┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے 
از: فاطمہ_خان
قسط_نمبر_22

حورین اپنے کمرے سے نکل کر بہروز لوگوں کے گھر کی طرف جانے لگی زرشالہ کا میسج تھا بڑی مما نے مزے دار سا کھانا بنایا تھا سب نے وہاں ہلا بول رکھا تھا وہ جلدی جلدی کے چکر میں سامنے سے آتے دامیر سے ٹکراتے ٹکراتے بچی 
"دھیان سے بیگم صاحبہ اتنی جلدی بھی کیا ہے "
حورین نے دل پر ہاتھ رکھ کر خود کو ریلکس کرنا چاہا دامیر کی بات پر نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد کیے بہت فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا حورین کا جب سے نکاح ہوا تھا وہ دامیر کے سامنے آنے سے کتراتی تھی آج قسمت دامیر پر مہربان ہوئی تھی تو وہ کیوں فایدہ نہ اٹھاتا
"کیا ہوا مجھے دیکھ کر سکتے میں کیوں آ گئی آپ جانےمن "
دامیر نے تھوڑا آگے جھک کر سرگوشی کے انداز میں کہا حورین دو قدم پیچھے ہٹیں اپنے سامنے دامیر کو دیکھ کر پہلے ہی کنفیوژ ہو رہی تھی اوپر سے اس کے ایسے جملے 
"دیکھے پلیز آپ مجھے ایسے ناں دیکھے"
حورین نے ادھر ادھر دیکھا شاید کوئی اس کی مدد کو آ جائے پر سارے بھوکے نادیدے کھانے پر ٹوٹے ہوئے تھے 
"خود ہی کہ رہی ہوں دیکھے پر خود ہی کہ رہی ہوں نہ دیکھے ہائے ظالم ایک بات بتاؤ میں کروں بھی تو کیا کروں"
دامیر نے شوخی سے جواب دیا 
"آپ ایسی باتیں مجھ سے ناں کیا کریں"
حورین نے برا مانتے ہوئے کہا 
"تم سے نہ کرو تو کیا محلے کی لڑکیوں سے جا کر کروں انہیں کہوں سنو جانے من میری بیوی مجھے گھانس نہیں ڈالتی تم ہی کچھ پل کے لیے میرا دل بہلا دوں"
دامیر نے مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی سے دریافت کیا
"میری طرف سے سو لڑکیوں کو جا کر کہے مجھے فرق نہیں پڑتا آپ بس اس وقت میرا راستہ چھوڑے "
حورین نے بے رخی سے جواب دیا
"تمہارا ہر راستہ مجھ سے ہو کر مجھ پر ہی حتم ہوتا ہے کہاں تک بھاگوں گی مجھ سے میری محبت سے "
دامیر دو قدم آگے بڑھا اپنے اور اس کے درمیان کا فاصلہ مٹایا اس وقت حورین گھر کے عام سے کپڑوں میں ملبوس تھی لون کا سادہ سا پنک تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا وہ اس عام سے حلیے میں بھی دامیر کو بہت اچھی لگ رہی تھی حورین نے دامیر کو دیکھا جو بنا گلاسز کے بہت اچھا لگ رہا تھا 
"دیکھے پلیز آپ جائے یہاں سے کوئی آ جائے گا""
"تم میرے سامنے کھڑی ہوں تمہیں دیکھنے کے بعد مجھے اپنی نظروں پر احتیار نہیں رہتا تمہیں اپنے سامنے پاہ کر دل کرتا ہے بس تمہیں ہی دیکھتا رہوں "
دامیر آج کچھ زیادہ ہی پھیل رہا تھا 
"آپ تو ایسے کہ رہے ہیں جیسے ہماری پسند کی شادی ہو رہی ہوں وہ سب ایک سمجھوتا تھا اور کچھ نہیں آپ پلیز خود کو اس واقعے کے بعد میرا پابند ناں سمجھے میں آپ کی زمیداری نہیں ہو اب"
حورین نے اس کی خوش فہمی دور کرنا چاہی دامیر نے بنا کچھ کہے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھاما دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں کو کان کے پیچھے کرنا لگا حورین اس کی حرکت سے شاک ہو گئی ایک دم سے کانٹ کھا کر خود کو چھڑانے کی کوشش کی
"یہ...آپ کیا کر رہے ہیں کوئی دیکھ لے گا پلیز ہاتھ چھوڑے میرا"
حورین نے پریشان نظروں سے اردگرد دیکھا 
"یہ ہاتھ چھوڑنے کے لیے نہیں تھاما تم میری تھی ہوں اور ہمیشہ رہوں گئی سمجھیں"
وہ اس کے کان کی طرف جھک کر سرگوشی میں بولا حورین کے رہے سہے اوسطان حطا ہو گئے 
"تم جیسی خوبصورت بیوی سامنے کھڑی ہوں تو اردگرد کون کمبخت نگاہ ڈالے گا "
 دامیر دنیا جہاں سے بے خبر حورین کو دیکھے جا رہا تھا ‎"بلکل بلکل آپ یہاں کھولے عام کھڑے ہو کر عشق معشوقی کریں ہم نے ناں ادھر ادھر نگاہ رکھنے والے" ‎"زرشالہ کی آواز پر حورین اچھل کر رہ گئی دامیر نے جلدی سے ہاتھ چھوڑا 
 "تمہیں کسی نے بتایا نہیں ہے یوں دو لوگ پرسنل بات کر رہے ہوں وہاں ایسے نہیں چلے آتے"
 ‎دامیر نے گھور کر اسے دیکھا
 ‎شاباش آپ کھولے عام لڑکی کا ہاتھ تھامے ڈائیلاگ مارے ہم سب اس پاس سے آنکھیں اور کان بند کر کے گزرتے رہے
زرشالہ نے کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا عورتوں کے انداز میں کہا 
لڑکی کوئی غیر نہیں میری بیوی ہے"
دامیر نے چیک کر کہا حورین بچاری شرمندہ کھڑی تھی
"بیوی نہیں منکوحہ ہے "
زرشالہ نے تصدیق کرنا ضروری سمجھا 
"بیوی ہے یاں منکوحہ میرے پاس حق ہے اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنے کا ڈرتا ورتا نہیں ہو میں کسی سے"
دامیر نے زرشالہ کو گھور کر جواب دیا 
"اچھا صبر ابھی داجی کو آواز دیتی ہوں ان کے سامنے کھڑے ہو کر زرا یہ شوخیاں مارے میر بھائی مزہ آ جائے گا"
زرشالہ نے دامیر کو ترکی بہ ترکی جواب دیا منہ موڑ کر آواز دینے لگی 
"داجی او داجی زرا ادھر آئے ۔۔۔"
حورین نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا دامیر بچارا بھی بوکھلا کر رہ گیا 
"پاگل تو نہیں ہو گئی ہوں مروانا ہے کیا"
دامیر نے بھنگاڑ کر کہا زرشالہ نے حورین کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹایا 
'بس اتنی ہی ہمت تھی اب روکے ناں داجی کو بھی دیکھنے دے اب دن دھاڑے ہمارے گھر کی عزت کا ہاتھ تھامے محبت نھبا رہے ہیں"
زرشالہ نے منہ بنا کر جواب دیا
"زر عقل کے ناخن لوں یہ کیا بے وقوفی ہے"
حورین کا ضبط جواب دے گیا تھا 
"تم تو منہ بند ہی رکھوں تم سے تو میں بعد میں بات کروں گی تمہیں میں نے کھانے پر بولایا تھا یہاں کھڑے ہو کر یہ سب کرنے کے لیے نہیں اپنی ہی لڑکی قابو میں نہیں باہر کے لڑکے کو کیا کہے بندہ "
زرشالہ نے تاسف سے سر ہلایا حورین بچاری شرم سے پانی پانی ہو گئی 
"یہاں کیا ہو رہا ہے اور تم کیا کر رہے ہوں میر تمہیں تو دیر ہو رہی تھی ابھی تک گئے نہیں "
زالان بھی وہاں چلا آیا تھا دامیر نے غصے سے زرشالہ کو گھورا 
"دیر ویر کوئی نہیں ہو رہی تھی یہ یہاں کھڑے لڑکی پھٹا رہے تھے"
زرشالہ نے گردن موڑ کر زالان کے علم میں اضافہ کیا 
"سمجھا لوں اپنی اس فتنہ کو میرے ہاتھوں ضایہ ہو جائے گئی اب اگر اس نے کوئی بھی الٹی سیدھی بات کی تو"
دامیر نے دانت پیس کر غصے سے زرشالہ کو گھور کر دیکھا 
"لوں جی ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری "
زرشالہ نے ہاتھ نچا نچا کر کہا 
"ہوا کیا ہے کوئی مجھے بھی بتائیں گا"
زالان نے پریشانی سے تینوں کو دیکھا 
"یہ کیا بتائیں گے میں بتاتی ہوں آپ کے دوست دن دھاڑے آپ کے گھر کی لڑکی کا ہاتھ تھامے یہاں کھڑے دنیا جہان سے بے نیاز محبت فرما رہے تھے "
اس کی بات سن کر زالان کا دل کیا وہ اپنا سر دیوار سے دے مارے 
"تمہیں آخری بار کہ رہا ہوں سمجھا دوں اس فتنے کو میں اپنی بیوی کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا اسے زیادہ تکلیف نہ ہوں"
دامیر نے لال پیلے ہوتے ہوئے زرشالہ کو وان کیا 
"بیوی نہیں منکوحہ کتنی بار کہوں آپ سے میر بھائی ابھی حورین آپ کی منکوحہ ہے"
زرشالہ کو دامیر کو تنگ کرنے میں مزہ آ رہا تھا زالان نے باری باری دونوں کو دیکھا 
"شالہ کیا ہو گیا ہے تمہیں کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہو گئی ہے جو تم نے واویلا مچایا ہوا ہے"
دامیر کے دل میں ٹھنڈک پڑی اس نے زبان نکال کر اسے غصہ دلایا 
"واہ واہ ماشاءاللہ قربان جاؤ بھی آپ کی سوچ پر میں پوچھتی ہوں اس گھر کی مردوں کی غیرت کہاں مر گئی ہے یہ سن سنے کے لیے میں زندہ تھی کیا "
زرشالہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر حیرت سے زالان کو دیکھا زالان بچارہ بری طرح پھنس گیا تھا دوست کو ٹھیک کہتا زرشالہ ناراض ہوتی زرشالہ کو ٹھیک کہتا دامیر ناراض ہو جاتا 
"کہ تو تم بھی ٹھیک رہی ہوں یہ سب مناسب تو نہیں لگتا بھرا گھر ہے لوگوں سے کوئی اور یہاں آ جاتا تو کیا کہتا میر تمہیں ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا "
زالان نے دامیر کی طرف دیکھ کر آنکھوں میں التجا لے کر اسے دو سنائی کے بھائی تو چپ کر جا اس فتنے کو جانے دے پھر باقی کا بعد میں دیکھ لے گے دامیر سن کر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے گھورنے لگا 
"میں پوچھتا ہوں آخر میں نے ایسا کر کیا دیا ہے جو یہ فتنہ دنیا جہان کی لوگوں کا جینا حرام کرنے والی چڑیل اتنا سین کریٹ کر رہی ہے'
دامیر نے ناگواری سے زالان کی طرف دیکھ کر پوچھا
"ہاں ہاں میں سین کریٹ کر رہی ہوں اور آپ جو بچوں کے سامنے رومانس جھاڑ رہے تھے وہ کچھ بھی نہیں تھا"
زرشالہ نے کرتے کے بازوں اوپر چڑھا کر لڑنے والے انداز میں کہا 
"زر اللّہ پوچھے تم سے کیا الٹا سیدھا بول رہی ہوں کچھ شرم کروں"
حورین اس کے اتنے بڑے جھوٹ پر تلملا کر رہ گئی 
"بس شالہ بہت ہو گیا تم جاؤ اندار "
زالان نے زرشالہ کو ڈانٹا 
"ہاں ہاں تم تو اسے کچھ کہوں گے نہیں بس اندار بیجھ کر بات رفا دفع کر رہے ہوں"
دامیر کو اس کی بات پسند نہیں آئی 
"حورین تم اندار جاؤ ان دونوں کو اللّہ ہی ہدایت دے یہ ان کا آج کا معمول نہیں ہے اکثر یہی سب کرتے رہتے ہیں تم جاؤ اندار میں انہیں دیکھ لوں گا"
زالان نے بزاری سے ان دونوں کی طرف اشارہ کر کے کہا حورین بھی موقع کی تلاش میں تھی اندار بھاگ کر جانے لگی 
"تم کہاں جا رہی ہوں میں نے کوئی چوری نہیں کی جو تم یوں بھاگ کر جا رہی ہوں "
دامیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا وہ لڑکھڑا کر اس کے بازوں میں جھول گئی زرشالہ نے فٹ آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے 
"اللّہ اللہ دیکھا آپ نے زالان آپ نے اپنے دوست کو اپنی آنکھوں سے یہ کیا حرکتیں کرتے پھیر رہے ہیں"
زرشالہ نے تھوڑا سا ہاتھ ہٹا کر ایک آنکھ سے زالان کو دیکھا زالان بچارہ بھی ادھر ادھر دیکھنے لگا حورین نے غصے سے خود کو چھوڑیا بھاگ کر اپنے گھر کی طرف گئی 
"فتنے اللہ پوچھے تم سے "
دامیر نے حورین کو آوازیں دی پر وہ کہاں روکنے والی تھی دامیر نے تلملا کر زرشالہ کو گھورا 
"اس نے اب کیا کیا ہے میر تم خواہ مخواہ اسے کیوں باتیں سنا رہے ہوں"
زالان کہاں برداشت کر سکتا تھا کہ اس کی شالہ کو کوئی باتیں سنائیں 
"شاباش میرے بھائی شاباش سارا کیا دھرا س فتنے کا ہے ایک چھوٹی سی بات کو خواہ مخواہ اتنا بڑا کیا اور تم کہ رہے ہوں اس نے کیا کیا ہے جا رہا ہوں میں یہاں سے آج سے میری تمہاری دوستی ختم "
دامیر روٹھے آنداز میں کہتا وہاں سے جانے لگا ان دونوں کی لڑائی میں پھنستا ہمشہ سے زالان ہی تھا اس نے آگے بڑھ کر دامیر کو کندھے سے پکڑا 
"کیا ہے یار ہوں لڑکوں کی طرح ناراض ہو کر کہاں جا رہے ہوں "
"واٹ کیا کہاں تم نے میں لڑکیوں کی طرح ناراض ہو رہا ہوں"
وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر صدمے سے چلایا 
"میرا مطلب وہ نہیں تھا ...'
"بس بس جو بھی مطلب ہے تمہارا جانے دوں آج دیکھ لیا تمہاری دوستی کتنی سچی ہے"
وہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا زالان نے مڑ کر گھور کر زرشالہ کو دیکھا جو قہقہہ لگا کر ہنس رہی تھی 
"تمہیں تو آج میں بتاتا ہوں ہر بار میری اور میر کی لڑائی کروا کر بہت خوشی ملتی ہے تمہیں ناں"
زالان نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھاگنے سے روکا 
"ہاہاہا قسم سے زالان میر بھائی کی شکل دیکھنے والی تھی آپ کو پتا ہے جب بھی آئی تو کیسے کیسے ڈائیلاگ مار رہے تھے اللّہ مجھے تو ابھی بھی یاد کر کر کے ہنسی آ رہی ہے"
زرشالہ ایک ہاتھ منہ پر رکھ کر ہنس ہنس کے پاگل ہو رہی تھی زالان نے اس کا ہاتھ چھوڑ کر اسے گھورا 
"ایسا بھی کیا دیکھ لیا تم نے جو اتنا واویلا مچا لیا تھا شرم کروں شوہر ہے وہ اس کا "
زالان نے اسے ڈانٹا شرم اور زرشالہ کو آ جاتی یہ ممکن ہی نہیں تھا 
"آپ کو پتا ہے کیسے ہاتھ پکڑا تھا انہوں نے ایسے"
زرشالہ نے آگے بڑھ کر زالان کا ہاتھ تھاما 
"پھر پتا ہے کیا کر رہے تھے یوں حور کے بال اپنے ہاتھوں سے پیچھے کر رہے تھے"
زرشالہ نے تھوڑا سا پاؤں اوپر کر کے زالان کے چہرے پر ہاتھ پھیرا زالان نے بے خودی میں اس کا ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں پر رکھ دیا زرشالہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچا دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گئی اپنی مستی میں وہ بھول ہی گئی وہ کر کیا رہی ہے اس کی دل کی دھڑکن تیز تیز چل رہی تھی 
"کیا ہوا تمہاری بھولتی کیوں بند ہو گئی ہے "
زالان نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا تھا ہنس کر زرشالہ کو دیکھا جو ابھی تک ایسے ہی بےخودی میں زالان کو دیکھے جا رہی تھی 
"تم ٹھیک تو ہو ناں"
زالان نے اس کی آنکھوں کے سامنے چھٹکی بجائی 
"ا ہاں میں ٹھیک ہو مجھے لگتا ہے کوئی مجھے آواز دے رہا ہے میں چلتی ہوں وہ وہاں سے بھاگنے کے چکر میں تھی زالان نے اس کا ہاتھ پھرتی سے تھام لیا 
"اوروں کا جینا حرام کرنا چھوڑ دوں ظالم لڑکی کیوں ہر وقت سب کی ناک میں دم کر کے رکھا ہوتا ہے تم نے بچی نہیں ہو اب زندگی کو مزاق سمجھنا چھوڑ دوں "
زالان نے رسالت سے اسے سمجھانے کی کوشش کی 
"آپ کو لگتا ہے میں زندگی کو مزاق سمجھتی ہوں ایسا نہیں ہے زالان اتنی ٹینشن بھری زندگی میں کچھ لمحے اگر کسی کو تھورا سا ہنسا لیا جائے تو کسی کا کچھ نہیں جاتا ہاں دل خوش ہو جاتا ہے میرا بھی دل کرتا ہے بےشک میں خوش رہوں یا نہیں میری وجہ سے کوئی تو خوش رہ سکے اور جہاں تک میر بھائی کی بات ہے قسم سے ان کو تنگ کرنے میں بہت مزا آتا ہے دیکھنا وہ کل تک بلکل ٹھیک ہو جائے گے"
زرشالہ نے خوشی سے کہتے ہوئے زالان کی ناک دبائی
زالان نے مسکرا کر اسے دیکھا کیا تھی وہ لڑکی پاگل سی ویسے ہی تو وہ س کا دیوانہ نہیں تھا کچھ تو تھا اس میں جو اسے سب سے معتبر بناتا تھا 
                   .......... ...............
داجی غصے سے ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے سب بڑے اس وقت داجی کے سامنے لاؤنچ میں پرجمان تھے داجی نے سب کو ارجنٹ بات بات بتانے کے لیے بولایا تھا اب سب بیھٹے ان کے بولنے کا انتظار کر رہے تھے دادو سے مزید انتظار نہیں ہوا تو بلا آخر بول ہی اٹھی 
"ارے سنتے ہوں صمد کے آبا آخر کیا آفت ان پڑی ہے جو ہمسب کو یہاں بیھٹا کر خود دور کی مقابلے میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہوں"
داجی نے اپنی عینک ٹھیک کرتے ہوئے کوفت سے جواب دیا داجی نے روک کر انہیں دیکھا پھر لمبی سانس لے کر صوفے پر بیٹھ گئے 
"تم سب جانتے ہوں میں نے تم لوگوں کو یہاں کیوں بلایا ہے"
داجی نے سنجیدگی سے دریافت کیا
"داجی قسم لے لے ہمیں الہام بلکل نہیں ہوا"
ولی صاحب نے آہستہ سے جواب دیا 
"تم تو اس عمر میں بھی ایسی بونگیاں مارنے سے باز مت آنا"
داجی نے انہیں گھور کر دیکھا 
"آپ ایسے چھوڑے بچہ ہیں "
"واہ ماشاءاللہ جوان جہان بچیوں کا باپ ہو کرتم اسے بچہ کہ رہی ہوں بیگم "
داجی نے افسوس سے اپنی بیگم کو دیکھا 
"ماں کے لیے اپنی اولاد ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں"
دادو برا مان کر بولی 
"بس بس میرا دماغ نہ کھاؤ "
داجی نے دادو کو آنکھیں دیکھائی 
"آپ سب کو پتا ہے آج صبح میرے آسٹریلیا والے دوست کا فون آیا تھا "
داجی نے بات شروع کی
"تو یہ کون سی نئی بات ہے آپ کے دوست کا بس چلے وہ پوری عمر کے لیے آپ کے پاس آ کر بیٹھ جائے "
دادو نے ناگواری سے کہا 
"بیگم میں کہتا ہوں اپنی چونچ بند رکھوں میں پہلے ہی بہت غصے میں ہوں"
داجی کو بار بار دادو کا بیج میں بولنا اچھا نہیں لگ رہا تھا 
"ہاں ہاں آپ کو تو شروع سے ہی میرا بولنا کبھی پسند ہی نہیں رہا "
دادو منہ پر دوپٹہ رکھ کر رونے لگی 
"خدا کی واسطہ ہے بیگم اس عمر میں مجھ سے امید مت دیکھنا میں تمہارے نخرے اٹھاؤ گا"
داجی نے ان کی رونے کی پرواہ کیے بنا جواب دیا 
صبا بیگم نے دادو کو خود سے لگا کر تسلی دی 
"آپ بتائیں ابا جان بات کیا ہے"
صمد صاحب نے سنجیدگی سے دریافت کیا
"تم تو رہنے دو میاں تمہاری ہی چھوٹ کا نتیجہ ہے سب جو آج اس عمر میں مجھے یہ دن دیکھنے پڑھ گئے ہیں میں پوچھتا ہوں تمہیں ضرورت کیا تھی اپنے بیٹے کو خود سے اتنا دور بھیجنے کی یہاں کون سی آفت آ گئی تھی اس نے تو ہمیں منہ دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑا"
داجی گرج چمک کے ساتھ شروع ہو گئے صبا بیگم نے دل پر ہاتھ رکھ دیا
"داجی میرا بیٹا ٹھیک تو ہے نہ"
انہوں نے فکرمندی سے پوچھا 
"بلکل ہٹا کٹا ہے کمبخت نے ایسا چاند چڑھایا ہے سنو گئی تو پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جائے گئی"
"اب پہلیاں ہی ڈالتے رہے گے یاں کچھ بتائیں گے بھی میرا تو دل بیھٹا جا رہا ہے "
دادو اپنی ناراضگی بھول کر پریشانی سے بولی 
"بہروز نے وہاں کسی لڑکی سے شادی کر دی ہے "
حبر تھی یاں بم جو سب کے سروں پر آ کر گرا تھا باہر کھڑا عمار اچھل کر رہ گیا وہ کسی کام سے آیا تھا داجی کی آواز سن کر وہی روک گیا تھا اس نے موبائل جلدی سے نکال کر کریزی گروپ کو میسج کیا شام کا وقت تھا سب ہی گھر پر تھے دو منٹ کے اندر اندر سب باہر لان میں موجود تھے اندار داجی غصے سے بے قابو ہو رہے تھے یہی حال صمد صاحب کا تھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اپنے بیٹے کو اپنے سامنے لا کر دو لگا کر پوچھتے یہ دن دیکھنے کے لیے تمہیں باہر بیجا تھا 
            .....................
            ‎
"ہائے ہائے میری بہن اللہ تمہیں حوصلہ اور صبر دے"
عمار نے آتے ہی زرشالہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر دکھی آواز میں کہا 
"کمبخت مارے کیا اول فول بولے جا رہے ہوں ہوا کیا ہے"
زرشالہ نے اس کا ہاتھ ہٹا کر تعجب سے پوچھا
"ہائے بہن نہ پوچھو ایک بھائی اپنی بہن کو ایسی حبر بتانے کی ہمت نہیں رکھ سکتا"
عمار نے جھوٹے آنسو صاف کر کے کہا
"روما سمجھا دوں اپنے اس اپنے کچھ لگتے کو اب اگر اس نے کوئی بکواس کی میرے ہاتھوں مر گپ جائے گا پھر تم بیھٹی آنسو بہاتی رہنا"
"میں کیوں آنسو بہاؤ گئی روئے میرے دشمن میری طرف کل کا مرتا آج مرے میری بلا سے "
روما نے فٹ سے عمار کے دل کے چار ٹکڑے کر دیے
"اللہ اللّہ یہ سنے سے پہلے شارق مر کیوں نہیں گیا "
عمار نے سینے پر ہاتھ رکھ کر ڈھائی دی شارق آنکھیں پھاڑے اسے گھورنے لگا 
"دفع دوں کبھی جو ڈھنگ کی بات کر لوں تم لوگ "
شارق نے افسوس سے سر ہلایا
"تم بات بتاتے ہوں یا ہم جائے یہاں سے میں پہلے ہی تھکا ہوا ہوں تمہاری فضول بکواس سنے کا وقت نہیں ہے میرے پاس"
ولید نے جمائی لیتے ہوئے بے زاری سے کہا
"اللّہ گنچے کو ناخن نہ دے جمعہ جمعہ اٹھ دن نہیں ہوئے کام کرتے بڑے آئے روب جمانے والے "
افشاں نے ناگواری سے اس کے کھولے منہ کو دیکھ کر کہا ولید نے اپنا منہ بند کر کے اسے گھوری سے نوازا 
"دو دن کام کر لوں آفس کا لگ پتا جائے گا تمہیں کام چور کہی کی"
ولید کہاں پیچھے رہنے والا تھا 
"ہاہاہا ہاں وہاں تو تم سے مزدوری کرواتے ہیں نہ جو یوں مرے جا رہے ہوں"
افشاں نے ناک چھڑا کر جواب دیا
"عمار کے بچے ان سب کو چھوڑوں تم باتوں کیوں بلایا ہے ہمیں یہاں"
زرشالہ کا بس نہیں چل رہا تھا وہ عمار کا گلہ دبا دیتی 
"وہ ہمارا بہروز نہیں ہے"
"ہاں نہیں ہے پھر"
ولید نے بےزاری سے کہا 
"اوہو دفع دور وہ ہمارا بہروز ہے ناں"
"ہاں ہے اب آگے پھوٹو"
زرشالہ نے جلدی سے کہا 
"میں دل خون کے آنسو رو رہا ہے میں کیسے بتاؤ"
عمار نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا 
"تمہارے تو آنکھوں سے نمکین آنسو بھی نہیں نکل رہے خون کے آنسو کیا خاک روئے گا"
روما نے ناگواری سے جواب دیا
"تمہیں کیا پتا ہے یہ خون کے آنسو میرے دل پر گر رہے ہیں یہاں"
اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر دکھ بھرے انداز میں جواب دیا 
"عمار کے بچے آپ اگر تم نے فضول بکواس کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا"
زرشالہ کا صبر جواب دے گیا تھا عمار نے گھور کر زرشالہ کو دیکھا 
"ہمارے بہروز نے ہمیں کہی کا نہیں چھوڑا اس نے وہاں شادی کر دی"
عمار نے آگے ہو کر سرگوشی میں کہا 
"واٹ"
سب کا منہ کھولا رہ گیا عمار نے زرشالہ کو دیکھا جو حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی
"دیکھا اس لیے نہیں بتا رہا تھا تمہیں میں جانتا تھا تم اتنا بڑا صدمہ برداشت نہیں کر سکوں گی "
عمار نے دکھ سے کہا 
جاری ہے 😍
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─