┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-40)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*جب جاذویہ اردشیر کو بتا رہا تھا کہ اسے میدانِ جنگ تک پہنچنے کاموقع ہی نہیں ملا۔اس وقت الیس میں صورتِ حال کچھ اور ہو چکی تھی۔جاذویہ اپنے دوسرے سالار جابان کو لشکر دے آیا تھا اور اس نے جابان سے کہا تھا کہ وہ اسکی واپسی تک مسلمانوں سے لڑائی سے گریز کرے۔جابان الیس کے کہیں قریب تھا۔اسے ایک اطلاع یہ ملی کہ عیسائیوں کا ایک لشکر الیس کے گردونواح میں جمع ہے اور دوسری اطلاع یہ ملی کہ مسلمانوں کا لشکر الیس کی طرف بڑھ رہا ہے،جابان کیلئے حکم تو کچھ اور تھا لیکن اس اطلاع پر کہ مسلمان پیش قدمی کررہے ہیں،وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔اس نے اپنے لشکر کو کوچ کاحکم دیا اور الیس کا رخ کر لیا۔ابھی جاذویہ واپس نہیں آیا تھا،جابان تک اردشیر کا بھی کوئی حکم نہیں پہنچا تھا۔چونکہ وہ وہاں موجود تھا ا س لئے یہ اس کی ذمہ دار ی تھی کہ مسلمانوں کو روکے،تاریخ میں بکر بن وائل کے ان عیسائیوں کی تعداد کا کوئی اشارہ نہیں ملتاجو الیس میں لڑنے کیلئے پہنچے تھے۔ان کا سردار اور سالارِ اعلیٰ عبدالاسود عجلی تھا ۔وہ مدائن سے اپنے وفدکی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔خالدؓ انتظار کرنے والے سالار نہیں تھے۔انہوں نے اپنی فوج کو تھوڑا سا آرام دینا ضروری سمجھا تھا پھر انہوں نے الیس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا۔رفتار معمول سے کہیں زیادہ تیز رکھی۔مثنیٰ بن حارثہ اپنے جانبازوں کادستہ لیے باقی لشکر سے الگ تھلگ جا رہا تھا۔’’اﷲکے سپاہیو!‘‘مثنیٰ نے راستے میں اپنے دستے سے کہا۔’’یہ لڑائی تم اس طرح لڑو گے جس طرح ہم کسریٰ کی سرحدی چوکیاں تباہ کرنے کیلئے لڑتے رہے ہیں……چھاپہ مار لڑائی……شب خون……تم ان لوگوں سے لڑنے جا رہے ہو جو تمہاری طرح لڑنا نہیں جانتے۔انہیں تم جانتے ہو۔وہ تمہارے ہی قبیلے کے لوگ ہیں ۔ہم انہیں بھگا بھگا کر لڑائیں گے۔اسی لیے میں نے تمہیں لشکر سے الگ کر لیا ہے۔لیکن یہ خیال رکھنا کہ ہم اسی لشکر کے سالار کے ماتحت ہیں اور یہ بھی خیال رکھنا کہ یہ مذاہب کی جنگ ہے،دو باطل عقیدے تمہارے مقابلے میں ہیں ۔تمہیں ثابت کرنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے……خدا کی قسم! یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف ہمیشہ مخبری کی اورآتش پرستوں کے ہاتھوں ہمارے گھروں کو نذرِ آتش کرایا ہے۔‘‘سواروں کا یہ دستہ پر جوش نعرے لگانے لگالیکن مثنیٰ نے روک دیا او رکہا کہ خاموشی برقرار رکھنی ہے دشمن کو اس وقت پتا چلے کہ ہم آ گئے ہیں جب ہماری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں۔عیسائیوں کا لشکر الیس کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے مدائن سے اپنے وفد کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ ’’ہوشیار!دشمن آ رہاہے۔‘‘عیسائی لشکر کے سنتریوں نے واویلا بپا کر دیا ۔’’خبر دار…… ہوشیار…… تیار ہو جاؤ۔‘‘ہڑبونگ مچ گئی۔ان کے سرداروں نے درختوں پر چڑھ کر دیکھا ایک لشکر چلا آ رہا تھا۔ سرداروں نے درختوں کے اوپر سے ہی حکم دیا کہ تیر انداز اگلی صف میں آ جائیں۔ یہ لوگ چونکہ باقاعدہ فوجی نہیں تھے اس لئے ان میں نظم و ضبط اور صبر و تحمل کی کمی تھی۔ وہ لوگ ہجوم کی صورت میں لڑنا جانتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے صف بندی کر لی۔*

*آنے والا لشکر قریب آ رہا تھا ‘جب یہ لشکر اور قریب آیا تو سرداروں کو کچھ شک ہونے لگا تب ایک سالار نے کہا کہ یہ لشکر مسلمانوں کا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اس طرف سے آرہا ہے جس طرف بہمن جاذویہ کالشکر ہونا چاہیے تھا۔ سالار نے دو گھوڑسواروں کو یہ کہہ کر دوڑا دیا کہ جا کر دیکھو کہ یہ کس کا لشکر ہے۔’’یہ دوست ہیں۔‘‘ ایک سوار نے پیچھے مڑ کر بلند آواز سے کہا۔’’یہ فارس کی فوج ہے۔‘‘’’یسوع مسیح کے پجاریو!‘‘درخت سے سالارِ اعلیٰ نے چلا کر کہا ۔’’تمہاری مدد کیلئے مدائن سے فوج آ گئی ہے۔‘‘عیسائی نعرے لگانے لگے اور تھوڑی دیر بعد جابان کا لشکر عیسائیوں کے پڑاؤ میں آگیا۔ جابان نے اس تمام لشکر کی کمان لے لی اور عیسائی سرداروں سے کہا کہ اب وہ اس کے حکم اور ہدایات کے پابند ہوں گے۔ جابان نے عیسائیوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے پرجوش تقریر کی جس میں اس نے انہیں بتایا کہ اب انہیں پہلی تینوں شکستوں کا انتقام لینا ہے۔’’اور تم اپنی جوان عورتوں کو بھی ساتھ لائے ہو۔‘‘ جابان نے کہا۔’’ اگر تم ہار گئے تو یہ عورتیں مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوں گی۔انہیں وہ لونڈیاں بنا کر لے جائیں گے انہی کی خاطر اپنی جانیں لڑا دو۔‘‘عیسائیوں کی صفوں میں جوش و خروش بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ تو پہلے ہی انتقام کی آگ میں جل رہے تھے اب اپنے ساتھ فارس کاایک منظم لشکر دیکھ کر وہ اور زیادہ دلیر ہو گئے تھے۔مدینہ کی فوج کی پیش قدمی خاصی تیز تھی۔ مثنیٰ اپنے دستے کے ساتھ دائیں طرف کہیں آگے نکل گیا تھا۔ وہ سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ درختوں کی بہتات تھی ‘ہری جھاڑیاں اور ا ونچی گھاس بھی تھی۔ تھوڑی دور جاکر آدمی نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا ‘یہ وہ علاقہ تھا جہاں فارس کے بڑے بڑے افسر سیر و تفریح اور شکار وغیرہ کیلئے آیا کرتے تھے ۔الیس سے آگے حیرہ ایک شہر تھا جس کی اہمیت تجارتی اور فوجی لحاظ سے خاصی زیادہ تھی ۔آبادی کے لحاظ سے یہ عیسائیوں کا شہرتھا جو ہر لحاظ سے خوبصورت شہر تھا۔’’اور یہ بھی ذہن میں رکھو ۔‘‘جابان لشکر کے سالاروں سے کہہ رہا تھا ۔’’کہ آگے حیرہ ہے ۔تم جانتے ہو کہ حیرہ ہماری بادشاہی کا ایک ہیرہ ہے۔اگرمسلمان اس شہر تک پہنچ گئے تو نا صرف یہ کہ کسریٰ کا دل ٹوٹ جائے گا بلکہ فارس کے پورے لشکر کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے،حیرہ مدائن سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘سبزہ زار میں ایک گھوڑ سوار جیسے تیرتا چلا آرہاہو۔خالد ؓاپنے لشکر کے وسط میں تھے کسی اور کو اس سوارکی طرف بھیجنے کے بجائے انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور اس سوار کو راستے میں جا لیا۔وہ مثنیٰ بن حارثہ کے دستے کا ایک سوار تھا۔ ’’ابنِ حارثہ کا پیغام لایا ہوں۔‘‘ سوار نے خالدؓ سے کہا۔’’الیس کے میدان میں آتش پرستوں کی فوج بھی آ گئی ہے۔ ابنِ حارثہ نے کہا ہے کہ سنبھل کر آگے آئیں۔‘‘’’فوراً واپس جاؤ!‘‘ خالدؓ نے سوار سے کہا ۔’’اور مثنیٰ سے کہو کے اڑ کر مجھ تک پہنچے۔‘‘*

*مثنیٰ کا قاصد یوں غائب ہو گیا جیسے اسے زمین نے نگل لیا ہو۔ اس کے گھوڑے کے ٹاپ کچھ دیر تک سنائی دیتے رہے جو درختوں میں سے گزرتی ہوا کی شاں شاں میں تحلیل ہو گئے۔خالدؓ واپس اپنے لشکر میں آئے اور اپنے سالاروں کو بلا کر انہیں بتایا کہ آگے صرف بکر بن وائل کے لوگ ہی نہیں بلکہ مدائن کا لشکر بھی ان کے ساتھ آ ملا ہے۔انہوں نے اپنے سالاروں کو یہ بھی بتایا کہ مثنیٰ بن حارثہ آرہا ہے۔انہوں نے پہلے کی طرح سالار عاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو دائیں اور بائیں پہلو میں رکھا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ مثنیٰ یوں آن پہنچا جیسے وہ واقعی اڑ کر آیا ہو۔’’ابنِ حارثہ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ کیا تم نے اپنی آنکھوں سے فارس کے لشکر کوعیسائیوں کے ساتھ دیکھا ہے؟‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے صرف دیکھا ہی نہیں تھا بلکہ اس نے جانبازی کا مظاہرہ کرکے بہت کچھ معلوم کر لیا تھا ۔اس نے اپنے جاسوس آگے بھیج رکھے تھے انہوں نے اسے اطلاع دی تھی کہ مدائن کی فوج عیسائیوں سے آملی ہے۔مثنیٰ نے پوری معلومات حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ۔رات کو اس نے اپنے ساتھ تین سوار لیے اور دشمن کے پڑاؤ کے قریب جا کر گھوڑوں سے اترے اور انہیں ایک درخت کے ساتھ باندھ دیااور وہاں سے وہ چھپ چھپ کر اور جہاں ضرورت پڑی وہاں پیٹ کے بل رینگ کر پڑاؤ کے نزدیک چلے گئے۔ آتش پرستوں کے سنتری پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر رہے تھے یہ صفر ۱۲ ہجری کے وسط کی راتیں تھیں ۔آدھے چاند کی چاندنی تھی جو فائدہ بھی دے سکتی تھی نقصان بھی۔دو سنتری ان کے سامنے سے گزر گئے ،انہیں پیچھے سے جا کر پکڑا جا سکتا تھا لیکن ان کے پیچھے پیچھے ایک گھوڑ سوار آرہا تھا ۔اس نے اپنے سنتریوں کو آواز دے کر روک لیااور ان کے پاس آ کر انہیں بیدار اور ہوشیار رہنے کو کہنے لگا ۔وہ کوئی کماندار معلوم ہوتا تھا ۔’’مسلمان رات کو تو حملہ نہیں کر سکتے۔‘‘ایک سنتری نے کہا۔’’ پھر بھی ہم بیدار اور ہوشیار ہیں۔‘‘’’تم سپاہی ہو ۔‘‘گھوڑ سوار نے حکم کے لہجے میں کہا ۔’’جو ہم کماندار جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔مسلمانوں کا کچھ پتا نہیں وہ کس وقت کیاکر گزریں۔انہیں عام قسم کا دشمن نہ سمجھوا ورتم نے مثنیٰ بن حارثہ کا نام نہیں سنا ؟کیا تم نہیں جانتے کہ کسریٰ نے مثنیٰ کے سر کی کتنی قیمت مقررکر رکھی ہے؟ تم اگراسے زندہ یامردہ پکڑ لاؤ یا اس کا صرف سر پیش کر دو تو تم مالامال ہو جاؤ گے۔لیکن تم اسے پکڑ نہیں سکو گے۔ وہ جن ہے کسی کو نظر نہیں آتا……چلو آگے چلو۔ اپنے علاقے کا گشت کرو۔‘‘سنتری آگے نکل گئے اور گھوڑ سوار وہیں کھڑ ا رہا۔مثنیٰ بن حارثہ اپنے تین جانبازوں کے ساتھ ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔گھوڑ سوار اس طرف جانے کے بجائے جس طرف سنتری چلے گئے تھے دوسری طرف چلا گیا۔گھوڑے پر اسے پکڑناخطرے سے خالی نہیں تھا۔ مثنیٰ نے اپنے ایک جانباز کے کان میں کچھ کہااور گھوڑ سوار کماندار کو دیکھا ۔وہ آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا۔*

*مثنیٰ قریب کے ایک درخت پر چڑھ گیا۔ اس کے جانباز نے ذرا اونچی آواز میں کچھ کہا ۔کماندار نے گھوڑا روک لیا۔جانباز نے اسے واپس آنے کو کہا۔وہ اس آواز پر واپس آرہا تھا اچانک درخت سے مثنیٰ کودا اور گھوڑ سوار کے اوپر گرااور اسے گھوڑے سے گرا دیا۔مثنیٰ کے ایک آدمی نے دوڑ کر گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور دو نے کماندار کو دبوچ لیااور اس کا منہ باندھ دیا۔اسے اور اسکے گھوڑے کو وہاں سے دور لے گئے۔ انہوں نے اپنے گھوڑے کھولے اور وہاں سے اتنے دور نکل گئے جہاں وہ چیختا چلاتا تو بھی اس کی آواز اس کے پڑاؤ تک نہ پہنچتی ۔’’زندہ رہنا چاہتے ہو تو بتاؤ کہ تمہاری فوج کہاں سے آئی ہے؟‘‘مثنیٰ نے تلوار کی نوک اس کی شہہ رگ پر رکھ کر پوچھا۔وہ بہمن جاذویہ کے لشکر کا کماندار تھا۔اس نے جان بچانے کی خاطر سب کچھ بتا دیا‘ یہ بھی کہ جاذویہ مدائن چلا گیا ہے اور اس کی جگہ جابان سالار ہے اور بکر بن وائل کا لشکرا نہیں اتفاق سے مل گیا ہے ۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اس قبیلے کے کچھ سردار مدائن سے فوج اپنے ساتھ لائیں گے ۔’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ مدینے کی فوج کہاں ہے ؟‘‘مثنیٰ نے ا س سے پوچھا۔’’وہ بہت دور ہے۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’ہم اس پر حملہ کرنے جا رہے ہیں‘شاید دو روز بعد۔‘‘جب اس سے ہر ایک بات معلوم ہو گئی تو اسے ہلاک کر کے لاش وہیں دفن کر دی گئی۔سورج طلوع ہو چکا تھا جب مثنیٰ بن حارثہ خالد ؓکو یہ روداد سنا رہا تھا۔’’تعداد کا اندازہ کیا ہے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’صحیح اندازہ مشکل ہے ابنَِ ولید!‘‘ مثنیٰ نے کہا۔’’ہماری اور ان کی تعداد کا تناسب وہی ہے جو پہلے تھا۔ وہ ہم سے چار گنا نہیں تو تین گنا سے یقینا زیادہ ہیں ۔‘‘خالدؓنے اپنی فوج کو روکانہیں تاکہ وقت ضائع نہ ہو اور دشمن کو بے خبری میں جا لیں۔ انہوں نے چلتے چلتے اپنے سالاروں سے مشورے لیے‘ خود سوچا اور احکام دیئے۔ ان عربوں کے متعلق آتش پرستوں کے سب سے زیادہ جری اور تجربہ کار سالار ہرمز نے کہا تھا کہ یہ لوگ صحرا کے رہنے والے ہیں اور صحرا میں ہی لڑ سکتے ہیں۔ ہر مز نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ انہیں دجلہ اور فرات کے اس علاقے میں لڑائے گا جس میں درخت‘ جھاڑیاں ‘گھاس اور کہیں کہیں دلدل ہے ۔لیکن ہرمز کے خواب اسی سر سبز اور دلدلی علا قے میں ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئے تھے۔*

*’’خداکی قسم! تم اب دریاؤں اور جنگلوں میں بھی لڑ سکتے ہو۔‘‘خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’اس زمین پر تم نے اتنے طاقتور دشمن کوتین شکستیں دیں ہیں ۔تم نے یہ بھی دیکھ لیا ہے ہمارے دشمن کے لڑنے کا طور طریقہ کیا ہے۔ مثنیٰ نے بتایا ہے کہ دشمن اگر اسی میدان میں ہوا جہاں وہ پڑاؤ کیے ہوئے ہے تو یہ ذہن میں رکھ لو کہ یہ میدان دو دریاؤں )دریائے فرا ت اور دریائے خسیف(کے درمیان ہے ۔میدان ہموار ہے ۔لیکن درختوں اور سبزے کی بہتات ہے۔دوڑتے گھوڑوں پر تمہیں درختوں کا اور ان کے جھکے ہوئے ٹہنیوں کا خیال رکھنا ہوگا ورنہ ان ٹہنیوں سے ٹکرا کر مارے جاؤ گے۔‘‘’’میدان محدود بھی ہے۔ہمیں دشمن کو کسی قسم کا دھوکا دینے کا اور چالیں چلنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ ہمیں آمنے سامنے کا معرکہ لڑنا پڑے گا۔ابنِ عمرو اور ابنِ حاتم پہلوؤں کے سالار ہوں گے ۔انہیں جب بھی اور جیسا بھی موقع ملا ،یہ اس کے مطابق نقل و حرکت کریں گے ۔اپنے کمانداروں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آمنے سامنے کی لڑائی میں جذبے کی شدت اور جسمانی پھرتی اور مضبوط حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ابنِ حارثہ !تم ہمارے پابند ہو کر نہیں لڑو گے ۔تمہارے ساتھ پہلے طے ہو چکا ہے کہ تم اپنے انداز کا معرکہ لڑو گے لیکن تم یہ احتیاط کرو گے کہ تمہارے سوار ہمارے راستے میں نہ آئیں۔ تم نے اپنے سواروں کو یہی تربیت دے رکھی ہے انہیں اسی طرح استعمال کرو لیکن اندھا دھند نہیں۔نظم و ربط بہت ضروری ہے۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’ تجھ پر اﷲ کی رحمت ہو۔ تو نے جیسا کہا ہے تجھے ویسا ہی نظر آئے گا۔ کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں اپنے دستے میں چلا جاؤں؟‘‘ ’’میں تجھے اﷲ کے سپرد کرتا ہوں حارثہ کے بیٹے!‘‘ خالدؓ نے کہا ۔’’جا میدانِ جنگ میں ملیں گے یا میدانِ حشر میں۔‘‘مثنیٰ نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور پلک جھپکتے نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔اس کے ساتھ اس آتش پرست کماندار کا گھوڑا بھی تھا جسے اس نے قتل کر دیا تھا وہ یہ گھوڑا خالد ؓکے لشکر کو دے گیا تھا۔اتنی تھوڑی تعدداد میں اور اتنے محدود وسائل کے بھروسے مدینے کے مجاہدین اس لشکر پر حملہ کرنے جا رہے تھے جس کی تعداد ان سے تین گنا سے بھی زیادہ تھی اور جس کے ہتھیار بھی بہتر تھے اور جنکے سر لوہے کی خودوں سے اور چہرے لوہے کی زنجیروں سے ڈھکے ہوئے تھے ۔ان کی ٹانگوں پر جانوروں کی موٹی اور خشک کھالوں کے خول چڑھے ہوئے تھے ۔مجاہدین کے دلوں میں کوئی خوف نہ تھا ‘ذہنوں میں کوئی وہم اور وسوسہ نہ تھا۔ ان کے سامنے ایک پاک اور عظیم مقصد تھا ان کی نگاہوں میں ان کے اﷲ اور رسولﷺ اور اپنے مذہب کی عظمت تھی ۔اپنی جانوں کی کوئی اہمیت نہ تھی سوائے اس کے کہ ان کی جان ﷲ کی دی ہوئی ہے اور اسے ﷲ کی راہ میں ہی قربان کر نا ہے۔ اپنی زندگی دے کر وہ اسلام کو زندہ رکھنے کا عہد کیے ہوئے تھے ۔وہ گھروں سے اپنی بیویوں سے اپنی ماؤں‘ بہنوں اور بیٹیوں سے دور ہی دور ہٹتے جا رہے تھے۔ان کے شب وروز خاک و خون میں گزر رہے تھے ۔زمین ان کا بچھونا تھی اور اوپر آسمان تھا‘باطل کی چٹانوں سے ٹکرانا کفر کے طلاطم کو چیرنا اور دشمنانِ دین کے عزائم کو کچلنا ان کی عبادت تھی۔ان کی زبانوں پر اﷲ کا نام تھا‘ وہ تلوار کا وار کرتے تھے تو اﷲ کا نام لیتے تھے اور تلواروں سے کٹ کر گرتے تھے تو اﷲ کا نام لیتے تھے۔ زخمی ہوتے تو اﷲ کو پکارتے تھے۔لاریب ایمان کی پختگی اور جذبے کی دیوانگی ان کے ہتھیار تھے اور یہی ان کی ڈھا ل تھی۔*

*وہ اس وقت دشمن کے سامنے پہنچے جب دشمن کا دوپہر کاکھانا تیار ہو چکا تھا ۔ان کے سالار جابان کے حکم سے لشکر کیلئے خاص کھانا تیار کیا گیا تھا۔ مؤرخ طبری ‘ابنِ ہشام اور محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ فارس کی فوج کو سانڈوں کی طرح پالاجاتا تھا۔ سپاہیوں کو مرغن کھانے کھلائے جاتے تھے ۔فارس کے شہنشاہوں کا اصول بلکہ عقیدہ تھا کہ مضبوط اور مطمئن فوج ہی سلطنت ، تخت و تاج کی سلامتی کی ضامن ہوتی ہے۔فارسی سالار جابان نے اس سے زیادہ مرغن اور پر تکلف کھانا تیار کرایا تھا جو فوج کو عام طور پر ملا کرتا تھا۔ اس کھانے کا ذکر تاریخوں میں بھی آیا ہے ۔بے شمار جانور ذبح کر دیئے گئے تھے ۔گوشت کے علاوہ کئی چیزیں پکائی گئی تھیں۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ جابان اپنے لشکر کی خاطر تواضع کر رہا تھا کہ سپاہی خلوصِ دل سے لڑیں گے اور اچھے سے اچھا کھانے کیلئے زندہ رہیں گے۔کھانا چونکہ خاص تھا اس لئے اس کی تیاری میں معمول سے زیادہ وقت لگ گیا۔ دن کا پچھلا پہر شروع ہو چکا تھا جب کھانا تیار ہوا۔لشکر بھوک سے بے تاب ہو رہا تھا ۔جب لشکر کو اطلاع دی گئی کہ کھانا تیار ہو گیا ہے اور لشکر کھانے کیلئے بیٹھ جائے عین اس وقت گشتی سنتریوں نے اطلاع دی کہ مسلمانوں کی فوج سر پر آگئی ہے۔خالد ؓاپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تھے کہ دشمن کو ان کی آمد کی خبر قبل از وقت نہ ہو۔ انہوں نے دشمن کو بے خبری میں جا لیا تھا۔ آتش پرستوں اور عیسائیوں میں ہڑبونگ سی بپا ہو گئی۔ سالار اور کماندار چلا چلا کر دونوں لشکروں کو جنگ کی تیاری اور صف بندفی کا حکم دے رہے تھے مگر لشکر کے سامنے جو رنگا رنگ کھانے رکھے جا رہے تھے انہیں لشکر چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ طبری کی تحریر شاہد ہے کہ لشکر سے بڑی بلند آواز اٹھی کہ مسلمانوں کے پہنچنے تک وہ کھانا کھا لیں گے ۔بیشتر سپاہی کھانے میں مصروف ہو گئے۔خالدؓ کی فوج جنگی ترتیب میں بالکل سامنے آگئی ۔یہ فوج حملے کیلئے بالکل تیار تھی۔ آتش پرستوں اور عیسائیوں میں وہ بھی تھے جو مسلمانوں سے شکست کھا چکے تھے۔ انہوں نے اپنی فوج کو مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹتے دیکھاتھا۔وہ مسلمانوں کو دیکھ کر ہی ڈر گئے تھے۔’’کھانا چھوڑ دو۔‘‘ان میں سے کئی ایک نے واویلا بپا کر دیا۔’’ ان مسلمانوں کو موقع نہ دو ۔کاٹ دیں گے ……مار دیں گے ……تیار ہو جاؤ۔‘‘ وہ کھانا چھوڑ کر لڑنے کی تیاری کرنے لگے۔ باقی لشکر اپنے سالاروں اور کمانداروں کا بھی حکم نہیں مان رہا تھا ،وہ سب بھوک سے مرے جا رہے تھے۔ لیکن جنہوں نے مسلمانوں کے ہاتھ دیکھے ہوئے تھے ان کی خوف ذدہ ہڑبونگ دیکھ کر سارا لشکر کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔؂ مدینے کے مجاہدین اور آگے چلے گئے ۔خالد ؓ انہیں احکام دے رہے تھے۔دشمن نے ابھی گھوڑوں پر زینیں کسنی تھیں اور سارے لشکر کو زرہ پہننی تھی۔جابان نے مہلت حاصل کرنے کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس دور کے رواج کے مطابق عیسائیوں کے سردار عبدالاسود عجلی کو ذاتی مقابلے کیلئے آگے کر دیا۔*
*’’کس میں ہمت ہے جو میرے مقابلے کیلئے آئے گا۔‘‘عبدالاسود نے اپنے لشکر سے آگے آ کر مسلمانوں کو للکار ا۔’’جسے میری تلوار سے کٹ کر مرنے کا شوق ہے وہ آگے آ جائے۔‘‘’’میں ہوں ولید کا بیٹا !‘‘خالدؓ نے نیام سے تلوار نکال کر بلند کی اور گھوڑے کو ایڑھ لگائی ۔’’میں ہوں جس کی تلوار تجھ جیسوں کے خون کی پیاسی رہتی ہے۔گھوڑے کی پیٹھ پر رہ ،اور اپنا نام پکار۔‘‘’’میں ہوں عبدالاسود عجلی ۔‘‘اس نے بلند آواز سے کہا۔’’ نام عجلان کا بلند ہو گا۔‘‘خالدؓ کا گھوڑا س کے قریب سے گزر گیا۔*
*آگے جا کر مڑا ،اور خالدؓ نے تلوار تان لی ،عبدالاسود نے بھی تلوار نکال لی تھی، خالدؓ نے دوڑتے گھوڑے سے اس پر وار کیا ۔لیکن یہ وار خطا گیا ،عبدالاسود نے بھی خالد ؓکی طرف گھوڑا دوڑادیا اور ایک بار پھر دونوں سوار آمنے سامنے آئے۔اب کہ عبدالاسود نے وار کیا۔خالدؓ نے وار اس طرح روکا کہ ان کی تلوار عبدالاسود کی تلوار کے دستے پر لگی جہاں اس عیسائی سردار کا ہاتھ تھا اس کے اس ہاتھ کی دو انگلیوں کے اوپر کے حصے صاف کٹ گئے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔عبدالاسود نے بھاگ کر نکلنے کے بجائے بلند آواز میں کہا کہ اسے برچھی دی جائے۔اس کے لشکر میں سے ایک آدمی نکلا جس کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔وہ دوڑتا ہوا اپنے سردار کی طرف آیا۔ خالد ؓنے اس کا راستہ روکنے کیلئے گھوڑے کا رخ اس کی طرف کر دیا ۔وہ آدمی پیادہ تھا ۔اس نے خالد ؓسے بچنے کیلئے برچھی اپنے سردار کی طرف پھینکی ۔خالدؓ پہنچ گئے تھے برچھی آرہی تھی جسے خالدؓ کے سر کے اوپر سے گزرنا تھا ۔عبدالاسود نے برچھی پکڑنے کیلئے دونوں ہاتھ بلند کر رکھے تھے۔ خالدؓ نے برچھی کو تلوار ماری ۔برچھی کٹ تو نہ سکی لیکن انکا مقصد پورا ہو گیا۔برچھی راستے میں رک گئی اور گر پڑی۔ خالدؓ نے گھوڑے کا رُخ عبدالاسود کی طرف کر دیا۔ اب یہ شخص وار سے صرف بچ سکتا تھا وار کو روکنا اب اس کے بس کی بات نہیں تھی۔خالدؓ نے بغرضِ تماشہ اسے اِدھر اُدھر بھگایا۔’’ابنِ ولید!‘‘خالدؓ کے ایک سالار نے بلند آواز سے کہا۔’’ اسے ختم کرو…… دشمن تیار ہو رہا ہے۔‘‘ خالدؓ نے گھوڑے کی رفتار تیز کرکے اور اسود کے قریب سے گزرتے تلوار برچھی کی طرح ماری ۔عبدالاسود نے گھوڑے کے ایک پہلو پر جھک کر بچنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ کی تلوار اسکے دوسرے پہلو میں اتر گئی۔ عبدالاسود سنبھل گیا لیکن وہ بھاگا نہیں۔خالدؓ نے اب پیچھے سے آکر اس پر ایساوار کیا کہ اس کی گردن اس طرح کٹی کہ سر ڈھلک کر ایک کندھے پر چلا گیا گردن پوری نہیں کٹی تھی۔ادھر عیسائیوں کا سردار عبدالاسود گھوڑے سے گرا اور دریائے فرات کی طرف سے بے شمار گھوڑوں کے دوڑنے کا شور سنائی دیا ۔گھوڑے سر پٹ دوڑتے آ رہے تھے ۔اس پہلو پر عیسائیوں کا لشکر تھا ،گھوڑ سواروں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں ۔گھوڑے عیسائیوں کے لشکر میں جا گھسے اور سواروں کی برچھیوں نے انہیں چھلنی کرنا شروع کر دیا۔عیسائیوں کی توجہ سامنے مسلمانوں کی طرف تھی،وہ مقابلے کیلئے سنبھل نہ سکے۔’’میں ہوں حارثہ کا بیٹا مثنیٰ!‘‘ اس شورو غو غا میں سے ایک للکار سنائی دے رہی تھی۔’’ ہم بھی تم میں سے ہیں…… میں ہوں مثنیٰ بن حارثہ۔‘‘*

*یہ مثنیٰ کا سوار دستہ تھا جسے اس نے خالد ؓکو بتا کر لشکر سے الگ رکھا تھا ۔وہ چھاپا مارجنگ لڑنے کا ماہر تھااور اس جنگ میں لڑائی کا یہ طریقہ بے حد ضروری تھا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ میدانِ جنگ بمشکل دو میل وسیع تھا ‘اس کے دائیں اور بائیں دریا تھے۔خالدؓ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا اس میدان میں وہ اپنی مخصوص جنگی چالیں نہیں چل سکیں گے۔اپنے سالاروں سے انہوں نے کہا تھا کہ آمنے سامنے کی لڑائی میں وہ صرف اس صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ دشمن پر بہت تیز اور شدید حملہ کیاجائے بلکہ حملہ موج دو موج ہو یعنی ایک دستے دشمن سے ٹکر لے کر پیچھے ہٹے اور دوسرا دستہ حملہ کرے خالدؓ نے اپنی فوج کو اسی قسم کے حملوں کی تربیت دے رکھی تھی اور اکثر اس کی مشق کراتے رہتے تھے۔خالد ؓنے حملے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے پہلوؤں کے دستوں کو بھی اس حملے میں جھونک دیا۔ حملے کی پہلی فوج کی قیادت خالدؓ نے خود کی ۔پہلوؤں کے سالاروں عاصم اور عدی نے بھی اپنے اپنے دستے کے ساتھ جاکر خود حملہ کیا۔ آتش پرستوں نے جم کر مقابلہ کیا۔ وہ تازہ دم تھے مجاہدین تھکے ہوئے تھے لیکن مسلمانوں کو یہ فائدہ مل گیا کہ آتش پرست ابھی پوری طرح لڑنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔یورپی مؤرخوں نے صاف لکھا ہے کہ فارس کی فوج ذہنی طور پر بھی لڑنے کیلئے تیار نہیں تھی ۔یہ فوج بھوکی تھی اور اسے وہ کھانا چھوڑنا پڑا تھا جو اس کیلئے خاص طور پر پکوایا گیا تھا۔ اس کھانے کیلئے تو انہوں نے مسلمانوں کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔مسلمانوں کو اس پہلے حملے میں خون کی خاصی قربانی دینی پڑی ۔آتش پرستوں نے تیار نہ ہوتے ہوئے بھی کئی مسلمانوں کو گھائل کر دیا۔ خالدؓپیچھے ہٹے اور دوسرے دستوں کر آگے بڑھایا۔آتش پرستوں کو تعدادکی افراط کا فائدہ حاصل تھا ۔ایک ایک مجاہد کا مقابلہ چار چار پانچ پانچ آتش پرستوں اور عیسائیوں سے تھا ۔دشمن کو اس فائدے سے محروم کر نے کیلئے مثنیٰ کا سوار دستہ سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا ۔اس نے سواروں کو متعدد ٹولیوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔یہ ٹولیاں باری باری گھوڑے سر پٹ دوڑاتی بگولوں کی طرح کبھی پہلو سے کبھی عقب سے آتیں اور کفار کے کئی آدمیوں کو برچھیوں سے کاٹتی گزر جاتیں۔ اس طرح دشمن کی توجہ اپنے عقب پر بھی چلی گئی لیکن مثنیٰ کے سوار رک کر نہیں لڑتے تھے۔ان سواروں نے دشمن کی ترتیب درہم برہم کیے رکھی ۔مثنیٰ کی اس کارروائی سے خالدؓ نے پورا فائدہ اٹھایا۔’’بنو بکر!‘‘ میدانِ جنگ میں ایک اعلان سنائی دینے لگا ۔’’اور زرتشت کے پجاریو !جم کر لڑو۔مدائن سے بہمن جاذویہ کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘یہ اعلان بار بار سنائی دیتا تھا۔خالدؓ کو یہ اعلان کچھ پریشان کر رہا تھا ۔انہوں نے پہلوؤں کے سالاروں کو پیغام بھیجے کہ ہر طرف دھیان رکھیں۔ خالدؓ نے اپنے محفوظہ کے دستوں کو بھی خبر دار کر دیا کہ عقب سے حملے کا خطرہ ہے۔*

*تقریباً تما م مؤرخین نے لکھا ہے کہ بہمن جاذویہ مدائن سے کوئی لشکر نہیں لا رہا تھا کسی نے بھی یہ نہیں لکھا کہ وہ جابان کی مدد کیلئے کیوں نہیں پہنچ سکا تھا ۔ایک مؤرخ یاقوت نے لکھا ہے کہ بہمن جاذویہ اپنے لشکر میں شامل ہونے کیلئے واپس آ رہا تھا راستے میں اسے اس لڑائی سے بھاگے ہوئے کچھ سپاہی مل گئے۔ جنہوں نے اسے الیس کی جنگ کا حال سنایا ،جاذویہ آگے آنے کے بجائے وہیں رک گیا اس کا مقصد یہ تھا کہ شکست اس کے کھاتے میں نہ لکھی جائے۔ بہرحال اس اعلان نے کہ مدائن سے جاذویہ فوج لا رہا ہے مسلمانوں میں نئی روح پھونک ڈالی۔خالدؓنے اعلان کیا کہ مدائن کے لشکر کے پہنچنے سے پہلے پہلے اس لشکر کا صفایا کر دو لیکن آتش پرست اور عیسائی چٹانوں کی طرح ڈٹے ہوئے تھے۔خالد ؓ دعا تو کرتے ہی تھے لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ خالد ؓگھوڑے سے اترے ‘زمین پر گھٹنے ٹیکے اور ہاتھ بلند کر کے دعا کی ۔’’خدائے ذوالجلال! ہمت عطا فرما کہ ہم اس لشکرکو نیچا دِکھا سکیں ۔میں عہدکرتا ہوں کہ میں تیرے دین کے دشمنوں کے خون کا دریا بہا دوں گا۔‘‘اب کہ خالدؓ نے نئے جوش و خروش سے حملے کروائے ۔پہلوؤں کے دونوں سالاروں نے دشمن کو نیم دائرے میں لے لیا۔ عقب سے مثنیٰ بن حارثہ کے سواروں نے اپنی چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں۔دو تین گھنٹے بعد صاف نظر آنے گا کہ دشمن کے قدم اُکھڑ رہے ہیں۔چونکہ دشمن کی تعداد زیادہ تھی اس لئے اس کے مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔یہ حالت دیکھ کر عیسائیوں اور آتش پرستوں کے وہ لوگ جو پہلی تین جنگوں سے زندہ بھاگ نکلے تھے ،حوصلہ ہار بیٹھے اور جانیں بچانے کیلئے میدانِ جنگ سے کھسکنے لگے،پھر لشکر کے دوسرے لوگ بھی پیچھے ہٹنے لگے ۔یہ صورت دیکھ کر مسلمانوں نے اپنے حملوں میں مزید شدت پیدا کردی۔پھر اچانک یوں ہوا کہ کفار نے بھاگنا شروع کر دیا۔’’تعاقب کرو!‘‘خالدؓ نے اپنے تمام لشکر میں قاصد اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیئے اور بلند آواز میں اعلان بھی کرایا۔’’انہیں بھاگنے مت دو……انہیں قتل بھی نہ کرو……زندہ پکڑ لاؤ۔‘‘اس اعلان کا کفار پر ایک اثر تو یہ ہوا کہ انہوں نے بھاگنے کے بجائے ہتھیار ڈالنے شروع کر دیئے۔ بعض نے خوفزدہ ہو کر بھاگ اٹھنا بہتر سمجھا۔مثنیٰ کے سواروں نے انہیں گھیر گھیر کر پیچھے لانا شروع کر دیا۔جنگ ختم ہو چکی تھی۔میدانِ جنگ لاشوں اور تڑپتے اور بے ہوش زخمیوں سے اٹا پڑا تھا۔ایک طرف وہ کھانا محفوظ پڑا تھا جو دشمن کے لشکر کیلئے تیار کیا گیا تھا ۔خالدؓ کے حکم سے مجاہدین کھانے پر بیٹھ گئے ۔جو سپاہی بھاگنے والوں کو پکڑ پکڑ کر لا رہے تھے وہ بھی کھانا کھانے لگے۔خالدؓ نے مجاہدین سے کہا۔’’اﷲنے یہ کھانا تمہارے لیے تیار کرایا تھا۔اطمینان سے کھاؤ۔‘‘مسلمان مختلف کھانے دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے،انہوں نے ایسے کھانے پہلے کبھی دیکھے ہی نہیں تھے ۔وہ جَو کی روٹی، اونٹنی کا دودھ اور کھجوریں کھانے والے لوگ تھے۔*

*مؤرخوں نے لکھا ہے کہ دشمن کے جن آدمیوں کو زندہ پکڑ کر لایا جا رہا تھا انہیں خالد ؓکے حکم سے خسیف کے کنارے لے جاتے اور ان کے سر اس طرح کاٹ دیئے جاتے کہ سر دریا میں گرتے تھے۔ ان کے دھڑ اس طرح کنارے پر پھینکے جاتے کہ ان کا خون دریا میں جاتا تھا ،اس طرح قتل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں کے حساب سے تھی۔غیر مسلم مؤرخوں اور مبصروں نے خالد ؓکے اس حکم کو ظالمانہ فعل کہا ہے لیکن خالدؓ کہتے تھے کہ انہوں نے خدا سے عہد کیا تھا کہ وہ کفار کے خون کادریا بہا دیں گے۔دریاکے اوپر بند بندھا ہوا تھا۔جس نے دریا کا پانی روکا ہوا تھا اس لیے خون دریا میں جمتا جا رہا تھا ۔کسی نے خالد ؓکو مشورہ دیا کہ خون کا دریا صرف اس صورت میں بہے گا کہ بند کھول دیا جائے چنانچہ بند کھول دیا گیا ۔جب اتنا زیادہ خون پانی میں ملا تو پانی سرخ ہو گیا اور خون کا دریا بہنے لگا۔اسی لیے تاریخ میں اس دریا کو دریائے خون لکھا گیا ہے۔بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے بچ نکلنے والوں اور ہتھیار ڈالنے والوں کا قتلِ عام اس لیے کرایا تھا کہ یہ سپاہی ایک جنگ سے بھاگ کر اگلی جنگ میں پھر سامنے آ جاتے تھے ۔اس کا علاج خالدؓ نے یہ سوچا کہ دشمن کے کسی ایک بھی سپاہی کو زندہ نہ رہنے دیا جائے ۔کہتے ہیں کہ تین دن آتش پرستوں اور عیسائیوں کو قتل کیا جاتا رہا۔اس طرح قتل ہونے والوں کی تعداد ملاکر دریائے خون کی جنگ میں جو آتش پرست اور عیسائی مارے گئے ان کی تعداد ستّر ہزار تھی۔شہنشاہِ فارس اردشیرجونوشیرواں عادل کا پرپوتا تھا،ایسے مرض میں مبتلا ہو گیا تھا جو شاہی طبیبوں کے قابو میں نہیں آ رہا تھا۔اتنا تو وہ جانتے تھے کہ پے در پے تین شکستوں کا صدمہ ہے لیکن صدمہ آخر جسمانی مرض کی صورت اختیار کر گیا تھا۔اس کا علاج دوائیوں سے ہونا چاہیے تھا لیکن یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ دوائیوں کونہیں بلکہ دوائیاں اسے کھا رہی ہوں۔*

*اردشیر پر خاموشی طاری ہو گئی تھی۔وہ جو اپنے وقت کا فرعون تھا ،سحر کے دیئے کی طرح ٹمٹما رہا تھا۔طبیب اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ اردشیر تک جنگ کی کوئی بری خبر نہ پہنچے لیکن یہ ممکن نہ تھا۔وہ جب بولتا تھاتو یہی بولتا تھاکہ آگے کی کیاخبر ہے؟’’خبریں اچھی آرہی ہیں۔‘‘طبیب جو ہر وقت حاضر رہتا تھا اسے جواب دیتا اور اسے صدمے سے بچانے کیلئے کبھی کہتا ۔’’مسلمان پچھتا رہے ہیں کہ وہ کس دیو کو چھیڑ بیٹھے ہیں۔‘‘کبھی کہتا ۔’’فارس کی شہنشاہی ایک چٹان ہے۔اس سے جو بھی ٹکرایا اس نے اپنا سر پھوڑ لیا۔‘‘اور کبھی اس کی چہیتی ملکہ یہ کہہ کر اس کا دل مضبوط کرتی ۔’’عرب کے بدو کسریٰ کے جاہ و جلال کی تاب نہیں لا سکتے۔‘‘*
*ان تسلیوں اور ان حوصلہ افزاء الفاظ کا کسریٰ اردشیر پر دوائیوں کی طرح الٹا یہی اثر ہو رہا تھا۔اس کی خاموشی نہ ٹوٹ سکی اور اس کے چہرے پر اداسیوں کی پر چھائیاں کم ہونے کے بجائے گہری ہوتی گئیں۔اس کی من پسند رقاصہ نے اس کے سامنے حسین ناگن کی طرح اپنے جسم کو بہت بل دیئے ۔اس نے اپنا جسم نیم عریاں کیا۔اردشیر کے علیل چہرے پر اپنے عطر بیز ریشم جیسے ملائم بالوں کا سایہ کیا۔پھر عریاں ہو کر رقص کی اداوؤں سے کسریٰ کے روگی وجود کو سہلانے کے جتن کیے مگر ایسے لگتا تھا جیسے مورنی جنگل میں ناچ رہی ہو اور ناچ کا طلسم جنگل کی ہواؤں میں اڑتا جا رہا ہو۔اس کی پسندیدہ مغنّیہ جو اردشیر کو مسحور کر لیا کرتی تھی ، اس کا سحر بھی رائیگاں گیا۔یہ رقاصہ اور مغنّیہ فارس کے حسن کے شاہکار تھے۔فارس کا حسن تو کسریٰ کے حرم میں پھولوں کی طرح کھِلا ہوا تھا۔ان پھولوں میں ادھ کھِلی کلیاں بھی تھیں،اردشیر ان کے مخملیں جسموں کی بو باس سے مدہوش رہا کرتا تھا ،مگر اب ایک ایک کو اسکی تنہائی کا ساتھی بنایا گیا تو اردشیر نے کسی کو بھی قبول نہ کیا۔اس کے سرد جسم میں نوخیز جوانی کی تپش ذرا سی حرارت بھی پیدا نہ کر سکی۔’’بیکار ہے…… سب بیکار ہے۔‘‘ملکہ نے باہر آ کر اس بوڑھے شاہی طبیب سے کہا جس کے متعلق فارس کے کونے کونے تک مشہور تھا کہ اسے دیکھ کر موت منہ موڑ جاتی ہے ۔ملکہ نے رندھی ہوئی آواز میں اسے کہا۔’’کیا آپ کا علم اور تجربہ بھی بیکار ہے ؟کیا یہ محض ڈھونگ ہے؟کیاآپ کسریٰ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نہیں لا سکتے؟کون کہتا ہے آپ موت کا منہ موڑ دیا کرتے ہیں؟‘‘’’زرتشت کی رحمتیں ہوں تجھ پر ملکہ فارس !‘‘بوڑھے طبیب نے کہا۔’’نہ کسی کی موت میرے ہاتھ میں ہے نہ کسی کی زندگی میرے ہاتھ میں ہے ۔میں زندگی اور موت کے درمیان کمزور سی ایک دیوار ہوں۔موت کے ہاتھ اتنے مضبوط اور توانا ہیں کہ اس دیوار کو دروازے کے کواڑ کی طرح کھول لیتے ہیں اور مریض کو اٹھا لے جاتے ہیں اور میرا علم اور میرا تجربہ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔‘‘’’الفاظ……محض الفاظ۔‘‘ ملکہ نے فرش پر بڑی زور سے پاؤں مار کر کہا۔’’ کھوکھلے الفاظ ……کیا الفاظ کسی دکھیارے کا دکھ مٹا سکتے ہیں؟ کسی روگی کو روگ سے نجات دلا سکتے ہیں؟کیا آپ کے الفاظ میں اتنی طاقت ہے کہ کسریٰ کے روگ کو چوس لیں؟‘‘’’نہیں ملکہ فارس!‘‘ طبیب نے بڑے تحمل سے کہا اورکانپتے ہوئے ہاتھ سے ملکہ کے بازو کو پکڑا اور اسے بٹھا کر کہا ۔’’الفاظ کسی کے دکھ اور کس کے روگ کو مٹا نہیں سکتے ۔البتہ دکھ اور روگ کی اذیت کو ذرا کم کر دیا کرتے ہیں۔حقیقت کے سامنے الفاظ کوئی معنی نہیں رکھتے اور حقیقت اگر تلخ ہو تو عالم کے منہ سے نکلتے ہوئے الفاظ یوں لگتے ہیں جیسے خزاں میں شجر کے زرد پتے گر رہے ہوں۔سوکھے ہوئے ان پتوں کو پھر ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں۔*
*۔‘‘’’ہم کسریٰ کو حقیقت سے بے خبر رکھ رہے ہیں ۔‘‘ملکہ نے کہا۔’’میں انہیں رقص و نغمے سے بہلانے کی……‘‘ ’’کب تک؟‘‘بوڑھے طبیب نے کہا۔’’ملکہ کسریٰ! تم کسریٰ سے اس حقیقت کو کب تک چھپائے رکھو گی؟ یہ رقص اور یہ نغمے اور یہ مخمل جیسے نرم وملائم اور نو خیز جسم کسریٰ اردشیرکا دل نہیں بہلا سکتے ۔اگر کسریٰ صرف شہنشاہ ہوتے تو وہ اپنے آپ کو بڑے حسین فریب دے سکتے تھے ۔فرار کے بڑے دلکش راستے اختیار کر سکتے تھے لیکن وہ جنگجو بھی ہیں۔ انکے گھوڑے کے سموں نے زمین کے تختے کو ہلا ڈالا تھا فارس کی اتنی عظیم شہنشاہی کسریٰ کے زورِبازو کا حاصل ہے۔‘‘*
*’’اس شہنشاہی کو انہوں نے رومیوں کی طاقتور فوج سے بچایاہے کسریٰ نے لڑائیاں لڑی ہیں ۔بڑے خونریز معرکے لڑے ہیں ۔اب وہ جنگجو اردشیر بیدار ہو گیا ہے ۔اب رقص و نغمہ اور یہ طلسماتی جوانیاں ان پر الٹا اثر کر رہی ہیں۔ اب وہ کسی رقاصہ اور کسی مغنّیہ کو نہیں ہرمز کو بلاتے ہیں۔اندرزغر کی پوچھتے ہیں۔بہمن جاذویہ اور انوشجان کو پکارتے ہیں۔ کہاں ہیں ان کے یہ سالار ؟تم انہیں کیا دھوکا دو گی؟‘‘*
*’’کچھ نہیں۔‘‘ملکہ نے آہ بھر کر کہا۔’’کچھ بھی نہیں۔آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن کچھ تو بتائیں میں کچھ نہیں سمجھ سکتی ،کیا آپ مسلمانوں کو جانتے ہیں ؟یہاں چند عیسائی آئے تھے وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار طاقت ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتااور میں نے دیکھاہے کہ دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں ہم نے جن مسلمانوں کو آباد کرکے انہیں اپنا غلام بنا رکھا تھا۔*

*جزاک اللہ۔*

*جاری ہے۔۔👇🏻
*اسلامک ہسٹری*