┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

عشق! چڑیل کا (دوسرا اور آخری حصہ)

    تحفہ دیکھ کر سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی، غار میں ایک سناٹا طاری ہوگیا۔۔تحفہ واقعی خاص تھا۔۔تحفہ تھا "ہاتھی کے دو دانت"۔۔۔۔ دلہن کی ماں غمارن چڑیل اپنی بتیسی نکالتے ہوئے بولی۔۔"ارے! اتنا قیمتی تحفہ دینے کی کیا ضرورت تھی"۔۔۔
"ارے! کیوں ضرورت نہیں تھی۔۔آخر ہمارا اکلوتا بھوت بیٹا ہے۔۔سارے ارمان پورے کرونگی "۔۔۔ 
 "ہاں ہاں ضرور ارمان پورے کریں۔۔۔اور ہم نے بھی دلہا اور دلہن کو فاگا پہاڑی پر بنا غار تحفے میں دیا ہے"۔۔۔غمارن بھی فخر سے بولی۔۔۔
"واقعی! " وہ بھی اپنی بتیسی نکالتے ہوئے بولی۔۔۔
کافی دیر تک شادی کی رسومات جاری رہیں۔۔۔پھر تھوڑی دیر میں کھانا لگا دیا گیا۔۔کھانے کو دیکھ کر شمرتی بولی۔۔"نانی آج تو میں بندر کی بھنی ہوئی ران خوب کھاؤنگی۔۔بڑے دن ہوئے بندر کا لذیز گوشت کھائے ہوئے۔۔" "ہاں ہاں جو تیرا دل چاہے وہ کھا، تجھے کوئی روکے گا تھوڑی۔۔۔ اور پھر شمرتی کھانوں پر ٹوٹ پڑی۔۔جبکہ نانی بھنا ہوا کوا لے کر ایک سائیڈ پر بیٹھ کر کھانے لگی۔۔۔
شادی کی تقریب اختتام پزیر ہوئی تو کوکو چڑیل شمرتی کو لے کر دلہن کے ابا کے پاس آئیں اور بولی۔۔۔
"سمارتا! مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے" ۔۔
 "ہاں ہاں کرئیں کوکو نانی"۔۔۔وہ بولی۔۔"دراصل شمرتی کو اپنے ابا اور امی بہت یاد آرہے ہیں، تم تو شادی سے فارغ ہونے کے بعد انسانوں کی بستی واپس چلے جاؤ گی۔۔مہربانی ہوگی اگر شمرتی کو بھی ساتھ لے جائیں"
"ارے! نانی اس میں مہربانی کی کیا بات ہے یہ بھی میری چڑیل بیٹیوں جیسی ہے۔۔میں پرسوں انسانی بستی جارہا ہوں۔۔اسے بھی ساتھ لے جاؤنگا"۔۔۔
"سچ" شمرتی بچوں کی طرح تالیاں بجاتے ہوئے خوش ہوتے ہوئے بولی۔۔۔اور پھر وہ خوشی خوشی واپس اپنے غار آگئے۔۔۔
                  *********************
    کریم صاحب نے اپنی بیگم زبیدہ کو بول تو دیا تھا کہ یہ سب تمھارا وہم ہے۔۔۔پر اندر سے وہ بھی ڈرے ہوئے تھے۔۔کیونکہ اکثر و بیشتر ایسے واقعات انھوں نے سن اور پڑھ رکھے تھے۔۔بہرحال یہ سچ ہے یا جھوٹ، پر وہ پرشان ضرور ہوگئے تھے۔۔پھر انھوں نے اس سلسلے میں اپنے ایک دوست ندیم کو فون کیا۔۔۔
ندیم صاحب نے ان کی بات غور سے سنی اور پھر انھوں نے کریم صاحب سے کہا۔۔"یار! تم پریشان نہ ہو، میں ایک ایسے عامل کو جانتا ہوں جو جن بھوت گھروں سے بھگاتا ہے"
"ٹھیک ہے۔۔میں بس فوراً تمھارے پاس پہنچتا ہوں "
یہ کہہ کر انھوں نے فون بند کردیا۔۔۔۔
        **********************************
آخر وہ دن آگیا جب شمرتی اپنے ماں باپ سے ملنے انسانوں کی بستی جارہی تھی۔۔غار کے باہر سمارتا اس کا انتظار کررہا تھا۔۔"شمرتی روتے ہوئے اپنی نانی سے بولی۔۔
"نانی! میرا من تو نہیں کررہا ہے کہ آپ کو یوں اکیلا چھوڑ کر جاؤں۔۔پر کیا کروں اماں اور ابا کی بھی یاد چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی ہے"
"ارے! شمرتی تو پریشان کیوں ہورہی ہے۔۔یہاں میری دیکھ بھال کرنے والے سب ہی بھوت اور چڑیلیں ہیں۔۔بس اتنا خیال رکھنا کہ وہاں جاکر اس بوڑھی نانی کو بھول نہیں جانا"
"ارے نانی! آپ تو میری جانی ہیں۔۔بھلا آپ کو کیسے بھول سکتی ہوں"
"بھئی شمرتی دیر ہورہی ہے، جلدی آؤ" سمارتا باہر سے چیختا ہوا بولا۔۔۔
"آرہی ہوں" شمرتی بولی۔۔
پھر وہ اپنی نانی سے بولی۔۔"اچھا نانی میں جارہی ہوں اپنا خیال رکھنا۔۔۔" یہ کہہ کر وہ غار سے باہر آئی۔۔اور سمارتا کے ساتھ ایک سمت کی طرف چلدی۔۔
غار کے دھانے سے نانی اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔تھوڑی دیر میں وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔۔نانی اپنے آنسو پونچھتے ہوئے غار کے اندر چلی گئی۔۔۔
              ****************************
   کریم صاحب اپنے دوست ندیم کے ساتھ اس عامل کے آستانے پہنچے۔۔۔وہاں کافی سارے لوگ آئے ہوئے تھے۔۔وہ اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔۔۔ابھی تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ اچانک ایک خاتون ہاتھ میں مائیک تھامے اپنے کیمرہ مین کے ساتھ آستانے میں داخل ہوئی اس کے ساتھ پولیس والے بھی تھے۔۔وہ آتے ہی بولی۔۔
" یہ دیکھیں ناظرین! یہ جعلی عامل کیسا معصوم لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے" 
 عامل بولا : "یہ کیا کہہ رہی ہو بی بی؟ ہوش میں تو ہو تم۔۔مجھے جعلی عامل کہہ رہی ہوں"
"ہاں میرے پاس آپ کی ویڈیو ہے۔۔ہم نے کچھ دیر پہلے اپنے ایک ساتھی کو مریض بنا کر آپ کے پاس بھیجا تھا۔۔یہ دیکھیں ویڈیو"
اس ویڈیو میں اس کی اصلیت صاف پتہ چل گئی تھی۔۔پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔۔
کریم صاحب ندیم سے بولے:
" اب بھلا کس پر اعتبار کرئیں۔۔یہاں تو ہر کوئی لوٹنے کے لئے بیٹھا ہوا ہے"۔۔ندیم صاحب بولے: ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔اور پھر وہ اپنے گھر آگئے۔۔
                      ****************
سمارتا، شمرتی کو لے کر انسانوں کی بستی میں آیا۔۔پھر وہ اسے لے کر کریم صاحب کے گھر میں داخل ہوا جہاں اس کے ماں اور باپ آباد تھے۔۔دونوں نے جب شمرتی کو دیکھا تو ان کی خوشی کا کئی ٹھکانہ نہ رہا۔۔"شمرتی تم!" اس کی ماں بولی۔۔اس کا باپ اسے سینے سے لگاتے ہوئے بولی۔۔"میری چڑیل! میں تو ترس گیا تھا تجھے دیکھنے کے لئے"۔۔۔کافی دیر تک ان میں باتیں ہوتی رہی۔۔پھر انھوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔"یہ تمھارا کمرہ ہے۔۔یہاں آرام سے رہو ہم برابر والے کمرے میں جارہے ہیں۔۔یہ کہہ کر وہ دوسرے کمرے کی طرف چل دئے۔۔جب کہ شمرتی اس کمرے میں داخل کمرے کا جائیزہ لینے لگی۔۔۔ابھی تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا۔۔اور عامر کمرے میں داخل ہوا۔۔عامر کو اس نے دیکھا تو اسے دیکھتی رہی۔۔اسے ایسا لگا کہ جیسے وہ ہی اس کے خوابوں راجہ ہو۔۔اسے عامر کو ایک نظر دیکھتے ہی اس سے عشق ہوگیا تھا۔۔۔
شمرتی، عامر کے عشق میں اتنی پاگل ہوگئی تھی کہ وہ اس کے جسم میں داخل ہوگئی ۔جس کی وجہ سے عامر ایسا بدحواس ہوا کہ عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگا۔۔۔زبیدہ اپنے شوہر سے بولی۔۔
" دیکھا آپ نے؟ میں کب سے کہہ رہی تھی کہ کچھ کرئیں کسی عامل کو بلائیں، پر نہیں،میری تو سننی نہیں۔۔اب بھگتو۔۔بیٹے کو برے اثرات نے آج اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔۔۔
وہ بولے: " بیگم! تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔پر میں نے ایک عامل سے رابطہ کیا تھا مگر وہ جعلی نکلا۔۔اس مقدس پیشے کو بھی لوگوں نے نہیں چھوڑا۔۔جس کو جو موقع مل رہا ہے لوٹ رہا ہے، دین کے نام پر بھی لوگوں کو لوٹا جارہا ہے۔۔لیکن یہ ہماری ہی کوہتایاں ہیں۔۔ہم غیروں کی اندھی تقلیدوں میں اپنے دین سے دور ہوتے جارہے ہیں۔۔اسی وجہ سے ہم مصیبتوں میں گرتے جارہے ہیt:پر ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔۔آؤ ہم اللہ سے توبہ کرئیں اور اس کی طرف لوٹ چلیں۔۔آج سے ہم سب نماز کی باقاعدگی سے ادا کرئیں گے۔۔اور روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرئیں گے۔۔پھر دیکھو۔۔کس طرح ہم مصیبتوں سے نکلتے ہیں۔۔شمرتی کے باپ نے جب یہ سنا تو وہ فوراً شمرتی سے بول: "تم نے یہ کیا کردیا۔۔ہماری بستی میں بھوتوں کی کمی تھی کیا؟ جو اس کے عشق میں پاگل ہوکر ہمیں دربدر کررہی ہو"۔۔۔
اس کی چڑیل بیوی بولی۔۔"کیوں۔۔کیا ہوا؟ 
وہ بولا: "ارے شمرتی نے اس نوجوان کو قابو میں کرلیا ہے اب اس کے والدین ایسا عمل کرنے جارہے ہیں کہ ہم زندہ نہیں بچے گے اب اس گھر میں نمازیں اور تلاوتیں ہوگی۔۔ہمیں فوراً یہاں سے جانا ہوگا۔"
 شمرتی بولی: "لیکن میں اس نوجوان کو ایک شرط پر چھوڑونگی۔۔۔  
  :"وہ کیا؟" اس کے باپ نے پوچھا۔۔
"وہ یہ کہ ہم واپس اپنی بستی میں جاکر اپنوں میں رہیں گے۔۔" 
"مجھے منظور ہے" وہ بولا۔پھر شمرتی نے عامر کو اپنے قبضے سے آزاد کردیا۔۔اور اپنے ماں باپ کے ساتھ واپس اپنی بستی ہولی۔۔
 ادھر کریم صاحب کی باتیں رنگ لائیں۔۔کرن صحن میں لگے بیسن پر وضو کرنے چلی گئی۔۔جبکہ زبیدہ پہلے ہی سے وضو کرکے تلاوت کے لئےمچان کے اوپر سے قرآن پاک اتار کر اس کے زلدان پر سے گرد صاف کرنے لگی۔۔جو نہ جانے کب سے اس پر جمی ہوئی تھی۔ 
 (ختم شد) 
************
  ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─