┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄

*《•▪♡ شمشیرِ بے نیام ♡▪•》*

*حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ*

*( قسط نمبر-70)*
*ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’میں اور میرے دستے پر امن طریقے سے شہر میں داخل ہوئے ہیں۔ دیکھ، شہر کے دروازے کھل گئے ہیں اگر تو میرے فیصلے کو رد کرنا چاہے تو کردے لیکن یہ سوچ کہ میں دشمن کے ہتھیار ڈالنے پر اسے بخشش کا وعدہ دے چکا ہوں۔ اگر یہ وعدہ پورا نہ ہوا، تو رومی کہیں گے کہ مسلمان وعدوں کے کچے ہیں۔اس کی زد اسلام پر بھی پڑے گی۔‘‘خالدؓکی حالت یہ تھی کہ غصے سے ان کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ سالارِ اعلیٰ وہ ہوں اور صلح کے معاہدے کوئی اور کرتا پھرے۔ابو عبیدہؓ اپنی بات پر اس طرح اڑے ہوئے تھے کہ انہیں پرواہ ہی نہیں تھی کہ خالدؓ خلیفہؓ کی طرف سے سالارِ اعلیٰ مقرر کیے گئے ہیں۔توما ،اس کا نائب سالار ہربیس ،پادری اور مشیر وغیرہ الگ کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ انہیں اپنی چال کامیاب ہوتی نظر آرہی تھی۔بلکہ چال ضرورت سے زیادہ کامیاب ہو رہی تھی۔ وہ اس طرح کہ مسلمانوں کا سپہ سالار اور اس کا قائم مقام سالار آپس میں لڑنے پر آگئے تھے۔ابو عبیدہؓ کی جگہ کوئی اور سالار ہوتا تو خالدؓ اسے سالاری سے معزول کرکے سپاہی بنا دیتے، یا اسے واپس مدینہ بھیج دیتے لیکن وہ ابو عبیدہؓ تھے۔ جنہیں رسولِ اکرمﷺ نے امین الامت کا خطاب دیا تھا۔انہیں الاثرم بھی کہتے تھے کیونکہ ان کے سامنے کے دانت احد کی جنگ میں شہید ہوئے تھے۔ مشہور مؤرخ ابنِ قتیبہ اور واقدی نے لکھا ہے کہ رسول اﷲﷺکو ابو عبیدہؓ سے خاص محبت تھی۔یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ابو عبیدہؓ دانت والوں سے زیادہ خوبرو لگتے تھے ۔ان کا ذہد و تقویٰ ضرب المثل تھا۔خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ ان کا بہت احترام کرتے تھے اور مجاہدین ان کے اشارے پر جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔خالدؓ کے دل میں ابو عبیدہؓ کا اتنا احترام تھا کہ میدانِ جنگ میں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تو خا لدؓگھوڑے پر سوار نہیں تھے۔ ابو عبیدہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔خالدؓ چونکہ سالارِ اعلیٰ تھے اس لئے ابوعبیدہؓ نے اتر کر خالدؓ سے ملنا چاہا لیکن خالدؓ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ میرے دل میں اپنے احترام کو قائم رکھیں۔وہ ابو عبیدہؓ اب خالدؓ سے پوچھے بغیر دشمن کے متعلق بڑا اہم فیصلہ کر بیٹھے، اور اسے بدلنے پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ابو عبیدہؓ عشرہ مبشرہ میں سے بھی تھے۔ابو عبیدہؓ کی تمام خوبیوں اور اسلامی معاشرے میں ان کی قدرومنزلت کو تسلیم کرتے ہوئے اس دور کے وقائع نگار اور مؤرخ لکھتے ہیں کہ جنگی امور کی جو سوجھ بوجھ خالدؓ میں تھی وہ ابو عبیدہؓ میں نہیں تھی۔وہ باریکیوں کو نہیں سمجھتے تھے۔ البتہ حرب و ضرب میں مہارت رکھتے تھے۔’’میں تجھے امیر مانتا ہوں ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’لیکن یہ سوچ کہ میں اپنے دستوں کے ساتھ پر امن طریقے سے شہر میں لایا گیا ہوں۔‘‘’’ابنِ الجراح!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’آتجھے دکھاؤں کہ میں شہر میں کس طرح داخل ہوا ہوں، اور رات سے اب تک مجھے کیسی لڑائی لڑنی پڑی ہے، ان رومیوں نے دیکھا کہ یہ لڑ نہیں سکتے اور میں شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا تو یہ تیرے پاس جا پہنچے۔میں انہیں معاف نہیں کروں گا۔‘‘’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے دبدبے سے کہا۔’’کیا تو ﷲسے نہیں ڈرتا؟میں نے انہیں اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ان سے حفاظت کا وعدہ کر چکا ہوں۔‘‘لیکن خالدؓ ابو عبیدہؓ کی بات ماننے پر آمادہ نہیں تھے۔*
*’’آہ ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے افسوس کے لہجے میں کہا۔’’میں نے جب ان کی شرطیں سن کر انہیں حفاظت کا وعدہ دیا تھا، اس وقت مجھے گمان تک نہ ہو اتھا کہ تو میرے فیصلے پر اعتراض کرے گا۔میں یہ بھی نہیں جانتا تھاکہ تو لڑ رہا ہے۔میں نے اپنے اﷲاور رسولﷺ کے احکام کے مطابق اور انہی کے نام پر رومیوں کو بخش دیا ہے……سمجھ لے ابو سلیمان! میری بات سمجھ لے۔مجھے بد عہدی کا ارتکاب نہ کرنے دے۔‘‘دونوں کے درمیان بحث چلتی رہی۔خالدؓ کے محافظوں کو بھی غصہ آگیا۔وہ تلواریں سونت کر توما اور اس کے ساتھیوں پر جھپٹے۔ وہ انہیں قتل کر دینا چاہتے تھے۔انہیں کسی طرح شک ہو گیا تھا کہ یہ رومیوں کی چال ہے جو دو سالاروں کو لڑا رہی ہے۔محافظوں نے توما وغیرہ پر ہلہ بولا توابو عبیدہؓ دوڑ کر ان کے آگے ہو گئے۔’’خبردار !‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’پہلے کچھ فیصلہ ہونے دو،یہ ابھی میری پناہ میں ہیں اور تمہیں جب تک کوئی حکم نہیں ملتا تم کوئی حرکت نہیں کر سکتے۔‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کے اس حکم کو بھی برداشت کیا۔خالدؓ کی موجودگی میں ابو عبیدہؓ کوئی حکم نہیں دے سکتے تھے۔یہ صورتِ حال مسلمانوں کیلئے اچھی نہیں تھی۔ایک غلطی تو خالدؓ سے ہوئی تھی کہ کمند پھینک کر شہر میں داخل ہونے جیسا خطرناک کام کر رہے تھے،مگر ابو عبیدہؓ کو اطلاع نہ دی۔حالانکہ وہ خالدؓ کے قائم مقام سالار تھے۔خالدؓ نے تو ان سالاروں میں سے بھی کسی کو نہ بتایا جو شہر کے دوسرے دروازوں کے سامنے اپنے دستوں کے ساتھ موجود تھے۔اس کے بعد غلطی ابو عبیدہؓ کی تھی۔جنہوں نے وہ فیصلہ کیا جو صرف سالارِ اعلیٰ کو کرنا چاہیے تھا۔خالدؓ اور ابو عبیدہؓ کے درمیان یہ جھگڑا ان کی انا کا مسئلہ بن کر کوئی ناگوار صورت اختیار کر سکتا تھا لیکن یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مسلمان آپس کے کسی جھگڑے کو ذاتی مسئلہ نہیں بنایا کرتے تھے اور ان کا حاکم اپنے آپ کو آج کل کے حاکموں کی طرح نہیں سمجھا کرتے تھے۔خالدؓنے دوسرے سالاروں کو بلایا۔اس وقت تک دوسرے دستے بھی شہر میں آچکے تھے۔سالار جب خالدؓ کے پاس آئے توخالدؓ نے اپنا اور ابو عبیدہؓ کا جھگڑا ان کے آگے رکھ دیا۔’’ابنِ ولید!‘‘ سالاروں نے آپس میں بحث و مباحثہ کرکے خالدؓ سے کہا۔’’ابو عبیدہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن وہ جو فیصلہ کر چکے ہیں ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ورنہ یہ خبر دور دور تک پھیل جائے گی کہ مسلمان دھوکے باز ہیں، صلح اور عام معافی کا وعدہ کرتے ہیں پھر لوٹ مار اور قتلِ عام کرتے ہیں۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘سالار شرجیلؓ بن حسنہ نے کہا۔’’ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ بعض شہر ہمیں مزاحمت کے بغیر مل گئے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان شہروں میں ہماری وہاں آمد سے آگے آگے یہ خبر مشہور ہو گئی تھی کہ مسلمانوں کی شرطیں سخت نہیں ہوتیں اور اپنی شرطوں پر قائم رہتے ہیں اور رحم دلی سے ہر کسی کے ساتھ پیش آتے ہیں……ابنِ ولید!ہمیں اس روایت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ورنہ پھر ہمیں کوئی شہر آسانی سے نہیں ملے گا-*
-
*’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓ نے غصے کو دباتے ہوئے کہا۔’’تم سب نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔‘‘رومی سالار توما اور ہربیس ذرا دورکھڑے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔خالدؓ نے ان کی طرف دیکھا تو غصہ پھر تیز ہو گیا۔’’میں تم سب کا فیصلہ قبول کرتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن ان دونوں رومی سالاروں کو نہیں چھوڑوں گا۔میں انہیں زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا۔‘‘’’تجھ پر ﷲکی رحمت ہو ولید کے بیٹے!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’انہی دونوں کے ساتھ تو میرا معاہدہ ہو اہے اور انہی کو میں نے حفاظت کی ضمانت دی ہے۔میرے فیصلے کو تو نے قبول کر ہی لیا ہے تو ان دونوں کو بھی جانے دے۔‘‘’’تیرے عہد نے انہیں میرے ہاتھ سے بچا لیا ہے۔‘‘خالدؓ نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’لیکن یہ دونوں اﷲکی لعنت سے نہیں بچ سکیں گے۔‘‘ایک اور مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ توما اور ہربیس کے پاس ایک آدمی کھڑا تھا جو عربی زبان سمجھتا اور بولتا تھا۔وہ مسلمان سالاروں کی باتیں سن کر توما اور ہربیس کو رومی زبان میں سناتا جا رہا تھا۔آخر انہیں عام معافی کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔’’آپ سب نے ہم پر احسان کیا ہے۔‘‘تو ما نے خالدؓاور ابو عبیدہؓ کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔’’ہمیں اجازت دی جائے کہ اپنی منزل تک ہم اپنی پسند کے راستے سے جا سکیں۔‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓکی طرف دیکھا کہ وہ جواب دیں لیکن خالدؓ نے منہ پھیر لیا۔’’تمہیں اجازت ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے توما کو جواب دیا۔’’جس راستے پر چاہو جا سکتے ہو۔لیکن یہ بھی سن لو، تم جہاں رکو گے یا جہاں قیام کرو گے اگر ہم نے اس جگہ پر قبضہ کر لیا تو ہم سے اپنی حفاظت کی توقع مت کرنا۔تمہارے ساتھ جو معاہدہ کیا جا رہا ہے یہ صرف اس مقام تک ہے جہاں تم جا رہے ہو، یہ دوستی کا معاہدہ نہیں۔‘‘’’اگر معاہدہ عارضی ہے تو میری ایک درخواست اور ہے۔‘‘توما نے کہا۔’’ہمیں تین دنوں کی مہلت دی جائے کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔تین دنوں بعد ہم معاہدے کو ختم سمجھیں گے۔‘‘’’پھر ہم تمہارے ساتھ جوسلوک کرنا چاہیں گے کریں گے۔‘‘خالدؓ گرج کر بولے۔’’آپ ہمیں قتل کر سکتے ہیں۔‘‘توما نے کہا۔’’ہمیں پکڑ کر اپنا غلام بنا سکتے ہیں۔‘‘*
*’’یہ بھی منظور ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تین دنوں میں ہی کہیں غائب ہو جانا،وہاں تک چلے جانے کی کوشش کرنا جہاں تک میں نہ پہنچ سکوں……اب ایک شرط میری بھی سن لو……تم اپنے ساتھ چند دنوں کے کھانے پینے کا سامان لے جا سکو گے۔اس سے زیادہ تم کچھ نہیں لے جا سکو گے۔کوئی آدمی ہتھیار لے کر نہیں جائے گا۔‘‘’’نہیں ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔’’تیری یہ شرائط اس معاہدے کے خلاف ہیں جو میں نے ان کے ساتھ کیا ہے۔یہ اپنا مال و اسباب اورجو کچھ یہ لے جا سکتے ہیں لے جائیں۔میں انہیں یہ حق دے چکا ہوں۔‘‘خالدؓنے گذشتہ رات کو اپنے آپ کو زندگی کے سب سے بڑے خطرے میں ڈالا تھا کہ دیوار پر کمند پھینک کر اوپر چلے گئے تھے۔اب ابو عبیدہؓ نے خالدؓکو ایک اور بڑے ہی سخت امتحان میں ڈال دیاتھا۔خالدؓرومیوں پر اپنی کوئی نہ کوئی شرط عائد کرنا چاہتے تھے مگر ابو عبیدہؓ ان کی ہر شرط کو یہ کہہ کر رَد کر دیتے تھے کہ توما کے ساتھ وہ کچھ اور معاہدہ کر چکے ہیں۔*
*خالدؓکو بار بار اپنے غصے کو دبانا پڑتا تھا، یہ کام بہت مشکل تھا۔’’لے جائیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’جو کچھ اٹھا سکتے ہیں، لے جائیں۔لیکن ان میں کوئی بھی کوئی ہتھیار اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔‘‘’’ہم پر یہ ظلم نہ کریں۔‘‘توما نے کہا۔’’ہم لمبے سفر پر جا رہے ہیں۔راستے میں کوئی اور دشمن ہم پر حملہ کر سکتا ہے ، ہمیں نہتا دیکھ کر ڈاکو ہی ہمیں لوٹ لیں گے۔اگر آپ ہمیں نہتا یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہیں رہنے دیں اور ہمارے ساتھ جیسا سلوک چاہے کریں۔ایک طرف آپ کی نیکیاں اتنی ہیں کہ ان کا شمار نہیں۔مگر آپ کا یہ حکم ہمارے قتل کے برابر ہے کہ ہم نہتے جائیں۔‘‘خالدؓکچھ دیر توما کے منہ کی طرف دیکھتے رہے ۔ان کا چہر ہ بتا رہاتھا کہ وہ اپنے اوپر جبر کر رہے ہیں۔’’اے رومی سالار!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو خوش قسمت ہے کہ صلح کیلئے تو میرے پاس نہیں آگیا تھا……میں تجھے ہتھیار اپنے ساتھ لے جانے کی بھی اجازت دے دیتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ ہر شخص جن میں تو بھی شامل ہے ،صرف ایک ہتھیار لے جا سکتا ہے۔ایک تلوار یا ایک برچھی، یا ایک کمان اور ایک ترکش یا ایک برچھی یا ایک خنجر۔‘‘اس کے بعد معاہدہ لکھا گیا جس کے الفاظ یہ تھے:’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔سالارِ اعلیٰ عساکرِ مدینہ خالد بن ولید کی طرف سے دمشق کے باشندگان کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا ہے۔مسلمان شہر دمشق میں داخل ہوں گے وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے کہ شہر کے لوگوں کے جان و مال کا، ان کی املاک کا ان کی عزت و آبرو کا تحفظ کریں۔اس میں ان کی عبادت گاہوں اور شہر کی فصیل کا تحفظ بھی شامل ہے۔انہیں اﷲاور رسولﷺ اور تمام تر مومنین اور خلیفۃ المسلمین کی طرف سے ضمانت دی جاتی ہے۔ان کے ساتھ مسلمان رحمدلی اور ہمدردی، کا سلوک اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اہلِ دمشق جزیہ دیتے رہیں گے۔‘‘جزیہ کی رقم ایک دینار فی کس مقرر ہوئی اور کچھ مقدار اناج وغیرہ کی مقرر ہوئی جو اہلِ دمشق نے مسلمانوں کو دینی تھی۔*
*وہ منظر مسلمانوں کیلئے بڑا ہی تکلیف دہ تھا جب رومی فوج دمشق سے روانہ ہوئی ۔جو شہری دمشق میں نہیں رہنا چاہتے تھے وہ فوج کے ساتھ جا رہے تھے۔ان کی فوج نے شہریوں کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جیسے مسلمان ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔رومی سپہ سالار توما بھی جا رہا تھا۔اس کی اس آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی جس میں تیر کا ٹکڑا ابھی تک موجود تھا۔اس کے ساتھ اس کی بیوی تھی جو شہنشاہِ روم ہرقل کی بیٹی تھی۔اس وقت کی وہ بہت ہی حسین اور جوان عورت تھی۔شاہی مال و اسباب بے شمار گھوڑا گاڑیوں میں جا رہا تھا ظاہر ہے ان گاڑیوں میں خزانہ بھی جا رہاتا۔دمشق کے وہ باشندے جنہوں نے دمشق میں رہنا پسند نہیں کیا تھا وہ اپنا مال و متاع گھوڑا گاڑیوں اور ریہڑوں پر لے جا رہے تھے جنہیں خچر کھینچ رہے تھے۔ان میں منڈی کا مال اور تجارتی سامان بھی جا رہا تھا۔مؤرخ بلاذری اور واقدی لکھتے ہیں کہ سونے چاندی کے بعد جو بیش قیمت سامان جا رہا تھا وہ بڑے عمدہ زربفت کی تین سو سے کچھ زیادہ گانٹھیں تھیں۔ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ یہ ہرقل کی تھیں اور بعض نے لکھا ہے کہ یہ منڈی کا مال تھا۔لوگ دودھ والے مویشی بھی ساتھ لے جا رہے تھے۔مختصر یہ کہ دمشق سے تمام مال و دولت جا رہا تھا خالدؓکے مجاہدین دیکھ رہے تھے۔یہ ان کا مالِ غنیمت تھاجو ان کا جائز حق تھا۔زیادہ افسوس ان دستوں کے مجاہدین کو ہو رہا تھا، جنہوں نے شہر کے اندر جاکر بڑی سخت لڑائی لڑی تھی۔اس سے بھی زیادہ افسوس ان ایک سو جانبازوں کو تھا۔ جن میں سے پچاس کمندوں سے دیوارپر گئے تھے اور باقی پچاس دروازہ کھلتے ہی سب سے پہلے اندر گئے تھے۔ان سب نے لڑ کر شہر لیا تھا۔خالدؓ کا اپنا یہ حال تھا کہ دمشق سے جانے والے مال و اسباب کو دیکھ دیکھ کرغصے سے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔انہوں نے اپنے مجاہدین کودیکھا،ان کے چہروں پر افسردگی اور غصے کے تاثرات صاف نظر آرہے تھے۔بعض کے تاثرات تو ایسے تھے جیسے وہ دمشق سے جانے والوں پر ہلہ بول دیں گے اور اپنا حق وصول کر لیں گے۔مؤرخ واقدی، اور ابنِ قتیبہ نے لکھا ہے کہ خالدؓ کیلئے اپنے غصے پر قابو پانا محال ہو رہا تھاآخر انہوں نے دونوں ہاتھ آگے اور کچھ اوپر کرکے آسمان کی طرف دیکھا اور ذرا اونچی آواز میں کہا۔’’یااﷲ!یہ سامان تو تیرے مجاہدین کا تھا ،یہ انہیں دے دے۔‘‘خالدؓ کی جذباتی حالت ٹھیک نہیں تھی۔’’سالارِ محترم!‘‘خالدؓکواپنے قریب ایک آواز سنائی دی۔’’آپ کو دمشق مبارک ہو۔‘‘خالدؓ نے اُدھر دیکھا، وہ یونس ابن مرقس تھا۔اسے دیکھ کر خالدؓکو یاد آیا کہ اس شخص نے اس لڑکی کی خاطر دمشق فتح کروادیا تھا جس کے ساتھ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ اسے یونس ابن مرقس کے ساتھ نہیں بھیج رہے تھے۔’’ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’دمشق تجھے مبارک ہو۔یہ کارنامہ تیرا ہے۔تو نہ ہوتا تو ہم اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔‘‘’’لیکن میں نے جسے حاصل کرنے کیلئے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا اور یہاں کی بادشاہی ختم کرادی ہے۔وہ مجھے نہیں ملی۔‘‘’’کیا اس کے ماں باپ یہیں ہیں؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔*
*’’وہ چلے گئے ہیں۔‘‘یونس ابن مرقس نے جواب دیا۔’’میں لڑکی سے ملا تھا، اسے کہا کہ وہ ماں باپ کو بتائے بغیر میرے ساتھ آجائے ،میری محبت اس کی روح میں اتری ہوئی ہے۔وہ فوراً تیار ہو گئی لیکن کہنے لگی کہ مسلمان آگئے ہیں، یہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ پھر تم کیا کرو گے؟میں نے اسے کہا کہ میں بھی مسلمان ہوں، تم اب محفوظ ہو……‘‘’’اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ تم نے یہ کیوں کہا ہے کہ تم بھی مسلمان ہو میں نے اسے بتایا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔اتنا سننا تھا کہ وہ بالکل ہی بدل گئی۔کہنے لگی کہ اپنے مذہب میں واپس آجاؤ۔میں نے اسلام کی خوبیاں بیان کیں تو اس نے کہا اگر تم اپنے مذہب میں واپس نہیں آؤ گے تو میری محبت نفرت میں بدل جائے گی۔میں نے کہا کہ محبت مذہب کو نہیں دیکھا کرتی۔میں نے یہ بھی کہا کہ میں اب مسلمان ہی رہوں گا۔اس نے کہا۔میں قسم کھاتی ہوں کہ آج کے بعد تمہاری شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کروں گی۔میں دمشق سے جا رہی ہوں۔ اور وہ چلی گئی۔‘‘’’کیا تم بھی اس کی محبت کو نفرت میں نہیں بدل سکتے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’نہیں محترم سالار!‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’میری محبت ایسی نہیں۔یہ لڑکی مجھے نہ ملی تو شاید میں پاگل ہو جاؤں۔میں نے آپ کو یہ شہر دیا ہے، کیا آپ مجھے ایک لڑکی نہیں دلا سکتے؟وہ میری بیوی ہے۔میں نے آپ کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔آپ چاہیں تو اپنا ایک دستہ بھیج کر لڑکی کو زبردستی لا سکتے ہیں۔آپ فاتح ہیں۔‘‘’’ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’معاہدہ ہو چکا ہے۔ہم جانے والوں کا ایک بال بھی ان سے زبردستی نہیں لے سکتے۔‘‘مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ یونس ابن مرقس عقل اور ذہانت کے اعتبار سے کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔خالدؓ اس سے متاثر تھے اور اس کے احسان مند بھی تھے۔دمشق کی فتح اس یونانی جوان کے بغیر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور تھی۔خالدؓ کو یہ شخص اس لئے بھی اچھا لگتا تھا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور جس لڑکی کی محبت اسے پاگل کیے ہوئے تھی اس کے کہنے پر بھی اس نے اسلام ترک نہیں کیا تھا۔’’میں نے سنا ہے۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’کہ آ پ نے دمشق سے جانے والوں کو تین دنوں کیلئے تحفظ کا وعدہ کیا ہے۔کیا ان تین دنوں کے دوران آپ ان لوگوں کا تعاقب کرکے ان پر حملہ نہیں کرسکتے؟‘‘’’نہیںابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ معاہدے کے خلاف ہے۔‘‘’’تین روز گزر جانے کے بعد تو آپ ان پر حملہ کر سکتے ہیں۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’تین دنوں میں تو یہ بہت دور پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ قافلہ بہت تیز جائے گا کیونکہ اس کے پاس خزانہ ہے اور بہت قیمتی مال بھی ہے۔راستے میں رومیوں کے قلعے آتے ہیں، وہ کسی بھی قلعے میں جا پناہ لیں گے۔میں کسی قلعے پر اتنی جلدی حملہ نہیں کر سکوں گا۔‘*

*جزاکم اللہ خیرا*

*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*اسلامک ہسٹری*
─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─