┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: ذت_عشق
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_29

سمرا کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے وہ اس کا تعاقب کرتے چلتی گئی۔۔۔
عصار نے سہیل کو کھڑا ہوتے دیکھا 
تو اپنی نظریں اس کے ہاتھ کے اشارے کی
 جانب پھیر لی۔۔۔
سمرا کے پیچھے سے خود کو سمیٹیں نظریں
 جھکائے چلتی آتی عفہ کو دیکھ کر
 عصار کا دل بے قابو سا ہوگیا۔۔۔
نظریں اس پر جم سی گئی۔۔۔
جبکہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر 
وہ بھی سہیل کے ساتھ عفہ کو دیکھتے ہوئے
 کھڑا ہوگیا۔۔
دونوں اب میز تک پہنچ چکی تھی ۔۔
عفہ کے کانوں سے نکلتی گرمی اس کے نروس
 ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھی۔۔۔
نظریں ابھی بھی نیچے کیے وہ اپنے مجرم 
کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔
جو بس اس کی معافی کا طلبگار تھا۔۔۔
لیکن برعکس اس کے کہ وہ نظریں جھکاتا وہ 
اسے اپنی خوبصورت آنکھوں سے دیکھ رہا تھا
 جبکہ وہ ہچکچاہٹ محسوس کررہی تھی۔۔۔
عصار کی بیگانی اور عفہ کی ہچکچاہٹ کو
 دیکھ کر سمرا اور سہیل دونوں ایک دوسرے 
کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
بلآخر سہیل نے جب سب کو یوں کھڑا دیکھا تو بول اٹھا۔۔۔
دیکھے یہاں کھڑا ڈینر کا ارینج نہیں ہے۔۔۔
اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پہلے بتا دیتے ہم اس 
طرح کے ہوٹل کا ارینج کروا دیتے جہاں کھڑے ہونے کا رواج عام ہوتا۔۔۔۔۔
کیوں سمرا ؟؟؟
صیحح کہہ رہا ہو ناں میں۔۔۔ 
سہیل نے مسکراتے ہوئے سمرا کی جانب 
دیکھ کر کہا ۔۔
جس پر سمرا نے جواب دینے کی بجائے اکتاہٹ بھری مسکراہٹ دینے پر ہی اکتفا کرنا مناسب سمجھا۔۔۔۔
بیٹھ جاؤ عفہ ۔۔۔۔۔۔
سمرا نے عفہ کے ہاتھ پر دباؤ ڈالتے اسے کرسی کی جانب متوجہ کیا اور خود اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔
عصار ابھی بھی اسی طرح دنیا سے بے خبر اپنی سوچ میں گم عفہ کا دیکھ رہا تھا۔۔۔
سہیل نے عصار کی بازو کا کف کھینچا اور اسے ہوش کی دنیا میں لاتے ہوئے بیٹھا دیا۔۔۔۔
کچھ دیر سب یونہی خاموش بیٹھے رہے۔۔۔۔
تو پھر؟؟؟؟
عصار بولتے بولتے رک گیا ۔۔
کہ شاید عفہ اب کی بار اسے ایک نظر دیکھے گی۔۔۔
لیکن سب نے عصار کی جانب دیکھا لیکن وہ اب بھی اسی پوز میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
تو پھر کیا؟؟؟
سمرا گو ہوئی۔۔۔
سہیل بات آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
یہ پوچھنا چاہ رہا ہے کہ کچھ پیئے گی؟؟
مطلب چائے یا کافی؟؟
ہینہ عصار یہی سوال ہے ناں؟؟
سہیل نے عصار کی بازو تھامے ہوچھا۔۔۔
جس پر عصار نظریں اٹکائے اپنی ہی سوچ میں حیرانگی سے سر ہلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
لگ تو نہیں رہا کہ یہ سوال پوچھنا چاہتا ہے آپکا دوست۔۔۔۔
سمرا آنکھ آچکا کر عصار کے تاثرات دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
جس پر سہیل نے عصار کی بازو پر زور دار چٹکی کاٹی۔۔۔
چٹکی کے درد سے عصار کے چہرے کے تاثرات بدل سے گئے ۔۔۔۔۔
اچانک سہیل کی جانب کاٹ کھانے کی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔
منہ سے بس ایک ہلکی سی آہ نکلی۔۔۔۔
تکلیف کی اس قدر شدت کے آنکھوں میں پانی سا تیرنے لگ گیا۔۔۔
کیا ہوا ہے عصار؟؟؟
آپکے چہرے کے رنگ کیوں بدل گئے ہیں؟؟؟
سمرا حیرانگی سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
میں بتاتا ہو۔۔۔۔
آپ کو۔۔۔۔
اس سے پہلے عصار بولتا سہیل بات کاٹتے ہوئے گفتگو گو ہوا۔۔۔۔
دراصل اس کو ابھی ایک مچھر نے کاٹا ہے۔۔۔۔۔
اسی وجہ سے اس کا رنگ بدل سا گیا ہے درد کی تکلیف کی وجہ سے۔۔۔۔
کیوں عصار صیحح کہا ناں؟؟؟ 
جی جی بلکل ٹھیک کہا ہے سہیل نے۔۔۔۔
عصار نے ایک گھوری ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ایک مچھر۔۔۔
کالا موٹا پھدا مچھر۔۔۔
جس کا زہر کسی کو بھی مار دے ۔۔
اب بتا سہیل صیحح کہہ رہا ہو ناں میں۔۔۔۔
عصار مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
حیرت ہے ویسے یار۔۔۔۔
تجھے مچھر کا رنگ شکل و ہیبت بھی یاد ہے۔۔۔
 کمال۔۔۔۔
سہیل چنی آنکھیں کرتے ہوئے بولا۔۔۔
ہاں جب ساتھ تیرے جیسا دوست ہو تو
 سنبھل کر ہر چیز پر نظر رکھنی پڑتی ہیں۔۔۔۔
اگر آپ دونوں نے اپنے نوک جھوک دیکھنے کیلئے ہمیں یہاں بلایا ہے تو ہم چلتی ہیں پھر۔۔۔۔
اتنا فضول وقت نہیں ہمارا کہ آپ پر ضیاع کیا جائے۔۔۔
کب سے خاموش بیٹھی سمرا دونوں کو طنز کرتے بولی ۔۔۔۔۔
نہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔ 
بس وہ۔۔۔۔۔ سہیل شرمندگی سے بولا۔۔۔۔
بس وہ یہ کہ کچھ مزید نہیں ۔۔۔۔۔
آپ بات کرے جو بھی بات کرنا چاہتے عفہ سے۔۔۔
سمرا عصار کو مخاطب کرتے بولی۔۔۔
عفہ ابھی بھی نیچے نظریں گاڑے اپنی ہاتھوں کی انگلیوں سے کھیل رہی تھی۔۔۔۔
بات تو کرنا چاہتا ہو ۔۔۔۔
لیکن اکیلے میں۔۔۔۔ عصار عفہ کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
عصار کی اس بات پر عفہ نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔۔۔۔
اپنی جانب عفہ کی نظریں اٹھتی دیکھ کر عصار کا دل ہل سا گیا۔۔۔
عفہ نے سمرا کا ہاتھ تھاما اور دباؤ دیا۔۔۔۔
کیا ؟؟؟؟
کیا مطلب آپکا؟؟؟
اس کا تذکرہ تو پہلے نہیں کیا اپنے؟؟؟ سمرا بولی۔۔۔
اب کر رہا ہو ناں ۔۔۔۔
اگر کوئی اعتراض نہ ہو تو؟؟؟عصار آگے کی 
جانب جھکتے ہوئے بولا۔۔۔
کیا کررہا ہے یار؟؟؟ 
کیوں سب خراب کرنے کے چکر میں ہے؟؟؟
 سہیل نے عصار کی بات سنی تو کان میں
 سرگوشی کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
چپ رہ بس۔۔۔۔ عصار جواب دو ہوا۔۔۔
چلوں جی ایک تو اس بندے کے نخرے اور کارنامے۔۔۔
اب پھر پھنسے گا ۔۔۔۔
پھر روئے گا۔۔۔۔
یاللہ کیسا نکما بے عقل دوست سے نوازا مجھے۔۔۔۔
سہیل دل ہی دل میں مایوسی سے دعا گو ہوا۔۔۔۔
جی نہیں۔۔۔۔
مجھے اکیلے بات نہیں کرنی سمرا کسی سے بھی۔۔۔۔
جو بات کرنی سب کے سامنے کرے۔۔۔۔ 
بلآخر عفہ اپنی چپی کا روزہ توڑتے ہوئے بولی۔۔۔
نظریں ابھی بھی جھکائے بیٹھی عفہ کی آواز سن کر عصار کی سماعت کو سکون سا ملا۔۔۔۔
سن لیا آپ نے ۔۔۔۔
جو بات کرنی ہے جلدی کرے ۔۔۔۔
ہم نے گھر بھی جانا ہے سب انتظار میں ہونگے۔۔۔۔
سمرا تلخی سے بولی۔۔۔
سہیل اٹھ کر جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔۔
اور سمرا آپ بھی جائے ۔۔۔۔
اگر آپ کو اپنی دوست پر یقین ہے تو کچھ لمحے آپ انہیں یہاں اکیلا چھوڑ سکتی ہیں۔۔۔۔
یقین جانے کھا نہیں جاؤ گا انہیں میں۔۔۔۔
عصار کی بات سن کر سمرا نے عفہ کی جانب دیکھا ۔۔۔
جو اس کی جانب نفی میں سر ہلاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔۔
میں آتی ہو کچھ دیر میں عفہ۔۔۔۔۔
تم جانتی ہو مجھے خود سے زیادہ تم پر یقین ہے۔۔۔۔
سمرا نے اپنا ہاتھ عفہ کے ہاتھ سے نکالا۔۔۔۔
سہیل نے سمرا کو آگے کی جانب جانے کا راستہ دیا اور پھر خود اس کے پیچھے چل پڑا۔۔۔۔۔
اب بس عفہ اور عصار آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔۔
پہلے ہلکی پھلکی ہل چل جو صرف سہیل اور سمرا کی وجہ سے تھی۔۔۔۔
اب وہ بھی نہ رہی ۔۔۔۔۔
بلکل مرگ خاموشی ہوگئی۔۔۔۔
بولے۔۔۔۔۔۔۔
عفہ نے ایک بار پھر بات کا آغاز کیا۔۔۔۔
کیا بولو؟؟؟ عصار چونک کر بولا۔۔۔
کیا مطلب؟؟؟
جس بات کے لیے بلایا وہ بولے۔۔۔۔ عفہ تذبذب کا 
شکار ہوتے ہوئے بولی۔۔۔
یقین کیوں نہیں کرتی اب مجھ پر؟؟؟ عصار سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔
کیا تھا۔۔۔۔ عفہ بولی۔۔۔
تھا؟؟؟؟عصار آہستگی سے بولا۔۔۔
جی تھا۔۔۔۔۔۔ عفہ بناء دیکھے بولی۔۔۔۔
وآپس آ سکتا کیا؟؟؟
نہیں۔۔۔۔ عفہ بولی ۔
دونوں اب سوال جواب کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔۔۔۔
کیوں؟؟؟
وجہ آپ جانتے ہیں۔۔۔۔ عفہ جواب گو ہوئی۔۔۔
مجھے تمہارے منہ سے سننا ہے۔۔۔۔عصار روبرو ہوتے بولے۔۔۔۔
میرے منہ سے کچھ نہ ہی سنے تو اچھا ہے۔۔۔۔
جو کچھ آپ کر چکے ہیں میرے ساتھ۔۔۔۔
مجھے وہ زبان پر لاتے ہوئے بھی شرم آتی ہیں۔۔۔۔
عفہ کی آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگ گئے۔۔۔
جبکہ عصار کو بھی اب اپنی کرنی یاد آنے لگ گئی۔۔۔۔
میں جانتا ہو۔۔۔۔
میں نے جو بھی کیا غلط کیا۔۔۔۔۔۔
غلط چھوٹا لفظ ہے مسٹر عصار چودھری صاحب۔۔۔۔
عفہ بات کاٹتے ہوئے عصار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولی۔۔۔۔
مجھے معافی مل سکتی اس کی کیا؟؟؟ عصار بولا ۔
میرا معاملہ اللہ کے حوالے۔۔۔۔ 
دیکھو عفہ۔۔۔۔۔ 
میں مانتا ہو مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔
میں غلط تھا۔۔۔
بہت غلط تھا۔۔۔
ایک مرد بن کر سوچا۔۔۔۔
ایک انسان نہ بن سکا۔۔۔۔
عفہ خاموشی سے اس کی آپ بیتی سن رہی تھی۔۔۔
جبکہ وہ اپنی دل کی بات عفہ کے سامنے پرسکون انداز میں رکھ رہا تھا۔۔۔۔
تم نہیں جانتی ہو ۔۔
تمہاری ایک بدعا نے۔۔۔۔
ایک ایک آہ نے میرا جینا اس قدر مشکل کردیا ۔۔۔۔
کہ بینکاک کی رنگینیوں سے نکل کر یہاں ایک معافی کا طلبگار بنے تمہارے سامنے موجود ہو۔۔۔۔
دیکھو میری حالت۔۔۔۔
میری طرف دیکھو عفہ ۔۔۔۔۔
کہاں سے لگتا ہے کہ میں وہی پرانا عصار ہو۔۔۔۔
جس نے تمہیں برباد کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔۔۔۔۔۔
دیکھو میری طرف عفہ۔۔۔۔
یوں نظریں مت چڑاؤ۔۔۔۔
خدا کی قسم میری روح بے سکون ہے اور ضمیر ملامت کرتا ہے مجھے۔۔۔۔
عصار کے اصرار پر عفہ نے اب نظر بھر عصار کو دیکھا جس کا حلیہ اس کے زبان بیان کی طرح ہی تھا۔۔۔۔۔
میں سو نہیں پاتا۔۔۔۔
تمہاری چیخیں ۔۔۔۔
تمہاری آہیں۔۔۔۔
آنسوں۔۔۔۔
مجھے سنائی دیتی ہیں خواب میں ، ہوش میں۔۔۔۔
دیکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔
عصار کی آواز بھرنے کو آگئی۔۔۔۔
کس قدر تڑپ رہا ہو میں تم اندازہ نہیں لگا سکتی۔۔۔۔
تمہاری بدعا اس قدر لگی مجھے کہ کوئی سروسامان نہ رہا میرا۔۔۔۔
مجھے سکوں چاہیے عفہ۔۔۔۔
پلیز مجھے دے دوں۔۔۔۔۔
اپنے خوشی کے صدقے دے دو۔۔۔۔
عصار اب آنکھوں سے آنسوں بہاتا لوگوں کی نظروں سے چھپاتا ہاتھ جوڑے عفہ کے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
عفہ کا دل اب پھٹ سا رہا تھا ۔۔۔۔
بے چینی سے اپنی تلاش کرتی نظروں کو گھوماتے ہوئے سمرا کو دیکھنا شروع کیا کہ کہیں سے اس کی ایک جھلک نظر اجائے۔۔۔۔۔
اور وہ یہاں سے غائب ہو جائے ۔۔۔۔
عفہ کو اردگرد دیکھتے دیکھ کر عصار نے اسے پھر ایک بار اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔
پریشان نہ ہو عفہ ۔۔۔
اب کچھ نہیں کرو نگا۔۔۔۔
اپنی کی گئی غلطی کا مکمل مداوا نہ سہی لیکن غلطی پر کرنے کی مکمل کوشش کرونگا۔۔۔۔
لیکن اس کیلئے مجھے عفہ بخآری کا یقین چاہیے۔۔۔۔۔
مجھ پر یقین کرونگی ؟؟؟
عصار اپنی سرخ آنکھوں سے عفہ کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
عفہ نے عصار کی گہری آنکھوں میں سچائی دیکھی تو فورا آنکھیں بدل لی۔۔۔۔
کیسے کرو یقین عصار۔۔۔۔
مجھے نہیں بھولتا کچھ۔۔۔۔
کچھ بھولنے کے قابل نہیں چھوڑا مجھے آپ نے زریس کی شکل میں۔۔۔۔
جو جب جب میرے سامنے آتا ہے۔۔۔۔۔
آپ کے گناہ کی یاد دلاتا ہے۔۔۔۔۔
مانتی ہو میں گمراہ ہوئی تھی لیکن اس کی اتنی بڑی سزا۔۔۔۔
عفہ کی ہچکیاں شروع ہوگئی تھی۔۔۔
عفہ کا گرتا ہر ہر آنسوں عصار کے دل پر بھاری پڑ رہا تھا۔۔۔
یہ دیکھ رہے ہیں میرا ہاتھ۔۔۔
عفہ نے اپنا ہاتھ عصار کی جانب کیا جس میں زریس کے نام کی انگوٹھی واضح تھی۔۔۔۔
میں پل پل مر رہی ہو۔۔۔۔
یہ انگوٹھی میرے لیے پھندا ہے ۔۔۔۔
دلدل ہے جس میں ، میں دن بدن دھنس رہی ہو۔۔۔
اور آپ سوچتے ہیں کہ آپ کو سکون میسر ہو۔۔۔۔
عفہ کی آواز میں لرزش تھی۔۔۔۔
جب یقین نہیں کرنا چاہیے تھا تب سب سونپ دیا مجھے۔۔۔۔
اور آج میں خالی جھولی لیے سامنے موجود ہو تو آج انکاری ہورہی ہو۔۔۔۔
اس بات پر عفہ خاموش رہی۔۔۔۔
عصار کو جب کچھ مزید نہ سوجھی تو بولا۔۔۔۔۔
میں جس لڑکی سے محبت کرتا تھا۔۔۔۔
اسی کی خاطر میں نے پاکستان چھوڑا اور بینکاک مقیم ہوا۔۔۔
اور آج پاکستان میں ہو تمہاری وجہ۔۔۔۔۔۔
عصار بولتے بولتے رک گیا۔۔۔۔
شاید عفہ کے تاثرات کا معائنہ کر رہا تھا۔۔۔
جبکہ عفہ کی نظریں بھی اس کی جانب اٹھ گئی۔۔۔۔
میں چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا۔۔۔۔
اپنے گھر سے آئی تھی دلہن کے روپ میرے پاس۔۔۔
لیکن اپنے اندر کے خوف اور بزدلی سے اسے ہار دیا میں نے۔۔۔۔
آج بھی یاد ہے مجھے ۔۔۔
دلہن کے روپ میں وہ نہایت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔
آنکھوں سے آنسوں کی لڑی بہاتی میرے سامنے کھڑی تھی۔۔۔
 انکار سن کر وہ بے سود سی ہوگئی۔۔۔۔
اور جب کچھ نہ بنا تو اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھڑاوا کر بولی۔۔۔
عصار بولتے بولتے اپنے ہاتھ کی جانب دیکھنے لگ گیا جیسے اس ہاتھ کا لمس محسوس کرنا چاہتا ہو۔
 جبکہ عفہ بھی اسی طرح ہاتھ کو دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔
اگر محبت ہوتی تو آج میں اسکا ہاتھ تھام لیتا۔۔۔۔
لیکن لگتا ہے محبت نہیں ہے۔۔۔
دعا ہے کہ مجھے ایسی محبت ہو کہ جس درد سے
 میں گزر رہی ہو اس درد کا احساس مجھے بھی ہو۔۔۔۔
اور تب میں اس کی تڑپ کا سوچوں گا۔۔۔
اس رات کے دو دن بعد میں پاکستان چھوڑ کر بینکاک آگیا۔۔۔۔
شاید خود سے اور اپنے اندر کے ڈرپوک انسان کا سامنا کرنے سے کترا رہا تھا۔۔۔۔۔
عفہ عصار کو غور غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ واپس اپنی جو پن پر آیا۔۔۔۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو پتہ ہے۔۔۔۔
بتانے کا مقصد کہ شاید اب یقین آ جائے تمہیں۔۔۔۔
یہ بات سن کر عفہ حیرانگی سے دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔۔
کیسا عجیب انسان ہے یہ ۔۔۔۔۔
اب ایسی باتیں بتائیں گا وہ بھی یقین حاصل کرنے کیلئے۔۔۔۔ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔
عفہ کے ابھی بھی بے اعتباری دیکھ کر عصار پھر سے بولا۔۔۔
شاید ابھی بھی یقین نہیں۔۔۔۔
کیسے آئے گا میں تمہاری جگہ ہوتا تو شاید ملنا بھی گوارا نہ کرتا۔۔۔۔
لیکن میں ایک اور کوشش کرنا چاہتا ہو۔۔۔۔
عفہ کے چہرے پر اب ایک مسکراہٹ سی بکھر گئی۔۔۔۔
ہم تین بھائی ہیں۔۔۔
یہ تو سب کو پتہ ہے سب جانتے ہیں۔۔۔۔
لیکن میری ایک بہن بھی ہے۔۔۔
عفہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے عصار کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
کتنا بڑا جھوٹا ہے یہ۔۔۔۔
آج تک کبھی بھنک بھی نہ لگائی ۔۔۔۔ دل ہی دل میں سوچتے ہوئی بولی۔۔۔
ہم سب سے چھوٹی بہن میری ۔۔۔
جس کا کسی کو بھی نہیں پتہ سوائے میرے خاندان کے۔۔۔
آج تک اس کا نام کسی کے سامنے نہیں لیا یہاں تک کہ کبھی ذکر نہ کیا۔۔۔
شاید میری بہن تھی اس لیے۔۔۔
لیکن آج تمہارے سامنے بیٹھ کر بتانے میں مجھے کسی بھی قسم کا ڈر نہیں لگ رہا ہے ۔۔۔
آج بتا رہا ہو۔۔۔
اس انسان کو جس کے آگے میں سر جھکانے کو تیار ہو۔۔۔
جس پر اپنے سایہ سے زیادہ اعتبار ہے مجھے اب۔۔۔
اب بولو۔۔۔
یقین کر سکتی ہو مجھ پر کہ نہیں؟؟؟
اس سے پہلے عفہ کچھ کہتی سمرا اور سہیل لڑتے مرتے ان کی جانب بڑھے۔۔۔۔
بات ہوئی کہ نہیں عفہ۔۔۔۔
اس لفنٹر نے میرا دماغ خراب کردیا ہے بس منہ تڑواتے تڑواتے بچا مجھ سے ۔۔۔
سمرا کی بات سن کر سہیل بھی بپھر سا گیا۔۔۔۔
کون لفنٹر؟؟؟
او ہیلو میڈم۔۔۔۔
عصا ر اس نے میرا دماغ کھایا۔۔۔
اتنی بد تہذیب ہے یہ۔۔۔۔۔ 
پتہ نہیں عفہ کیسے رہ لیتی ہیں اس کے ساتھ۔۔۔۔۔
چڑیل سڑیل۔۔۔۔
عفہ چلوں ابھی ورنہ میں اسکا منہ نوچ کر رکھ دونگی۔۔۔۔
بس بس سمرا اتنا غصہ۔۔۔۔ عفہ نے سمرا کو پکڑا۔۔۔۔۔
بس کر یار کیوں بول رہا ہے۔۔۔
ادھر سے عصار نے سہیل کو سنبھالا۔۔۔
اچھا ہم چلتے ہیں ۔۔۔۔ عفہ نے دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔۔۔۔۔ عصار نے جواباً کہا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے اور رائے ضرور دیں 😊

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─