┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

خوف
افسانہ

اس نے نکلتے ہوئے کمرے کا بغور جائزہ لیا ۔ہر چیز اپنی جگہ موجود تھی اور کسی بھی تبدیلی کا احساس نہیں ہو رہا تھا ۔گھڑی رات کے بارہ بجنے کا خاموش مگر پرشور اعلان کر رہی تھی ۔قریب قریب گھر کے سب افراد سورہے تھے ۔ہاں ،کچھ کمروں کے کواڑوں سے روشنی کی ہلکی ہلکی لکیریں چھن کر باہر آرہی تھیں ۔وہ سونے کی کئی ایک ناکام کوششوں کے بعد بستر کو خدا حافظ کہہ چھت پر جانے کے لیے اٹھا ۔چھت پر پہنچ کر وہیں لیٹ گیا۔کھلے میں آ کر اسے خاصا سکون ملا مگر نیند بہرحال عنقا تھی ۔آج مسلسل تیسرا دن تھا کہ وہ سرے سے سو ہی نہیں پایا تھا ۔معلوم نہیں کیسے اس کے ذہن میں ایک خوف آن بیٹھا کہ وہ سوتے ہوئے مار دیا جائے گا ۔یہ دھڑکا پچھلے کئی ماہ سے لگا ہوا تھا مگر گذشتہ دوروز سے تو یہ خوف اس کی جان کو آگیا تھا ۔
چھت پر لیٹے ہوئے 'اس خوف سے دھیان بٹانے کے لیے وہ گذشتہ دنوں کے معمولات ذہن میں لانے لگا ۔اس کے ذہن میں بہت سے چہرے ابھر آئے'کچھ ایسے جن سے وہ نفرت کا دعویدار تھا اور کچھ وہ جن سے محبت کا۔وہ ایک عجیب دماغ کا آدمی تھا ۔اس کے اندر پنپنے والے محبت'نفرت اور انتقام کے تمام جذبات وقتی ہوتے ۔وہ جس سے نفرت کرتا کسی چھوٹی سی وجہ سے اس سے محبت کرنے لگ سکتا تھا اور جس سے محبت کرتا'اس سے کسی معمولی سی وجہ سے قابلِ نفرت سمجھنے لگ سکتا ۔اس کے کسی کی طرف سے مار دیے جانے کے امکانات مشکل ہی دکھائی دیتے تھے ۔ اس کے دوست اور دشمن دونوں ہی معمولی سطح کے تھے جو کسی تلخ بات کو بنیاد بنا کر گالم گلوچ تو کرسکتے تھے مگر عملی قدم اٹھانا ان کے بس میں نہیں تھا ۔سو دیانتدار راوی شاید ہی یہ توقع رکھنے میں کامیاب ہو کہ اسے سوتے ہوئے مار دیا جائے گا ۔
دوسری طرف خود وہ شدید نوع کے کرب کا شکار تھا ۔اس کا اپنا خیال یہ تھا کہ اسے کوئی بھی مار سکتا ہے اور یہ کہ خود فطرت اسے زندہ نہیں رہنے دینا چاہتی اور یہ کہ اسے کوئی نہ کوئی موذی مرض ضرور لاحق ہے وغیرہ وغیرہ۔ادھر اس کے اہلِ خانہ جس حد تک اس کی ان ذہنی خلشوں سے واقف تھے 'ان کا خیال تھا کہ فی نفسہ اسے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں بلکہ وہ خود کو مظلوم ثابت کرنے لیے یہ سب کھیل رچاتا رہتا ہے'مگر ایک دیانتدار دیکھنے والا یہ بات جانتا ہے کہ اس کے گھر والے اس معاملے میں صریح نہ سہی بڑی حد تک غلطی کا شکار نظر آتے ہیں ۔راوی یہ بھی جانتا ہے کہ فرد جب شخصی تنہائی کا شکار ہو تو وہ کئی ایک نوع کے واہموں کی اندھندا دھند نذر ہو جاتا ہے ۔راوی کی رائے میں کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ محض واہمے کا شکار نہ ہو بلکہ واقعی کسی ایسے خوف میں مبتلا ہو۔خیر راوی اس پر مزید کچھ کلام نہیں کرتا کہ یہ دخل در معقولات نہ سمجھا جائے ۔
وہ جب کمرے سے نکلا تو اس نے لائٹ آف کرنے سے قبل کمرے کا بغور جائزہ لیا تھا ، مگر ہر چیز اپنی جگہ موجود تھی ۔دراصل فطرت کی دشمنی کے خدشے کے پیشِ نظرزلزلے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا تھا جو صرف اس کا کمرہ ہلانے اور پھرڈھانے آ نکلے۔پھر کسی حد تک بچپن میں اسے جن بھوتوں اور جنوں سے ڈرایا گیا تھا بلکہ سورہ جن پڑھ پڑھ کر اس ڈر کا یقین دلا یا گیا تھا ، ان کی کسی شیطانی کارستانی کا خوف بھی موجود تھا ۔اس ساعت اتنے زیادہ خوف اس کے ذہن میں آ موجود ہوئے کہ وہ اصل خوف بھول ہی گیا ۔چھت پر لیٹے ہوئے جب وہ اپنا دھیان بٹانے کے لیے پرانی باتیں یاد کر رہا تھا تو بھی وہ موت کے خوف سے نہیں نکل پا رہا تھا ۔
تیسری رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے اور تمام افراد سو چکے تھے ۔وہ تنہا جاگ رہا تھا بلکہ کچھ غلط نہ ہو گا اگر کہا جائے کے وہ مارے خوف کے تھرتھر کانپ رہا تھا ۔ایسے میں اچانک اسے نیند کی گولیوں کا خیال آیا اور اس کا بوسیدہ ہوتا ہوا دماغ چمک اٹھا ، وہ جھٹ سے نیچے آیا اور دو گولیاں اکٹھی نگل گیا ۔غیر فطری طور پر اسے نیند آ گئی مگر خوف کی شدت کے سبب اس کا لاشعور جاگتا رہ گیا ۔دیوارپر لگے گھڑیال بتا رہا تھا کہ اس وقت ۳ بج چکے ہیں ۔بہرحال اب وہ سو چکا تھا ۔
اس سے آگے راوی کو خاموش ہونا پڑتا ہے 'کیونکہ ایک دیانتدار راوی دکھائی دینے والے واقعات اور کسی حد تک چہرہ خوانی سے حاصل کی گئی معلومات تو بیان کر سکتا ہے مگر کسی کے خواب میں گھس کر نہیں دیکھ سکتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے ۔یوں بھی یہ راوی کے امورِ ذمہ داری سے باہر ہے کہ وہ بے بنیاد اندازے لگائے ۔سو کہانی اس کے مرکزی کردار کی طرف منتقل کردینا ہی قرینِ انصاف ہے۔
''کوئی آ رہا ہے۔۔۔۔وہ شاید مجھے مارنے آرہا ہے۔۔۔۔اس کے پا س کوئی اسلحہ تو نہیں مگر قتل کے لیے اسلحہ ضروری تو نہیں ۔۔۔۔یوں بھی اس میری جو حالت ہے ، مجھے تو کوئی ترش بات کر کے بھی مارا جاسکتا ہے ، لو ۔۔۔وہ آگیا ۔۔۔وہ سر پر آ گیا۔''
گھڑی دن کے دس بجا رہی ہے اور راوی اس کے بستر کی پائنتی پر کھڑا ہے اور وہ جسمانی طور پر بالکل نہیں مارا گیابلکہ زندہ سلامت ہے۔
امکانی طور پر اسے کوئی ترش بات کر کے مارا جا چکا ہے۔

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─