┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

عشق ! چڑیل کا 
 (پہلا حصہ) 

دن کی روشنی مدھم ہوچکی تھی رات کی تاریکی نے اپنا ڈیرہ جمانا شروع کردیا تھا۔۔دن مکمل طور پر ڈھل چکا تھا اب اندھیرے کا راج تھا۔۔اس بستی میں چاروں طرف صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔۔اس بستی میں ہر طرف غار ہی غار تھے، یہ کوئی عام بستی نہیں تھی بلکہ اس بستی میں چڑیلوں اور بھوتوں کا بسیرا تھا۔۔یہ مخلوق وہاں موجود غاروں میں آباد تھی ۔۔۔دن ان کے لئے آرام کا وقت ہوتا ۔۔دن کے وقت ان کے سونے کا وقت تھا۔۔جبکہ رات ان کے اٹھنے کا ۔۔۔رات کے ہوتے ہی وہ سب بیدار ہوئے۔۔۔وہ غار جو تھوڑی دیر پہلے شہر خاموشاں کا منظر پیش کررہا تھا۔۔اب ان غاروں میں روشنی پھیلنا شروع ہوگئی تھی ۔۔ان مخلوقوں نے آگ جلا کر اپنے غار روشن کرلئے تھے۔۔اس غار میں بھی مدہم سی روشنی جل رہی تھی۔پاس ہی ایک گیڈر موجود تھا جو وقفے وقفے سے آوازیں نکال رہا تھا۔۔ وقفے وقفے سے چیل کے چیخنے کی بھی آواز فضا میں گونج رہی تھی ۔۔۔فضا میں جیسے ایک وحشت سی پھیلی ہوئی تھی۔۔وہ غار شُمرتی نامی ایک چڑیل کا تھا جو اپنی نانی کوکو چڑیل کے ساتھ رہتی تھی۔۔۔شُمرتی نیند سے بیدار ہوئی اور ایک لمبی جمائی لی۔۔پھر وہ اپنی نانی کوکو چڑیل کو اٹھاتے ہوئے بولی۔۔اٹھ جائیں نانی، رات ہوگئی ہے ۔۔۔کوکو چڑیل نے درخت کی چھال جو اس نے اوڑھ رکھی تھی اس میں سے اپنا منھ نکالتے ہوئے بولی ۔۔"ارے اٹھ رہی ہوں، ایک تو دن اتنی جلدی گزر جاتا ہے کہ نیند ہی پوری نہیں ہوتی ۔۔۔" یہ کہہ کر چھال اس نے ایک طرف کی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔شُمرتی گھر میں بنے چھوٹے سے حوض کہ پاس گئی جس میں صاف اور شفاف پانی بھرا ہوا تھا۔۔وہ اس میں اپنا چہرہ دیکھ کر بالوں کو الجھا کر اپنا حلیہ درست کرنے لگی اچانک اس کی نظر اپنے دانتوں پر گئی ۔۔پھر وہ کوکو چڑیل سے بولی۔۔"اف! نانی، میرےاتنے اچھے پیلے دانت تھے نہ جانے کیسے سفید ہوگئے ہیں، کوئی ٹوٹکہ تو بتائیں پیلے ہونے کا۔؟"۔۔۔اس کی نانی بولی۔۔"ہاں! دیکھ رہی ہوں تم اپنا بلکل بھی خیال نہیں رکھتی بال بھی تم اپنے دیکھو کتنے سلکی ہوگئے ہیں جبکہ روکھے روکھے اجاڑ بالوں میں تم کتنی بدصورت لگتی تھی، تمھاری ساری بدصورتی ختم ہوتی جارہی ہے۔۔تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی؟۔۔ اگر اسی طرح رہی تو تمھارے لئے کوئی ڈھنگ کے بھوت کا رشتہ بھی نہیں آئے گا، ارے ایک ہماری جوانی تھی۔۔میں تو اتنی بدصورت تھی کہ بستی کے سارے بھوت میری بدصورتی پہ مرتے تھے۔۔تمھارے نانا تو میرے عشق میں اتنے پاگل ہوگئے تھے کہ ہماری غار کے سامنے والے درخت پر الٹا لٹکے رہتے تھے، میری ایک جھلک دیکھنے کے لئے۔۔" "ہائے! سچ نانی۔۔۔نانا کتنے اچھے لگتے ہونگے درخت پہ الٹا لٹکے۔۔اچھا نانی آپ بھی نانا کو پسند کرتی تھی؟ شُمرتی نے پوچھا۔۔۔ کوکو چڑیل بولی۔۔"تو اور کیا۔۔مجھے تو تمھارے نانا سے عشق ہوگیا تھا" "ہائے! نانی۔۔نہ جانے وہ کون ہوگا جس سے مجھے عشق ہوجائے گا۔۔" یہ کہہ کر وہ پانی میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے اپنی ہاتھوں کی انگلیوں سے آہستہ آہستہ اپنے بالوں کو بکھیرنے لگی۔۔۔
                        *******************
                ناشتے کی ٹیبل سجی ہوئی تھی۔۔کریم صاحب اپنی بیگم زبیدہ اور بیٹی کرن کے ساتھ ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔۔۔ناشتہ کرتے ہوئے وہ اپنی بیگم زبیدہ سے مخاطب ہوئے۔۔"زبیدہ ! یہ عامر کہاں رہ گیا ہے؟ اس نے ناشتہ نہیں کرنا کیا۔۔؟ اس سے پہلے کہ زبیدہ بولتی ان کی بیٹی کرن بولی "ابو وہ تو ابھی تک سو رہا ہے۔۔رات رات بھر موبائیل پر لگا رہتا ہے، دن کو سوتا رہتا ہے" کریم صاحب بولے۔۔۔ "ایک تو میں اس نکھٹو سے بہت تنگ ہوں نہ نماز کا نہ روزے کا، کیا ہوگا اس کا۔۔تعلیم بھی کتنی مشکلوں سے پوری کی ہے ۔۔اب یہ کہ نوکری ڈھونڈے ہر وقت گھر پر پڑا رہتا ہے۔۔اور آوارہ لڑکوں کی طرح رات میں نکل جاتا ہے۔۔اور دن بھر چارپائی توڑتا رہتا ہے۔۔انسانوں والی تو کوئی حرکت ہی نہیں ہے۔۔ارے راتوں کو تو الو اور جن بھوت وغیرہ جاگتے ہیں" ۔۔۔ناشتہ کرتے ہوئےاچانک زبیدہ بیگم کا ہاتھ رکا۔۔ وہ بولی: "جن بھوت سے یاد آیا کچھ دن سے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی جن بھوت ہیں اس گھر میں۔۔سامان رکھتی کہی اور ہوں اور صبح اٹھ کر دیکھتی ہوں کہی اور رکھا ہوتا ہے۔۔" کریم صاحب بولے۔۔"ہاں جس گھر میں نماز نہ پڑھی جاتی ہو، قرآن نہ کھول کر پڑھا جاتا ہو وہاں جن بھوت ہی آئینگے۔۔" ‌‌‎"‎‏وہ تو ٹھیک ہے پر کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گاـ زبیدہ بولی ـ "یہ بھی ہوسکتا ہے یہ تمھارا وہم ہو؟۔۔۔ کریم صاحب بولے۔۔اسی دوران عامر کو ناشتے کی میز پر آتا دیکھ کر کریم صاحب بولے۔۔" لو! ایک بھوت یہ بھی آگیا'۔۔ عامر ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہوئے بولا"ارے ناشتہ لگ گیا!!" کریم صاحب بولے: "ہاں! اور اب تمھیں چماٹ لگنے والا ہے" عامر فوراً اپنے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا: "میں نے کیا کیا ہے ابو؟"۔۔ "کیا کیا ہے! تم اپنا حلیہ تو دیکھو، کتنے دن سے شیو نہیں بنائی؟ اور مجھے لگتا ہے کہ یہ نہاتا بھی عید کے عید ہوگا"۔۔۔" نہیں ابو! اب ایسی بھی بات نہیں ہے، ابھی دس دن پہلے ہی تو نہایا تھا" وہ معصومیت سے بولا۔۔ "ارے صفائ نصف ایمان ہے۔۔جو صفائی کا خیال نہیں رکھتے پھر وہ برے اثرات میں آجاتے ہیں" کریم صاحب اسے سمجھاتے ہوئے بولے۔۔اسی دوران کوئی سنسناتی ہوئی چیز ان کے پاس سے گزری جسے سن کر سب حیرت سے ایک دوسرے کا منھ دیکھتے رہے۔۔
                  ****************************

                  شمرتی شمرتی، ارے کہاں ہو؟ کوکو چڑیل غار سے نکل کر اسے آوازیں دیتے ہوئے بولی۔۔"میں یہاں ہوں"۔۔۔۔ شمرتی ایک پہاڑی کی اوٹ سے نکلتی ہوئی بولی۔۔"ارے وہاں کیا کررہی ہے؟ کوکو چڑیل نے پوچھا۔۔ "نانی میں اپنے گیڈر کے ساتھ کھیل رہی تھی" وہ غار میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔۔"اچھا جلدی سے تیار ہوجاؤ شادی میں نہیں جانا؟"۔۔۔۔ کوکو چڑیل بولی۔۔"ارے! میں تو بھول ہی گئی تھی۔۔کہ آج غمارن چڑیل کی بیٹی شنما کی شادی ہے۔۔" وہ اپنے ماتھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔۔"ویسے نانی تحفے میں کیا دینا ہے؟" اس نے پوچھا کوکو چڑیل بولی۔۔"کیا دینا ہے۔۔بندریا کی ہڈیوں کی مالا دے دینگے، اب ریچھ کی کھال تو دینے سے رہے"۔۔۔۔۔ "اچھا نانی! میں پیدل نہیں جاؤنگی، ان کے غار کے راستے میں بڑے نوکیلے پتھر ہیں"۔۔۔۔۔ "ہاں! تیرے لئے عقاب کرونگی ناں۔۔۔بس! شترمرغ پہ چلیں گے۔۔ارے ایک ہمارا زمانہ تھا جب ہم اڑنے والے قالین پر تمھارے نانا کے ساتھ گھوما کرتے تھے"۔۔۔"اڑنے والا قالین!!!" شمرتی حیرت سے بولی۔۔۔"ہاں! اڑنے والا قالین! وہ تمھارے نانا کے ایک جن دوست نے انہیں تحفے میں دیا تھا۔۔ہم لوگ بس اسی پر اڑتے رہتے تھے۔۔پھر ان کا دوست جن، انسانوں کی بستی چلا گیا۔۔اور وہاں وہ انسانوں کے قبرستان میں جا کر بس گیا۔۔پھر ایک دن کوئی انسان اس قبرستان میں جن قابو کرنے کا عمل کرنے آیا اور پھر عمل مکمل کرکے اس جن کو قابو کرلے گیا۔۔اس کے قابو ہوتے ہی قالین بھی غائب ہوگیا۔۔" کوکو چڑیل کے چہرے پر افسردگی کے اثرات نمایاں ہوچکے تھے۔۔۔ "اچھا نانی! تو انسان لوگ جنوں کو بھی قابو کرلیتے ہیں!!!لیکن نانی امی ابو بھی ہمیں چھوڑ کر انسانوں کی بستی میں جاکر آباد ہوگئے ہیں کہی کوئی انسان انہیں نقصان نہ پہنچا دیں" ۔۔۔ وہ فکرمندانہ انداز میں بولی۔۔۔ "ہاں! مجھے بھی فکر لگی رہتی ہے"۔۔کوکو چڑیل بھی افسردہ لہجے میں بولی۔۔۔۔"نانی! میں ان کے پاس جانا چاہتی ہوں میرا بھی بہت دل کرتا ہے ان سے ملنے کا۔۔پر وہ تو جیسے ہمیں بھول گئے ہیں بس کبھی کبھار ملنے آتے ہیں" شمرتی کی آنکھواں سے آنسوؤں کی ایک لڑی ٹپکی۔۔۔"ارے ارے رو کیوں رہی ہے، شنما کے بھوت ابا بھی انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں۔۔وہ شادی پر آئے ہوئے ہیں، ان سے کہہ دونگی کہ تمھیں بھی ساتھ لے جائے"۔۔۔۔ " سچ نانی!!!"۔۔یہ سن کر شمرتی کی آنکھوں میں چمک سی دوڑ گئی۔۔۔ " اچھا چلو، ابھی تو شادی میں چلنے کی تیاری کرو" کوکو چڑیل بولی۔۔۔۔ "بس نانی میں تیار ہوگئی ہوں۔۔بس گالوں پر تھوڑا کوے کا سفوف لگا لوں تاکہ چہرہ تھوڑا کالا تو لگے۔۔ورنہ سب وہاں بولے گے کہ اسے دیکھو کیسی گوری ہوتی جارہی ہے" ۔۔یہ کہہ کر شمرتی کوے کا سفوف آہستہ آہستہ گالوں پر ملنے لگی۔۔۔
                ***********************
"ارے! کیا ہوا؟ اتنی تیزی سے کہاں سے آرہے ہو؟" جمانتی چڑیل نے اپنے شوہر گرانت بھوت کو تیزی سے اپنی طرف آتے ہوئے پوچھا۔۔۔وہ بولا: ارے! تم تو ہر وقت اس کمرے میں اس بڑے سے شیشے کے پاس کھڑی خود کو نہارتی رہتی ہو، انسانوں کی بستی میں آکر تمھارے نخرے ہی بڑھ گئے ہیں۔۔ وہ صحیع تھا جب اپنی بستی میں تم پانی میں اپنا عکس دیکھتی تھی"۔۔۔ وہ اسے گھورتے ہوئے بولی ۔۔"دیکھو! پانی میں یا آئینے میں خود کو دیکھنا ہم چڑیلوں کا بنیادی حق ہے اور ایک تو آپ کو بھی بس لڑنے کا موقع چاہئے۔۔۔" "ہاں! تو کیوں نہ لڑوں؟ اپنی بستی چھوڑ کر یہاں انسانوں میں آباد ہوگئی ہو، اپنی بیٹی شمرتی کا بھی خیال نہیں آتا۔۔اور تمھاری وجہ سے مجھے بھی یہاں رہنا پڑ رہا ہے " "اچھا لڑائی چھوڑو، آخر ہوا کیا ہے؟" وہ بولا ارے! ان گھر والوں کو شک ہوگیا ہم پر۔۔کہ یہاں بھوت وغیرہ ہے" "مگر ان کو شک کیسے ہوا؟" وہ حیرت سے بولی۔۔ "تمھاری وجہ سے ہوا ہے" " میری وجہ سے وہ بھلا کیسے؟"۔۔"ارے تمھیں کیا ضرورت تھی ان انسانوں کی چیزوں کو ادھر سے ادھر کرنے کی۔۔بس اسی بات پر شک ہوا ہے کہ چیزیں ادھر سے ادھر ہورہی ہیں۔۔اب وہ کسی عالم کو بلوائیں گے ہمیں گھر سے نکلوانے کے لئے" "لیکن میں نہیں جاؤنگی واپس اپنی بستی میں، وہاں صرف غار اور پہاڑیاں ہیں۔۔مجھے تو بس یہی رہنا ہے" جمانتی فکرمندانہ انداز میں بولی۔۔وہ بولا۔۔"ہاں فکر نہ کرو کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔۔اچھا تم اس شیشے کے پاس سے ہٹو۔۔مجھے تھوڑا کریلے کا جوس تو پلادو بھاگ کر آنے سے سانس پھول گئی ہے۔۔اور گلا خشک ہوگیا ہے"۔۔ "اتنے قریب سے آکر بھی گلا خشک ہوگیا۔۔یہ کیوں نہیں کہتے کہ کریلے کا کڑوا جوس پینے کا دل چاہ رہا ہے۔۔ویسے زیادہ کڑوا صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہوتا خیر چلیں میں آپ کو کریلے کا جوس بنا دیتی ہوں" ۔۔ یہ کہہ کر وہ اس کے لئے کریلے کا جوس بنانے کے لئے چلی گئی۔۔
              ***********************
"دیکھا آپ نے؟ کیسی کوئی چیز تیزی سے جیسے یہاں سے گزری ہے" زبیدہ اپنے شوہر کریم سے بولی۔۔۔وہ بولے: ارے ہوا کا جھونکا ہوگا۔۔دیکھو کھڑکی بھی کھلی ہوئی ہے۔۔وہم مت کرو" وہ بولی۔۔۔ "آپ تو بس اسے وہم ہی سمجھتے جائیں پر میں کہہ رہی ہوں کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔۔میری چھٹی حس بتا رہی ہے۔۔"چھٹی حس نہیں بلکہ ساتویں حس۔۔۔۔ تمھاری ایک حس زیادہ ہے۔۔" کریم صاحب بولے۔۔پھر وہ کرن سے مخاطب ہوئے۔۔بیٹا! جلدی ناشتہ کرو ورنہ تمھاری امی ڈرا ڈرا کر تمھارا سارا ٹائم یہی لگا دیں گی اور تمھیں کالج کی دیر ہوجائے گی" "نہیں ابو ہوگیا ناشتہ" کرن پراٹھے کا آخری نوالہ منھ میں ڈالتے ہوئے بولی۔۔اور پھر اپنا بیگ اٹھا کر باہر کی طرف چلی گئی۔۔عامر بھی ناشتہ کرکے چلا گیا۔۔۔زبیدہ بیگم برتن سمیٹنے لگی جبکہ کریم صاحب اپنی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر کچھ سوچنے لگے۔۔
                 ************************
           شمرتی اور کوکو چڑیل اپنی غار سے شادی کے لئے روانہ ہوئے۔۔تھوڑی دیر میں وہ شادی والے غار پہنچ گئے۔۔پورے غار کو باہر کی طرف سے خوبصورتی کے لئے کانٹوں سے سجایا ہوا تھا۔۔دلہن کے بھوت ابا سر پر شیر کی کھال لپیٹے اور چڑیل اماں شیرنی کی کھال کی شال اوڑھے مہمانوں کے استقبال کے لئے غار کے دھانے پر کھڑی تھی۔۔پاس ہی کچھ چڑیل کی بچییاں کیلے کے چھلکے میں گیندے کے پھول کی پتییاں لے کر ہر آنے والے مہمان پر نچھاور کرنے کے لئے کھڑی تھیں۔۔۔غار مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔۔۔تھوڑی دیر میں بھوت دلہا اپنے باراتیوں کے ساتھ اپنی چڑیل دلہن کو لینے پہنچ چکا تھا۔۔۔اچانک شمرتی کی نظر دلہن شنما چڑیل کی بہن نمنا چڑیل پر گئی۔۔تو وہ اپنی نانی سے بولی۔۔"نانی! نمنا کو دیکھو اپنی بہن کی شادی میں کیسا اترا رہی ہے اور تو اور ہرن کی کھال کا لہنگا پہن کر خود کو ہرنی سمجھ رہی ہے۔۔" "کوکو بولی۔۔"ارے تو کیوں جل رہی ہے اپنی بہن کی شادی میں تو سب ہی اتراتے ہیں۔۔اچھا چپ ہوجا رسم شروع ہونے والی ہے دیکھتے ہیں دلہے کی چڑیل ماں، منھ دکھائی میں کیا دیتی ہیں"۔۔۔ تھوڑی دیر میں دلہا کی چڑیل ماں دلہن کے پاس پہنچی اور اپنے تھیلے میں سے اس کی منھ دکھائی کا تحفہ نکالتے ہوئے بولی۔۔"آج تو میں اپنی بہو چڑیل کو ایسا تحفہ دونگی جو آج تک کسی نے نہیں دیا ہوگا" یہ سن کر غار میں ایک خاموشی چھا گئی سب تجسس کے مارے سانس روک کر دیکھنے لگے کہ آخر کیا چیز ہے۔۔اور جب دلہا کی چڑیل ماں نے تھیلے میں سے تحفہ نکالا تو تحفہ دیکھ کر سب کا منھ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔۔
 (جاری ہے)