┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان 
قسط_نمبر_02

وہ کب سے بڑے پاپا کے لاؤنچ میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھی وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا اس کی بے چینی بڑھ رہی تھی انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی بےزاری سے صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی ان کی اب وقت گزرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا 
"لو جی بھوکی نادیدی پہنچ گئی یہاں وقت سے پہلے ہی تمہیں اپنے گھر میں آرام نہیں ملتا کیا " وہ اپنے خیالوں میں گم تھی بہروز کی آواز پر اچھل کر رہ گئی 
"بدتمیز انسان تمہیں زرا مینز نہیں ہے ایسے اتا ہے بندہ ابھی میری جان نکال جاتی تو " اس نے غصے سے اسے گھورا 
"ہاہاہا ہائے کاش تم سے جان چھوٹ جائے مگر اتنی اچھی قسمت نہیں ہے ہماری کہ تم جیسی بھوکی سے جان چھوٹ جائے" اس نے زرشالہ کے ہاتھ سے ریموٹ چھین کر کہا 
"یہ بھوکی بھوکی کیا لگا رکھا ہے تم نے ہاں تمہارا کمایا نہیں کھاتی اپنے باپ کے بھائی کے گھر بیٹھی ہوں وہ ہی کما رہے ہیں جس دن اس گھر میں تمہاری کمائی آنے لگی نا اس دن مجھ پر اس گھر کا کھانا حرام ہی سمجھو" 
اس نے ٹرخ کر جواب دیا 
"کھاؤ قسم تب تم واقعی اس گھر کا کھانا نہیں کھاؤ گئی " 
"دافع ہو جاؤ یہاں سے جس دن کمانے لگے تب کی تب دیکھوں گئی کہی قسم کھا ہی نا لوں " اس نے گھور کر اسے دیکھا نظروں ہی نظروں میں اسے زندہ نگل رہی تھی 
"ہاہاہا بس اتنا ہی تھا تم اور ہم سب کا جینا آسان کر لوں ہو ہی نہیں سکتا " بہروز نے سرچنگ کرتے ہوئے اسے مزید غصہ دینا چاہا 
اب کی بار زرشالہ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا آگے بڑھ کر ریموٹ اس کے ہاتھ سے چھین کر اپنا فیورٹ پروگرام لگایا 
بہروز نے غصے کا اسے دیکھا مگر اگلی بھی زرشالہ تھی اس پر اس کی گھوری کا رتی برابر عصر نہیں ہوا 
"چڑیل نا ہوں تو قبضہ گروپ " وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا آٹھ کر جانے لگا زرشالہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اپنے کام میں مگن ہوں گئی بہروز مڑا صوفے کے پیچھے جا کر ارشاد کے بال زور کھنچے اور باہر کی طرف ڈور لگائی 
"بہروز کے بچے تم میرے ہاتھوں سے ایک دن ضرور ضائع ہو جاؤ گے" 
زرشالہ نے اپنے سر کو تھام کر ہانگ لگائی 
"ابھی میری شادی نہیں ہوئی حوا مخواہ میرے معصوم بچوّں کو بیچ میں مت کھسیٹو " اس نے باہر سے ہی ہانگ لگائی 
"تمہیں تو میں ابھی بتاتی ہوں " اس کا سر درد کر رہا تھا بدلہ لیے بنا زرشالہ کا غصہ حتم ہونے والا نہیں تھا اس نے ریموٹ پھینک کر باہر کو ڈور لگائی اب بہروز آگے آگے زرشالہ اس کے پیچھے اپنی چپل اٹھے نشانہ لگانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی بہروز نے گھر کا دروازہ کھولا باہر کو ڈور لگائی وہ اس کے پیچھے بھاگی باہر نکلتے ہوئی اندار آتے وجود سے زور کا تصادم ہوا اس نے غصّے سے اوپر دیکھا 
"ہائے زالان آپ آگے " چپل نیچے پھینک کر زور سے چلائی اور زالان کے گلے لگ گئی
"ہائے زالان میں آپ کو بتا نہیں سکتی میں نے آپ کو کتنا مس کیا میرا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر آپ کے پاس پہنچ جاؤ " اس نے خوشی سے چہک کر کہا 
"میری پیاری سی گڑیا زالان نے بی ہر لمحہ اپنی گڑیا کو بہت مس کیا میری گڑیا کسی ہے اور اتنا غصہ کیوں کر رہی تھی ابھی کچھ ٹائم پہلے" زالان نے دھیرے سے اسے خود سے الگ کیا اس کے ماتھے پر بھوسہ دیا ان دنوں کی محبت ایسی ہی تھی جان تھی ایک دوسرے میں ان کی زالان دن میں دس بار سے فون کرتا اگر تھوڑا لیٹ ہو جاتا تو زرشالہ فون پر فون کر کر کے اسے پاگل کر دیتی وہ دور ہو کر بھی پاس تھے دن بھر کی روداد ایک دوسرے کو سنا کر ہی چین سے سو پاتے زالان اتنے تف روٹین بھی کھبی اپنی گڑیا سے غافل نہیں ہوا تھا وہ ساری دنیا کو بھول سکتا تھا پھر اپنی گڑیا کو نہیں 

                     .......................
وہ سب سے مل کر اپنے کمرے میں گیا سفر کی تھکان اتار کر فریش ہونا چاہتا تھا کمرے کا دروازا جیسے ہی کھولا سارا کمرا پھولوں سے بھرا پڑا تھا اس نے مسکرا کر آندا قدم رکھا بیڈ پر خوبصورت سا گفٹ پیک پڑا ہوا تھا ساتھ ہی ایک چیت بھی اس نے اٹھا کر پڑھا 
"ویلکم ٹو ہوم سویٹ ہوم میرے پیارے سے کیوٹ سے دوست یہ سب آپ کی گزی ہوئی سالگرہ کا ایک چھوٹا سا تحفہ ہے امید ہے آپ کو پسند آئے گا
فقط آپ کی معصوم سی بھولی سی گڑیا " 
زالان کی لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے آگے بڑھ کر گفٹ کھولا اس میں خوبصورت بلک شلوار قمیض کے ساتھ پشاوری چپل اور ایک خوبصورت سی واچ تھی اس نے سب اٹھا کر دیکھا اس کی سالگرہ پر ڈھیر سارے تحفے وہ اسلام آباد بھی بھجوا چکی تھی 
"یہ لڑکی بھی نا پاگل ہی ہے اتنا سب کچھ تو پہلے بھی دے چکی ہے اور اب یہ سب کچھ " اس نے مسکرا کر سوچھا پھر وہی شلوار قمیض اٹھا کر واش روم کی طرف چل پڑا اب اسے یہی ڈریس پہن کر نیچے جانا تھا باہر نکل کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہو کر بالوں میں کنگھی کرنے لگا خوب سارا پرفیوم خود پر چھڑکا کر اس نے پشاوری چپل پہنے واچ کو اپنے چوڑے بازوں پر باندھ کر باہر آیا سامنے ہی زرشالہ کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی زالان نے اسے دیکھا 
بلک شاٹ فراق میں ریڈ دوپٹا اور ریڈ گوسے پہنے بال کھولے چھوڑے وہ اس وقت واقعی گڑیا ہی لگ رہی تھی زالان نے مسکرا کر اسے دیکھا 
"تھینک گاڈ آپ تیار ہوں گئے مجھے یقین تھا آپ میرا دیا ہوا ڈریس ہی پہنوں گے "
اس نے ایک تفسلی نگاہ زالان پر ڈالی 
تنے کالر کی بلک شلوار قمیض ، آستین فولڈر اور سنہری روئیں والی کلائی پر بندھی گھڑی آنکھوں میں دوستانہ مسکراہٹ لیے وہ زرشالہ کو دیکھ رہا تھا 
"ہو گیا میرا تفسلی جائزہ گڑیا تو یہ بتانا پسند کریں گی آپ کس خوشی میں اتنا تیار ہوئی ہے " اس نے حیرت سے دریافت کیا 
"اچھے لگ رہے ہوں ہر دن سے بھی زیادہ ماشاءاللہ بتا دوں گئی بتا دوں گی اتنی جلدی بھی کیا ہے " اس نے شرارت سے مسکرا کر اسے دیکھا
"پاگل لڑکی یہ اتنا سب کچھ کس خوشی میں کیا تم نے وہاں اسلام آباد میں بھی اتنا سب کچھ بجا تم نے اچھا تو نہیں لگتا کہ میں اپنی گڑیا سے تحفے لیتا رہوں" 
"اپنی بھی کہتے ہوں اور غیروں والی باتیں بھی کرتے ہوں " اس نے روٹھے لہجے میں کہا 
"تم تو میری سب سے پیاری والی گڑیا ہوں میری جان ہو تم میں تو بس ویسے ہی پوچھ رہ تھا نا میرا فرض بنتا ہے کہ تمہیں دوں نا کہ تم مجھے روز روز گفٹ دیتی رہوں "
"یہ سب اس لیے میرے پیارے سے زالان خان کیوں کہ آپ کی گڑیا آپ سے بہت پیار کرتی ہے بہت زیادہ اس دنیا میں سب سے زیادہ گڑیا کی جان بستی ہے زالان خان میں "اس نے عقیدت سے اس کی آنکھوں میں کر کہا 
زالان نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا 
"اور زالان خان بھی اپنی گڑیا سے ساری دنیا سے بڑھ کر پیار کرتا ہے اس کی جان ہے گڑیا میں " اس نے بھی پیار سے اسے دیکھ کر کہا 
"اچھا چلے وہاں سب آپ کا ویٹ کر رہے ہیں " "وہاں کہا " اس نے حیرانی سے پوچھا
"آپ چلے میرے ساتھ سب پتا چل جائے گا " اس نے اپنا ہاتھ زالان کے سامنے پھیلایا زالان نے کچھ بھی پوچھے بنا اس کا ہاتھ تھام لیا وہ آنکھیں بند کر کے اپنی گڑیا پر یقین کرتا تھا وہ ہر اس راستے پر چلنے کو تیار تھا جاہا اسے اس کی زرشالہ لے کر جائے وہ آف بھی نا کرتا
                            ...................
        جیسے ہی دنوں داجی کے پورشن میں دروازے سے اندر داخل ہوئے ساری لائیٹس آف تھی اس نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا اندھرے میں کچھ بھی دیکھائی نہیں دے رہا تھا اچانک لاؤنچ کی ساری لائیٹس ان کر دی گئی 
Happy birthday to you happy birthday dear zalaan 
سب نے ہم آواز ہو کر اسے وش کیا اس کی سالگرہ پیچھلے ہفتے گزر گئی تھی یہ سب اس کے لیے سرپرائز ہی تھا 
اس نے حیران نظروں سے سب کو دیکھا پھر زرشالہ سے مخاطب ہوا
"یہ سب کیا ہے گڑیا " اس نے خوشی سے بھرپور لہجے میں دریافت کیا 
"یہ سرپرائز تھا آپ کے لیے مجھے بہت دیر سے پتا چلا آپ کے آنے کا بس کم وقت میں جتنا ہو سکا ہم سب کریزی گروپ نے مل کر ارینج کر دیا " 
اس نے چہک کر اسے اپنے کارنامے سے آگاہ کیا اس کے لیے آج کا دن بہت خاص تھا آج اس کا دوست اس کے ساتھ کھڑا تھا اتنے دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی خوشی اس کے انگ انگ سے جھلک رہی تھی 
"چلے آئے کیک کاٹے " 
"اب آ بھی جائے آپ دنوں قسم سے کیک دیکھ دیکھ کر میرے منہ میں پانی آ گیا " 
عمار نے نادیدے پن سے کیک کو دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھری 
"ہو ہی چھچوڑے ایک نمبر کے نادیدے کہی کے جیسے کبھی کیک دیکھا ہی نہیں تم نے "
پاس کھڑی روما نے اس کے پاؤں پر زور سے اپنا پاؤں مار کر کہا 
وہ درد سے بلبلا اٹھا 
"دیکھ لوں گا تم سیڑے ہوئے کریلے کو بھی میں "
عمار نے دانت پیس کر غصّے سے اسے گھورا 
"تم دنوں تو اپنی چونچ بند رکھا کروں ہر وقت ٹر ٹر ٹر دماغ کی دہی کر دیتے ہوں "
ولید جو ان دنوں کے ساتھ ہی کھڑا تھا گھور کر دنوں کو دیکھا 
"ہاں تمہارا تو بہت دماغ ہے نا جیسے بن دماغ کے الو " 
افشاں نے بڑبڑا کر کہا جو ولید کے تیز کانوں نے فوراً سن لیا 
"اے لڑکی پورے دو سال بڑا ہو تم سے تمیز سے بات کیا کروں بدتمیز کہی کی اتنا ہینڈسم بندہ ہوں تمہیں کہاں سے الو دیکھائی دے رہا ہوں " 
اس نے موڑ کر خون خوار نظروں سے افشاں کو گھورا 
" ہاہاہا اپنی نذدیک کی نظر ٹھیک کروا لوں میرے بھائی لگتا ہے شیشہ دیکھ کر خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے ہوں ہینڈسم اور تم ہاہاہا " 
شارق نے پیچھے سے ہانگ لگائی 
اس سے پہلے کے وہ کوئی کراکرا سا جواب دیتا زالان اور زرشالہ ٹیبل کے پاس پہنچ گئے سب بڑے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے بچوں کے اصرار پر آ تو گئے تھے مگر آپ دور بیٹھے ان سب کے ہستے مسکراتے چہروں کو پیار سے تک رہے تھے 
"یار میں اب بچا تو نہیں ہوں پورے تینتیس سال کا مرد ہوں میں بچوں کی طرح کیک کاٹے اچھا تھوڑا ہی لگاؤ گا "
سب کو وہاں دیکھ کر اس نے زرشالہ کے کان میں سرگوشی کی 
"کوئی نہیں بوڑھے آپ اتنے ہینڈسم تو ہوں تینتیس سال کے ہو گئے ہوں تو کیا ہوا لگتے تو آج بھی بہروز کے چھوٹے بھائی ہی ہوں " 
اس نے زور سے کہا تاکہ بہروز بھی سن سکے 
اور اس نے واقعی سن بھی لیا 
"کیا کہا تم نے ہائے ہائے میرے خوبصورتی کی تو دنیا دیوانی ہے ظالم لڑکی تمہیں کیا پتا میں جہاں سے گزرتا ہوں لڑکیاں بےہوش ہونے لگتی ہے " 
اس نے فخر سے کالر کو ادا سے پکڑ کر کہا 
"تو کس نے کہا ہے ہفتہ ہفتہ بھر نا نہایا کروں لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی تمہارے پیسنے کی بدبو سے بےہوش ہوتے ہوتے بچا جاتے ہیں یہ تو ہماری ہمت ہے جو تمہارے ساتھ گزاراکررہے ہیں " 
شارق نے معصومیت سے کہا 
سب کا قہقہہ بےسہتا تھا 
"تمہیں تو آج میں زندہ نہیں چھوڑوں گا شارق کے بچے میں تمہیں ایسا گندہ انسان نظر آتا ہوں" 
بہروز نے مڑ کر اسے گھورا 
"بس کروں تم سب خبردار اب کسی نے کچھ کہا تو بچے نہیں ہو جب دیکھوں لڑ رہے ہوتے ہوں "
زالان نے ڈھار کر کہا سب ایک دم چپ ہو گئے زالان سے ان سب کی جان جاتی تھی ایک آواز پر ہی سب سہم جاتے 
زرشالہ نے انہیں دیکھ کر آنکھ ماری سب نے گھور کر اسے دیکھا 
"زالان بھائی کی چمچی ایک دن تم سب یاد رکھنا یہ میرے ہاتھوں ضائع ہو جائے گئی سب کو اپنا حمایتی بنایا ہوا ہے میسنی نہ ہو تو " 
بہروز نے دھیمے لہجے میں کہا 
سب نے ایسے منہ بنایا جیسے کہ رہے ہوں رہنے دے بھائی یہ ڈائیلاگ بعد میں مار لینا 
زالان نے سب کے کہنے پر کیک کاٹا پھر کیک کا پیس اٹھا کر پاس کھڑی زرشالہ کے منہ میں دیا پھر جا کر داجی دادو کو کیک کھلانے لگا خود بھی ان کے ساتھ جا کر بیٹھی گیا اب کریزی گروپ کے موجھا ہو گئی انہوں نے کیک کھایا کم ایک دوسرے کے چہروں پر ذیادہ لگایا ان سب نے مل کر زرشالہ کو پکڑ کر کیک اس کے چہرے پر لگایا 
"زالان بھائی کی چمچی اب آئی نا ہمارے ہاتھ " 
ولید نے کیک کا ایک اور پیس اٹھا کراس کے چہرے پر ملا وہ چلاتی رہی مگر سب نے اس کی ایک نا سنی دور بیٹھا زالان انہیں دیکھ کر دھیرے سے مسکرایا یہ سب تو اس گھر کے جان تھے ان سے ہی تو گھر میں رونک تھی زرشالہ نے اپنی جان چھڑا کر داجی کی طرف ڈور لگائی اس کی شکل کو دیکھ کر سب بے ہنس دیے اس نے منہ پھلا کر انہیں دیکھا اور وہاں سے واک آؤٹ کر گئی زالان اسے آوازیں دیتا رہ گیا 
                      ..................
جاری ہے ......

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─