھڑا ہونا پڑا 

"تمہیں سچ میں نہیں پتہ میں کون ہو اور نا تمھیں میرا نام پتہ ہے "

"نہیں"

وہ کچھ سوچنے کہ انداز میں بولا 

"پھر یہ نوٹس میرے ہویے میں سب کو بانٹ دونگی جو تمہارے ڈیپارٹمنٹ میں ہوگا"

سارہ بھاگتی ہوئی اپنی کلاس کہ دروازے پر جا کر کہنے لگی 

"یار میرے نوٹس لے کر چلی گئی "

"تو ایک لڑکی سے ہار گیا " 

اسکے دوست ہنستے ہویے بولے 

"کوئی بات نہیں یار لڑکی سے ہی ہارا ہے انکے سامنے جھک بھی جائے تو کوئی مسلا نہیں"

"اوووووو"

اسکے دوست ہوٹنگ کرنے لگے۔ 

وہ بس وہی دیکھ رہا تھا جہاں سے وہ ابھی کلاس میں گئی تھی

__________

"بوس یہ دیکھے کتنی اچھی لڑکیاں ہے "

سیکرٹری ٹیبل پر تصوریں رکھتے ہوئے بولا 

وہ ہر مشورہ اسی سے لیتا تھا یہاں تک کہ آدھے کام اسی پر تھے وہ صرف اسی پر بھروسہ کرتا تھا کھبی کھبی وہ اسے اچھے موڈ میں بات کرلیتا تھا تبھی وہ اس سے بنا سوچے بات کرلیتا تھا ورنہ تو اس سے بات کرنے سے پہلے۔ بھی سو بار سوچنا پڑتا تھا اگر غصے میں آجاے تو کسی کی نہیں سنتا تھا ایک جنون سوار ہوجتا تھا جسے وہ سزا دے کر کم کرتا تھا وہ جو لیپ ٹاپ میں کچھ ٹائپ کررہا تھا اسکے کہنے سے سر اٹھا کر دیکھا 

"کیا کروں میں ؟؟

وہ بے نیازی سے بولا 

"بوس ایک دفع دیکھیں تو سہی اس یونی کی لڑکیاں بہت اچھی ہیں ہم اپنا کام اور بڑھا سکتے ہیں"

سیکرٹری ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بولا 

"میں اپنے رولز کے خلاف نہیں جاتا گوٹ اٹ" 

وہ کہتے ساتھ دوبارہ ٹائپ کرنے لگا 

"بوس صرف ایک بار میرے کہنے پر تصویر دیکھ لے"

سیکرٹری اسکی منت کرنے لگا۔ 

اسنے سرسری سے نظر تصویروں پر ڈالی جہاں اسکی نظر ایک تصویر پر آکر رک سی گئی

"انٹرسٹنگ"

بے سختہ اسکے منہ سے نکلا

"میں نے کہا تھا نا آپ کو کوئی نا کوئی پسند ضرور آئےگی کب اٹھانا ہے "

سیکرٹری خوش دلی سے بولا 

"میں نے تم سے کہا" 

"پر بوس"

اسنے ہاتھ کے اشارے سے اسے بولنے سے روکا 

"جتنا کہا جائے اتنا کیا کرو اور سامنے دروازہ ہے آگے تم خود سمجھدار ہو"

سیکرٹری منہ بنا کر باہر چلا گیا 

"ویٹ فور می بےبی"

وہ تصویر کو دیکھتے ہوئے مدھم سا مسکرائی.



جاری ہے