┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد
قسط_نمبر_33
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم بی اے میں اس کی شاندار کامیابی کسی کے لئے بھی حیران کن نہیں تھی۔اس کے ڈیپارٹمنٹ میں ہر ایک کو پہلے سے ہی اس کا اندازہ تھا۔اس کے اور اس کے کلاس فیلوز کے پروجیکٹس اور اسائمنٹس میں اتنا فرق ہوتا تھا کہ اس کے پروفیسرز کو یہ ماننے میں کوئی عار نہیں تھا۔وہ مقابلے کی اس دوڑ میں دس گز آگے دوڑ رہا تھا اور ایم بی اے کے دوسرے سال میں اس نے اس فاصلے کو اور بڑھا دیا تھا۔
اس نے انٹرن شپ اقوامِ متحدہ کی ایک ایجنسی میں کی تھی۔اور اس کا ایم بی مکمل ہونے سے پہلے ہی اس ایجنسی کے علاوہ اس کے پاس سات مختلف ملٹی نیشنل کمپنیز کی طرف سے آفرز موجود تھیں۔
"تم اب آگے کیا کرنا چاہتے ہو؟"اس کے رزلٹ کے متعلق جاننے کے بعد سکندر عثمان نے اپنے پاس بلا کر پوچھا تھا۔
"میں واپس امریکہ جا رہا ہوں۔میں یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ ہی کام کرنا چاہتا ہوں۔"
"لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اپنا بزنس شروع کرو یا میرے بزنس میں شامل ہو جاؤ۔"سکندر عثمان نے اس سے کہا۔
"پاپا! میں بزنس نہیں کر سکتا۔بزنس والا ٹمپرامنٹ نہیں ہے میرا۔میں جاب کرنا چاہتا ہوں اور میں پاکستان میں رہنا بھی نہیں چاہتا۔"سکندر عثمان حیران ہوئے۔"تم نے پہلے کبھی ذکر نہیں کیا کہ تم پاکستان میں رہنا نہیں چاہتے۔تم مستقل طور پر امریکہ میں سیٹل ہونا چاہتے ہو؟"
"پہلے میں نے امریکہ میں سیٹل ہونے کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن اب میں وہیں رہنا چاہتا ہوں۔"
"کیوں؟"
وہ ان سے یہ کہنا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں اس کا ڈپریشن بڑھ جاتا ہے۔وہ مسلسل امامہ کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔وہاں ہر چیز اسے امامہ کی یاد دلاتی تھی۔اس کے پچھتاوے اور احساسِ جرم میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
"میں یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا۔"سکندر عثمان کچھ دیر اسے دیکھتے رہے۔
"حالانکہ میرا خیال ہے تم ایڈجسٹ ہو سکتے ہو۔"
سالار جانتا تھا ان کا اشارہ کس طرف تھا مگر وہ خاموش رہا۔
"جاب کرنا چاہتے ہو؟"ٹھیک ہے ، چند سال جاب کر لو لیکن اس کے بعد آ کر میرے بزنس کو دیکھو۔یہ سب کچھ میں تم لوگوں کے لئے ہی اسٹیبلش کر رہا ہوں ، دوسروں کے لئے نہیں۔"
وہ کچھ دیر اسے سمجھاتے رہے ، سالار خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک ہفتے کے بعد وہ دوبارہ امریکہ آ گیا تھا اور اس کے چند ہفتے کے بعد اس نے یونیسیف میں جاب شروع کر دی۔وہ نیو ہیون سے نیو یارک چلا گیا تھا۔یہ ایک نئی زندگی کا آغاز تھا اور وہاں آنے کے چند ہفتے بعد اسے یہ اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ وہ کہیں فرار حاصل نہیں کر سکتا تھا وہ اسے وہاں بھی اسی طرح یاد آ رہی تھی ، اس کا احساسِ جرم وہاں بھی اس کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔
وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے تک کام کرنے لگا۔وہ ایک دن بھی تین چار گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا اور دن رات کی اس مصروفیت نے اسے بڑی حد تک نارمل کر دیا تھا اگر ایک طرف کام کے اس انبار نے اس کے ڈپریشن میں کمی کی تھی تو دوسری طرف وہ اپنے ادارے کے نمایاں ترین ورکرز میں شمار ہونے لگا تھا۔یونیسیف کے مختلف پروجیکٹس کے سلسلے میں وہ ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک جانے لگا۔غربت اور بیماری کو وہ پہلی دفعہ اپنی آنکھوں سے ، اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔رپورٹس اور اخباروں میں چھپنے والے حقائق میں اور ان حقائق کو اپنی تمام ہولناکی کے ساتھ کھلی آنکھ سے دیکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے اور یہ فرق اسے اس جاب میں ہی سمجھ میں آیا تھا۔ہر روز بھوکے سونے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں تھی۔ہر رات پیٹ بھر کر ضرورت سے زیادہ کھا لینے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں تھی۔صرف تین وقت کا کھانا ، سر پر چھت اور جسم پر لباس بھی کتنی بڑی نعمتیں تھیں ، اسے تب سمجھ میں آیا تھا۔
وہ یونیسیف کی ٹیم کے ساتھ چارٹرڈ طیاروں میں سفر کرتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا۔اس نے زندگی میں ایسے کون سے کارنامے انجام دئیے تھے کہ اسے وہ پر آسائش زندگی دی گئی تھی جو وہ گزار رہا تھا اور ان لوگوں سے کیا گناہ ہوئے تھے کہ وہ زندگی کی تمام بنیادی ضروریات سے محروم صرف زندہ رہنے کی خواہش میں خوراک کے ان پیکٹس کے پیچھے بھاگتے پھرتے تھے۔
وہ ساری ساری رات جاگ کر اپنے ادارے میں کے لئے ممکنہ اسکیمیں اور پلان بناتا رہتا۔کہاں خوراک کی ڈسٹری بیوشن کیسے ہو سکتی ہے ، کیا بہتری لائی جا سکتی ہے ، کہاں مزید امداد کی ضرورت ہے ، کن علاقوں میں کس طرح کے پروجیکٹس درکار تھے ، وہ بعض دفعہ اڑتالیس گھنٹے بغیر سوئے کام کرتا رہتا۔
اس کے بنائے ہوئے پرپوزلز اور رپورٹس تکنیکی لحاظ سے اتنے مربوط ہوتے تھے کہ ان میں کوئی خامی ڈھونڈنا کسی کے لئے ممکن نہیں رہتا تھا اور اس کی یہ خصوصیات ، اس کی ساکھ اور نام کو اور بھی مستحکم کرتی جا رہی تھیں اگر مجھے اللہ نے دوسروں سے بہتر ذہن اور صلاحیتیں دی ہیں تو مجھے ان صلاحیتوں کو دوسروں کے لئے استعمال کرنا چاہئیے۔اس طرح استعمال کرنا چاہئیے کہ میں دوسروں کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانی لا سکوں ، دوسروں کی زندگی کو بہتر کر سکوں۔وہ کام کرتے ہوئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچتا تھا۔
یونیسیف کے لئے کام کرنے کے دوران ہی اس نے ایم فل کرنے کا سوچا تھا اور پھر اس نے ایم فل میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ایوننگ کلاسز کو جوائن کرتے ہوئے اسے قطعاً کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو ایک بار پھر ضرورت سے زیادہ مصروف کر رہا تھا مگر اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔کام اس کا جنون بن چکا تھا یا پھر اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ایک مشن۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرقان سے سالار کی پہلی ملاقات امریکہ سے پاکستان آتے ہوئے فلائٹ کے دوران ہوئی۔وہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔وہ امریکہ میں ڈاکٹرز کی کسی کانفرنس میں شرکت کر کے واپس آ رہا تھا جبکہ سالار سکندر اپنی بہن انیتا کی شادی میں شرکت کے لئے پاکستان آ رہا تھا۔اس لمبی فلائٹ کے دوران دونوں کے درمیان ابتدائی تعارف کے بعد گفتگو کا سلسلہ تھما نہیں۔
فرقان ، عمر میں سالار سے کافی بڑا تھا ، وہ پینتیس سال کا تھا لندن اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد وہ واپس پاکستان آ گیا تھا اور وہاں ایک ہاسپٹل میں کام کر رہا تھا۔وہ شادی شدہ تھا اور اس کے دو بچے بھی تھے۔
چند گھنٹے آپس میں گفتگو کرتے رہنے کے بعد فرقان اور وہ سونے کی تیاری کرنے لگے۔سالار نے معمول کے مطابق اپنے بریف کیس سے سلیپنگ پلز کی ایک گولی پانی کے ساتھ نگل لی۔فرقان نے اس کی اس تمام کاروائی کو خاموشی سے دیکھا۔جب اس نے بریف کیس بند کر کے دوبارہ رکھ دیا تو فرقان نے کہا۔
"اکثر لوگ فلائٹ کے دوران سلیپنگ پلز کے بغیر نہیں سو سکتے۔"
سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور کہا۔
"میں سلیپنگ پلز کے بغیر نہیں سو سکتا۔فلائٹ میں ہوں یا نہ ہوں ، اس سے فرق نہیں پڑتا۔"
"سونے میں مشکل پیش آتی ہے؟"فرقان کو ایک دم کچھ تجسس ہوا۔
"مشکل؟"سالار مسکرایا۔"میں سرے سے سو ہی نہیں سکتا۔میں سلیپنگ پلز لیتا ہوں اور تین چار گھنٹے سو لیتا ہوں۔"
"انسو مینیا؟"فرقان نے پوچھا۔
"شاید ، میں نے ڈاکٹر سے چیک اپ نہیں کروایا مگر شاید یہ وہی ہے۔"سالار نے قدرے لاپرواہی سے کہا۔
"تمہیں چیک اپ کروانا چاہئیے تھا ، اس عمر میں انسو مینیا ۔۔۔۔۔ یہ کوئی بہت صحت مند علامت نہیں ہے۔میرا خیال ہے تم کام کے پیچھے جنونی ہو چکے ہو اور اسی وجہ سے تم نے اپنی سونے کی نارمل روٹین کو خراب کر لیا ہے۔"
فرقان اب کسی ڈاکٹر کی طرح بول رہا تھا۔سالار مسکراتے ہوئے سنتا رہا۔وہ اسے نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ اگر رات دن مسلسل کام نہ کرے تو وہ اس احساسِ جرم کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا تھا جسے وہ محسوس کرتا ہے۔وہ اسے یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ سلیپنگ پلز کے بغیر سونے کی کوشش کرے تو وہ امامہ کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔اس حد تک کہ اسے اپنا سر درد سے پھٹتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔
"کتنے گھنٹے کام کرتے ہو ایک دن میں؟"فرقان اب پوچھ رہا تھا۔
"اٹھارہ گھنٹے ، بعض دفعہ بیس۔"
"مائی گڈنیس! اور کب سے؟"
"دو تین سال سے۔"
"اور تب ہی سے نیند کا مسئلہ ہو گا تمہیں ، میں نے ٹھیک اندازہ لگایا۔تم نے خود اپنی روٹین خراب کر لی ہے۔"فرقان نے اس سے کہا۔"ورنہ اتنے گھنٹے کام کرنے والے آدمی کو تو ذہنی تھکن ہی ایک لمبی اور پُر سکون نیند سلا دیتی ہے۔"
"یہ میرے ساتھ نہیں ہوتا۔"سالار نے مدھم لہجے میں کہا۔
"یہی تو تمہیں جاننے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ اگر یہ تمہارے ساتھ نہیں ہوتا تو کیوں نہیں ہوتا۔"سالار اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ وہ وجہ جانتا ہے۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فرقان نے اس سے کہا۔
"میں اگر تمہیں کچھ آیتیں بتاؤں رات کو سونے سے پہلے ، تو تم پڑھ سکو گے؟"
"کیوں نہیں پڑھ سکوں گا۔"سالار نے گردن موڑ کر اس سے کہا۔
"نہیں ، اصل میں تمہارے اور میرے جیسے لوگ جو زیادہ پڑھ لیتے ہیں اور خاص طور پر تعلیم مغرب میں حاصل کرتے ہیں وہ ایسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے یا انہیں پریکٹیکل نہیں سمجھتے۔"فرقان نے وضاحت کی۔
"فرقان! میں حافظِ قرآن ہوں۔"سالار نے اسی طرح لیٹے ہوئے پُر سکون آواز میں کہا۔
فرقان کو جیسے کرنٹ لگا۔
"میں روز رات کو سونے سے پہلے ایک سپارہ پڑھ کر سوتا ہوں ، میرے ساتھ یقین یا اعتماد کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔"سالار نے بات جاری رکھی۔
"میں بھی حافظِ قرآن ہوں۔"
فرقان نے بتایا۔سالار نے گردن موڑ کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔یہ یقیناً ایک خوشگوار اتفاق تھا۔اگرچہ فرقان نے داڑھی رکھی ہوئی تھی مگر سالار کو پھر بھی یہ اندازہ نہیں ہو پایا تھا کہ وہ حافظ قرآن ہے۔
"پھر تو تمہیں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔قرآن پاک کی تلاوت کر کے سونے والے انسان کو نیند نہ آئے ، یہ مجھے عجیب لگتا ہے۔"
سالار نے فرقان کو بڑبڑاتے سنا۔وہ اب اپنے حواس کو ہلکا ہلکا مفلوج پا رہا تھا۔نیند اس پر غلبہ پا رہی تھی۔اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
"تمہیں کوئی پریشانی ہے؟"اس نے فرقان کی آواز سنی۔وہ نیند کی گولیوں کے زیرِ اثر نہ ہوتا تو مسکرا کر انکار کر دیتا مگر وہ جس حالت میں تھا اس میں وہ انکار نہیں کر سکا۔
"ہاں ، مجھے بہت زیادہ پریشانیاں ہیں۔مجھے سکون نہیں ہے ، مجھے لگتا ہے میں مسلسل کسی صحرا میں سفر کر رہا ہوں ، پچھتاوے اور احساسِ جرم مجھے چھوڑتے ہی نہیں۔مجھے۔۔۔۔۔ مجھے کسی پیر کامل کی تلاش ہے ، جو مجھے اس تکلیف سے نکال دے ، جو مجھے میری زندگی کا راستہ دکھا دے۔"
فرقان دم بخود اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔سالار کی آنکھیں بند تھیں ، مگر وہ اس کی آنکھوں کے کونوں سے نکلتی نمی کو دیکھ رہا تھا۔اس کی آواز میں بھی بےربطی اور لڑکھڑاہٹ تھی۔وہ اس وقت لاشعوری طور پر سلیپنگ پلز کے زیرِ اثر بول رہا تھا۔
وہ اب خاموش ہو چکا تھا۔فرقان نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔بہت ہموار انداز میں چلنے والی اس کی سانس بتا رہی تھی کہ وہ نیند میں جا چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جہاز میں ہونے والی وہ ملاقات وہیں ختم نہیں ہوئی۔وہ دونوں جاگنے کے بعد بھی آپس میں گفتگو کرتے رہے۔فرقان نے سالار سے ان چند جملوں کے بارے میں نہیں پوچھا تھا ، جو اس نے نیند کی آغوش میں سماتے ہوئے بولے تھے۔خود سالار کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس نے سونے سے پہلے اس سے کچھ کہا تھا اگر کہا تھا تو کیا کہا تھا۔
سفر ختم ہونے سے پہلے ان دونوں نے آپس میں کانٹیکٹ نمبرز اور ایڈریس کا تبادلہ کیا پھر سالار نے اسے انیتا کی شادی پر انوائٹ کیا۔فرقان نے آنے کا وعدہ کیا مگر سالار کو اس کا یقین نہیں تھا۔ان دونوں کی فلائیٹ کراچی تک تھی پھر سالار کو اسلام آباد کی فلائٹ لینی تھی جبکہ فرقان کو لاہور کی۔ائیرپورٹ پر فرقان نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ اس سے الوداعی مصافحہ کیا۔
انیتا کی شادی تین دن بعد تھی اور سالار کے پاس ان تین دنوں کے لیے بھی بہت سے کام تھے۔کچھ شادی کی مصروفیات اور کچھ اس کے اپنے مسئلے۔
وہ اگلے دن شام کو اس وقت حیران ہوا جب فرقان نے اسے فون کیا۔دس پندرہ منٹ دونوں کی گفتگو ہوتی رہی۔فون بند کرنے سے پہلے سالار نے ایک بار پھر اسے انیتا کی شادی کے بارے میں یاد دلایا۔
" یہ کوئی یاد دلانے والی بات نہیں ہے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے۔میں ویسے بھی اس ویک اینڈ پر اسلام آباد میں ہی ہوں گا۔"فرقان نے جواباً کہا۔"وہاں مجھے اپنے گاؤں میں اپنا اسکول دیکھنے بھی جانا ہے۔اس کی بلڈنگ میں کچھ اضافی تعمیر ہو رہی ہے ، اسی سلسلے میں ۔۔۔۔۔تو اسلام آباد میں اس بار میرا قیام کچھ لمبا ہی ہو گا۔"سالار نے اس کی بات کو کچھ دلچسپی سے سنا۔
"گاؤں ۔۔۔۔۔اسکول۔۔۔۔۔کیا مطلب؟"
"ایک اسکول چلا رہا ہوں میں وہاں ، اپنے گاؤں میں۔"فرقان نے اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں سے ایک کا نام لیا۔"بلکہ کئی سالوں سے۔"
"کس لئے؟"
"کس لئے؟"فرقان کو اس کے سوال نے حیران کیا۔"لوگوں کی مدد کے لئے اور کس لئے۔"
"چیریٹی ورک ہے؟'
"نہیں ، چیریٹی ورک نہیں ہے۔یہ میرا فرض ہے۔یہ کسی پر کوئی احسان نہیں ہے۔"فرقان نے بات کرتے کرتے موضوع بدل دیا۔اسکول کے بارے میں مزید گفتگو نہیں ہوئی اور فون بند ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرقان انیتا کی شادی میں واقعی آ گیا تھا۔وہ خاصی دیر وہاں رکا مگر سالار کو محسوس ہوا کہ وہ کچھ حیران تھا۔
"تمہاری فیملی تو خاصی مغرب زدہ ہے۔"
سالار کو ایک دم اس کی الجھن اور حیرانی کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔
"میرا خیال تھا کہ تمہاری فیملی کچھ کنزرویٹو سی ہو گی کیونکہ تم نے بتایا تھا کہ تم حافظ قرآن ہو اور تمہارا لائف اسٹائل مجھے کچھ سادہ سا لگا مگر یہاں آ کر مجھے حیرانی ہوئی۔تم اور تمہاری فیملی میں بہت فرق ہے۔” I think you are the odd one out”.
وہ اپنے آخری جملے پر خود ہی مسکرا دیا۔وہ دونوں اب فرقان کی گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے۔
"میں نے صرف دو سال پہلے قرآن پاک حفظ کیا اور دو تین سال سے ہی میں odd one out ہوا ہوں۔پہلے میں اپنی فیملی سے بھی زیادہ مغرب زدہ تھا۔"اس نے فرقان کو بتایا۔
"دو سال پہلے قرآن پاک حفظ کیا۔امریکہ میں اپنی اسٹڈیز کے دوران ، مجھے یقین نہیں آ رہا۔"فرقان نے بےیقینی سے سر ہلایا۔
"کتنے عرصے میں کیا؟"
"تقریباً آٹھ ماہ میں۔"
فرقان کچھ دیر تک کچھ نہیں کہہ سکا ، وہ صرف اس کا چہرہ دیکھتا رہا ، پھر اس نے ایک گہرا سانس لے کر ستائشی نظروں سے اسے دیکھا۔
"تم پر اللہ کا کوئی خاص ہی کرم ہے ، ورنہ جو کچھ تم مجھے بتا رہے ہو یہ آسان کام نہیں ہے۔میں فلائٹ میں بھی تمہارے کارناموں سے کافی متاثر ہوا تھا ، کیونکہ جس عمر میں یونیسکو میں جس سیٹ پر تم کام کر رہے ہو ہر کوئی نہیں کر سکتا۔"
اس نے ایک بار پھر بڑی گرمجوشی کے ساتھ سالار سے ہاتھ ملایا۔چند لمحوں کے لئے سالار کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا۔
"اللہ کا خاص کرم! اگر میں اسے یہ بتا دوں کہ میں ساری زندگی کیا کرتا رہا ہوں تو یہ ۔۔۔۔۔"سالار نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے سوچا۔
"تم پرسوں کسی اسکول کی بات کر رہے تھے۔"سالار نے دانستہ طور پر موضوع بدلا۔
"تم اسلام آباد میں نہیں رہتے؟"
"نہیں ، میں اسلام آباد میں ہی رہتا ہوں مگر میرا ایک گاؤں ہے۔آبائی گاؤں ، وہاں ہماری کچھ زمین ہے ، ایک گھر بھی تھا۔"فرقان اسے تفصیل سے بتانے لگا۔"کئی سال پہلے میرے والدین اسلام آباد شفٹ ہو گئے تھے۔میرے والد نے فیڈرل سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں اپنی زمینوں پر ایک اسکول بنا لیا۔اس گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔انہوں نے پرائمری اسکول بنوایا تھا۔سات آٹھ سال سے میں اسے دیکھ رہا ہوں۔اب وہ سیکنڈری اسکول بن چکا ہے۔چار سال پہلے میں نے وہاں ایک ڈسپینسری بھی بنوائی۔تم اس ڈسپنسری کو دیکھ کر حیران رہ جاؤ گے۔بہت جدید سامان ہے اس میں۔میرے ایک دوست نے ایک ایمبولینس بھی گفٹ کی ہے اور اب صرف میرے گاؤں کے ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے بہت سارے گاؤں کے لوگ بھی اسکول اور ڈسپنسری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔"
سالار اس کی باتیں توجہ سے سن رہا تھا۔
"مگر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو۔تم ایک سرجن ہو ، تم یہ سب کیسے کر لیتے ہو اور اس کے لئے بہت پیسے کی ضرورت ہے۔"
"کیوں کر رہا ہوں ، یہ تو میں نے اپنے آپ سے کبھی نہیں پوچھا۔میرے گاؤں میں اتنی غربت تھی کہ یہ سوال پوچھنے کی مجھے کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ہم لوگ بچپن میں کبھی کبھار اپنے گاؤں جایا کرتے تھے۔یہ ہمارے لئے تفریح تھی۔ہماری حویلی کے علاوہ گاؤں کا کوئی مکان پکا نہیں تھا اور سڑک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہم سب کو یوں لگتا تھا جیسے ہم جنگل میں آ گئے ہیں ، اب اگر ہم جانور ہوتے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔شہر کی طرح ہم جنگل میں دندناتے پھرتے۔یہی سوچ کر کہ سب ، ہم سب سے مرعوب ہیں اور کوئی بھی ہمارے جیسا نہیں نہ کوئی ہماری طرح رہتا ہے ، نہ ہمارے جیسا کھاتا ہے ، نہ ہمارے جیسا پہنتا ہے مگر انسان ہو کر یہ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہمارے اردگرد کے انسان جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ہو سکتا ہے کچھ انسانوں کو اس سے خوشی محسوس ہوتی ہو کہ انہیں ہر نعمت میسر ہے اور باقی سب ترس رہے ہیں مگر ہمارا شمار ایسے لوگوں میں نہیں ہوتا تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کیا کیا جائے۔میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو تھی نہیں کہ میں اسے ہلاتا اور سب کچھ بدل دیتا ، نہ ہی بےشمار وسائل۔تمہیں میں نے بتایا ہے نا کہ میرے والد سول سرونٹ تھے ، ایمان دار قسم کے سول سرونٹ۔میں اور میرا بھائی دونوں شروع سے ہی اسکالرشپ پر پڑھتے رہے ، اس لئے ہم پر ہمارے والدین کو زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑا۔خود وہ بھی کوئی فضول خرچ نہیں تھے ، اس لئے تھوڑی بہت بچت ہوتی رہی۔ریٹائرمنٹ کے بعد میرے والد نے سوچا کہ لاہور یا اسلام آباد کے کسی گھر میں اخبار پڑھ کر ، واک کر کے یا ٹی وی دیکھ کر زندگی گزارنے کی بجائے ، انہیں اپنے گاؤں جانا چاہئیے۔وہاں کچھ بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔"
وہ دونوں گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔
"مشکلات کا تم اندازہ نہیں کر سکتے گاؤں میں نہ بجلی تھی ، نہ صاف پانی ، کچھ بھی نہیں تھا۔بابا نے پتا نہیں کہاں کہاں بھاگ کر یہ ساری چیزیں منظور کروائیں۔جب وہاں پرائمری اسکول بن گیا ، ایک سڑک بھی آ گئی ، بجلی اور پانی جیسی سہولتیں بھی آ گئیں تو گورنمنٹ کو اچانک وہاں ایک اسکول بنانے کا خیال آیا۔میرے والدین کی خوشی تھی کہ گورنمنٹ ان کے اسکول کو اپنی زیرنگرانی لے لے۔اس میں اپنے ٹیچرز بھجوائے اور کچھ عرصے کے بعد اس اسکول کو اپ گریڈ کر دے ، مگر محکمہ تعلیم کے ساتھ چند رابطوں میں ہی بابا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسا ہونے کی صورت میں ان کی ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔بابا وہاں بچوں کو سب کچھ دیتے تھے۔کتابیں ، کاپیاں ، یونیفارم اور ایسی کچھ ضروری چیزیں۔انہوں نے باقائدہ اس کے لئے فنڈز رکھے ہوئے تھے ، مگر تم اندازہ کر سکتے ہو کہ گورنمنٹ کے پاس چلے جانے کے بعد اس اسکول کا کیا حشر ہوتا۔سب سے پہلے وہ فنڈز جاتے پھر باقی سب کچھ۔اس لیے بابا خود ہی اس اسکول کو چلاتے رہے۔
محکمہء تعلیم نے وہاں اسکول پھر بھی کھولا مگر وہاں ایک بچہ بھی نہیں گیا پھر ہار مان کر انہوں نے وہ اسکول بند کر دیا اور ہمارے اسکول کو اپ گریڈ کر دیا۔بابا کے کچھ دوستوں نے اس سلسلے میں ان کی مدد کی ، اسی طرح اس کی اپ گریڈنگ ہوتی گئی۔میں ان دنوں لندن میں پڑھتا تھا اور میں روپے بچا بچا کر بھیجا کرتا تھا۔ابھی بھی ہم اس کو اور ترقی دے رہے ہیں ، آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی اپنے بچوں کو ہمارے پاس بھجواتے ہیں۔میں جب پاکستان واپس آیا تو میں نے وہاں ایک با ضابطہ قسم کی ڈسپنسری قائم کی۔گاؤں کی آبادی بھی اب بہت بڑھ گئی ہے لیکن گاؤں میں غربت ابھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔تعلیم سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ گاؤں کے کچھ بچے باہر شہر میں آگے پڑھنے کے لیے جانے لگے ہیں۔کچھ مختلف ہنر سیکھ رہے ہیں۔وہ جو غربت کا ایک چکر تھا وہ ختم ہو رہا ہے۔ان کی یہ نسلیں نہیں تو اگلی نسلیں شاید تمہارے اور میرے جیسے تعلیمی اداروں سے اعلیٰ ڈگریز لے کر نکلیں۔کون کہہ سکتا ہے۔"وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
"میں ہر ماہ ایک ویک اینڈ پر گاؤں جاتا ہوں ، وہاں دو کمپاؤنڈر ہیں مگر کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ایک ویک اینڈ پر میں وہاں جاتا ہوں ، باقی تین ویک اینڈز پر بھی ہم کسی نہ کسی کو وہاں بھجوا دیتے ہیں پھر میں وہاں ہر تین ماہ بعد ایک میڈیکل کیمپ لگواتا ہوں۔"
"اور اس سب کے لئے روپیہ کہاں سے آتا ہے؟"
"شروع میں تو یہ بابا کا روپیہ تھا۔ان ہی کی زمین پر اسکول بنا ، ان کی گریجویٹی سے اس کی تعمیر ہوئی۔میری امی نے بھی اپنے پاس موجود رقم سے ان کی مدد کی ، پھر بابا کے کچھ دوست بھی مالی امداد کرنے لگے۔اس کے بعد میں اور مہران بھی اس میں شامل ہو گئے پھر میرے کچھ دوست بھی۔میں اپنی انکم کا ایک خاص حصہ ہر ماہ گاؤں بھجوا دیتا ہوں۔اس سے ڈسپنسری بڑے آرام سے چلتی رہتی ہے ، جو ڈاکٹرز وہاں مہینے کے تین ویک اینڈز پر جاتے ہیں وہ کچھ چارج نہیں کرتے۔ان کے لیے یہ سوشل ورک ہے۔میڈیکل کیمپس بھی اسی طرح کے لگ جاتے ہیں اور اسکول کے پاس اب اتنے فکسڈ ڈیپازٹس ہو چکے ہیں کہ ان سے آنے والی رقم ٹیچرز کی تنخواہ اور دوسرے اخراجات کے لیے کافی ہوتی ہے۔ہم چند سالوں میں وہاں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لئے بھی کچھ کام کرنا چاہتے ہیں۔"
"تم کب جا رہے ہو وہاں؟"
"میں تو صبح نکل رہا ہوں۔"
"اگر میں تمہارے ساتھ جانا چاہوں؟"سالار نے کہا۔
"موسٹ ویلکم ۔۔۔۔۔مگر کل تو ولیمہ ہو گا ، تم یہاں مصروف ہو گے۔"فرقان نے اسے یاد دلایا۔
"ولیمہ تو رات کو ہے ، سارا دن تو میں فارغ ہی ہوں گا۔کیا رات تک پہنچنا مشکل ہو گا؟"
"نہیں ، بالکل بھی نہیں۔تم بہت آسانی سے پہنچ سکتے ہو۔صرف صبح کچھ جلدی نکلنا پڑے گا۔اگر تم واقعی وہاں چند گھنٹے گزارنا چاہتے ہو ، ورنہ پھر تم واپس آ کر خاصے تھک جاؤ گے۔"فرقان نے اس سے کہا۔
"میں نہیں تھکوں گا ، میں یونیسیف کی ٹیمز کے ساتھ کیسے کیسے علاقوں میں سفر کرتا رہا ہوں ، تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔میں فجر کے بعد تیار رہوں گا ، تم مجھے وقت بتا دو۔"
"ساڑھے پانچ۔"
"اوکے ، تم گھر سے نکلتے ہوئے مجھے ایک بار موبائل پر کال کر لینا اور دو تین بار ہارن دینا یہاں آ کر ، میں نکل آؤں گا۔"
اس نے فرقان سے کہا اور پھر خدا حافظ کہتا ہوا اندر مڑ گیا۔
اگلی صبح فرقان ٹھیک ساڑھے پانچ بجے اس کے گیٹ پر ہارن دے رہا تھا اور سالار پہلے ہی ہارن پر باہر تھا۔
"تم واپس پاکستان کیوں آ گئے؟تم انگلینڈ میں بہت آگے جا سکتے تھے؟"گاڑی شہر سے باہر والی سڑک پر بھاگ رہی تھی۔انہیں سفر کرتے آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا ، جب سالار سے اچانک اس نے پوچھا۔
"انگلینڈ کو میری ضرورت نہیں تھی ، پاکستان کو تھی ، اس لئے میں پاکستان آ گیا۔"فرقان نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
"وہاں ایک ڈاکٹر فرقان کے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہاں ایک ڈاکٹر فرقان کے نہ ہونے سے بہت فرق پڑ جاتا۔یہاں میری خدمات کی ضرورت ہے۔"اس نے آخری جملے پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"مگر وہاں اتنے سالوں میں تم بہت آگے جا سکتے تھے۔پھر پروفیشنلی بھی تم بہت کچھ سیکھتے۔فنانشیلی بھی تم اس پروجیکٹ کے لئے زیادہ روپیہ حاصل کر سکتے تھے ، جو تم نے شروع کیا ہوا ہے۔آفٹر آل ، پاکستان میں تم اتنے کامیاب نہیں ہو سکتے۔"سالار نے کہا۔
"اگر کامیابی سے تمہاری مراد پاؤنڈز کی تعداد اور سہولتوں سے ہے تو ہاں ، دونوں جگہوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن اگر تمہارا اشارہ علاج کی طرف ہے تو میں یہاں زیادہ لوگوں کو زندگی بانٹ رہا ہوں جو اطمینان ڈاکٹر اپنے صحت یاب ہونے والے مریض کو دیکھ کر حاصل کرتا ہے تم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔انگلینڈ اونکولوجسٹ سے بھرا ہوا ہے۔پاکستان میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔میں وہاں رہ کر پیسوں کا ڈھیر بھی یہاں بھجواتا رہتا تو کوئی فرق نہ پڑتا۔جہاں ایک فرد کی کمی ہوتی ہے وہاں اس فرد سے ہی وہ کمی پوری ہوتی ہے۔روپیہ یا دوسری کوئی چیز اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔میں بہت قانع ہوں سالار ! میری پوری فیملی بہت قانع ہے۔اگر میں نے کوئی چیز سیکھی ہے تو وہ سب سے پہلے میرے اپنے لوگوں کے کام آنی چاہئیے۔میں اپنے لوگوں کو مرتا چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی زندگی نہیں بچا سکتا۔پاکستان میں کچھ بھی صحیح نہیں ہے ، سب کچھ خراب ہے ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ، سہولتوں سے خالی ہاسپیٹلز اور حد سے زیادہ برا اور کرپٹ ہیلتھ سسٹم۔جس برائی اور خامی کا سوچو وہ یہاں ہے مگر میں اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا۔اگر میرے ہاتھ میں شفا ہے تو پھر سب سے پہلے یہ شفا میرے اپنے لوگوں کے حصے میں آنی چاہئیے۔"
سالار بہت دیر تک کچھ نہیں بول سکا۔گاڑی میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔
"تم نے مجھ سے تو یہ سوال پوچھ لیا کہ میں پاکستان کیوں آ گیا ، کیا اب میں تم سے یہ سوال پوچھوں کہ تم پاکستان کیوں نہیں آ جاتے؟ "فرقان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مسکراتے ہوئے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─