┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: عمر_بھر_کا_مان_ٹوٹا
از: کنول_کنول 
قسط_نمبر_7
آخری_قسط

جلال رزاق ٹوٹ گئے تھے اپنی عمر بھر کی کمائی کو اپنے سامنے اس حال میں دیکھ کر
بہت غرور تھا تھا انہیں خود پر اپنی تربیت پر آج سب خاک ہو گیا تھا
سب کو جو ایک دوسرے پر مان تھا وہ بھربھری ریت کی طرح ہاتھوں پھسل رہا تھا
سب ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے کہیں نہ کہیں سب ہی قصوروار تھے
آج کوئی ایک دوسرے پر الزام لگانے لائق نہیں بچا تھا سب ہی خالی ہاتھ نظریں جھکائے کھڑے تھے..
چپ کیوں کھڑے ہیں عزت دار جلال رزاق اب بولے جواب دے چپ کیوں ہے شازمہ نے جلال کو آ کے جھنجھوڑا
وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے چپ کھڑے تھے..
بولے نا بہت مان تھا آپ کو اپنے آپ پر جلال آپ نے خود سے بڑھ کر کسی کو کچھ نا سمجھا
میں کہتی رہی کہ یہ بیٹی کا معاملہ ہے اسے مت توڑو اپنی انا کا مسلئہ مت بنائو آپ نے میری ایک نا سنی
اور ہماری بیٹی شرابی بن گئی لڑکوں کی بانہوں میں جھومنے لگی یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے میں کبھی معاف نہیں کرو گی آپ کو یاد رکھنا
شازمہ جلال پر چلانے کے بعد خود کو اور کمزور محسوس کرنے لگی
وہ مومنہ کے پاس گئی جو صوفے پر اونگھ رہی تھی اسے بازو سے پکڑ کر اس کے روم میں لے گئی..
رکو ولید بھی جانے لگا تو جلال نے اسے روکا..
ولید مڑ کر انہیں دیکھنے لگا جیسے پوچھ رہا ہو مجھے کیوں روکا میں اس قابل ہو کیا کہ مجھے جلال رزاق روکے..
جلال اس کی نظروں کا مطلب بہت اچھے سے سمجھ رہے تھے اسے آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھایا
اور خود بھی اس کے پاس بیٹھ گئے..
مجھے کیوں بیٹھا رہے ہیں اس صوفے پر بیٹھنے لائق ہو میں ولید نے طنزیہ کہا..
میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہو جلال نے نرم لہجے میں کہا ..
جی بولے میں سن رہا ہو ولید نے ٹھنڈے لہجے میں کہا جیسے اسے جلال کے کچھ بتانے یا نا بتانے کوئی فرق نہیں پڑتا ہو....
مجھے معاف کر دو بب-----بیٹا جلال نے ولید کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے..
کیا کہا بیٹا میں آپ کا بیٹا آپ میرے سامنے ہاتھ کیوں جوڑ رہے ہیں
ولید کو امید نہیں تھی ان سے اس بات کی اسے اندازہ نہیں تھا کہ مومنہ کی اس حرکت نے انہیں ویڈیو والی بات سے بھی زیادہ صدمہ دیا تھا
کیوں کہ وہ بات مومنہ نے ان کے کردار پر کی تھی اور اب
اپنی بیٹی پر بات آ رہی تھی انہوں نے اپنے بارے میں لوگوں کی باتیں برداشت کرلی تھی
پر کل کو کوئی مومنہ کے بارے کہتا کہ بدکردار باپ کی بیٹی بھی باپ کے نقشے قدم پر چل نکلی
تو وہ زندہ نا رہتے اپنے کردار پر باتیں سن کر بھی وہ زندہ تھے پر اب شائد نا رہتے
انہوں نے سوچ لیا تھا اب اور کوئی غلطی نہیں کرنی جو ان کی بیٹی کو کسی جہنم میں دھکیل دے
اسی لئے وہ ولید کو سب بتا کر معافی مانگنا چاہتے تھے..
آپ پلیز میرے سامنے ہاتھ نہیں جوڑے پلیز ولید کو ہاتھ جوڑنا اچھا نہیں لگا تھا. ..
میرا گناہ بہت بڑا ہے ولید میں کس کس گناہ کی معافی مانگوں میں نے اپنے اتنا پیار کرنے والے بھائی کو اتنی اذیت دی تف ہے مجھ پر
وہ بچوں کی طرح رونے لگے ..
پلیز آپ مجھے بس یہ بتا دے کہ آپ نے یہ سب کیا کیوں تھا جہاں تک پاپا نے مجھے بتایا تھا
آپ دونوں میں تو بہت پیار تھا پھر اتنی نفرت کہاں سے آ گئی..
صیح کہا تم نے پیار بہت تھا پر تمہاری ماں آ گئی ہمارے بیچ حسن سے پہلے مجھے اچھی لگی تھی وہ
پر مجھ سے پہلے حسن نے اظہار کر دیا اس سے میں نے کہی بار حسن کو بتانے کی کوشش کی پر وہ
ہر وقت ثانیہ کی باتیں کرتا رہتا تھا میری سنتا ہی نہیں تھا میں اسے کبھی بتا ہی نہی سکا
کہ ہم دونوں بھائی ایک ہی عورت کو چاہتے ہیں
مجھے بھائی پر غصہ آنے لگا پر نفرت تب ہوئی جب مجھ سے بات کئے بنا انہوں نے چھپ کرنکاح کر لیا
مجھ سے ہر بات کرنے والا بھائی اتنی بڑی بات چھپا گیا مجھ سے
میں نے بابا جان کو ان کے خلاف کرنا شروع کر دیا بابا کو خاندانی لڑکی چاہے تھی ثانیہ اچھے خاندان سے تھی میں اچھے سے جانتا تھا
پر میں نے بابا کو ہمیشہ غلط اطلاع دی اور انہوں نے میری ہربات پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کیا
اور حسن کو ہر چیز سے عاق کر دیا
وہ بابا سے ملنے آتا تھا میں نے کبھی اسے بابا تک پہنچنے نہیں دیا
بابا نے آخری ٹائم پر حسن کو بہت یاد کیا تھا اور میں نے اسے تھوڑا بہت ڈھونڈا تھا
وہ مجھے نہیں ملا بابا کے جانے کے بعد میری زندگی میں شازمہ آ گئی
میں نے اس سے شادی کر لی اللہ نے مجھے مومنہ دے دی میں حسن والے قصے کو بھول چکا تھا
پر جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا میں چونک گیا تم ہو بہو حسن لگے مجھے
اس کی طرح خوبصورت قد کاٹھ رنگ روپ میرے دل میں تمہارے لئے پیار بھی آیا
پر تمہاری باتیں سننے کے بعد میرے دل میں برسوں سے دبی نفرت پھر جاگ اٹھی
میں تم سے بدلہ لینے کے لئے اپنی بیٹی کو استعمال کرنے لگا مجھے تمہاری آنکھوں میں اس کے لئے کوئی جزبہ نظر
آیا اس لئے میں تمہیں بھی وہ درد دینا چاہتا تھا جو کبھی میں نے محسوس کیا تھا
یہ اور بات کے ثانیہ میں دلچسپی بس وقتی تھی وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی ختم ہو گئی
شازمہ کے آنے کے بعد تو مجھے کبھی گزرے دنوں کا خیال بھی نہیں آیا
اور اب اپنی بیٹی کو کسی نفرت کا شکار نہیں ہونے دو گا
مجھے معاف کر دو پلیز بیٹا جلال نے پھر ولید کے سامنے ہاتھ جوڑ دئے
دونوں رو رہے تھے بنا آواز کے دل کا غبار نکال رہے تھے
آپ نے اتنی چھوٹی بات کے لئے میرے ماں باپ کو اتنی اذیت دی
آپ کو نہیں پتہ میرا باپ نے پیسہ نا ہونے کی وجہ سے کیسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دی
ہم لوگوں نے کیسے کیسے دھکے کھائے تھے میں وہ دن کبھی بھول نہیں سکتا وہ اذیت میں کبھی بھول نہی سکتا
ولید نے جلال کے ہاتھ پکڑ کر ان پر اپنا سر رکھ کر کہا
اور آج آپ کی اپنی بیٹی پر بات آئی تو آپ سب نفرت بھول گے
کیوں کیا آپ نے ایسے میری فیملی ختم کر دی آپ کی اس بلاوجہ کی نفرت میں
دیکھے میں خالی ہاتھ رہ گیا آپ کی نفرت پاپا تک ہی محدود نہیں رہی میری زندگی میں اب بھی زہر گھول دیا
میرے پاس اب بھی کوئی رشتہ نہیں بہت غریب کر دیا آپ کی نفرت نے...
_____
سب کتنا بدل گیا ہے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ آپ یوں میرے سامنے ہاتھ جوڑے گے
مجھ سے معافی معانگے گے
میں تو اپنے ماں باپ کے ساتھ ہوئی زیادتی کی وجہ جاننا چاہتا تھا
مجھے نہیں پتہ تھا میرے پاپا سے نفرت کرنے کے لئے اتنی چھوٹی وجہ تھی آپ کے پاس
بڑا بھائی تھا آپ کا آخری دم تک آپ کو یاد کیا انہوں نے اور نفرت کی وجہ بھی بہت ڈھونڈی
انہوں نے پر وجہ ملی نہیں
مجھے بھی کاش پتہ نہ چلتا کہ آپ میرے باپ سے کیوں نفرت کرتے تھے
اتنی سی بات پر کوئی اپنے سگوں سے نفرت کیسے کر سکتا ہے جلال رزاق یہ میں نے آپ سےجانا ہے
ولید کو وہ گھر چھوڑ کے آئے ایک ماہ ہو گیا تھا
وہ دوبارہ جلال سے ملنے نہیں گیا تھا
اس کی اپنے دل کے ساتھ بھی لڑائی چل رہی تھی
مومنہ پر اسے بہت مان تھا کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گی
پر جیسا وہ چاہتا تھا ویسا تو کچھ بھی نا ہوا
وہ جلال رزاق جتنا سنگدل نا بن سکا ساری نفرت پتہ نہیں کدھر چلی گئی تھی
جب سے اس نےمومنہ کو سوچنا شروع کیا تھا
پر مومنہ نے بھی اپنے باپ کی طرح نفرت نبھائی ولید نے غصے سے دیوار پر مکا مارا..
💕💕💕💕💕💕💕
مومنہ ایسے کیوں بیٹھی ہو بیٹا
شازمہ نے مومنہ کو سوچ میں گم دیکھا تو پوچھا..
کچھ نہیں ماما بس ایسے ہی مومنہ نے سرد سی آہ بھرتے ہوئے جواب دیا...
بیٹا تم اپنے باپ سے بات کیا کرو وہ تمہاری وجہ سے بہت پریشان رہتے ہیں
شازمہ نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا...
کیا بات کرو ان سے میں
آپ بتا دے مجھے کیا بات کرنی چاہے ان سے ...
بیٹا تم اپنے باپ کو معاف کر دو انہیں پچھتاوا ہے اپنے کئے پر
معافی مانگی ہے انہوں نے ولید سے ...
جب ولید معاف کر دے گا میں کر دو گی
جب سے مومنہ کو ساری بات پتہ چلی تھی اسے بہت افسوس ہوا تھا باپ پر
ساری زندگی انہوں نے دل میں نفرت پال کر گزار دی
مجھے اپنے باپ پر بہت مان تھا ماما بٹ وہ تو نفرت میں اتنے آگے بڑھ گئے
کہ بیٹی کو بھی استعمال کرنے لگے
ولید کو اذیت دینے کے لئے اور میں بھی بابا کے لئے ولید کے ساتھ برے طریقے سے پیش آتی رہی
میں نے تو خود کو بھی معاف نہیں کیا اس بات کے لئے ماما 
اچھا نا ماں کی بات مان لو بات کرو باپ سے سارا دن وہ کمرے میں بند رہتے ہیں ..
آپ نے معاف کر دیا مومنہ نے ماں سے سوال کیا...
ہاں میں نے معاف کر دیا ہے اللہ کی رضاکے لئے بہت پچھتاوا ہے انہیں
اور میں اور تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی انہیں
بس تم بھی معاف کر دو اور ولید سے بات ہوئی تمہاری...
میری کوئی بات نہیں ہوئی ولید سے وہ مجھ سے بات کیوں کرے گا جس حالت میں وہ مجھے پارٹی سے لایا تھا
نفرت کرتا ہوگا مجھ سے مومنہ کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے
میرے جیسی لڑکی ولید جیسے اچھے لڑکے کے لئے ٹھیک نہیں
اسے کوئی اپنے جیسی اچھی لڑکی ملنی چاہے...
تو پھر رو کیوں رہی جب تم نے خود سے سب سوچ لیا ہے تو ....
یہ آنسو شرمندگی کے ہے جو میری وجہ سے ولید کو اٹھانی پڑی مومنہ نے روتے ہوئے جواب دیا...
یہ شرمندگی کے نہیں میرا بچہ ولید سے الگ ہونے کے خوف سے ہیں
اگر وہ کال نہیں کر رہا تو تم پہل کر لو مومنہ اب اپنے باپ کی طرح تم اس بات کو اناکا مسلئہ نابنائو
کیوں کہ تم اچھے سے جانتی ہو کہ اب تم ولید کے بغیر نہیں رہ سکوں گی
بیٹا وہ تمہارا شوہر ہے کوئی غلط بات نہیں ہے منا لو اسے اور باپ سے بھی بات کرو...
ماما اگر وہ نا مانا تو مومنہ نے معصومیت سے کہا...
میرا بچہ شازمہ نے اسے ساتھ لگایا تم بات تو کرو مان جائے گا ....
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ہیلو.....
-----
اگر بات نہیں کرنی تو کال کیوں کی ولید نے جھنجھلاتے ہوئے کہا 
اسے پتہ تھا کہ مومنہ نے کال کی ہے اور اب گونگی بن کے بیٹھ گئی ہے
ٹھیک ہے میں بند کر رہا ہو ولید نے دھمکی دی جو کام کر گئی...
مم----میں بولتی ہو کال نہی کٹ کرنا ...
جی بولے کون کدھر سے بات کر رہی ہے...
آپ نے مجھے نہی پہچانا مومنہ نے رونے والے انداز میں کہا...
جی نہیں پہچانا میں کوئی جادوگر ہو جو لوگوں کہ آواز سنتے ہی پہچان لو گا..
اچھا میں مومنہ بات کر رہی ہوں مومنہ نے جھجکتے ہوئے کہا...
کون مومنہ میں کسی مومنہ کو نہیں جانتا..
آپ سچ میں مجھے بھول گئے مانا کہ ہمارا ایسا کوئی رشتہ نہی تھا یادرکھنے والا
پر ایسی بھی کوئی بات نہی کہ آپ مجھے بھول ہی جائے وہ بھی ایک ماہ میں..
میں تو رشتہ بنانا چاہتا تھا تم ہی تیار نہیں ہوئی ولید نے افسردگی سے کہا....
سوری میں سب پاپا کے لئے کر رہی تھی ...
اوکے سوری کر لیا مہربانی اب فون بند کر دو ولید نے طنزیہ کہا..
نہیں وہ ماما کہہ رہی تھی آپ مجھے لینے کب آئو گے مومنہ نے جلدی سے اپنی بات مکمل کی...
اوہ تو آپ نے ماما کے کہنے پر سوری کی اور اب ماما ہی کے کنے پر آپ کو لینے آ جائو
تم بتائو تم کیا چاہتی ہو کبھی اپنے دل کی بھی سن لیا کرو....
وہ ------میں بھی....
کیا میں بھی بات پوری کرو مجھے ایسے سمجھ نہی آتی ولید نے اسے تنگ کرنے کے لئے کہا
ورنہ اسے شازمہ بیگم مومنہ کے دل کا حال بتا چکی تھی بس وہ مومنہ کے منہ سے سننا چاہتا تھا..
میں بھی چاہتی ہو کہ آپ لینے آ جائے انتظار کرو گی آپ کا اب سمجھ آئی یا نہی مومنہ نے دانت پیستے ہوئے کہا
تھی تو وہ بھی آخر مومنہ جلال ضدی اور مغرور اپنی چلانے والی پر اس بار اسے ٹکر کاملا تھا
ولید حسن مغرور😏😏😏
اچھا ٹھیک ہے تم کہتی ہو تو آ جائو گا لینے ولید نے اسے تنگ کرنے کے لئے ایسے کہا....
کیا مطلب میں کہتی ہو تو آ جائو گے تمہارا دل نہیں مجھے اپنے ساتھ رکھنے کو ....
میرا دل تو کب سے تھا تم نہی مانی ...
اچھا بس میں فون رکھ رہی ہو بائے ...
اچھا میں تمہیں لینے آئو گا پر دلہن بنا کر لے جائو گا ...
اچھا بائے مومنہ نے کال کٹ کر دی اور مسکرانے لگی آخر کار بہار کا جھونکا آ ہی گیا تھا...
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
کتنے پیارے لگ رہے ہیں دونوں ساتھ میں شازمہ نے جلال صاحب سے کہا
جو خود سٹیج پر شان سے بیٹھے ولید اور مومنہ پر دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونک رہے تھے
ولید نے معاف کر دیا تھا جلال کو کیوں کہ اس میں ہی اسے دل کا سکون لگا وہ اپنے چچا جیساسخت دل نہی بننا چاہتا تھا
اس نفرت کی کہانی کو ختم کر کے محبت کے دیپ جلانا چاہتا تھا
اور مومنہ کی خوشی ولید کی خوشی میں تھی اس نے بھی باپ کو معاف کر دیا اور خود بھی سب سے معافی مانگ لی
کیوں کہ کہی نہ کہی غلطی سب کی تھی سب کا ایک دوسرے پر سے اعتبار مان بھروسہ ٹوٹا تھا..
بہت پیاری لگ رہی ہو ولید نے دلہن بنی مومنہ کے کان میں سرگوشی کی..
نوازش مومنہ نے اک ادا سے کہا خوشی اس کے انگ انگ سے ظاہر ہو رہی تھی..
اوہو مغرور لڑکی آگے سے یہ کہہ دو کہ آپ بھی کم غضب نہیں ڈھا رہے ...
جتنا بھی غضب ڈھا لو مومنہ رزاق سے پیچھے ہی رہو گئے 
اچھا جی پر اب تم مومنہ ولید ہو گئی ہو سمجھی ولید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا...
اچھا ہاتھ تو چھوڑو سب دیکھ رہے ہیں مومنہ نے شرماتے ہوئے کہا...
اوہو تو میڈم شرماتی بھی ہے ولید نے اس کے شرمائے شرمائے روپ کو جی بھر کر نظروں میں قید کیا..
خوشیاں انہیں خوش آمدید کہنے کو تیار کھڑی تھی
باقی کا سفر من پسند ہمسفر کے ہمراہ اچھا کٹنے والا تھا 
ختم شد


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─