┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_01

موسم صبح سے خراب تھا سب نے مل کر بارش انجوائے کرنے کا پلان بنایا تھا 
ادھر بارش کی پہلی بوند زمین پر پڑی ادھر سب کے واٹس ایپ گروپ پر گروپ کی چیف کا میسج موصول ہوا ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا تھا سب اپنے کام چھوڑ چھاڑ کر گھر کے پیچھلے حصے کی طرف بڑھے تھوڑی سی بھی دیر ہونے کی صورت میں گروپ کی چیف نے انہیں اپنے گروپ سے ایک دن کے لیے نکال باہر کر دینا تھا اور وہ بیچارہ یا بیچاری اہے بھر کر رہ جاتا کسی کو بھی گروپ کی خلاف ورضی کرنے کی اجازت نہیں تھی ہاں چیف کا جب دل کرتا رول بدل دیتی اور سب صرف اختجاج کرتے رہ جاتے جیت ہمیشہ چیف کی ہوتی 
وہ سب آگے پیچھے گھر کے پیچھلے لان میں داخل ہوئے بارش نے بھی اب زور پکڑ لی تھی سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی وہ سب مسرور دیکھائی دے رہے تھے ان سب کی ایک دوسرے میں جان تھی تکلیف ایک کو ہوتی درد سب کو ہوتا خوشی ایک کی ہوتی اس کی خوشی میں خوش وہ سب ہوتے 
"ویلکم ٹو فیری لینڈ" چیف نے پر خوش انداز میں ان کا خوش آمدید کہا 
" چیف تم کیوں بھول جاتی ہوں ہر بار یہاں صرف فیری نہیں ہے ہم بیچارے مظلوم مرد بھی اس گروپ کے اہم فرد ہے " عمار ناراضگی سے گویا ہوا 
دوسری طرف پروا کیسے تھی 
"اوکے اوکے لڑکیوں کی طرح ناراضگی دیکھانے کی ضرورت نہیں ہے " چیف نے مزاق اڑایا 
عمار نے گھو کر اسے دیکھا کچھ بھی چیف کے خلاف کہنے سے پرہیز کیا کیونکہ عمار کو یہ موسم اکیلے انجوائے کرنا کا بلکل موڈ نہیں تھا 
یہ گروپ اٹھ لوگوں پر مشتمل تھا جن میں شارق ،روما ،ولید ،رانیہ ،عمار، افشاہ ، بہروز اور گروپ کی سب سے اہم فرد جس کے بنا یہ گروپ ادھورا تھا وہ تھی زرشالہ صاحبہ جس کا حکم پر سب لیبک کہتے تھے کریزی گروپ اس وقت بارش کو دیکھ کر پاگل ہی ہو رہے تھے لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی بارش میں اچھل کود رہے تھے ساتھ ساتھ فٹبال کھیل رہے تھے ایک دوسرے سے بال کھینچ رہے تھے اس وقت کوئی بھی انہیں دیکھ کر نہیں کہ سکتا تھا یہ سب معزز گھرانے کے بچے ہیں 
"روما تم نے اب کی بار مجھے بال لینے کے بہانے لات ماری نہ تو مجھ سے برا ہوئی نہیں ہو گا " روما کی تیسری بار لات کھا کر عمار بلبلا اٹھا 
"تم سے برا کوئی ہے بھی نہیں اور خبردار جو مجھے آنکھیں دیکھائی تو یہ روب اپنی پانچویں گرل فرینڈ پر جا کر جمانا " اس نے دانت چبا کر کہا 
"تم تو یونہی جل جل کر مارو گئی میری ان حسیناؤں سے " اس نے دانت نکال کر اسے چڑایا 
"تم دنوں یہاں کیا کھسر پھسر کر رہے ہوں عمار کے بچے ہماری ٹیم ہار رہی ہے اور تمہیں روما صاحبہ سے لڑنے سے فرست نہیں ہے " ولید غصے سے چلایا 
"اوئے میں لڑتا ہوں یا یہ آفات کی پوریا مجھے تنگ کرنے پہنچ جاتی ہے ہر جگہ اتنا زورکا مارا مجھے اس جنگلی بلی نے " اس نے اپنی دائیں ٹانگ پکڑ کر ڈھائی دی 
روما کے ساتھ ساتھ پاس کھڑی رانیہ کی بھی ہنسی چھوٹ گئی 
"اللّٰہ اللّٰہ عورتوں کی طرح دھائیاں دینا تو چیک کروں عمار باجی کی " روما نے ہنس کر مزاق اڑایا
"تمہاری تو ایسی کی تیسی صبر کروں آج تم میرے ہاتھوں زندہ نہیں بچوں گئی " اس نے روما کے پیچھے ڈور لگائی روما آگے آگے عمار اس کے پیچھے پیچھے 
"اوئے مرد ہے تو ہم مردوں سے مقابلہ کروں نا اس بیچاری پر اپنے مرد ہونے کا ثبوت نہ دوں" بہروز نے دور سے ہانگ لگائی 
اس کی بات پر عمار نے مڑ کر خون خوار نظروں سے اسے گھورا 
"چل آؤ پھر میدان میں آج دو دو ہاتھ ہو ہی جائے بہت آئے لڑکیوں کے سامان لمبی لمبی چھوڑنے والے 
عمار نے روما کو چھوڑ کر بہروز کی طرف ڈور لگائی جو بیچارہ کہ کر پچھتا رہا تھا 
پھر کیا آگے آگے بہروز اور عمار اس کے پیچھے ولید اور شارق لڑکیاں کھڑی انہوں دیکھ کر مسکرا رہی تھی 
زرشالہ کے دماغ میں شیطانی خیال آیا اس نے موبائل ان کر کے ان کی ویڈیو بنانی شروع کی وہ سب لڑنے جھگڑنے میں مصروف تھے انہوں علم بھی نہیں ہو سکا اب یہ ویڈیو زرشالہ صاحبہ انہوں بلک میل کرنے کے لیے استعمال کرنے والی تھی اپنے بہت سے کام بنا چو چرا کیے ان بیچاروں سے نکلوانے تھے 
"ہائے اماں مڑ گیا ہائے میری دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی " بہروز سلپ ہو کر زمین پر ڈھرام سے گرا عمار اتنی سپیڈ میں اس کے پیچھے ڈور رہا تھا کہ اس کے گرنے کے بعد اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پایا اسکے پیچھے ولید اور شارق ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے اس میں بہروز کی دھائیاں دب کر رہ گئی 
"ارے کمبختوں اٹھوں میری سانس بند ہو رہی ہے اللّٰہ پوچھے تم لوگوں سے میری ہڈی پسلی تور کر رکھ دی ہائے اماں" وہ روز روز سے چلا رہا تھا 
ان کی یہ حالت دیکھ کر لڑکیاں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی 
لڑکے کسی نا کسی طرح اٹھ کر ان کے سامنے آ کر کھڑے ہوئے چاروں کیچڑ میں لٹ پٹ تھے انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر سب کے قہقہے فضا میں گونج رہے تھے وہ ایسے ہی تھے زندہ دل ہر لمحے کو دل سے انجوائے کرنے والے لڑتے جھگڑتے رہتے ایک دوسرے کے لیے آوروں سے لڑنے کو تیار رہتے تھے اگر کوئی اس گھر میں ان سے الگ تھلگ تھا تو وہ تھا اس گھر کا سب سے بڑا اور لاڈلہ بیٹا اے اس پی زالان خان 
              ........................
"روک جاؤ وہی سب کے سب خبردار اس حالت میں اندار گھسنے کی کوشش بھی کی تو " داجی کی کڑک دار آواز سے جو جہاں کھڑا تھا وہی روک گیا سب نے خون خوار نظروں سے زرشالہ کو دیکھا 
"تم تو کہ رہی تھی داجی اور دادو اپنے روم میں ہے آپ سب بےفکری سے آجاؤ اور یہاں سامنے دیکھوں داجی غصے میں ہم سب کو گھور رہے ہیں" 
بہروز دھیمی آواز میں غرایا سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی 
"میں نے کوئی دھکا نہیں دیا تم سب کو میں جب آ رہی تھی وہ لوگ روم میں آرام فرما رہے تھے مجھے کیا پتا تھا داجی جاگ رہے ہوں گے" اس نے کمال معصومیت سے کہا وہ اچھے سے جانتی تھی داجی لاؤنچ میں بیٹھے ٹی وی پر اپنا پسندیدہ سیاسی پروگرام دیکھ رہے تھے لڑکوں کو مزا چکھانے کا اتنا اچھا موقع وہ ضائع نہیں کر سکتی تھی 
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ اس گھر کے مردوں کو تو دیکھوں کیچڑ سے لٹ پٹ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے حیر چھوڑوں تم جیسے ہنجار کام چور مرد کیا جانے وہ ہوتی کیا ہے " داجی فل فام میں آ کر گرجے 
لڑکیوں نے اپنا قہقہہ بہت مشکل سے روکا 
"اور تم سب لڑکیاں شرم تو نہیں آتی اگلے ہفتے امتحان ہے تم چاروں کے اور تم سب کو فرصت ہی نہیں کھلنے کھودنے سے " اب ان کے توپوں کا رخ لڑکیوں کی طرف تھا 
لڑکوں کے دل پر ٹھنڈک پر گئی شارق نے کیہنی مار کر رانیہ کو متوجہ کیا اس کے دیکھنے پر اسے آنکھ مار کر چھڑیا رانیہ نے منہ پر ہاتھ پھیر کر اسے وارنگ دی 
"داجی میں بھی انہیں یہی بات سمجھانے گئی تھی ان سب نے وہ اوڈھم مچایا ہوا تھا اللّٰہ توبہ مجھے بھی زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹ لیا " زرشالہ صاحبہ نے ہمیشہ کی طرح اپنا بچاؤ آپ کیا 
"داجی کی چمچی اللّٰہ مارے میسنی جھوٹی ہمیں خود بلا کر کیسے منکر ہو رہی ہوں تم " روما نے ذبردست اختجاج کیا اپنے ہاتھوں کو مشکل سے روکا نہیں تو اس کا دل کر رہا تھا ابھی زرشالہ کا گلہ دبا دے 
"ہاں میرا بچہ آدھر آؤ تم میں جانتا ہوں یہ سب ان سب کی کارستانی ہے تم تو بہت معصوم ہوں " انہوں نے باہے پھلا کر اسے اپنے پاس بلایا وہ بھی موقع ضائع کیے بنا ان کے پاس گئی باقی سب نے اسے غصے سے گھورا فل وقت وہ بدلہ لینے کے پوزیشن میں نہیں تھے 
"تم سب کیا کر رہے ہوں جاؤ اپنے اپنے پورشن کو " 
"داجی یہ زرشالہ ایک نمبر کی جھوٹی ہے یہ سب اس کے کیا دھرا ہے " شارق نے ہمت کر کے سچ کہا 
"اوئے خبردار جو کسی نے میری لاڈلی پر جھوٹا الزام لگانے کی کوشش کی تو "
"داجی آپ ہمیشہ کی طرح ہم سب کے ساتھ بےانصافی کر جاتے ہیں"
عمار نے غم سے چھور لہجے میں کہا 
"یہ ایکٹنگ کہی اور جا کر کروں میرے داجی کو میرے خلاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے " زرشالہ نے انہیں زبان نکال کر چھڑایا 
"دیکھ لے گے ہم تمہیں بھی بےایمان لڑکی" افشاں نے لاگ لگائی سب نے غصے سے اس چیڑیل کو گھورا اپنے اپنے منزل کی طرف رواں دواں ہو گئے 
"زرشالہ بچے تم بہت خراب ہو دیکھوں وہ سب کیسے ناراض ہو کر گئے ہیں" 
"داجی آپ صرف میرے داجی ہو ان سب کے اماں ابا اٹھائے ان کے لاڈ پیار میرے داجی صرف میرے ہے " اس نے لاڈ سے کہ کر انہیں پیار سے دیکھا 
"ہاہاہا ایک دن ان سب کے ہاتھوں بہت مار کھاؤں گئی تم "
"کوئی نہیں کل تک سب بھول بھال جائے گے وہ " اس نے لاپرواہی سے کہا 
"سب بچے کہا ہے زرشالہ بیٹے سب کو جا کر بولا لاؤ آج کی چائے سب ہماری طرف پیے گے بانو نے سارا انتظام کر دیا ہے " دادو کچن سے نکل کر اونچی آواز میں بولی 
"ارے نیک بخت دل خوش کر دیا تم نے تو" 
"بس بس آپ کے لیے سب پرہیزی کھانا ہے آپ زیادہ خوش نا ہوا" داجی نے برا سا منہ بنایا زرشالہ نے انہیں دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ سمجھایا مطلب تھا آپ بے فکر رہے میں ہوں نا داجی نے سر ہلا کر اوکے کیا 
اس نے سب کو گروپ میں وائس میسج چھوڑا سارے نادیدے اپنی تازی تازی بےعزت بھول بھال کر ان دھمکے 
                    ......................
"بڑی ماں آج کوئی سپیشل دے ہے کیا جو آپ کے کچن سے مزے مزے کی خوشبو آ رہی ہے " اس نے آگے بڑھ کر بڑی ماں کے گلے میں بازوں ڈال کر لاڈ سے پوچھے 
"بس ادھر کچھ اچھا بنا ادھر تم بن بلائے مہمان بن کر نازل ہو جاتی ہوں میں پوچھتا ہوں تمہیں کوئی اور کام نہیں ہے ہر وقت لوگوں کے گھروں میں جھانکتی رہتی ہوں " بہروز نے کچن کے دروازے سے ٹیک لگا کر طنز کیا
جس کا زرداری پر رتی برابر کوئی فرق نہیں پڑا مزے سے ایک ایک برتن کا ڈھکن کھول کر اس میں جھانک رہی تھی 
"خبردار جو میری بیٹی کو کچھ کہا تو یہ تم سے زیادہ میری بیٹی کا گھر ہے" صبا بیگم نے بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں دیکھائی 
"آپ ایسے چھوڑے بڑی ماں یہ بتائیں یہ سب کا خوشی میں بنایا جا رہا ہے آج تو میری ماجھا ہو گئی ہے اتنے مزے مزے کے کھانے وہ بھی میرے اور زالان بھائی کے پسند کے ہائے ..." ایک لمہے کے لیے روکی پر بڑی ماں کو دیکھا خوشی سے چلائی 
"ہائے بڑی ماں کیا زالان آ رہے ہیں " 
انہوں نے سر اثبات میں ہلایا 
"اللّٰہ اللّٰہ کتنے دوھکے باز ہے مجھے بتایا تک نہیں کتنا مس کرتی ہوں میں انہیں اور انہیں میری کوئی پرواہ ہی نہیں" آخر میں وہ روہانسی ہوئی 
"آرام سے بیٹا پہلے میری بات تو سن لوں وہ تمہیں سرپرائز دینے والا تھا اس لیے نہیں بتایا" انہوں نے پیار سے سمجھایا 
زرشالہ کھول اٹھی 
"آہا اب مزا آئے گا میرے پارٹنر آ رہے ہیں" اس نے چھک کر کہا 
"ہاں ہاں ایک اور تمہارا حمایتی آ رہا ہے " بہروز نے جل بون کر کہا 
"تم تو ایسے ہی جیلس ہونا میری مقبولیت سے "
"جیلس ہوتی ہے میری جوتی "
"ہاہاہا دیکھا جوتی تو ہو رہی ہے نا " اس نے تنگ کیا 
"بس کروں تم دنوں بس تم سب کو لڑنے کا کہ دوں اور تو کسی کم کے نہیں ہوں "
"بڑی ماں بہروز نے آپ کے سامنے مجھے باتیں سنائیں ہیں" اس نے منہ بنا کر شکوہ کیا 
"ہاں ہاں تم تو بدلے میں شہد میں ڈبو ڈبو کر مجھ پر جوابی حملہ کر رہی تھی نا "
"مجھے تمہارے منہ نہیں لگنا بڑی ماں میں جلدی سے تیار ہو کر آتی ہوں آج کا ڈنر آپ کی طرف کروں گی " اس نے خوشی خوشی اپنا پلین بتایا اور بھاگ کر باہر نکلی 
"مام آپ ہر بار اس چیڑیل کا ساتھ دیتی ہے میں تو کوئی لگتا ہی نہیں ہوں آپ کا نا" 
"جانتے ہوں بن ماں کی بچی ہے ہم سب سے اتنا پیار کرتی ہے اور ہم سب کو بھی وہ بہت عزیز ہے " انہوں نے اپنے لخت جگر کو پیار سے سمجھایا اس نے مسکرا کر اپنی ماں کو دیکھا واقعی اس گھر کے لوگ ایک دوسرے سے سچے دل سے پیار محبت کرتے تھے ایک دوسرے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی کوھٹ نہیں تھی یہی سب باتیں تو انہوں ایک دوسرے سے باندھ کر رکھے ہوئی تھی
                      .................
عبد الرحمن صاحب کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی ان کا تعلق سوات کے پھٹان قبیلے سے تھا کچھ مجبوریوں کی وجہ سے انہیں اپنا گھر اپنے رشتے سب چھوڑ چھاڑ کر لاہور آنا پڑا یہاں پر بھی ان کا اچھا خاصہ کاروبار تھا جو اب ان کے تینوں بیٹے سنبھال رہے تھے سب سے بڑے صمد صاحب تھے جن کی شادی وہی لاہور کے ایک پھٹان گھرانے میں صبا سے ہوئی تھی جن کے دو بچے تھے سب سے بڑا زالان خان اس گھر کا لاڈلا اور بڑا ہوتا داجی اور دادو کی جان تھی جو آج کل اے اس پی کے عہدے پر فائز تھے صرف اور صرف اپنے شوق کی وجہ سے اپنا بسا بسایا کاروبار چھوڑ کر ملک و قوم کی خدمت کرنے میں مصروف آج کل اس کی پوسٹنگ اسلام آباد میں تھی اس لیے وہ گھر والوں سے دور تھا دوسرے نمبر پر بہرور تھا جو ابھی زیرِ تعلیم تھا لاہور کے اچھی یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہا تھا 
دوسرے نمبر پر احمد صاحب تھے ان کی بیوی صبا کی چچا زاد بہن تھیں صائمہ بیگم ان کے تین بیٹے تھے بڑے دو جڑواں تھے شارق اور ولید بہرور کے ہم عمر وہ تینوں ہی بزنس میں ماسٹرز کر رہے تھے تیسرے نمبر پر تھا عمار ایک نمبر کا ڈرامے باز سب کی ناک میں دم کر کے رکھا ہوا تھا وہ یونیورسٹی کے دوسرے سال میں تھا اپنے بھائیوں کے نقس قدم پر چلتے ہوئے وہ بھی بزنس میں ماسٹرز کر رہا تھا وہ چاروں یونیورسٹی میں اکثر ساتھ ہی پائے جاتے انہیں کبھی کسی اور کی کمپنی کی ضرورت ہی نہیں پڑی 
عبد الرحمن صاحب کے تیسرے بیٹے ولی اللہ تھے ان کی بیگم عبد الرحمن صاحب کی دوست کی بیٹی تھی صفا ان کی تین بیٹیاں تھیں بڑی دو ان کی بھی جڑواں تھی جو شارق اور ولید سے دو سال چھوٹی تھی افشاں اور رانیہ وہ بھی یونیورسٹی کے دوسرے سال میں تھی پر ان لوگوں نے یہاں لڑکوں کا مقابلہ نہیں کیا تھا وہ اکنامکس میں ماسٹرز کر رہی تھی اس کے بعد روما صاحبہ تھی جو ابھی ابھی سیکنڈ ائیر کے ایگزم دے کر فارغ ہوئی تھی 
آخری نمبر پر زرشالہ کے ابو تھے جو زرشالہ کے پیدا ہوتے ہی ایک سال بعد اپنی بیگم کے ساتھ کسی پارٹی سے واپس آتے ہوئے کار آکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے تھے ایسے زرشالہ اپنے داجی اور دارو کی رہنمائی میں پڑھیں پلی مگر ان سب سے زیادہ وہ زالان کے قریب رہی تھی بچپن سے ہی وہ اس کا ہر لاڈ اٹھا آ رہا تھا زرشالہ کوئی بات کرتی اور زالان اسے پورا نہیں کرتے یہ ناممکن سی بات تھی زالان سے پورے تیرا سال چھوٹی تھی ابھی ابھی روما کے ساتھ سیکنڈ ائیر کے ایگزم دے کر مزے سے گھر پر آرام فرما رہی تھی 
عبد ہاؤس چار گھروں پر مشتمل تھا جس کی مین ایک ہی دیوار تھی اندار چار ایک جیسے گھر تھے جو ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے تھے ہر گھر کا راستہ ایک دوسرے سے جوڑا تھا لان سب کا مشترکہ تھا مین گیڈ کے پاس سب سے پہلا گھر داجی دادو اور زرشالہ کا تھا سب کے بے حد اصرار پر بھی داجی نہیں مانے تھے انہوں نے زرشالہ کو اس کے باپ کے گھر میں رکھ کر خود اس کی پرورش کی تھی ان کے گھر کے پیچھلے ایک خوبصورت لان تھا جس پر سب بچوں کا قبضہ تھا درخت ہی درخت چار سو پہلے ہوئے تھے جس میں زیادہ تر پھلوں کے درخت تھے آج کل آم کا سیزن تھا دوپہر میں سب ینگ جینریسن مل کر ان کچے آم پر ہلا بول دیتے تھے 
جاری ہے........
کیسی لگی پہلی قسط

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─