ناول: وے_میں_تیری_ہوگئی_آں
از: رابعہ_بخاری
قسط_نمبر_26
آخری_قسط

فیض خان اپنی روایتی پٹھانی پگڑی جو سر پر سجائے خود کو شیشے میں دیکھ رہے تھے۔۔۔
اپنی اندر موجود ویرانی کی آواز انہیں آج صاف صاف سنائی دے رہی تھی۔۔۔
اپنے کیے گئے کئی جرائم نے آج انہیں گھیر رکھا تھا۔۔ 
دروازے پر کسی نے دستک دی تو آواز سے وہ اپنی سوچ کے محور سے باہر نکلے۔۔۔
خود کا ایک بار شیشے کے سامنے معائنہ کیا اور پھر آہستگی سے دروازے کی جانب بڑھ گئے۔۔۔
دروازہ کھولا تو سامنے شیرین بی بی کو کھڑا پایا۔۔۔
جو اپنی روایتی پٹھانی لباس میں ملبوس سر پر ٹوپی پہنے کھڑی تھی۔۔۔
فیض خان کو سامنے دیکھ کر بولی۔۔۔
السلام وعلیکم دیور باؤ۔۔۔
کیا مزاج ہے تمہرا اب؟؟؟
کیسا یاد کیا ہے تم نے ہم کو؟؟؟
وہ بولتے بولتے اندر کی جانب بڑھی اور سامنے موجود نشت پر براجمان ہوگئی۔۔۔
فیض خان نے دروازہ بندہ کیا اور وہ بھی شیرین بی بی کے سامنے آن بیٹھے۔۔۔
وعلیکم السلام بھابھو۔۔۔
ہم ٹھیک ہے تم سناؤ کیسا گزر رہا ہے تمہارا؟؟؟
ہم تو ٹھیک ہی گزار رہا ہے۔۔
تم ہی بتاؤ اپنے بیٹے کے بناء کیسا گزر سکتا ہے جسے تم نے ہم سے چھین لیا۔۔۔
سالوں ہم اس کی صورت کو ترسا۔۔۔
اور اب ہم سے پوچھتا ہے کہ کیسا گزر رہا ہے ہمارا زندگی۔۔۔
شیرین بی بی آنکھوں میں نم لیے فیض خان کے سامنے شکوہ کناں ہوئی۔۔۔
تو کیا کرتا ہم بھابھو۔۔۔
ہم تم کو اور زراب کو بچانا چاہتا تھا۔۔۔
بڑے خانم کے قتل کے بعد وہ زراب کو بھی مار دیتا۔۔
اور تم کو بھی۔۔۔
اسی کو بچانے کو ہم تم کو الگ کیا اس سے۔۔۔
تا کہ تم بھی زندہ رہو اور وہ بھی۔۔۔
فیض خان سنجیدگی چہرے پر لیے پرانی یادوں کو کھنگولتے بولے۔۔۔
جھوٹ بولتا ہے تم۔۔۔
تم بس اپنا سہارا ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔
جو تم کو زراب سے ملا۔۔۔
تم کیا مانو کتنا تڑپا ہم اپنے بچے کیلئے۔۔۔
کتنے سال اپنے سینے سے نہیں لگایا اسے۔۔۔
اور کہتا ہے کہ زندگی بچائی ہماری۔۔۔
وہ بولتے بولتے رو ہی پڑی۔۔۔
فیض خان نے روتا دیکھا تو سر جھکائے بیٹھ گیا۔۔۔
ہم مانتا ہے ہم۔نے غلطی کیا۔۔۔
لیکن بھابھو خدا گواہ ہے ہم نے اپنے بچوں طرح رکھا اسے۔۔۔
انچ نہ آنے دی اس پر۔۔۔
اس کو پڑھایا لکھایا سب کیا جیسا تم چاہتا تھا جیسا بڑا خانم چاہتا تھا۔۔۔
فیض خان نے کہا۔۔۔
چھوڑو اب۔۔۔
ہم گزار چکا سب ۔۔۔۔
سہہ چکا سب۔۔۔
اب بتاؤ ہم کو یہاں کیوں بلایا۔۔۔
کس لیے یاد کیا ہم کو؟؟؟؟
وہ مدعے پر ائی۔۔۔
فیض خان نے ایک گہری سانس بھری اور پھر ایک ایک کر کے بتاتے کچھ بتانے لگ گئے۔۔۔
‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️
انا نہا کر باہر آئی اور شیشے میں خود کو تیار کرنے لگ گئی۔۔۔۔
عائز اٹھ چکا تھا جبکہ آبان کو دیکھ کر بہت ہی اٹکلیاں کررہا تھا جیسے خوشی کا اظہار کررہا ہو۔۔۔
انا تیار ہوتے ہوتے آبان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
جو ہنستے ہوئے بہت پیارا لگ رہا تھا۔۔۔
انا اچانک پلٹی اور آبان کی جانب بڑھی۔۔۔
آبان اب اٹھ بھی جائے؟۔۔۔۔
کب تک یونہی بینیان میں ہی لیٹے رہے گے؟؟؟
وہ اس کی جانب اشارہ کرتے بولی۔۔۔
آبان نے اپنی جانب دیکھا تو تیکھی آنکھ دیکھاتے بولا۔۔۔
میرا نام میری مرضی۔۔۔
انا اس کی بات سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔۔۔
توبہ ہے ۔۔۔۔
اب اٹھے میں اپکو باؤ جی سے ملواتی ہو۔۔۔
وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہونگے۔۔۔
انا مسکرا کر اس کی جانب دیکھتے بولی۔۔۔
کیسے خوش ہونگے وہ؟؟؟
میرے سر پر تو پہلے سے ہی پٹیاں بندھی ہوئی ہے۔۔۔
دیکھ کر بول گے۔۔۔۔
یہ تو پہلے سے ہی ٹوٹا پھوٹا ہے یہ کیسے حفاظت کرے گا ہماری بیٹی کی۔۔۔ آبان اٹھ بیٹھا۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔
اٹھے۔۔۔۔
انا زور لگاتے بولی۔۔۔
اچھا اٹھتا ہو لیکن مجھے کچھ پوچھنا ہے تم سے۔۔۔
آبان کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔۔۔
ہاں پوچھو۔۔۔
انا بولی۔۔۔
انا تم مانو یا نہ مانو۔۔۔
زراب نے سے شدت کی محبت کرتا ہے۔۔۔
تبھی تو سب کچھ کررہا ہے۔۔۔
تو تم اس کی محبت کو کیوں نہ سمجھ پائی؟؟؟
آبان کے سوال نے انا کے چہرے کی رونق ختم کردی۔۔۔
وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور دوسری جانب چہرہ کر لیا۔۔۔
یہ کیسا سوال ہے آبان؟؟
اور کس وجہ سے پوچھ رہے ہو؟؟
وجہ کوئی بھی نہیں انا لیکن میں جاننا چاہتا ہو۔۔۔ آبان ضد میں آتے بولا۔۔۔
آبان۔۔
مجھے اس کی محبت سے کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔
لیکن میں ایسی زندگی جینا نہیں چاہتی جیسی میری ماں نے جی۔۔۔
پل پل مری وہ۔۔۔
مجھے نہیں مرنا تھا۔۔۔
جانتی ہو بہت محبت کرتا ہے وہ مجھے سے اب سے نہیں بلکہ بچپن سے۔۔۔
لیکن کسی نے مجھ سے پوچھا میں کیا کرنا چاہتی ہو۔۔۔
میری پیداکر ہی مجھے کسی کے ساتھ باندھ دیا گیا اور پابند کیا گیا کہ یہی پر تمہارا مجازی خدا۔۔۔
آخر کیوں؟؟؟
میں دل نہیں رکھتی کیا؟؟
مجھ میں احساس نہیں؟؟؟
انا آبان کی جانب دیکھتے آنکھوں میں نم لیے بولی۔۔ 
آبان اس کی بات پر کچھ نہ بولا۔۔۔
اور اسے دیکھتا رہا۔۔۔
انا نے فورا آنکھوں میں ابھرتی نم کو صاف کیا ۔۔۔
آپ اس کا مطلب نہیں اٹھ رہے۔۔۔
خیر نہ اٹھے میں ابھی جاؤ گی نہ باہر تو زراب. پکڑ لے گا مجھے۔۔۔
پھر تو اپکو اٹھنا ہی پڑے گا۔۔۔
انا کہتے ساتھ منہ چڑائے دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
آبان تیزی سے عائز کو سائیڈ کر کرتے اٹھا اور انا کی جانب بڑھا۔۔۔
ارے انا میری بات تو سنوں!!!!
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا انا نے دروازہ کھول لیا۔۔۔
اور سامنے زراب کو ہی کھڑا پایا۔۔۔
جو ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھامے کھڑا تھا اور اب انا اور آبان کو دیکھ کر طیش میں آگیا تھا۔۔۔
‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️
فیض خان شیرین بی بی کو سب بتا چکے تھے۔۔۔۔
وہ سب سن کر پریشان بیٹھی تھی۔۔۔
کہ تبھی ان دونوں کو باہر کسی چیخ و پکار کی آواز سنائی دی۔۔۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر تیز قدم سے چلتے ہ ہوئے باہر کی جانب بڑھے کہ دیکھ سکے کہ آخر کیا ماجرا ہے؟؟؟
‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️
چھوڑو میرا ہاتھ زراب۔۔۔۔
انا زراب کو دھکے دیتے بولی۔۔۔
جو اس کا ہاتھ تھامے باہر کو آرہا تھا۔۔۔
آبان نے فورا ہی زراب کا راستہ روکا۔۔۔
بس کردو زراب اب۔۔۔۔
بہت ہوچکا ہے اب۔۔۔
بہت دیکھ لیا ہے میں نے۔۔۔
وہ انگلی دیکھاتے تنبیہہ کرتے بولا۔۔۔
تب تک انا نے زراب کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھوڑ وایا اور بھاگتی ہوئی آبان کے پیچھے چھپ گئی۔۔۔
پیچھے ہو جاؤ میرے راستے سے۔۔۔
تم آگے ہی میرے اور انا کے درمیان میں ایک دیوار بن چکے ہو۔۔۔
جسے میں ایک منٹ میں توڑ سکتا ہو۔۔۔۔
لیکن. اس سے پہلے انا کو سبق سیکھانا مجھے۔۔۔
زراب پھر سے ایک بار انا کی جانب بڑھا۔۔۔
اور آبان واپس آگے کی جانب آگیا۔۔۔
اور زراب کے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے پیچھے کیا۔۔۔
وہ میری بیوی ہے۔۔۔
دور رہو اس سے اب۔۔۔
ورنہ۔۔۔۔
آبان اس کو وارن کرتے بولا۔۔۔
ورنہ کیا ہاں؟؟؟؟
زراب کا پاگلپن اب بڑھ رہا تھا۔۔۔
فورا جیب میں ہاتھ ڈالا اور پستول نکال کر آبان کے سر پر سجا دی۔۔۔
اب بولو۔۔۔۔
ورنہ کیا؟؟؟
مارو گے مجھے ؟؟؟
پستول کے نیچے تمہارا سر اور دھمکیاں مجھے۔۔۔۔
انا نے فورا آبان کو پیچھے کیا اور اس کے آگے کھڑی ہوگئی۔۔۔
مجھے مارو زراب۔۔۔
وہ پستول کی نلی کو ہاتھ میں تھامے سر پر لگاتے بولی۔۔۔
میں نے توڑا نہ تمہارا دل۔۔۔
تمہیں دھوکا دیا۔۔۔
تو مجھے مارو۔۔۔
میں ہو سزا کی اصل حقدار ۔۔۔۔
مارو۔۔۔۔ انا چلا کر بولی۔۔۔۔
تبھی شیرین بی بی اور فیض خان وہاں آگئے اور ماحول کی گرما گرمی کو دیکھتے ہوئے آگے کی جانب بڑھے۔۔۔۔
یہ سب کیا ہورہا ہے یہاں؟؟؟
فیض خان اپنی رعب دار آواز سے بولے۔۔۔
زراب بچہ۔۔۔
یہ سب کیا ہے؟؟؟
چھوڑ اس بندوق کو ماں کے پاس آ۔۔۔۔۔
نہ کر یہ سب میرا بچہ۔۔۔۔
شیرین بی بی زراب کو اپنی جانب متوجہ کرتے بولی۔۔۔
زراب کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔۔
کیوں نہ کرو میں ایسا۔۔۔۔
بتائے؟؟؟؟
کیوں نہ کرو؟؟؟؟
بچپن سے جوانی تک جس لڑکی کو اپنا مانا محبت کی ۔۔۔۔
وہ آج کسی اور کی بانہوں کا ہار بن گئی۔۔۔
کیوں؟؟؟؟
آخر کیوں؟؟؟
کیا کمی تھی مجھ میں انا؟؟؟
وہ انا کی جانب روتے ہوئے بولا۔۔۔
کس چیز کی کمی دی تکلیف دی۔۔۔۔
تم ایک بار کہہ دیتی کہ زراب انعم کے بچے کو نہ مارنا۔۔۔۔
خدا کی قسم سب سے لڑ جاتا۔۔۔۔
لیکن تم نے تو میرا سب کچھ توڑ ڈالا۔۔۔
میرا بھروسہ میرا یقین میری محبت میری امید سب کچھ۔۔۔۔۔
زراب ابھی بھی بندوق تانے کھڑا تھا۔۔۔
جبکہ سب خاموش کھڑے سن رہے تھے۔۔۔
لیکن اب بس میں ہی کیوں سب قربانی دو۔۔۔
اب میں قربانی لونگا۔۔۔
تمہارے لیے کسی کی بھی قربانی۔۔۔
خود کی بھی اور تمہاری بھی۔۔۔۔
زراب پستول کے ٹریگر پر انگلی دبائے بولا۔۔۔
فیض خان نے زراب کا جنونیت کو دیکھا تو فورا اس کی جانب بڑھے اور پستول کو کھینچنے لگے۔۔۔
چھوڑے باؤ جی۔۔۔۔
چھوڑے ۔۔۔۔
زراب چلا رہا تھا۔۔۔
جبکہ اناا اور آبان دونوں ہی اپنی اس کھیچا تانی کو دیکھ کر پریشان تھے کہ کہیں گولی نہ چل جائے۔۔۔
کہ تبھی کھینچا تانی میں ایک گولی کی گونج نے پورے بنگلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔۔
سب ہی پریشان کھڑے صدمے سے کبھی زراب کو تو کبھی فیض خان کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
فیض خان نے اپنا ہاتھ نکالا اور ہوا میں لہرایا تو انکا ہاتھ خون سے بھرا ہوا تھا۔۔۔
گولی سیدھا ان کے پیٹ پر جا لگی تھی۔۔۔
اور وہ حیرت کی تصویر بنے زراب جو دیکھ رہے تھے۔۔۔
جو خود صدمے سے دوچار پستول کو دوسری جانب پھینکتا ہوا ان کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
باؤ جی۔۔۔۔۔
انا چلاتے ہوئے ان کی جانب بڑھی۔۔۔۔
فیض خان گرتے ہوئے زراب کی گود میں سر رکھے لیٹے۔۔۔۔
جو فیض خان کو دیکھ کر زارو قطار رو رہا تھا۔۔۔
اپنے والد کی وفات کے بعد وہ فیض خان کو ہی اپنا باپ مانتا تھا۔۔۔۔
انا اور شیرین بی بی فیض خان کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔۔
باؤ جی۔۔۔۔
باؤ جی کچھ نہیں ہوگا اپکو۔۔۔۔
ہاں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔
انا روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔
باؤ دیور باؤ۔۔۔۔
شیرین بی بی بھی روتے بولی۔۔۔
فیض خان نے ایک ایک کر کے سب کی جانب دیکھا۔۔۔
اہ۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔
ل۔۔۔۔لگتا ہے۔۔۔۔
م۔۔م۔۔۔۔مجھے می۔۔۔۔میری سزا مل ۔۔۔۔گ۔۔۔۔گ۔۔۔گئی۔۔۔
فیض خان کی آنکھ سے ایک آنسوں بہا اور وہ زراب کی گود میں دم توڑ گئے۔۔۔۔
انا نے جب دیکھا تو وہ آن کے بے جان وجود پر سر رکھے آہ و کناں کرنے لگ گئی۔۔۔ 
آبان آگے کی جانب بڑھا اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔
زراب بھی اب صدمے سے دوچار تھا۔۔۔۔
اور پورے بنگلے میں ایک اداسی کی لہر پھیل گئی۔۔۔
‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️‼️
ایک مہینے کے بعد:
انا عائز کو گود میں تھامے گاڑی کے پاس کھڑی تھی۔۔۔
زراب آبان کو گلے سے لگاتے ہوئے پیچھے کو ہٹا۔۔۔
اپنا خیال رکھنا اور انا کا بھی۔۔۔۔
کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا۔۔۔۔ زراب مسکرا کر بولا۔۔۔
اجمل صاحب بھی ان کے پاس کھڑے تھے۔۔۔
نہیں دوست جتنا کیا وہ ہی بہت ہے۔۔۔
بس اب دعا کی ضرورت ہے۔۔۔
آبان مسکرا کر بولا۔۔۔۔
اچھا انا میں نے بہت غلطیاں کی ہے ان سب کیلئے مجھے معاف کردینا۔۔۔۔
زراب پیشمانی سے بولا۔۔۔
نہیں زراب جو ہوا اس میں میری بھی غلطی تھی۔۔۔۔
معافی تو مجھے مانگنی چاہیے۔۔۔۔
انا بولی۔۔۔۔
میرے خیال سے کوئی کسی سے معافی نہ مانگے کیونکہ معافیاں مانگتے مانگتے فلائیٹ نکل جانی ہے سب کی۔۔۔۔
اجمل صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔۔
جس پر سب ہنس پڑے۔۔۔ 
انا اور آبان گاڑی کی اگلی نشست پر بیٹھ گئے۔۔۔
جبکہ اجمل صاحب پیچھے عائز کو تھامے بیٹھے۔۔۔
سلام و دعا کے بعد گاڑی اگلے سفر پر روانہ ہوگئی۔۔۔
جبکہ زراب اپنی والدہ شیرین بی بی کے ساتھ وہی کھڑا انہیں جاتا دیکھتا رہا.....
💑💑💑💑💑💑💑💑💑
#ختم_شد: