┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_12
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن وہ گھر واپس آکر اپنے کمرے میں بند ہوکر روتی رہی۔ تحریم کی باتوں نے اسے واقعی بہت دل برداشتہ اور مایوس کیا تھا۔
ہاشم مبین احمد اس دن شام کو ہی آفس سے گھر واپس آگئے ۔ واپس آنے پر انہیں سلمیٰ سے پتا چلا کہ امامہ کی طبیعت خراب ہے وہ اس کا حال احوال پوچھنےا س کے کمرے میں چلے آئے۔ امامہ کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ہاشم مبین حیران رہ گئے۔
"کیا بات ہے امامہ؟" انہوں نے امامہ کے قریب آکر پوچھا
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کچھ بہانہ کرنے کی بجائے بے اختیار رونے لگی۔ ہاشم کچھ پریشان ہوکر اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئے۔
"کیا ہوا۔۔۔۔۔ امامہ؟"
"تحریم نے آج اسکول میں مجھ سے بہت بدتمیز کی ہے۔" اس نے روتے ہوئے کہا۔
ہاشم مبین نے بے اختیار ایک اطمینان بھری سانس لی۔ "پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے تم لوگوں میں؟"
"بابا! آپ کو نہیں پتا اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟" امامہ نے باپ کو مطمئن ہوتے دیکھ کر کہا۔
"بابا! اس نے۔۔۔۔۔" وہ باپ کو تحریم کے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو بتاتی گئی۔ ہاشم مبین کے چہرے کی رنگت بدلنے لگی۔
"تم سے کس نے کہاتھا۔ تم اسکول کتابیں لے کر جاؤ، انہیں پڑھانے کے لئے؟" انہوں نے امامہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
"میں ان کی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتی تھی۔" امامہ نے قدرے کمزور لہجے میں کہا۔
"تمہیں ضرورت ہی کیا تھی کسی کی غلط فہمیاں دور کرنے کی۔ وہ ہمارے گھر نہیں آتیں تو نہ آئیں۔ ہمیں برا سمجھتی ہیں تو سمجھتی رہیں، ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔" ہاشم مبین نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"مگر اب تمہاری اس حرکت سے پتا نہیں وہ کیا سمجھے گی۔ کس کس کو بتائے گی کہ تم نے اسے وہ کتابیں دینے کی کوشش کی۔ خود اس کے گھر والے بھی ناراض ہوں گے۔ امامہ! ہر ایک کو یہ بتاتے نہیں پھرتے کہ تم کیا ہو۔ نہ ہی اپنے فرقہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں اگر کوئی بحث کرنے کی کوشش بھی کرے تو ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں ورنہ لوگ خوامخواہ فضول طرح کی باتیں کرتے ہیں اور فضول طرح کے شبہات میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔" انہوں نے سمجھایا۔
"مگر بابا! آپ بھی تو بہت سارے لوگوں کو تبلیغ کرتے ہیں؟" امامہ نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ "پھر مجھے کیوں منع کررہے ہیں؟"
"میری بات اور ہے میں صرف ان ہی لوگوں سے مذہب کی بات کرتا ہوں جن سے میری بہت بے تکلفی ہوچکی ہوتی ہے اور جن کے بارے میں مجھے یہ محسوس ہو کہ ان پر میری ترغیب اور تبلیغ کا اثر ہوسکتا ہے۔ میں دوچار دن کی ملاقات میں کسی کو کتابیں بانٹنا شروع نہیں ہوجاتا۔" ہاشم مبین نے کہا۔
"بابا ان سے میری دوستی دوچار دن کی نہیں ہے۔ ہم کئی سالوں سے دوست ہیں۔" امامہ نے اعتراض کیا۔
"ہاں مگر وہ دونوں سید ہیں اور دونوں کے گھرانے بہت مذہبی ہیں۔ تمہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی۔"
"میں نے تو صرف انہیں اپنے فرقے کے بارے میں بتانے کی کوشش کی تھی تاکہ ہمیں وہ غیر مسلم تو نہ سمجھیں۔" امامہ نے کہا۔
"اگر وہ ہمیں غیر مسلم سمجھتے ہیں تو ہمیں بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ خود غیر مسلم ہیں۔" ہاشم مبین نے بڑی عقیدت سے کہا۔ "وہ تو خود گمراہی کے راستے پر ہیں۔"
"بابا وہ کہہ رہی تھی کہ آپ کو غیر ملکی مشنز سے روپیہ ملتا ہے۔ این جی اوز سے روپیہ ملتا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ہمارے فرقہ کا پیروکار بنائیں۔"
ہاشم مبین نے تنفر سے گردن کو جھٹکا۔ "مجھے صرف اپنی جماعت سے روپیہ ملتا ہے اور وہ بھی وہ روپیہ ہوتا ہے جو ہماری اپنی کمیونٹی اندرون ملک اور بیرون ملک سے اکٹھا کرتی ہے۔ ہمارے پاس اپنے روپے کی کیا کمی ہے۔ ہماری اپنی فیکٹریز نہیں ہیں کیا اور اگر مجھے غیر ملکی منشز اور این جی اوز سے روپیہ ملے بھی تو میں بڑی خوشی سے لوں گا، آخر اس میں برائی کیا ہے۔ دین کی خدمت کررہا ہوں اور جہاں تک اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ کی بات ہے تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ اگر اس ملک میں عیسائیت کی تبلیغ ہوسکتی ہے تو ہمارے فرقے کی کیوں نہیں۔ ہم تو ویسے بھی اسلام کا ایک فرقہ ہیں۔ لوگوں کو راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔" ہاشم مبین نے بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا۔
"مگر تم لوگوں سے اس معاملے پر بات مت کیا کرو۔ اس بحث مباحثے کا کوئی فائدہ ہنیں ہوتا۔ ابھی ہم لوگ اقلیت میں ہیں جب اکثریت میں ہوجائیں گے تو پھر اس طرح کے لوگ اتنی بے خوفی کے ساتھ اس طرح بڑھ بڑھ کر بات نہیں کرسکیں گے پھر وہ اس طرح ہماری تذلیل کرتے ہوئے ڈریں گے مگر فی الحال ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہیے۔"
"بابا! آئین میں ہمیں اقلیت اور غیر مسلم کیوں قرار دیا گیا ہے۔ جب ہم اسلام کا ایک فرقہ ہیں تو پھر انہوں نے ہمیں غیر مسلم کیوں ٹھہرایا ہے؟" امامہ کو تحریم کی کہی ہوئی ایک اور بات یاد آئی۔
"یہ سب مولویوں کی کارستانی تھی۔ اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ سب ہمارے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔ ہماری تعداد بھی زیادہ ہوجائے گی تو ہم پھر اپنی مرضی کے قوانین بنوائیں گے اور اس طرح کی تمام ترمیمات کو آئین میں سے ہٹا دیں گے۔" ہاشم مبین نے پرجوش انداز میں کہا۔ "اور تمہیں اس طرح بے وقوفوں کی طرح کمرے میں بند ہوکر رونے کی ضرورت نہیں ہے۔"
ہاشم مبین نے اس کے پاس اٹھتے ہوئے کہا، امامہ انہیں وہاں سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
تحریم کے ساتھ وہ اس کی دوستی کا آخری دن تھا اور اس میں تحریم سے زیادہ خود اس کا رویہ وجہ تھا۔ وہ تحریم کی باتوں سے اس حد تک دل برداشتہ ہوئی تھی کہ اب تحریم کیساتھ د وبارہ پہلے جیسے تعلقات قائم رکھنا اس کے لئے مشکل ہوگیا تھا۔ خود تحریم نے بھی اس کی اس خاموشی کو پھلانگنے یا توڑنے کی کوشش نہیں کی۔
ہاشم مبین احمد احمدی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے بڑے بھائی، اعظم مبین احمد بھی جماعت کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے پورے خاندان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام افراد بہت سال پہلےاس وقت قادیانیت اختیار کرگئے تھے جب اعظم مبین احمد نے اس کام کا آغاز یا تھا جن لوگوں نے قادیانیت اختیار نہیں کی تھی وہ باقی لوگوں سے قطع تعلق کرچکے تھےاپنے بڑے بھائی اعظم مبین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہاشم مبین نے بھی یہ مذہب اختیار کرلیا۔ اعظم مبین ہی کی طرح انہوں نے اپنے مذہب کے فروغ اور تبلیغ کے لئے کام کرنا بھی شروع کردیا۔ دس پندرہ سالوں میں وہ دونوں بھائی اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔ اس کی وجہ سے انہوں نے بے تحاشا پیسہ کمایا اور اس پیسے سے انہوں نے سرمایا کاری بھی کی مگر ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تحریک کی تبلیغ کے لئے میسر ہونے والے فنڈز ہی تھے۔ ان کا شمار اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس میں ہوتا تھا۔ بے تحاشا دولت ہونے کے باوجود ہاشم اور اعظم مبین کے گھر کا ماحول روایتی تھا۔ ان کی خواتین باقاعدہ پردہ کیا کرتی تھیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ان خواتین پر ناروا پابندیاں یا کسی قسم کا جبر روا رکھا گیا تھا۔ اس مذہب کی خواتین میں تعلیم کا تناسب پاکستان میں کسی بھی مذہب کے مقابلے میں ہمیشہ ہی زیادہ رہا ہے ان لوگوں نے اعلی تعلیم بھی معروف اداروں سے حاصل کی۔
امامہ بھی اسی قسم کے ماحول میں پلی بڑھی تھی۔ وہ یقینا ً ان لوگوں میں سے تھی جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور اس نے ہاشم مبین کو بھی کسی قسم کے مالی مسائل سے گزرتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے لئے تحریم کی یہ بات ناقابل یقین تھی کہ اس کے خاندان نے پیسہ حاصل کرنے کے لئے یہ مذہب اختیار کیا۔ غیر ملکی مشنز اور بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز کا الزام بھی اس کے لئے ناقابلِ قبول تھا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ ہاشم مبین اس مذہب کی تبلیغ اور ترویج کرتے ہیں اور تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک ہیں مگر یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی۔ وہ شروع سے ہی اس سلسلے میں اپنے تایا اور والد کی سرگرمیوں کو دیکھتی آرہی تھی۔ اس کے نزدیک یہ کام ایسا تھا جو وہ "اسلام" کی تبلیغ و ترویج کے لئے کررہے تھے۔
اپنے گھر والوں کے ساتھ وہ کئی بار مذہبی اجتماع میں بھی جاچکی تھی اور سرکردہ رہنماؤں کے لندن سے سیٹلائٹ کے ذریعے ہونے والے خطبات کو بھی باقاعدگی سے سنتی اور دیکھتی آرہی تھی۔ تحریم کے ساتھ ہونے والے جھگڑے سے پہلے اس نے کبھی اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے لئے اپنا فرقہ ایسا ہی تھا، جیسے اسلام کا کوئی دوسرا فرقہ۔۔۔۔۔ اس کی برین واشنگ بھی اسی طرح کی گئی تھی کہ وہ سمجھتی تھی کہ صرف وہی سیدھے راستے پر تھے بلکہ وہی جنت میں جائیں گے۔
اگرچہ گھر میں بہت شروع میں ہی اسے باقی بہن بھائیوں کے ساتھ یہ نصیحت کردی گئی تھی کہ وہ بلاوجہ لوگوں کو یہ نہ بتائیں کہ وہ دراصل کیا ہیں۔ اسکول میں تعلیم کے دوران ہی وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ 1974ء میں انہیں پارلیمنٹ نے ایک غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا تھا وہ سمجھتی تھی کہ یہ مذہبی داؤ میں آ کر کیا جانے والا ایک سیاسی فیصلہ ہے، مگر تحریم کے ساتھ ہونےو الے جھگڑے نے اسے اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے اور سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
تحریم سے ہونے والے جھگڑے کے بعد ایک تبدیلی جو اس میں آئی وہ اپنے مذہب کا مطالعہ تھا۔ تبلیغی مواد کے علاوہ ان کتابوں کے علاوہ جنہیں اس مذہب کے ماننے والے مقدس سمجھتے تھے اس نے اور بھی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیا اور بنیادی طور پر اسی زمانے میں اس کی الجھنوں کا آغاز ہوا مگر کچھ عرصہ مطالعہ کے بعد اس نے ایک بار پھر ان الجھنوں اور اضطراب کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ میٹرک کے فوراً بعد اسجد سے اسکی منگنی ہوگئی وہ اعظم مبین کا بیٹا تھا۔ یہ اگرچہ کوئی محبت کی منگنی نہیں تھی مگر اسکے باوجود امامہ اور اسجد کی پسند اس رشتہ کا باعث بنی تھی۔ نسبت طے ہونے کے بعد اسجد کے لئے امامہ کے دل میں خاص جگہ بن گئی تھی۔
اپنی پسند کے شخص سے نسبت کے بعد اس کا دوسرا ٹارگٹ میڈیکل میں ایڈمیشن تھا اور اسے اس کے بارے میں زیادہ فکر نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے باپ کی پہنچ اتنی ہے کہ اگر وہ میرٹ پر نہ بھی ہوئی تب بھی وہ اسے میڈیکل کالج میں داخل کروا سکتے ہیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو بھی وہ بیرون ملک جاکر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرسکتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

"تم پچھلے کچھ دنوں سے بہت پریشان ہو، کوئی پرابلم ہے؟" وسیم نے اس رات امامہ سے پوچھا وہ پچھلے کچھ دن سے بہت زیادہ خاموش اور الجھی الجھی نظر آرہی تھی۔
"نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے تمہارا وہم ہے۔" امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"خیر وہم تو نہیں، کوئی نہ کوئی بات ہے ضرور۔ تم بتانا نہیں چاہتیں تو اور بات ہے۔" وسیم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ وہ امامہ کے ڈبل بیڈ پر اس سے کچھ فاصلے پر لیٹا ہوا تھا اور وہ اپنی فائل میں رکھے نوٹس الٹ پلٹ رہی تھی۔ وسیم کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر اس نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
"میں نے ٹھیک کہا نا، تم بتانا نہیں چاہتیں؟"
"ہاں میں فی الحال بتانا نہیں چاہتی۔" امامہ نے ایک گہرا سانس لے کر اعتراف کیا۔
"بتا دو، ہوسکتا ہے میں تمہاری مدد کرسکوں۔" وسیم نے اسے اکسایا۔
"وسیم! میں خود تمہیں بتا دوں گی مگر فی الحال نہیں اور اگر مجھے مدد کی ضرورت ہوگی تو میں خود تم سے کہوں گی۔" اس نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی، میں تو صرف تمہاری مدد کرنا چاہتا تھا۔" وہ بیڈ سے اٹھ گیا۔
وسیم کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ وہ واقعی جویریہ کے ساتھ اس دن ہونے والے جھگڑے کے بعد سے پریشان تھی۔ اگرچہ جویریہ نے اگلے دن اس سے معذرت کرلی تھی مگر اس کی الجھن اور اضطراب میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ جویریہ کی باتوں نے اسے بہت پریشان کردیا تھا۔ ایک ڈیڑھ سال پہلے تحریم کے ساتھ ہونے والا جھگڑا اسے ایک بار پھر یاد آنے لگا تھا اور اس کے ساتھ ہی اپنے مذہب کے بارے میں ابھرنے والے سوالات اور الجھنیں بھی جو اس نے اپنے مذہب کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد اپنے ذہن میں محسوس کی تھیں۔ جویریہ نے کہا تھا۔ "میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کاش تم مسلمان ہوتیں۔"
"مسلمان ہوتی؟" وہ عجیب سی بے یقینی میں مبتلا ہوگئی تھی۔ "کیا میں مسلمان نہیں ہوں؟ کیا میری بہترین دوست بھی مجھے مسلمان نہیں مانتی؟ کیا یہ سب کچھ صرف ایک پروپیگنڈہ کی وجہ سے ہے جو ہمارے بارے میں کیا جاتا ہے؟ آخر ہمارے ہی بارے میں کیوں یہ سب کچھ کہا جاتا ہے؟ کیا ہم لوگ واقعی کوئی غلط کام کررہے ہیں؟ کسی غلط عقیدے کو اختیار کر بیٹھے ہیں؟ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے، آخر میرے گھر والے ایسا کیوں کریں گے اور پھر ہماری ساری کمیونٹی ایسا کیوں کرے گی؟ اور شاید یہ ان سوالوں سے نجات پانے کی ایک کوشش تھی کہ ایک ہفتے بعد اس نے ایک بہت بڑے عالم دین کی قرآن پاک کی تفسیر خریدی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ ان کے بارے میں دوسرے فریق کا موقف کیا ہے۔ قرآن پاک کا ترجمہ وہ اس سے پہلے بھی پڑھتی رہی تھی مگر وہ تحریف شدہ حالت میں تھا۔ اسے اس سے پہلے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ جو قرآن پاک وہ پڑھتے ہیں اس میں کچھ جگہوں پر کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں مگر اس مشہور عالم دین کی تفسیر پڑھنے کے دوران اسے ان تبدیلیوں کے بارے میں معلوم ہوگیا جو ان کے اپنے قرآن میں موجود تھیں۔ اس نے یکے بعد دیگرے مختلف فرقوں کے اداروں سے شائع ہونے والے قرآن پاک کے نسخوں کو دیکھا۔ ان میں سے کسی میں بھی وہ تبدیلیاں نہیں تھی جو خود ان کے قرآن میں موجود تھیں جبکہ مختلف فرقوں کی تفاسیر میں بہت زیادہ فرق تھا جوں جوں وہ اپنے مذہب اور اسلام کا تقابلی مطالعہ کررہی تھی اس کی پریشانی میں اضافہ ہورہا تھا۔ ہر تفسیر آخری نبی پیغمبر اسلام ﷺ کو ہی ٹھہرایا گیا تھا۔ کہیں بھی کسی ظلیّ یا امتی نبی کا کوئی ڈھکا چھپا اشارہ بھی موجود نہیں تھا۔ مسیح موعود کی حقیقت بھی اس کے سامنے آگئی تھی۔ اپنے مذہبی رہنما کی جھوٹی پیش گوئیوں میں اور حقیقت میں ہونے والے واقعات کا تضاد اسے اور بھی زیادہ چبھنے لگا تھا۔ اس کے مذہبی رہنما نے نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے جن پیغمبر کے بارے میں سب سے زیادہ غیر مہذب زبان استعمال کی تھی وہ خود حضرت عیسٰی علیہ السلام ہی تھے اور بعد میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے سے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کا حلول اس کے اندر ہوگیا ہے اور اگر اس عوے کی سچائی کو مان بھی لیا جاتا تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنے دوبارہ نزول کے بعد چالیس سال تک زندہ رہتے اور پھر جب ان کا انتقال ہوا تو اسلام پوری دنیا پر غلبہ پاچکا ہوتا مگر ان رہنما کی وفات کے وقت دنیا میں اسلام کا غلبہ تو ایک طرف خود ہندوستان میں مسلمان آزادی جیسی نعمت کے لئے ترس رہے تھے۔ امامہ کو اپنے مذہبی رہنما کے گفتگو کے اس انداز پر بھی تعجب ہوتا جو اس نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنے مخالفین یا دوسرے انبیائے کرام کے لئے اختیار کیا تھا۔ کیا کوئی نبی اس طرح کی زبان استعمال کرسکتا تھا جس طرح کی اس نبوت کے دعویٰ کرنے والے نے کی تھی۔
بہت غیر محسوس انداز میں اس کا دل اپنے مذہبی لٹریچر اور مقدس کتابوں سے اچاٹ ہونے لگا تھا۔ پہلے جیسا اعتقاد اور یقین تو ایک طرف اسے سرے سے ان کی صداقت پر شبہ ہونے لگا تھا۔ اس نے جویریہ سے یہ ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ اب اپنے مذہب سے ہٹ کر دوسری کتابوں کو پڑھنے لگی تھی۔ اس کے گھر میں بھی کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کس قسم کی کتابیں گھر لاکر پڑھ رہی تھی اس نے انہیں اپنے کمرے میں بہت حفاظت سے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ صرف ایک دن ایسا ہوا کہ وسیم اس کے کمرے میں آکر اس کی کتابوں میں سے کوئی کتاب ڈھونڈنے لگا۔ وسیم کے ہاتھ سب سے پہلے قرآن پاک کی وہی تفسیر لگی تھی اور وہ جیسے دم بخود رہ گیا تھا۔
"یہ کیا ہے امامہ؟" اس نے مڑ کر تعجب سے پوچھا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور دھک سے رہ گئی۔
"یہ۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ یہ قرآن پاک کی تفسیر ہے۔" اس نے یکدم اپنی زبان میں ہونے والی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
"میں جانتا ہوں مگر یہ یہاں کیا کررہی ہے۔ کیا تم اسے خرید کر لائی ہو؟" وسیم نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ پوچھا
"ہاں، میں اسے خرید کر لائی ہوں۔ مگر تم اتنا پریشان کیوں ہورہے ہو؟"
"بابا کو پتا چلے گا تو وہ کتنا غصہ کریں گے، تمہیں اندازہ ہے؟"
"ہاں، مجھے اندازہ ہے، مگر مجھے یہ کوئی اتنی قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی۔"
"آخر تمہیں اس کتاب کی ضرورت کیوں پڑی؟" وسیم نے کتاب وہیں رکھ دی۔
"کیونکہ میں جاننا چاہتی ہوں کہ دوسرے عقائد کے لوگ آخر قرآن پاک کی کیا تفسیر کررہے ہیں۔ ہمارے بارے میں، قرآن کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔" امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
وسیم پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟"
"میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے" امامہ نے پرسکون انداز میں کہا۔ "کیا برائی ہے۔ اگر میں دوسرے مذاہب کے بارے میں جانوں اور ان کے قرآن پاک کی تفسیر پڑھوں۔"
"ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔" وسیم نے ناراضی سے کہا۔
"تمہیں ضرورت نہیں ہوگی، مجھے ضرورت ہے۔" امامہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔ "میں آنکھیں بند کرکے کسی بھی چیز پر یقین کی قائل نہیں ہوں۔" اس نے واضح الفاظ میں کہا۔
"تو یہ تفسیر پڑھ کر تمہارے شبہات دور ہوگئے ہیں؟" وسیم نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ "پہلے مجھے اپنے اعتقاد کے بارے میں شبہ نہیں تھا، اب ہے۔"
وسیم اسکی بات پر بھڑک اٹھا۔ "دیکھا، اس طرح کی کتابیں پڑھنے سے یہی ہوتا ہے۔ میں اسی لئے تم سے کہہ رہا ہوں کہ تمہیں اس طرح کی کتابیں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لئے ہماری اپنی کتابیں کافی ہیں۔"
"میں نے اتنی تفاسیر دیکھی ہیں، قرآن پاک کے اتنے ترجمے دیکھے ہیں، حیرانی کی بات ہے وسیم! کہیں بھی ہمارے نبی کا ذکر نہیں ہے، ہر تفسیر میں احمد سے مراد محمد ﷺ کو ہی لیا جاتا ہے، ہمارے نبی کو نہیں اور اگر کہیں ہمارے نبی کا ذکر ہے بھی تو نبوت کے ایک جھوٹے دعوے دار کے طور پر۔" امامہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
"یہ لوگ ہمارے بارے میں ایسی باتیں نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ ہمارے نبی کی نبوت کو مان لیں گے تو ہمارا اور ان کا تو اختلاف ہی ختم ہوجائے گا۔ یہ کبھی اپنی تفاسیر میں سچ نہیں شائع کریں گے۔" وسیم نے تلخی سے کہا۔
"اور جو ہماری تفسیر ہے، کیا ہم نے سچ لکھا ہے اس میں۔"
"کیا مطلب؟" وسیم ٹھٹکا۔
"ہمارے نبی دوسرے پیغمبروں کے بارے میں غلط زبان کیوں استعمال کرتے ہیں؟"
"وہ ان لوگوں کے بارے میں اپنی بات کرتے ہیں جو ان پر ایمان نہیں لائے۔" وسیم نے کہا۔
"جو ایمان نہ لائے کیا اسے گالیاں دینی چاہیں؟"
"ہاں غصہ کا اظہار تو کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہے۔" وسیم نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
"غصے کا اظہار یا بے بسی کا؟" امامہ کے جملے پر وہ دم بخود اسے دیکھنے لگا۔
"جب حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پر لوگ ایمان نہیں لائے تو انہوں نے لوگوں کو گالیاں تو نہیں دی۔ حضرت محمد ﷺ پر لوگ ایمان نہیں لائے تھے تو انہوں نے بھی کسی کو گالیاں نہیں دیں۔ محمد ﷺ نے تو ان لوگوں کے لئے بھی دعا کی جنہوں نے انہیں پتھر مارے، جو وحی قرآن پاک کی صورت میں حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے اس میں کوئی گالی نہیں ملتی اور جس مجموعے کو ہمارے نبی اپنے اوپر نازل شدہ صحیفہ کہتے ہیں وہ گالیوں سے بھرا ہوا ہے۔"
"امامہ! ہر انسان کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، ہر انسان الگ طرح سے ری ایکٹ کرتا ہے۔" وسیم نے تیزی سے کہا۔ امامہ نے قائل نہ ہونے والے انداز میں سرہلایا۔
"میں ہر انسان کی بات نہیں کررہی ہوں۔ میں نبی کی بات کررہی ہوں جو شخص اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتا وہ نبوت کا دعوٰی کیسے کرسکتا ہے۔ جس شخص کی زبان سے گالیاں نکلتی ہوں اس کی زبان سے حق و صداقت کی بات نکل سکتی ہے؟ وسیم! مجھے اپنے مذہب اور عقیدے کے بارے میں الجھن سی ہے۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔ "میں نے اتنی تفاسیر میں اگر کسی امتی نبی کا ذکر پایا ہے تو وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں اور میں نہیں سمجھتی کہ ہمارے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا مسیح موعود ہیں۔"
"نہیں۔۔۔۔ یہ وہ نہیں ہیں، جن کے آنے کے بارے میں قرآن پاک میں ذکر ہے۔" اس بار اس نے اپنے الفاظ کی خود ہی پُرزور تردید کی۔
"تم اب اپنی بکواس بند کرلو تو بہتر ہے۔" وسیم نے ترش لہجے میں کہا۔ "کافی فضول باتیں کرچکی ہو تم۔"
"فضول باتیں؟" امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ "تم کہہ رہے ہو میں فضول باتیں کررہی ہوں۔ مسجد اقصیٰ اگر ہمارے شہر میں ہے تو پھر جو اتنے سینکڑوں سالوں سے فلسطین میں مسجد اقصیٰ ہے وہ کیا ہے۔ ایک نام کی دو مقدس جگہیں دنیا میں بنا کر خدا تو مسلمانوں کو کنفیوز نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کو چھوڑو، یہودی، عیسائی ساری دنیا اسی مسجد کو قبلہ اول تسلیم کرتی ہے۔ اگر کوئی نہیں کرتا تو ہم نہیں کرتے، یہ عجیب بات نہیں ہے؟"
"امامہ! میں ان معاملات پر تم سے بحث نہیں کرسکتا۔ بہتر ہے تم اس مسئلے کو بابا سے ڈسکس کرو۔" وسیم نے اکتا کر کہا۔ "ویسے تم غلطی کررہی ہو، اس طرح کی فضول بحث شروع کرکے۔ میں بابا کو تمہاری یہ ساری باتیں بتا دوں گا اور یہ بھی کہ تم آج کل کیا پڑھ رہی ہو۔" وسیم نے جاتے جاتے دھمکانے والے انداز میں کہا۔ وہ کچھ سوچ کر الجھے ہوئے انداز میں اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ وسیم کچھ دیر ناراضی کا اظہار کرکے کمرے سے باہر چلا گیا۔ وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی۔ وہ ہاشم مبین سے ڈرتی تھی اور جانتی تھی کہ وسیم ان سے اس بات کا ذکر ضرور کرے گا۔ وہ ان کے ردعمل سے خوفزدہ تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وسیم نے ہاشم مبین کو امامہ کے ساتھ ہونے والی بحث کے بارے میں بتا دیا تھا مگر اس نے بہت سی ایسی باتوں کو سنسر کردیا تھا جس پر ہاشم مبین کے بھڑک اٹھنے کا امکان تھا۔ اس کے باوجود ہاشم مبین دم بخود رہ گئے تھے۔ یوں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔
"یہ سب تم سے امامہ نے کہا ہے؟" ایک لمبی خاموشی کے بعد انہوں نے وسیم سے پوچھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔
"اسے بلا کر لاؤ۔" وسیم کچھ جھجکتے ہوئے ان کے کمرے سے نکل گیا۔ امامہ کو خود بلا کر لانے کی بجائے اس نے ملازم کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا اور خود اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ امامہ اور ہاشم مبین کی گفتگو کے دوران موجود رہنا نہیں چاہتا تھا۔
ہاشم مبین کے کمرے کے دروازے پر دستک دیکر وہ اندر داخل ہوئی تواس وقت ہاشم اور ان کی بیگم بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ ہاشم مبین نے اسے جن نظروں سے دیکھا تھا اس نے اس کے جسم کی لرزش میں کچھ اور اضافہ کردیا۔
"بابا۔۔۔۔۔ آپ نے۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ بلوایا تھا۔" کوشش کے باوجود وہ روانی سے بات نہیں کہہ سکی۔
"ہاں، میں نے بلوایا تھا۔ وسیم سے کیا بکواس کی ہے تم نے؟" ہاشم مبین نے بلاتمہید بلند آواز میں اس سے پوچھا۔ وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گئی۔ "کیا پوچھ رہا ہوں تم سے؟" وہ ایک بار پھر دھاڑے۔ "شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تمہیں، خود گناہ کرتی ہو اور اپنے ساتھ ہمیں بھی گناہگار بناتی ہو۔" امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ "تمہیں اپنی اولاد کہتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔ کونسی کتابیں لائی ہو تم؟" وہ مشتعل ہوگئے تھے۔ "جہاں سے یہ کتابیں لے کر آئی ہو، کل تک وہیں دے آؤ۔ ورنہ میں انہیں اٹھا کر پھینک دوں گا باہر۔"
"جی بابا!۔" اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا۔
"اور آج کے بعد اگر تم نے جویریہ کے ساتھ میل جول رکھا تو میں تمہارا کالج جانا بند کردوں گا۔"
"بابا۔۔۔۔۔ جویریہ نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ اس کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے۔" اس بار امامہ نے قدرے مضبوط آواز میں احتجاج کیا۔
"تو پھر اور کون ہے جو تمہارے دماغ میں یہ خناس بھر رہا ہے؟" وہ بری طرح چلائے۔
"میں۔۔۔۔۔ خود۔۔۔۔۔ ہی۔" امامہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
"ہوکیا تم، اپنی عمر دیکھو اور چلی ہو تم عقیدے جانچنے، اپنے نبی کی نبوت کو پرکھنے۔" ہاشم مبین کا پارہ پھر ہائی ہوگیا۔ "اپنے باپ کی شکل دیکھو جس نے ساری عمر تبلیغ میں گزار دی۔ کیا میں عقل کا اندھا ہوں یا پھر تم مجھ سے زیادہ عقل رکھتی ہو۔ جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں تمہیں پیدا ہوئےا ور تم چل پڑی ہو اپنے نبی کی نبوت کو ثابت کرنے۔" ہاشم مبین اب اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ "تم منہ میں سونے کا چمچ لے کر اسی نبی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو، جس کی نبوت کو آج تم جانچنے بیٹھ گئی ہو۔ وہ نہ ہوتا تو سڑک پر دھکے کھا رہا ہوتا ہمارا سارا خاندان اور تم اس قدر احسان فراموش اور بے ضمیر ہوچکی ہو کہ جس تھالی میں کھاتی ہو اسی میں چھید کررہی ہو۔" 
ہاشم مبین کی آواز پھٹ رہی تھی۔ امامہ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی رفتار میں اور اضافہ ہوگیا۔
"بند کرو یہ لکھنا پڑھنا اور گھر بیٹھو تم! یہ تعلیم حاصل کررہی ہو جو تمہیں گمراہی کی طرف لے جارہی ہے۔"
ان کے اگلے جملے پر امامہ کی سٹی گم ہوگئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اسے گھر بٹھانے کی بات کریں گے۔
"بابا۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔" انکے ایک جملے نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔
"مجھے تمہارے کسی ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے۔ بس کہہ دیا کہ گھر بیٹھو، تو گھر بیٹھو۔"
"بابا۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ میرا۔۔۔۔۔ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ پتا نہیں وسیم۔۔۔۔۔ اس نے آپ سے کس طرح بات کی ہے۔" اس کے آنسو اور تیزی سے بہنے لگے۔ "پھر بھی میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ میں آئندہ ایسا کچھ نہیں پڑھوں گی نہ ہی ایسی کوئی بات کروں گی۔ پلیز بابا!۔" اس نے منت کی۔
ان معذرتوں کا سلسلہ وہیں ختم نہیں ہوا تھا، اگلے کئی دن تک وہ ہاشم مبین سے معافی مانگتی رہی اور پھر تقریباً ایک ہفتے کے بعد وہ نرم پڑ گئے تھے اور انہوں نے اسے کالج جانے کی اجازت دے دی تھی مگر اس ایک ہفتے میں وہ اپنے پورے گھر کی لعنت ملامت کا شکار رہی تھی۔ ہاشم مبین نے اسے سخت قسم کی تنبیہ کے بعد کالج جانے کی اجازت دی تھی مگر اس ایک ہفتے کے دوران ان لوگوں کے رویے نے اسے اپنے عقیدے سے مزید متنفر کیا تھا۔ اس نے ان کتابوں کو پڑھنے کا سلسلہ روکا نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ پہلے وہ انہیں گھر لے آتی تھی اور اب وہ انہیں کالج کی لائبریری میں پڑھ لیا کرتی تھی۔
ایف ایس سی میں میرٹ لسٹ پر آنے کے بعد اس نے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ جویریہ کو بھی اسی میڈیکل کالج میں ایڈمیشن مل گیا تھا، ان کی دوستی میں اب پہلے سے زیادہ مضبوطی آگئی تھی اور اس کی بنیادی وجہ امامہ کے ذہن میں آنے والی تبدیلی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے