┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد 
قسط_نمبر_45
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور پہنچنے کے بعد اس کے لئے اگلا مرحلہ کسی کی مدد حاصل کرنا تھا مگر کس کی؟ وہ ہاسٹل نہیں جاسکتی تھی۔ وہ جویریہ اور باقی لوگوں سے رابطہ نہیں کرسکتی تھی کیونکہ اس کے گھر والے اس کی دوستوں سے واقف تھے اور چند گھنٹوں میں وہ اسے لاہور میں ڈھونڈنے والے تھے، بلکہ ہوسکتا ہے اب تک اس کی تلاش شروع ہوچکی ہو اور اس صورت حال میں ان لوگوں سے رابطہ کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس کے لئے صبیحہ کی صورت میں واحد آپشن رہ جاتا تھا، مگر وہ اس بات سے واقف نہیں تھی کہ وہ ابھی پشاور سے واپس آئی تھی یا نہیں۔
صبیحہ کے گھر پر ملازم کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ وہ لوگ ابھی پشااور میں ہی تھے۔
"واپس کب آئیں گے؟" اس نے ملازم سے پوچھا۔ وہ اسے جانتا تھا۔
"کیا آپ کے پاس وہاں کا فون نمبر ہے؟" اس نے قدرے مایوسی کے عالم میں پوچھا۔
"جی، وہاں کا فون نمبر میرے پاس ہے۔" ملازم نے اس سے کہا۔
"وہ آپ مجھے دے دیں۔ میں فون پر اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
اسے کچھ تسلی ہوئی۔ ملازم اسے اندر لے آیا۔ ڈرائنگ روم میں اسے بٹھا کر اس نے وہ نمبر لادیا۔ اس نے موبائل پر وہیں بیٹھے بیٹھے صبیحہ کو رنگ کیا۔ فون پشاور میں گھر کے کسی فرد نے اٹھایا تھا۔ اور اسے بتایا کہ صبیحہ باہر گئی ہوئی ہے۔
امامہ نے فون بند کردیا۔
"صبیحہ سے میری بات نہیں ہوسکی۔ میں کچھ دیر بعد اسے دوبارہ فون کروں گی۔" اس نے پاس کھڑے ملازم سے کہا۔
"تب تک میں یہیں بیٹھوں گی۔"
ملازم سر ہلاتے ہوئے چلا گیا۔ اس نے ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ صبیحہ کو فون کیا۔ وہ اس کی کال پر حیران تھی۔
اس نے مختصر طور پر اپنا گھر چھوڑ آنے کے بارے میں بتایا۔ اس نے اسے سالار سے اپنے نکاح کے بارے میں نہیں بتایا کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی صبیحہ اس سارے معاملے کو کس طرح دیکھے گی۔
"امامہ! تمہارے لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ تم اس معاملے میں کورٹ سے رابطہ کرو۔ تبدیلی مذہب کے حوالے سے پروٹیکشن مانگو۔" صبیحہ نے اس کی ساری گفتگو سننے کے بعد کہا۔
"میں یہ کرنا نہیں چاہتی۔"
"کیوں؟"
"صبیحہ! میں پہلے ہی اس مسئلے کے بارے میں بہت سوچ چکی ہوں۔ تم میرے بابا کی پوزیشن اور اثرورسوخ سے واقف ہو۔ پریس تو طوفان اٹھا دے گا۔ میری فیملی کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں یہ تو نہیں چاہتی کہ میرے گھر پر پتھراؤ ہو، میری وجہ سے میرے گھر والوں کی زندگی کو خطرہ ہو اور آج تک جتنی لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے کورٹ پروٹیکشن لینے کی کوشش کی ہے ان کے ساتھ کیا ہواہے۔ کورٹ دارالامان بھجوا دیتی ہے۔ وہ جیل بھجوانے کے مترادف ہے۔ کیس کا فیصلہ کتنی دیر تک ہو، کچھ پتا نہیں۔
گھر والے ایک کے بعد ایک کیس فائل کرتے رہتے ہیں۔ کتنے سال اس طرح گزر جائیں گے، کچھ پتا نہیں ہوتا اگر کسی کو کورٹ آزاد رہنے کی اجازت دے بھی دے تو وہ لوگ اتنے مسئلے کھڑے کرتے رہتے ہیں کہ بہت ساری لڑکیاں واپس گھر والوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ میں نہ تو دارالامان میں اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہی نہ ہی لوگوں کی نظروں میں آنا چاہتی ہوں۔ میں نے خاموشی کے ساتھ گھر چھوڑا ہے اور میں اسی خاموشی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔"
"میں تمہاری بات سمجھ سکتی ہوں امامہ! لیکن مسائل تو تمہارے لئے ابھی بھی کھڑے کئے جائیں گے۔ وہ تمہیں تلاش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے اور ان لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہوں گے جو تمہیں پناہ دیں گے اور وہ جب تمہیں ڈھونڈنا شروع کریں گے تو مجھ تک پہنچنا تو ان کے لئے بہت آسان ہوگا۔ تمہاری مدد کرکے ہمیں بہت خوشی ہوگی مگر میرے ابو یہی چاہیں گے کہ مدد چھپ کر کرنے کی بجائے کھل کر کی جائے اور کورٹ اس معاملے میں یقیناً تمہارے حق میں اپنا فیصلہ دے گا۔ تم ابھی میرے گھر پر ہی رہو۔ میں اس بارے میں ملازم کو کہہ دیتی ہوں اور آج میں ابو سے بات کرتی ہوں ہم کوشش کریں گے، کل لاہور واپس آجائیں۔"
امامہ نے ملازم کو بلا کر فون اس کے حوالے کردیا۔ صبیحہ نے ملازم کو کچھ ہدایت دیں اور پھر رابطہ منقطع کردیا۔
"میں صبیحہ بی بی کا کمرہ کھول رہا ہوں، آپ وہاں چلی جائیں۔" ملازم نے اس سے کہا۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں چلی آئی مگر اس کی تشویش اور پریشانی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ صبیحہ کے نقطہ نظر کو سمجھ سکتی تھی۔ وہ یقیناً یہ نہیں چاہتی تھی کہ خود صبیحہ اور اس کی فیملی پر کوئی مصیبت آئے۔ اس معاملے میں صبیحہ کے اندیشے درست تھے۔ اگر ہاشم مبین کو یہ پتا چل جاتا کہ اسے صبیحہ کی فیملی نے پناہ دی تھی تو وہ ان کے جانی دشمن بن جاتے۔ شاید اس لئے صبیحہ نے اس سے قانون کی مدد لینے کے لئے کہا تھا مگر یہ راستہ اس کے لئے زیادہ دشوار تھا۔
جماعت کے اتنے بڑے لیڈر کی بیٹی کا اس طرح مذہب چھوڑ دینا پوری جماعت کے منہ پر طمانچے کے مترادف تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس سے پورے ملک میں جماعت اور خود ان کے خاندان کو کتنی زک پہنچے گی اور وہ اس بے عزتی سے بچنے کے لئے کس حد تک جاسکتے تھے، امامہ جانتی نہیں تھی مگر اندازہ کرسکتی تھی۔
وہ صبیحہ کے کمرے میں داخل ہورہی تھی جب اس کے ذہن میں ایک جھماکے کے ساتھ سیدہ مریم سبط علی کا خیال آیا تھا۔ وہ صبیحہ کی دوست اور کلاس فیلو تھی۔ وہ اس سے کئی بار ملتی رہی تھی۔ ایک بار صبیحہ کے گھر پر ہی مریم کو اس کےقبول اسلام کا پتا چلا تھا۔ وہ شاید صبیحہ کی واحد دوست تھی جسے صبیحہ نے امامہ کے بارے میں بتا دیا تھا اور مریم بہت حیران نظر آئی تھی۔
"تمہیں اگر کبھی میری کسی مدد کی ضرورت ہوئی تو مجھے ضرور بتانا بلکہ بلا جھجک میرے پاس آجانا۔"
اس نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ امامہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ بعد میں بھی امامہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں وہ ہمیشہ اس سے اسی گرم جوشی کے ساتھ ملتی رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے اس کا کیوں خیال آیا تھا یا وہ کس حد تک اس کی مدد کرسکتی تھی مگر اس وقت اس نے اس سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے موبائل سے فون کرنا چاہا مگر موبائل کی بیٹری ختم ہوچکی تھی۔ اس نے اسے ری چارج کرنے کے لئے لگایا اور خود لاؤنج میں آکر اپنی ڈائری سے مریم کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔
فون ڈاکٹر سبط نے اٹھایا تھا۔
"میں مریم سے بات کرنا چاہتی ہوں، میں ان کی دوست ہوں۔"
اس نے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے پہلی بار مریم کو فون کیا تھا۔
"میں بات کرواتا ہوں۔" انہوں نے فون ہولڈ رکھنے کا کہا۔ کچھ سیکنڈز کے بعد امامہ نے دوسری طرف مریم کی آواز سنی۔
"ہیلو۔۔۔۔۔"
"ہیلو مریم! میں امامہ بات کررہی ہوں۔"
"امامہ۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم؟" مریم نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہاں، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔"
وہ اسے اپنے بارے میں بتاتی گئی۔ دوسری طرف مکمل خاموشی تھی جب اس نے بات ختم کی تو مریم نے کہا۔
"تم اس وقت کہاں ہو؟"
"میں صبیحہ کے گھر پر ہوں، مگر صبیحہ کے گھر پر کوئی نہیں ہے۔ صبیحہ پشاور میں ہے۔"
اس نے صبیحہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں اسے نہیں بتایا۔
"تم وہیں رہو۔ میں ڈرائیور کو بھجواتی ہوں۔ تم اپنا سامان لے کر اسکے ساتھ آجاؤ۔۔۔۔۔ میں اتنی دیر میں اپنی امی اور ابو سے بات کرتی ہوں۔"
اس نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔ یہ صرف اتفاق تھا کہ اس نے ڈاکٹر سبط کے گھر کی جانے والی کال سالار کے موبائل سے نہیں کی تھی ورنہ سکندر عثمان ڈاکٹر سبط علی کے گھر بھی پہنچ جاتے اور اگر امامہ کو یہ خیال آجاتا کہ وہ موبائل کے بل سے اسے ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ لاہور آکر ایک بار بھی موبائل استعمال نہ کرتی۔
یہ ایک اور اتفاق تھا کہ ڈاکٹر سبط علی نے اپنے آفس کی گاڑی اور ڈرائیور کو اسے لینے کے لئے بھجوایا تھا، ورنہ صبیحہ کا ملازم مریم کی گاڑی اور ڈرائیور کو پہچان لیتا کیونکہ مریم اکثر وہاں آیا کرتی تھی اور صبیحہ کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی یہ جان جاتے کہ وہ صبیحہ کے گھر سے کہاں گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آدھ گھنٹہ بعد ملازم نے ایک گاڑی کے آنے کی اطلاع دی۔ وہ اپنا بیگ اٹھانے لگی۔
"کیا آپ جارہی ہیں؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"مگر صبیحہ بی بی تو کہہ رہی تھیں کہ آپ یہاں رہیں گی۔"
"نہیں۔۔۔۔۔ میں جارہی ہوں۔۔۔۔۔ اگر صبیحہ کا فون آئے تو آپ اسے بتا دیں کہ میں چلی گئی ہوں۔" اس نے دانستہ طور پر اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ مریم کے گھر جارہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ پہلی بار مریم کے گھر گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہاں جاکر اسے ایک بار پھر مریم اور اس کے والدین کو اپنے بارے میں سب کچھ بتانا پڑے گا۔ وہ ذہنی طور پر خود کو سوالوں کے لئے تیار کررہی تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
"ہم لوگ تو ناشتہ کرچکے ہیں تم ناشتہ کرلو۔"
مریم نے پورچ میں اس کا استقبال کیا تھا اور اسے اندر لے جاتے ہوئے کہا۔ اندر لاؤنج میں ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی سے اس کا تعارف کروایا گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے۔ امامہ کے چہرے پر اتنی سراسیمگی اور پریشانی تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو اس پر ترس آیا۔
"میں کھانا لگواتی ہوں۔ مریم تم اسے اس کا کمرہ دکھا دو۔۔۔۔۔ تاکہ یہ کپڑے چینج کرلے۔" سبط علی کی بیوی نے مریم سے کہا۔
وہ جب کپڑے بدل کر آئی تو ناشتہ لگ چکا تھا۔ اس نے خاموشی سے ناشتہ کیا۔
"امامہ! اب آپ جاکر سوجائیں۔ میں آفس جارہا ہوں، شام کو واپسی پر ہم آپ کے مسئلے پر بات کریں گے۔"
ڈاکٹر سبط علی نے اسے ناشتہ ختم کرتے دیکھ کر کہا۔
"مریم! تم اسے کمرے میں لے جاؤ۔" وہ خود لاؤنج سے نکل گئے۔
وہ مریم کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی آئی۔
"امامہ! اب تم سوجاؤ۔۔۔۔۔ تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے کہ تم پچھلے کئی گھنٹوں سے نہیں سوئیں۔ عام طور پر تھکن اور پریشانی میں نیند نہیں آتی اور تم اس وقت اس کا شکار ہوگی۔ میں تمہیں کوئی ٹیبلٹ لاکر دیتی ہوں اگر نیند آگئی تو ٹھیک ورنہ ٹیبلٹ لے لینا۔"
وہ کمرے سے باہر نکل گئی، کچھ دیر بعد اس کی واپسی ہوئی پانی کا گلاس اور ٹیبلٹ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
"تم بالکل ریلیکس ہوکر سوجاؤ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ تم سمجھو کہ تم اپنے گھر میں ہو۔" وہ کمرے کی لائٹ آف کرتی ایک بار پھر کمرے سے باہر نکل گئی۔
صبح کے ساڑھے نوبج رہے تھے مگر ابھی تک باہر بہت دھند تھی اور کمرے کی کھڑکیوں پر پردے ہونے کی وجہ سے کمرے میں اندھیرا کچھ اور گہرا ہوگیا تھا۔ اس نے کسی معمول کی طرح ٹیبلٹ پانی کے ساتھ نگل لی۔ اس کے بغیر نیند آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے ذہن میں اتنے بہت سے خیالات آرہے تھے کہ بیڈ پر لیٹ کر نیند کا انتظار کرنا مشکل ہوجاتا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے اپنے اعصاب پر ایک غنودگی طاری ہوتی محسوس کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جس وقت دوبارہ اٹھی اس وقت کمرہ مکمل طور پر تاریک ہوچکا تھا۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر دیوار کی طرف گئی اور اس نے لائٹ جلا دی۔ وال کلاک پر رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ وہ فوری طور پر اندازہ نہیں کرسکی کہ یہ اتنی لمبی نیند ٹیبلٹ کا اثر تھی یا پھر پچھلے کئی دنوں سے صحیح طور پر نہ سو سکنے کی۔
"جو کچھ بھی تھا وہ صبح سے بہت بہتر حالت میں تھی۔ اسے بے حد بھوک لگ رہی تھی، مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ گھر کے افراد اس وقت جاگ رہے ہوں گے یا نہیں۔ بہت آہستگی سے وہ دروازہ کھول کر لاؤنج میں نکل آئی۔ ڈاکٹر سبط علی لاؤنج کے ایک صوفے پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا اور اسے دیکھ کر مسکرائے۔
"اچھی نیند آئی؟" وہ بڑی بشاشت سے بولے۔
"جی۔۔۔۔۔!" اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"اب ایسا کریں کہ وہ سامنے کچن ہے، وہاں چلی جائیں۔ کھانا رکھا ہوا ہے۔ گرم کریں۔ وہاں ٹیبل پر ہی کھالیں اس کے بعد چائے کے دو کپ بنائیں اور یہاں آجائیں۔"
وہ کچھ کہے بغیر کچن میں چلی گئی۔ فریج میں رکھا ہوا کھانا نکال کر اس نے گرم کیا اور کھانے کے بعد چائے لے کر لاؤنچ میں آگئی۔ چائے کا ایک کپ بنا کر اس نے ڈاکٹر سبط علی کو دیا۔
وہ کتاب میز پر رکھ چکے تھے۔ دوسرا کپ لے کر وہ ان کے بالمقابل دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ اندازہ کرچکی تھی کہ وہ اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے۔
"چائے بہت اچھی ہے۔"
انہوں نے ایک سپ لے کر مسکراتے ہوئے کہا وہ اتنی نروس تھی کہ ان کی تعریف پر مسکرا سکی نہ شکریہ ادا کرسکی۔ وہ صرف انہیں دیکھتی رہی۔
"امامہ! آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے صحیح ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی مگر فیصلہ بہت بڑا ہے اور اتنے بڑے فیصلے کرنے کے لئے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس کم عمری میں، مگر بعض دفعہ فیصلے کرنے کے لئے اتنی جرات کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ان پر قائم رہنے کے لئے ہوتی ہے۔ آپ کو کچھ عرصہ بعد اس کا اندازہ ہوگا۔"
وہ بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
"میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا مذہب کی تبدیلی کا فیصلہ صرف مذہب کے لئے ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہے۔"
وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔
"میرا خیال ہے مجھے زیادہ واضح طور پر یہ سوال پوچھنا چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کسی لڑکے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس کے کہنے پر یا اس کے لئے آپ نے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہو یا مذہب بدلنے کا۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ مت سوچنا کہ اگر ایسی کوئی وجہ ہوگی تو میں آپ کو برا سمجھوں گا یا آپ کی مدد نہیں کروں گا۔ میں یہ صرف اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو پھر مجھے اس لڑکے اور اس کے گھر والوں سے بھی ملنا ہوگا۔"
ڈاکٹر سبط اب سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس وقت امامہ کو پہلی بار مریم سے اتنی دیر سے رابطہ کرنے پر پچھتاوا ہوا اگر سالار کی بجائے ڈاکٹر سبط، جلال سے یا اس کے گھر والوں سے بات کرتے تو شاید۔۔۔۔۔" اس نے بوجھل دل سے نفی میں سر ہلادیا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔"
"کیا آپ کو واقعی یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے؟" انہوں نے ایک بار پھر پرسکون انداز میں اس سے کہا۔
"جی۔۔۔۔ میں نے اسلام کسی لڑکے کے لئے قبول نہیں کیا۔" وہ اس بار جھوٹ نہیں بول رہی تھی، اس نے اسلام واقعی جلال انصر کے لئے قبول نہیں کیا تھا۔
"پھر آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آپ کو کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔"
"مجھے اندازہ ہے۔"
"آپ کے والد ہاشم مبین صاحب سے میں واقف ہوں۔ جماعت کے بہت سرگرم اور بارسوخ لیڈر ہیں اور آپ کا ان کے مذہب سے تائب ہوکر اس طرح گھر سے چلے آنا ان کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ آپ کو ڈھونڈنے اور واپس لے جانے کے لئے وہ زمین آسمان ایک کردیں گے۔"
"مگر میں کسی بھی قیمت پر واپس نہیں جاؤں گی۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔"
"گھر آپ نے چھوڑ دیا ہے۔ اب آپ آگے کیا کریں گی؟" امامہ کو اندیشہ ہوا کہ وہ اسے کورٹ میں جانے کا مشورہ دیں گے۔
"میں کورٹ میں نہیں جاؤں گی۔ میں کسی کے بھی سامنے آنا نہیں چاہتی۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ سامنے آکر میرے لئے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوجائیں گے۔"
"پھر آپ کیا کرنا چاہتی ہیں؟" انہوں نے بغور اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"سامنے نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ میڈیکل کالج میں اپنی اسٹڈیز جاری نہیں رکھ سکیں گی۔"
"میں جانتی ہوں۔" اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
"میں ویسے بھی خود تو میڈیکل کی تعلیم افورڈ کر بھی نہیں سکتی۔"
"اور اگر کسی دوسرے میڈیکل کالج میں کسی دوسرے شہرے یا صوبے میں آپ کی مائیگریشن کروا دی جائے تو؟"
"نہیں، وہ مجھے ڈھونڈ لیں گے۔ ان کے ذہن میں بھی سب سے پہلے یہی آئے گا کہ میں مائیگریشن کروانے کی کوشش کروں گی اور اتنے تھوڑے سے میڈیکل کالجز میں مجھے ڈھونڈنا بہت آسان کام ہے۔"
"پھر۔۔۔۔۔؟"
"میں بی ایس سی میں کسی کالج میں ایڈمیشن لینا چاہتی ہوں مگر کسی دوسرے شہر میں۔۔۔۔۔ لاہور میں وہ ایک ایک کا لج چھان ماریں گے اور میں اپنا نام بھی بدلوانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ اگر آپ ان دونوں کاموں میں میری مدد کرسکیں تو میں بہت احسان مند رہوں گی۔"
ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔ 
"امامہ! ابھی کچھ عرصہ آپ کو یہیں رہنا چاہیے، پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ آپ کے گھر والے آپ کی تلاش میں کیا کیا طریقے اختیار کرتے ہیں۔ چند ہفتے انتظار کرتے ہیں پھر دیکھتے ہیں آگے کیا کرنا ہے۔ آپ اس گھر میں بالکل محفوظ ہیں۔۔۔۔۔ آپ کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کورٹ میں نہیں جانا چاہتیں؟ میں آپ کو اس کے لئے مجبور بھی نہیں کروں گا اور آپ کو یہ ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی یہاں تک آجائے گا یا آپ کو زبردستی یہاں سے لے جائے گا۔ آپ کے ساتھ کوئی بھی کسی بھی طرح کی زبردستی نہیں کرسکتا۔"
انہوں نے اس رات اسے بہت سی تسلیاں دی تھیں۔ اسے ڈاکٹر سبط علی کی شکل دیکھ کر بے اختیار ہاشم مبین یاد آتے رہے۔ وہ بوجھل دل کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسرے دن ڈاکٹر سبط علی شام پانچ بجے کے قریب اپنے آفس سے آئے تھے۔
"صاحب آپ کو اپنی اسٹڈی میں بلا رہے ہیں۔"
وہ اس وقت مریم کے ساتھ کچن میں تھی جب ملازم نے آخر اسے پیغام دیا۔
"آؤ امامہ! بیٹھو۔" اسٹڈی کے دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہونے پر ڈاکٹر سبط علی نے اس سے کہا وہ اپنی ٹیبل کی ایک دراز سے کچھ پیپرز نکال رہے تھے وہ وہاں رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
"آج میں نے کچھ معلومات کروائی ہیں آپ کے بارے میں کہ آپ کے گھر والے آپ کی تلاش میں کہاں تک پہنچے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔"
انہوں نے دراز بند کرتے ہوئے کہا۔
"یہ سالار سکندر کون ہے؟"
ان کے اگلے سوال نے اس کے دل کی دھڑکن کو چند لمحوں کے لئے روک دیا تھا۔ وہ اب کرسی پر بیٹھے اسے بغور دیکھ رہے تھے۔ اس کے چہرے کی فق ہوتی ہوئی رنگت نے انہیں بتا دیا کہ وہ نام امامہ کے لئے اجنبی نہیں تھا۔
"سالار۔۔۔۔۔! ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔ والے۔۔۔۔۔ گھر۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ رہتا۔۔۔۔۔۔ ہے۔" اس نے اٹکتے ہوئے کہا۔
"اس نے میری بہت مدد کی ہے۔ گھر سے نکلنے میں۔۔۔۔۔ اسلام آباد سے لاہور مجھے وہی چھوڑ کر گیا تھا۔"
وہ دانستہ رک گئی۔
"کیا اس کے ساتھ نکاح کے بارے میں بھی بتانا چاہئے؟" وہ گومگو میں تھی۔
"آپ کے والد نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے، آپ کو اغوا کرنے کے الزام میں۔"
امامہ کے چہرے کی رنگت اور زرد ہوگئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ سالار سکندر اتنی جلدی پکڑا جائے گا اور اب اس کے گھر والے یقیناً جلال انصر تک بھی پہنچ جائیں گے اور وہ نکاح اور اس کے بعد کیا وہ یہاں آجائیں گے۔
"کیا وہ پکڑا گیا؟" بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ یہ ٹریس آؤٹ کرلیا گیا تھا کہ وہ اس رات کسی لڑکی کے ساتھ لاہور تک آیا تھا لیکن اس کا اصرار ہے کہ وہ آپ نہیں تھیں۔ کوئی دوسری لڑکی تھی۔ اس کی کوئی گرل فرینڈ۔۔۔۔۔ اور اس نے اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔"
ڈاکٹر سبط علی نے دانستہ طور پر یہ نہیں بتایا کہ وہ لڑکی کوئی طوائف تھی۔
"پولیس اسے گرفتار اس کے اپنے والد کی وجہ سے نہیں کرسکی۔ اس کے ثبوت دینے کے باوجود آپ کے گھر والوں کا یہی اصرار ہے کہ آپ کی گمشدگی میں وہی ملوث ہے۔ امامہ! کیسا لڑکا ہے یہ سالار سکندر؟"
ڈاکٹر سبط نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے اچانک پوچھا۔
"بہت برا۔" بے اختیار امامہ کے منہ سے نکلا۔ "بہت ہی برا۔"
"مگر آپ تو یہ کہہ رہی تھیں کہ اس نے آپ کی بہت مدد کی ہے۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔"
"ہاں، اس نے میری مدد کی ہے مگر وہ بہت برے کردار کا لڑکا ہے۔ میری مدد شاید اس نے اس لئے کی ہے کیونکہ میں نے ایک بار اسے فرسٹ ایڈ دی تھی۔ اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی تب۔۔۔۔۔ اور شاید اس لئے بھی اس نے میری مدد کی ہوگی کیونکہ میرا بھائی اس کا دوست ہے۔ ورنہ وہ بہت برا لڑکا ہے۔ وہ ذہنی مریض ہے۔ پتا نہیں عجیب باتیں کرتا ہے۔ عجیب حرکتیں کرتا ہے۔"
امامہ کے ذہن میں اس وقت اس کے ساتھ کئے گئے سفر کی یاد تازہ تھی جس میں وہ پورا راستہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی رہی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے سرہلایا۔
"پولیس آپ کی فرینڈز سے بھی پوچھ گچھ کررہی ہے اور صبیحہ کے گھر تک بھی پولیس گئی ہے۔ صبیحہ پشاور سے واپس آگئی ہے، مگر مریم نے صبیحہ کو یہ نہیں بتایا کہ آپ ہمارے یہاں ہیں۔ آپ اب صبیحہ سے رابطہ مت کریں۔ اسے فون بھی مت کریں کیونکہ ابھی وہ اس کے گھر کو انڈر آبزرویشن رکھیں گے اور فون کو بھی وہ خاص طور پر چیک کریں گے، بلکہ آپ اب کسی بھی دوست سے فون پر کانٹیکٹ مت کرنا نہ ہی یہاں سے باہر جانا۔"
انہوں نے اسے ہدایت دیں۔
"میرے پاس موبائل ہے۔ اس پر بھی کانٹیکٹ نہیں کرسکتی؟"
وہ چونکے۔
"آپ کا موبائل ہے؟"
"نہیں، اسی لڑکے سالار کا ہے۔"
وہ سالار تک پہنچ گئے تو موبائل تک بھی پہنچ جائیں گے۔" وہ بات کرتے کرتے رک گئے۔
"جو کال آپ نے ہمارے گھر کی تھی وہ اس موبائل سے کی تھی؟" اس بار ان کی آواز میں کچھ تشویش تھی۔
"نہیں، وہ میں نے صبیحہ کے گھر سے کی تھی۔"
"آپ اب اس موبائل پہ دوبارہ کوئی کال کرنا نہ کال ریسیور کرنا۔"
وہ کچھ مطمئن ہوگئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے کچھ دنوں میں اسے ڈاکٹر سبط سے اس کی تلاش کے سلسلے میں اور خبریں موصول ہوتی رہی تھیں۔ ان کے ذرائع معلومات جو بھی تھے مگر وہ بے حد باوثوق تھے۔ اسے ہر جگہ ڈھونڈا جارہا تھا۔ میڈیکل کالج، ہاسپٹل، کلاس فیلوز۔۔۔۔ ہاسٹل، روم میٹس اور فرینڈز۔۔۔۔ ہاشم مبین نے اسے ڈھونڈنے کے لئے نیوز پیپر کا سہارا نہیں لیا تھا۔ میڈیا کی مدد لینے کا نتیجہ ان کے لئے رسوا کن ثابت ہوتا۔
وہ جس حد تک اس کی گمشدگی کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرسکتے تھے کررہے تھے، مگر وہ پولیس کی مدد حاصل کئےہوئے تھے۔ ان کی جماعت بھی اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کررہی تھی۔
وہ لوگ صبیحہ تک پہنچ گئے تھے مگر وہ یہ جان نہیں پائے تھے کہ وہ لاہور آنے کے بعد اس کے گھر گئی تھی۔ شاید یہ صبیحہ کے ان دنوں پشاور میں ہونے کا نتیجہ تھا جن دنوں امامہ اپنے گھر سے چلی آئی تھی۔ ورنہ شاید صبیحہ اور اس کے گھر والوں کو بھی کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔
مریم نے صبیحہ کو امامہ کی اپنے ہاں موجودگی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس نے مکمل طور پر یوں ظاہر کیا تھا جیسے امامہ کی اس طرح کی گمشدگی باقی اسٹوڈنٹس کی طرح اس کے لئے بھی حیران کن بات تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چند ہفتے گزر جانے کے بعد جب امامہ کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی کے ہاں محفوط ہے اور کوئی بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا تو اس نے سالار سکندر کو فون کیا۔ وہ اس سے نکاح کے پیپرز لینا چاہتی تھی اور تب پہلی بار یہ جان کر اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ سالار نے نہ تو طلاق کا حق اسے تفویض کیا تھا اور نہ ہی وہ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔
ڈآکٹر سبط علی کے گھر پہنچنے کے بعد اس نے پہلی بار موبائل کا استعمال کیا تھا اور وہ بھی کسی کو بتائے بغیر اور سالار سے فون پر بات کرنے کے بعد اسے اپنی حماقت کا شدت سے احساس ہوا۔۔۔۔۔ اسے سالار جیسے شخص پر کبھی بھی اس حد تک اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا اور اسے پیپرز کو دیکھنے میں کتنا وقت لگ سکتا تھا جو اس نے انہیں دیکھنے سے اجتناب کیا اور پھر آخر اس نے پیپرز کی ایک کاپی فوری طور پر اس سے کیوں نہیں لی۔ کم از کم اس وقت جب وہ اپنے گھر سے نکل آئی تھی۔
اسے اب اندازہ ہورہا تھا کہ وہ شخص اس کے لئے کتنی بڑی مصیبت بن گیا تھا اور آئندہ آنے والے دنوں میں۔۔۔۔۔ وہ اب ہر بات پر پچھتا رہی تھی۔ اگر اسے اندازہ ہوتا کہ وہ ڈاکٹر سبط علی جیسے آدمی کے پاس پہنچ جائے گی تو وہ کبھی بھی نکاح کرنے کی حماقت نہ کرتی اور سالار جیسے آدمی کے ساتھ تو کبھی بھی نہیں۔
اور اگر اسے یقین ہو تاکہ ڈاکٹر سبط علی ہر حالت میں اس کی مدد کریں گے تو وہ کم از کم سالار کے بارے میں ان سے جھوٹ نہ بولتی پھر وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے، مگر اب جب وہ انہیں بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ یہ یقین دلا چکی تھی کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ کسی بھی طرح انوالو نہیں تھی تو اس نکاح کا انکشاف اور وہ بھی اس لڑکے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ جس کی برائیوں کے بارے میں وہ ڈاکٹر سبط علی سے بات کرچکی تھی اور جس کے بارے میں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ امامہ کے والدین نے اس کے خلاف اغوا کا کیس فائل کیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اگر اب ڈاکٹر سبط علی کو یہ حقائق بتانے کی کوشش کرے گی تو ان کا ردعمل کیا ہوگا اور وہ کم ازکم اس وقت وہ واحد ٹھکانہ کھونے کے لئے تیار نہیں تھی۔
اگلے کئی دن اس کی بھوک پیاس بالکل ختم ہوگئی۔ مستقبل یکدم بھوت بن گیا تھا اور سالار سکندر۔۔۔۔۔ اسے اس شخص سے اتنی نفرت محسوس ہورہی تھی کہ اگر وہ اس کے سامنے آجاتا تو وہ اسے شوٹ کردیتی۔ اسے عجیب عجیب خدشے اور اندیشے تنگ کرتے رہتے۔ پہلے اگر اسے صرف اپنے گھر والوں کا خوف تھا تو اب اس خوف کے ساتھ سالار کا خوف بھی شامل ہوگیا تھا اگر اس نے میری تلاش شروع کردی اور اس کے ساتھ ہی اس کی حالت غیر ہونے لگی۔
اس کا وزن یکدم کم ہونے لگا۔ وہ پہلے بھی خاموش رہتی تھی مگر اب اس کی خاموشی میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ شدید ذہنی دباؤ میں تھی اور یہ سب کچھ ڈاکٹر سبط علی اور ان کے گھر والوں سے پوشیدہ نہیں تھا ان سب نے اس سے باری باری ان اچانک آنے والی تبدیلیوں کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن وہ انہیں ٹالتی رہی۔
"تم پہلے بھی اداس اور پریشان لگی تھیں مگر اب ایک دو ہفتے سے بہت زیادہ پریشان لگتی ہو۔ کیا پریشانی ہے امامہ؟"
سب سے پہلے مریم نے اس سے اس بارے میں پوچھا۔
"نہیں، کوئی پریشانی نہیں۔ بس میں گھر کو مس کرتی ہوں۔"
امامہ نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
"نہیں، میں یہ نہیں مان سکتی۔ آخر اب اچانک اتنا کیوں مس کرنے لگی انہیں کہ کھانا پینا بھول گئی ہو۔ چہرہ زرد ہوگیا ہے۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑنے لگے ہیں اور وزن کم ہوتا جارہا ہے۔ کیا تم بیمار ہونا چاہتی ہو؟"
وہ مریم کی کہی ہوئی کسی بات کو رد نہیں کرسکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ظاہری حالت دیکھ کر کوئی بھی اس کی پریشانی کا اندازہ باآسانی لگاسکتا ہے اور شاید یہ اندازہ بھی یہ کہ پریشانی کسی نئے مسئلے کا نتیجہ تھی مگر وہ اس معاملے میں بے بس تھی۔ وہ سالار کے ساتھ ہونےو الے نکاح اور اس سے متعلقہ خدشات کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہی تھی۔
"مجھے اب اپنے گھر والے زیادہ یاد آنے لگے ہیں۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں وہ مجھے زیادہ یاد آرہے ہیں۔"
امامہ نے مدھم آواز میں اس سے کہا اور یہ جھوٹ نہیں تھا اسے واقعی اب اپنے گھر والے پہلے سے زیادہ یاد آنے لگے تھے۔
وہ کبھی بھی اتنا لمبا عرصہ ان سے الگ نہیں رہی تھی اور وہ بھی مکمل طور پر اس طرح کٹ کر۔ لاہورہاسٹل میں رہتے ہوئے بھی وہ مہینے میں ایک بار ضرور اسلام آباد جاتی اور ایک دوبار وسیم یا ہاشم مبین لاہور اس سے ملنے چلے آتے اور فون تو وہ اکثر ہی کرتی رہتی تھی مگر اب یکدم اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ سمندر میں موجود کسی ویران جزیرے پر آن بیٹھی ہو۔ جہاں دور دور تک کوئی تھا ہی نہیں اور وہ چہرے۔۔۔۔۔ جن سے اسے سب سے زیادہ محبت تھی وہ خوابوں اور خیالوں کے علاوہ نظر آہی نہیں سکتے تھے۔
پتا نہیں مریم اس کے جواب سے مطمئن ہوئی یا نہیں مگر اس نے موضوع بدل دیا تھا۔ شاید اس نے سوچا ہوگا کہ اس طرح اس کا ذہن بٹ جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─