┄┅════❁ ﷽ ❁════┅┄


برستی بارش کا پیغام
بارش کے قطرے آسمان کی بلندی سے زمین کی پستی پر مسلسل برس رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ قطرے زمین پر آسمان کا قرض ہیں۔ دیر نہ ہوگی کہ زمین یہ قرض ان درختوں کی شکل میں لوٹا دے گی جو زمین کی تہہ سے نکلتے ہیں اور آسمان کی طرف نگاہیں جمائے بلند ہوتے رہتے ہیں۔

پھر میری نگاہ اس ’قرض‘ پر پڑی جو پہلے ہی چکا دیا گیا تھا۔ ان خوشنما درختوں کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ بارش نباتات اگاتی ہے، مگر وہ ان کو بدل نہیں سکتی۔ پھل والے درخت پھل ہی دیں گے اور کانٹوں والے پودے کانٹے ہی اگائیں گے۔ اس لیے کہ بارش وہی اگاتی ہے، جو بیج میں ہوتا ہے۔بیج ہی کانٹا ہے اور بیج ہی پھول۔

یہی حال ایمان و اخلاق کی دعوت کا ہے۔ یہ بارش کی طرح انسان پر برستی ہے۔ کچھ وجود بنجر زمین کی طرح ہوتے ہیں۔ بارش سے پہلے بھی صحرا اور بارش کے بعد بھی بنجر۔ مگر بہت سے انسان اس برسات کا قرض اتار دیتے ہیں۔ اس دعوت کو قبول کرکے، پکار پر لبیک کہہ کر۔ مگر اس کے بعد بھی بعض شخصیتوں سے خرابی نہیں جاتی۔ ان کے وجود پر اخلاق کے پھل نہیں اگتے، بداخلاقی کے کانٹے نکلتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے، آج مجھے اس سوال کا جواب مل گیا۔ مسئلہ دعوت کی بارش کا نہیں۔ شعور کی زمین کا نہیں۔ مسئلہ شخصیت کے بیج کا ہے۔ بیج اگر پیدا ہی شخصی کمزوریوں اور کردار کی خامیوں کے ساتھ ہوا ہے تو شعوری طور پر قبول ایمان کے بعد بھی اس پر اخلاق کے پھل پھول پید انہیں ہوسکتے۔

جس شخص کی زندگی بدانتظامی کا نمونہ ہو وہ کسی جگہ وقت پر پہنچنے کا وعدہ کیسے نبھائے گا۔جس کی زندگی بے اعتدال جذباتیت سے عبارت ہو وہ غصے پر کیسے قابو پائے گا۔ جس کا خمیر جلدبازی سے اٹھا ہو وہ صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا کرے گا۔

اخلاق کو دعوت بنانا کافی نہیں، اسے شخصیت بنانا ہوگا۔ علم کی اصلاح کافی نہیں، کردار کی اصلاح بھی ضروری ہے۔ برستی بارش اپنی رم جھم میں مجھے یہ پیغام دے گئی۔


     ─━•<☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─