┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

ناول: لو_مان_لیا_ہم_نے
از: فاطمہ_خان 
قسط_نمبر_04

حورین جلدی جلدی تیار ہو رہی تھی آج یونیورسٹی میں اس کے پہلا دن تھا اس کے فون پر بار بار کال آ رہی تھی 
اس نے حجاب ٹھیک کر کے پین لگایا دوپٹا طریقے سے ڈال کر اس نے آئنے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا پرپل شاٹ شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہننے سلیقے سے حجاب کیے وہ بہت پاکیزہ لگ رہی تھی آگے بڑھ کر اس نے موبائل اٹھایا 
"کہا ہو تم ہم بس پہنچے والے ہیں تم بھی جلدی سے پہنچوں ہم یونی کے مین گیٹ پر تمہارا ویٹ کرئے گئے زیادہ لیٹ نہیں ہونا سمجھی "
"صبر سے بے صبری لڑکی نکل رہی ہوں میں بھی میرے گھر سے نزدیک ہی پڑتی ہے یونی " اس نے بیگ میں چیزیں چیک کی 
"ہاں ایسی لیے تو ہم نے بھی یہاں کی یونیورسٹی میں ایڈمشن لیا ہے تاکہ تم سے الگ نہ ہو جائے " 
"اچھا بند کروں فون آ رہی ہوں میں " 
حورین نے جلدی سے خدا خافظ کہ کر فون بند کیا اور بابا سے مل کر انہیں اپنا خیال رکھنے کا کہ کر باہر کو بھاگی 
ان کا گھر شہر کے اندرونی علاقے میں تھا وہاں ابادی نا ہونے کے برابر تھی راستہ بھی کافی سنسان تھا وہ آج پہلی بار اکیلے گھر سے باہر نکلی تھی ہمیشہ بابا ہی کے ساتھ آتی جاتی تھی ان کی خراب طبعیت کی وجہ سے اب وہ باہر نکلنے کے قابل نہیں تھے وہ اپنی بیٹی کو علا تعلیم دیلانا چاہتے تھے تاکہ ان کے بعد وہ کسی کی محتاج نا ہوں
ابھی وہ تھوڑا آگے ہی گئی تھی کے سامنے بلک مرسیڈیز کھڑی نظر آئی اس کے بونٹ پر ایک لڑکا بیھٹا ہوا تھا جس کی نظریں موبائل سکرین پر تھی حورین نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا 
وہ شخص کافی عجیب سے حولیے میں تھا 
بےرنگ سی ریڈ جینز کے ساتھ ریڈ ٹی شرٹ پہنے شرٹ کے آگے تین بٹن کھولے ہوئے تھے جس نے اس کی سونے کا چین باہر کو نکلا ہوا تھا ہاتھوں پر محتلف قسم کے ربڑ بینڈ پہنے ہوئے لمبے بال جس نے اس کے آدھے چہرے کو ڈھاپ رکھا تھا سر پر ہیٹ پہنی ہوئی تھی آنکھوں پر سٹائلش سن گلاسز لگائے ایک ہاتھ میں سگریٹ پکڑے دوسرے ہاتھ میں موبائل پکڑے دیکھ رہا تھا 
حورین نے اس کا حولیہ دیکھ کر دل ہی دل میں استغفار پڑھا 
آہٹ پر اس شخص نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا 
حجاب میں اس کا چہرہ بہت پر کشش لگ رہا تھا وہ یک تک اسے بےخودی سے دیکھتا رہا حورین کو اپنے چہرے پر اس کی نظروں کی تیپس محسوس ہوئی تو اس نے اور بھی جلدی سے قدم آگے کو بڑھائے اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا ہاتھ پاؤں کانپنے لگے 
"دل سے دلبر دلبر سے دلدار ہو گیا 
دھیرے دھیرے ہوتے ہوتے 
ہم کو پیار ہو گیا 
پہلی بار ہو گیا 
ہم کو پیار ہو گیا " 
اس شخص نے لوفرانا انداز میں گانا گانا شروع کیا 
حورین کے رہی سہی ہمت بھی جواب دینے لگی 
"او شہزادی آرام سے چل کہی گر ہی نہ جاؤ " 
اس نے بونٹ سے چھلانگ لگا کر کہا 
اب وہ چلاتا ہوا اس کے سامنے کھڑا ہو گیا 
حورین کو بھی روکنا پڑا اس نے ناگواری سے اس بےہودہ بندے کو دیکھا در سے اس کا دل بند ہو رہا تھا اس پاس نظر ڈالی کوئی بھی انسان نظر نہیں آ رہا تھا 
اس نے سائیڈ سے نکلنے کی کوشش کی وہ شخص اس کے سامنے آ گیا 
"اتنی جلدی بھی کیا ہے شہزادی کچھ ٹائم ہم غریبوں کو بھی دے دوں " 
اس نے خباست سے کہا 
"دیکھو مجھے جا... جانے... دوں " 
حورین نے روک روک کر اس شخص کو نظریں جھکا کر کہا اس میں ہمت نہیں تھی کہ اس شخص کو نظر اٹھا کر دیکھ سکے 
اس نے سگریٹ ہونٹوں سے لگایا پھر اس کا دھواں حورین کے منہ پر چھوڑا 
"چلی جانا شہزادی روکا کس نے ہے تجھے ابھی ایک نظر جی بھر کر تو دیکھنے دے مجھے اپنا اتنا خوبصورت چہرہ "
اس نے قہقہہ لگا کر اس کے چہرے کو نظروں کے فوکس میں رکھ کر کہا 
حورین سے مزید روکنا محال ہو رہا تھا اس نے ہمت کر کے اسے دھکا دیا وہ اس حملے کو تیار نہیں تھا ایک قدم لڑکھڑایا حورین نے ڈور لگائی وہ ڈور رہی تھی پوری سپیڈ کے ساتھ پیچھے کھڑے شخص نے لوفرانا انداز میں اس کا دور تک پیچھا کیا 
                     ....................
 "کیا ہوا ہے حور تمہاری سانس کیوں پھولی ہوئی ہے " 
زرشالہ نے فکرمندی سے پوچھا
اس نے ایک نظر دنوں کو دیکھا جو اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی اس نے ہنس کر انہیں دیکھا وہ اپنی وجہ سے اپنی دوستوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی 
"کچھ نہیں پانی دوں مجھے خود ہی تو کہ رہی تھی جلدی پہنچوں اب جلدی پہنچنے کے لیے بھاگ کر تو انا ہی تھا نا "
اس نے پیھکی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر انہیں تسلی دی 
"توبہ ہے حور میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اپنے اگلے پچھلے سارے حساب آج ہی جلدی آکر پورے کر لوں اتنا بھاگ کر آنے کی کیا ضرورت تھی تم بھی نہ پاگل ہو پوری "
زرشالہ نے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھا کر ڈانٹا 
"ہاں ہاں لیٹ ہونے کی صورت میں اس وقت تم مجھے اچھے اچھے الفاظوں سے نواز رہی ہوتی " 
اس نے ایک ہی سانس میں پانی پی کر جواب دیا 
"چلو اب تم دنوں باقی کے مزاکرات بعد میں کر لینا ابھی جا کر کلاس کا پتا کرے پہلے ہی دن لیٹ ہوئے اچھا نہیں لگے گا "
روما نے فکرمندی سے کہا
"ہاں چلو کہی تم نادیدی سے کلاس مس ہی نا ہو جائے " 
تینوں نے چہرے کے گرد اچھے سے حجاب لے رکھا تھا چہرے پر کسی قسم کا مک اپ نہیں کیا تھا بس سن بلاک لگایا تھا تینوں نے سن گلاسز آنکھوں پر لگائی اور اپنے ڈیپاٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی 
حورین کا دل ابھی بھی زور زور سے دھڑک رہا تھا اسے سوچ سوچ کر پریشانی ہو رہی تھی وہ ان دنوں کی باتوں پر صرف سر ہلا کر بے دھیانی سے جواب دے رہی تھی وہ دنوں بھی ڈیپارٹمنٹ دیکھنے کے چکر میں اس کی بے دھیانی نوٹ نہیں کر سکی 
                        .................
"تم لوگوں کو پتا ہے مینجمنٹ سائنسز کے ڈیپارٹمنٹ میں ایک بندہ ہے جو ہاتھ دیکھ کر بتا دیتا ہے آنے والے وقت کا پوری یونیورسٹی میں اس بندے کی دھوم مچی ہوئی ہے "
رانیہ اور افشاں نے سر اٹھا کر اپنی کلاس فیلو صبا کو دیکھا جو ابھی ابھی یونیورسٹی کا ایک راؤنڈ لگا کر آئی تھی وہ اپنے ڈیپاٹمنٹ سے زیادہ دوسرے ڈیپارٹمنٹس میں پائی جاتی تھی 
اس وقت رانیہ افشاں کلاس لے کر باہر لان میں آ کر بیٹھی ہوئی تھی صبا نے پاس آ کر انہیں یونی کی تازی تازی خبر سے آگاہ کیا 
"اچھا تم گئی وہاں دیکھا آئی اپنا ہاتھ "
رانیہ نے تجسس سے پوچھا 
"نہیں یار کہاں گئی ابھی میں سوچا تم دنوں کو بھی ساتھ لیتی جاؤ اکیلے خاک مزا آئے گا وہاں جا کر " 
اس نے بیگ سائیڈ پر رکھ کر ان کے قریب ہی بیٹھ کر کہا 
"واہ یہ تو کمال ہو گیا ہماری صبا صاحبہ اکیلی نہیں گئی ویسے تو پورا دن مٹر گشت کرتے ہوئے تم بور نہیں ہوئی اج ہمارا خیال کیسے آ گیا "
افشاں نے طنزیہ انداز میں کہا
"بس یار آج سوچا تم دونوں کو بھی یونی کا چکر لگا دوں کیا یاد رکھوں گئی کس سخی سے واسطہ پڑا ہے تمہارا "
اس نے مسنوئی کالر جھٹک کر کہا 
" کہ تو ایسے رہی ہوں جیسے کیفے لے جا رہی ہوں وہ بھی اپنے خرچے پر "
افشاں نے اس کی بات کا مذاق اڑایا
"تم لوگ چل رہے ہوں تو چلو نہیں تو بیٹھی رہوں یہی میری بلا سے " 
صبا سے برداشت نہیں ہوا اٹھ کر جانے لگی وہ دنوں بھی آٹھ کر اس کے ساتھ چلنے لگی ابھی وہاں پہنچے ہی تھے کہ افشاں کو شارق ولید اور بہروز کا خیال آیا کہ اگر ان میں سے کسی نے انہیں دیکھ لیا تو داجی کو شکایت کر دے گے 
"اچھا سنو صباہم یہی سائیڈ پر کھڑے ہو کر تمہارا انتظار کرتے ہیں تم اپنا ہاتھ دیکھا آؤ "
افشاں نے کچھ سوچ کر اسے مخاطب کیا 
"کیوں تم دنوں نہیں جاؤ گے "
"نہیں یار ہم یہی تمہارا انتظار کرے گے تم جاؤ "
"ٹھیک ہے جاتی ہوں میں کیا نام بتایا تھا ہاں شارق نام ہے اس بندے کا اب تم دنوں یہی روکو میں زرا اسے ڈھونڈ لوں" 
شارق کا نام سنتے ہی دنوں کے کان کھڑے ہو گئے 
"روکو صبا ابھی ابھی تم نے جو نام لیا پھر سے لینا "
رانیہ نے اسے روک کر کہا
"شارق نام بتایا تھا مجھے میری دوست نے اس کے ساتھ دو اور لڑکے ہیں سنا ہے بھائی ہے آپس میں خیر تم لوگ کیوں پوچھ رہی ہوں " 
صبا نے دنوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ کر پوچھا 
"بس تم ہمارا ایک کام کر دوں "
افشاں نے نزدیک آ کر راز داری سے کہا 
صبا نے ان دونوں کی بات سن کر حیرانی سے باری باری دونوں کو دیکھا 
"بدلے میں مجھے کیا ملے گا "
اس نے لال انداز میں کہا 
"دو دن کا لنچ ہماری طرف سے " 
رانیہ نے بھی اسے لالچ دی 
صبا کو اور کیا چاہیے تھا فوراً سے اس کی اتنی مان لی افشاں اور رانیہ نے یک دوسرے کو دیکھ کر آنکھ ماری اب کی بار وہ ان لڑکوں کی بینڈ بجانے والی تھی 
                ............................
"یہ سب کیا ہے برخوردار " 
"دا ج...جی یہ ۔۔۔سب مجھے نہیں پتہ یہ ہمارے خلاف سازش کی گئی ہے ہمارے دشمنوں نے "
شارق نے شاکی نظروں سے سامنے کھڑے تماشائیوں کو دیکھا جو بہت مشکل سے اپنی ہنسی کو کنٹرول کر رہے تھے غصّے سے ان سب کو گھورا 
"کون سے دشمن کہاں کے دشمن شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے تم سب کے لیے یہ سب کرنے کے لیے تم یونیورسٹی جاتے ہو تاکہ اپنے باپ دادا کا نام روشن کر سکوں بے شرموں تم جیسی اولاد سے تو اچھا تھا میری اولاد کی اولاد ہی نہ ہوتی "
داجی غصے سے بےقابو ہو رہے تھے 
"اللّٰہ نہ کرے صمد کے آبا کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ بلا جوان بچوں سے کوئی ایسے کہتا ہے " 
ان کی اتنی سخت بات سن کر دادو کا دل خول اٹھا وہ بھی میدان میں اتار آئی 
"ہاں ہاں یہ جو چاہے کرتے پھریں ہم بس ان کی لمبی زندانی کی دعا مانگتے رہے اور یہ وہاں جا کرہمارا نام روشن کرتے رہے "
داجی کا غصہ آج کسی طور کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا وہ سب اس وقت داجی کے لاؤنچ میں کھڑے تھے داجی ادھر سے ادھر چکر لگا رہے تھے 
"ہوا کچھ یوں تھا کہ رانیہ اور افشاں نے شارق ولید اور بہروز کی خوفیہ ویڈیو بنا دی تھی جس میں وہ صبا کا ہاتھ دیکھ کر ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا یہی نہیں اس نے آخر میں صباسے اس کا نمبر بھی مانگا کیوں کہ اس کی ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ الجھن تھی جو شارق صاحب گھر جا کر مزید ریسرچ کر کے صبا کو بتانے والا تھا اور صبا صاحبہ نے غلط نمبر دے کر اپنی جان چھڑائی اب آگے یہ ہوا کہ صبا نے افشاں کے کہنے پر وہ ویڈیو افشاں اور رانیہ کو فیس بک پر ٹیگ کر دیا زرشالہ نے دیکھا تو فوراً سے پیشتر داجی کی خدمت میں وہ ویڈیو پیش کی گئی پھر آگے جو ہوا وہ شارق کے لیے بہت بڑا شاک تھا 
"داجی میرا یقین کیجیے یہ لڑکی خود میرے پاس آئی تھی میں نے تو اسے دعوت دے کر نہیں بولایا تھا "
شارق نے روہنسی ہو کر اپنی صفائی پیش کی
"شاباش میرے بچے تمہاری تو کوئی غلطی نہیں غلطی تو ساری ہماری ہے جو تم جیسے نافرمان اولاد کے داجی بن گئے ہیں"
داجی نے عینک کے نیچے سے گھور کر دیکھا 
"وہی تو داجی اللّٰہ ایسی نافرمان اولاد کسی کافر کو بھی نہ دے ضرور آپ کی کیسی غلطی کی سزا ہے آج ہی اللّٰہ سے معافی مانگ لے اللّٰہ آپ کے گناہ معاف فرمائے آمین"
بہرور کی زبان کو بریک داجی کے پاؤں پر پڑی جوتی کھانے سے لگی وہ بلبلا کر رہ گیا 
"بے غیرتوں اپنے داجی کو گناہ گار کہ رہے ہوں یہ دن دیکھنے کے لیے تم سب کو پالا پوسا تھا میں نے ڈوب مرنے کا مقام ہے تم سب کے لیے "
داجی نے اٹھ کر بہروز کو کان سے پکڑ کر غصے سے گھورا بچارہ درد سے بلبلا اٹھا 
"داجی قسم لے لیجیے میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا مجھے آپ کی قسم میں سچ کہ رہے ہوں"
بہرور نے روانی سے جواب دیا 
"دیکھ رہی ہوں نیک بخت تمہارے پوتے اب میری جھوٹی قسمیں کھا رہے ہیں تاکہ میں جلدی سے مر گپ جاؤ"
داجی نے بہرور کو کان سے پکڑ کر دادو کے سامنے کھڑا کیا 
بہروز اپنے کان کو چھوڑنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا 
"بس بھی کریں اب آپ بچے ہیں غلطی ہو گئی ہے معاف بھی کر دے"
دادو نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا وہ بھی روز روز کی دادا پوتوں کی نوک جھوک سے سخت عاجز آ گئی تھی ہر وقت گھر میں داجی کا شور گونجتا رہتا تھا
"انہوں نے اپنی غلطی مانی ہی کب ہے الٹا مجھے کہ رہا ہے یہ بغیرت کے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگ لوں اللّٰہ سے "
"ہاں تو کیا غلط کہ رہا ہے اس عمر میں اللّٰہ سے معافی ہی مانگی جاتی ہے ناں کہ بچوں کے ساتھ بچہ بن کر ان سے مقابلہ بازی کی جائے"
دادو بھی آج بھری بیٹھی تھی فٹ سے جواب دیا داجی منہ بسور کر بہروز کا کان چھوڑ کر جانے لگے یہ ان کی ناراضگی کی علامت تھی 
"چلو تم سب بھی یہاں سے چلتے بنو کم بختوں تم لوگ کی وجہ سے تمہارے داجی مجھ سے ناراض ہو کر چلے گئے ہوں آئندہ خبردار جو کوئی ایسی حرکت کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا 
بہروز اور شارق نے سکون کا سانس لیا آج دادو نہ ہوتی تو ان کی مار پکی تھی 
"شکریہ دادو آج آپ نے ہمیں اپنے مجازی خدا سے بال بال بچا لیا اور تم دونوں تو شکل گم کروں اپنی یہ ساری کارستانی تم لوگوں کی ہی ہے اب ہم سے بچ کر رہنا اس کا بدلہ ایسے لوں گا تم لوگ بھی یاد رکھوں گے"
شارق نے دادو کے گال پر پیار کیا پھر افشاں اور رانیہ کو غصے سے گھورا 
"بہت ایے بدلہ لینے والے ہاہاہا "
وہوہ دونوں اسے زبان نکال کر ہنستی ہوئی چلی گئی شارق وہی جلتا رہ گیا 
                 .
جاری ہے.........