┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


ناول: پیرِ_کامل_ﷺ
از: عمیرہ_احمد
قسط_نمبر_49
سیکنڈ_لاسٹ_قسط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔------------
"سالار سکندر۔۔۔۔۔ سکندر عثمان؟ اور پھر اس ترتیب میں۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ شخص زندہ۔۔۔۔۔ ہے؟" اس کے سر پر جیسے آسمان آگرا تھا۔ اس کے چہرے پر چادر کا گھونگھٹ نہ ہوتا تو اس وقت اس کے چہرے کے تاثرات نے سب کو پریشان کردیا ہوتا۔ نکاح خواں اپنے کلمات دوبارہ دہرا رہا تھا۔ امامہ کا ذہن ماؤف اور دل ڈوب رہا تھا اگر یہ شخص زندہ تھا تو۔۔۔۔۔۔ میں تو اب تک اس کے نکاح میں ہوں۔ میرے خدا۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ ڈاکٹر سبط علی اسے کیسے جانتے ہیں۔ اس کے ذہن میں ایک فشار برپا تھا۔ "آمنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! ہاں کہو۔" سعیدہ اماں نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ "سالار سکندر جیسے شخص کے لئے ہاں۔۔۔۔۔؟" اس کا دل کسی نے اپنی مٹھی میں لے کر بھینچا۔۔۔۔۔ وہ "ہاں" کے علاوہ اس وقت کچھ اور کہہ ہی نہ سکتی تھی۔ خوف اور شاک کے عالم میں اس نے کاغذات پر دستخط کئے تھے۔ "کاش کوئی معجزہ ہو۔ یہ وہ سالار سکندر نہ ہو۔ یہ سب ایک اتفاق ہو۔" اس نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ان سب لوگوں کے کمرے سے چلے جانے کے بعد مریم نے اس کے چہرے سے چادر ہٹا دی۔ اس کے چہرے کا رنگ بالکل سفید ہوچکا تھا۔ "کیا ہوا؟ مریم کی تشویش میں اضافہ ہوگیا۔ وہ سمجھ نہیں سکی۔ وہ اس سے کیا کہہ رہی تھی۔ اس کا ذہن کہیں اور تھا۔ "مریم! Just do me a favour" اس نے مریم کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "میں نے نکاح کرلیا ہے، مگر میں آج رخصتی نہیں چاہتی۔ تم سعیدہ اماں سے کہو میں ابھی رخصتی نہیں چاہتی۔" اس کے لہجے میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا کہ مریم اٹھ کر باہر نکل گئی وہ بہت جلد ہی واپس آگئی۔ "امامہ رخصتی نہیں ہورہی ہے۔ سالار بھی رخصتی نہیں چاہتا۔ امامہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوگئی۔ "ابو کا فون آنے والا ہے تمہارے لئے، وہ تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔" اس نے امامہ کو مزید اطلاع دی۔ وہ فون سننے کے لئے دوسرے کمرے میں آگئی۔ انہوں نے کچھ دیر بعد اسے فون کیا تھا۔ وہ اسے مبارک باد دے رہے تھے۔ امامہ کا دل رونے کا چاہا۔ "سالار بہت اچھا انسان ہے۔" وہ کہہ رہے تھے۔ "میری خواہش تھی کہ آپ کی شادی اسی سے ہو مگر چونکہ آپ سعیدہ آپا کے پاس رہ رہی تھیں اس لئے میں نے ان کی خواہش اور انتخاب کو مقدم سمجھا۔" وہ سانس لینے تک کے قابل نہیں رہی تھی۔ "مجھے یہ علم نہیں تھا کہ سالار نے اس سے پہلے کبھی شادی کی تھی مگر تھوڑی دیر پہلے فرقان نے مجھے اس کے بارے میں بتایا ہے۔ وہ صرف ضرورتاً کیا جانے والا کوئی نکاح تھا۔ فرقان نے مجھے تفصیل نہیں بتائی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میرے جاننے والوں میں سالار سے اچھا کوئی شخص ہوتا تو اس کے نکاح کے بارے میں جان لینے کے بعد میں آپ کی شادی سالار سے کرنے کے بجائے کہیں اور کردیتا لیکن میرے ذہن میں سالار کے علاوہ اور کوئی آیا ہی نہیں۔ آپ خاموش کیوں ہیں آمنہ؟" انہیں بات کرتے کرتے اس کا خیال آیا۔ "ابو! آپ واپس کب آئیں گے؟" "میں ایک ہفتے تک آرہا ہوں۔" ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔ "مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔ مجھے آپ کو بہت کچھ بتانا ہے۔" "آپ خوش نہیں ہیں؟" ڈاکٹر سبط علی کو اس کے لہجے نے پریشان کیا۔ "آپ پاکستان آجائیں پھر میں آپ سے بات کروں گی۔" اس نے حتمی لہجے میں کہا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ رات کو سونے سے پہلے وضو کے لئے باتھ روم میں گئی۔ وضو کرکے واپس آتے ہوئے اپنے کمرے میں جانے کے بجائے وہ صحن میں برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ گھر میں اس وقت کوئی مہمان نہیں تھا۔ وہ اور سعیدہ اماں ہمیشہ کی طرح تنہا تھے۔ سعیدہ اماں تھکاوٹ کی وجہ سے بہت جلد سو گئی تھیں۔ وہ ملازمہ کے ساتھ گھر میں موجود کام نبٹاتی رہی۔ ساڑھے دس بجے کے قریب ملازمہ بھی اپنا کام ختم کرکے سونے کے لئے چلی گئی۔ وہ شادی کے کاموں کی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے وہیں رہ رہی تھی۔ امامہ کچن اور اپنے کمرے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے کام نپٹاتی رہی۔ وہ جس وقت ان سب کاموں سے فارغ ہوئی اس وقت رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ وہ بہت تھک چکی تھی مگر سونے سے پہلے وضو کرنے کے بعد صحن سے گزرتے ہوئے یکدم ہی اس کا دل اپنے کمرے میں جانے کو نہیں چاہا۔ وہ وہیں برآمدے میں بیٹھ گئی۔ صحن میں جلنے والی روشنیوں میں اس نے اپنے ہاتھ اور کلائیوں پر لگی ہوئی مہندی کو دیکھا۔ مہندی بہت اچھی رچی تھی۔ اس کے ہاتھ کہنیوں تک سرخ بیل بوٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔اس نے کل بہت سالوں کے بعد پہلی بار بڑے شوق سے مہندی لگوائی تھی۔ اسے مہندی بہت پسند تھی۔ تہواروں کے علاوہ بھی وہ اکثر اپنے ہاتھوں پر مہندی لگایا کرتی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال پہلے اپنے گھر سے نکل آنے کے بعد اس نے کبھی مہندی نہیں لگائی تھی۔ غیر محسوس طور پر ان تمام چیزوں سے اس کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال کے بعد پہلی بار اس نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھوں پر نقش و نگار بنوائے تھے نہ صرف ہاتھوں پر بلکہ پیروں پر بھی۔ وہ اپنے پیروں کو دیکھنے لگی۔ شال کو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کو اس کے نیچے چھپا لیا۔ "اسجد سے جلال۔۔۔۔۔ جلال سے فہد۔۔۔۔۔ اور فہد سے سالار۔۔۔۔۔ ایک شخص کو میں نے رد کیا۔ دو نے مجھے رد کیا اور چوتھا شخص جو میری زندگی میں شامل ہوا وہ سب سے بدترین ہے۔۔۔۔۔ سالار سکندر۔" اس کے اندر دھواں سا بھر گیا۔ وہ اپنے اسی حلیے کے ساتھ اس کے سامنے تھا۔ کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیر، ہیربینڈ میں بندھے بال، چبھتی ہوئی تضحیک آمیز نظریں،دائیں گال پر مذاق اڑاتی مسکراہٹ کے ساتھ پڑنے والا ڈمپل، کلائیوں میں لٹکتے بینڈز اور بریسلٹ، عورتوں کی تصویروں والی تنگ جینز۔ وہ جیسے اس کی زندگی کے سب سے خوبصورت خواب کی سب سے بھیانک تعبیر بن کر سامنے آیا تھا۔ اس کے دل میں سالار سکندر کے لئے ذرہ برابر عزت نہ تھی۔ "میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد میری زندگی میں آئے۔" اس نے کئی سال پہلے فون پر اس سے کہا تھا۔ "شاید اسی لئے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی کیونکہ نیک مردوں کے لئے نیک عورتیں ہوتی ہیں، تمہارے جیسی نہیں۔" سالار نے جواباً کہا تھا۔ امامہ نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ "چاہے کچھ ہوجائے سالار! میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔ تم واقعی مر جاتے تو زیادہ اچھا تھا۔" وہ بڑبڑائی تھی۔ اس وقت ایک لمحے کے لئے بھی اسے خیال نہیں آیا تھا کہ سالار نے کبھی اس پر کوئی احسان کیا تھا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈآکٹر سبط علی جس رات پاکستان واپس آئے تھے اس رات امامہ ان کے گھر پر ہی تھی مگر رات کو اس نے ان سے سالار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ مریم ابھی لاہور میں ہی تھی اس لئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ اگلے دن صبح بھی وہ سب اسی طرح اکٹھے بیٹھے باتیں کرتے رہے، وہ امامہ کو ان تحائف کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ انگلینڈ سے امامہ اور سالار کے لئے لے کر آئے تھے۔ امامہ خاموشی سے سنتی رہی۔ "سالار بھائی کو تو آج افطاری پر بلائیں۔" یہ مریم کی تجویز تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے مریم کے کہنے پر سالار کو فون کیا۔ امامہ تب بھی خاموش رہی۔ وہ دوپہر کی نماز پڑھنے کے لئے باہر جانے لگے تو امامہ ان کے ساتھ باہر پورچ تک آگئی۔ "ابو! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" اس نے دھیرے سے کہا۔ "ابھی؟" ڈاکٹر سبط علی نے حیرانی سے کہا۔ "نہیں، آپ نماز پڑھ آئیں پھر واپسی پر۔" وہ کچھ دیر تشویش سے اسے دیکھتے رہے اور پھر کچھ کہے بغیر باہر چلے گئے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میں سالار سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔" وہ مسجد سے واپسی پر اسے لے کر اپنی اسٹڈی میں آگئے تھے اور امامہ نے بلا کسی تمہید یا توقف کے اپنا مطالبہ پیش کردیا۔ "آمنہ! " وہ دم بخود رہ گئے۔ "میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔" وہ مسلسل فرش پر غور کررہی تھی۔ "آمنہ! آپ کے ساتھ اس کی دوسری شادی ضرور ہے لیکن اس کی پہلی بیوی کا کوئی پتا نہیں ہے۔ فرقان بتا رہا تھا کہ تقریبا ً نو سال سے ان دونوں میں کوئی رابطہ نہیں ہے اور شادی بھی نہیں، صرف نکاح ہوا تھا۔" ڈاکٹر سبط علی اس کے انکار کو پہلی شادی کے ساتھ جوڑ رہے تھے۔ "کون جانتا ہے وہ کہاں ہے، کہاں نہیں۔ نو سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔" "میں اس کی پہلی بیوی کو جانتی ہوں۔" اس نے اسی طرح سرجھکائے ہوئے کہا۔ "آپ؟" ڈاکٹر سبط علی کو یقین نہیں آیا۔ "وہ میں ہوں۔" اس نے پہلی بار سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ وہ بولنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ "آپ کو یاد ہے نو سال پہلے میں ایک لڑکے کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور آئی تھی جس کے بارے میں آپ نے مجھے بعد میں بتایا تھا کہ میری فیملی نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے۔" "سالار سکندر۔۔۔۔۔" ڈاکٹر سبط علی نے بے اختیار اس کی بات کاٹی۔ "یہ وہی سالار سکندر ہے؟" امامہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ جیسے شاک میں تھے۔ سالار سکندر سے ان کی فرقان کے توسط سے پہلی ملاقات امامہ کے گھر سے چلے آنے کے چار سال بعد ہوئی تھی اور ان کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ اس سالار کا امامہ سے کوئی تعلق ہوسکتا تھا۔ چار سال پہلے سنے جانے والے ایک نام کو وہ چار سال بعد ملنے والے ایک دوسرے شخص کے ساتھ نتھی نہیں کرسکتے تھے اور کربھی دیتے اگر وہ چار سال پہلے والے سالار سے ہی ملتے مگر وہ جس شخص سے ملے تھے، وہ حافظ قرآن تھا۔ اس کے انداز اطوار اور گفتار میں کہیں اس ذہنی مرض کا عکس نہیں پایا جاتا تھا جس کا حوالہ انہیں امامہ نے کئی بار دیا تھا۔ ان کا دھوکا کھا جانا ایک فطری امر تھا یا پھر یہ سب اسی طرح سے طے کیا گیا تھا۔ "اور آپ نے نوسال پہلے اس سے شادی کی تھی؟" وہ ابھی بھی بے یقینی کا شکار تھے۔ "صرف نکاح۔" اس نے مدھم آواز میں کہا۔ "اور پھر اس نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے تھے پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ "آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا چاہیے تھا آمنہ! میں آپ کی مدد کرسکتا تھا۔ امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ "آپ ٹھیک کہتے ہیں مجھے آپ پر اعتبار کرلینا چاہیے تھا مگر اس وقت میرے لئے یہ بہت مشکل تھا۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ میں اس وقت کس ذہنی کیفیت سے گزر رہی تھی یا پھر شاید میری قسمت میں یہ آزمائش بھی لکھی تھی اسے آنا ہی تھا۔" وہ بات کرتے کرتے رکی پھر اس نے نم آنکھوں کے ساتھ سر اٹھا کر ڈاکٹر سبط علی کو دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کی۔ "لیکن اب تو سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا۔ اب تو آپ طلاق لینے میں میری مدد کرسکتے ہیں۔" "نہیں، میں اب اس طلاق میں کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ آمنہ! میں نے اس سے آپ کی شادی کروائی ہے۔" انہوں نے جیسے اسے یاد دلایا۔ "اسی لئے تو میں آپ سے کہہ رہی ہوں۔ آپ اس سے مجھے طلاق دلوا دیں۔" "لیکن کیوں، میں کیوں اس سے آپ کو طلاق دلوا دوں؟" "کیونکہ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک۔۔۔۔۔ اچھا آدمی نہیں ہے کیونکہ میں نے اپنی زندگی کو سالار جیسے آدمی کے ساتھ گزارنے کا نہیں سوچا۔ ہم دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔" وہ بے حد دلبرداشتہ ہورہی تھی۔ "میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی ابو! میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی مگر اس بار مجھے اللہ سے بہت شکایت ہے۔" وہ گلوگیر لہجے میں بولی۔ "میں اتنی محبت کرتی ہوں اللہ سے۔۔۔۔۔ اور دیکھیں اللہ نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میرے لئے دنیا کے سب سے برے آدمی کو چنا۔" وہ اب رو رہی تھی۔ "لڑکیاں اتنا کچھ مانگتی ہیں۔۔۔۔۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا، صرف ایک "صالح آدمی" مانگا تھا۔ اس نےمجھے وہ تک نہیں دیا۔ کیا اللہ نے مجھے کسی صالح آدمی کے قابل نہیں سمجھا۔" وہ بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ "امامہ! وہ صالح آدمی ہے۔" "آپ کیوں اسے صالح آدمی کہتے ہیں؟ وہ صالح آدمی نہیں ہے۔ میں اس کو جانتی ہوں، میں اس کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔" "میں بھی اس کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔" "آپ اس کو اتنا نہیں جانتے جتنا میں جانتی ہوں۔ وہ شراب پیتا ہے، وہ نفسیاتی مریض ہے کئی بار خودکشی کی کوشش کرچکا ہے۔ گریبان کھلا چھوڑ کر پھرتا ہے۔ عورت کو دیکھ کر اپنی نظر تک نیچی رکھنا نہیں جانتا اور آپ کہتے ہیں وہ صالح آدمی ہے؟" "امامہ! میں اس کے ماضی کو نہیں جانتا، میں اس کے حال کو جانتا ہوں۔ وہ ان میں سے کچھ بھی نہیں جو آپ کہہ رہی ہیں۔" "آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرتا۔ وہ جھوٹامکار ہے میں اس کو جانتی ہوں۔" "وہ ایسا نہیں ہے۔" "ابو! وہ ایسا ہی ہے۔" "ہوسکتا ہے اسے واقعی آپ سے محبت ہو۔ وہ آپ کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہو۔" "مجھے ایسی محبت کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اس کی نظروں سے گھن آتی ہے۔ مجھے اس کے کھلے گریبان سے گھن آتی ہے۔ میں ایسے کسی آدمی کی محبت نہیں چاہتی۔ وہ بدل نہیں سکتا۔ ایسے لوگ کبھی نہیں بدلتے۔ وہ صرف اپنے آپ کو چھپا لیتے ہیں۔" "نہیں، سالار ایسا کچھ نہیں کررہا۔" "ابو! میں سالار جیسے کسی شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ ہر چیز کا مذاق اڑاتا ہے۔ مذہب کا، زندگی کا، عورت کا۔۔۔۔۔ کیا ہے جسے وہ چٹکیوں میں اڑانا نہیں جانتا۔ جس شخص کے نزدیک میرا اپنے مذہب کو چھوڑ دینا ایک حماقت ہے، جس کے نزدیک مذہب پر بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے جو صرف "What is next to ecstasy" کا مطلب جاننے کے لئے خودکشیاں کرتا پھرتا ہو، جس کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف عیش ہے۔ وہ میرے ساتھ محبت کرے بھی تو کیا صرف محبت کی بنیاد پر میں اس کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں؟ میں نہیں گزار سکتی۔" "ساڑھے آٹھ سال سے وہ آپ کے ساتھ قائم ہونے والے اس اتفاقیہ رشتے کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ آپ کو آپ کے تمام نظریات اور عقائد کو جانتے ہوئے بھی اور وہ آپ کے انتظار میں بھی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ آپ اس کے ساتھ رہنے پر تیار ہوجائیں گی۔ کیا ان ساری خواہشوں کے ساتھ اس نے اپنے اندر کچھ تبدیلی نہیں کی ہوگی؟" "میں نے اس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی۔ میں نے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔" وہ اب بھی اپنی بات پر مصر تھی۔ "مجھے حق ہے کہ میں اس شخص کے ساتھ نہ رہوں۔" "لیکن اللہ یہ کیوں کررہا ہے کہ اس شخص کو باربار آپ کے سامنے لارہا ہے۔ دو دفعہ آپ کا نکاح ہوا اور دونوں دفعہ اسی آدمی سے۔" وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔ "میں نے زندگی میں ضرور کوئی گناہ کیا ہوگا، اس لیے میرے ساتھ ایسا ہورہا ہے۔" اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ "آمنہ! آپ کبھی ضد نہیں کرتی تھیں پھر اب کیا ہوگیا ہے آپ کو؟" ڈاکٹر سبط علی حیران تھے۔ "آپ مجھے مجبور کریں گے تو میں آپ کی بات مان لوں گی کیونکہ آپ کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ میں تو آپ کی کسی بات کو رد کر ہی نہیں سکتی لیکن آپ اگر یہ کہیں گے کہ میں اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ اس کے ساتھ زندگی گزاروں تو وہ میں کبھی نہیں کرسکوں گی۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ کتنا تعلیم یافتہ ہے، کتنے اچھے عہدے پر کام کررہا ہے یا مجھے کیا دے سکتا ہے۔ آپ ایک ان پڑھ آدمی سے شادی کردیتے لیکن وہ اچھا انسان ہوتا تو میں کبھی آپ سے شکوہ نہیں کرتی لیکن سالار، وہ آنکھوں دیکھی مکھی ہے جس کو میں اپنی خوشی سے نگل نہیں سکتی۔ آپ سالار کے بارے میں وہ جانتے ہیں جو آپ نے سنا ہے۔ میں اس کے بارے میں وہ جانتی ہوں جو میں نے دیکھا ہے۔ ہم پندرہ سال ایک دوسرے کے ہمسائے رہے ہیں۔ آپ تو اس کو چند سالوں سے جانتے ہیں۔" "آمنہ! میں آپ کو مجبور کبھی نہیں کروں گا۔ یہ رشتہ آپ اپنی خوشی سے قائم رکھنا چاہیں گی تو ٹھیک لیکن صرف میرے کہنے پر اسے قائم رکھنا چاہو تو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ ایک بار سالار سے مل لیں پھر بھی اگر آپ کا یہی مطالبہ ہوا تو میں آپ کی بات مان لوں گا۔" ڈاکٹر سبط علی بے حد سنجیدہ تھے۔ اسی وقت ملازم نے آکر سالار کے آنے کی اطلاع دی۔ ڈاکٹر سبط علی نے اپنی گھڑی پر ایک نظر دوڑائی اور ملازم سے کہا۔ "انہیں اندر لے آؤ۔" "ٰیہاں؟" ملازم حیران ہوا۔ "ہاں یہی پر۔" ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔ امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ "میں ابھی اس طرح اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔" اس کا اشارہ اپنی متورم آنکھوں اور سرخ چہرے کی طرف تھا۔ "آپ نے ابھی تک اسے دیکھا نہیں ہے۔ آپ اسے دیکھ لیں۔" انہوں نے دھیمے لہجے میں اس سے کہا۔ "یہاں نہیں، میں اندر کمرے میں سے اسے دیکھ لوں گی۔" وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کمرے کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔ اس نے اسے بند نہیں کیا۔ کمرے میں تاریکی تھی۔ ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج سے آنے والی روشنی اتنی کافی نہیں تھی کہ کمرے کے اندر اچھی طرح سے دیکھا جاسکتا۔ وہ اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کو مسلا۔ وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں سے وہ لاؤنج کو بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ نوسال کے بعد اس نے ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج میں نمودار ہوتے اس شخص کو دیکھا۔ جیسے وہ ایک طویل عرصہ پہلے مردہ سمجھ چکی تھی جس سے زیادہ نفرت اور گھن اسے کبھی کسی سے محسوس نہیں ہوئی تھی جسے وہ بدترین لوگوں میں سے ایک سمجھتی تھی اور جس کے نکاح میں وہ پچھلے کئی سالوں سے تھی۔ تقدیر کیا اس کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟ اپنی آنکھوں میں اترتی دھند کو انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا۔ ڈاکٹر سبط علی اس سے گلے مل رہے تھے۔ اس کی پشت امامہ کی طرف تھی۔ اس نے معانقہ کرنے سے پہلے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پھول اور ایک پیکٹ سینٹر ٹیبل پر رکھا تھا۔ معانقے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور تب پہلی بار امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔ کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیریں، ہاتھوں میں لٹکتے بینڈز، ربر بینڈ میں بندھے بالوں کی پونی، وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ کریم کلر کے ایک سادہ شلوار سوٹ پہ واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔ "ہاں ظاہر طور پر بہت بدل گیاہے۔" اسے دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا کہ یہ کبھی۔۔۔۔۔ اس کی سوچ کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ اب ڈاکٹر سبط علی سے باتیں کررہا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی اسے شادی کی مبارک باد دے رہے تھے۔ وہ وہاں بیٹھی ان دونوں کی آوازیں باآسانی سن سکتی تھی اور وہ ڈاکٹر سبط علی کے استفسار پر انہیں امامہ کے ساتھ ہونے والے اپنے نکاح کے بارے میں بتا رہا تھا۔ وہ اپنے پچھتاوے کا اظہار کررہا تھا کہ کس طرح اس نے جلال کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔ کس طرح اس نے طلاق کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔ "میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اتنی تکلیف کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ وہ میرے ذہن سے نکلتی ہی نہیں۔" وہ دھیمے لہجے میں ڈاکٹر سبط علی کو بتا رہا تھا۔ "بہت عرصے تو میں ابنارمل رہا۔ اس نے مجھ سے حضرت محمد ﷺ کے واسطے مدد مانگی تھی۔ یہ کہہ کر کہ میں ایک مسلمان ہوں، ختم نبوت پر یقین رکھنے والا مسلمان۔ میں دھوکا نہیں دوں گا اسے اور میری پستی کی انتہا دیکھیں کہ میں نے اسے دھوکا دیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ میرے نبی ﷺ سے اس قدر محبت کرتی ہے کہ سب کچھ چھو ڑکر گھر سے نکل آئی اور میں اس کا مزاق اڑاتا رہا، اسے پاگل سمجھتا اور کہتا رہا۔ جس رات میں اسے لاہور چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھے راستے میں کہا تھا کہ ایک دن ہر چیز مجھے سمجھ آجائے گی، تب مجھے اپنی اوقات کا پتہ چل جائے گا۔" وہ عجیب سے انداز میں ہنسا تھا۔ "اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ مجھے واقعی ہر چیز کی سمجھ آگئی۔ اتنے سالوں میں، میں نے اللہ سے اتنی دعا اور توبہ کی ہے کہ۔۔۔۔۔" وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ امامہ نے اسےسینٹر ٹیبل کے شیشے کے کنارے پر اپنی انگلی پھیرتے دیکھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ آنسو ضبط کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ "بعض دفعہ مجھے لگتا ہے کہ شاید میری دعا اور توبہ قبول ہوگئی۔" وہ رکا۔ "مگر اس دن۔۔۔۔۔ میں آمنہ کے ساتھ نکاح کے کاغذات پر دستخط کررہا تھا تو مجھے اپنی اوقات کا پتا چل گیا۔ میری دعا اور توبہ کچھ بھی قبول نہیں ہوئی۔ ایسا ہوتا تو مجھے امامہ ملتی، آمنہ نہیں۔ خواہش تو اللہ انسان کو وہ دے دیتا ہے کہ معجزوں کے علاوہ کوئی چیز جسے پورا کر ہی نہیں سکتی۔ میری خواہش دیکھیں میں نے اللہ سے کیا مانگا۔ ایک ایسی لڑکی جسے کسی اور سے محبت ہے۔ جو مجھے اسفل السافلین سمجھتی ہے، جسے میں نو سال سے ڈھونڈ رہا ہوں مگر اس کا کچھ پتا نہیں ہے۔ اور میں۔۔۔۔۔ میں خواہش لئے پھر رہا ہوں اس کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کی۔ یوں جیسے وہ مل ہی جائے گی، یوں جیسے وہ مل گئی تو میرے ساتھ رہنے کو تیار ہوجائے گی، یوں جیسے وہ جلال انصرکو بھلا چکی ہوگی۔ ولیوں جتنی اور ولیوں جیسی عبادت کرتا تو شاید اللہ میرے لئے یہ معجزے کردیتا پر میرے جیسے آدمی کے لئے۔۔۔۔۔ میری اوقات تو یہ ہے کہ لوگ خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بخشش مانگتے ہیں۔ میں وہاں کھڑا ہوکر بھی اسے ہی مانگتا رہا۔ شاید اللہ کو یہی برا لگا۔" امامہ کے جسم سے ایک کرنٹ گزرا تھا۔ ایک جھماکے کی طرح وہ خواب اسے یاد آیا تھا۔ "میرے اللہ!" اس نے اپنے دونوں ہاتھ ہونٹوں پر رکھ لئے تھے۔ وہ بے یقینی سے سالار کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خواب میں اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ سکی تھی۔ "کیا وہ یہ شخص تھا، یہ جو میرے سامنے بیٹھا ہے، یہ آدمی؟" اس نے خواب میں اس آدمی کو جلال سمجھا تھا مگر اسے یاد آیا جلال دراز قد نہیں تھا، وہ آدمی دراز قد تھا۔ سالار سکندر دراز قد تھا۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔ جلال کی رنگت گندمی تھی۔ اس آدمی کی رنگت صاف تھی۔ سالار کی رنگت صاف تھی۔ اس نے خواب میں اس آدمی کے کندھے پر ایک تیسری چیز بھی دیکھی تھی۔ وہ تیسری چیز؟ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا۔ وہ معجزوں کے نہ ہونے کی باتیں کررہا تھا اور ۔۔۔۔۔ اندر ڈاکٹر سبط علی خاموش تھے۔ وہ کیوں خاموش تھے۔ یہ صرف وہ اور امامہ جانتے تھے، سالار سکندر نہیں۔ امامہ نے اپنی آنکھیں رگڑیں اور چہرے سے ہاتھ ہٹا دیے۔ اس نے ایک بار پھر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس شخص کو دیکھا۔ نہ وہ ولی تھا نہ درویش۔۔۔۔۔ صرف سچے دل سے توبہ کرنےو الا شخص تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار احسااس ہوا کہ جلال اور اس کے درمیان کیا چیز آکر کھڑی ہوگئی تھی جس نے اتنے سالوں میں جلال کے لئے اس کی ایک دعا قبول نہیں ہونے دی۔ کونسی چیز آخری وقت میں فہد کی جگہ اس کو لے آئی تھی۔ اس شخص میں کوئی نہ کوئی بات تو ایسی ہوگی کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں، میری نہیں۔ ہر بار مجھے پلٹا کر اسی کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─