┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_03

"کیا سوچ رہی ہوں گڑیا " 
"کچھ نہیں بس ان درختوں پر بیٹھے پرندوں کو دیکھ رہی ہوں " 
اس نے درختوں پر نظر جمائے جواب دیا 
"اچھا جی اور پرندوں کو کیوں دیکھا جا رہا ہے" 
زالان نے چائے کا گپ سائیڈ پر رکھ کر رخ اس کی طرف مڑ کر پوچھا
"دیکھ رہی ہوں یہ پرندے کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں نا جب دل کیا یہاں سے وہاں اڑ گئے نا کوئی ٹینسن بس مزے ہی مزے " 
"تمہیں لگتا ہے یہ سب مزے سے زندگی گزارتے ہیں گڑیا " 
زرشالہ نے اثبات میں سر ہلایا 
"بلکل غلط لگتا ہے تمہیں کبھی انہیں غور سے دیکھا ہے تم نے یہ کچھ کھا بھی رہے ہوتے ہیں تو ان کی نظر ادھر ادھر ہی رہتی ہے سر یہاں وہاں گھماتے رہتے ہیں کہ کوئی آکر انہیں نقصان نا پہنچا دے ان کی زندگیاں تو پوری عمر خوف میں ہی گزر جاتی ہے تھوڑی سی آہٹ پر اپنا کھانا چھوڑ کر اڑ جاتی ہے " 
"واقعی یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا "
"تبھی تو کہتا ہوں تھوڑی عقل بھی استعمال کر لیا کروں لڑکی " 
زالان نے اس کے سر پر ہلکی سی لگائی 
"زالان " وہ چلائی 
وہ ہمیشہ سے زالان کو زالان ہی کہ کر بلاتی تھی بھائی کہنے کی توفیق نہیں کی وہ بچپن سے اس کے قریب رہی س نے پہلا لفظ بھی زالان کہا تھا اس کے ٹوتلے زبان سے بہت بلا لگتا تھا اس کے بعد اس کی عادت پختہ ہو گئی زالان نے اسے کبھی نہیں ٹوکا نام بےشک لیتی تھی مگر نام لیتے وقت بھی اس کے لہجے میں ادب اور احترام شامل ہوتا تھا 
"اچھا سب چھوڑوں یہ بتاؤ اب گے کے کیا ارادے ہیں تمہارے " 
وہ اس وقت گھر کے پیچھلے لان میں سیڑھیوں پر بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے 
" داجی چاہتے ہیں میں بھی بزنس لائن جوائن کروں اس لیے مجھے بزنس میں ماسٹرز کرنا چاہیے تاکہ کل کو اپنے پاپا کا بزنس سنبھال سکوں " 
"یہ تو داجی نے بلکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے میں بھی یہی چاہتا ہوں گڑیا "
"مگر میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے میں کیوں سنبھالوں چچا لوگ دیکھ تو رہے ہیں میرا کیا کام ہے "
"کام ہے کل کو سب کے بچے جب بزنس سنبھالے گئے تب شاید وہ انصاف نا کر سکے اور داجی اس لیے چاہتے ہیں تم خود کو مضبوط کروں آنے والے وقت کا پتا نہیں چلتا کس دوراہے پر لا کھڑا کرے " 
زالان نے اسے آرام سے سمجھایا 
"ٹھیک ہے مگر میں بہروز کی یونیورسٹی میں ایڈمیشن نہیں لوں گی مجھے اور روما کو دوسری یونی میں داخل ہونا ہے پتا تو ہے ان کے کارنامے وہ وہاں بھی ہمیں معاف نہیں کرے گئے افشاں اور رانیہ کو بھی ہر وقت تنگ کرتے رہتے ہیں" 
اس نے لاڈ سے کہا 
"ٹھیک ہے جہاں میری گڑیا کہے گئی وہی ایڈمشن کروا دوں گا تمہارا " 
"یہ ہوئی نا بات لو یو سو مچ " 
اس نے خوشی سے نعرہ لگایا 
"لو یو ٹو اب اٹھو مجھے بھی زرا دامیر کی طرف جانا ہے کچھ ضروری کام ہے پھر سب کو کہنا تیار رہے اج ڈینر میری طرف سے ہوں گا " 
اس نے زرشالہ کے چہرے پر ہلکے سے تھپکی دی پھر اٹھ کر چلا گیا 
زرشالہ نے مسکرا کر اسے جاتا دیکھا پھر موبائل نکال کریزی گروپ کو میسج کیا 
جانتی تھی وہ نادیدے ڈنر کا سن کر خوشی سے جھوم اٹھے گے ....
                   .................... 
"ہائے اللّٰہ کتنی بڑی یونیورسٹی ہے " 
روما نے منہ کھولے ادھر ادھر دیکھ کر اشتیاق سے کہا 
"منہ بند کروں نادیدی نہ ہو تو دیکھوں لوگ کیسی عجیب نظروں سے تمہارے کھولے منہ کو دیکھ رہے ہیں " 
زرشالہ نے ہاتھ سے اس کی تھوڑی کو پکڑ کر اس کا منہ بند کیا 
"تو ان سب کے باپ کے گھر سے کھاتے ہیں جو لوگوں کی پرواہ کروں میں "
"مینز میری جان مینرز بھی کسی چڑیا کا نام ہے پر ہک ہا تم کیا جانو وہ کیا ہوتی ہے تمہاری کوئی عزت ہوتی تو تمہیں اندازہ ہوتا نا" 
زرشالہ نے ایک نظر عمارت پر ڈال کر طنزیہ لہجے میں کہا 
"ہاں ہاں ساری عزت تو زرشالہ صاحبہ کی ہے گھر بھر میں سب ہی تو تمہیں عزت ہی دیتے رہتے ہیں میرا منہ نہ لگو تم " 
اس نے بھی اپنی طرف سے کراڑا سا جواب دیا 
اس سے پہلے کے تیسری جنگ عظیم شروع ہوتی زالان ا ن کی طرف آتا دیکھائی دیا 
وہ دنوں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تھی زالان سپیسلی زرشالہ کے لیے دو دن کی چھٹی لے کر آیا تھا 
"لوں تم دنوں کا ایڈمیشن کروا دیا میں نے دیکھوں میں تم دنوں کو بہت آرام سے سمجھا رہا ہوتا مجھے کسی قسم کی بھی شکایت موصول نہیں ہونی چاہیے " 
"آپ فکر مت کرئے زالان ہم کوئی ایسے ویسے تھوڑے ہی ہے" 
"ہاں تبھی تو کالج میں پرنسپل صاحب کے پوتے کو مرچوں والا سموسہ کھلا دیا تھا تم دنوں نے مل کر اور انہوں نے مجھے فون کر کے شکایت کی تھی کتنی امبیرسمنت فیل کی تھی میں نے " 
زالان نے گزرا واقع یاد دلائی کر انہیں شرم دیلانی چاہی 
"نیکی کا تو زمانہ نہیں ہم نے تو اچھے کے لیے ہی دیا تھا بھوک سے رو رہی تھی وہ الٹا نیکی ہمارے گلے ہی پڑ گئی "
"ہاں چھوٹی سی بچی کو مرچیں کھلا کر نیکی ہی تو کمائی تھی تم دنوں نے " 
زالان نے سن گلاسز آنکھوں پر لگا کر انہیں اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا 
"ہمارے کوئی تین چار بچے تو نہیں ہے نہ جو ہمیں پتا ہوتا بچوں کو مرچیں نہیں کھلانی چاہیے "
زالان نے موڑ کر اسے گھورا شکر تھا گلاسز میں اس کی آنکھیں دیکھائی نہیں دے رہی تھی 
روما نے اپنا پاؤں زور سے اس کے پاؤں پر مارا 
"ہائے اماں مڑ گئی تم جنگلی بلی ہر بات پر اپنے پاؤں کا ہی استعمال کیوں کرتی ہوں "
"اس لیے کہ بولنے سے پہلے بندہ سوچ لیتا ہے کہ وہ بکواس کیا کر رہا ہے" 
اس نے دھیمی آواز میں کہا 
"ہاں تو اب میں اگلے بندے سے کہو سنیے آپ زرا انتظار فرمائیں میں آپ کی بات پر سوچ لوں مجھے اس کا جواب کیا دینا ہے " 
اس نے معصومیت سے آنکھیں ٹپکاتے ہوئے کہا 
"وہ بھائی زرشالہ کا مطلب وہ ہرگز نہیں تھا جوآپ سمجھ رہے ہیں وہ تو کہنا چاہ رہی تھی کہ ہمارے گھر میں چھوٹے بچے نہیں ہے نا اس لیے ہمیں اندازہ نہیں تھا " 
روما نے اسے گھور کر آگے چلتے ہوئے زالان سے کہا 
"اٹس اوکے روما گڑیا کی عادت ہے بنا سوچے سمجھے بولنے کی مگر میں یہاں کوئی شرارت نہیں برداشت کروں گا ابھی سے بتا دوں اس بار ایسا ویسا کچھ بھی ہوا میں داجی کو بتا دوں گا پھر وہ جانے اور تم دنوں " 
اس نے روک کر پیچھے موڑ کر دونوں کو باری باری دیکھ کر کہا 
دنوں نے سر اثبات میں ہلایا 
"اب لیکچر دینا بند کرئے ہم دنوں کو مزے دار سا لنچ کروائے "
زرشالہ نے ہانگ لگائی زالان نے سر ہلا کر اوکے کہا 
"ویسے زر حورین کا پتا کیا اس کا ایڈمشن بھی ہو گیا ہے نہ " 
"او ہاں ابھی پتا کرتی ہوں اس کے پاپا کی طبیت بھی ٹھیک نہیں تھی نا کہ رہی تھی جلد ہی داخلہ کروا دے گئی "
اس نے جواب دے کر موبائل بیگ سے نکالا 
زالان نے انہیں گاڑی میں بیٹھا کر خود کچھ دیر میں آنے کا کہا 
"ہاں ہیلو حور کیسی ہوں "
"اسلام علیکم لڑکی سو بار کہا ہے سلام کیا کروں مگر نہیں وہ زر ہی کیا جو کسی کی بات مان لے "
"بس تم تو بڑی اماں بن کر ہر وقت لیکچر ہی دیتی رہنا " 
اس نے چیڑ کر کہا 
"تم بھی تو ہر بار ایسا ہی کرتی ہوں اتنی بڑی ہو گئی ہو عقل نام کی نہیں ہے تم میں "
"بس بس زیادہ باتیں سنانے کی ضرورت نہیں ہے یہ بتاؤ ایڈمیشن کا کیا بنا میرا اور روما کا تو زالان نے آج ہی کر دیا ہے تمہارا کیا پلین ہے اب"
"بابا نے کہا ہے کل تک کروا دے گے انشاء اللہ"
"ٹھیک ہے جلدی ہی کروا دینا " 
اس نے کہ کر دو تین ادھر ادھر کی باتیں کر کے فون بند کر دیا 
حورین روما اور سکول زمانے سے ایک ساتھ تھی تینوں کی دوستی بہت گہری تھی اس لیے آج بھی انہوں نے ایک ہی یونیورسٹی میں ایک ساتھ ایڈمیشن لینے کا سوچھا تھا حورین اپنے ماں پاب کی اکلوتی بیٹی تھی جو شادی کے چودہ سال بعد ہوئی تھی ماں کا انتقال ہو گیا تھا اب اس کی کل کائنات اس کے بابا ہی تھے جن سے اسے بےحد پیار تھا وہ زرشالہ اور روما کی طرح اپر کلاس سے تعلق نہیں رکھتی تھیں مگر اس میں ایسی کشش تھی کہ وہ دنوں اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی اور آج وہ ساتھ تھی 
                       .....................
موسم بہت خوش گوار تھا سب نے آج کرکٹ میچ کھیلنے کا پلین بنایا ہوا تھا کل زالان واپس جا رہا تھا اس وقت وہ سب اپنے گھروں کے مشترکہ بڑے سے لان میں پر جوش کھڑے تھے 
"داجی اگر آپ امپائرنگ کر رہے ہیں تو میں ابھی سے کہ رہا ہوں میں نہیں کھیلوں گا "
ولید نے ناراض نظروں سے داجی کو دیکھ کر کہا 
"وہ کیوں " 
داجی نے غور سے اسے دیکھ کر پوچھا
"اس لیے نا کہ آپ بہت بےایمانی کرتے ہیں ہمارے ساتھ" 
"اوئے ہنجار زرا ادھر پاس آکر پھر سے بولنا اپنے باپ کے باپ کو بےایمان کہتے تمہیں شرم نہیں آئی "
انہوں نے غصّے سے اسے گھور کر بلند آواز میں ڈانٹا 
"بے ایمان کو اب ایمان دار تو کہنے سے رہا پچھلی بار بھی آپ نے آخری بال پر جب ہماری ٹیم جیت رہی تھی آپ نے نو بال دے دی تھی حالانکہ میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے خود دیکھا تھا شارق نے نو بال نہیں کروائی تھی مگر آپ نا ہر بار زالان بھائی اور زرشالہ کو بے ایمانی کر کے جیتوا دیتے ہوں " 
اس نے آہستہ آواز میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کی جس میں اس کے ساتھ اس کی ساری ٹیم شامل تھی اس کی ٹیم میں شارق ،روما، ولید اور بہروز تھے جبکہ زرشالہ کی ٹیم میں عمار، زالان ، افشاں اور رانیہ تھے رانیہ اس وقت حراب طبعیت کی وجہ سے تماشائیوں کی لیسٹ میں شامل تھی 
داجی ہر بار کی طرح امپائرنگ کا عہدہ سنبھالے ہوئے تھے 
جس پر اس بار ولید کی ٹیم کو خاصہ اعتراض تھا کیونکہ داجی اکثر ان کی ٹیم کے ساتھ نا انصافی کرتے تھے جس کو وہ مانے سے بھی انکاری ہو جاتے تھے اور ان کی ٹیم بے ایمانی کی وجہ سے اکثر ہار جاتی تھی 
" تم سب تو شرم سے دوب ماروں کم بختو اپنے داجی پر الزام لگاتے ہوں خود اپنی نالائقی کی وجہ سے ہاری تھی تمہاری ٹیم اور الزام مجھ پر لگا رہے ہوں بہت آئے مجھے سیکھانے والے جاؤ نہیں کرنی مجھے امپائرنگ تم سب ہی کھیلوں " 
انہوں نے آخر میں بچوں کی طرح روٹھ کر کہ کر اندار کی طرف بڑھنے لگے 
"اوئے اوئے میرے پیارے داجی میں تو مذاق کر رہا تھا آپ کو تنگ کر رہا تھا آپ تو سچ مچ سمجھ بیٹھے آپ سے اچھا امپائر تو پورے پاکستان میں نہیں ہے آپ ایسے کیسے جا سکتے ہیں آپ نہیں کھیلے گئے تو ہم میں سے بھی کوئی نہیں کھیلے گا " 
سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی داجی نے خوشی سے سب کو دیکھا پھر احسان جتاتے ہوئے کہنے لگے 
"اتنا سب کچھ سنے کا بعد میرا دل تو نہیں کر رہا مگر کیا کروں میرا دل بہت بڑا ہے اس لیے معاف کرتا ہوں آئندہ مجھ پر الزام لگایا گیا تو میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا تھا " 
"یاہو " 
سب نے مل کر نعرہ لگایا 
کھیل شروع ہوا زرشالہ کی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بائولنگ کا فیصلہ کیا 
پہلے ہی بال پر ولید آؤٹ ہو گیا 
"یہ ٹرائے بال تھی میں اس بال کو نہیں مانتا افشاں نے جان بوجھ کر بہت زور سے بال پھینکی تھی " 
اس نے ہمیشہ کی طرح آج بھی شور مچایا 
"اوئے ولید کے بچے بےایمان چھوٹے میں نے اتنے آرام سے بال پھینکی تھی ٹرائے بال نا آسمان یہاں بچوں کا کھیل نہیں چل رہا جو بچوں کی طرح ڈھارے مار مار کر رو رہے ہوں"
افشاں نے غصے میں آکر اس کے ہاتھ سے بیڈ چین کر لیا 
"مجھے نہیں کھیلنا تم سب کے سب میرے ساتھ ضد کرتے ہوں " 
وہ روٹھ کر سامنے دادو کے پاس جا کر بیٹھ گیا 
اس طرح اس کی ٹیم نے دس آوار میں ستر رنز بنائے درمیان میں چائے کا وقفہ ہوا 
وہ سب گھاس پر ہی بیٹھ گئے 
"ولید ایک بات تو بتاؤ " 
افشاں نے سینڈوچ کا بائٹ لے کر پوچھا 
"ہاں ہاں پوچھو نا " 
وہ بھی سینڈوچ کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بولا 
"یہ تم ہر وقت بچوں کی طرح رونا کیوں شروع کر لیتے ہوں اتنا تو ہم لڑکیاں بھی نہیں روتی جتنا تم ہر بات بہ بات پر رونے لگ جاتے ہوں " 
افشاں نے معصومیت سے کہا 
ولید نے ابھی ہی چائے کی گھونٹ لیا اس کی بات پر ایک دم سے چائے اس کے گلے میں اٹک گی کھانسے لگا سب نے قہقہہ لگایا 
بہروز نے اس کے پیٹ پر زور زور سے مارا 
"اوئے تم کمینے تو پیچھے ہٹو یہ تم مجھے کس خوشی میں مار رہے ہوں" 
اس نے مشکل سے اپنے کھانسی کو روکا اور کھا جانے والی نظروں بہروز کو گھورا 
"نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا جا مر بغیرت انسان تم تو اس قابل نہیں کہ تمہارے ساتھ کوئی ہمدردی کر سکے افشاں سچ ہی کہ رہی ہے لڑکی ہوں بلکل ان کی طرح رونا دھونا شروع کر دیتے ہوں " 
بہروز نے پیچھے ہو کر اسے دو سنائی 
ولید نے چائے کا گپ نیچے رکھا 
"آج کوئی مجھے مت روکنا آج کی تاریخ میں بہروز میرے ہاتھوں شہید ہونے والا ہے " 
اس نے آگے بڑھ کر بہروز کو گلے سے پکڑا 
"بچاؤ بچاؤ کوئی تو مجھے اس آدم خور سے بچاؤ " 
بہروز نے اس کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے چلاتے ہوئے کہا 
سب وہی بیٹھے ان کی لڑائی سے لطف اندوز ہو رہے تھے 
کوئی بھی اس کو بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھا 
"یہ سب کیا ہو رہا ہے "
ولید کا ہاتھ ہوا میں لہرایا زالان کی ڈھار پر سب کو سانپ سونگھ گیا 
"کب بڑے ہو گئے تم لوگ بچوں کی طرح حرکتیں کرنا بند کروں بڑے ہو گئے ہوں کچھ تو اپنی عمروں کا حیال کر لیا کروں " 
وہ غصّے سے سب کو دیکھ کر وہاں سے چلا گیا 
سب نے سکون کا سانس لیا 
"یہاں بھی سب پر پولیس بن کر روب جمانے لگ جاتے ہیں کبھی جو کسی سے ہنس کر بات کر لے سوائے اس زرشالہ کی بچی کے " 
عمار نے گھاس پر لیٹ کر کہا 
"اوئے خبردار جو کسی نے زالان کے بارے میں کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا "
زرشالہ نے ہاتھ اٹھا کر سب کو وان کیا 
"ہم تو بھول گئے یہاں اے اس پی زالان صاحب کی چمچی بھی بیٹھی ہوئی ہے " 
عمار نے ہنس کر اسے مزید آگ لگایا 
اس نے اٹھ کر چپل اٹھائی عمار اپنا بچاؤ کرتا بھاگا 
                     ....... ...............

جاری ہے....

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─