┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: عمر_بھر_کا_مان_ٹوٹا
از: کنول_کنول 
قسط_نمبر_3

مجھے تم سے بات کرنی ہے..
ہاں تو بولو کیا بات ہے...
مجھے اب جانے دو پلیز ابھی تمہارا بدلہ پورا ہو گیا ہے تو مجھے ادھر رکھنے کا مطلب...
دیکھو لڑکی مجھے مت بتائو کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں مجھے اچھے سے پتہ ہے ...
تم جیسے گھٹیا انسان سے بندہ اور توقع بھی کیا رکھے مومنہ نے چلاتے ہوئے کہا.
شٹ اپ میں نے تمہیں منع کیا تھا میرے روم میں آنے تم پھر آ گئی سمجھ نہیں آتی ایک بار کند ذہن لڑکی...
کند ذہن ہو گے تم تمہارا باپ تمہاری....
بس اس سے آگے ایک لفظ نہی کہنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہی ہو گا تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے ماں باپ تک جانے کی .....
اچھا اپنے ماں باپ کا نام سن کے اتنی تکلیف ہو رہی ہے اور جو میرے ماں باپ کے ساتھ کیا ہے وہ کچھ نہیں ہے تمہاری نظر میں...
ہاں وہ کچھ نہیں ہے میری نظر میں ابھی تو میں نے اور بھی
بہت کچھ کرنا ہے ان کے ساتھ تم اپنا منہ بند ہی رکھا کرو جب دیکھو منہ اٹھا کر آجاتی ہو میرے روم میں
تمہارے ماں باپ نے تمہیں کچھ بھی نہیں سکھایا خیر ادھر رہوں گی تو سب سیکھ جائو گی ابھی جائو کام کرنے دو مجھے...
کیوں جائو وجہ بتائوں پہلے یہ سب کرنے کی مومنہ نے ڈھیٹ بنتے
ہوئے کہا وہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر کیا بات ہے جس کے بدلے میں اس شخص نے اتنی گندی چال چلی...
خدا کے لئے نکلوں میرے روم سے جب تم سامنے آتی ہو سارا موڈ خراب کر دیتی ہو پاگل لڑکی..
اور تم تو میری سوچ میں بھی جائو تو منہ تک کڑوا ہو جاتا ہے پتہ نہی خود کو کیا سمجھتے ہو اچھی شکل کا اچار ڈالنا ہے جب سوچ ہی اچھ نہ ہو
مومنہ نے بدلہ اتارا...
بس بکواس کرنا ہی سکھایا ہے تمہارے ماں باپ نے ذرا تمیز نہی تم میں ابھی جائو پلیز نہی دیکھنی مجھے تمہاری شکل ...
تو مجھے بھی کوئی شوق نہی ہے جا رہی ہو مومنہ جاتے ہوئے دروازہ زور سے مار کر گئی...
پاگل ہے یہ لڑکی اور مجھے بھی جلد کر دے گی ولید بڑبڑاتے ہوئے اپنے کام میں لگ گیا...
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
ابھی تو میں ادھر سے نکل کر رہوں گی پاپا کو سب بتا دو گی تو
وہ مان جائے گے اپنی مومنہ کو وہ اچھے سے جانتے ہیں کہ میں
ان کے بارے میں اتنی بڑی بات نہیں کر سکتی بس ابھی سب
سو گے ہو گے اور وہ وحشی انسان بھی ابھی صیح ٹائم ہے نکلنے
کا یہ سوچتے ساتھ ہی وہ اٹھی اور آہستہ سے روم کا دروازہ
کھول کر باہر نکلی بلکل سناٹا تھا وہ آہستہ آہستہ چلتی نیچے
لائونج میں آئی ادھر ادھر دیکھا اور دروازہ کھولنے لگی اس سے پہلے کے وہ کامیاب ہوتی اسے کسی نے پیچھے سے کھینچا.....
اور سامنے ولید کو دیکھ کر وہ تھوڑا گھبرا گئی تم ابھی سوئے نہیں تھے ...
مجھے لگ رہا تھا کہ تم کچھ خاص کرو گی آج اس لئے نیند نہیں آئی یہ کہتے ہوئے وہ اسے کھینچ کر اپنے روم میں لے گیا....
یہ اب اپنے روم میں کیوں لے آئے ہو پہلے تو نکال دیا تھا وہ انجانے 
میں اس سے گلہ کر رہی تھی جب کہ ان کا کوئی ایسا رشتہ نہیں تھا...
ولید نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر سر جھٹکا تم اب ادھر رہوں گی ...
کیوں رہوں گی ادھر...
میں کہہ رہا ہوں اس لئے ولید نے دوٹوک انداز میں کہا...
سوری میں نہیں رہوں گی ادھر مومنہ نے یہ کہہ کر قدم دروازے کی طرف بڑھا دئیے...
جب میں نے منع کر دیا تو رک جائو ولید نے اسے آگے بڑھ کر روکا...
اور جب میں نے بھی کہہ دیا تو ادھر نہیں رہوں گی مومنہ نے ضدی انداز میں کہا...
اچھا پھر تم جا کہ دکھائو ...
وہ آگے بڑھنے لگی ولید نے اسے پیچھے کو کھینچ کر بیڈ کی طرف دھکا دیا
مومنہ کا سر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے ٹکرایا اور خون بہنے لگا..
سوری مومنہ وہ غلطی سے ولید اس کا خون دیکھ کر پریشان ہو گیا 
چلو بیٹھو میں تمہاری پٹی کر دو ولید اس کی طرف بڑھا...
خبردار جو میرے پاس آئے تو مومنہ نے غصے سے کہا...
اچھا بس پٹی کروا لو پلیز...
تمہیں پٹی کی پڑی ہے مسٹر ولید اور میرے اندر آگ لگی ہے وہ چلاتے ہوئے اٹھی اور پاس پڑا گلدان اٹھا کر ولید کی طرف پھینکا..
ولید سائیڈ پر نا ہوتا تو آج وہ مومنہ کے ہاتھوں قتل ہو چکا ہوتا
تم پاگل ہو گئی ہو ولید نے اسے آگے بڑھ کر قابو کیا ..
چھوڑو مجھے وہ اس کے بانہوں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی پر اس کی یہ کوشش ولید کے مضبوط کسرتی بازو کے آگے ناکام ہو گئی...
وہ تھک گئی تھی چیخ چیخ کر اور خون بہنے کی وجہ سے وہ نڈھال ہو چکی تھی ...
ولید نے جب دیکھا کہ اب عقل ٹھکانے آ گئی ہے تو اسے بیڈ پر بٹھایا اور پٹی کرنے لگا اس کی
پٹی کرنے کے بعد اسے گرم دودھ پلایا ساتھ نیند کی گولی مومنہ نے احتجاج کئے بغیر اس کی بات مان لی وہ تھک گئی تھی لڑتے لڑتے ..
ولید نے اسے بیڈ پر لٹایا دیا اس پر کمبل اوڑھایا اور خود صوفے پر لیٹ گیا....
اور مومنہ کہ بارے میں سوچنے لگا صیح کہہ رہی ہے میں نے اسے کس چیز کی سزا دی
میں اتنا کمزور کیوں ہو گیا کہ بدلہ لینے کے لئے ایک لڑکی کا سہارا لیا میں اسے سب بتا دو گا پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا...
ورنہ یہ پاگل لڑکی مجھے بھی پاگل کر دے گی
یہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی....
💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕
صبح اٹھا تو مومنہ ابھی سو رہی تھی وہ فریش ہونے چلا گیا .....
واپس آ کر مومنہ کو اٹھایا...
کیا ہے صبح صبح کیوں اٹھا رہے ہو اور میں تمہارے روم میں
کیسے آئی اسے کچھ یاد نہیں تھا جیسے ہی وہ اٹھی اسے ہلکا سا چکر آیا ولید نے اسے آگے بڑھ کر تھام لیا
اوہ یاد آ گیا اس نے اپنے سر پر ہاتھ لگایا پٹی ہوئی تھی تو اسے سب یاد آ گیا
تم کتنے ڈھیٹ ہو اتنا سب ہونے کے بعد بھی تم نے مجھے اپنے روم میں سلایا...
تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں تھی اس لئے اور کوئی بحث نہیں فریش ہو کے آئو پہلے پھر بست کرنی ہےتم سے...
ابھی بتائو وہ پھر بیٹھنے لگی..
نہیں پہلے فریش ہو کے آئو پھر ....
ہو ٹھیک ہے وہ فریش ہونے چلی گئی اور جلدی ہی واپس آ گئی....
یاں اب بتائو ولید اس کی بیتابی پر مسکرانے لگا..
اب مسکرا کیوں رہے ہو مومنہ نے چڑتے ہوئے کہا....
پہلے ناشتا پھر بات کرے گے ولید کھڑا ہو گیا..
مجھے پہلے بات سننی ہے بتائو....
مومنہ پہلے ناشتہ کر لو بات ذرا لمبی ہے میں تمہیں سب بتا دینا
چاہتا ہو کہ میں نے یہ سب کیوں کیا اور تمہاری طبعیت ٹھیک نہی تو کھانا ضروری ہے....
اچھا ٹھیک ہے چلو ...
____
اب بتا بھی دو سسپنس کیسے ڈالا ہوا ہے مومنہ نے خاموشی سے اکتاتے ہوئے کہا
وہ دونوں ناشتے سے فارغ ہو کر روم میں آ گئے تھے
کہا سے شروع کرو زندگی کی داستان ولید نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا..
اچھا کہی سے بھی کرو شروع بس پلیز اور ڈرامہ نہیں کرو مومنہ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا..
اچھا بتاتا ہو پہلے تم بتائو ساری بات سننے کے بعد زیادہ قصور تمہارے باپ کا نکلا تو ..
مجھے یقین ہے میرے پاپا کچھ غلط نہیں کر سکتے بہت مان ہے مجھے ان پر ...
مطلب تم نہی مانو گی تو فائدہ بتانے کا ..
اچھا اب بتائو میں سب سننے کے بعد فیصلہ کرو گی مومنہ نے ہھتیار ڈالنے والے انداز میں کہا ...
💕💕💕💕💕💕💕💕💕
میرے پاپا نام کا حسن تھا اور وہ بہت امیر مغرور آدمی رزاق کے بیٹے تھے ان کا ایک لاڈلا چھوٹا بھائی بھی تھا جلال رزاق ...
کک-----کیا کہہ رہے ہو میرے پاپا تمہارے پاپا کے بھائی مجھے تو کبھی کسی نے نہی بتایا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا کہہ رہے ہو تم ..
تم چپ کر کے ساری بات سن لو سمجھ آجائے گی..
اوکے جاری رکھو بات...
حسن اور جلال میں بہت پیار تھا تب تک جب تک بیچ میں میری ماں ثانیہ نہیں آگئی
ماں اور پاپا ایک دوسرے کو چاہنے لگے اور یہ چاہت جلال کو ایک آنکھ نہیں بھائی وہ اپنے بھائی سے دور ہونے لگا
اور اپنے باپ رزاق کے کان میری ماں کے خلاف بھرنے لگا کہ ماں ایک اچھی عورت نہیں بازاری عورت ہے طوائف ہے
اور دادا جلال کی بات کو سچ ماننے لگے
جب پاپا نے گھر میں اپنی اور ثانیہ کہ شادی کی بات کی تو ایک طوفان آ گیا دادا کسی قیمت پر نہیں مان رہے تھے
اور جلال ان کو اور بھڑکا رہے تھے پاپا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی ہے جلال ایسا کیوں کر رہا ہے وہ پاپا سے کٹا کٹا رہنے لگا
آخر پاپا کو وہ قدم اٹھانا پڑا جو انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا ماں سے چھپ کر شادی کر لی بنا انجام کی پرواہ کئے
جب وہ ماں کو ساتھ لے کر رزاق ہائوس پہنچے تو دادا نےانہیں گھر میں گھسنے نہیں دیا
پاپا سے کہا کہ وہ اکیلے آنا چاہے تو آ سکتے ہے اس بازاری عورت کے ساتھ نہیں
اور پاپا ماں کو کسی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتے تھے وہ دونوں گھر چھوڑ کر اپنی نئی دنیا بنانے نکل گئے
انہیں نہی پتہ تھا نئی دنیا بسانا کتنا مشکل کام ہے خیر انہوں نے بڑی مشکل سے رہنے کا انتظام کیا جو تھوڑی بہت سیونگ پاپا کے پاس تھی وہ کام آئی دادا نے ہر چیز سے پاپا کو فارغ کر دیا سب جلال کے حوالے کر دیا
پاپا کو نوکری مل گئی گزارہ ہونے لگا پاپا دادا سے ملنے جاتے تھے لیکن انہیں کبھی تمہارے باپ نے دادا تک پہنچنے نہیں دیا
جب میں اس دنیا میں آیا تو ماں بتاتی ہے وہ بہت خوش ہوئے ان کی فیملی مکمل ہو گئی تھی میرے آنے سے
جب میں سکول جانے کے قابل ہوا تو پاپا مجھے اچھے سکول میں ڈالنا چاہتے تھے میرے لئے سب اچھا کرنا چاہتے تھے
وہ اپنا حصہ لینے گئے دادا کے پاس اور انہیں پھر خالی ہاتھ لٹا دیا گیا اور سب سے بڑی بات مجھے اپنا پوتا ماننے سے انکار کر دیا پاپا اس بات سے بلکل ٹوٹ گئے
مجھے اپنی حیثیت کے مطابق ایک سکول میں ڈال دیا میں قابل بچہ تھا ہر بات میں ایکٹو اب میں سب سمجھنے لگا تھا
پاپا بیمار رہنے لگےڈاکٹر نے کہا انہیں کینسر ہے بٹ علاج ہو سکتا ہے اگر پیسا ہو تو
تب میں پہلی بار ماں کے ساتھ رزاق ہائوس گیا رقم مانگنے اور اتنی تلخ باتوں کا سامنا بھی پہلی بار کیا
میری ماں کو بدکردار اور مجھے گندہ خون کہہ کر نکال دیا گیا ہمیں دادا سے ملنے نہیں دیا گیا
تمہارے باپ نے اپنے ہاتھوں سے ہمیں دھکے مار کر نکالا وہ اتنے سخت دل کیوں ہو گئے تھے پاپا کو آخری وقت تک سمجھ نہیں آئی کہ جلال ان کا پیارا بھائی ایسا کیوں ہو گیا
میرا باپ سرکاری ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر اتنے امیر باپ کا بیٹا ہونے کے باوجود پیسے نا ہونے کی وجہ سے مر گیا اور میرے اندر کا بچہ بھی پاپا کے ساتھ مر گیا
اس دن میں نے چھوٹی سی عمر میں خود سے وعدہ کیا اپنے باپ کے قاتلوں کو سزا ضرور دو گا
ماں نے بہت مشکل سے مجھے پالا میں جب میٹرک تک پہنچا ٹیوشن دینی شروع کر دی اور پھر ماں بھی مجھے چھوڑ گئی
مرنے سے پہلے مجھے کہہ رہی تھی پرانی باتوں کو بھول جائو زندگی میں آگے بڑھو
پر میں انہیں بتا نہی سکا میں آج بھی خود کو اس سرکاری ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر محسوس کرتا ہو
میرے باپ نے جو تکیلف سہی تھی میری ماں پر جو بدکرادری کے الزام لگے تھے مجھے ان سب کا بدلہ چاہے تھا
میں نے بہت محنت کی اس مقام پر پہنچنے کے لئے میں تمہارے باپ کی ہر سرگرمی پر نظر رکھے ہوئے تھا جب مجھے موقع ملا میں نے تمہیں اٹھوا لیا
پر اب مجھے لگتا ہے میں بھی بدلے کی آگ میں جلال بن گیا کسی بے قصور کو بنا کسی جرم کے سزا دے ڈالی
جو تم فیصلہ کرو مجھے منظور ہو گا مومنہ
ولید نے مومنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا میں تمہں یہ سب بتا سکتا ہو جو فیل میں کرتا ہو وہ کوئی نہیں کر سکتا
اگر ہمارے پاس بھی پیسہ ہوتا تو میرے ماں باپ بھی شائد میرے ساتھ ہوتے ..
مومنہ نے ولید کی طرف دیکھا ولید کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے
اور آنسوں تو مومنہ کی آنکھوں سے بھی بہہ رہے تھے پہلی بار اس نے کسی کے درد کو اپنا درد محسوس کیا تھا
اس سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا کیسا مان ٹوٹا تھا اس کا اپنے باپ پر سے
بولو مومنہ کیا فیصلہ ہے تمہارا ...
ولید مجھے گھر جانا ہے پلیز وہ بولی تو بس اتنا.....
اور ولید کو اس کی بات سن کے ایسے لگا آخری رشتہ بھی ہار گیا وہ.
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─