┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_11
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بتاؤ نا۔ آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟" اس دن کالج میں امامہ نے جویریہ سے اصرار کیا۔
جویریہ کچھ دیر ا سکا چہرہ دیکھتی رہی۔ "میری خواہش ہے کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔"
امامہ کو جیسے ایک کرنٹ سا لگا۔ اس نے شاک اور بے یقینی کے عالم میں جویریہ کو دیکھا۔ وہ دھیمے لہجے میں کہتی جارہی تھی۔
"تم میری اتنی اچھی اور گہری دوست ہو کہ مجھے یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے کہ تم گمراہی کے راستے پر چل رہی ہو اور تمہیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔۔۔۔۔ نہ صرف تم بلکہ تمہاری پوری فیملی۔۔۔۔۔ میری خواہش ہے کہ نیک اعمال پر اگر اللہ مجھے جنت میں بھیجے تو تم میرے ساتھ ہو لیکن اس کے لئے مسلمان ہونا تو ضروری ہے۔"
امامہ کے چہرے پر ایک کے بعد ایک رنگ آرہا تھا۔ بہت دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہوسکی۔
"میں توقع نہیں کرسکتی تھی جویریہ کہ تم مجھ سے تحریم جیسی باتیں کرو گی۔ تمہیں تو میں اپنا دوست سمجھتی تھی مگر تم بھی۔۔۔۔۔" جویریہ نے نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔
"تحریم نے تم سے تب جو کچھ کہا تھا، ٹھیک کہا تھا۔" امامہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی، اسے جویریہ کی باتوں سے بہت تکلیف ہورہی تھی۔
"اور صرف آج ہی نہیں، میں اس وقت بھی تحریم کو صحیح سمجھتی تھی مگر میری تمہارے ساتھ دوستی تھی اور میں چاہنے کے باوجود تم سے یہ نہیں کہہ سکی کہ میں تحریم کو حق بجانب سمجھتی ہوں۔ اگر وہ یہ کہتی تھی کہ تم مسلمان نہیں ہو تو یہ ٹھیک تھا۔ تم مسلمان نہیں ہو۔"
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جویریہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ امامہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر جویریہ نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
"تم میرا بازو چھوڑ دو۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو، آئندہ کبھی تم مجھ سے بات تک مت کرنا۔" امامہ نے بھرائے ہوئے لہجے میں اس سے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"امامہ! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ "تم نے کتنا ہرٹ کیا ہے مجھے۔ جویریہ مجھے کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی۔"
"میں تمہیں ہرٹ نہیں کررہی ہوں۔ حقیقت بتا رہی ہوں۔ رونے یا جذبات میں آنے کے بجائے تم ٹھنڈے دل و دماغ سے میری بات سوچو۔۔۔۔۔ میں آخر تم کو بے کار کسی بات پر ہرٹ کیوں کروں گی۔" جویریہ نے اس کا بازو نہیں چھوڑا۔
"یہ تو تمہیں پتا ہی ہوگا کہ تم مجھے ہرٹ کیوں کررہی ہو، مگر مجھے آج یہ اندازہ ضرور ہو گیا ہے کہ تم میں اور تحریم میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ تم نے تو مجھے اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی ہے۔ اس سے میری دوستی اتنی پرانی نہیں تھی جتنی تمہارے ساتھ ہے۔" امامہ کے گالوں پر آنسو بہہ رہے تھےا ور وہ مسلسل اپنا بازو جویریہ کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کررہی تھی۔
"یہ تمہارا اصرار تھا کہ میں تمہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاؤں۔ میں اسی لئے تمہیں نہیں بتا رہی تھی اور میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ تم میری بات پر بہت ناراض ہوگی مگر تم نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔" جویریہ نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
"مجھے اگر یہ پتا ہوتا کہ تم میرے ساتھ اس طرح کی بات کرو گی تو میں کبھی تم سے تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش جاننے پر اصرار نہ کرتی۔" امامہ نے اس بار قدرے غصے سے کہا۔
"اچھا میں دوبارہ اس معاملے پر تم سے بات نہیں کروں گی۔" جویریہ نے قدرے مدافعانہ انداز میں کہا۔
"اس سے کیا ہوگا۔ مجھے یہ تو پتا چل گیا ہے کہ تم درحقیقت میرے بارے میں کیا سوچتی ہو۔۔۔۔۔ ہماری دوستی اب کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہوسکتی۔ آج تک میں نے کبھی تم پر اس طرح تنقید نہیں کی مگر تم مجھے اسلام کا ایک فرقہ سمجھنے کے بجائے غیر مسلم بنا رہی ہو۔" امامہ نے کہا۔
"میں اگر ایسا کررہی ہوں تو غلط نہیں کررہی۔ اسلام کے تمام فرقے کم از کم یہ ایمان ضرور رکھتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآل وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔" اس بار جویریہ کو بھی غصہ آگیا۔
"مائنڈ یور لینگویج۔" امامہ بھی بھڑک اٹھی۔
"میں تمہیں حقیقت بتا رہی ہوں امامہ ۔۔۔۔۔ اور میں ہی نہیں یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ تمہاری فیملی نے روپے کے حصول کے لئے مذہب بدلا ہے۔"
"امامہ! میری باتوں پر اتنا ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے۔۔۔۔۔"
امامہ نے جویریہ کی بات کاٹ دی۔" مجھے ضرورت نہیں ہے تمہاری کسی بھی بات پر ٹھنڈے دل و دعاغ سے غور کرنے کی ۔میں جانتی ہوں حقیقت کیا ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔۔"
"تم نہیں جانتیں اور یہی افسوس ناک بات ہے۔" جویریہ نے کہا امامہ نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اس بار بہت زور کے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑالیا اور تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چل پڑی۔
اس بار جویریہ نے اس کے پیچھے جانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کچھ افسوس اور پریشانی سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی۔ امامہ اس طرح ناراض نہیں ہوتی تھی جس طرح وہ آج ہوگئی تھی اور یہی بات جویریہ کو پریشان کررہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ سب کچھ اسکول میں ہونے والے ایک واقعے سے شروع ہوا تھا۔ امامہ اس وقت میٹرک کی اسٹوڈنٹ تھی اور تحریم اس کی اچھی دوستوں میں سے ایک تھی۔ وہ لوگ کئی سال سے اکٹھے تھے اور نہ صرف ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے بلکہ انکی فیملیز بھی ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ اپنی فرینڈز میں سے امامہ کی سب سے زیادہ دوستی تحریم اور جویریہ سے تھی مگر اسے حیرت ہوتی تھی کہ اتنی گہری دوستی کے باوجود بھی جویریہ اور تحریم اس کے گھر آنے سے کتراتی تھیں۔ امامہ ہر سال اپنی سالگرہ پر انہیں انوائیٹ کرتی اور اکثر وہ اپنے گھر پر ہونے والی دوسری تقریبات میں بھی انہیں مدعو کرتیں، وہ گھر سے اجازت نہ ملنے کا بہانہ بنا دیتیں۔ چند بار امامہ نے خود ان دونوں کے والدین سے اجازت لینے کے لئے بات کی، لیکن اس کے بے تحاشا اصرار کے باوجود ان دونوں کے والدین انہیں اس کے گھر آنے کی اجازت نہ دیتے۔ ان کے رویے پر کچھ شاکی ہوکر اس نے اپنے والدین سے شکایت کی۔
"تمہاری یہ دونوں فرینڈز سید ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر ہمارے فرقہ کو پسند نہیں کرتے۔ اسی لئے ان دونوں کے والدین انہیں ہمارے گھر آنے نہیں دیتے۔"
ایک بار اس کی امی نے اس کی شکایت پر کہا۔
"یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔" امامہ کو ان کی بات پر تعجب ہوا۔
"اب یہ تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔۔۔۔۔ یہ تو ہمیں غیر مسلم بھی کہتے ہیں۔" اس کی امی نے کہا۔
"کیوں غیر مسلم کہتے ہیں۔ ہم تو غیر مسلم نہیں ہیں۔" امامہ نے کچھ الجھ کر کہا۔
"ہاں بالکل۔ ہم مسلمان ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ لوگ ہمارے نبی پر یقین نہیں رکھتے۔" اسکی امی نے کہا۔
"کیوں؟"
"اب اس کیوں کا میں کیا جواب دے سکتی ہوں۔ اب یہ لوگ یقین نہیں رکھتے۔ کٹر ہیں بڑے، یہ تو انہیں قیامت کے دن ہی پتا چلے گا کہ کون سیدھے رستے پر تھا۔ ہم یا یہ۔۔۔۔۔۔"
"مگر امی مجھ سے تو انہوں نے کبھی مذہب پر بات نہیں کی۔ پھر مذہب مسئلہ کیسے بن گیا۔۔۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے پھر دوسرے کے گھر آنے جانے سے کیا ہوتا ہے۔" امامہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی۔
"یہ بات انہیں کون سمجھائے۔۔۔۔۔ یہ لوگ ہمیں جھوٹا کہتے ہیں، حالانکہ خود انہیں ہمارے بارے میں کچھ پتا نہیں۔۔۔۔۔ بس مولویوں کے کہنے میں آکر ہم پر چڑھ دوڑتے ہیں، انہیں ہمارے بارے میں اور ہمارے نبی کی تعلیمات کے بارے میں کچھ پتا ہو تو یہ لوگ اس طرح نہ کریں۔ شاید پھر انہیں کچھ شعور آجائے۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ بھی ہماری طرح راہ راست پر آجائیں۔ تمہاری فرینڈز اگر تمہارے گھر نہیں آتیں تو تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم بھی ان کے گھر مت جایا کرو۔"
"مگر امی! انکی غلط فہمیاں تو دور ہونا چاہیں میرے بارے میں۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔
"یہ کام تم نہیں کرسکتیں۔ ان لوگوں کے ماں باپ مسلسل اپنے بچوں کی ہمارے خلاف برین واشنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں ہمارے خلاف زہر بھرتے رہتے ہیں۔"
"نہیں امی! وہ میری بیسٹ فرینڈز ہیں۔ ان کو میرے بارے میں اس طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ میں ان لوگوں کو اپنی کتابیں پڑھنے کے لئے دوں گی، تاکہ ان کے دل سے میرے بارے میں یہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں، پھر ہوسکتا ہے یہ ہمارے نبی کو بھی مان جائیں۔" امامہ نے کہا اس کی امی کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔
"آپ کو میری تجویز پسند نہیں آئی؟"
"ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم ضرور انہیں اپنی کتابیں دو۔۔۔۔۔ مگر اس طریقے سے نہیں کہ انہیں یہ لگے کہ تم اپنے فرقہ کی ترویج کے لئے انہیں یہ کتابیں دے رہی ہو۔ تم انہیں یہ کہہ کر کتابیں دینا کہ تم چاہتی ہو کہ وہ ہمارے بارے میں جانیں۔ ہم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور ان سے یہ بھی کہنا کہ ان کتابوں کا ذکر وہ اپنے گھروالوں سے نہ کریں۔۔۔۔۔ ورنہ وہ لوگ زیادہ ناراض ہوجائیں گے۔" امامہ نے انکی بات پر سرہلادیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس کے چند دنوں بعد امامہ اسکول میں کچھ کتابیں لے گئی تھی۔ بریک کے دوران وہ جب گراؤنڈ میں آکر بیٹھیں تو امامہ اپنے ساتھ وہ کتابیں بھی لے آئی۔
"میں تمہارے اور جویریہ کے لئے کچھ لے کر آئی ہوں۔
"کیا لائی ہو دکھاؤ!۔" امامہ نے شاپر سے وہ کتابیں نکال لیں اور انہیں دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان دونوں کی طرف بڑھا دیا۔ وہ دونوں ان کتابوں پر نظر ڈالتے ہی کچھ چپ سی ہوگئیں۔ جویریہ نے امامہ سے کچھ نہیں کہا مگر تحریم یکدم کچھ اکھڑ گئی۔
"یہ کیا ہے؟" اس نے سردمہری سے پوچھا۔
"یہ کتابیں میں تمہارے لئے لائی ہوں۔" امامہ نے کہا۔
"کیوں؟"
"تاکہ تم لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔"
"کس طرح کی غلط فہمیاں؟"
"وہی غلط فہمیاں جو تمہارے دل میں، ہمارے مذہب کے بارے میں ہیں۔" امامہ نے کہا۔
"تم سے کس نے کہا کہ ہمیں تمہارے مذہب یا تمہارے نبی کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں؟" تحریم نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
"میں خود اندازہ کرسکتی ہوں۔ صرف اسی وجہ سے تو تم لوگ ہمارے گھر نہیں آتے۔ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ ہم لوگ مسلمان نہیں ہیں یا ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے یا ہم لوگ محمد ﷺ کو پیغمبر نہیں مانتے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم لوگ ان سب چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے بعد ہمارا بھی ایک نبی ہے اور وہ بھی اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح محمد ﷺ۔" امامہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
تحریم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں اسے واپس تھما دیں۔ "ہمیں تمہارے اور تمہارے مذہب کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم تمہارے مذہب کے بارے میں ضرورت سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لئے تم کو کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے بڑے روکھے لہجے میں امامہ سے کہا۔ "اور جہاں تک ان کتابوں کا تعلق ہے تو میرے اور جویریہ کے پاس اتنا بے کار وقت نہیں ہے کہ ان احمقانہ دعوؤں، خوش فہمیوں اور گمراہی کے اس پلندے پر ضائع کریں جسے تم اپنی کتابیں کہہ رہی ہو۔" تحریم نے ایک جھٹکے کے ساتھ جویریہ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں کھینچ کر انہیں بھی امامہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ امامہ کا چہرہ خفت اور شرمندگی سے سرخ پڑ گیا۔ اسے تحریم سے اس طرح کے تبصرے کی توقع نہیں تھی اگر ہوتی تو وہ کبھی اسے وہ کتابیں دینے کی حماقت ہی نہ کرتی۔
"اور جہاں تک اس احترام کا تعلق ہے تو اس نبی میں جس پر نبوت کا نزول ہوتا ہے اور اس نبی میں جو خودبخود نبی ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تم لوگوں کو اگر قرآن پر واقعی یقین ہوتا تو تمہیں اس کے ایک ایک حرف پر یقین ہوتا۔ نبی ہونے میں اور نبی بننے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔"
"تحریم! تم میری اور میرے فرقہ کی بے عزتی کررہی ہو۔" امامہ نے انکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ کہا۔
"میں کسی کی بے عزتی نہیں کررہی۔ میں صرف حقیقت بیان کررہی ہوں، وہ اگر تمہیں بے عزتی لگتی ہے تو میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی۔" تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"روزہ رکھنے اور بھوکے رہنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے اور اس پر ایمان لانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بہت سارے عیسائی اور ہندو بھی اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے قرآن پاک پڑھتے ہیں تو کیا انہیں مسلمان مان لیا جاتا ہے اور بہت سے مسلمان بھی دوسرے مذہب کے بارے میں جاننے کے لئے دوسری الہامی کتابیں پڑھتے ہیں تو کیا وہ غیر مسلم ہوجاتے ہیں اور تم لوگ اگر حضور ﷺ کو پیغمبر مانتے ہو تو کوئی احسان نہیں کرتے۔ تم ان کی نبوت کو جھٹلاؤ گے تو اور کیا جھٹلاؤ گے، پھر تو انجیل کو بھی جھٹلانا پڑے گا۔ جس میں حضور ﷺ کی نبوت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ پھر تو توریت کو بھی جھٹلانا پڑے گاجس میں ان کی نبوت کی بات کی گئی ہے، پھر قرآن پاک کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو محمد ﷺ کو آخری نبی قرار دیتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر تمہارا نبی محمد ﷺ کی نبوت کو جھٹلاتا ہے تو وہ ان مناظروں کی کیا توجیہہ پیش کرتا جو وہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے کئی سال عیسائی پادریوں سے محمد ﷺ کی نبوت اور اسلام کے آخری دین ہونے پر کرتا رہاتھا۔ اس لئے امامہ ہاشم! تم ان چیزوں کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش مت کرو جن کے بارے میں تمہیں سرے سے کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ تمہیں نہ اس مذہب کے بارے میں پتا ہے جس پر تم چل رہی ہو اور نہ اس کے بارے میں جس پر تم بات کررہی ہو۔"
تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"اور میں ایک چیز بتادوں تمہیں۔۔۔۔۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ تم لوگ محمد ﷺ کی نبوت کے ختم ہونے کا انکار کرتے ہو تو ہمارے پیغمبر ﷺ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
"مگر ہم محمد ﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔" امامہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"تو پھر ہم بھی انجیل پر یقین رکھتے ہیں، اسے الہامی کتاب مانتے ہیں، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں تو کیا ہم کرسچن ہیں؟ اور ہم تو حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی نبوت پر بھی یقین رکھتے ہیں تو کیا پھر ہم یہودی ہیں؟" تحریم نے کچھ تمسخر سے کہا۔ "لیکن ہمارا دین اسلام ہے، کیونکہ ہم محمد ﷺ کے پیروکار ہیں اور ہم ان پیغمبروں پر یقین رکھنے کے باوجود نہ عیسائیت کا حصہ ہیں نہ یہودیت کا، بالکل اسی طرح تم لوگوں کا نبی ہے کیونکہ تم اس کے پیروکار ہو۔ ویسے تم لوگ تو ہمیں بھی مسلمان نہیں سمجھتے۔ ابھی تم اصرار کررہی ہو کہ تم اسلام کا ایک فرقہ ہو۔۔۔۔۔ جبکہ تمہارے نبی اور اس کے بعد آنے والے تمہاری جماعت کے تمام لیڈرز کا دعویٰ ہے کہ جو مرزا کی نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو اسلام سے تو تم لوگ تمام مسلمانوں کو پہلے ہی خارج کرچکے ہو۔"
"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں نے ایسا کب کہا ہے؟" امامہ نے قدرے لڑکھڑائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"تو پھر تم اپنے والد سے ذرا اس معاملے کو ڈسکس کرو۔۔۔۔۔ وہ تمہیں خاصی اپ ٹو ڈیٹ انفارمیشن دیں گے اس بارے میں۔۔۔۔۔ تمہارے مذہب کے خاصے سرکردہ رہنما ہیں وہ۔۔۔۔۔" تحریم نے کہا۔ "اور یہ جو کتابیں تم ہمیں پیش کررہی ہو۔۔۔۔۔ انہیں خود پڑھا ہے تم نے۔۔۔۔۔ نہیں پڑھا ہوگا۔۔۔۔۔ ورنہ تمہیں پتا ہوتا ان سرکردہ رہنماؤں کے بارے میں۔"
جویریہ تحریم کی اس ساری گفتگو کے دوران خاموش رہی تھی، وہ صرف کن اکھیوں سے امامہ کو دیکھتی رہی تھی۔ "اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد ﷺ اس کے آخری نبی ہیں اور میرے پیغمبر ﷺ اس پر گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبی ہیں اور میری کتاب مجھ تک یہ دونوں باتیں بہت صاف واضح اور دوٹوک انداز میں پہنچا دیتی ہے تو پھر مجھے کسی اور شخص کے ثبوت اور اعلان کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ سمجھیں۔"
تحریم نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"بہتر ہے تم اپنے مذہب کو یا ہمارے مذہب کو زیر بحث لانے کی کوشش نہ کرو۔ اتنے سالوں سے دوستی چل رہی ہے، چلنے دو۔۔۔۔۔"
"جہاں تک تمہارے گھر نہ آنے کا تعلق ہے تو ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے کہ میرے والدین کو تمہارے گھر آنا پسند نہیں ۔ یہاں اسکول میں تم سے دوستی اور بات ہے۔ بہت سے لوگوں سے دوستی ہوتی ہے ہماری اور دوستی میں عام طور پر مذہب آڑے نہیں آتا لیکن گھر میں آنا جانا۔۔۔۔۔ کچھ مختلف چیز ہے۔۔۔۔۔ انہیں شاید میری کسی عیسائی یا یہودی یا ہندو دوست کے گھر جانے پر اعتراض نہ ہولیکن تمہارے گھر جانے پر ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے مذہب کو مانتے ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے جس مذہب سے تعلق ہوتا ہے وہی بتاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا تم لوگوں کو ناپسند کیا جاتا ہے اتنا ان لوگوں کو نہیں کیا جاتا کیونکہ تم لوگ صرف پیسے کے حصول اور اچھے مستقبل کے لئے یہ نیا مذہب اختیار کرکے ہمارے دین میں گھسنے کی کوشش کررہے ہو، مگر کرسچن، ہندو یا یہودی ایسا نہیں کرتے۔"
امامہ نے بے اختیار اسے ٹوکا۔ "کس پیسے کی بات کررہی ہو تم؟ تم ہماری فیملی کو جانتی ہو۔۔۔۔۔ ہم لوگ شروع سے ہی بہت امیر ہیں۔ ہمیں کونسا روپیہ مل رہا ہے اس مذہب پر رہنے کے لئے۔"
"ہاں تم لوگ اب بڑے خوشحال ہو، مگر شروع سے تو ایسے نہیں تھے۔ تمہارے دادا مسلمان تھے مگر غریب آدمی تھے۔ وہ کاشت کاری کیا کرتے تھے اور ایک چھوٹے کاشتکار تھے۔ ربوہ سے کچھ فاصلے پر ان کی تھوڑی بہت زمین تھی پھر تمہارے تایا نے اپنے کسی دوست کے توسط سے وہاں جانا شروع کردیا اور یہ مذہب اختیار کرلیا اور بے تحاشا امیر ہوگئے کیونکہ انہیں وہاں سے بہت زیادہ پیسہ ملا پھر آہستہ آہستہ تمہارے والد اور تمہارے چچا نے بھی اپنا مذہب بدل لیا پھر تم لوگوں کا خاندان اس ملک کے متمول ترین خاندانوں میں شمار ہونے لگا اور یہ کام کرنے والے تم لوگ واحد نہیں ہو زیادہ تر اسی طریقے سے لوگوں کو اس مذہب کا پیروکار بنایا جارہا ہے۔"
امامہ نے کچھ بھڑکتے ہوئے اس کی بات کو کاٹا "تم جھوٹ بول رہی ہو۔"
"تمہیں یقین نہیں آرہا تو تم اپنے گھر والوں سے پوچھ لینا کہ اس قدر دولت کس طرح آئی ان کے پاس۔۔۔۔۔ اور ابھی بھی کس طرح آرہی ہے۔ تمہارے والد اس مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں ڈالرز آتے ہیں، انہیں غیر ملکی مشنز اور این جی اوز سے۔۔۔۔۔" تحریم نے کچھ تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
"یہ جھوٹ ہے، سفید جھوٹ۔" امامہ نے بے اختیار کہا۔ "میرے بابا کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیتے۔ وہ اگر اس فرقہ کے لئے کام کرتے ہیں، تو غلط کیا ہے۔ کیا دوسرے فرقوں کے لئے کام نہیں کیا جاتا۔ دوسرے فرقوں کے بھی تو علماء ہوتے ہیں یا ایسے لوگ جو انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔"
"دوسرے فرقوں کو یورپی مشنز سے روپیہ نہیں ملتا۔"
"میرے بابا کو کہیں سے کچھ نہیں ملتا۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔ تحریم نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
امامہ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا پھر گردن موڑ کر اپنے پاس بیٹھی جویریہ کی طرف دیکھا۔
"کیا تم بھی میرے بارے میں ایسا ہی سوچتی ہو؟"
"تحریم نے غصہ میں آکر تم سے یہ سب کچھ کہا ہے۔ تم اس کی باتوں کا برا مت مانو۔" جویریہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
"تم ان سب باتوں کو چھوڑو۔۔۔۔۔ آؤ کلاس میں چلتے ہیں۔ بریک ختم ہونے والی ہے۔" جویریہ نے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوگئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے