┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: ذت_عشق
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_10

سمرا لفٹ کھلتے ہی تیزی سے کمرے کی جانب بھاگی۔۔۔۔
آگے بڑھتے ہی دروازہ کھولا اور اندر جا کر لائٹ آن کردی۔۔۔
عصار عفہ کو بانہوں میں اٹھائے بیڈ کی جانب بڑھا جہاں سمرا نے اشارہ کیا تھا۔۔۔۔
سمرا آگے کی جانب بڑھی اور عصار کے ساتھ مل کر عفہ کو بیڈ پر لیٹا دیا۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ آپکا بہت مدد کی اپنے میری ،ورنہ پتہ نہیں میں اسے کیسے یہاں تک لے کر آتی۔۔۔ بہت شکریہ آپکا سر۔۔۔۔ سمرا عصار کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
جی نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں اگر عفہ کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو یہ میرا فرض تھا کہ آگے بڑھ کر میں اسکی مدد کروں سو میں نے وہی کیا۔۔۔۔ باقی خیر ہے، آپ انکا حجاب کھولے ان کو ذرا ہوا دے شاید کچھ افاقہ ہو۔۔۔۔ عصار نے ترچھی لیٹی عفہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
ہممممممم جی کرتی ہو۔۔۔۔ آپ کچھ پیے گے کافی یا چائے؟؟؟؟ سمرا نے ایک طرف سے باتوں ہی باتوں میں جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
جی نہیں لیکن ہاں ایک گلاس پانی ضرور پلا دے تھک گیا ہوں اوپر آتے ہوئے۔۔۔۔
عصار بھی ڈھیٹائی پر اترتے ہوئے بولا اور پاس پڑے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھ گیا۔۔۔۔
سمرا نے حیرانگی سے اس کی جانب دیکھا لیکن کچھ بھی بولے بنا وہاں سے کیچن کی جانب مڑ گئی۔۔۔
عصار خاموشی سے بیٹھا بے ہوش پڑی عفہ کی جانب دیکھ رہا تھا انگلی تھوڑی پر اٹکائے سوچ کے بھنور میں خود پھنسے محسوس کررہا تھا۔۔۔ 
پتہ نہیں میں جو کر رہا ہوں وہ ٹھیک ہے بھی کہ نہیں۔۔۔
اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہو تو اسکی پاکیزگی کے آئینے کا شفاف عکس دیکھائی دیتا ہے۔۔۔
لیکن جب میں زریس کی تڑپ دیکھتا ہو تو سب فریب لگتا ہے جیسے سب چال ہو کسی نئے شکار کو پھنسانے کا۔۔۔
لیکن آنسوں ،آنسوں تو پاک ہوتے ہیں روح کی طرح جسکا فریب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جو دل کی میل کو باہر نکال پھینکتے ہیں وہ تو اس کی آنکھوں سے بہتے رہتے ہیں اور شاید گواہی دیتے ہیں اور میری سوچ کی نفی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
یاللہ کس سوچ میں پھنس گیا ہو نہ خود کو ایسے انجان اور سنسان راستے پر کھڑا دیکھ رہا ہو جہاں روشنی کی معصوم سی بھی کرن کا بھی کوئی گزر نہیں اور قدم قدم پر ایسے خوفناک گڑھے موجود ہیں جن کے اندر گرا تو شاید وآپس کبھی نہ اٹھ پاؤ گا۔۔۔۔۔۔
یہ لے پانی ۔۔۔۔۔۔ سمرا کیچن سے نکلتے ہی عصار کے سامنے پانی کا گلاس تھامے کھڑی تھی جبکہ وہ اپنی ہی سوچ میں گم آنے والے کل کے بھیانک بننے کا سوچ رہا تھا۔۔۔۔
سر پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ میں گم بیٹھے عصار کو دیکھ کر سمرا نے مزید زور سے آواز دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
عصار نے سمرا کی آواز سنی تو چونک کر اسکی جانب راغب ہوا۔۔۔۔
اور پانی کا گلاس تھام کر ایک ہی گھونٹ میں گٹک لیا۔۔۔۔۔
عصار کو اسطرح پانی پیتے دیکھ کر سمرا کا منہ کھل گیا جیسے برسوں کا پیاسا آج اپنی پیاس بجھا رہا ہو۔۔۔۔۔
آپ انکا حجاب کھولے دے انہیں سکون ملے گا جبکہ آپ بھی حجاب لیے گھوم رہی ہو۔۔۔۔ عصار نے آنکھ اچکا کر سمرا کو خالی گلاس پکڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
دیکھے سر اپنی مدد کی بہت بہت شکریہ۔۔۔۔ رہی بات حجاب کی تو اسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خود کو نامحرم کی نظروں سے محفوظ رکھنا ۔۔۔سامنے پڑی بے ہوش لڑکی سات سال سے حجاب میں ملبوس ہے آج اگر چند لمحے مزید اس میں گزار لے گی تو اسے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ بلکہ شاید ہوش میں آنے کے بعد خود پر اسے مزید فخر محسوس ہو۔۔۔ میرے خیال سے آپکو اب چلے جانا چاہیے آپ جائے گے تبھی یہ نقاب حجاب کھلے گا ورنہ اگر وہ اس حالت میں مر بھی جائے تو کوئی افسوس نہ ہوگا مجھے۔۔۔۔۔
سمرا مسلسل بول رہی تھی جبکہ وہ تب بھی عفہ کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ خاموشی سے اٹھا اور دروازے کی جانب بڑھا ایک پل جو قدم رکے ، مڑ کر بے ہوش پڑی عفہ کو دیکھا لیکن پھر آنکھیں سامنے کی جانب کرتے ہوئے باہر کو ہوگیا۔۔۔۔۔
عصار کے جانے کے بعد سمرا نے دروازہ بند کیا اور پھر اپنا حجاب اتار کر تیزی سے عفہ کی جانب بڑھی۔۔۔۔
اس کا عبایا اتار کر حجاب کھول دیا اور کھڑی کے دونوں دروازوں کو آزاد کیا تاکہ ہوا کا گزر ہو اور عفہ کو سکون ملے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کے حجاب کو اچھے سے سنوارتی عفہ نے پیار سے آنکھوں میں کاجل کو سینچا۔۔۔۔
پاس کھڑی سمرا مسلسل کھڑ کھڑ کر رہی تھی۔۔۔
ارے مسئلہ کیا ہے تمہیں لڑکی کیوں ہنسی جارہی ہو؟؟؟؟ عفہ نے کہا۔۔۔
یہی دیکھ کر ویسے تو اتنی لاپرواہی سے کاجل لگاتی ہو کہ آدھا اندر آدھا باہر لیکن آج تو کچھ خاص ہے جو اتنی پیار سے آنکھوں کو سجایا جارہا ہے۔۔۔۔۔ سمرا ہنسی روکتے ہوئے بولی۔۔۔۔
ہوگیا یا اور عفہ منہ بناتے ہوئے بولی۔۔۔۔
 اچھا بتاؤ کیسی لگ رہی ہو میں؟؟؟ عفہ نقاب تانے عبایا پکڑے گھومتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔
عفہ ایک بات کہوں۔۔۔۔۔ سمرا سیریس ہوتے بولی۔۔۔۔
ہاں ہاں جانی بولو پوچھا نہ کرو بہن کہا نہیں مانتی بھی ہو۔۔۔ عفہ سامنے شیشہ دیکھتے ہوئے خود کو سنوارتے ہوئے بولی۔۔۔۔
عفہ کیا تم صیحح کررہی ہو؟؟؟؟
مطلب ؟؟؟؟ عفہ سوالیہ نظروں سے سمرا کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
مطلب تم اچھے سے سمجھتی ہو۔۔۔۔ تم بھی جانتی ہو اچھے سے اور میں بھی کہ کیسے ہم نے اجازت لی اپنے والدین سے، اور کس قدر یقین انہیں ہم پر کہ ہم لڑکی ذاد کو اکیلے بھیج دیا یہاں۔۔ تو کیا تمہارا یہ کرنا ٹھیک رہے گا؟؟؟؟ 
سمرا ۔۔۔۔۔۔۔ عفہ ایک پل کو خاموش ہوگئی۔۔۔۔
ہاں بولو عفہ میں سننا چاہتی ہو۔۔۔۔۔
میں جانتی ہو۔ کہ کتنا مان ہوتا ایک باپ کو اپنی بیٹی پر۔ اور مجھ ہر بھی ہے انہیں لیکن تم مجھے بھی جانتی ہو کہ میں اپنی ذات اور عزت پر کسی بھی قسم کا حرف آنے نہیں دے سکتی اور نہ کبھی آنے دونگی ۔ خود کو مار سکتی ہوں انکا سر جھکنے نہیں دے سکتی۔ میری کوشش ہے پہلی ہی فرصت میں یہاں سے جاتے ہی بھائی کو بتا دونگی وہ میرے ساتھ بہت کلوز ہے ضرور سمجھے گے وہ۔۔۔۔۔
عفہ یہ کہہ کر چپ ہوگئی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
سمرا وہی کھڑی اسے دیکھتی رہی لیکن پھر عفہ کی خاموشی دیکھتے ہوئے اس کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔
اب جانا نہیں ہے کیا تم نے، چلوں اٹھو اور ویسے بس ایک آنکھیں ہی نظر آتی ہیں تمہاری جو واقعی میں ہی بہت حسین اور نیلم جھیل جیسی ہے جسے دیکھ کر سمجھو زریس ڈوب چکا ہے ۔۔۔۔۔ 
 اب اسے مزید انتظار نہ کرواؤ جلدی اٹھو ۔۔۔۔۔۔ سمرا بازو سے کھینچتے ہوئے عفہ کو دروازے تک لے گئی۔
عفہ اداس آنکھوں سے سمرا کی جانب دیکھنے لگ گئی اور اگلے ہی لمحے اس کے گلے گئی ۔۔۔۔۔
اچھا اچھا بس بھی اب رولائے گی کیا پگلی اب جاؤ اور جلدی آنا میں انتظار کر رہی ہو تمہارا اور پتہ نہ رات کا کھانا ہم مل کر کھاتے ہیں تو جلدی آنا۔۔۔۔۔ 
ہاں آجاؤ گی جلدی اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔۔ عفہ کہتے ہوئے باہر کی جانب ہوئی جبکہ سمرا اسے جاتے دیکھتے رہی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیفٹ سے اترتے ہوئے بھاری قدموں سے گاڑی کی جانب بڑھتا عصار ایک پل کو رکا لیکن پھر دروازہ کھول کر گاڑی کی سیٹ سنبھال لی۔۔۔۔
جاؤ کہ نہ جاؤ اگر کچھ زیادہ مسئلہ ہوگیا تو؟؟؟ سوچتے ساتھ ہی پلٹنے کا سوچا لیکن سمرا کی باتوں نے ذہن کو آپنے حصار میں جکڑ لیا۔ عصار کے بڑھتے قدم وہی رک گئے اور وہ وآپس گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
سامنے پڑی بے ہوش لڑکی سات سال سے حجاب میں ملبوس ہے آج اگر چند لمحے مزید اس میں گزار لے گی تو اسے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ عصار کے کانوں میں سمرا کی آوازیں کسی ہتھوڑے سے کم نہ تھی۔۔۔۔
ہوش میں آنے کے بعد خود پر اسے مزید فخر محسوس ہوگا۔۔
عصار نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیا جبکہ ماتھا گاڑی کے سٹیرنگ پر ٹکا لیا۔۔۔۔
جتنا جتنا اور جیسے جیسے اس کو جان رہا ہو مجھے لگ رہا ہے میں غلط ہو۔۔۔۔
بالوں کو نوچتے ہوئے وہ چلا اٹھا تھا۔۔۔
تبھی رم جھم کرتی ننھی بوندھیں آسمان کی کالی گھٹا کی چادر سے برستی ہوئی ایک نیا ’سر بکھیر رہی تھی۔۔۔۔
قدرت بھی عجیب کھیل کھیلتی ہیں ایک وہ جو نا کردہ گناہ کی سزا کے طور پر روز مرتی روز جیتی تھی شاید خود کی بےوقوفی اور نادانی کی سزا اس نے خود چنی تھی اور اب روز اس سزا کی آگ میں جلتی تھی۔۔۔۔
ایک طرف عصار جو اپنی ہی محبت کی سلگ کو بڑھا رہا تھا اور خود جل کر اس میں راکھ ہونے کو تیار بیٹھا تھا۔۔۔ 
یہ بھی ایک کھیل ہے کوئی خود تیار بیٹھا مرنے کو اور کوئی جینے کیلئے مر رہا ہے دونوں ہی اسی حالت میں موجود اپنی اپنی آگ سے خود کو سیخ رہے تھے۔۔۔۔۔
عصار اسی سوچ میں ڈوبتا ہوا ناجانے کب نیند کی وادیوں میں چلا گیا۔۔۔۔۔
آج پھر وہی خواب وہی جگہ وہی وادی وہی اندھیرا ۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ موسم یہ موسم وہ نہیں۔۔۔۔۔
آسمان پر منڈلاتے سرخ بادلوں کی جانب دیکھتے ہوئے وہ اشارہ کرتے بولا۔۔۔۔
تبھی کسی کے رونے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔۔
وہی جانی پہچانی آواز جس سے اس کی روح تک کانپ جاتی تھی دل ڈوبنے کو آتا تھا اور جان ہاتھوں سے ریت کے مانند پھسلتی ہوئی جاتی تھی۔۔۔۔۔
آواز کا تعین کرتے پیچھا کرتے ہوئے وہ اسی بند گلی کی جانب بڑھا جہاں آج بھی وہی لڑکی سر جھکائے آنسوں سے خود کو تر کیے بیٹھے تھی۔۔۔۔۔۔
تم آج پھر آخر تم ہو کون کیوں آتی ہو کیوں ستاتی ہو مجھے؟؟؟ 
عصار دیوانہ وار بولتے ہوئے چلا رہا تھا لیکن. اس میں بھی اس لڑکی کی آہیں سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔۔
بولو بھی کون ہو تم؟؟؟؟ 
عصار اس کی جانب جھکا۔۔۔۔
لیکن جیسے ہی اس نے اپنا چہرہ اٹھایا تو عصار جھٹکا کھاتے ہوئے دور جا گرا۔۔۔۔۔
وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ عفہ ہی تھی جو وہاں بھی پردے میں موجود اپنی آہوں سے عصار کا چین لوٹ رہی تھی۔۔۔۔
عفہ کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہی عصار کی نیند ٹوٹ گئی اور اسے محسوس ہوا کہ جس حالت میں وہ نیند میں تھا ابھی بھی اسی حالت میں بیٹھا کانپ رہا تھا۔۔۔۔۔
رات کے تین بج چکے تھے بارش بھی اپنی بوندیں سمیٹیں جاچکی تھی لہزا عصار نے بھی گھر کی راہ لی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات بھر بارش کے بعد صبح کی پہلی کرن ایسی ہی تھی جیسے ہر کالی اندھیری رات کے بعد ایک اجالا آپکا انتظار کررہا ہوتا ہے۔۔۔۔
ہر دن اپنے ساتھ ایک امید کی کرن اور مشکلوں کا سامنا کرنے کیلئے نیا جوش اور جذبہ لاتا ہے ۔۔۔۔
عفہ بھی اسی نئے جذبے پر یقین کی چادر اوڑھتے صبح کی کرن کا استقبال کرتے ہوئے اٹھی کل کے بعد سے آج اسکا ذہن فریش اور وہ خود کو نارمل محسوس کررہی تھی۔۔۔۔۔
نماز کی ادائیگی کرنے کے بعد وہ وہی جائے نماز پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
اور دعا مانگ کر وہی خود کے ماضی اور مستقبل کا سوچنے لگ گئی۔۔۔۔۔
سمرا بھی اٹھ چکی تھی اور عفہ کو تروتازہ دیکھ کر اس کے دل و دماغ کو بھی سکون مل چکا تھا۔۔۔۔۔
عفہ سے کوئی بھی سوال نہ کرنے کا سوچ کر وہ اپنے کاموں میں لگ گئی جبکہ عفہ وہی بیٹھی سوچتی رہی۔۔۔۔۔
********************************

ہاتھ میں بیگ لٹکائے سر جھکائے عفہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوئی اور آہستگی سے قدم بڑھاتے ہوئے وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
سمرا جو کہ وہی بیٹھی کتابوں میں مگن تھی عفہ کو یوں آتا دیکھ کر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔
کچھ بھی سوال کرنے سے پہلے وہ کیچن کی جانب بڑھی اور گلاس بھر پانی لے آئی۔۔۔۔۔
عفہ پانی پیوں خود کو ریلیکس کرو اور پھر بتاؤ کیا ہوا!؟؟؟ سمرا نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
تمہیں کیسے؟؟؟؟؟ عفہ کہتے کہتے رک سی گئی۔۔
عفہ بس کرو یہ سوال تمہارے منہ سے اچھا نہیں لگتا کہ مجھے کیسے پتہ کہ کچھ ہوا؟؟؟ پانی پیو اور بتاؤ۔۔۔۔
سمرا وہ کہتا ہے کہ وہ انگیجڈ ہے اس کی منگنی ہو چکی ہیں اس کی کزن کے ساتھ۔۔۔۔۔ عفہ کی آنکھوں میں بولتے ہوئے آنسوں تیرنے لگ گئے۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔۔۔۔
آگے بتاؤ میں پورا جاننا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔ سمرا عفہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
سمرا میں ایسی تو نہیں کہ میں کسی کی جگہ لوں۔۔۔۔۔ اسکا حق چھینوں، اسکو محروم کردو۔۔۔۔ میں کیوں کسی سے اس کی کوئی بھی چیز چھینوں مجھے کوئی حق نہیں ناں۔۔۔۔۔
آنسوں اب سرخ پڑتے گالوں پر راستہ بناتے تیر رہے تھے۔۔۔۔
جانتی ہو عفہ تم نہیں ہو ایسی کہ کسی کا حق چھین کر اس پر اپنی دنیا کی بنیاد رکھو۔۔۔۔۔ سمرا نے ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔۔
تو وہ کیوں نہیں سمجھتا ۔۔۔۔۔ کہ میں اس کے ساتھ کوئی لنک نہیں رکھنا چاہتی ۔۔۔۔ اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو آج اس کے ساتھ کافی پر کبھی نہ جاتی۔۔۔۔ میں بہت بڑا گناہ کرنے جارہی تھی سمرا میں کسی کا حق لے رہی تھی۔۔۔۔
سمرا اس نے مجھے پرپوز کیا اور میں نے انکار کردیا میں نہیں چاہتی کل وہ لڑکی میرے کردار کو کچھ کہے۔۔۔۔۔ میں اگر اس لڑکی کی جگہ ہوتی تو کچھ اپنی محبت کا بٹوارہ ہوتے نہ دیکھ سکتی تو پھر کسیے کسی کو وہ تکلیف دو جو میں خود پر نہ دیکھ سکوں۔۔۔۔
اب میں کبھی بھی اس سے نہیں ملوں گی کبھی بھی نہیں جس کام کیلئے یہاں آئی ہو وہی کرنا اب اور اسی پر دھیان دینا۔۔۔۔  
عفہ نے چہرے پر ہاتھ رکھا اور آنسوں صاف کرتے ہوئے حوصلہ ظاہر کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔
صیحح کیا عفہ تم نے ۔۔۔۔۔ فخر ہے مجھے تمہاری سوچ پر ۔۔۔۔۔۔ اچھا اب ریلیکس رہوں ٹھیک کیا جو بھی کیا تم نے۔۔۔۔۔ آئی سمجھ اب میں چائے لاتی ہو تمہاریے لیے وہ پینا اور دماغ ٹھنڈا کرو۔۔۔۔۔ اور خود کو نارمل رکھوں زیادہ نہ سوچو اس بارے میں۔۔۔۔سمرا یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔جبکہ عفہ وہی منہ بسورے بیٹھ گئی۔۔۔۔
سمرا کے جانے کے بعد ایک انجان نمبر سے عفہ کے موبائل پر میسج آنا شروع ہوگئے۔۔۔۔۔
لوو یو عفہ ڈونٹ ڈو دس ود می پلیز۔۔۔۔۔۔۔
عفہ سمجھ چکی تھی کہ یہ زریس کا نمبر ہے کیونکہ وہ مسلسل مسلسل یہی میسج بھیج رہا تھا۔۔۔۔ اور زریس کے علاوہ اسکا نمبر کسی کہ پاس نہ تھا۔۔۔۔
عفہ کی جانب سے جب کوئی رسپانس نہ گیا تو اب باقاعدہ کال آنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
سمرا جو کہ کیچن میں موجود تھی رنگ بیل کی آواز سن کر باہر کو آگئی۔۔۔۔۔
عفہ فون اٹھاؤ دیکھو کس کا آ رہا ہے؟؟؟؟ کب سے ڈانس کررہا ہے تمہارا فون اٹھاؤ اسے.....
سمرا زریس کی کالز آرہی ہے اور مجھے نہیں بات کرنی اس سے میں اپنے فیصلے پر قائم رہنا چاہتی ہو اور کمزور نہیں پڑنا چاہتی بےشک مجھے زریس سے ملے اتنا وقت نہیں ہو لیکن پہلی بار دل جس کی طرف مائل ہوتا اس سے الگ ہونے کیلئے خود کو اس سے دور کرنا پڑتا ہے جو کہ میں اب خود پر یہی اپلائی کرنا چاہتی ہو ،کرتا ہے کالز تو کرنے دو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔
عفہ نے اپنا فون اٹھایا اور سوئچ آف کر دیا۔۔۔۔۔
سمرا بناء کچھ کہے وآپس کیچن کی جانب ہوگئی جبکہ عفہ وہی لیٹ گئی اور سوچنے لگ گئی۔۔۔۔۔
اگلی دن عفہ جیسے ہی یونیورسٹی کیلئے سمرا کے ساتھ ہاسٹل سے نکلی تو زریس اپنی لمبی وائیٹ گاڑی لیے سامنے سجا کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا جیسے انہیں کا ہی انتظار کررہا ہو۔ ایک پل کو عفہ نے اس کی جانب دیکھا لیکن. کل رات کی باتوں کو دھراتے ہوئے اپنے قدم آگے بڑھانا شروع کر دیے۔۔۔۔
عفہ کو آگے جاتا دیکھ کر زریس عفہ کی جانب بڑھا اور اس کی بازو پکڑتے ہوئے اپنی جانب کھینچا۔۔۔۔
میری بات سنو عفہ تم ٹھیک نہیں کررہی ہو میرے ساتھ یہ سب۔۔۔۔۔
میری بازو چھوڑو زریس سب دیکھ رہے اور دور رہو مجھ سے۔۔۔۔ خود کو چھڑواتے ہوئے زریس کو خود سے الگ کرتے بولی۔۔۔۔
سمرا جو پاس کھڑی سب دیکھ رہی ان کی جانب بڑھی۔۔۔۔
دیکھو زریس یہاں سب دیکھ رہے۔۔۔۔۔ کیوں اپنا اور ہمارا تماشا بنا رہے ہو وہ کہہ رہی ہے نہ کہ نہیں بات کرنی اس نے تم سے تو زبردستی نہ کرو پھر۔۔۔۔۔۔
زریس کے چہرہ سرخ پڑنے لگ گیا تھا جبکہ اس کے تیور اور آواز میں بھی اب سختی نمایاں ہو رہی تھی۔۔۔۔
کیوں میں کیوں سنوں اس کی بات اب اس نے سنی میری نہیں ناں!!!! محبت کرتا ہو اس سے اور میری بات کو سننا بھی پڑے گا اور ماننا ورنہ مجھے زبردستی بھی کرنی آتی ہیں اور مجھے اس میں کوئی جھجھک بھی نہ ہوگی ۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی عفہ کی جانب بڑھا جبکہ زریس کا ایسا بھیانک اور ضدی چہرہ دیکھ کر عفہ کے قدم بھی پیچھے کو ہوگئے۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ اسے پکڑتا سمرا درمیان میں آگئی۔۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے تم عفہ سے بات کرنا چاہتے ہو ناں تو کر لینا میں لے کر آؤ گی اسے، اسی ہوٹل میں یونیورسٹی کے بعد لیکن یہاں تماشا نہ بناؤ اور جاؤ پلیز اپنی ناں سہی ہماری عزت کا ہی خیال کر لوں تھوڑا۔۔۔۔۔
عفہ سمرا کے پیچھے ہوگئی تاکہ خود کو زریس کی خونخوار چھبتی نظروں سے چھپا سکے۔۔۔۔۔
زریس نے اپنا سر سمرا کے پیچھے کی جانب کرتے ہوئے عفہ کو چھپتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے عفہ آبھی جارہا ہو آؤ گا دوپہر کو اور میری بات تو تمہیں سننا پڑے گی ورنہ میں خود کو تباہ کرسکتا ہو اور تم پوری زندگی میری مجرم بنے خود کو کوسوں گی۔۔۔۔۔۔ یاد رکھنا میری اس بات کو بہت بڑا پاگل ہو میں جانتی نہیں ابھی تم۔مجھے ۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ساتھ ہی پیچھے کو ہوا اور گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔
زریس کے پیچھے ہوتے ہی عفہ اپنا بیگ پکڑے بھاگنے کے انداز میں یونیورسٹی کی جانب بڑھی جیسے زریس اس کے پیچھے آرہا ہو ۔۔۔۔۔۔ اور سکون کا سانس اندر جا کر ہی بڑھا ہانپتی ہانپتی عفہ کو دیکھ کر سمرا کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔۔
توبہ ہے عفہ کتنا ڈدتی ہو۔۔۔۔۔۔
میں کیا کروں سمرا یہ عجیب ہے میں انکار کیا تب بھی پیچھے پڑا ہوا اور تم کیوں مانی ملنے کو میں تو نہیں ملنا اس سے تم ہی جانا وہ بھی اکیلے۔۔۔۔ عفہ ناک چڑھائے بولی۔۔۔۔
کیوں جی کل تو بڑا گئی تھی ملنے آج کیا مسئلہ؟؟؟؟؟
سمرا میں فرشتہ نہیں انسان ہو بھٹکنا گھٹی میں ہمارے اور میں بھی بھٹک گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب ٹھیک ہو راہ پر ہو ۔۔۔۔۔۔ انسان اٹریکٹ ہوجاتا ہے جیسے میں ہوئی لیکن اب خود کو مضبوط کرنا اور میرے کو نہیں ملنا۔کسی سے بھی۔۔۔۔ اپنے مخصوص انداز اپناتے ہوئے بولی۔۔۔۔
آہوووو نہ ملنا پھر وہ تمہیں لے جائے گا اور میں منہ دیکھتی رہ جانا تو بہتر ہے چل پڑنا اور دیکھتے ہیں کیا کہتا ہے ایک بار سن لوں اسکی توجہ اگے کوئی جواب نہ بنائے کسی بات کا۔۔۔۔۔ اور ٹینشن نہ لوں میں ہو ناں تمہارے ساتھ تو پھر مسئلہ ہی کوئی نہیں۔۔۔۔ سمرا نے عفہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
بلکل تم ہو ناں بڑا سا مسئلہ ، مسئلہ کشمیر کے مقابلے میں ، تو پھر کیوں ہونی ٹینشن مجھے۔۔۔۔۔ عفہ بولتے ہوئے ہنس پڑی ایک دم سمرا کے سرخ پڑتے چہرے پر نظر پڑی تو عفہ نے عبایا اٹھانے میں بہتری سمجھی اور سامنے نظر رکھتے ہی بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔
سمرا موٹی کتاب کو ہاتھ میں لہڑاتے عفہ کے پیچھے بھاگ رہی تھی جبکہ دونوں کے قہقے گونج رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔

********************************
چلوں عفہ اٹھو شاباش ناشتہ کرو جلدی۔۔۔۔۔۔ سمرا سامان سمیٹتے تیزی سے حرکت کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
عفہ یونہی سر ٹانگوں پر اٹکائے سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
سمرا نے عفہ کی طرف دھیان. دیا تو قدم رک گئے۔۔۔۔۔
کیا ہوا عفہ طبیعت ٹھیک ہے ناں؟؟؟؟ 
عفہ نے ایک نظر سمرا پر ڈالی اور اگلے ہی لمحے دوڑتی ہوئی اس کے گلے لگ گئی۔۔۔۔
اگر تم نہ ہوتی سمرا تو پتہ نہیں کیا ہوتا میں بہت کمزور ہو یار میں بہت کمزور ہو۔۔۔۔ دل کرتا ہے چیخ چیخ کر رو اتنا کہ سب سنے سب کے دل ڈھل جائے سب کے درد میرے اندر کے زخم سے کم نظر آئے وہ زخم جو ناسور بنے اندر ہی پنپ رہا ہے اور مجھے کھا رہا ہے۔۔۔۔۔ ناجانے کیوں میرا ضمیر بہت وزنی ہے سمرا مجھے سکون نہیں مل رہا۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو میں نے کچھ غلط نہیں کیا نہ کوئی غلط کام لیکن میرا دل ڈوب جاتا ہے یہ سوچ کر کہ میں نے جو کبھی خود کو ڈگمگانے نہیں دیا منہ کہ بل کیسے گر گئی۔۔۔ اور پھر ایسے گری کہ زخموں سے چور ہو اور آنکھوں سے آنسوں کی جگہ اب خون بہہ رہا ہے۔۔۔۔۔ 
عفہ سمرا کے ساتھ لگی دل میں چھپے اس درد کو بیاں کر رہی تھی جو اسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا اور جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن میں چلی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔
اچھا ادھر بیٹھو اور آج بتاؤ کیا ایسا سوچتی ہو کیوں یہ سوچ تمہیں کھا رہی ہے کیوں خود کو ختم کر رہی ہو اندر ہی اندر سے عفہ؟؟؟؟ سمرا عفہ کو تھامے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
عفہ کچھ دیر تو خاموش رہی۔۔۔۔۔
ایک بار تم نے کہا تھا کہ ہمارے والدین نے یقین کر کے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور مجھے لگتا ہے میں نے وہ یقین اپنھ پیروں میں رکھ کر کچل ڈالا ہے۔۔۔۔۔۔
عفہ کہتے ساتھ ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے جیسے میں مجرم ہو ان کی ۔۔۔ جس یقین اعتماد کے ساتھ آئی تھی ان کی آنکھوں میں دیکھ کر وآپس جا کر مجھے لگتا میں دیکھ نہیں پاؤ گی۔۔۔
 میرا کردار ایک صاف سفید چادر کے مانند تھا بہت اکڑ اور غرور تھا مجھے اس کی وجہ سے لیکن اب زریس نام کا سیاہ گندہ داغ صاف نمایاں نظر آتا ہے ناصرف میرے کردار پر بلکہ شخصیت کو بدنما کر ڈالا ہے۔۔۔۔۔
ارے عفہ ایسا کچھ نہیں ہے یار تیری پاکیزگی کی قسم میں کھاتی ہوں اور وہ ذات بھی گواہ ہے اس پاکیزگی کا تو کیوں ایسا سوچتی ہو؟؟؟ سمرا سر پیٹتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
جانتی ہو سمرا لیکن پتہ نہیں کیوں شاید خود کو ہمیشہ سمجھ دار اور محفوظ سمجھنے والی عفہ کو اپنی تلخ اصلیت کا سامنا کرنا پڑا تو ضمیر کا بوجھ اس کے دل و دماغ پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے کہ کتنی بےوقوف نکلی ہو میں۔۔۔۔
عفہ اپنے متعلق خود کی بات کرتے ہوئے خاموش صورت سجائے بول رہی تھی۔۔۔۔۔
سمرا کو آج پہلی بار اس کے دل میں چھپے اس ڈر اور احساس کا پتہ جو عفہ کو مسلسل ایک سوچ میں ڈوبائے رکھتا تھا۔۔۔۔ 
حیرت ہے انسان جب پوری زندگی اس غرور کے ساتھ گزارتا ہے کہ وہ اپنے ماضی میں کبھی نہیں بھٹکا اور ہر قدم پھونک پھونک کر گزارا لیکن جب وہ ایسے لمحوں سے گزرتا ہے جو اس کے غرور کو آسمان سے خاک کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ خود کو روندھ ڈالتا ہے اور کبھی کبھی خود سے نفرت بھی کرنے لگ جاتا ہے ایسی ہی صورتحال سے عفہ کا دل و دماغ کا گزر رہا تھا جس کی وجہ سے وہ ان لمحوں سے کبھی آگے ہی نہ بڑھ پائی اور وہی گھٹ گھٹ کر خود کو تکلیف دے رہی تھی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیند تو عصار کی رات کے خواب کے بعد سے ہی اڑ چکی تھی لیکن قدرت کی ریت اور زمانے کی روایت کو دیکھتے ہوئے اپنی نائیٹی میں ملبوس عصار بیڈ پر لیٹے کروٹیں بدل رہا تھا۔۔۔۔۔
بس کردو عصار سوچنا اور سو جاؤ، تمہارے لیے عفہ ضروری نہیں بلکہ کام ضروری ہے جس کو تم نے بہت ہی محنت سے دن رات ایک کر کے کھڑا کیا ہے آج کی کچھ دنوں کی آئی لڑکی کی وجہ سے سب ختم نہیں کرسکتے تم۔۔۔۔
خود کو ڈانٹتے ہوئے بولا لیکن. پھر بھی پوری رات سو نا سکا۔۔۔۔
فجر کا وقت سر پر آن تھا آس پاس موجود مساجد میں اذان کی آواز بلند ہو چکی تھی چونکہ عصار مسلم کمیونٹی میں ہی رہتا تھا لہذا اس کے کانوں میں بھی آواز گونج رہی تھی۔۔۔
پہلی بار عصار کے دل میں بے چینی سی محسوس ہوئی خاموشی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور آنکھیں موند کر آذان کی آواز سے خود کو مسرور کرنے لگ گیا۔۔۔
ایک پل کو دل چاہا کہ اٹھ کھڑا ہو اور وضو کر کے جائے نماز پر کھڑا ہو جائے لیکن. اچانک اپنے کمرے سے وائین کی مہک اور خود سے اس کی بو محسوس ہوئی تو شرم محسوس کرتے وہی بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
کچھ دیر یونہی بیٹھنے کے بعد عفہ کی سوچ کا ڈنکا بجا تو وہ تیزی سے اٹھ کر واش روم کی جانب بڑھا اور تیار ہو کر عفہ کے ہوسٹل کا رخ لیا۔۔۔۔۔
جیسے ہی عصار وہاں پہنچا تو عفہ سمرا کے ساتھ یونیورسٹی کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔۔
عصار گاڑی سے نکل کر بھاگتا ہوا ان کی جانب بڑھا اور دونوں کے راستے میں کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔
عصار کو آپنے سامنے ہانپتے کانپتے ہوئے دیکھ کر دونوں کی چونک اٹھی تھی۔۔۔ 
وہ میں۔۔۔۔۔ پوچھنا چاہتا تھا کہ۔۔۔۔۔۔ عصار گھٹنوں کے بل جھک گیا اور خود کو نارمل کرنے لگ گیا۔۔۔۔
عفہ خاموشی سے آگے بڑھی لگ گئی جبکہ سمرا بھی اس کے جاتے ساتھ ہی اس کے پیچھے ہوگئی۔۔۔۔
عفہ ہمیں اسکا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔
لیکن کیوں کس بات کا شکریہ ادا کرنا میں نے ؟؟؟؟ ایک بات کا کیا تو وہ اپنی اوقات پر آگیا اب میں پھر کرونگی تو سر پر ناچے گا جو کہ اب ممکن نہیں۔۔۔۔ عفہ نے تلخ بھرے لہجے سے کہا۔۔۔۔
لیکن عفہ کسی کی طرف سے کی گئی مدد کا شکریہ ادا کرنا ہمارا فرض ہے جیسے اسکا مدد کرنا اس پر فرض ۔۔۔۔۔۔
کیسی مدد سمرا؟؟؟؟ عفہ حیرانگی سے بولی۔۔۔۔
وہ عفہ ۔۔۔۔ تم صبح پریشان تھی تو میں بتانا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔۔ سمرا نے عفہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مطلب؟؟؟؟
مطلب یہ کہ کل تم بہت ڈپریس تھی اور اسی وجہ سے تم راستے میں ہی بے ہوش ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ سمرا کہتے کہتے رک گئی۔۔۔۔
ہاں پھر ۔۔۔۔ عفہ سوالیہ نظروں سے تجسس بھرے انداز سے بولی۔۔۔۔
وہ۔۔۔۔ عصار پاس ہی تھے تو ۔۔۔۔۔۔۔
تو۔۔۔۔۔۔ عفہ کے لہجہ مزید ابھر آیا۔۔۔۔۔
تو عصار نے اٹھا کر تمہیں گاڑی تک لے کر گیا۔۔۔ اور ہوسٹل بھی وہی لے کر گیا تھا۔۔۔۔۔
اس سے اچھا تم مجھے وہی چھوڑ دیتی سمرا تو زیادہ اچھا تھا۔۔۔۔ عفہ سنرا کو پیچھے کرتے ہوئے بول اور آگے بڑھ گئی۔۔۔۔
میری بات تو سنو عفہ ۔۔۔۔۔ ناراض نہ ہو یار میں نے تمہارے لیے ہی کیا تو یار ۔۔۔۔۔۔۔۔ سمرا پیچھے چلتے ہوئے بولی۔۔۔۔
میں کرتا ہو بات عفہ سے سمرا آپ فکر نہ کرے میں سمجھا سکتا ہو بہتر طریقے سے ۔۔۔۔۔۔ پیچھے کھڑا عصار جو سب دیکھ رہا تھا سمرا کی جانب بڑھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
وہ کیسے؟؟؟؟؟
وہ مجھ پر چھوڑ دے میں منا سکتا ہو انہیں بس ایک ملاقات کی مار سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔۔۔ عصار نے سمرا کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اچھا دیکھتے ہیں پھر، کوشش ہے کہ آپکی ملاقات کی ضرورت نہ پڑے ۔۔۔۔۔
کہتے ساتھ ہی سمرا یونیورسٹی کی جانب بڑھ گئی جبکہ عصار مزید وقت ضائع کیے بناء آفس چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔ 
********************************
مشکل سے منت سماجت کرکے عفہ کو لے کر تو آئی لیکن سمرا خود بھی اب اس بات پر پریشان ہو چکی تھی۔۔۔۔
ریسٹورینٹ میں جیسے ہی اندر گئی تو زریس پہلے سے وہاں بیٹھا انکا انتظار کررہا تھا ہاتھ ہلا کر اپنی جانب مبذول کروایا اور دونوں اس کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔
کچھ دیر تینوں میں خاموشی رہی لیکن اب عفہ کی ضبط کا بندھ ٹوٹ چکا تھا اور پھر خاموشی کا سکونت توڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
اب بولیں گے آپ مسٹر زریس شاہ کہ یہاں بس ہمارا اور اپنا وقت ضائع کرنے کیلئے بلایا ہمیں۔۔۔۔۔۔
اتنی سختی کیوں عفہ میرے ساتھ، ایسے تو بات نہ کرو۔۔۔۔۔ کچھ سنے بنا مجھے مجرم قرار کر دینا کہاں کا انصاف۔۔۔۔۔۔۔ 
میں نے آپکو کچھ نہیں کہا، آپکی باتین سن کر مجھے جو بہتر اور صیحح لگا میں نے وہ کیا جب اپ کے ساتھ کوئی لڑکی منسوب ہے تو میں کیوں دیوار بنو۔۔۔ اور ویسے بھی میری وجہ سے کسی کے حق کی محبت ماری جائے میں ایسا ہونے نہیں دے سکتی۔۔۔۔۔۔ عفہ نے زریس سے دوٹوک کہا۔۔۔۔۔
عفہ عفہ کیسے سمجھاؤ تمہیں میں اگر وہ میری ہوتی تو میں آج یوں دربدر نہ بھٹکتا۔۔۔۔۔۔ اور یوں تمہارے سامنے منت و سماجت نہ کررہا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
مطلب کیا کہنا چاہتے آپ؟؟؟؟ 
یہی کہ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی وہ کسی اور سے کرتی ہے اور یہ بات اس نے مجھے خود بتائی اور میرا ضمیر گوارا نہیں دیتا اور نہ میری مردانگی کہ میں کسی لڑکی کو خود سے باندھ کر رکھو۔۔۔۔
ایک وقت تھا میں اس پر جان چھڑکتا تھا بے پناہ محبت کی میں نے اس سے یہاں تک کہ ہم بہت قریب آگئے تھے یہاں تک کہ وہ حد جو مقرر ہوتی ہر مرد عورت میں وہ بھی ہم اپنی محبت میں اندھے ہو کر پار کر گئے۔۔۔ دن رات یہی سوچنا کہ آج نہیں تو کل اس نے میرا ہونا ہی ہے تو پھر گناہ کیسا۔۔۔۔۔ 
لیکن ایسا نہ ہوا۔۔۔۔ وہ میری ہو کر بھی نہ ہوئی یا اس کی فطرت ہی ایسی تھی کسی کی مکمل ہو کر بھی مکمل نہ ہونا۔۔۔۔۔ 
زریس کچھ دیر کو رک گیا جبکہ عفہ اور سمرا دونوں نظریں جھکائے اس کی کہانی سن رہی تھی۔۔۔۔۔
آج بھی وہ میری نسبت میں ہے منگ ہے میری وہ مگر کسی اور کی بانہوں کا ہار بنے بیٹھی ہے اور میں اسے آزاد کر رہا ہو جلد ہی میری طرف سے وہ پھر جس کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتی ہیں۔۔۔۔ 
اگر تم یہ سوچو کہ میں اس کے قریب گیا تو اس بات کا دھیان رکھو کہ وہ روک سکتی تھی میں سچے دل سے چاہتا تھا شادی کرنا۔۔۔ پاک نام دینا چاہتا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔
میں نے تمہیں کل اپنی منگنی کا بتایا مکمل بات سنے تم نے وہاں سے جانا زیادہ مناسب سمجھا۔۔۔ عفہ مجھے تم الگ لگی ہو ۔۔۔۔ ہزار لڑکیاں میرے آس پاس سب ایک جیسے لیکن تم الگ ہو ناجانے کیوں تمہیں دیکھتے ہی تمہاری طرف مائل ہوگیا ۔۔۔۔۔
محبت کرتا ہو تم سے ۔ اسی بات کو دیکھتے ہوئے میں نے تمہیں سب بتایا تاکہ اپنے بننے والے رشتے کی بنیاد میں نے سچائی اور خلوص سے رکھوں اور شاید مجھے یہ بتانا اتنا مہنگا پڑا کہ تم ایک پل میں ہاتھ چھوڑا کر چلی گئی۔۔۔۔
اس سے زیادہ میں مزید وضاحت نہیں کر سکتا اگر یقین ہو مجھ پر تو میں کل یہی تمہارا انتظار کرو گا اور مجھے امید ہے تم آؤ گی۔۔۔۔۔۔
زریس کہتے ساتھ ہی اٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔
زریس کے جانے کے بعد عفہ نے ایک نظر سمرا کر ڈالی اور پھر کشمکش سی حالت لیے دونوں ہوسٹل کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔

                     ****************************
جاری ہے اور رائے ضرور دے😊

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•,━─