ناول: نشہ_عشق🌹
از : حنا 
قسط 1

اس کی یونی کا دوسرا سمسٹر چل رہا تھا آج اس کا آخری پیپر تھا کیسا گیا پیپر۔۔؟
ویسے جان چھٹی پیپر سے کل کہیں لنچ کرنے چلیں گے سارا نے سکھ کا سانس لے کر عنایہ سے پوچھا جو اس کے ساتھ چل رہی تھی۔

ارادے تو اچھے ہیں اور پیپر تو بہت اچھا گیا پر میں بھی تھک گی ہوں اس بہانے اوارہ گردی کرنے کو ملے گی عنایہ نے بھی خوش ھو کر کہا۔۔

سارہ نے سر پکڑ سوچا یہ کبھی نہں سدھرنے والی۔۔

  دور سے بھاگتھی ہوی اس کی ایک اور دوست آئی ان سے زیادہ تو وہ خوش لگ رہی تھی جیسے سارے پیپر میں اسی نے ٹوپ کرنا ھو اسکے برکس وہ اس لیے خوش تھی کہ پیپر جیسی بلا سر سے اتری
کیسے ہو تم لوگ۔۔؟

ہم تو ٹھیک ہے تم کب سے کہاں تھی وہ جانتی تھی یہ کچھ کارنامہ کرکے آٸ ہو گی

وہ میں کچھ لڑکوں کا منہ توڑ کر آئی ہوں وہ مجھ سے فری ھونے کی کوشش کر رہے تھے ابھی وہ مجھے جانتے نہیں ہے کراٹے کی کلاسس لیں ہیں میں نے۔۔
وہ ایسے فخر سے بتا رہی تھی جیسے ولڈ ریکارڈ قاہم کر کے آٸ ہو۔۔

اور اسی کلاس میں تم ایک بار فیل بھی ہوی ہو عنایہ نے سنجیدگی سا کہاتو تینوں ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر ہنس پریں۔۔

ان تینوں کی دوستی 
تھی ہی انمول یہ تینوں پورے یونی میں مشہور تھیں ایک پڑھنے میں تیز بلکہ دوسری پڑھای سے بھاگنے والی جبکہ تیسری پوری یونی کی خبر رکھنے والی اور سب کی دکھتی رگ کو جان کر اس سے راز اگلنے والی تینوں ایک دوسرے سے بلکل الگ تھیں پھر بھی ان تینوں میں دوستی گہری اور ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والی تھی کوی بھی پریشانی میں ھوتی تو سارے کام چھوڑ کر ایک دوسرے کی مدد کے لے پہنچ جاتیں ایسی انوکھی دوستی تھی ان کی۔۔

ایک دفعہ سارہ کا پیپر اچھا نہیں ہوا تھا تو وہ اپنی ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر سر جھکا کر رونے میں مشغول تھی کہ تبھی وہ دونوں اسے ڈھونڈتے ڈھونتے وہاں پہنچیں تو وہ گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی تو وہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی اور پوچھنے "لگی کیا ہوا ہے تم اتنا رو کیوں رہی ہو"

سارا نے روتے ہوئے کہا "میرا پیپر اچھا نہیں ہوا میں فیل ہو جاؤ گی تم لوگ کچھ کرو اگر میں فیل ہوگی تو پورے خاندان میں عزت افزای ھو جاے گی" وہ سر اٹھا کر بولی 

"یہ تو تجھے پہلے سوچنا چاھیے میں تجھے کتنا بولتی تھی پڑھ لے لیکن نہیں انہیں تو بس سوشل میڈیا سے ہی فرست نہیں اب انہی فینز کو بول تجھے پاس کرا دے گے" ابش نے تپ کر کہا 

"اف تم لوگ لڑنا تو بند کرو کچھ سوچتے ہیں" کہ اتنے میں وہی پروفیسر نظر آئے جس کے پیپر مہں ڈر تھا کہ فیل نہ ھوجاے کچھ سوچ کر وہ دونوں

پروفیسر کے پاس گئی "سر آپ سے کچھ بات کرنی ہے" معصوم شکل بنا کر بولی جیسے لگ رہا ہوں ساری معصومیت اسی کے پاس ہے لیکن کون جانے کے معصوم شکلوں کے پیچھے شیطانی شخصیت بھی شامل ہیں یہ ان خوش نصیبوں میں سے ہے جن کی شکلیں معصوم اور دماغ شیطانی ہوتے ہیں اس کے نین نقش ہی ایسے تھے جس سے وہ کسی کو بھی بےوقوف بنا سکتی ہیں وہ لگتی بھی معصوم سی ہے بھوری آنکھیں چھوٹی سی ناک گلابی گال اور ہر اسکاف میں کور اسکے بال اسے اور حسین بناتے تھے

"سر اس کی دادی انتقال ہوگیا ہے بچاری اپنی دادی سے بہت پیار کرتی تھی ماں سمان تھی اس کے لیے اس لیے آج اس سے پیپر بھی نہں دیا جا رہا تھا" وہ دنوں مگر مچھ کے آنسو بہا کر سر کو بھی غمزدہ کر رہیں تھیں تیر نشانے پر جارہا تھا عنایہ نے من ہی من سوچا اور سر آپ اسے دیکھیں رو رو کر خود کو ہلکان کر رہی ہے آپ اسے سمجھائیں جیسے جیسے وہ بول رہی تھی ابش نہ چاہتے ہوے بھی اسکے جھوٹے ایکسپریشن میں ساتھ دے رہی تھی کتنی اور ایکٹنگ کر رہی ہے من ہی من میں سوچ رہی تھی ساتھ تو نبھانا تھا دوستی کا بھرم بھی تو رکھنا تھا اتنے میں سر نے کہا

مجھے بتاو کہاں ہے تمھاری دوست وہ تھے بھی تھورے ایموشنل ٹاٸپ کے ورنہ باقی پروفیسر تو بھاٶ بھی نہیں دیتے تینوں اسک پاس پوچھے "کیا ھوا تھا تمہاری دادی کو " سر گمزدہ لہجے میں پوچھنے لگے یہ برتاو دیکھ کر حیران کن آنکھوں سے باری باری دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ تب دونوں کے چہروں پر شرارتی مسکراہٹ دیکھ کر کچھ تھوڑا بہت سمجھ کر سر سے کہا
بس سر انکی طبیعت بہت خراب رہتی تھی
اس نے زیادہ کچھ نہں کہا پتا نہں تھا ان دونوں نے کیا کہا ہے

"سر میرا پیپر بھی اچھا نہں ہوا" وہ دوبارہ روتے ہوے بولی 

سر اسے پیپر بھی نہیں دیا جا رہا تھا بیچاری بہت یاد کر رہی تھی بیچاری قومہ سے واپس آی ہیں عنایہ نے غم زدہ لہجے کہا 
ہیںںںںںں
تینوں نے حیرانی میں ایک ساتھ کہا اوور ایکٹنگ میں کچھ زیادہ ہی بول گئی تھی "میرا مطلب ہے ہسپتال پہنچ گئی تھی اس کی بھی حالت خراب ہوگئی تھی سر بہت مشکل سے سنبھالا ہے ہم نے" عنایہ نے روتی شکل بنا کر کہا

" ٹھیک ہو جائے گا ایک دن تو سبھی نے جانا ہوتا تو پریشان نہ ہو اللہ آپ کو صبر دے" دونوں نے سکھ کا سانس لے کر عنایہ کو گھوڑا اور من میں ڈھیر ساری گالیوں سے نوازہ

"سر اپ سے ایک ریکویسٹ ہیں" ابش نے افسوس سے کہا سر بھی ہمدردی میں پوچھنے لگے "سر اسکو اپکے پیپر میں پاس کردیں اپنے بیچاری بہت ڈیپرس میں ہیں اپ تھوڑا ساتھ دیں دیں اپ کا احسان ھم کھبی نہں بھولے گے" 

"ایسا نہں ہوسکتا یہ سب رول کے خلاف ہیں" سر نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی انہیں اپنا پلان فیل ھوتا نظر آرہا تھا سر آپ سمجھیں اسکی حالت پلیز سر کچھ تو کردے عنایہ نے تھوڑی بہت امید سے کہا 

میں کوشش کرسکتا ہوں لیکن وعدہ نہیں کرتا وہ کہ کر دکھ بھری نگاہ سے سارہ کو دیکھ کر چلے گے انہیں اپنی دادی یاد آگی تھی جو کچھ وقت پہلے ہی دنیا سے چلی گی تھی
اگر انہوں نے پاس نہ کیا تو سارہ پریشانی میں کہا 
ارے تم لوگ فکر ہی نہ کرو سر کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے ایسے پاس کرے گے کہ تو نتیجا دیکھ کر کنفیوس ہوجاے گی کہ یہ سچ میں میرے ہی مارکس ہے عنایہ نے ایسے اترا کر کہا پھر تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کے زور سے ہسنے لگیں
___________
"کام ہوگیا"
"جی بوس مال پہنچا دیا ہے اب تک تو پہچنے والا ہوگا"
اسکے سیکرڑی نے کہا
"ہمم گڈ اگر کچھ غلطی ہوی تو کل سے اپنی شکل مت دیکھانا"
یہ کہ کر اسنے فون رکھ دیا
سیکرڑی نے اپنے چہرے پر آئے پسینے کو صاف کر کے فون کو دیکھا 
"کچھ گربر ہوگی تو بوس نے کچا چبا جانا ہے سب اچھے سے ہو جاے"
وہ من ہی من کہنے لگا
*******
وہ گھٹنوں پر سر دیے رو رہی تھی ایک دم سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو وہ خوف کے مارے سر اٹھا نا سکی وہ جانتی تھی آنے والا شخص کون ہے پھر بھی اس کے اندر ہمت نہیں تھی کہ وہ سر اٹھا کے دیکھتی اسکی چاپ دھیرے دھیرے تیز ھو رہی تھی جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا ویسے ویسے اسکی دھڑکن تیز ھو رہی تھی اس نے اپنی آنکھیں میچ رکھی تھیں وہ شخص دو زانوں زمین پر اس کے سامنے بیٹھا اور شہادت کی انگلی سے اسکی تھوری کو اوپر کیا خوف سے اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا آنکھے رونے کی وجہ سے سوجھ گئی تھیں اس کے چھونے سے اس کو کپکپی طاری ہو گئی وہ اسے تھوڑی دیر ایسے ہی دیکھتا رہا پھر کچھ سوچھ کر کمرے سے چلا گیا
****
"یار مجھے کوی آرمی یا پی۔ایے۔ایف میں ڈال دیں مجھے انتہا کے پسند ہیں کوئی تو ایسا ہو جو کہے چل اٹھ اور جا اپنے وطن کے لیے کچھ کر میں زرا بھی نہں پوچھوں گی مجھے کیوں ڈالا پر افسوس ایسا نہں ہوسکتا"
ابش دونوں ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھ کر افسوس سے کہنے لگی
وہ تینوں کیفے میں بیٹھی تھیں صرف سارہ کی بار بار بھوک کے نعرے سے تنگ اکر انہے کیفے کا رخ کرنا پرا کیفے کے اندر گھستے ہی سارہ نے کیٹین کی طرف دور لگا دی جیسے اگر وہ نہ گی تو کھانا ختم ہوجاے گا وہ بھوک کی بہت کچی تھی زرا سی بھوک پر اسے چکر آنا شروع ہوجاتے ہیں وہ الگ بات ہے بھوک اسے تب ہی لگتی تھی جب کسی دوسرے کو کھاتا دیکھتی تھی اب کھلانا تو تھا ورنہ اسکے چکر کون برداشت کرتا وہ لائن میں لگی جبکہ وہ دونوں وہیں کرسی پر بیٹھ گئیں ابش نے اپنا موبائل نکال کر فیس بک چیک کیا اتنے میں اسے آرمی کی اسمبلی کی وڈیو دکھی بس یہی سے اسکا ریڈیو شروع ہوگیا 
"یار تو کچھ کر نہ مجھے آرمی میں بھیج دے وہاں نہیں بھیج سکتی تو پی۔ایے۔ایف میں ہی بھیج دے کہی تو بھیج دے"
وہ عنایہ کو جنجھوڑ کر کہنے لگی 
عنایہ جو سارہ کو آتے ہوے دیکھ رہی تھی ایک دم گڑبڑا گی 
"انسان بن جاو ڈرا ہی دیا تم نے مجھے انسانوں والی خوبی تو کہیں ہے ہی نہں تم میں"
عنایہ سینے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی
"تو بھی جانتی ہے یہ ممکن نہںں ہے تیری فیملی نے تجھے یہاں بھیج دیا وہ بھی غنیمت سمجھ کر شکر ادا کر کے یہاں بھی بھیجا بہت سی لڑکیاں تو اس چیز سے بھی محروم ہیں"
اور یہ سچ بھی تھا بہت ۔منت سماجت کرکے اسے یونی کی پرمیشن ملی تھی کیوں کے وہ پرھائی میں اچھی تھی یہی چیز اسے آگے برھنے میں مدد کی
  اسکا اترا ہوا چہرا دیکھ کر اسکو سمجھانے کی کوشش کی پر امید نہںں تھی کہ اسکو سمجھ آئی گی
پر مجھے کوی ایک موقعہ دے میں آرمی میں اپنا ریکاڈ بنا کر دیکھائوں گی 
وہ پرسوچ انداز میں کہنے لگی
جبکہ سارہ برگر کے ساتھ اچھا کھاسا انصاف کر رہی تھی 
ویسے ہی وہ آبش کی باتوں سے نپ رہی تھی اوپر سے سارہ ایسے کھانے میں مغن مشغول تھی کے اسے وقت ہی نہںں پتا چلا کے اگلی کلاس کا ٹاءم ہوگیا ہے 
"تم دونوں اٹھ رہے ہو یا میں اکیلی چلی جاو"
آبش نے سمبھل کر کہا
"نہںں مجھے تو بہت مزا آرہا ہے کتنا اچھا ویو ہورہا ہے میں تو سوچھ رہی ہوں کل اپنا بستر بھی یہی لے آتی ہوں ایک کام اور کرلیتے ہیں پروفیسر کو کہ دیتے ہے ہمیں پرھنا نہں ہے اسکو اپ کیفے دیں یں بکس کے بدلے"
سارہ کی طرف اشارہ کیا
"اور آپکے کوی جانے والے ہوں آرمی کے تو اُسکی شادی کروا دیں اسے"
عنایہ نے تپ کر کہا
جبکہ وہ دونوں اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہی تھی 
اور تم بس کرو کھانا اتنا پتا نہیں کہا جاتا ہے 
عنایہ اپنا بیگ اٹھاتی ہوی بولی
سارہ نے بھی جلدی جلدی اپنے منہ میں جیسے تہسے ڈالا اور بیگ اٹھا کر کلاس کے لہے جانے لگی 
آبش بھی موبائل کو پیار سے دیکھ کر بیگ اٹھا کر چلنے لگی
___________
"میں نے تہمیں کچھ کام دیا تھا"
"بوس ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کام جلد ہوجاے لیکن اسمیں بہت رسک ہے"
سیکرڑی نے فون پر اسے سمجھانے کی کوشش کی
"میں نے تم سے وجہ پوچھی؟؟ میں جانتا ہوں کس کام میں کتنا رسک ہے تو آگے سے بولنے سے پہلے دیہان رکھنا جتنا کہا جاے اتنا ہی کرو"
اسنے کہ کر فون رکھ دیا
سیکرڑی بیچارا فون کو دیکھتا ہی رہ گیا
*****
حسن کو بچپن سے پی۔ ایم۔ ایف مے۔ جانے کا شوق تھا اس لیے اسنے دن رات محنت کرکے gb3•98 لا کر افیسر کا ٹیسٹ دیا جس میں اسنے ٹاپ کیا 
اللّه نے اسے ذہانت کے ساتھ ساتھ مردانہ وجاحت بھی خوب عطا کی تھی اللّه نے اسکے چہرے پر الگ ہی نور رکھا تھا جس سے وہ سب سے الگ معلوم ہوتا تھا اسنے بہت کم عمر میں اکیڈمی میں داخلہ لیا اپنی ذہانت کے بلبوتے پر کافی مہارت حاصل کی کچھ لوگ رشک سے اسے دیکھتے تو کوئی حسد سے کون جانے کس کا پیار یا کس اور کسکا حسد اسکی منزل مے رکاوٹ پیدا کرتا ہے ۔۔۔
****
"امی بہت بھوک لگ رہی ہے"
عنایہ تھکی ہاری یونی سے آکر صوفے پر بیٹھ گی 
اتنے میں اسکا بھتیجا اسکے پاس آکر بھیٹا
"ارے میرا گڈا پھوپھو کی جان کیسا ہے پھوپھو کو یاد کیا میرے بچے نےکھانا کھایا؟؟ "
عنایہ اسکے گال پر پیار کرتے پوچھنے لگی 
وہ الگ بات۔ ہے کہ ڈیر سال کا بچہ اسے جواب نہں دے سکتا لیکن وہ ہر روز ہی اس سے ایسے بات کرتی جیسے وہ ہر بات کا جواب دیتا ہو
وہ چاہتی بھی اتنا ہی تھی اسے آخر جان جو بستی ہیں اس میں۔نام بھی اسکا عنایہ نے رکھا تھا 
"کھانا لگا دیا ہے آجاو"
امی نے ٹیبل پر روٹیاں رکھتے ہوے کہا
"جی امی بس آی میرا بےبی میرے ساتھ کھانا کھاے گا"
عنایہ نے ثوبان کو اٹھاتے ہوے کہا
ان کی فیملی چھوٹی سی تھی ایک باپ جو اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ پورا بزنیس سمبھالتا تھا اسکے بیٹے نے ہھی اپنے بزنیس کو پروان چڑھای تھی تین سال پہلے ہی اسکی شادی ہوی تھی اور اللہ نے ایک خوبصورت نعمت سے نوازہ تھا 
"امی آپ کیوں اتنا کھانا بناتی ہیں جب کہ ہمارے پاس ملازمہ کی کوی کمی نہں ہے"
عنایہ اپنی ماں اور بھابھی کو کچن میں کام کرتے دیکھ کر بولی
"میں جانتی ہوں میری بیٹی ھمیں کوئی کمی نہیں ہے لیکن تمھارے بھائی اور باپ کو میرے ہاتھ کا کھانا پسند ہے اور ویسے بھی ہمیں کام کرتے تکلیف نہیں تو تمہیں کیا ہے "
اسکی ماں کام کرتے ہوے کہنے لگی
"ہاں وہ بات سہی ہے لیکن مجھے اچھا نہیں لگتا آپکو اسطرح کام کرتے ہوے دیکھ اور بھابھی مجھے بھی تو کچن میں گھسنے نہیں دیتیں"
عنایہ چاولوں سے بھرا چمچ منہ میں ڈالتے ہوے بولی
"ہاں ابھی تم پڑھای پر توجہ دو کوی ضرورت نہیں ہے کیچن میں آنے کی شادی تک تم آرام کرو پھر کرلینا کام جتنا دل چاہے"
سانیہ ہنس کر کہنے لگی 
اسنے ھمیشہ عنایہ کو چھوٹی بہن ہی سمجھا ہے دونوں میں بنتی بھی بہت تھی 
"اللہ تمھارے نصیب اچھے کرے"
پر کون جانے نصیب میں کیا لکھا ہے۔۔۔
____________
"میں یونی پہنچ گیا ہوں"
وہ بلوتوتھ ڈیوائس کے ذریعے کسی کو اطلاع دے رہا تھا
"نظر رکھو سب پر کون کہاں کہاں جارہا ہے اور تصویر لے کر دو خاص کر خوبصورت لڑکیوں کی "
وو خباثت سے کہنے لگا 
" سر میرے پیسے "
"تم اپنا کام پورا کرو تمہیں پیسے بھی مل جائیں گے "
کہ کر فون رکہہ دیا 
****
"تم کھانا کھالو"
وہ اسکے پاس بھیٹتے ہوئے پیار سے بولا 
" مجھے نہیں کھانا تمہارا کھانا اپنے پاس ہی رکھو" 
اسنے غصے سے کہا 
"دیکھو کھانا تو تمہیں پڑیگا ہی تم چُپ چاپ کھالو ورنہ پھر مجھے اپنے طریقے سے کھلانا آتا ہے"۔ 
وہ اسکے غصے کو کھاتے میں لائے بغیر پلیٹ میں سے بریانی کا چمچ بڑھ کر اسکے منہ کی طرف کی لے گیا
" میں نے کہ دیا ہے مجھے نہیں کھانا میں ڈرتی نہیں ہوں آپسے جو کرنا ہے کرلیں"
وہ اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جسکی آنکھوں میں ڈر نا تھا لیکن باتوں میں صرف ضد تھی 
" اب تم نے یہ کھانا نہیں کھایا تو تم بھی جانتی ہو میں کیا کیا کرسکتا ہوں ایک ثبوت تو تم دیکھ ہی چکی ہو کچھ دیر پہلے اور کوی ثبوت دھیکنا ہے توتو۔۔۔۔۔"
وہ کہنے کہ ساتھ اٹھنے لگا
اتنے میں اسنے چمچ منہ ڈال لی  
"That's like a good girl" 
یہ کہ کر وہ دوبارہ اسے کھلانے لگا 
وہ کچھ نہیں کررسکتی تھی سوائے ‎ اللّه سے مدد ماگنے کے 
وہ دل ہی دل میں اسے گالیوں سے نواز کر برے برے منہ بنا کر اسکے ہاتھ سے کھانے لگی 
****
" یار کہاں رہ گئی ہے کب آئے گی کلاس کا ٹائم ہورہا ہے"
آبش نے گھڑی میں ٹائم دھیکتے ہوئے کھا 
"میں خود انتظار کرہی ہوں پتا نہیں کدھر مر گئی ہے" 
اتنے میں یونی کی گیٹ سے سارہ آتے ہو نظر آئی
"یہ ایسے آرام سے چل کر آرہی ہے یہاں ہماری کلاس جارہی ہے اور اسے کیٹ واک سے فرسّت نہیں مل رہی"
عنایہ نے اسکے چلنے پر تپ کر کہا
" ہاے گرلز "
"تمہیں اندازہ بھی ہے یہاں ہماری کلاس جارہی ہے اور تم اتنے مزے سے ٹہل کر آرہی ہو اور تم تھی کہاں کب سے اب چلو لیٹ ہورہا ہے" 
عنایہ نے کلاس کی طرف رخ کر کے اس سے پوچھا 
"یار میری بلی رو رہی تھی اسے چپ کرانے کی کوسش کرہی تھی پتا نہیں کیا ہوا تھا اسے"
سارہ افسردہ لہجے میں کہنے لگی
"تم نے اس سے پوچھا نہیں کیو رو رہی ہو؟؟ " 
آبش نے مسکراہٹ چھپاتے ہویے پوچھا 
" میں نے پوچھا یار شاید اسکا بی یف اسے چھوڑ کر چلا گیا "
یہ سن کر آبش اور عنایہ دونوں اسکی طرف حیرانگی سے دیکھنے لگیں پھر اسکے ہونٹوں پر مسکرہٹ دیکھ کر سمجھ گئیں
" ارے یار تم لوگ اتنا سیریس کیوں ہوگے ہو "
I am just kidding
" کبھی ہنس بی لیا کرو تسی "
سارہ دونوں کو سیریس دیکھ کر کہنے لگی
" ہی ہی ہی بس خوش اب چل لیں کلاس کے لیے "
آبش نے ہسنے کی اداکاری کرکے کہا اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جانے لگی 
پیچھے سے دونوں نے ایک ساتھ قہقہ لگایا۔۔۔۔

جاری ہے