ناول: تنہا_سفر
از: رضیہ_احمد
قسط_نمبر_07
سکینڈ_لاسٹ_قسط

مولوی صاحب : شادی ، کرنا چاہو گے ؟ ؟ 

سمر نے ملکہ کےبارے میں سوچا . اسکی پہلی محبت اسکی پہلی چاہت . . . سمر نے سر جھکا دیا . نہ ہاں نہ نہ

مولوی صاحب : میری بات کا جواب نہیں دیا تم نے

سمر : مولوی صاحب ، میں اِس لائک نہیں ہوں کے میں اک پاکیزہ عورت 
کی ذمہ داری اپنے ٹھاوں 

مولوی صاحب : کون کہتا ہے ؟ میاں بِیوِی تو ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں . اک دوسرے کی کمیوں کو پورا کرتے ہیں . تمہیں کس بات کا ڈر ؟ 

سمر : بس . . . میں شادی کےلا یک نہیں ہوں

مولوی صاحب : اللہ اور رسول ﷺ کے حکموںمانتے ہو کے نہیں ؟ 
سمر : ہاں مانتا ہوں 

مولوی صاحب : تو پِھر شادی بھی حکم ہے

سمر : کون کرے گا مجھ سے شادی ؟ یہاں سب جانتے ہیں کے میرا ماضی کیا تھا . کون شریف ماں باپ اپنی شریف بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیگا ؟ اگر میں پِھر سے بھٹک گیا تو ؟ 

مولوی صاحب : کیا تم پھر سے بھٹکنا چاھتے ہو ؟ 

سمر : نہیں

مولوی صاحب : تو پِھر ؟ 

سمر سوچ میں پڑ گیا . آج سے 5 مہینے پہلے کی بات ہے . اسے اک ملکہ نام کی لڑکی سے محبت ہوئی تھی .اس کے ساتھ اس نے اپنے زندگی بتانے کے خواب دیکھے تھے . لیکن سمر کی نادانیوں کی وجہ سے وہ اسے تنہا کر گئی . اب سمر کیسے شادی کےبارے میں سوچ سکتا ہے ؟ بستی میں سب لوگ کوئی نہ کوئی مزدوری کرتے تھے . سمر نے شہر جاکے نوکری تالاشنی کی کوشش تو کی تھی لیکن باپ کا نام اتنا خراب تھا کے کسی نے بھی اسےنوکری دینا گوارا نہیں کیا . شادی کے بَعْد کیا کرے گا ؟ وہ ساری رات اِس بارے میں سوچتا رہا . اسے بات کا اندازہ تھا کے اس طرح وہ اپنے ڈیڈ کاپیسہ لٹا رہا تھا اسی طرح وہ ابھی تک مولوی صاحب کےآسرے جی رہا ہے . کل کو اگر یہ انسان نہ رہا تو کیا کرے گا سمر ؟ ساری رات یہ سوچنے میں گزر گئی
کبھی کبھی ان کا چلنا دشوار ہو جاتا لیکن پِھر بھی ان کے چہرے پر ہر وقت اک مسکان رہتی تھی 
مولوی : سمر ، کیا بات ہے بہت پریشان ہو تم کل رات سے ؟ میری بات اتنی بر لگ گئی ؟ 

سمر : نہیں نہیں ، آپکی بات پر غور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں . لیکن سمجھ نہیں آ رہی اس کا آغاز کیسے کروں ؟ شادی کے لیے اک گھر اور 2 وقت روتی کمانی پِھر بھی ضروری ہوتی ہے . میرے پس تو کچھ بھی نہیں ہے میں اپنے ہمسفر کو کیسے رکھونگا ؟ 

مولوی صاحب : تو اِس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے . مزدوری کرلو 

سمر : کون دیگا مجھے مزدوری؟ 

مولوی صاحب : اللہ کی دنیا بہت بڑی ہے اللہ سے مازدوری مانگو

سمر کے آنکھ میں آنسوں تھے 
تھوڑی دیر بَعْد وہ پُھٹ پُھٹ کے رونے لگا . مولوی صاحب بہت پریشان ہوگئے اور سمر کو گلے لگا لیا . ویسے تو مولوی صاحب کو سمر کےبارے میں سب معلوم تھا لیکن پِھر آج سمر نے دِل کھول کے انہیں اپنی زندگی کی داستان سنائی

مولوی صاحب : بیٹا ، کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہے جو انسان کو سبق سکھانے کے لیے زندگی میں آتی ہے . تم اس چمکتی ہوئی دنیا سے نکل کر اِس دنیا میں آئے ہو تو اللہ کی اِس میں کوئی حکمت ھوگی . اب تم سوچو . تمھارے حالات پہلے سے بہتر ہے . تمہیں سکون ہے . اِس سکون کو بانٹنے کے لیے اک جیون ساتھی کی بھی تو ضرور ہوتی ہے . اور جب تم اِس نیک ارادے کو انجام دینے کا فیصلہ کروگے تو اللہ تمہیں روٹی بھی دیگا تو اس میں اتناگھبرانے والی کو ن سی بات ہے ؟ 

سمر : بستی میں سب لوگ میرے ماضی کو جانتے ہیں ، کون اپنی بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیگا ؟ 

مولوی صاحب : جو ہو گیا اسے بھول جاؤ . ارادہ نیک کرو . اللہ تمھارے لیے بہت اچھا انتظام کاریگا انشا اللہ

سمر کو مولوی صاحب کی باتیں سن کر تھوڑا بہت سکون تو آ گیا لیکن پِھر بھی دِل میں کہیں نا کہیں اِس بات کی الجھن تھی . انسان کبھی اپنا ماضی نہیں بھولتا . کچھ چیزیں ماضی میں ایسی ہوتی ہے جو انسان کو کبھی آگے نہیں بڑنے دیتی . سمر اِس وقت دوسرے رستے پر چل رہا تھا . کیوں كے وہ اپنا دین ایمان اتنا پکا کر چکا تھا کے اب ماضی کے بارے میں سوچ کر اسے خوف آتااور وہ سوچتا کے کاش یہ سب گناہ اس نہ کیے ہوتے . مولوی صاحب کے پاس اک بہت امیر آدمی آ تاتھا . اور اکثر انہیں دعا کے لیے کہتا تھا . سمر اس آدمی کو بہت اچھی طرح جانتا تھا وہ آدمی کسی زمانے میں اس کے ڈیڈ کا بہت اچھا دوست رہا تھا . . لیکن وہی کاروباری معاملا . . . سمر اس آدمی سے کم بات کرتا تھا . کیوں کےاسےشرم آتی تھی

جاوید صاحب : مولوی صاحب ، میں تو آپکا بہت شکر گزر ہوں کے آپ نے مجھے اِس قابل سمجھا 

مولوی صاحب : نہیں نہیں ، میں تو کچھ بھی نہیں ہوں . خدا اپنے بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا

جاوید صاحب : جی بے شک

جاوید صاحب کی نظر سمر پڑی جوتسبیح میں ڈوبہ ہوا تھا . مولوی صاحب نے سمر کےبارے میں بات کی
جاوید : یہ بچہ ابھی تک یہی پر ہے ؟ 

مولوی صاحب : ، وہ تو یہاں سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا

جاوید : میں اِس کےواد سے اچھی طرح واقف ہوں

مولوی صاحب : ہاں ، جانتا ہوں

جاوید : کبھی سوچا نہیں تھا کے یہ بچہ کبھی یہاں بھی آئیگا

مولوی : بس ، اللہ جسے چاھے ہدایت دیتا ہے

جاوید : بے شک ، اچھا میں آبھی چلتا ہوں کچھ کام ہے مجھے

مولوی صاحب : مجھے بھی ہے . آپ سے

جاوید : جی جی ، بولیں حکم کریں ؟ 

مولوی صاحب : نہیں حکم کیسا ؟ ایک گزارش کرنی تھی. سمر کے لیے نوکری چاہئے . کیا آپ اِس بچے کی کچھ مدت کر سکتے ہَیں

جاوید صاحب یہ بات سن کر خاموش رہے . مولوی صاحب سمجھ گئے . انہوں نے جاوید صاحب کو بہت سمجھایا کے سمر اب کافی بَدَل چکا ہے . اور جاوید صاحب نے بھی مولوی صاحب کی باتوں میں حامی بھری . جاوید صاحب نے سمر کو اپنے دفتر میں ایک 
نوکری آفر کی . سمر نے جب یہ آفر سنی تو اسکی آنکھیں پھٹتی کی پھٹتی رہ گئی . اس نے اک نظر مولوی صاحب کو دیکھا ، انہوں نے آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کیا اور سمر ں نے جھٹ سے ہاں بولدی . سمر نے ہاتھ جور کر جاوید صاحب سے کہا

سمر : انکل ، میرے ڈیڈ نے جو کچھ بھی کیا . میں . . . انکی طرف سے آپ سے معافی مانگتا ہوں . پلیز

جاوید صاحب نے زور دَر کہہ کا لگایا اور کہا 

جاوید : تم نے مجھے کیا اتنے ظالم سمجھا ہوا ہے ؟

سمر : نہیں ، اصل میں ، آپ کے دفتر میں نوکری اور پھر پکی ڈیڈ کے ساتھ جان پہچان . آئی مین

جاوید : چھوڑو ، یہ سب پرانی باتیں ہَیں . آؤ اک نئی زندگی کی شروع کرو . کل صبح 9 بجے میرے دفتر آ
 جانا . تمہاری نوکری پکّی

سمر کو ساری رات خوشی كے مارے نیند نہیں آئی . صبح تیار ہو کر وہ آفس کے لیے نکلا . اب اس کے پاس سوٹ تو تھا نہیں اسلئے اپنی عید کی شلوار قمیض پہن کر وہ دفتر چلا گیا . جیسے ہی وہاں پوحونچا تو اس نے دیکھا کے سارے اسٹاف ممبرز اس سے بھی زیادہسادی حالت میں تھے . جاوید صاحب نے بہت ہی اچھے رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی . جاوید صاحب نے جب سمر کو دیکھا تو وہ بہت خوش ہوئے . سمر کو کم بہت پسند آیا اور اس نے محنت کرنی شروع کیا . تقریباً اک مہینے کے بَعْد اسکی ترقّی ہو گئی . اور وہ شادی کے لیے بھی تیار ہو گیا . سمر اپنی نماظوں کا پابند تھا . اس نے کبھی بھی کو بھی نماز نہ چوڑی ، کام چاھے کتنا زیادہ ہوتا وہ پہلے خدا کو یاد کرتا . اس کے دفتر میں اک لڑکی کو اسکی یےحرکت بہت عجیب لگتی اور وہ اسے تنگ کرتی . سمر تو پہلےاسےنظر اندازِ کرتا رہا پِھراسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ لڑکی ایتنی بد اخلاق تھی کے . . کیا بتاوں 

سمر : جاوید انکل ، میں یہاں کام نہیں کر سکتا اب مزید ؟ 

جاوید : کیوں کیا ہوا ؟ 

سمر : بس انکل آپ اب مجھے اِجازَت دے

جاوید صاحب : ہیلو ؟ ؟ ! سمینہ کو اندر بھیجو

سمر : نہیں نہیں اسکا کوئی قصور نہیں ہے . مجھے ہی احتیات کرنی چاہئے

سمینہ : یس سر ؟ 
جاوید : یور آر فائرڈ

سمینہ : وائے سر ؟ ؟

جاوید : تمہیں کیا تکلیف ہے ؟ جب مجھے کوئی پروبلم نہیں کے یہ کام کے بیچ میں نماز پڑنے چلا جاتا ہے . تو تمہیں کیا تکلیف ہے ؟ تم نے اسے سیلری دینی ہے یا میں نے . فل حال تو تم یہاں سے رفو 
چکر ہو نا لڑکی 
سمینہ: سر ، پلیز سر آئی ایم سوری سر

جاوید : تم کتنی نمازیں پڑتی ہو دن میں ؟ تم سے تو میں پوچھ بھی نہیں سکتا بٹ ایٹلیسٹ کیپ یور مٹھ شٹ

سمینہ پُھٹ پُھٹ کر رونے لگی . اب جاوید صاحب کو سمر کچھ زیادہ ہی عزیز تھا اسلئے اس لڑکی کی بھی اپنےآگے
 چلنے نہیں دی ورنہ پریزنٹیشن کے دوران سمینہ بولتی تھی اور باقی سب سنتے تھے . سمر کےپسینے چھوٹنے لگے . اس نے بہت کوشش کی لیکن جاوید صاحب نے بھی سمینہ کو اچھی سنائی

سمر : بہن ! ! آپ نہ روئیں . میں یہاں سے چلا جاؤنگا

اسمینہ : مجھے معاف کردے بھائی ، پلیز

جاوید : آئِنْدَہ کے بَعْد مجھے ایسی کوئی شکایت نہیں آنی چاہئے . شکر 
کرو سمر نے اپنے منہ تمہاری شکایت نہیں لگائی . میں کافی دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں کے تم اسکو تنگ کر رہی ہوں . اپنے کام سے کام رکھو آئی سمجھ ؟ 

سمینہ : سر آئی ایم ویری سوری سر ، آئِنْدَہ ایسی غلطی نہیں ھوگی سر پلیز مجھے فائر نا کرے پلیز سر 

جاوید : سمر کیا کہتے ہو ؟ 

سمر : نہیں ، آپ انہیں یہاں سے نہ نکالے انکل یہ تو میری بھی سیئنر ہے . کوئی بات نہیں سر

جاوید : چلو جاؤ اب تم دونوں ، شام کی میٹنگ کی تیاری کرو

اُف . . جاوید صاحب کا غصہ دیکھ کر دونوں کےپسینے چھوٹ گئے . خیر . میٹنگ کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے لیکن سمر صبح کی واقیے سے کافی پریشان تھا . سمر جب گھر پوحوچا ت عبداللہ صاحب مولوی صاحب کے ساتھ چائے نوش فرما رہے تھے . عبداللہ 
صاحب کو سمر بہت پسند تھا . وہ جب بھی اسے ملتے تواسے اپنے بیٹو کی طرح ٹریٹ کرتے . عبداللہ صاحب کا اک بیٹا فوت ہو چکا تھا اور سمر کے اندر انہیں اپنا بیٹا دکھائی دیتا تھا . عبداللہ صاحب کی اک بیٹی تھی . جو بستی کے بچوں کو قرآن پڑہاتی تھی . کچھ دن بَعْد اک بچے کی آمین بھی تھی جسکی دوات عبداللہ صاحب خود دینے آئے تھے . مولوی صاحب سمر کے آنے سے پہلے ہی سمر اور انکی بیٹی فاطمہ کے ساتھ رشتے کی بات چلا چکے تھے . مولوی صاحب نے سمر فاطمہ کے بارے میں ذکر کیا . سمر نے فاطمہ کو آج تک صرف برقہ میں دیکھا تھا . سمر نے مولوی صاحب کےفیصلوں کا احترام کرتے ہوئے رشتے کے لیے حامی بھر دی اور وہ دونوں اگلے دن فاطمہ کے گھر چلے گئے . فاطمہ اک بہت ہی سادی زندگی بسر کرنے والی لڑکی تھی . بستی میں سب ہی نوجوان ٓلاہ تعلیم یافتہ تھا جن میں سے فاطمہ میں بھی اک تھی . اپنے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اس نے بستی کی بچوں کو قرآن پاك پڑھانا شروع کیا
جب بھی عید ، شبرات یا محرم جیسے دن آتے تو فاطمہ بستی کی سار ی عورتوں کے ساتھ مل کر بستی کو سجاتی اور فاطمہ کی بستی میں بہت عزت تھی . سب ہی لڑکیاں فاطمہ سے کچھ نا کچھ سیکھ تی رہتی . عبداللہ صاحب نے فاطمہ کا نام بڑے چاؤ سے رکھا . سمر نے جب فاطمہ کو بنا نقاب کے پہلی بار دیکھا تو اسے اسکی سادگی پر بہت پیار آیا . فاطمہ نے ایک بار بھی سمر کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھی . عبداللہ صاحب سمر کےبارے میں جانتے تھے اسلئے انہوں بنا کچھ کہے سمر سے رشتے کے پانی بھر دی . بس اُسی وقت فاطمہ اور سمر کی نکاح کا تاریخ بھی پکی ہو گئی .جوممی کو سمر کا پکی۔ بستی بہت خوب سجی ہوئی تھی . فاطمہ کی سہیلوں نے کیا خوب سجایا تھا فاطمہ کو . نکاح والے دن ہی اسکی خوبصورتی کی بستی میں اتنی چرچا تھی تو آپ سوچے شادی والے دن کیا ھوگا ؟ فاطمہ کی گوری رنگت اور سادگی . مولوی صاحب جب سمر کا نکاح پڑھانے لگے تو سمر کو اس وقت ملکہ کی بہت یاد آئی

، ، کاش وہ بھی اِس دنیا کی ہوتی ’ ’

فواد : بھائی ، آپ سے کوئی ملنے آئی ہے ؟ 

سمر : ابھی ؟

مولوی صاحب : ہاں چلے جانا ، لیکن نکاح تو پورا ہو لینے دو 

فواد : بھائی ، وہ کوئی لڑکی ہے اور بار بار آپکا پوچھ رہی ہے . پلیز بھائی . وہ بہت پریشان ہے

سمر : مولوی صاحب ، میرا دِل بہت گھبرا رہا ہے ، اگر آپکی اجازت ہو تو میں دیکھ آئوں ؟ 

مولوی صاحب نے سمر کو اجازت دیدی . سمر بھاگتا ہوا باہر گیا . اس نے ملکہ کو اک بڑی سی چادر میں لپٹا ہوا دیکھا . ملکہ امید سے تھی اور غالباً اسکا 6 مہینہ چل رہا تھا . سمر نے جب ملکہ 
کو اس حالت میں دیکھا تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی . ملکہ نے سمر کی طرف دیکھا تو وہ پُھٹ پُھٹ کر رونے لگی

ملکہ : تم شادی کر رہے ہو ؟

سمر : نہیں ! ! . . . آئی مین . یہ سب ؟ ؟ 

ملکہ : یہ بچہ تمہارا ہے سمر . میں کیا کروں گی تمھارے بغیر ؟ 

سمر : فواد ! ! ! ! ! مولوی صاحب کو بھیجھو 

مولوی صاحب بھاگتے ہوئے آئے انہوں نے نے ملکہ اور سمر کو دیکھا تو وہ سمجھ گئے کے معاملا اِس لڑکی کا ہے سمر بہت پریشان تھا . سب بستی والے فاطمہ کی شادی کے لیے خوش تھے . لیکن یہ سب اسلیے سمر اپنی ماضی سے ڈرتا تھا اور ہوا وہی . عبداللہ صاحب بہت اداس ہو گئے . لیکن انہوں نے بڑی مزبوتی سے اپنی بیٹی فاطمہ کو اِس با رے میں 
بتایا 

عبداللہ : دیکھو بیٹا ،

فاطمہ : ا اباّسمر کا نکاح ملکہ سےپرھ وادین مجھے

عبداللہ صاحب اور مولوی صاحب نے فاطمہ كے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے سمر کا نکاح ملکہ سے کروا دیا . سب لوگ حیران تھے . نکاح کرنے کے بعد سمر نے سب بستی والوں کو مخاطب کیا

سمر : آپ سب لوگ یہ سوچ رہے ہونگے کے میرا تو فاطمہ کے ساتھ نکاح ہونے والا تھا تو یہ لڑکی کہاں سے آ آ گئی . آپ سب لوگ میرے ماضی کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں . لیکن میں . . . اس وقت یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے میری مرضی سے نہیں ہو رہا . آپ سب جانتے ہیں کے میں وہ دنیا چور کر اِس دنیا میں بس چکا تھا لیکن میں نہیں جانتا کے خدا کی اِس میں کیا حکمت ہے . مگر اک بات اور بھی جانتا ہوں کے اگر میں نے ملکہ کو یوں جانے 
دیا ہوتا تو شاید جن پچھلے گناہوں سے مجھے خدا نے نجات دی ہے ان کے بدلے میں اک بہت بڑی سزا کاٹنے کو ملتی . اسلئے میں آپ سب سے ہاتھ جور کر فاطمہ سے اور مولوی صاحب سے ہاتھ جور کر بنتی کرتا ہوں کے میری اِس نادانی کو معاف کر دیجیئے

مولوی صاحب : نہیں بیٹا ، ہم کون ہوتے ہیں تمہیں معاف کرنے والے ؟ ؟ ؟ تم نے جو بھی فیصلہ لیا ہے بالکل ٹھیک لیا ہے . اِس میں خدا کی ہی رضا مندی ہے

فاطمہ کے چہرے پر سکون تھا اور اس نے خوشی خوشی سمر کی بِیوِی کو اپنایا اور پوری بستی میں اپنے ھاتھوں سے مٹھای بانٹی . فاطمہ کے ابّا بہت اداس تھے لیکن فاطمہ کے چہرے پر سکون اور خوشی دیکھ کر وہ بھی خوش ہو جاتے . سمر کی شادی ملکہ سے ہو چکی تھی اور اس نے اسی وقت اس بستی کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا . اسے کسی نے بھی نہیں روکا بلکہ خوشی خوشی وہاں سے رخصت کیا . سمر شہر کی تیز ترار سڑکوں پر 
چلتا گیا اور سوچتا رہا کے اب وہ کہاں جائیگا یا اسے خدا کہاں لے کے جائیگا . اک بار پِھر سفید رنگ کی گاری نے دستک دی . رابیہ آنٹی نے جب سمر کو اس حالت دیکھی تو وہ حیران رہ گئی . ملکہ کی حالات بھی فقیرنی سے کم نہ تھی . دونوں ر ابیہ آنٹی کے ساتھ ان کے گھر چلے گئے . سمر نے اک بار بھی اپنے ماں باپ کےبارے میں نہیں پوچھا جب كے ملکہ کو اِس بات کا تجسس تھا کے سمر کی موم اِس وقت کہاں ہونگی . رابیہ آنٹی میں ہمت نہ تھی کے وہ اِس بات کا کوئی جواب دیں . سمر حیران تھا . واپس اِس دنیا میں آنے کے بعد وہ پریشان تھا . وہ جانتا تھا کے یہ دنیا اس کے لیے نہیں بنی اور اسے جلدی سے جلدی اپنا کہیں ٹھکانا ڈھونڈنا ہے . سمر نے اپنے کام میں جی جان لگا دی کچھ دن باد ملکہ نے سمر کے اک بہت ہی پیارے بیٹے کو پیدا کیا اور سمر نے اسی وقت یہی فیصلہ کیا کے وہ اپنے بیٹے کو سمر جیسا نہیں بننے دیگا . سمر 
بہت خوش تھا اور پل پل کی خوشیوں کے لیے خدا کا شکر دا کرتا . اگر وہ دن بھر دفتر میں کام کرتا تومسجد میں عزت بھی کماتا . ملکہ کی زندگی تبدیل ہو چکی تھی . چور چکی تھے وہ دونوں اس نقلی چمکتی دنیا کو . ملکہ کو بھی اپنے گناہوں کا احساس ہونے لگا اور اسےسمر سے ساری عمر وفا داری کرنے کا فیصلہ کر لیا . لیکن ابھی بھی سمر کی زندگی میں کچھ کمی تھی . اسے موم اور اور ڈیڈ کا کچھ پتہ نہیں تھا . افی اور بنٹی اپنی زندگیوں میں مصروف تھے اسلئے ان کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنا اسے مناسب نہ لگا . سمر کے گھر کا صہن بہت بڑا تھا اور اس صہن میں 1 سال کا بچہ بی کھیل رہا تھا . ملکہ جو اک ماں بن چکی تھی اس کے پیچھے کچھڑی کی پلیٹ لے کے دوڑتی ہوئی نظر آئی . سمر جب دفتر سے گھر لوٹا تو وہ بچہ اپنے باپ کو لپٹ گیا . دروازے پر دستک ہوئی . سمر مولوی صاحب کو دیکھ کربے ہد خوش ہوا . اس نے مولوی صاحب کو اندر آنے کی داوت دی اور 
ساتھ میں كھانا کھانے کی بھی . سمر کے گھر کچھڑی بنی ہوئی تھی اور سمر اپنی سادگی میں خوش تھا . مولوی صاحب نے جب سمر کا رہن سہن دیکھا تو ان کے منہ سے دعاؤں کے علاوہ اور کچھ نا نکلتا . بچہ بہت پیارا تھا . مولوی صاحب اسے اپنے پوٹے کی طرح کھلاتے . مولوی صاحب نے سمر سے اک ایسا سوال کیا جسکا خیال تو سمر کو اتا تھا لیکن اس نے کبھی خود اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ہمت نہیں کی

مولوی صاحب : سمر بیٹا ، تمھارے ماں باپ کہاں ہے ؟ 

سمر : میں نہیں جانتا مولوی صاحب 

مولوی : تمہیں ان کےبارے میں پتہ لگانا چاہئے . اس طرح ماں باپ سے منہ پھیرلینا خدا کو پسند نہیں

سمر نے اِس بارے میںساری رات سوچ کر گازر دی . ملکہ نے سمر کو 
بہت سمجھایا اور سمر کو موم ڈیڈ کو ملنے پر منایا . سمر جانتا تھا کے رابیہ آنٹی کو سب کچھ معلوم ھوگا . لیکن وہ کس منہ سے رابیہ آنٹی سے پوچھتا . ہمت کر کے وہ اگلے دن رابیہ آنٹی کے گھر اپنی موم ڈیڈ کا پوچھنے چلا گیا . بنا کچھ کہے رابیہ آنٹی سمر کو اسپتال لے گیی . آئی سی یو میں داخل اک کمزور انسان کا چہرہ سمر کے ڈیڈ سے ملتا تھا . سمر نے جب اپنے ڈیڈ کی یہ حالت دیکھی تو وہ بہت رویا . ملکہ نے سمر کو تسلی دی ، ڈاکٹر کے پوچھنے پر پتہ چلا کے ڈیڈ آخری سٹیج پر ہیں . سمر نے ساری رات اپنی ڈیڈ کے سرہانے بیٹھ کر تسبیح میں گازردی . صبح جب ہوئی تو ڈیڈ نے سمر کی طرف آ نکھیں کھول کر دیکھا . سمر دعاؤں میں بے حد مصروف تھا . لیکن ڈیڈ نے بھی سمر کو ڈسٹرب کرنا مناسب سمجھا . بڑی دھیمی آواز میں انہوں نے سمر کو مخاطب کیا  

ڈیڈ : سمر ، میرے مرنے کی دعائیں مانگ رہے ہو ؟

سمر نے جب یہ الفاظ ڈیڈ کے منہ سے سنے تو وہ چونک گیا

سمر : نہیں ڈیڈ ، آپکو کچھ نہیں ھوگا ، میں ابھی ڈاکٹر سے سے بات کر کے آیا ہوں آپ جلد ہی ٹھیک ہو جائینگے
 ڈیڈ . پلیز ڈیڈ ، میں . . . بلال ادھر آؤ 

وہ چھوٹا بچہ اپنے چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتا ہوا سمر کی گودڈ میں آ کر بیٹھ گیا . اس بچے نے اِس چوٹی عمر میں پہلی بار اپنے دادا ابّا کو دیکھا . دادا کی آنکھیں بلال کو دیکھ کر روشن ہو گئی . ڈیڈ نے اپنا کمزور اور کامپتا ہوا ہاتھ بلال کے سر پر رکھا . سمر کے آنسوں رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے . رابیہ آنٹی جب آئی سی یو میں داخل ہوئی تو ان کے ساتھ اک خاتون بھی تھی . سمر نے اس اجنبی خاتون کو دیکھ کر باہر جانا مناسب سمجھا . وہ خاتون برقہ میں تھی . لیکن اس خاتون نے بھی سمر کو مخاطب کرنا مناسب سمجھا 

موم : سمر ، میری جان

سمر نے جب اپنی موم کی یہ حالت دیکھی تو وہ حیران رہ گیا . اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی . سمر کی امی اور برقہ ؟ ؟ ! ! . . یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ سمر کے جانے کے بعد موم خود اپنا گھر چور کر چلی گئی تھی . جس گھر میں انکی اور انکی بیٹے کی عزت نہ ہو وہاں رہنا ہی بیکار تھا . سمر کے گھر سے نکل جانے کے بعد موم نے سوشل ورکنگ اورکٹی پارٹی بھی چھوڑدی . رابیہ آنٹی کے فیکٹر ی میں اک ملازمہ کی طرح زندگی بسر کرنے لگی . وہ سمر کے بارے میں پل پل کی خبر رکھتی تھی لیکن وہ شرمندہ تھی بہت شرمندہ تھی

سمر : موم ڈیڈ ، مجھے آپ دونوں کی ضرورت ہے . آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے . پلیز موم ، ڈیڈ کو کہے نا پلیز . میں . . . جیسا ڈیڈ کہیں گے میں ویسا ہی کرونگا پلیز موم

ڈیڈ نے جب یہ الفاظ سمر کے منہ سے سنے تو انکی آنکھیں بھر آئی اور 
بڑی ہی کمزور آواز میں انہوں نے سمر کو مخاطب کیا 

ڈیڈ : سمر ، مجھے معاف کردو . مجھے میرے کیے سزا مل چکی ہے . بس تم اپنے اللہ سے کہو کے میری آخری سانسیں آسان کردے . میں اور تڑپنا نہیں چاہتا . فریحہ ، میں نے تمھارے ساتھ بہت نا انصافی کی ہے . مگر اب تمہیں میری طرف سے کوئی شکایت نہیں ھوگی

فریحہ : آپکو کچھ نہیں ھوگا

سمر : میں … ڈاکٹر ! ! ! ؟ ؟

بس پِھر کیا ! نرس نے سب کوڈانٹ کر کمرے سے باہر نکل دیا . 10 منٹ ڈاکٹر نے سمر کو اندر آنے کو کہا . ڈیڈ کی آخری سانس سمر کے ہاتھ میں ہی چلی گئی . سمر اِس پل کو روک نہیں پایا . وہ اِس گھڑی کو روک نہیں پایا وہ اپنے ڈیڈ کو روک نہیں پایا . اور اس کے انسوں وہ بھی تو رک نہیں پایا . جنازہ دفنانا سے پہلے وکیل انکل سمر سے ملنے آئے . انہوں نے کچھ کاغزات سمر کے ہاتھ میں تھما 
دیئے . سمر نے جب وہ کاغذ کھول کر پڑے تو وہ واسیات کے کاغذات تھے .وسییت میں ڈیڈ کی ساری جائداد فریحہ اور سمر اور اسکی اولاد کے نام کردی گئی تھی . مولوی صاحب نے سمر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور تسلی دی ، کے یہ سب خدا کی مرضی سے ہے . سمر اپنی پرانی دنیا میں واپس تو چلا گیا تھا لیکن اس نے وہ شور شررابہ سب کچھ چور دیا تھا . سمر اک نیا سمر بن چکا تھا جو 5 وقت کا نمازی اور شہر کا سب سے بڑا بزنس مین بن چکا تھا . اسکی امی بھی اب سادگی میں زندگی بسر کر رہی تھی . ملکہ گھر کی رانی تھی اور سمر کی موم کی بہت اچھی دوست بھی تھی . گھر کا ماحول کافی پر سكون تھا . جس گھر میں کسی زمانے میں اُونچے میوزک کے علاوہ کبھی کچھ سنائی نہیں دیتا تھا آج اس گھر میں 5 وقت کی نماز ادآ کی جاتی ہے . اس گھر میں روزانہ تلاوت ہوتی ہے اور رمضان میں اتنی عبادت ہوتی ہے کے جیسے زندگی کی آخری ہو . ملکہ کو اپنی اِس والی زندگی سے بے حد محبت تھی 
!!!!!!!