ناول: نشہ_عشق 🌹
از : حنا 
قسط 2

آج تینوں ٹینشن میں تھیں آج انکا ریزلٹ آنے والا تھا
یار پاس تو ہوجائیں گے نا؟
سارہ نے دونوں سے پوچھا جو خود ٹینشن میں چکر کاٹ رہی تھی 
"یار پیپر تو اچھے گئے ہیں الله کرے ریزلٹ بھی اچھا آجاہے
"کچھ دیر میں پتا چل ہی جائے گا اب کھرے کھرے ریزلٹ خود چل کر تو آنے سے رہا اس سے اچھا پیروں کو تھوڑا سکون دے دیں" 
یہ کہ کر عنایہ وہیں گاس پر بھیٹ گئی
دور سے اسکی ڈیپارٹمنٹ کی ایک لڑکی انکے پاس آکر کہنے لگی
"ریزلٹ آگیا ہے تم لوگوں نے چیک کیا؟"
یہ سن کر تینوں نے ڈیپارٹمنٹ کی طرف دوڑ لگائی
وہاں پہنچ کر رش میں سے گھس کر وہ ریزلٹ بورڈ تک آئیں آبش نے ٹاپ کیا تھا جب کے دوسری پوزیشن پر عنایہ پاس ہوئی تھی وہ دونوں اتنا خوش تھیں اپنے رزلٹ کو دیکھ کر ایسے ڈانس کرہی تھیں جیسے وہ یونی میں نہیں اپنے گھر میں بیٹھی ہوں جب آگے پیچھے کے سٹوڈنٹس انہیں گھوڑ کر دیکھنے لگے تب انھیں سمجھ آئی کے وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ۔۔۔
"ہم گھر جا کر ڈانس کریں گے"
عنایہ نے اسکے کان میں کھا  
وہ بھی ہاں میں ہاں ملا کر اپنے اندر کے ڈانسر کو بیٹھا رہی تھی 
جب سارہ پر نظر پری تو حیران کن نظروں سے وہ دونوں اسے دیکھنے لگیں
وہ ایک ایک بندے کو پکڑ پکڑ کر اپنا ریزلٹ بتا رہی تھی جیسے اسنے پوری یونی میں ٹاپ کیا ہو
"ہم سے زیادہ تو یہ خوش لگ رہی ہے جب کے اسکے پیپر تو تھے ہی فیل ہونے والے"
عنایہ نے آبش سے کہا 
"چلو چل کر پوچھتے ہیں"
"ہاں چلو"
دونوں اسکے پاس پہنچیں 
عنایہ نے اسے پوچھا 
"تم اتنی خوش ہو کیا۔ وجہ ہے تمھارا ریزلٹ کچھ انوکھا بن کر آیا ہے کیا؟"
یہ بات سن کر وہ دونوں کو بورڈ کے اس پار لے کر گئی جہاں سٹوڈنٹس کے رزلٹ تھے 
"یہ دیکھو"
وو بورڈ کی طرف انگلی کرکے کہنے لگی جہاں سب سے آخر میں اسکا نام تھا
دونوں اسکی شکل دیکھ رہی تھیں کہیں مارکس کم آنے سے دماغ تو نہیں گھوم گیا 
"سارہ کوئی بات نہیں ہے تم نیکسٹ ٹائم اور محنت کرنا تو اچھے مارکس آجائیں گے" 
آبش نے سمبھل کر کہا 
کہیں یہ اس پر ہی نا چڑھ جاے اسے پاگلوں والی فلم دماغ میں گھومی جس مے پاگل انسان سب سے پہلے اپنے دوستوں کا مرڈر کرتا ہے 
ارے تم لوگ نے غوڑ“ سے نہیں دیکھا 
"میں پاس ہوگئی ہوں"
سارہ نے پر جوش لہجے میں کہا
"تمھارے مارکس کتنے کم آئے ہیں " 
اسکو تو دیکھو ان نمبرز کی میری زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے میں پاس ہوگئی میرے لیے یہی بہت ہے ہٹادو یہ نمبرز میرے سامنے سے "
سارہ ایک ادارکارہ کی طرح کہنے لگی 
دونوں اسکو دیکھ کر سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئیں
"اسکا کچھ نی ہوسکتا"
دونوں نے مل کر کہا
اور اسکو دیکھ کر ہسنے لگیں جو دوبارہ سب کو پکڑ پکڑ کر اپنا ریزلٹ دیکھا رہی تھی
*****
"سر غلطی ہوگئی پیلز مجھے معاف کردیں"
"دیکھو میرا ایک رول ہے مجھے ہر چیز پہلی باڑھی میں ہی پرفیکٹ چاہیے ہوتی ہے جو تم سے نہیں ہوسگی اور ساتھ ساتھ تم نے ایک اور غلطی بھی دوڑا دی؟؟ تو بتاؤ اب اسکی معافی کیسے دوں "
وو ہاتھ میں چھڑی کو لے کر گھوما کر پوچھ رہا تھا  
 چھڑی دھیکنے میں تو چھوٹی سی تھی لیکن کام بہت بڑے بڑے کرتی تھی 
اسنے ہاتھ بڑھا کر اسکی 3 انگلیاں کاٹ دیں ۔
اور کہنے لگا پورے کمرے میں اسکی چیخ گونجی اور پھر وہ بےحونش ہوگیا 
کمرے میں صرف چھوٹی سی لائٹ لگی ہوئی تھی اور بیچ میں چھوٹا سا ٹیبل رکھا ہوا تھا
"اسکے اوپر پانی ڈالو 2 دن بھوکا پیاسا رکھو اور اگلے دن گولی مار دو میں زیادہ ظلم نہیں کرتا "
وہ گارڈ کو کہتا ہوا کمرے میں چلا گیا 
*****
حسن کی جاب بہت مشکل تھی وہ افسر تو بن گیا تھا لیکن اسکے اوپر زمیداری آگئی تھی جس سے وہ کبی پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا وہ ہر چیز ایک ترتیب سے کرنا جانتا تھا 
"بیٹا تو کب آئےگا تو جانتا ہے نا تیرے بغیر یہ گھر کتنا خالی ہوگیا ہے"
" ماں میں جلد آئوں گا آپ میرے ساتھ اسلام آباد بھی تو نہیں آتیں " 
اسنے ماں کو سمجھانے کی کوسش کی
"نہیں بیٹا میں وہاں نہیں آسکتی یہاں تمھارے ابو کی یادیں ہیں میں یہ سب نہیں چھوڑ سکتی"
"ٹھیک ہے امی جیسا آپ کو سہی لگے لیکن جب آپکا دل مانے آپ فوراً اپنے بیٹے کو کہیےگا"
حسن کو پتا تھا وہ کبھی نہیں آئینگی وہ کبھی اپنا گھر چھوڑ کر نہیں آئے گی اسلیے اسنے زیادہ فورس نہیں کیا
"ہاں میری جان جیسا تم کہو"
انہوں نے ہنس کر جواب دیا 
"چلیں امی بعد میں بات کرتا ہوں میری ڈیوٹی کا ٹائم ہورہا ہے"
حسن گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہویے بولا 
"ہاں بیٹا جاؤ سدا خوش رہو خدا حافظ فی اماناللہ"
اسکی ماں نے دعا دیتے ہوے کہا
"جی امی آپ بھی اپنا بہت خیال رکھیےگا خدا حافظ"۔
یہ کہ کر اسنے فون رکھ دیا
___________
سارہ میں کیا سوچ رہی تھی کہ یونی ختم ہونے کے بعد کیا کریں گے؟ 
عنایہ اسکے ساتھ ڈیپارٹمنٹ کی سیڑیوں پر بیھٹی تھی آج انکے سر کی کلاس کی چھٹی تھی
"میں تو اکیلے باہر ملک چلی جاونگی"
سارہ نے بیگ کو سائیڈ پر رکھتے ہویے کہا
"تم سچ میں باہر چلی جاؤگی"
عنایہ حیران کن انکھوں سے اسے دیکھنے لگی 
"ارے پاگل مجھے یونی تک کوئی اکیلا چھوڑتا نہیں ہے باہر ملک کون جانے دیگا"
سارہ ہستے ہویے کہنے لگی 
"یار تم کبھی سیریس نہیں ہوسکتی"
"نا جو مزہ مذاق میں ہے وہ کسی اور میں نہیں دل کو جو سکون ملتا ہے نا وہ کسی اور چیز میں نہیں ملتا "
سارہ پھر سے اپنے اداکاری کے روپ میں آکر کہنے لگی 
"چلو کلاس کا ٹائم ہورہا ہے "
مبادا اسکی کیسٹ کو بند ہونے کو ہی نہیں آتی تھی 
" «ہاں چلو "
سارہ اپنا بیگ اٹھاتی ہوئی بولی
*****
"میں نے بہت ساری تصویریں لی ہیں اب بتاؤ کیا کرنا ہے"
وہ گھر کے باہر کھڑا تھا اسنے سیکرڑی کو فون کرکے کہا
پانچ منٹ کے بعد ایک لڑکا اس سے کہنے لگا 
"تمہیں بوس اندر بلا رہے ہیں"
"چلو"
" اندر آپ خود چلے جائیں "
وہ لڑکا اسے بوس کے کیبن کے دروازے پر چھوڑ کر چلا گیا
اسنے تھوڑا گھبرا کر دروازہ نوک کیا 
" یس کم ان "
"ٹیبل پر تصویریں رکھ دو اور الٹے قدم واپس چلے جاو تمہارے پیسے تمھیں مل جائیں گے"
اسنے کرسی سے بنا مرے ہی آرڈر دے دیا 
" جی بوس "
وہ الٹے قدم ہی واپس چلا گیا 
پھر اسنے کرسی گھوما کر سیدھی کی اور اٹھ کر تصویریں کو دیکھنے لگا
" ہممم انٹرسٹنگ "
وہ ایک تصویر کو ہاتھ میں لے کر کہنے لگا
****
"مجھے آدھے گھنٹے میں لڑکیوں کے سارے اچھے اور مہنگے برانڈڈ کے کپڑے چائیں اینی ہاو"
"جی بوس"
" یہ بوس کو کیا ہوگیا ہے ضرور اسی لڑکی کے لیے کر رہے ہونگے "
من ہی من اسکا سیکرڑی سوچ رہا تھا 
"اب یہاں کھڑے کھڑے میرا منہ دیکھنے کا ارادہ ہے"
"اوٹ اور جب ہی اپنی شکل دیکھانا جب کام پورا ہوجاے" 
وہ اسکو اسے کھرے کھڑے رہنے پر بولا 
"جی بوس"
گھبراتے ہویے کہ کر آفس کے کمرے سے باہر نکل گیا 
****
"یہ تمہارے کپڑے ہے جو دل کرے پہن لینا"
وہ بیڈ پر کپڑوں سے بھرا بیگ رکھتے ہویے بولا
وہ واشروم سے نکل کر اسے کمرے میں پا کر بھڑک گئی اٹھی
"مجھے نہیں چاہیے تمہارے کپڑے اپنے پاس ہی رکھو"
وہ بیگ کو زمین پر پھیکتی ہوئی بولی
"تمھیں شرافت کی زبان سمجھ نہیں آتی"
وہ اسکے پاس آکر کہنے لگا 
"دور رہ کر بات کرنا نہیں آتا تمھیں"
وہ گھبراہٹ میں بار بار اپنا دوپٹہ سہی کرہی تھی
وہ اسکی ہر حرکت کو نوٹ کرکے محفوظ ہورہا تھا اور کرسی کھیچ کر اسکے سامنے بیٹھ گیا
"گھورنا بند کرو عجوبہ نہیں لگ رہی ہوں"
اسکے گھورنے پر وہ تلملا کر بولی
اسکی بات پر اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی
"اب تم ان میں سے ہی کپڑے پہنو گی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا"
وہ روب دار لہجے میں کہ کر کمرے سے باہر نکل گیا اسکے منع کرنے پر اسے ضد ہو چلی تھی 
" میری جوتی بھی نا پہنے یہ کپڑے ہونہ کیسے بول کر گیا مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اپنے آپ کو چنگیز خان سمجھتا ہے "
وہ اسکی ایکٹنگ کرتے ہویے بولی 
پھر کچھ سوچ کر اسکے چہرے پر شیطانی مسکرہٹ آئ 
سارے کپڑے بیگ سے نکال کر واشروم لی جا کر انہیں ماچس کی مدد سے جلایا جو اسے بہت مشکل سے ہر دراز چیک کرنے کے بعد ملا
"مجھ سے پنگا لے رہا تھا بہت بھرم سے کہ کر گیا تھا نا اب دیکھ ذرا"  
جلے ہویے کپڑو کو دیکھ کر ایک فاتحہ مسکراہت کے ساتھ وہ واشروم سے باہر نکل گئی
____________
"یار میں گاؤں جارہی ہوں پانچ دن کے لیے یونی سے چھٹی لونگی "
سارہ گھاس پر بھیٹتی ہوئی بولی
تینوں روزانہ یونی کی چھٹی کے بعد پانچ دس منٹ گارڈن کے گھاس پر بھیٹ کر تھکن اتارتی تھیں
"تمھارا پڑھائی میں لوس ہوگا"
آبش اسکی بات سن کر فرن بولی
جب کے عنایہ اپنے نوٹس دیکھ رہی تھی 
"ہاں جانتی ہوں یار پر جانا بھی ضروری ہے جب کے مجھے بلکل نہیں پسند وہاں جانا ایک تو وہاں کے کپڑے چاند ستارو والے ہوتے ہیں جو مجھے اتنے زہر لگتے ہے اور اگر اپنے کپڑے پہن لو تو عورتیں اسے دیکھتی ہیں جیسے میں پلوٹو سے آئ ہوں"
سارہ منہ کے زاویہ بگاڑ کر بولی 
تم نہیں جاؤ جب تمھے پسند نہیں ہے تو•••
آبش نے جیسے مسلے کا حل بتایا
"کہ تو رہی ہوں جانا ضروری ہے ایک بات کہوں یہ جو گھر میں سب سے۔ بڑی ہوتی ہیں نا جسکے سامنے پاپا کی بھی نہیں چلتی جس کے پیروں تلے جنّت ہوتی ہے وہ جب اپنی اولاد کو بلیک میل کرتی ہے تب وہ بےبس ہوجاتی ہے نا تو بول سکتی ہے نا سہ سکتی ہے بس اب میں تم لوگوں کو اپنی کتنی دھک بھری کہانیاں سناؤں اتنے درد ہے جو بیان بھی نہیں ہوسکتے "
سارہ اپنے۔ نا آنے والے۔ آنسو کو صاف کرتے ہویے بولی 
"پھر شروع ہوگئی اسکی اداکاری"
عنایہ اپنے نوٹس پر سے نظر ہٹا کر کہنے لگی
"بس عادت سے مجبور ہوں" 
سارہ نے کہتے ساتھ جاندار قہقہ لگایا
اسکو دیکھ کر یہ دونوں بھی ہسنے لگی
*****
تھوڑی دیر تو وہ چھت کو گھور رہی تھی 
اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں ہے اسکا اتنا سر گھوم رہا تھا 
"میں کہاں ہوں"
تھوڑا ہوش سمبھال کر فرش سے اٹھتے ہوئی بولی
"مجھے یہاں کون لایا ہے مجھے گھر جانا ہے"
وہ اٹھ کر دروازہ باجانے لگی 
" مجھے نکالو یہاں سے کوئی ہے کون مجھے یہاں لے کر آیا ہے مجھے یہاں سے جانا ہے "
جب کافی دیر بجانے کے بعد بھی کسی نے جواب نہیں دیا تو تھک ہار کر وہیں دروازے کے پاس گھٹنوں میں سر دیے رونے لگی 
اسے نہیں پتا تھا کہ وہ یہاں کیسے آی بس اتنا یاد تھا کہ وہ جب گھر سے نکل کر باہر واک کے لئے جارہی تھی تو ایک بلیک کار اسکے سامنے رکی اور دو بندے منہ پر ماسک لگا کر اسکے پاس آئے۔۔ اسکے منہ پر کپڑا رکھے کے اسکو حوش وحواس سے بیگانہ کیا اسکے بعد کیا ہوا اسے کچھ یاد نہیں ہے
" یہاں کوئی تمہاری مدد نہیں کریگا سب بےبس ہیں جو بھی یہاں آتا ہے وہ کھبی واپس نہیں جاتا "
ایک عورت اسکے پاس آکر کہنے لگی 
ویسے تو وہ کسی کو منہ بھی نہیں لگاتی لیکن اسے یہ معصوم سی لڑکی اچھی لگی
اسنے سر اٹھا کر دیکھا وہ دیکھ کم اور گھور زیادہ رہی تھی یا شاید اسے ایسا لگا جس حال میں وہ تھی کوئی بھی ایسا ہی سمجھتا 
وہ ایک دم ڈر کر پیچھے ہوئی پھر اس پاس دیکھا تو بہت سی لڑکیاں وہاں موجود تھیں جو خود بھی ڈری ہوئیں تھی 
"ڈرو نہیں میں تمھیں کچھ نہیں کر رہی "
"پلیز مجھے جانے دو میں نے تم لوگوں کا کیا بگاڑا ہے میری فیملی بہت پریشان ہوگی" 
وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی 
"میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے جو ہوتا ہے وہ بوس کے کہنے سے ہی ہوتا ہے میں تو صرف ایک ملازمہ ہوں" 
ملازمہ اسکے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی 
اسنے اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں سے نکال لیے 
"آپ ہماری مدد ہی کردیں نکالنے میں اللّه آپ کو اسکا بہت اجر دیگا"
وہ ایک بار پھر کوشش کرنے لگی 
ملازمہ نے سوچا اگر میں نے انھیں نکال دیا تو بوس میرا کیا حال کرینگے وہ تو غلطی کی بھی معافی نہیں دیتے پھر یہ تو پورے پلان کے ساتھ ہوگا
"نہیں میں ایسا کچھ نہیں کرسکتی تم اب یہی رہوگی تم سمجھ ای"
ملازمہ کو تھوڑا سخت ہونا پرا تاکے یہ کچھ اور نا کہے پر ترس بھی آرہا تھا ایسا نہیں تھا کہ یہ کام یہ پہلی بار کررہی ہے اسنے بہت سی لڑکیاں یہاں دیکھی ہے جو کبھی خود چل کر آتی ہیں یا پیار میں بہک کر یہ پہلی لڑکی تھی جسے کڈنیپ کیا گیا تھا اسکے چہرے پر الگ ہی نور تھا۔ جو دیکھنے والے کو دوبارہ دیکھنے پر مجبور کردے.. بلاشبہ وہ حسن و پیکر کا کمال تھی جو لوگوں کو اپنے حسن سے اٹریکٹ کرنے کا ہنر جانتی تھی 
"کہاں پھس گئی ہوں میں اللّه میاں میری مدد کردیں"
وہ دل ہی دل میں دعا ماگنے لگی
*****
"میں نے کہاں بھی تھا مجھ سے نہیں پہنے جاتے یہ چاند ستارے پھر بھی امی نے مجھے ایسے کپڑے دے دیے 
مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتا یہ اتنے بھاری لہنگے لوگ پہن کیسے لیتے ہیں مجھے تو دیکھ کر ہی جھجھری ہونے لگی
ہے "
سارہ کپڑوں میں اُلج کر کوفت سے کہ رہی تھی
آج نکاح تھا یہ لوگ تین دن سے آے ہوئے تھا انکا پروگرام نکاح اور کل ولیمہ اٹینڈ کرکے روانگی کا تھا۔۔ سارہ کے دو ہی تایا تھے ایک سب سے بڑے فاروق صحاب اور انکی بیوی زلیخا انکے دو ہی بیٹے تھے زایان اور شایان جب کہ دوسرے بھائی اسد صحاب اور انکی بیوی انیلہ انکی ایک ہی بیٹی تھی ابریش سارہ کے ابو (وقار صحاب) شروع سے ہی شہر میں رہتے تھے انہوں نے پڑھائی کے دوران وہیں شادی کرلی۔۔ اور اپنا کاروبار کھولا جو بہت کم وقت میں پروان چڑھا انکو پیسو کی لالچ نہیں تھی جتنا آتا تھا اُسی میں شکر کرتے تھے کچھ عرصے بعد انکے بھائی بھابی کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا وہ دونوں بھائی ساتھ رہتے تھے اپنے اپنے پورشن میں جب انکو یہ خبر ملی کے انکے عزیز اسد بھائی اور بھابی دنیا حقیقی سے چل بسے تو پل بھر میں گھر میں قیامت سا سماں ہوگیا اسکے بعد سے ہی ابریش فاروق صاحب کے ساتھ ہی رہنے لگی اور انہوں نے ابریش کی شادی اپنے بیٹے سے کروا دی پھر سال بعد اللّه نے انہیں ایک بیٹی سے نوازا جو گھر میں سب کی جان بن گئی اور آج انکے دوسرے بیٹے کی شادی ہے 
" ماشااللّه کتنے پیارے لگ رہے ہیں اللّه نظر بد سے بچاے "
میسز فاروق دونوں کو اسٹیج پر دیکھ کر کہنے لگی 
اسٹیج پر بیٹھی وہ ریڈ اینڈ گولڈن شرارے میں نفاست سے کیے میک اپ کے ساتھ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ نظریں نیچے جھکی ہوئیں تھیں جو شایان کے دل کے تار ہلا رہیں تھیں شایان خود تھری پیس میں ملبوس کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا۔۔ دونوں کو لوگ ستائشی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔اسٹیج پر شایان کے دوست اسکو گھیرے ہوۓ تھے۔۔
"بہت بہت مبارک ہو میرے یار "
سلمان اسکے گلے لگتے ہویے کہنے لگا 
" خیر مبارک تمھیں آنے کی فرست مل گئی "
شایان اس سے خفا لہجے میں کہنے لگا 
" یار بس کیا کروں سب دیکھنا پڑتا ہے "
سلمان اسکے پاس بھیٹتے ہوئے بتانے لگا 
" ہاں تیرے تو بیوی بچے ہے نا کہ تو یہاں آگیا تو بیوی روٹھ جاےگی اور بچوں کو اسکول چھوڑنا ہے ورنہ پڑھائی کا حرج ہو جایگا "
دونوں کا جاندار قہقہ گونجا
اسکا یہی دوست شہر سے آیا تھا جو یونی میں پڑھتا تھا اور ساتھ ساتھ جاب بھی کرتا تھا محض اپنے شوق کے لیے 
" کھانا کھا کر جانا "
" جیسا آپکا حکم "
سلمان سر کو خم دیتا اسٹیج سے اتر گیا 
" یہاں کا صرف کھانا ہی اچھا ہے ورنہ کپڑے اور عورتین اللّه معافی دے"
سارہ کھانے کے ساتھ انصاف کرتے ہویے من ہی من کہنے لگی  
جب بوتل کے لیے ٹیبل پر ہاتھ بڑھایا تو ایک عورت اسے گھور رہی تھی جیسے بوتل اسکے پیسو کی تھی اور کھانا بھی اسنے مزدوری کرکے رکھا ہو مجھے کیا شاید میں اچھی لگ رہی ہونگی 
سارہ آنٹی کو مسکرا کر دیکھ کر من ہی من خوش ہورہی تھی 
"انٹی آپ لےلیں میں دوسری لیلتی ہوں "
سارہ بوتل انکے پاس رکھتی ہوئی بولی 
"نہیں تم ہی پی لو "
آنٹی نے روکھے لہجے میں کہا 
" ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی "
سارہ نے اپنی طرف بوتل کی 
"شکر ہے آنٹی نے ہاں نہیں کہا ورنہ بوتل لینے کے لیے اٹھنا پڑتا جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے یا اللّه تیرا شکر "
سارہ من ہی من سوچ کر مسکرانے لگی
وہ جب کھانے کی طرف بڑھا تو اسے ایک لڑکی دیکھی جو کھانے کے ساتھ بھرپور انصاف کررہی تھی وہ کب سے کھڑا اسکی حرکتیں ہی نوٹ کررہا تھا جیسے سمجھنے کی کوشش کررہا ہو کہ یہ من ہی من کیا۔ سوچ کر مسکرا رہی ہے وہ تھوڑی دیر اسی طرح کھڑا رہ کر ایسے ہی دیکھ رہا تھا وہ کھبی اپنا لہنگا سمبھال رہی تھی کھبی کھانے کے بڑے بڑے نوالے لے رہی تھی میں کیوں اسے دیکھ رہا ہو یہ غلط ہے یہ میں کیا کررہا ہوں
 پر یہ کچھ زیادہ ہی انوکھی ہی ہے 
وہ نا چاہتے ہویے بھی اسکے بارے میں سوچ رہا تھا 
" پاگل لڑکی "
سلمان نے مسکرا کر کہا 
اور کھانے کی طرف بڑھ گیا.

جاری ہے