نشہ_عشق🌹

از : حنا 

قسط 4



"آبش چلو وہ والی شاپ پر کتنے اچھے پرفیوم ہیں"

آبش کی بہن آئرہ پرفیوم کی شاپ کو دیکھ کر اندر جانے لگی

آبش اپنی دنعں بہنوں اور اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ مال آئ ہوئی تھی اسکی بہنوں کو شاپنگ کا بہت شوق تھا جب کہ آبش انکو شاپنگ کرتے ہوئے دیکھ کر اکتا جاتی اسکو شوپنگ میں کھبی انٹرسٹ نہ تھا 

اسکی فیملی پانچ لوگوں میں مشتمل تھی سب سے بڑی بہن آبش جو کہ اپنی شوق کے بنا پر یونی میں کامرس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتی تھی اسکے بعد اسکی دو بہنیں جو کے ٹونز تھیں آئرہ اور الشبہ جو کہ ہر چیز کا شوق رکھتی تھیں سواے پڑھائی کہ دونوں نے بہت مشکل سے انٹر کیا اور پڑھائی کو خدا حافظ کہ دیا جب کہ اسکا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا عرش جو کہ ابھی چھٹی کلاس میں تھا پر زیادہ اپنی بہنوں کے ساتھ ہی رہتا تھا صرف آبش کو شوق تھا آگے پڑھنے کا اور بہت ضد کے بعد ہی اسے یونی میں ایڈمشن لینے کی اجازت ملی وجہ پرانی سوچ نہیں تھی بس زمانہ خراب ہے اسکی وجہ سے ہی وہ نہیں بھیجنا چاہ رہے تھے پر اسکی ضد کے آگے جھک گے 

"آپی یہ پرفیوم کتنا اچھا ہے خوشبو توسونگیں" 

آئرہ نے آبش کے سامنے پرفیوم رکھتے ہویے کہا

"اچھا ہے پر تمہارے پاس بہت پرفیوم ہیں جب ختم ہوجائیں تب لے لے نا"

آبش اسکی طلب دیکھتی ہوئی بولی

"آپی لےلیتے ہیں نا کتنا اچھا ہے"

"فضول خرچی نہیں کرنی ہے تمہیں منع تو نہیں کیا جب ختم ہوجائے تب لے لے نا اور ویسے بھی تم دونوں کاسمیٹکس کے لیے آئیں تھیں وہ لے لیا نا بس بہت ہے ہر چیز وقت پر اچھی لگتی ہے"

آبش شاپ سے نکلتے ہویے کہنے لگی 

اسکی بات سن کر دونوں کے منہ لٹک گئے 

"چلو باہر چلتے ہیں گھر بھی پہنچنا ہے امی انتظار کرررہی ہونگی"

آبش مال سے نکل کر ٹیکسی دیکھنے لگی 

وہ تینوں بھی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگے

"آپی مجھے پوپکورن کھانے ہیں "

عرش پوپکارن کا اسٹال دیکھ کر بولا 

"اچھا تم لوگ مال کے پاس کھڑے رہو میں آتی ہوں لے کر"

آبش تینوں کو ہدایت کرتی ہوئی جانے لگی 

"بھائی تین پیکٹ بنا دیں"

آبش بھائی کو بولتے ہوئے پرس میں سے پیسے نکالنے لگی کہ ایک دم پیچھے سے آبش کا پرس چھین لیا 

"چور چور"

آبش تو پہلے گھبرا گئی کہ ہوا کیا جب سمجھ آیا تو چلانے لگی 

حسن جو کافی ٹائم بعد اسلام آباد آیا تھا مال میں اپنے دوست سے ملنے کے لیے بہت ٹائم بعد اسے چھٹیاں ملی تھیں ایئر فورس سے۔۔۔ 

اسے کسی لڑکی کی چیخنے کی آواز آئ تو وہ مال سے باہر نکلا تو دیکھا کہ چور ایک لڑکی کا پرس لے کر بھاگ رہا ہے اور اسکے عین مطابق سب لوگ ویڈیو بنانے میں یا اگنور کرنے میں لگے ہوئے تھے وہ اپنا سر جھٹک کر چور کے پیچھے بھاگا 

چور ایک سنسان گلی میں جا کر اپنی بائیک چلانے کی کوشش کررہا تھا پر شاید نصیب میں مقے کھانا لکھا تھا 

حسن اسے ڈھوڈتا ہوتا ہوا گلی میں آیا جہاں وہ بائیک کو بار بار چلانے کی کوشش کررہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے ماتھے پر آے پسینے کو بھی صاف کررہا تھا کیوں کہ اسنے دیکھ لیا تھا۔ اپنے پیچھے کسی کو آتے ہوئے اسلیے خوف سے بار بار بائیک کو کیک کر رہا تھا 

"بیٹا بہت کرلی محنت اب ذرا میری محنت بھی دیکھ لو" 

حسن نے کہ کر اسکے منہ پر زور سے مقہ مارا 

"شرم نہیں آتی چوری کرتے ہویے"

وہ اسکے منہ پر ایک اور مقہ مارتے ہویے بولا 

اسکی ناک سے خون بہ رہا تھا 

"صاحب اب نہیں کرونگا آپ لے لیں یہ پرس مجھے جانے دیں پلز"

چور نے ہاتھ جوڑتے ہویے کہا 

"یہ پرس تو میں لونگا ہی تم یہاں سے اب نو دو گیارہ ہوجاؤ اب نظر آے تو دنیا میں نظر نہیں آؤگے"

وہ ڈر کر ایسے بھاگا جیسے اسکے پیچھے کتوں کی فوج ہو

یہ دیکھ کر بے سختہ ہنسی چھوٹی

حسن وہاں پہنچا تو آبش ٹیکسی کا انتظار کر رہی تھی اور اپنی بہنوں سے بات کر رہی تھی بلیک کلر کی شورٹ فروک میں ریڈ کلر کی چوری دار پاجامہ اور ریڈ ہی کلر کا دوپٹہ جو نفاست سے سر پر تھا گھبرایا ہوا چہرہ اور روی روی آنکھیں اسکے دل میں اتر رہیں تھیں ٹرافک کے ہارن سے حسن ہوش میں آیا کیوں کہ وہ روڈ کے بیچ میں کھڑا تھا 

سوری کہ کر وہ آبش کی طرف بڑھا 

"آپ کا پرس"

حسن پرس اسکے سامنے کرتے ہویے بولا 

"تھینکیو سو مچ آپنے میرا پرس بچا لیا "

آبش پرس کو دیکھ کر خوش دلی سے کہنے لگی 

"اٹس اوکے خیال رکھا کریں باہر نکلتے ہویے باے دا وے آئیں میں چھوڑ دیتا ہوں"

حسن اسکو دیکھنے سے گریز کرکے بولا 

"نہیں ہم چلے جائینگے تھنکیو" 

آبش تینوں کا ہاتھ پکڑتے ہویے بولی 

 "چلے میں ایسے لڑکیوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا"

حسن آگے بڑھتا ہوا بولا 

"عجیب انسان ہے حکم اسے چلا رہا ہے جیسے میں اسکی جاگیر ہوں"

آبش من ہی من کہنے لگی

اور گاڑی میں پیچھے جا کر بیھٹ گی

_____________

"گاڑی نکالو"

وہ تصویر دیکھنے کے بعد گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے ڈرائیور سے بولا 

جب وہ باہر نکلا تو اسکے سامنے لینڈ کروزر کھڑی ہوئی تھی اور ڈرائیور ڈرائیونگ سیٹ پر بھیٹا تھا 

"چلو"

اسنے بھیٹنے کے ساتھ کہا 

"کہاں بوس"

ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا 

"میں بتاتا ہو کہاں جانا ہے تم چلو"

"بوس ہم پہنچ گئے"

ڈرائیور نے یونی کے سامنے گاڑی روکتے ہویے کہا

اسنے نظر اٹھا کر یونی کی طرف دیکھا جہاں چھٹی کے ٹائم سب سٹوڈنٹس باہر نکل رہے تھے

اتنے میں ایک گروپ نکلا جسمیں تین لڑکیاں تھیں

"یار تم لوگوں کو پتہ ہے کل مجھے ایک لڑکے نے پرپوز کیا"

عنایہ اپنا بیگ کندھے پر لٹکاتی ہوئی بولی

"پھر کیا ہوا تو نے ہمیں کچھ بتایا کیوں نہیں"

آبش ناراضگی بھرے لہجے میں کہنے لگی 

"ہاں تو ہمیں بتاتی ہم تیرے لیے تالیاں بجاتےاور پھر شادی کے کارڈ بھی تو باٹنے تھے"

سارہ نے جل کر ٹونٹ مارا 

"ابے یار ایسی کوئی بات نہیں ہے اور پتہ ہے مجھے وہ بلکل نہیں پسند میں نے اسے احتراماً منع کردیا پر وہ دھمکیوں پر اتر آیا"

عنایہ ہاتھ ہلا۔ ہلا۔ کر بتا رہی تھی 

"پھر کیا کیا تونے کچھ کیا تو نہیں تیرے ساتھ"

آبش نے فکر مندی سے پوچھا 

"ہاتھ تو لگا کر دھکاتا ہاتھ توڑ کر دوسرے ہاتھ میں نا دیدیتی خیر جب وہ دھمکیوں پر اترا تو میں اپنے روپ میں اتری اور ایسا دھویا کہ ساری زندگی یاد رکھےگا اسے ہی لڑکی کو کمزور سمجھ کر دھمکیاں دے رہا تھا ایسا بھاگا پیچھے مڑ کر دیکھنا گوارا نہیں کیا"

عنایہ نے ایک ادا سے اپنے بال جھٹک کر کہا 

بر وقت تینوں کھل کے ہسی 

وہ مسلسل اسے دیکھ رہا تھا اسکے مسکرانے پر اسکے بھی لب دھیرے سے مسکراے 

" یو آر ماین سون بےبی"

وہ زیرے لب کہ کر دھیرے سے مسکرایا 

*****

آبش کے گھر گاڑھی روکتے ہی حسن کار سے نکلا اسکے پیچھے ہی وہ چاروں اسکی تخلیق میں نکلے تبھی آبش کے ابو جو گھر سے نکل رہے تھے اپنے بچوں کو حسن کے ساتھ دیکھ کر 

ٹھٹک کے رک گئے۔۔وہ غور سے حسن کو دیکھنے لگے تبھی انکے دماغ میں جماکے سے کچھ کلک ہوا۔۔۔ وہ حسن کی طرف بڑھے۔۔۔

" روکو تم حسن ہو نا؟؟ شیروز کے بیٹے؟؟ "

حسن اپنے ابو کے نام پر جہاں حیران ہوا وہاں اس آدمی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ پریشان ہوا۔۔ آبش بھی کچھ حیرانگی سے اپنے ابو کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

" جی پر آپ مجھے کیسے جانتے ہیں "

" میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں تمہارا چہرہ تو روز دیکھتا تھا۔۔ میں شہروز کے ساتھ آرمی میں تھا۔ کافی گہری دوستی تھی ہماری۔۔۔ وہ ہمارا آخری مشن تھا شہروز جہاں ریٹائرمنٹ سے اداس تھا وہیں گھر جانے کی خوشی اسکے چہرے سے پھوٹ رہی تھی لکین کیا پتا تھا قسمت ایسا دھوکہ دیگی۔۔ " حسن یہ سب سن کر ضبط کے مارے سرخ پڑھ گیا اسکی آنکھیں باپ کی بےچینی کا سن کر جھلکنے پر تیار تھیں لیکن وہ ضبط کیے کھڑا رہا۔۔۔

" میرے۔۔۔ بارے میں۔۔۔ کیا کہتے تھے۔۔۔ "

ناچاہتے ہوۓ بھی آواز لڑکھڑا گئی۔

" وہ ہر رات ہم سب دوستوں کے سامنے گھنٹو تمہاری باتیں کرتا تمہاری تصویریں دیکھاتا۔۔۔ بہت خوش ہوتا تھا تمہارا ذکر کر کے کہتا تھا میرا بیٹا بھی فوجی بنے گا "

حسن نے اپنی آنکھیں بند کر کے آنسوؤں اپنے اندر اتارے۔۔۔

آبش کے ابو حسن کے قریب آئے اور اسکے قندھے پر ہاتھ رکھا۔آبش بھی باپ کی بات سن کر افسردہ ہوگئی 

" ینگ مین شہروز تو کہتا تھا بڑے بہادر ہو پھر کمزور کیوں ہوگے باپ کے ذکر پر؟؟ ارے سینہ تان کے کھڑے ہو اپنے باپ کے نام پر۔۔۔۔ شہید ہوا ہے شہروز۔۔ تمہیں فکر کرنا چاہیے شہروز کی اس قربانی پر۔۔ "حسن مسکرادیا اور بے اختیار انکے گلے لگا۔ 

" ابو آج انہوں نے ہماری ہیلپ کی " آبش کے چھوٹے بھائی نے کہا پھر سارا قصہ سنایا۔۔ میجر احمد نے حسن کا شکریہ ادا کیا اور زبردستی شام کی چائ پلا کر بھیجی اس وعدے کے ساتھ کے اب کی بار آیا تو ڈنر کر کے جائے گا۔۔

___________

"آگے بھیٹو میں تمہارا کوئی ڈرائیور نہیں ہوں"

حسن آبش کو پیچھے کا دروازہ کھولتے ہوے دیکھ کر بولا 

"اور میں تمہاری مسسز نہیں ہوں جو حق سے آگے بھیٹوں" 

آبش نے جلد بازی میں جو منہ میں آیا بول دیا جب سمجھ آیا کہ کیا کہا تو اپنی زبان دانتوں تلے دبا گئی 

"اہاں تمہیں شوق ہے مسسز بنے کا"

وہ اسے بغور دیکھتے ہویے بولا 

"نہیں وہ میرے منہ سے نکل گیا"

وہ کنفیوز ہوگئی تھی 

"بھیٹو آگے آکر"

وہ غصے سے بولا 

"روب تو ایسے جھاڑ رہا ہے جیسے میں اسکے جہیز میں آئی ہوئی ہوں"

وہ سوچنے لگی 

"اب بھیٹ بھی جاؤ انویٹیشن کارڈ لا کر دوں تمہیں؟؟ "

وہ تپ کر بولا 

وہ ڈر کر فوراً بھیٹ گئی 

"کیا بات ہے بھئی کیوں اتنا مسکرایا جارہا ہے"

حسن جو اسکا ڈرا ہوا اور تھوڑا پھلا ہوا چہرہ سوچ کر مسکرا رہا تھا ایک دم سے سوچوں کی دنیا سے واپس آیا۔۔

حسن کا دوست حامد اسے مسلسل مسکراتے ہویے دیکھتے ہوئے کہنے لگا 

آج حسن اپنے کولج کے دوستوں کے ساتھ باہر ڈنر کرنے آیا تھا وہ کافی ٹائم بعد ملا تھا پر وہ سارا ٹائم اپنی ماں کو دینا چاہتا تھا پتا نہیں یہ پل واپس آئیں نا آئیں اسکے دوست اس سے ملنے آئے تو زبردستی کھانے پر لے گئے اور ابھی یہ لوگ اسلام آباد کہ مشہور مونال ہوٹل میں بھیٹے اپنے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے کہ اتنے میں اسکے ایک دوست کی نظر اس پر پڑی جو مسلسل مسکرا رہا تھا 

"نہیں یار بس ایسے ہی"

حسن بات کو ٹالنے کے لیے کہنے لگا 

"نہیں بیٹا کچھ تو چکر ہے ایسے ہی کوئی نہیں مسکراتا کوئی راز تو نہیں چھپا رہا"

حامد اسے جانچتی نظروں سے دیکھنے لگا 

اسکی بات سن کر اسکے دو اور دوست اسکی طرف متوجہ ہویے 

"بتا بھی دے اتنا بھی کیا چھپانا پیار ویار تو نہیں ہوگیا "

حامد نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا 

"مجھے نہیں پتا پیار کیا ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے اسمیں اانسان کی فیلنگس کیا ہوتی ہیں وہ کیا محسوس کرتا ہے بس میں اتنا جانتا ہو جب سے اسے دیکھا ہے ہر سوچ اس پر آکر رک جاتی ہے کچھ بھی سوچلو ختم اس پر ہی ہوتی ہے بہت کوشش کر رہا ہوں کہ نکل جائے دل سے لکین شاید دل اب میری سنتا ہی نہیں"

حسن کسی خیالوں کی دنیا میں رہ کر سب کچھ کہ رہا ہوتا ہے اسکے دوست غور سے اسکی طرف متوجہ تھے 

"بھائی تو تو گیا ہوگئی تجھے بھی محبت اللّه ہی حافظ ہے تیرا"

حامد افسوس کرہا تھا جیسے کوئی بری خبر سنی ہو 

"تو جا کر کہ کیوں نہیں بتا دیتا تو ہے بھی کچھ دن کے لیے کب جائے کب آے کچھ پتا نہیں ہے اس سے ایک بار کہ کر تو دیکھ کیا پتہ وہ مان جائے"

اسکا ایک اور دوست اسکو ایڈوائس دینے لگا 

"یار میں اسے ایک بار ہی ملا ہوں وہ کیسے مجھے ہاں کردیگی"

حسن پریشان لہجے میں کہنے لگا 

"تو جب تک ہے تب تک اسے گفٹس دے پھول دے مان جاےگی تو کوشش تو کر"

اسکا دوست لوو گرو بن کر اسے سمجھا رہا تھا 

"اسکے گھر جانے کا کچھ سوچتا ہوں"

حسن سوچنے کے انداز میں کہنے لگا 

"جلدی سوچ لینا ایسا نا ہو وقت ہاتھ سے نکل جائے"

وہ اسکی ہمت بڑھا رہا تھا جسمیں وہ کافی حد تک کامیاب ہوا اتنے میں ویٹر نے کھانا سرو کیا اور خوشگوار ماحول میں کھانا کھا کر سب اپنے اپنے گھر روانہ ہو گے

******

"میم آپ کو بوس نیچے بلا رہے ہیں"

وہ جو بستر میں آرام سے نیند کی وادیوں میں تھی اچانک اس افتاد کو دیکھ کر منہ کے زاویے بدلنے لگی 

"صبح صبح کون سے کیڑے نے کاٹا ہے تمہارے بوس کو جو اتنی صبح صبح کسی جن کی طرح حاضر ہوگئی ہو"

وہ گھڑی میں ٹائم دیکتے ہویے بولی 

"میم آپ خود جواب دیدیں وہ نیچے آپکا ویٹ کر رہے ہیں"

ملازمہ پہلے تو اسکی بے باکی پر حیران رہ گی تھوڑا سنمبھل کر بولی

"مجھے نہیں سننا پتا نہیں کیا مصیبت ہے نیند خراب کردی"

وہ منہ پر کمبل ڈال کر کہنے لگی 

ملازمہ اسکو منہ پر کمبل ڈالتے ہویے دیکھنے لگی اور پھر مرے مرے قدم اٹھاتے ہویے بوس کے پاس جانے لگی 

"بوس اب میرا کیا کرینگے"

ملازمہ ڈرتے ڈرتے۔بوس کے سامنے کھڑی ہوئی 

وہ تیار ہوکر جاگنگ سوٹ پہنے کھڑا موبائل استمال کر رہا تھا 

ملازمہ کو دیکھ اےبروو اچکا کر پوچھنے لگا جیسے کہ رہا ہو کہا ہے جسے لینے بھیجا تھا وہ کہاں ہے

"بوس انہوں نے منع کردیا وہ سورہی ہیں"

ملازمہ نے ڈرتے ڈرتے کہا جیسے ابھی غصے اسے ہی نا نکال دیں 

"میں خود دیکھ لونگا جاؤ تم"

وہ اسکو ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہ کر خود سیڑیوں کی طرف بڑھا 

جب وہ کمرے میں گھسا تو اسے نیند میں محو پورا بلنکٹ سے لپٹے ہویے پایا 

گہری سانس لے کر وہ اسکی طرف بڑھا 

"اٹھو جلدی ہمیں جوگنگ پر جانا ہے"

وہ اسکے منہ سے کمبل ہٹاتا ہوا بولا 

اسکی پیشانی پر کچھ لکیریں ابھری جیسے اسے پسند نہیں آیا نیند میں تنگ کرنا 

اسکی یہ حرکت دیکھ کر وہ دھیرے سے مسکرایا 

"تم اٹھ رہی ہو یا میں تمہیں ایسے ہی اٹھا کر لے جاؤں واشروم"

وہ مسکرہٹ دباے اسے کہ رہا تھا 

"اٹھ رہی ہوں پتا نہیں کیا مسلہ آگیا ہے جیسے میں نہیں جاونگی تو جنگ کا آغاز نہیں ہوگا"

وہ تپ کر بستر سے اٹھنے لگی 

"جوگنگ پر جانا ہے جنگ پر نہیں" 

وہ اسکو غصے میں دیکھ کر لطف اندوز ہورہا تھا 

"تم میرے منہ نہیں لگو ورنہ اچھا نہیں ہوگا"

وہ اسکی بات سن کر اور بھڑک کر بولی 

"زبان سمبھال کر بات کرو ورنہ مجھے دیر نہیں لگیگی اسے کاٹنے میں"

وہ اسکو اپنی طرف کھیچ کر اسکے بال چہرے پر سے ہٹا کر کہنے لگا 

وہ اسے دیکھ کر حیران تھی پل بھر میں وہ سنجیدہ روپ میں آجاتا ہے 

"تم کچھ نہیں کر سکتے میرا میں نے ہاتھ میں چوڑیاں نہیں پہنی ڈرتی نہیں ہوں میں تم سے جو کرنا ہے کرلو میں تمہارے ساتھ نہیں چل رہی"

وہ ہمت جمع کرکے بولی 

"آہاں نہیں ڈرتی تم اور تم میری بات بھی نہیں مانو گی تو ٹھیک ہے"

وہ کچھ سوچ کر موبائل نکالنے لگا

"میں تمہیں ایک تصویر بھیج رہا ہوں ڈیر سال کا بچہ ہے اسکے گھر جاؤ اور اسکو گولی سے اڑا دو "

وہ فون پر کسی سے کہنے لگا 

"نہیں پلیز ایسا نہیں کرو وہ معصوم ہے اسنے تمہارا کیا بگاڑا ہے پلیز ایسا نہیں کرو"

وہ اسکی بات پر تڑپ ہی تو گئی تھی اسلیے اسکے سامنے روتے ہوئے   

منت کرنے لگی  

تم چل رہی ہو یہ نہیں"

وہ اسکو دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہویے بولا  

"میں چل رہی ہوں پہلے اسے منع کرو وہ کچھ نہیں کرے"

تم چلنے کی تیاری کرو باکی کام میں خود کر سکتا ہوں"

وہ اسکا معائنہ کر رہا تھا سادی سی سی گرین رنگ کی لونگ شرٹ پر ہم رنگ کا دوپٹہ اور ٹراوزر پہنا ہوا تھا

"اسکاف پہنو جلدی"

"ہاں میں پہن رہی ہوں"

وہ کپکپتے ہوئے ہاتھوں سے جلدی جلدی اسکاف پہنے لگی 

"اور یہ آنسو بھی صاف کرو تھوڑی دیر میں پھر بہنے والے ہیں"

وہ کہ کر کمرے سے باہر چلا گیا 

وہ آنسو صاف کرکے فوراً اسکاف بھاند کر نیچے آئی جہاں وہ کپڑے تبدیل کرچکا تھا ریڈ شرٹ اور بلانک پنٹ میں لڑکیوں کے دلوں پر اتر جائے پر اسے کوئی پروا نہیں تھی 

"جب جاگنگ پر نہیں جانا تھا تو اٹھایا کیوں" 

وہ سر جھٹک کر سوچنے لگی

"Thats like a good girl اسے ہی بات مان لو گی تو کچھ کرنا ہی نہیں پڑیگا" ا 

اسکا اشارہ کال پر تھا جو اسنے ڈرامہ کیا تھا موبائل کو سایلینٹ پر لگا کر بات کی تھی تاکہ اسکے دل میں ڈر بھیٹا جائے

"چلو"

وہ اسکے ہمرا باہر نکلی جہاں گھر کے دروازے کے سامنے چھوٹا سا بیھٹک بنا ہوا تھا 

"تم یہاں کھڑی رہو گی جب تک میں واپس نا آؤں اور یہ چپل اتارو"

اسے اٹھانے کے چکر میں دس بج گئے تھے اب اسنے اپنا ارادہ ملتوی کردیا تھا 

وہ اسے بیھٹک کے برابر میں کھڑا رکھا جہاں کی زمین تپ رہی تھی  

وہ اسکی بات سن کر حیران کن نظر سے دیکھنے لگی

"حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمہاری سزا ہے میرے سامنے زبان چلانے کی اور اگر ایک سیکنڈ بھی بیھٹیں تو؟؟ " وہ اسے انگلی سے وارن کرتا ہوا بولا

 " اوت تم جانتی ہو مجھے پتہ چل جاتا ہے تو یہ غلطی ہر گز نہیں کرنا"

وہ کہ کر اپنی لینڈ کروزر میں بھیٹ کر چلا گیا 

پیچھے سے وہ صرف اسے دیکھتی رہ گئی.



جاری ہے